پیر، 12 فروری، 2018

عورت اسلام کے سائے میں تالیف مولانا عبدلروف ندوی

Click on Title to Download 

اسلامی آداب معاشرت حصہ اول ۔ تالیف مولانا عبدالروف ندوی

1 comments
Click on title to download 

کاروان سلف حصہ اول پارٹ دوم

0 comments

عبدالرؤف ندوی (خود نوشت حالات) 

عبدالرؤف ندوی


نام مع پتہ :  عبد الرؤف ندوی محلہ پوروہ مقام و پوسٹ تلسی پور ضلع بلرام پور یو پی 
پن کوڈ نمبر ۲۷۱۲۰۸
تاریخ پیدائش: ضلع بلرام پور قصبہ تلسی پور کے مرکزی موضع ہرہٹہ میں ( جو تلسی پور سے دکھن جانب ۱۲ کلو میٹر دور اٹوا روڈپر واقع ہے) میری تاریخ پیدائش بروایت والد محترم ۲۷؍ اپریل ۱۹۴۹؁ء ہے۔ 
خاندانی پس منظر:میرا پورا نام عبد الرؤف ہے ندوی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی طرف انتساب ہے ۔ 
سلسلہ نسب یہ ہے عبد الرؤف بن محمد نامدار بن ولی محمد بن نبی بخش بن خرم خاں …… ہمارے اجداد کو علم و عمل تقویٰ و دینداری میں ممتاز مقام حاصل تھا ۔ الحمد ﷲ یہ سلسلہ آج تک چلا آرہا ہے اور ہمارے خاندان کا تعلیم و تعلم ۱ ؂ سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ 
ہمارے دادا تحصیل اترولہ ضلع بلرام پور یوپی کے موضع کھرہنہ کے مستقل باشندے تھے وہاں پر دادا رحمہ اﷲ کی زمینداری تھی خاندان میں کسی بات پر اختلاف کی وجہ سے وہاں کا اپنا حصہ چھوڑ کر تحصیل تلسی پور کے مشہور و معروف مرکزی گاؤں ہرہٹہ آکرمستقلاً آباد ہو گئے تھے۔ 
تعلیمی لیاقت: ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں ہرہٹہ کے مدرسہ ضیاء العلوم میں درجہ ہفتم تک حاصل کی ابتدائی کتابیں میاں عبد الحلیم صاحب رحمہ اﷲ سے پڑھیں ، دینیات ، ادب ، اردو، تاریخ اور 
 ۱؂ عم محترم مولانا عبد اﷲ سعیدی حفظہ اﷲ حافظ عبد القوی اثری شفیق الرحمن فیضی مولانا اسرار الحق مدنی فیجی مولانا عطاء الرحمن مدنی سعودیہ عربیہ مولوی مشتاق احمد فیضی مولانا زبیر احمد مدنی مولانا عبد القیوم سراجی طفیل احمد فیضی ضیاء الرحمن سلفی محمد ظفرمحمدی ضیاء الحق محمدی حافظ عبد الخبیر فیضی اور راقم الحروف عبد الرؤف خاں ندوی اسی خاندان کے چشم و چراغ ہیں ۔(عبد الرؤف خاں ندوی ) 
ابتدائی عربی اور فارسی کتابیں عم محترم مولانا عبد اﷲ صاحب سعیدی حفظہ اﷲ سے پڑھیں ، ہندی، حساب ،سائنس ، جغرافیہ ، انگریزی وغیرہ ماسٹر محمد سلیم خاں (اترولہ) سے پڑھیں۔ 
والد محترم کی خواہش پر ۱۹۶۱؁ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے مقصد سے داخلہ لیا گرامی قدر استاذ محترم ڈاکٹر سعید الرحمن ندوی اعظمی موجودہ مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ مدیر البعث الاسلامی لکھنؤ و پروفیسر محمد اجتباء الحسینی ندوی نے ٹسٹ لیا اور جماعت ثانیہ میں داخلہ کی منظوری مرحمت فرمائی۔ بڑے خوش قسمت ہیں وہ طلبہ جن کا حسب خواہش مطلوبہ درجات میں داخلہ مل جائے۔ مسلسل چھ سال تک محنت و لگن سے تعلیمی سفر جاری رہا اور ۱۹۶۶؁ء میں سند فراغت حاصل کی اور آخری سال میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ضابطہ کے مطابق شیخ الحدیث علامہ عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری رحمہ اﷲ صاحب مرعاۃ المفاتیح کے مشورہ پر علامہ خطیب بغدادی پر عربی میں مقالہ لکھا ، ندوۃ العلماء کی جمعیۃ الاصلاح سے دو دفعہ انعام حاصل کیا۔ 
ناچیز کو شروع ہی سے احادیث نبویہ ﷺ سے محبت تھی بد قسمتی سے اس وقت ملک میں اپنی جماعت کا کوئی مرکزی ادارہ نہیں تھا اسلئے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعہ ریاض العلوم دہلی کا رخ کیا اور وہاں تین سال رہ کر شیخ الحدیث علامہ مفتی عبد السلام بستوی رحمہ اﷲ اور خطیب الھند مفسر قرآن مولانا محمد صاحب جوناگڈھی رحمۃ اﷲ علیہ کے شاگرد رشید علامہ مولانا سید تقریظ احمدسہسوانی رحمہ اﷲ مدیر اخبار اہل حدیث دہلی سے صحاح ستہ وغیرہ پڑھکر حدیث کی تکمیل کی ۔ 
قابل ذکر اساتذہ کرام : شیخ الحدیث مفتی مولانا عبد السلام بستوی مولانا سید تقریظ احمد سہسوانی مولانا محمد اویس ندوی نگرامی شیخ التفسیر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ مولانا عبدالحفیظ صاحب بلیاوی (صاحب مصباح اللغات) مولانا محمد اسباط صاحب قاسمی مولانا محمد اسحق صاحب سندیلوی ندوی مولانا ابوالعرفان صاحب ندوی مولانا محمد رابع الحسنی ندوی موجودہ ناظم دارالعلوم ندۃ العلماء لکھنؤ ڈاکٹر سعید الرحمن صاحب اعظمی ندوی موجودہ مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء مولانا عبدالماجد ندوی مولانا اجتباء الحسنی الندوی مولانا تقی الدین ندوی مظاہری مولانا حبیب الرحمن صاحب قاسمی مولانا وجیہ الدین صاحب ندوی مولانا محمد ظہور ندوی مفتی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ مولانا محمد ناصر ندوی قاری محمد اسلام صاحب ماسٹر شاہد علی صاحب وغیرہم ۔
دعوتی و تنظیمی خدمات: ارباب جمعیۃ کی خواہش پر الحمد ﷲ پندرہ سال تک نامساعد حالات کے باوجود ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بلرام پور کے جملہ شعبہ کے فرائض بحسن و خوبی انجام دیتا رہا۔جمعیۃ کی ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے جمعیۃ جمود و تعطل کا شکار تھی صرف کاغذ پر جمعیۃکا وجود تھا جمعیۃ کا اپنا کوئی نجی گھر نہیں تھا ان حالات میں جو شخص کسی بنیادی و تنظیمی جد و جہد سے وابستہ ہو وہی راستہ کی دشواریوں اور منزل کی کٹھنائیوں سے واقف ہوتا ہے کسی بھی منظم کام کیلئے ایک مرکز اتصال کا ہونا انتہائی ضروری ہے جہاں سے ہر حرکت و عمل کی نگرانی کی جاسکے ۔ جہاں ہر جد و جہد کے خاکے تیار ہوں منزلیں متعین کی جائیں اور جہاں بیٹھ کر کاموں کا جائزہ لیاجائے اور اس کے راستے اور طریق کار کی کھوج کی جائیں ، مارچ ۱۹۶۸؁ء تلسی پور میں زیر صدارت مولانا عبد الجلیل رحمانی رحمہ اﷲ ضلعی جمعیۃ گونڈہ کے زیر اہتمام ایک ریاستی کانفرنس تلسی پور میں منعقد ہوئی جو نظم و نسق شرکت علماء و فضلاء نیز سامعین کے اجتماع کثیر کے اعتبار سے نوگڈھ کی آل انڈیا اہل حدیث نوگڈھ کی تاریخی و مثالی کانفرنس کے بعد دوسرے نمبر پر تھی اور اس کانفرنس کے ملک گیر پیمانے پر جماعت کی کوئی دوسری کانفرنس آج تک دیکھنے میں نہیں آئی ریاستی کانفرنس نے ایک قرار دادمیں یہ تجویز منظور کی کہ ضـلعی جمعیۃ گونڈہ(بلرام پور) کا ایک آفس تلسی پور میں قائم کیا جائے تو ارباب جماعت بلرام پور نے یہ بار عظیم اپنے کندھوں پر لے لیا اور ریاستی کانفرنس کے کثیر اخراجات سے زیر بار ہونے کے باوجود عین برسات میں دفتر کا کام تھا نہ روڈ پر مکمل کرلیا دفتر عمارت کی تعمیر اور اس سے ملحقہ عمارت میں مکتبہ و شایان شان لائبریری کا قیام اور ضلعی جمعیۃ کی نگرانی میں مدرسہ ریاض الاسلام کا قیام اور پرائمری درجات سے لیکر جماعت رابعہ تک کی تعلیم کا انتظام بیرونی و نادار طلبہ کیلئے قیام و طعام کا بندو بست ضلع کے گاؤں گاؤں میں مقامی جمعیتوں کی تشکیل اور اجرائے مکاتب و مدارس الحاق و تنظیم جمعیۃ کے زیر نگرانی ضلع کے ملحقہ مکاتب کا سنٹروں پر امتحانات معائنہ جات ضلع میں دعوت وتبلیغ اور ماہانہ تبلیغی اجلاس کا انعقاد شرک و بدعت ، رسم و رواج کی بیخ کنی اور اس کے ساتھ دینی مذہبی اصلاحی لٹریچر پمفلٹ اور کتابوں کی اشاعت کا کام بھی بحسن خوبی انجام پاتا رہا ۔ الحمد ﷲ ان سر گرمیوں سے پورے ضلع کی جماعت ایک مربوط نظام کے تحت آگئی ضلعی جمعیۃ کو ناچیز آگے بڑھانے میں کوشاں رہا اور ریاستی وضلعی کانفرنس سے جمود کو توڑنے کی انتھک جدوجہد کی ، ملک کی جماعت کو حرکت و عمل کا پیغام ملا ضلعی جمعیۃ کا یہ دور مثالی ثابت ہوا اور اس نے پورے ملک میں حرکت و عمل و بیداری کا صور پھونکا اور ملک کی جماعت کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور جمود و تعطل کو ختم کرنے میں اہم رول ادا کیا جریدہ ترجمان دہلی و دیگر جماعتی رسائل واخبارات و علمائے کرام کے خطوط شاہد ہیں اس پندرہ سالہ دور میں اہم تاریخی کارنامے انجام پائے جو تاریخ کی محفوظ امانت ہیں جو آج بھی بطور تحدیث نعمت اکثر لوگ ذکر کرتے ہیں واضح رہے کہ یہ سارے کام اس وقت انجام پائے جبکہ آج کی بہ نسبت اس وقت مالی وسائل کی فراوانی نہیں تھی آج بھی بحیثیت نائب امیر ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بلرام پور جمعیۃ کے عروج و ارتقاء کیلئے کوشاں ہوں اﷲ تعالیٰ میری کوشش کو قبول فرمائے ۔ آمین 
تدریسی خدمات:درس گاہ معہد الاسلامی اکرہرا سدھارتھ نگر و انجمن محمدیہ جروا روڈ تلسی پور و مدرسہ ریاض الاسلام تھانہ روڈ زیر نگرانی ضلعی جمعیۃ میں کئی برسوں تک عربی درجات کی تدریسی فرائض انجام دیتا رہا اس وقت تقریباً بیس سال سے مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ للبنات گینسڑی بازار ضلع بلرام پور میں تدریسی خدمات انجام دے رہا ہوں اس پینتالیس سالہ تدریسی خدمات کے دوران تلامذہ و تلمیذات کی تعداد سینکڑوں ہوں گی جو لا تحصی ولا تعد۔
صحافتی خدمات: اردو زبان میں لکھنے پڑھنے کاشوق عہد طالب علمی ہی سے ہے عمر کے بڑھنے کے ساتھ یہ شوق بڑھتا ہی رہا کئی سال اخبار اہل حدیث دہلی کی مجلس ادارت سے منسلک تھا اس وقت تصنیف و تالیف تخریج و تحقیق ،درس و تدریس ، دعوت و تبلیغ کے علاوہ ملک کے مشہور اخبار ، جرائد و رسائل میں دینی سماجی اصلاحی تاریخی تحقیقی سیاسی حالات حاضرہ پر مضامین لکھتا رہتا ہوں اب تک سینکڑوں مضامین لکھ چکا ہوں ۔ 
تصنیفی خدمات : اصحاب دین و دانش کے مشورہ پر مجلس التحقیق الاسلامی کے نام پر مجلس کا قیام ۱۹۹۱؁ء میں عمل میں آیا مجلس کے مقاصد میں یہ عظیم مقصد بھی ہے کہ عام مسلمانوں کے سامنے عصر حاضر کے اہم مسائل پر نئی نئی جامع مفیدلٹریچر اور کتابوں کے علاوہ اسلاف کرام کی نادر و نایاب کتابو ں کی بھی اشاعت کرکے مفت تقسیم کی جائے اﷲ کا شکر ہے کہ اس مختصر مدت میں ضخیم و غیر ضخیم کتابیں اردو ، ہندی زبان میں شائع کراکے پچاسی ہزار نسخے مفت تقسیم کئے جا چکے ہیں اور یہ مفید سلسلہ تا ہنوز جاری ہے اﷲ تعالیٰ کی توفیق اور معاونین کرام کی توجہ سے ناچیز کی درج ذیل کتب کے کئی کئی ایڈیشن منظر عام پر آچکے ہیں ۔ 
(۱) اسلامی آداب معاشرت :اول ، دوم، سوم از عبد الرؤف خاں ندوی 
طبع اول دو ہزار ،طبع دوم دوہزار ،طبع سوم دوہزار ،طبع چہارم دو ہزار ، تینوں حصے کے کل صفحات ۵۴۴ ہیں۔
(۲) خانہ ساز شریعت اور آئینہ کتاب و سنت: از عبد الرؤف خاں ندوی 
طبع اول دو ہزار ،طبع دوم دوہزار ،طبع سوم گیارہ سو عدد کل صفحات ۴۶۲ ہیں۔ 
(۳) عورت اسلام کے سائے میں : از عبد الرؤف خاں ندوی 
طبع اول دو ہزار ،طبع دوم دوہزار ،طبع سوم گیارہ سو طبع چہارم گیارہ سو عدد کل صفحات۲۲۰ ہیں ۔ 
(۴) نقوش و تاثرات : از عبد الرؤف خاں ندوی مرتب محمد ظفر عبد الرؤف محمدی
 طبع اول گیارہ سو طبع دوم ایک ہزار کل صفحات ۲۴۵ ہیں۔
(۵) کتاب الدعاء: از عبد الرؤف خاں ندوی 
 طبع اول دو ہزار ، طبع دوم گیارہ سو ، طبع سوم ایک ہزار ،طبع چہارم ایک ہزار صفحات ۱۸۴ہیں
(۶) رسول اکرم ﷺ کی نماز :  از عبد الرؤف خان ندوی 
 طبع اول دو ہزار طبع ثانی گیارہ سو  کل صفحات ۳۷۶ ہیں۔
(۷) کاروانِ سلف حصہ اول:  از عبد الرؤف خاں ندوی طبع او ل گیارہ سو ،صفحات ۴۰۰
(۸) کاروانِ سلف حصہ دوم:  از عبد الرؤف خاں ندوی  زیر طبع
اس کے علاوہ مجلس نے دوسرے مشہور نامور اہل علم و اہل قلم کی کتابوں کی اشاعت اردو ہندی زبان میں ہزاروں کی تعداد میں ملک و بیرون ملک مفت تقسیم کر چکی ہے جو درج ذیل ہیں ۔ 
(۹) ہندوستان میں اشاعت اسلام :  از قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمہٗ اﷲ
 طبع اول اردو ہندی ایڈیشن دو ہزار 
(۱۰) خصوصیات اسلام :  از قاضی محمد سلیما ن منصور پوری رحمہٗ اﷲ
 طبع اول اردو ہندی ایڈیشن دو ہزار 
(۱۱)اسلام کا نظام زکوٰۃ: از امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمہٗ اﷲ
طبع اول دو ہزار 
(۱۲)اسلام اور چھوت چھات :  از قاضی عابد علی بلہوری رحمہٗ اﷲ
 طبع اول اردو ہندی ایڈیشن دو ہزار 
(۱۳) ضعیف اور موضوع روا یات :  از مولانا عبدالسلام رحمانیحفظہٗ اﷲ
طبع اول ایک ہزار  طبع دوم ایک ہزار 
(۱۴)آئینہ حج :  از مولانا شمیم احمد سلفی قطرحفظہٗ اﷲ
 طبع اول دوہزار، طبع دوم دو ہزار ،طبع سوم ایک ہزار، طبع چہارم ایک ہزار ،طبع پنجم ایک ہزار 
(۱۵) نماز کے موضوع پر تین اہم مسائل : از مفتی اعظم علامہ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز ؒ 
مترجم: مولانا زبیر احمد صاحب مدنی حفظہٗ اﷲ
 طبع اول دوہزار، طبع دوم دو ہزار ،طبع سوم ایک ہزار
(۱۶) ہم نماز کیوں پڑھیں؟  از مولانا شمیم احمد سلفی قطرحفظہٗ اﷲ
طبع اول اردو ہندی دوہزار، طبع دوم دو ہزار ،طبع سوم دو ہزار، طبع چہارم ایک ہزار
(۱۷) حقوق الزوجین : از مولانا شکراﷲ فیضی سلمہ اﷲ
طبع اول دو ہزار 
(۱۸) تقویٰ : از مولانا زبیر احمد مدنی حفظہٗ اﷲ
طبع اول گیارہ سو 
(۱۹) آہنگ قدسی :  ماسٹر عبد الستار قدسی کوا پوری رحمہٗ اﷲ
طبع اول ایک ہزار 
(۲۰) معاشرہ کی تباہ کاریاں : از مولانا منصور احمد مدنی 
طبع اول دو ہزار 
یہ اﷲ کی توفیق ہے کہ تن تنہا ناسازی طبع کے باوجود مجلس کی طرف سے تقریباًپچاسی ہزار نسخے ملک کے گوشہ گوشہ میں مفت تقسیم کیا گیا ہے اورالحمد ﷲ یہ مفید سلسلہ تا ہنوز جاری ہے ۔ حالات نے رفاقت کی اور صحت نے ساتھ دیا تو ہمارا قلم اسلام کی اشاعت اور شرک و بدعت خرافات و منکرات کے رد میں چلتا رہے گا ۔ انشاء اﷲ 
قارئین کرام سے صحت کیلئے خصوصی دعا کی درخواست ہے عوارض بڑھتے چلے جارہے ہیں اﷲ کرے ذہن و قلم کی شادابیاں قائم رہیں ۔ تاکہ اﷲ کے پاس جائیں تو کچھ آثار قلم کی متاع حقیر تو لیتے چلیں ۔ 
اپنی تحریر میں منہج سلف سامنے رکھتا ہوں میری کوشش ہوتی ہے کہ قرآن و سنت سے ثابت
 ہو شرک و بدعت سے اجتناب توحید اور اتباع سنت کا اہتمام ہو معاملات کی درستگی ہو اسلامی معاشرہ کے مطابق سماج پاک و صاف ہو رسم و رواج خرافات و منکرات کی بیخ کنی ہو اسلام کی بنیاد جن چیزوں پر قائم ہے اس پر پوری طرح عمل ہو یہی راہ نجات ہے اب عمر کے آخری مرحلہ میں ہوں بیماری نے کمر توڑ دی ہے صبر و قناعت کا پیکر ہوں اور سادہ زندگی گزارنے کے خوگر بھی۔ کلمۂ حق کہنے کی عادت ہے جس میں حق میرا حلیف ہوتا ہے جس بات کو حق سمجھتا ہوں اس کا بر ملا اعلان بھی کر دیتا ہوں کوئی خوش ہو یا ناخوش فقیر کا کام صدا لگانا ہے کبھی مخالف کی قوت داروگیر سے ذرا بھی خائف نہیں ہوتا ہوں اور نہ کبھی کسی سرمایہ دار کے جیب پر بوجھ بننا پسند کرتا ہوں ۔ بقول مجاز اعظمی رحمہ اﷲ 
سودا گری ضمیر کی ہم کو نہیں قبول 
ہم سر جھکا کے کیوں اہل کرم سے ملا کریں 
اولاد:  اﷲ تعالیٰ نے ناچیز کو تین لڑکے اور پانچ لڑکیوں سے نوازا ہے ماشاء اﷲ سب تعلیم یافتہ اور اسلامیات کے پابند ہیں۔
(۱) محمد ظفر محمدی جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں سے عا لمیت و فضیلت کی تکمیل کے بعد صوبہ مہاراشٹرممبئی سے ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ کے ساتھ ساتھ علی گڈھ سے ادیب ، ادیب ماہر ، کامل، اور معلم کا امتحان بھی ممتاز نمبرات سے پاس کرچکے ہیں عزیزی محمد ظفر محمدی کی شادی خانہ آبادی ہمراہ عزیزہ شبنم بنت حاجی انیس احمد سمرا سے ہوئی ہے ماشاء اﷲ فی الحال دو بچے ہیں جن کا نام بالترتیب احسن ظفر اور ارقم ظفر ہے عزیزی محمد ظفر محمدی کی اہلیہ شبنم خانم ماشاء اﷲ عالمہ فاضلہ ہیں۔ 
(۲) محمد اقبال دوسرے صاحبزادہ ہیں ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ اتر پردیش بورڈ سے پاس کر چکے ہیں اس کے علاوہ علی گڈھ سے ادیب ، ادیب ماہر، کامل اور ہندی ساہیتہ الٰہ آباد سے سند فراغت حاصل کر چکے ہیں عزیزی کی شادی ہمراہ آمنہ خاتون بنت عبد الحق خاں ساکن کمہریا(اٹوا بازار ) سے ہوئی ہے محمد اقبال کی اہلیہ بھی ماشاء اﷲ عالمہ فاضلہ ہیں ۔ 
(۳) محمد سلمان تیسرے صاحبزادہ ہیں ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ کر چکے ہیں فی الحال جامعہ اسلامیہ لیبیا کی یو نیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں ۔ 
بڑی لڑکی سلمیٰ خانم کی شادی ہمراہ مولانا شفاعت اﷲ ندوی سے ہوئی ہے دوسری لڑکی کوثر جہا ں تسنیم کی شادی ہمراہ مولانا زبیراحمد مدنی سے ہوئی ہے ، تیسری لڑکی بُشریٰ خانم کی شادی ہمراہ مولانا عبد المبین اثری سے ہوئی ہے ۔ چوتھی لڑکی صدیقہ خانم کی شادی ہمراہ مولانا خالد سنابلی سے ہوئی ہے پانچویں لڑکی فاطمہ خانم کی شادی مولاناجلال الدین محمدی ایڈیٹر ’’عالمی خبریں‘‘ ممبئی سے ہوئی ہے ۔ ماشاء اﷲ پانچوں داماد عالم دین ہیں جہاں بھی ہیں اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف عمل ہیں اﷲ تعالیٰ ان سبھوں کو ہمیشہ شاد آباد رکھے ۔ آمین 
اﷲ تعالیٰ میری دینی خدمات کو قبول فرمائے ، عفو و درگذر کا معاملہ فرمائے اور خاتمہ بالخیر ہو ۔ 
یاخدا جسم میں جب تک کہ میری جان رہے
 تجھ پہ صدقے تیرے محبوب پہ قربان رہے
کچھ رہے یا نہ رہے پر یہ دعا ہے کہ امیر
 نزع کے وقت سلامت مرا ایمان رہے 
والسلام 
 عبدالرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ۔ بلرام پور یوپی 
 ۳؍مارچ ۲۰۱۳؁ء 

حکیم مولانا محمد اسحق رحمانی رحمہ ﷲ 

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے
ہمارے مشفق بزرگ محترم حکیم مولانا محمد اسحق صاحب رحمانی چیونٹہوا رحمہ اﷲ نابغۂ عصر شخصیات میں سے ایک تھے ۔ لوگ پیدا ہوتے ہیں زندہ رہتے ہیں اور مرجاتے ہیں ان کی موت پر ان کی اولاد اعزہ اقارب آنسو بہاتے ہیں احباب ، رفقاء کف افسوس ملتے ہیں لیکن کچھ دنوں بعد لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ کون کب پیدا ہوا کب تک جیا، اور مرگیا اس کے بر عکس کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی پیدائش کے وقت تو ضرور گمنام ہوتے ہیں لیکن زندگی اس طرح گزارتے ہیں کہ لوگوں کے لئے قابل رشک اور قابل تقلید مثال کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی وہ زندہ رہتے ہیں اپنی فکر و عمل کے حوالے سے انہی کے لئے کہا گیا ہے کہ :
 ؂ جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی جسم مرجانے سے انسان نہیں مر تا ہے 
محترم حکیم مولانا محمد اسحق رحمانی صاحب انہی عبقری شخصیات میں سے ایک تھے جب میں ضلعی جمعیت گونڈہ تھانہ روڈ تلسی پور سے منسلک تھا بارہا ملاقات ہوئی بڑی شفقت فرماتے اور پند نصائح اور دعاؤں سے نوازتے کافی استفادہ کا موقع ملا ناچیز جن بزرگوں سے سچی عقیدت رکھتا ہے اور جنھیں یاد کرکے اس کی آنکھیں آج بھی نم آلود ہو جاتی ہیں ان کی فہرست بہت مختصر ہے اور اس فہرست میں ایک نام حکیم مولانا محمد اسحق صاحب رحمانی کا بھی ہے موصوف اپنی ذات اور کردار سے نمونۂ سلف تھے آپ جیسا نیک متقی مخلص اور مرد مومن امت کے صفوں میں بآسانی نہیں ملے گا ۔ آپ کی شخصیت نگہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز دلکش تھی ایک ممتاز عالم دین ہوتے ہوئے بھی ان میں غرور گھمنڈ نہیں تھا خاکساری ملنساری اپنائیت ،ہمدردی و غم گساری آپ کی صفات تھیں ناچیز ڈاکٹر اقبال احمد بسکوہری کا تہ دل سے شکر گزار ہے کہ انھوں نے میری درخواست پر مولانا کی حیات پر معلومات فراہم کیں ۔ آپ کی دیگر یادگار وں کے علاوہ مدرسہ محمدیہ بسکوہر بازار مدرسہ محمدیہ چیونٹہوا برادرم ڈاکٹر اقبال احمد بسکوہری و مولوی عبد النور محمدی و دیگر اولاد آپ کی یادگار اور صدقہ جاریہ ہیں دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ انھیں اپنے جواررحمت میں جگہ دے ۔ اورانھیں اپنے خاص بندوں میں شامل کرے اور ان کے مراتب کوبلند کرے ۔ آمین اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ۔ عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور بلرام پور یوپی 
۲۱؍نومبر ۲۰۱۲؁ء 
دامن ہمالیہ میں واقع ہندوستان کی شمالی سرحدی علاقہ گونڈہ ، بستی بہرائچ سدھارتھ نگر و گورکھپور کا علاقہ بھی عام ہندوستان کی طرح بدعات و خرافات کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا قبر پرستی، پیر پرستی،تعزیہ پرستی ، شخصیت پرستی، نفس پرستی، تصوف پرستی، سماع قوالی ، ڈھول تاشہ مسلمانوں کی زندگی میں بحیثیت دین داخل ہو گیا تھا۔ 
شیخ الکل فی الکل میاں محمد نذیرحسین دہلوی رحمہ اﷲ کے تلامذہ نے ان علاقوں کا دورہ کیا اور اصل دین پھیلانے کی کوشش کی ۔ ان بزرگان دین اور خدّام شرع متین میں تلسی پور کے علاقہ میں ایک مشہور عالم دین جو لمبے قد گورے جسم اور قوی الاعضاء تھے آپ کی شخصیت اس علاقہ کے ایک گاؤں ادئی پور میں نزول فرمایا آپ کا اسم گرامی جناب مولانا محمد اظہر صاحب بہاری رحمہ اﷲ تھا۔ اس علاقہ اور قرب علاقہ میں آپ کی حیثیت امام کی تھی بقول والد محترم جب تک آپ کی رضا مندی نہیں ملتی تب تک کسی کا نکاح نہیں ہوتا تھا سفر کے لئے پالکی کا استعمال بھی کرتے تھے اٹھانے والوں کو پیسہ پہلے دیدیا کرتے تھے۔ 
موضع ہرہٹہ کی ایک عظیم شخصیت جناب مخدوم پنچ رحمہ اﷲ کو آپ کے ہاتھ پر ہدایت ملی جن کا اس علاقہ پر گہرا اثر تھا اس دعوتی خدمت میں شریک ہو گئے ان کی وجہ سے کتاب و سنت کا چرچا اس علاقہ میں بہت تیزی سے ہوا۔
مولانا محمد اظہر بہاری رحمہ اﷲ کی دعوتی کو ششوں کے نتیجہ میں یہ خاندان جو ’’مَلِک‘‘ خاندان سے مشہور تھا اور عام مسلمانوں کی طرح رسم و رواج بدعات و خرافات ڈھول تاشے کا دلدادہ تھا اصل دین سے متعارف ہوا ،مولانا اﷲ بخش بسکوہری رحمہ اﷲ جو پنجاب سے آکر یہاں خیمہ زن ہوئے تھے جب یہ خاندان چیونٹہوا پہونچا تو ان سے بھی فیض حاصل کیا ۔ اس طرح اﷲ نے ہدایت کا راستہ دیا وہ سب چھوڑ کر کتاب و سنت کی روشنی میں دین پر عمل پیرا ہوا یہ خاندان تلسی پور کے شمال مشرق میں واقع موضع بدل پور پرسیہامیں تھا باون گاؤں کی زمینداری تھی بعض اہل خاندان کا کہنا ہے کہ یہ حضرات یہاں پر اٹیا تھوک کی طرف سے آئے تھے زمین داری ٹوٹی کچھ لوگ موضع پرینا میں آباد ہوئے جو تلسی پور کے شمال مشرق میں ہے اور کچھ موضع چیونٹہوا میں آباد ہوئے جو بسکوہر بازار کے شمال میں ہے اور ضلع سدھارتھ نگر و بلرام پور کے سرحد پر ہے فی الحال خاندان نہ معلوم ہونے کے برابر ہے والد صاحب سے جب بھی میں نے معلوم کرنے کی کوشش کی تو ان کا جواب ہوتا ’’ ان سب افسانوں سے کیا مطلب‘‘ نہ آپ نے کبھی اپنے نام کے ساتھ ملک استعمال کیا اور نہ ہم لوگوں نے کیا در اصل ہندوستان میں حسب و نسب کی حفاظت لوگوں نے برقرار نہ رکھا ۔خاندنوں کی نسبت کہا ں سے ہے قطعی طور پر ہی بتا یا جا سکتا ہے۔
دراصل والد محترم ذات پات کے بھید بھاؤ کو بہت برا سمجھتے تھے ہمارے گاؤں سے متصل رتن پور میں دھوبی برادری ہے ۔ تلوک پور میں میاں برادری ہے حاجی ڈیہہ میں انصاری برادری ہے والد صاحب کا ان تمام لوگوں سے بڑا گہرامیل و مراسم رہتا تھا اکثر بسکوہر جانا پڑتا تھا ۔ جس کے لئے آپ عموماً تلوک پور ، حاجی ڈیہہ سے ہوکر ڈنگہر ہوکر بسکوہر جاتے ۔ 
آپ کے ساتھیوں میں سے دو ممتاز عالم دین مولانا محمد حسن صاحب رحمانی اونرہوا اور مولانا محمد زماں صاحب رحمانی انتری بازار سے بہت گہرے مراسم تھے جب کہ دونوں انصاری تھے اونرہوا میں بڑی رشتہ داریاں تھیں لیکن جب وہاں جاتے تو سب سے پہلے مولانا محمد حسن صاحب رحمانی کے یہاں جاتے اور زیادہ دیر وہیں گذارتے اس کے بعد رشتہ داروں کے یہاں جاتے ۔
نام ونسب محمد اسحق بن محمد عثمان ( عرف وریاون مہتو ) بن محمد سردار ہے ۔
تاریخ پیدائش: صحیح طور سے نہیں معلوم ایک اندازہ کے مطابق ۱۹۱۰؁ء سے ۱۹۱۳؁ء کے درمیان ہوگی کیونکہ آپ کی جملہ تعلیمی مدت کل سولہ سال کی ہوتی ہے دارالحدیث رحمانیہ سے فراغت ۱۹۳۴؁ء کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیم کی ابتدا ،۱۹۱۸؁ء کے لگ بھگ ہوئی ہے اس زمانہ میں تعلیم عموماً پانچ چھ سال کے بعد ہی شروع ہوتی تھی۔ 
تعلیم : دادا صاحب وریاون مہتوں کافی مشہور علماء نواز ، متقی اور پرہیزگار بزرگ تھے بچوں کو پڑھانے کی بڑی خواہش تھی بسکوہر کے اہل علم سے ان کا بڑا اچھا تعلق تھا اس وقت یہاں پر مولانا خلیل احمد بسکوہری مولانا عبد الستار صاحب بسکوہری مولانا عبد الغفور صاحب بسکوہری جیسی عظیم شخصیتیں یہاں موجود تھیں ۔ 
ان حضرات سے علم کا اثر اس گاؤں پر پڑ گیا ۔ یہاں پر ایک چھوٹا سا مدرسہ قائم کیا گیا ۔ جہاں پر والد صاحب نے ابتدائی تعلیم شروع کی اس وقت وہاں موضع مصرولیا کے جناب شمس الدین صاحب مدرس تھے پھر بسکوہر بازار میں پرائمری میں داخلہ لیا ، تین سال کے بعد موضع بلوا بجورا میں ایک سرکاری اسکول تھا وہاں پرائمری مکمل کیا وہاں کی مدت تعلیم دو سال ہے پرائمری کے بعد تعلیم چھوڑ دیا۔
پھر جب مولانا خلیل احمد صاحب بسکوہری بلوابجورا سے بسکوہر تشریف لے آئے تو مولانا عبدالستار صاحب نے دادا جان سے والد صاحب کو یہاں پڑھوا نے کے لئے کہا اس طرح آپ ایک سال سے وقفہ کے بعد مولانا خلیل احمد صاحب کے پاس پڑھنے لگے ایک سال کے بعد مولانا نے بسکوہر مدرسہ سے استعفیٰ دے دیا اب یہاں مولانا عبد الغفور صاحب بسکوہری کو جو بلرام پور میں پڑھا رہے تھے بلوایا گیا والد صاحب نے مولانا عبد الغفور صاحب بسکوہری کی شاگردی میں یہاں فارسی پڑھنا شروع کیا ۔ پھر مولانا بسکوہری نے اس مدرسہ کو چھوڑ دیا تو والد صاحب نے بھی پڑھائی پھر چھوڑ دی ۔ڈاکٹر عبدالعزیز صاحب نام کے ایک صاحب تھے جنھوں نے دادا جان سے کہہ کر والد صاحب کو جھنڈینگر پڑھوانے کے لئے اصرار کیا اور وہ خود جاکرآپ کو جھنڈینگر داخل کرادیا اس وقت مولانا خلیل احمد بسکوہری وہاں مدرس تھے جس وقت آپ وہاں پہونچے اس وقت مولانا عبد الرؤف صاحب رحمانی اور آپ کے بڑے بھائی عبد الحفیظ صاحب اور چوکنیاں کے عبد الجبار صاحب ’’ بوستاں‘‘ پڑھ رہے تھے ان کے ساتھ درس میں شریک ہوئے پہلا درس یہ تھا ۔
میرا طبع زیں نوع خواہاں نبود
سرمدحت پادشاہاں نبود
پھر گلستاں شروع کیا جس میں ایک اور ساتھی محمد یوسف صاحب دودھونیاں کے شریک تھے پھر جب ایک ہی سال میں مولانا عبد الرؤف رحمانی صاحب بنارس چلے گئے اور دوسال آگے ہوگئے ۔ مولانا خلیل احمد بسکوہری سے عربی قواعد کی ابتدائی کتابیں شروع کردی ۔ میزان منشعب ، ابواب الصرف وغیرہ وہاں ان سے پڑھا اس کے بعد مولانا خلیل صاحب بسکوہری جھنڈا نگر سے انتری بازار چلے گئے ادھر آپ نے تعلیم چھوڑ دی ایک سال یا کچھ عرصہ کے بعد دادا صاحب نے آپ کو مولانا خلیل احمد صاحب کے پاس انتری بازار بھیج دیا تقریباً تین سال تک وہاں تعلیم حاصل کی۔ مولانا عبد الغفور صاحب بسکوہری بھی اس وقت انتری بازار پڑھا رہے تھے جب وہ انتری بازار سے جھنڈا نگر آئے تو آپ بھی جھنڈا نگر آگئے اور پانچویں جماعت میں داخلہ لیا یہاں پر اس وقت جماعت میں جلالین، سنن ترمذی، مقامات حریری، متنبی سراجی وغیرہ پڑھائی جاتی تھی ۔ سنن ترمذی مولانا عبد الغفور بسکوہری سے سراجی مولانا عبد الرحمن بجواوی سے پڑھا۔ 
جھنڈا نگر اس وقت کے ساتھیوں میں : مولوی محمد اقبال صاحب ریواں ، مولوی محمد عمر صاحب (غالباً انتری بازار کے تھے ) مولوی گل محمد صاحب یوسف پور کے پاس کے تھے، مولوی سلامت اﷲ صاحب بنگال کے ، عین اﷲ صاحب برگدوا ، مولوی سمیع اﷲ صاحب ، منشی نجم اﷲ ، منشی دوست محمد تھے۔ 
پھر دارالحدیث رحمانیہ دہلی گئے اور چھٹی جماعت میں داخلہ لیا ۔ غالباً یہ ۱۹۳۲؁ء کا وقت تھا ( کچھ دنوں کے لئے یہاں بھی پڑھائی چھوٹ گئی تھی ) پھر جب مولانا عبد الغفور صاحب بسکوہری دارالحدیث رحمانیہ دہلی پڑھانے تشریف لے گئے تو دوبارہ دہلی گئے اور وہاں ساتویں اور آٹھویں جماعت مکمل کیا اور ۱۹۳۴؁ء میں فارغ ہوئے ۔
ادب کی زیادہ تر کتابیں مولانا عبد الغفور صاحب بسکوہری سے پڑھی ہے جبکہ آپ کو خود فن ادب سے بڑی دلچسپی تھی عربی قصیدے اور اشعار آخری عمر تک یاد رہے ۔ آپ کا حافظہ بہت اچھا تھا رحمانیہ دہلی کے کسی پروگرام میں آپ نے ایک عربی قصیدہ کہا تھا جو رحمانیہ سے شائع ہونے والے پرچہ’’محدث‘‘ میں مطبوع ہے۔ 
دارالحدیث رحمانیہ کے دیگر اساتذہ میں مولانا احمد اﷲ صاحب شیخ الحدیث تھے جن سے صحیحین ، مؤطا ، سنن ابوداؤد پڑھی مولانا عبد الرزاق پشاوری تھے جن سے معقولات کی کتابیں پڑھیں مولانا عبدالرحمن صاحب پٹنہ ان سے زیادہ تر کتب ادب پڑھی ہے۔ 
مولانا عبد السلام صاحب بدایونی ( جن کو حل المشکلات کہا جاتا تھا) ان سے قاضی مبارک پڑھی مولانا عبد السلام صاحب کے انتقال کے بعد مولوی شریف اﷲ کو جو فتح پوری میں پڑھارہے تھے ان کی جگہ پر لا یا گیا ان سے بیضاوی پڑھی۔ 
مولانا سکندر صاحب ہزاروی سے اشارات شرح مواقف پڑھا اس وقت سکندر صاحب اتنے بوڑھے تھے کہ بھوں کے بال پک چکے تھے آپ والد صاحب کو مانتے تھے اور آپ کو ’’ اوصوفی‘‘ کہکر پکارتے تھے۔ 
مولانا نذیر احمد صاحب رحمانی املوی نیچی جماعت میں اس وقت پڑھاتے تھے لہذا ان سے کچھ پڑھا نہیں ان کا اتنا رعب تھا کہ ڈر کے مارے ان کے پاس نہیں جاتے تھے۔ 
مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری اس وقت مدرس تھے ان سے بڑی قربت تھی سنن نسائی آپ نے انھیں سے پڑھی ہے ۔
جامعہ رحمانیہ کے ساتھیوں میں مولانا حاکم علی صاحب بہاری تھے جن سے زیادہ قربت تھی نیز مولانا بشیر الدین صاحب پنجابی مولوی ابوالقاسم صاحب بنگالی محمد اسحق صاحب کنڈؤ، محمد مسلم یا محمد تسلیم بہاری حافظ نبی صاحب پنجابی تھے۔ 
جب آپ رحمانیہ میں چھٹی جماعت میں داخل ہوئے اس وقت مولانا عبد الجلیل صاحب رحمانی تیسری جماعت میں داخل ہوئے تھے اس سے قبل سبع معلقہ میں کسی جگہ دونوں ساتھ پڑھ چکے تھے۔ 
والد صاحب اپنے رفقاء دوست و احباب اعزہ و اقارب کی بکثرت زیارت کرتے تھے پیدل چلنے میں بڑے تیزرفتار تھے۔
مولانا محمد حسن رحمانی کی بہت زیادہ زیارت کرتے تھے اسی طرح سے مولانا محمد زماں رحمانی انتری بازار والد صاحب سے کم از کم سال میں دو تین بار ضرور ملنے آتے تھے۔ اور دعوتی پروگرام کرتے تھے مولانا محمد زماں صاحب رحمانی مجھ کو اور بھائی مولوی عبد المعید صاحب کو قرآن مجید کی کوئی سورت دے کر جاتے تھے آئندہ جب آؤں گا تو اس کو سنوں گا اس طرح سے سورہ سجدہ ، سورہ ملک ، سورہ ق وغیرہ ہم لوگوں نے آپ ہی کو سنانے کیلئے یاد کیا تھا۔ 
دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے فارغ ہونے کے بعد ایک سال گھر پر رہے پھر لکھنؤ میں ۱۹۳۶؁ء میں تکمیل الطب کالج میں داخلہ لیا اور وہاں سے فراغت حاصل کی۔
والد صاحب کسی مدرسہ میں درس و تدریس سے کبھی منسلک نہ ہوئے اگر چہ بچوں کے پڑھانے اور ان سے سوال و جواب کا کافی شوق تھا ۔ گاؤں کے مدرسہ میں کبھی بچوں کا سبق سن لیتے تھے اور دیکھ بھال کرتے ۔ 
جامعہ سراج العلوم بونڈھیار کے ذمہ داروں نے کافی کوشش کی لیکن نہ جاسکے اسی طرح اورکئی اداروں کے ذمہ داروں نے کافی کوشش کی لیکن نہ جاسکے۔
حکمت کا علم سیکھنے کے بعد بسکوہر بازار میں کچھ دن دواخانہ چلایا اور پھر اس کو بند کردیا اس سلسلے میں آپ نے جو وجہ بتائی ہے وہ یہ ہے کہ بہت دوڑنا پڑ تا تھا اور گھر والے کھیتی سنبھال نہیں پا رہے تھے اسلئے حکمت چھوڑ کر کاشتکاری اختیار کرلیا ویسے مشہور یہ ہے کہ ایک مرتبہ برسات کے موسم میں بارش کی تاریک ترین رات میں آپ کو مریض دیکھنے جانا پڑا اس وقت تو چلے گئے لیکن اس صبح کو دواخانہ بند کردیا حالانکہ جب بھی کوئی مریض آپ کے پاس آتا تھا تو آپ اس کے لئے نسخہ تحریر کرتے اور بلا عوض کے اس کے لئے دوا تیار کردیتے۔ 
آپ کو اپنے قرابت داروں رشتہ داروں سے بڑی ہمدردی تھی سال میں دو چار چکر جملہ رشتہ داروں کے یہاں ضرور لگالیتے تھے۔ 
ایک مرتبہ میں نے والد محترم سے کہا کہ رحمانیہ سے فارغ ہو کر اتنے اچھے عالم اور طبیب ہوکر آپ نے کچھ کام نہیں کیا اور کاشتکاری میں پھنس گئے یہ اچھا کام نہیں کیا تو آپ نے فرمایا اتنے بڑے خاندان کی خدمت کرنا ان کو سنبھالنا ان کا انتظام کرنا اور ان کو ضائع ہونے سے بچانا کیا کوئی بڑا کام نہیں ہے ؟ حاجی صاحب ( والد صاحب کے بڑے بھائی ) لا پرواہ تھے عبد الجلیل آپ کے چچیرے بھائی چھوٹے پڑ تے تھے تنہا ان کا سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا اسلئے مجھ کو مجبور ہوکر یہاں رکنا پڑا ۔ 
آپ کی زندگی کا سب سے زیادہ خوشگوار گوشہ آپ کی دعوتی سر گرمیاں تھیں زندگی کے اس عمر تک جہاں آپ کافی کمزور و ضعیف ہوگئے بلا کسی عوض کے امامت و خطابت کی ذمہ داریاں اس کو بڑی اچھی طرح سے نبھایا۔
تعلیمی میدان میں مدرسہ محمدیہ بسکوہر بازار اور مدرسہ محمدیہ چیونٹہوا آپ کی یادگار اور صدقہ جاریہ ہیں بسکوہر مدرسہ میں آپ کے شریک کار ولی محمد جیتا پور اور منیم جی ( محمد یوسف) ڈگہرکے تھے۔
مدرسہ محمد یہ چیونٹہوا میں آپ کے خصوصی معاونین میں جناب ذکراﷲ صاحب رحمہ اﷲ ، مولانا عزیز الرحمن صاحب کے والد صاحب تھے یہ دونوں حضرات گھر گھر جا کر مٹھّی اور عشر جمع کرتے تھے اور اس طرح یہ مدرسہ آج تک بر قرار ہے۔ 
اس گاؤں میں پہلے ایک معمولی مدرسہ قائم تھا جس میں میاں محمد یونس صاحب رحمہ اﷲ پڑھاتے تھے ۔ لیکن یہاں سے ان کے چلے جانے کے بعد یہ مدرسہ بند ہوگیا اور کافی دنوں تک بند رہا ہم لوگ رضا خانی مدرسہ سکھا ڈیہہ پڑھنے جاتے تھے۔
پھر نئے سرے سے مدرسہ کا قیام مسجد میں عمل میں آیا جس کے پہلے مدرس مولانا عبد اﷲ صاحب بسکوہری ( مولانا عبد الغفور کے بڑے صاحب زادے) تھے اور پہلے طالبعلم اقبال احمد اور عزیز الرحمن تھے جب سے مدرسہ آج تک بحمد اﷲ قائم ہے ۔ چیونٹہوا میں اہل علم کی اتنی بڑی تعداد آپ ہی کی کوششوں کا نتیجہ اور لگائے ہوئے پودے کے ثمرات ہیں ۔ 
مدرسہ محمدیہ بسکوہر سے علاقہ کے بہت سارے اہل علم نے فیض حاصل کیا اور کسی نہ کسی حال میں وہ اب بھی جاری ہے۔ 
آخری عمر میں کافی ضعیف ہو گئے تھے اور لگ بھگ ڈیڑھ سال تک صاحب فراش رہے اس وقت آپ صحابہ کے واقعات کو خاص طور سے شہداء کے واقعات کو یاد کر کے روتے رہتے تھے اور توبہ استغفار کرتے۔
بالآخر وقت موعود آپہونچا اور ۷؍ اکتوبر ۱۹۸۸؁ء کو والد محترم رحلت فرماگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون میری یہ بد نصیبی تھی کہ میں اس وقت گھر پر نہیں تھا جامعہ محمدیہ منصورہ میں مدرس تھا مواصلات کا اتنا اچھاانتظام ہی نہ تھا جس کی وجہ سے مجھ کو کافی تاخیر سے اطلاع ملی ۔ میں آپ کے کفن دفن میں بھی شریک نہ ہوسکا ۔ اﷲ تعالی آپ کے حسنات کو قبول فرمائے گناہوں ، غلطیوں، کو درگذر فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت کرے۔ آمین
نکاح اور اولاد: والد صاحب کی تین شادیاں ہوئی تھیں پہلی شادی آپ کی موضع بھنوریا میں ہوئی تھی دوسری شادی بیت نار میں اور تیسری شادی موضع سسوا(اونرہوا) میں ہوئی ۔ پہلی اہل سے صرف ایک بچی تھیں جن کا نام نجم النساء تھا ان کی شادی ہلورا میں ہوئی تھی ۔ والد صاحب سے پہلے ہی ان کا انتقال ہو گیا تھا۔پہلی اہل کے انتقال کے بعد آپ نے دوسرا نکاح کیا دوسری اہل سے ڈاکٹر محمد اجمل صاحب ندوی اور ہماری ہمشیرہ فاطمہ جو دودھونیاں میں ہیں ۔ دوسری اہل کے انتقال کے بعد آپ نے تیسرا نکاح کیا تیسری اہل سے مقبول احمد، اقبال احمد، صہیب احمد ، خبیب احمد ، عبدالنور ، ریحانہ علی الترتیب ہیں۔ 
اس میں جو اہم معلومات والد صاحب سے متعلق ہیں اس میں سے بہت سی چیزیں میں نے آپ سے خود مختلف اوقات میں معلوم کیا تھا جو ایک ڈائری میں موجود ہے آپ جب حج کرنے گئے تھے اس وقت میں جامعہ اسلامیہ میں پڑھ رہا تھا اور مع اہل و عیال رہتا تھا وہاں پر برادرم عبد المعید ، شیخ عبد القیوم ششہنیاں اور شیخ بدرالزماں نیپالی نے کچھ سوالات کئے تھے جو میں نے ٹیپ کر لیا تھا وہ آج بھی میرے پاس موجود ہے بہت ساری باتیں اس سے ماخوذ ہیں ۔ بقیہ اپنے ذاتی معلومات ہے۔ 
(ڈاکٹر) اقبال احمد بسکوہری 
منصورہ مالیگاؤں 
۱۲؍۷؍ ۲۰۰۲؁ء 


٭٭٭




مولانا عبد النور صاحب ( نور عظیم ندوی ازہری) 

روز نامہ قومی آواز لکھنؤ کی یہ خبر بجلی بن کر گری کہ برادرم مولانا عبدالنور نور عظیم ندوی ازہری صاحب مورخہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۹۳؁ء کو اﷲ سے جاملے ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون 
نور عظیم ندوی صاحب کا تعلق سابق ضلع بستی حال ضلع سدھارتھ نگر کی مردم خیز گاؤں اکرہرا سے تھا آپ کی ولادت موضع اکرہرا میں ۱۹۴۲؁ء میں ہوئی ،آپ کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں علمی گھرانے کی خوشبو رچی ہوئی تھی اور فکرو نظر میں سلفیت کی روح کار فرما تھی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ادبی ماحول سے استفادہ جامعہ ازہر مصر کی فیض یابی اور جامعۃ الامام محمد بن سعود کی تدریس نے عربی زبان و ادب میں گہرا شعور پیدا کر دیا تھا آپ کو علمی و ادبی حلقوں میں نمایاں مقام حاصل تھا۔ 
علم و دانش کا وہ نیر تاباں جو افق اکرہرا سے طلوع ہوا تھا مورخہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۹۳؁ء کو ۵۲ سال کی عمر میں سرزمین لکھنؤ میں ہمیشہ ہمیش کیلئے غروب ہوگیا اور وہ شخصیت جسے مذہبی علمی و ادبی دنیا نور عظیم کے نام سے جانتی ہے ایک مختصر علالت کے بعد اس عالم سے دارالبقا کی جانب کوچ کر گئی۔
تقدیر الٰہی کہ ابھی آپ کی عمر ۵۲ سال ہی تھی اور بظاہر کوئی بڑی بیماری نہیں تھی کہ اچانک سننے میں آیا کہ ان کو بلڈ پریشر شوگر اور گردہ کی تکلیف ہے وہ مقامی علاج کرنے کے بعد سنجے ہاسپٹل لکھنؤ میں داخل کئے گئے آخر ان کو ان کی قیام گاہ لایا گیا ۳۱؍ جنوری ۱۹۹۳؁ء کو دو بجکر بیس منٹ پر آپ کی روح پرواز کرگئی ،اور اپنے بال بچوں خاندان رشتہ داروں قدردانوں عقیدت مندوں کو مغموم رنجیدہ چھوڑ کر سفر آخرت کیا۔ 
آپ کی وفات سے دارالعلوم ندوۃ العلماء ہی میں نہیں متعدد علمی ادبی فکری اور تحریری مجالس اور مرکزوں میں ایک خلاء پیدا ہوگیا ہے جس کا پُر ہونا مشکل نظر آتا ہے ۔
آپ نے مولانا سید ابوالحسن علی الحسنی ندوی کی کئی اہم عربی کتابوں کا اردو ترجمہ کیا 
’’ النبوۃ والانبیاء فی ضوء القرآن۔ من نہر کابل الی نہر الیرموک ‘‘ جن کا ترجمہ دریائے کابل سے دریائے یرموک تک ہے ۔ کے علاوہ مولانا کی کئی کتابو کا ترجمہ کیا اس کے علاوہ کئی مقالات و رسائل کا ترجمہ کیا ۱۹۶۹ ؁ءسے دارالعلوم میں تدریس کے ساتھ رسالہ ندائے ملت لکھنؤ کا ۱۹۷۳؁ء تک مدیر رہے۔ 
میری پہلی ملاقات عہد طالب علمی میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں ہوئی وہ سال مولانا نور عظیم ندوی کے فراغت کا سال تھا مولانا سے میرے خوشگوار تعلقات تھے مجھ پر بڑی شفقت فرماتے ۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء سے تعلیمی فراغت کے بعد جب لکھنؤجانے کا اتفاق ہوتا تو آپ سے ضرور بالضرور ملاقات کرتا بڑی خندہ پیشانی سے ملتے وفات سے چار ماہ قبل خدمت عالیہ میں ایک ضروری کام لے کر حاضر ہوا مگر آپ کی شدید بیماری کے پیش نظر آپ سے اپنے آنے کا مقصد پیش کرنے میں تامل رہا آپ نے فرمایاکیسے آنا ہوا میں نے عرض کیا کہ اصلاح معاشرہ کے موضوع پر ایک کتاب اسلامی آداب معاشرت لکھی ہے میری خواہش ہے کہ آپ اس پر مقدمہ لکھدیں۔نور بھائی نے مسودہ لے لیا فرمایاافسوس مجھ سے جو آس لگا رکھی ہے میری صحت قطعاً اس کی اجازت نہیں دیتی ہے کہ تمہاری آس میں پوری کر سکوں ۔ فہرست مضامین و دیگر مشتملات پر ایک سر سری نظر ڈال لیتا ہوں غرضیکہ برادرم نور عظیم صاحب نے اپنی شدید ناسازی ٔ طبع کے باوجود مسودے پر نظر ثانی فرمائی اور مفید مشوروں سے نوزا ۔
جیسا کہ لکھا جا چکا ہے کہ مولانا نور عظیم ندوی کی ولادت با سعادت ۱۹۴۲؁ء میں موضع اکرہرا میں ہوئی آپ کے والد بزرگوار مولانا عبد العظیم بستوی ایک باغیرت عالم تھے اﷲ تعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیت سے نوازا علم و عمل خدا ترسی و دینداری تقویٰ حق گوئی اخلاق حسنہ میں آپ کا ممتاز مقام تھا اﷲ تعالیٰ نے زبان و بیان میں ایسا ملکہ عطا فرمایا تھا جب آپ کسی اجلاس سے خطاب فرماتے تو پورے مجمع پر سناٹا چھا جاتا اور جب قیامت آخرت ، جنت اور دوزخ کے موضوع پر آپ خطاب فرماتے تو اس مجمع میں لوگ زور زور سے رونے لگتے پوری زندگی شرک و بدعت سے جہاد کرتے رہے۔ 
مولانا عبد العظیم صاحب کے چار لڑکے اور چار ہی لڑکیاں تھیں مولانا کے تقویٰ و نیکیوں کا ہی ثمرہ ہے کہ سبھی لڑکے اپنی ذہانت و علم کے ذریعہ عزت و شہرت کے مہرو ماہ بنکر چمک رہے ہیں بڑے لڑکے مولانا عبد الودود صاحب ۱؂؂ جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر کی خدمات انجام دیتے رہے دوسرے صاحبزادے محترم مولانا عبد الصبور رحمانی ۲؂ دارالحدیث رحمانیہ دہلی کے ممتاز نمایاں اور ہونہار طلبہ میں سے تھے علمی گہرائی اور تحریر و تقریر پر یکساں قدرت حاصل تھی ۔ اﷲ کی دی ہوئی صلاحیتوں میں وہ اپنے تمام معاصرین میں ممتاز حیثیت کے مالک تھے ۔ وہ معاملہ فہمی دور اندیشی اور فکر و نظر کی گہرائی میں نمایاں مقام رکھتے تھے ہم جیسوں کی آزمائشی حالات میں رہنمائی فرماتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ۔ آمین 
۱؂ مولانا عبد الودود صاحب ضلع سدھارتھ نگر کی مردم خیز بستی اکرہرا کے ایک علمی اور دینی خانوادہ میں ۱۹۲۳؁ء میں ولادت ہوئی اور ۲۸؍اگست ۲۰۰۳؁ء کو انتقال ہوا ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون اکرہرا کے قبرستان بعد نماز عصر مدفون ہوئے مولانا کے والد محترم ضلع کے بڑے اور ممتاز علماء میں سے تھے مولانا عبد الودود صاحب خلیق ملنسار ذہین حق گو معاملہ فہم دور اندیش اور اسلامیات کے پابند تھے اﷲ تعالی ان کی حسنات کو قبول فرمائے آمین (عبد الرؤف خاں ندوی )
۲؂مولانا عبد الصبور صاحب رحمانی مورخہ ۳۱ جنوری ۱۹۹۹؁ء میں انتقال فرماگئے اور اکرہرا کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔ اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ مولانا کے مفصل حالات اس کتاب کے دوسرے حصہ میں قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں گے انشاء اﷲ(عبد الرؤف خاں ندوی ) 
 مولانا عبد الصبور رحمانی کے بارے میں مولانا عبد الحمید رحمانی حفظہ اﷲ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ
’’ افسوس کہ جماعت کی ناقدری کا وہ شکار ہوگئے اور علمی زندگی کے بجائے انھیں تجارت کی راہ اپنانی پڑی ورنہ وہ اس وقت بر صغیر ہندو پاک کے ایک جامع عالم اور اچھے مفکر ہوتے‘‘
تیسرے صاحبزادے مولانا عبد النور نورعظیم ندوی صاحب ہیں جو اب ہمارے درمیان نہ رہے مولانا کا سانحۂ ارتحال جماعت اور ملک وملت کے لئے ایک غم انگیز والمناک حادثہ ہے علم و ادب کا ستون گر گیا عقل و دانش کا آفتاب ڈوب گیا وہ شمع بجھ گئی جو کبھی روشن نہیں ہو سکتی۔
چوتھے صاحبزادے ڈاکٹر عبد العلیم ندوی مدنی ازہری ہیں جو اس وقت رابطہ عالم اسلامی مکہ کے اندر ایک باوقار منصب پر فائز ہیں اور اپنی خداداد صلاحیت کے باعث ممتاز حیثیت کے مالک ہیں ۔
مولانا عبد النور نور عظیم ندوی کی ابتدائی تعلیم اکرہرا ، شمس العلوم سمرا ، جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں ہوئی ،جامعہ رحمانیہ بنارس بھی تشریف لے گئے اس کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے عا لمیت و فضیلت کی تکمیل فرمائی ۔ ندوۃ العلماء سے تعلیمی فراغت کے بعد ڈاکٹر سید عبدالحفیظ صاحب سلفی کی خواہش پر جماعت کے مشہور و قدیم ادارہ مدرسہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ میں ۱۹۶۵؁ءسے ۱۹۶۸؁ء تک تدریس کے فرائض کے ساتھ ساتھ وہاں کے ترجمان پندرہ روزہ ’’ الھدیٰ‘‘ کے مدیر رہے۔ 
۱۹۷۴؁ء میں قاہرہ چلے گئے جہاں جامعہ ازہر کے ’’ کلیۃ اللغۃ العربیۃ ‘‘ میں شعبۂ نقد و ادب سے ایم اے کیا اور اپنا تحقیقی مقالہ THESIS الذوق الادبی کے عنوان سے پیش کیا اور ممتاز نمبروں سے کامیاب ہوئے ۔ قاہرہ میں قیام کے دوران قاہرہ ریڈیو اسٹیشن سے اردو پروگرام بھی نشر کرتے تھے ۱۹۸۱؁ء میں ان کا جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ ریاض میں عربوں کو عربی کی تعلیم دینے کے لئے مدرس کے طور پر انتخاب ہوا ایک سال تدریس کے بعد وہ رابطہ عالم اسلامی سے مبعوث بنکر دارالعلوم ندوۃ العلماء آگئے یہاں تدریسی خدمات کے ساتھ رابطۂ ادب اسلامی کے جو مکہ معظمہ میں قائم ہوا تھا اس کا صدر دفتر ریاض میں اور ایک لکھنؤ میں قائم ہوا آپ اس کے سکریٹری تھے رابطہ ادب اسلامی کی ترجمانی خط و کتابت اور خاص طور پر جلسوں کے کنڈکٹ کرنے کی خدمت انھیں کے سپرد کی جاتی تھی اور وہ اس کو بڑے اطمینان و اعتماد کے ساتھ انجام دیتے تھے اس کا ان کو ایک خاص ملکہ تھا ۔ 
ماہنامہ البعث الاسلامی ، الرائد، تعمیر حیات ، معارف، صدق جدید، برہان ، الہدیٰ ، محدث، قومی آواز وغیرہ میں علمی ادبی تاریخی اور مذہبی مضا مین لکھتے رہے آپ کے مضامین پڑھنے سے آپ کے ذوق تحقیق وسعت نظر اور قوت استدلال کا پتہ چلتا ہے ۔ عربی ادب میں آپ کے مضامین اہم و معیاری ہوتے تھے جو کچھ لکھتے مختصر اور جامع لکھتے آپ کے اردو مضامین اور کتابوں کے ترجمے بہت دلکش ، شگفتہ اور رواں ہوتے تھے ، الفاظ سادہ اور عام فہم ہوتے تھے اسی وجہ سے آپ کی تحریریں ہر طبقہ میں بہت مقبول تھیں ۔ کبھی کبھار آل انڈیا ریڈیو سے آپ کی تقریر یں بھی نشر ہوتی تھیں۔ 
مولانا نور عظیم ندوی ملت کی ایک متاع عزیز تھے۔ افسوس اب ایسی شخصیت کہاں دیکھنے کو ملے گی جن کا وجود سر تا پا خیر ہو اور جن کی زندگی ایثار مجسم ہو۔ 
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب عطا فرمائے اور ان کو اپنے مقام رحمت و رضا میں جگہ دے۔ آمین 
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ۔ بلرام پور یوپی
مولانا نور عظیم ندوی نمبر نقوش نور لکھنؤ 
۲۲ ؍مارچ ۱۹۹۳؁ء 
٭٭٭٭

 ڈاکٹر رضاء اﷲ مبارک پوری رحمہٗ اﷲ 

(۱۹۵۲؁ء ــــ ۲۰۰۳؁ء )
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر 
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر 
حضرت العلام الشیخ دکتور رضاء اﷲ محمد ادریس مبارک پوری رحمہ اﷲ ضلع اعظم گڑھ کے مشہور و معروف قصبہ مبارک پور میں۱۹۵۲؁ء کو پیدا ہوئے آپ عالم اسلام کے مشہور محدث و فقیہ مولانا عبد الرحمن صاحب مبارک پوری ( صاحب تحفۃ الاحوذی) کے پوتے تھے ، بچپن ہی سے نجابت ، شرافت متانت سنجیدگی کے آثار نمایاں تھے۔ 
ابتدائی تعلیم اپنے خاندانی ادارہ دارالتعلیم میں حاصل کی ۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے جامعہ رحمانیہ بنارس میں داخلہ لیا جامعہ سلفیہ بنارس کھل جانے کے بعد اس ادارہ میں صرف چوتھی جماعت ہی تک تعلیم ہوتی تھی اسلئے جامعہ رحمانیہ کا کورس مکمل کرنے کے بعد جامعہ سلفیہ میں داخلہ لیا اور ۱۹۷۴؁ء میں وہاں سے عا لمیت کی سند حاصل کی اس کے بعد مراکش کے مشہور عالم دین ڈاکٹر تقی الدین ہلالی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ان کی خدمت میں تقریباً دو سال رہ کر جملہ علوم و فنون میں انشراح عقیدت و سنت اور عربی زبان و ادب میں پختگی پیدا کی ۔ لکھنے اور بولنے میں مہارت تامہ حاصل کی وہیں سے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے لئے رخت سفر باندھا اور کلیۃ الحدیث سے ۱۹۸۰؁ء میں لیسانس (B A) کی ڈگری حاصل کی پھر شعبۂ عقیدہ میں داخلہ لے کر ماجسٹر اور دکتورہ کی ڈگری حاصل کی ۔ 
مدینہ منورہ سے فراغت کے بعد وطن لوٹ کر جامعہ سلفیہ بنارس میں شعبۂ تدریس و تصنیف سے وابستہ ہوگئے اور آخری دم تک منسلک رہے۔ 
آپ کے اساتذہ میں مولانا قرۃ العین ، مولانا عزیز احمد ندوی ، مولانا عبد السلام رحمانی شیخ الجامعہ مولانا عبد الوحید رحمانی ، مولانا عبد المعید بنارسی ، مولانا عابد حسن رحمانی ، ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری ، مولانا عبد السلام مدنی ، مولانا عبد الحنان فیضی ، مولانا محمدرئیس ندوی قابل ذکر ہیں ۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے اساتذہ میں شیخ حماد محمد انصاری ، شیخ عبد المحسن العباد ، شیخ عمر فلاتہ ،ڈاکٹر اکرم ضیا عمری ، ربیع ہادی مدخلی ، ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی اور ڈاکٹر عبد الفتاح سلاد آپ کے مشفق اساتذہ میں تھے۔ 
آپ کے تلامذہ کی اچھی خاصی تعداد ہے جو ہند و بیرون ہند میں اپنے اپنے مجال کار میں مصروف عمل ہیں ۔ 
آپ بیک وقت صحافت اور خطابت دونوں کے شہسوار تھے عربی اور اردو دونوں ہی زبانوں میں یکساں مہارت حاصل تھی علم حدیث اور فقہ پر بڑی گہری نظر تھی آپ نے علمی زندگی کا بیشتر حصہ تصنیف و تالیف اور تحقیق و تدقیق میں گذارا فضل و تقویٰ خاندانی وجاہت اور گوں نا گوں صلاحیتوں کے سبب آپ کا شمار چند چیدہ و چنندہ شخصیتوں میں ہوتا تھا سنجیدگی متانت صبر و تحمل انکساری تواضع و خاکساری کا مجسم پیکر تھے۔
آپ کی متعدد تصانیف اردو عربی دونوں زبانوں میں مطبوع ہیں ان کے علاوہ مجلہ صوت الامۃ ، محدث، جریدہ ترجمان ، اشاعۃ السنہ میں شائع ہونے والے علمی اور تحقیقی مقالے آپ کے علم کی جیتی جاگتی تصویر ہیں ماضی قریب میں جب ہندوستان میں سنت کی مخالفت کا علماء سوء نے فتنہ کھڑا کیا اور سلفیت پر یلغار اورانحراف عن السنہ کا بازار گرم کیا تو اس فتنے کا قلع قمع کرنے اور اس کا سر برُید کرنے کے لئے آپ نے اپنا قلم وقف کردیا تھا ۔
آپ کی جملہ تصانیف و تحقیقات میں عربی زبان میں الرد علی من قال بخلق القرآن لابن النجاد۔ کتاب العظمۃ لابی الشیخ اصبھانی اور کتاب الفتن لابی عمروالدانی قابل ذکر ہیں ۔ اردو زبان میں ایک کتاب’’ سلفیت کا تعارف ‘‘آپ کی گرانقدر تصنیف ہے ۔ 
آپ ترجمہ و تالیف کے ساتھ ساتھ اور بہت ساری ذمہ داریاں نبھا رہے تھے چنانچہ جامعہ سلفیہ بنارس کے شیخ الجامعہ تھے سعودی جامعات کے فضلائے ہندو نیپال کے صدر ، فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ کے رکن اور مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے نائب امیر کے عہدے پر فائز تھے۔ 
صوبائی جمعیت اہل حدیث ہند ممبئی عظمیٰ کی دین رحمت کانفرنں میں ۳۰؍ مارچ ۲۰۰۳؁ء کو قضا و قدر کے عنوان پر تقریر کرتے ہوئے یہ جملہ بھی کہا میں ابھی تقریر کر رہا ہوں لیکن کون جانتا ہے کہ تقریر کے بعد زندہ رہوں گا یا نہیں ؟ خطاب مکمل کر نے کے بعد اسٹیج پر بیٹھ گئے کچھ تکان محسوس کی تو ہوٹل کامران کیلئے روانہ ہوگئے لیکن راستہ میں طبیعت زیادہ بگڑ گئی اور قریب کے فوزیہ اسپتال میں داخل کردئیے گئے لیکن دل کے دورے سے جانبر نہ ہوسکے اور اس طرح ۳۰؍ مارچ ۲۰۰۳؁ء بروز اتوار ڈھائی بجے قضا و قدر نے آپ کو ہمیشہ کیلئے آرام کی نیند سلا دیا ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون 
اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ 
 آہ! رضاء اﷲ رحلت کرگئے سخت ہیں مغموم ان کے اقرباء 
حکم رب سے دار فانی چھوڑ کر ہوگئے وہ راہی ملک بقا
 ہجری سن چودہ صد و چوبیس کو اک چراغ علم و حکمت بُجھ گیا 
 ہر نفس ہر گام پر پیش نظر تھی رضا اﷲ کو تیری رضا 
 اے خدا پسماندگاں کو صبر دے اور کر مرحوم کو جنت عطا
  عبد الرؤف خاں ندوی تلسی پور ۔ بلرام پور 
اب آئیے محترم مولانا اسحق بھٹی حفظہ اﷲ کے قلم سے مفصل حالات ملاحظہ فرمائیں : 
صوبہ یوپی کے ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ ’’ مبارک پور‘‘ کو طویل مدت سے علم و عمل کے گہوارے کی حیثیت حاصل ہے ۔ یہی وہ قصبہ ہے جہاں حضرت مولانا عبدالرحمن محدث مبارکپوری پیدا ہوئے اور اپنی تصنیفی و تدریسی سر گرمیوں کی بنا پر انھوں نے پوری اسلامی دنیا میں شہرت پائی ۔ انہی کے اخلاف میں ایک عالم باعمل ڈاکٹر رضاء اﷲ مبارک پوری نے جنم لیا، جنھوں نے نہایت اہم علمی کارنامے سر انجام دئیے اور ان کارناموں کی وجہ سے بر صغیر کی دینی تاریخ نے ہمیشہ کے لئے ان کا نام اپنے سینے میں محفوظ کرلیا۔
ڈاکٹر رضاء اﷲ کے والد گرامی حاجی محمد ادریس جراح تھے۔ وہ فن طب کے شعبۂ جراحی میں مہارت رکھتے تھے، اس لئے انھیں جراح کہا جاتا تھا، اور ان کا یہ پیشہ ان کے نام کا جز بن گیا تھا۔ وہ با قاعدہ عالم تو نہ تھے لیکن عابد و زاہد اور تہجد گزار تھے ۔ ۱۹۰۷؁ء کے پس و پیش پیدا ہوئے اور ۱۵؍جولائی ۱۹۸۰؁ء کو وفات پائی ۔
حاجی محمد ادریس جراح کی نرینہ اولاد پانچ بیٹے تھے۔ جن کے علی الترتیب نام یہ ہیں : 
(۱) عبد القوی (۲) ڈاکٹر محمد تقی اعظمی(۳) ڈاکٹر احمد اﷲ (۴) ڈاکٹر رضاء اﷲ سلفی مدنی (۵) ضیاء اﷲ۔ 
ان سطور میں اپنی معلومات کے مطابق قارئین سے حاجی محمد ادریس جراح کے چوتھے فرزند ڈاکٹر رضاء اﷲ کا تعارف کرانا مقصود ہے ۔
حاجی محمد ادریس جراح ، حکیم محمد شفیع کے بیٹے تھے۔ اور حکیم محمد شفیع حضرت مولانا عبدالرحمن مبارک پوری کے چھوٹے بھائی تھے ۔ اس طرح ڈاکٹر رضاء اﷲ صاحب ،مولانا مبارکپوری رحمہ اﷲ کے پوتے ہوئے۔ ان کا نسب نامہ جو معلوم ہوسکا ، یہ ہے : رضاء اﷲ بن حاجی محمد ادریس بن حکیم محمد شفیع بن حافظ حکیم عبد الرحیم بن شیخ بہادر۔
ڈاکٹر رضاء اﷲ ایک روایت کے مطابق ۳۰؍دسمبر ۱۹۵۴؁ء کو پیدا ہوئے اور ایک اور روایت کی رو سے جسے صحیح روایت کہا جاتا ہے ، ان کا سال ولادت ۱۹۵۲؁ء ہے۔
ابتدائی تعلیم اپنے گھر اورآبائی مدرسہ عربیہ دارالتعلیم مبارک پور میں حاصل کی ۔ اس کے بعد جامعہ رحمانیہ بنارس میں داخلہ لیا اور یہاں کے ’’شعبۂ مولوی ‘‘میں چار سال تعلیم پاتے رہے ۔ جامعہ رحمانیہ بنارس میں جن اساتذہ سے استفادہ کیا وہ تھے مولانا عزیز احمد ندوی، مولانا عبد السلام رحمانی ،مولانا قرۃ العین ، مولانا عبد السلام طیبی، ماسٹر عبد الحمید اور ماسٹر فیروز الدین۔
بعد ازاں ۱۹۷۰؁ء میں جامعہ سلفیہ بنارس کے شعبۂ عا لمیت میں داخل ہوئے اور ۱۹۷۴؁ء میں عا لمیت کی سند لی۔ عربی کی پہلی جماعت سے لیکر آٹھویں جماعت تک جامعہ سلفیہ (بنارس) میں جن اساتذہ سے حصولِ فیض کیا وہ تھے مولانا عبد المعید بنارسی ،مولانا عبدالوحید رحمانی ،مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی ، مولانا شمس الحق سلفی، مولانا محمد عابد رحمانی ، ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری ، مولانا محمد رئیس ندوی، ماسٹر شمس الدین وغیرہ۔
ڈاکٹر رضاء اﷲ کو جامعہ سلفیہ کی فضیلت کورس میں داخل ہوئے تھوڑا عرصہ ہوا تھا کہ وہاں ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی تشریف لائے ۔وہ حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری کے شاگرد تھے۔ اور مبارک پور میں رہے تھے ۔ اس لئے اس خاندان کے لوگوں کا بے حد احترام کرتے تھے ۔ ڈاکٹر ہلالی نے ڈاکٹر رضاء اﷲ کو مراکش آنے کی دعوت دی ، چنانچہ وہ وہاں گئے اور تقریباً دو سال ان کے پاس رہے ۔ سفر و حضر میں ان کا تعلق ڈاکٹر ہلالی سے رہا ۔ اس اثنا میں انھوں نے عربی زبان و ادب کی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کی اور اس پر عبور حاصل کیا ۔ زبان کے علاوہ ان کا قلم بھی اس زبان سے آشنا ہوا اور ان کی عربی تحریر وتقریر میں پختگی آئی۔ نیز عقیدہ و عمل کے سلسلے میں کتاب و سنت سے تعلق کی راہیں اور مضبوط ہوئیں ۔ پڑھنے میں تیز تھے اور ذہن رسا پایا تھا ۔صالحیت کے جوہر سے بھی بارگاہِ الٰہی سے نوازے گئے تھے ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حصولِ علم کے میدان میں روز بروز آگے بڑھتے گئے اور اﷲ نے کامیابی عطافرمائی۔
پھر ایک وقت آیا کہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخل ہوگئے۔ وہاں کے اہل علم کی صحبت میسر آئی اور مختلف ملکوں کے اساتذہ سے اخذ فیض کے مواقع ملے۔ وہاں ان کی صلاحیتوں کو مزید جلا ملی اور عمل و فکر میں نکھار پیدا ہوا۔ ۸۰۔۱۹۷۹ء میں کلیۃ الحدیث کی ڈگری لیانس(بی اے) ممتاز پوزیشن میں حاصل کی۔
اس کے بعد ۱۹۸۵؁ء میں ماجستر (ایم اے) اعلیٰ درجے میں پاس کیا۔
۱۹۸۹؁ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بہترین پوزیشن میں حاصل کی۔ ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع تھا’’ تحقیق و دراسۃ السنن الواردۃ فی الفتن لابی عمر والدانی‘‘ (متوفی ۴۴۴؁ھ) اپنے موضوع کے اعتبار سے اس کتاب کا شمار مراجع و مصادر میں کیا جاتا ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نعیم بن حماد کی ’’ کتاب الفتن‘‘ کے علاوہ اہل علم کو اس موضوع کی کسی اور کتاب کا پتہ نہیں چل سکا۔ کتاب کے موضوع کا تعلق اسلام کے بنیادی عقائد سے ہے۔ یعنی ایمان بالآخرت ، علامات قیامت حشر و نشر کے احوال جیسے اہم اصولوں پر سند کے ساتھ کتاب میں نبی ﷺ کی احادیث جمع کی گئی ہیں۔ 
ڈاکٹر رضاء اﷲ صاحب نے اس کتاب کو پی ایچ ڈی کے لئے کیوں منتخب کیا ؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :
(۱)…… یہ کتاب اس زمانے میں لکھی گئی ، جسے علوم دینیہ بالخصوص علوم حدیث کے لئے دور زریں (عصر ذہبی) سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ 
(۲)…… کتاب قدیم محدثین کے طرز پر لکھی گئی ہے ۔ مؤلف کتاب نے موضوع سے متعلق تمام احادیث و آثار کو اپنی سند سے بیان کیا ہے۔ 
(۳)…… اس موضوع کی تمام قدیم کتابیں مفقود یا معدوم ہیں۔ صرف نعیم بن حماد کی’’ کتاب الفتن‘‘ موجود ہے۔ 
(۴)…… امام ذہبی نے اس کتاب کی تعریف کرتے ہوئے مؤلف کتاب کے تبحر علمی کا اعتراف کیا ہے۔ 
(۵)…… مؤلف کتاب صحیح العقیدہ اور سلیم المنہج ہیں ۔ ۱؂ 
جامعہ اسلامیہ ( مدینہ منورہ) سے فراغت پانے اور پی،ایچ،ڈی کرنے کے بعد بہ حیثیت استاد ان کا تقرر جامعہ سلفیہ (بنارس) میں ہوا ۔ یہاں آکر انھوں نے بہت کام کیا ۔ تدریسی بھی اور تحریری بھی۔ یہ بارہ تیرہ سال کا عرصہ بنتا ہے ۔ اس عرصے میں وہ حسب ذیل مناصب پر فائز ہوئے۔ 
٭…… جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فارغین کے پروگرام میں انھوں نے نیپال اور ہندوستان کے فضلاء کے نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی اور مقالے پڑھے۔ جس سے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے ارباب انتظام اور حکومت سعودیہ کے معزز ارکان نہایت متاثر ہوئے۔ 
٭…… رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کی تنظیم مجمع الفقہ الاسلامی کے رکن بنائے گئے اور اس کے اجلاس میں مقالے پیش کئے اور ارکانِ تنظیم کو صحیح مشورے دئیے۔
٭…… سفارت خانہ مملکت سعودیہ عربیہ دہلی نے نیپال اور ہندوستان کے سعودی جامعات سے فارغ ہونے والے حضرات کی ایک جمعیت قائم کی ، جس کے صدر ڈاکٹر رضاء اﷲ کو 
 ۱؂ تفصیل کے لئے دیکھئے ماہنامہ’’ محدث‘‘ کا ڈاکٹر رضاء اﷲ نمبر جون ؍دسمبر ۲۰۰۳ء ص:۱۰۹تا ۱۱۱ 
 مضمون’’قصبہ مبارک پور کا ایک علمی خانوادہ‘‘ (مولانا عزیز الرحمن سلفی استاذ جامعہ سلفیہ بنارس) 
بنایا گیا۔ مختلف اوقات میں ان کے زیر صدارت متعدد مقامات پر اس جمعیت کے اجلاس منعقد کئے گئے اور ڈاکٹر صاحب نے ان حضرات کی رہنمائی فرمائی۔ 
٭…… جمعیت احیاء التراث الاسلامی کویت کے وہ معتمد خاص تھے۔ رمضان المبارک کی تعطیلات میں وہاں کے تبلیغی اجلاسوں میں ان کی تقریروں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ اس تنظیم کی طرف سے امریکہ میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں بھی انھوں نے شرکت کی ۔ ان کانفرنسوں میں انھوں نے مقالے بھی پڑھے اور تقریریں بھی کیں ۔ 
٭…… مرکزی جمعیت اہل حدیث کے وہ نائب صدر منتخب کئے گئے ۔
٭…… جامعہ سلفیہ بنارس کے شیخ الجامعہ بنائے گئے ۔ ۱؂ 
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے زمانۂ طالب علمی اور جامعہ سلفیہ بنارس کے عہد تدریس میں ڈاکٹر رضاء اﷲ نے عربی اور اردو میں جو تحریری اور تصنیفی خدمات سر انجام دیں، ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱)…… تحقیق و تعلیق علیٰ کتاب الرد علیٰ من یقول القرآن مخلوق لابی بکر النجاد (عربی) مطبوعہ کویت ۔
(۲)…… تحقیق و تعلیق کتاب العظمہ لابی الشیخ الاصفہانی (متوفی ۳۷۴ھ)۵ جلدیں۔ عربی مطبوعہ ریاض ( سعودی عرب) 
(۳)…… تحقیق و تعلیق السنن الواردۃ فی الفتن واشراط الساعۃ لابی عمر والدانی (متوفی ۴۴۴ھ) ۳ جلدیں (عربی) مطبوعہ ریاض
(۴)…… تحقیق و تعلیق کتاب الاہوال لابن ابی الدنیا ۔ (عربی) مطبوعہ بمبئی 
۱؂ ماہنامہ محدث (بنارس) خاص نمبر ص: ۹۷،۹۸ 
(۵)…… ایمان بالیوم الآخر (اردو) مطبوعہ دہلی 
(۶)…… تذکرہ فی الحدیث النبوی مع ترجمہ اردو مطبوعہ (مرکزی جمعیت اہل حدیث) دہلی۔
(۷)…… سلفیت کا تعارف : اردو ۔مطبوعہ 
(۸)…… بئس ما فعل اخو العشیرۃ (عربی) 
(۹)…… موجودہ حکو متوں کے پارلیمانی انتخاب میں حصہ ( ترجمہ اردو)
(۱۰)…… مومنہ عورتوں کیلئے تنبیہ (ترجمہ اردو) 
(۱۱)…… کتاب الجنائز (حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری کی اردو کتاب کا عربی ترجمہ) 
(۱۲)…… شیخ محمد بن عبد الوہاب کے بارے میں دو متضاد نظرئیے۔ (از شیخ محفوظ الرحمن فیضی ) عربی ترجمہ ۱؂ 
ان تصانیف و تراجم کے علاوہ ڈاکٹر رضاء اﷲ مبارک پوری کے بہت سے مقالات و مضامین اردو و عربی رسائل و جرائد میں شائع ہوئے ۔ اردو رسائل میں ترجمان دہلی اشاعۃ السنہ دہلی اور محدث بنارس شامل ہیں ۔ عربی رسائل میں بنارس کا صوت الامۃ خاص طور سے قابل ذکر ہے۔ جس میں ان کے رشحات قلم کی اشاعت ہوئی۔ صوت الامہ میں ان کا ایک عربی مضمون قسط وار شائع ہو رہا تھا ، جس میں انھوں نے یہ وضاحت کی تھی کہ ہندوستان اور نیپال کے جن حضرات نے سعودی عرب کی جامعات میں تعلیم حاصل کی وہ کہاں کہاں علمی اور تدریسی خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور کس قدر محنت اور ہمہ جہتی سے ان کا سلسلۂ خدمت دین جاری ہے۔ 
فضل وکمال کی فراوانی کے با وصف ڈاکٹر رضاء اﷲ مبارک پوری نہایت نرم خو ، حد درجہ 
۱؂ ماہنامہ محدث (بنارس) خاص نمبر ص: ۹۷،۹۸ 
متواضع، منکسر المزاج اور سادہ طبیعت تھے ۔ اپنے اسلاف کا صحیح ترین نمونہ۔ 
مسلک اہل حدیث کی اشاعت و ترویج میں منہمک اور اس کی دفاع کیلئے ہر وقت آمادہ تیار ۔ سلفیت سے متعلق اپنی ایک کتاب میں انھوں نے سلفیت کا جامع الفاظ میں تعارف کرایا ہے ۔ ماہرین لغت اور ائمہ دین کے اقوال کی روشنی میں اس کے مفہوم کی وضاحت اور سلفیت کے منہج کی تشریح کی ہے ۔ نیز بتا یا ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں ان لوگوں کو محمدی ، اہل حدیث ، اہل اثر، موحد اور سلفی وغیرہ ناموں سے پکارا گیا۔ یہ بحث انھوں نے مستند و معتبر حوالوں سے کی ہے۔ ۱؂ 
جامعہ سلفیہ بنارس کے ایک استاذ مولانا محمد یحییٰ فیضی لکھتے ہیں :
’’ ڈاکٹر رضاء اﷲ شیخ الجا معہ ہو نے کے باوجود اتنے متواضع و خاکسار تھے کہ جب طلبا کے کمروں میں جاتے تو باہر پڑے ہوئے روٹی کے ٹکڑوں کو چن چن کر برتن میں رکھتے اور کہتے کہ یہ اﷲ کی نعمت ہے۔ آپ لوگوں کو کھانے پینے کی اتنی فراوانی ہے جب کہ فلسطین و افغانستان اور گجرات کے لوگ نانِ شبینہ کے محتاج ہیں ۔ اگر کبھی کوئی طالب علم پانی کی ٹونٹی کھلی چھوڑ دیتا تو اسے اپنے ہاتھ سے بند کرتے اور اﷲ کی ایک ایک نعمت یاد دلاتے ، سمجھاتے، تنبیہ کرتے اور کفرانِ نعمت پر اﷲ تعالیٰ کی وعید یاد دلاتے ہوئے یہ آیت کریمہ تلاوت فرماتے لئن شکرتم لازیدنکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید ( اگر تم ہماری نعمتوں کا شکر ادا کروگے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو جان لو کہ میرا عذاب بہت سخت ہے ‘‘۔ ۲؂ 
یہ طلباء کی تربیت کیلئے ان کا ایک انداز تھا اور اس کیلئے وہ ہر وقت کوشاں رہتے تھے ۔ 
جامعہ سلفیہ کے استاذ مولانا عبد المتین مدنی تحریر فرماتے ہیں :
۱؂ ملاحظہ ہو محدث بنارس کا خاص نمبر ص: ۱۳۵۔ مضمون مولانا عبد المنان سلفی ۔ بہ عنوان ’’ ڈاکٹر رضاء اﷲ مبارک پوری اور سلفیت کا دفاع‘‘ ۲؂محدث خاص نمبر ص ۱۳۸ (مضمون ’’ ڈاکٹر رضاء اﷲ بحیثیت شیخ الجامعہ‘‘ ) 
شہر بنارس کے اہل حدیث مساجد میں جامعہ سلفیہ کے اساتذہ اور فارغین خطبۂ جمعہ دیا کرتے ہیں ڈاکٹر صاحب مرحوم بھی بہت پابندی کے ساتھ مختلف مساجد میں مثلاً مسجد سلفیہ ، مسجد حافظ ظہور ریوڑی تالاب ، مسجد اشفاق نگر ، مسجد نیمیاں، مسجد فاطمہ روڈ ،مسجد باگر بلی میں حسب موقع خطبہ دیا کرتے تھے ۔ اصلاح عقیدہ ، دعوت الی اﷲ، اسلامی اخوت، حقوق الوالدین ، قبولیت دعا کے شرائط رز ق حلال کی اصلیت، اصلاح معاشرہ وغیرہ عنوانات پر وہ خطبہ دیتے ، جس میں آیات و احادیث بیان فرماتے اور آثار صحابہ و تابعین اور سلف صالحین کے واقعات سناتے۔ ان کا خطبہ بڑا مؤثر اور مربوط ہوتا تھا ۔ عوام و خواص توجہ سے ان کی باتیں سنتے اور پسند کرتے۔ 
مولانا عبد المتین مدنی مزید فرماتے ہیں :
شہر بنارس جلسے جلوس کا شہر ہے ۔ یہاں چھوٹے بڑے جلسوں کا سلسلہ پورے سال چلتا ہے ۔ مدارس و جامعات کے اصحاب اہتمام بھی مختلف تعلیمی مناسبات سے جلسے منعقد کرتے ہیں اور مقامی سطح پرکام کرنے والی تنظیمیں بھی اس میں پیش پیش رہتی ہیں۔ اتحاد ابناء السلفیہ بنارس وہاں کے سلفی نوجوان کی فعال تنظیم ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم اس کے سر پرست تھے۔ اسی طرح جمعیت شبان المسلمین بھی نوجوانوں کی ایک تنظیم ہے۔ ان کے جلسے شہر بنارس میں بھی ہوتے ہیں اور مضافات ِ بنارس میں بھی۔ ڈاکٹر صاحب ان جلسوں میں شامل ہوتے، ان کی صدارت کرتے اور تقریریں کرتے تھے۔ ۱؂ 
یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ نہ ہم ہندوستان کے اہل علم کی تصنیفات سے مستفید ہوسکتے ہیں اور نہ انھیں آسانی سے پاکستانی مصنفین کی تصنیفی کاوشوں سے آگاہی حاصل ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نہ میں نے ڈاکٹر صاحب کو دیکھا ہے اور نہ ان کی زیادہ عربی یا اردو تحریریں پڑھنے کو میسر آئی ہیں۔ ماہنامہ ’’ محدث‘‘ کے خصوصی شمارے میں مولانا محمد فاروق اعظمی کا ایک مضمون 
۱؂محدث خاص نمبر ص ۱۴۰ (مضمون ’’ ڈاکٹر رضاء اﷲ مبارک پوری اور بنارس کی دعوتی سرگرمیاں‘‘ ) 
’’ڈاکٹر رضاء اﷲ مرحوم اپنے تحریر کے آئینے میں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے، اس میں فاضل مضمون نگار رقم طراز ہیں : 
ڈاکٹر رضاء اﷲ کی تحریروں میں طنز و مزاح کا بڑا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کے طنز میں شوخی بھی ہے اور سنجیدگی بھی ہے۔ مفکرانہ بصیرت بھی ہے اور گہری تنقید بھی ہے۔ ان کامقصد مخاطب کی تحقیر و تذلیل نہیں بلکہ اس کی اصلاح ہے ۔ اس کو آئینہ دکھانا ہے۔ جس میں وہ اپنے ان عیوب کو خود دیکھ لے جن کو بنیاد بنا کر وہ دوسروں کو اپنی تنقید کا ہدف بناتا ہے ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ڈاکٹر رضاء اﷲ بنیادی طور پر ایک طنز نگار یا مزاح نگار ادیب ہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ وہ محقق ، دانش ور اور متبحر عالم دین ہیں ۔ ان کی تحریریں سنجیدگی اور متانت سے ایک لمحہ کیلئے بھی دامن کش نہیں ہوتیں ان کے طرز تحریر میں ہر جگہ ان کا عالمانہ وقار قائم ہے۔ تاہم قدرت نے ان کے قلم کو طنز و مزاح کا ایک فطری ذوق عطا کیا ہے جس کے استعمال کا ہنر بھی وہ خوب جانتے ہیں ۔ ان کی طنز نگاری میں ان کی فکری گہرائی ، ان کے علم کی وسعت ان کی طبیعت کی سلامت روی ، ان کے مزاج کی شگفتگی ان کی زبان کی شیرینی اور لہجے کی لطافت وغیرہ سب چیزیں بیک وقت محسوس کی جا سکتی ہیں ۔ ۱؂ 
مولانا خورشید احمد سلفی اپنے مضمون ’’ ڈاکٹر رضاء اﷲ مبارک پوری کا اسلوب نگارش‘‘ میں لکھتے ہیں : 
ڈاکٹر صاحب نے تصنیف و تالیف ، بحث و تحقیق اور رد و ابطال کے تعلق سے اپنی بہت سی تحریریں بطور یادگار اپنے پیچھے چھوڑی ہیں ، جن کے مطالعہ سے قلم پر ان کی مضبوط گرفت ، موضوع کی وضاحت ، زور ِ تحریر ، قوت انشاپردازی اور مسکت و مدلل انداز کا پتہ چلتا ہے کہ ان کا قلم کیسا معجز رقم تھا۔ الفاظ میں وقار ، حریف کے ساتھ خیر خواہی ، قارئین کو نصیحت اور شستہ و شگفتہ عبارت ، مخاطب کی عزت و مرتبت کا لحاظ۔ یہ اوصاف ہیں موصوف کے طرز ِ نگارش کے۔ ۲؂
۱؂ محدث خصوصی شمارہ ،ص: ۱۵۰ ۲؂ ایضاً ، ص ۷۰۱ 
ماہنامہ ’’ محدث ‘‘ کے اس خاص نمبر میں ہمارے دوست مولانا عارف جاوید محمدی ( جمعیت احیاء التراث الاسلامی کویت) کا مضمون بھی ‘‘ آہ ! رضاء اﷲ بھائی رحمہ اﷲ ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے ڈاکٹر صاحب کا حلیہ بیان کیا ہے ، لکھتے ہیں :
۱۹۸۷؁ء میں اﷲ تعالیٰ نے مجھے بیت اﷲ کی سعادت حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ۔ اس مبارک سفر میں رضاء اﷲ بھائی سے بھی ملاقات ہوئی ۔ خوب صورت نقوش ، گندمی رنگ، معتدل قامت ، کشادہ پیشانی ، چہرہ پر عالمانہ وقار ، طبیعت میں متانت و سنجیدگی لئے ہوئے خوبصورت سلفی نو جوان میرے سامنے تھا۔ وہ مجھ سے اس خندہ پیشانی اور تپاک سے ملے جیسے کہ ہم پہلے سے متعارف ہیں ۔ ان کا یہ انداز میرے دل کا مکین بن گیا ۔ وہ مجھے اپنے گھر لے گئے۔ ہماری تواضع کی۔ اس سفر میں میری والدہ مرحومہ بھی ساتھ تھیں ۔ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران وہ اکثر ہمیں ملتے رہے ۔ والدہ مرحومہ ا ن کے مودبانہ طرز عمل اور حسن اخلاق سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ انھیں اکثر یاد کرتی اور ان کے لئے دعا گو رہا کرتی تھیں ۔ 
مولانا عارف جاوید محمدی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس پہلی ملاقات کے بعد رضاء اﷲ بھائی سے ان کا مستقل رابطہ رہا اور معاملہ یہاں تک پہونچا کہ گویا ہم دونوں ایک ہی خاندان کے افراد ہیں ۔ جب انھوں نے پی، ایچ، ڈی کی ڈگری حاصل کی تو مدینہ یونیورسٹی کی طرف سے انھیں ’’ الجامعۃ الاسلامیہ العالمیہ ‘‘ (انٹر نیشنل اسلامی یونیور سٹی اسلام آباد ) میں تقرری کی پیش کش ہوئی۔ عارف صاحب کو قدرتی طور پر اپنے ملک میں اپنے دوست کی تقرری سے بے حد مسرت ہوئی اور انھیں یہاں ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ لیکن انھوں نے اپنے ملک ہندوستان میں رہنا پسند کیا اور اپنے دور طالب علمی کے اولین مرکز جامعہ سلفیہ (بنارس) میں تدریسی خدمات انجام دینے کو ترجیح دی اور پھر زندگی کے آخری دم تک وہیں رہے۔ 
ڈاکٹررضاء اﷲ صاحب مبارک پوری موجودہ دور کے مشہور مدرس تھے۔ تفسیر، حدیث، عربی ادب، صرف و نحو وغیرہ تمام علوم میں عبور حاصل تھا۔ اور نہایت محنت اور دلچسپی سے تعلیم دیتے تھے۔ کامیاب مدرس کے علاوہ تصنیف و تالیف اور تقریر و خطابت میں بھی خاص شہرت رکھتے تھے۔ تبلیغ دین میں ہر وقت کوشاں رہتے تھے۔ اور اسی راہ پر چلتے ہوئے اﷲ کے دربار میں پہونچ گئے۔
۳۰؍ مارچ ۲۰۰۳؁ء کو بمبئی میں رحمت کانفرنس منعقد ہوئی ، جس میں انھوں نے قضا و قدر کے موضوع پر تقریر کی۔ تقریر کے تھوڑی دیر کے بعد دل کا دورہ پڑا اور انہیں بمبئی کے فوزیہ ہسپتال لے جایا گیا اور وہیں انتقال کر گئے۔ تجہیز و تکفین کے بعد بمبئی کے کانفرنس کے پنڈال میں ان کا جنازہ ڈاکٹر فضل الرحمن سلفی مدنی نے پڑھایا ، جس میں پچاس ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی۔ بعد ازاں بذریعہ طیارہ ان کی میت ان کے آبائی وطن مبارک پور لائی گئی۔ وہاں ۳۱ ؍مارچ کو نماز مغرب کے بعد نماز جنازہ مولانا عبد اﷲ سعود سلفی( ناظم جامعہ سلفیہ بنارس) نے پڑھائی ، جس میں مبارک پور ، اس کے قرب و جوار اور دور دراز کے بے شمار لوگوں نے شرکت کی ۔ اس عالی قدر عالم و فاضل کو مبارک پور کے قبر ستان میں دفن کر دیا گیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔ تین شادیاں کیں، لیکن اولاد نہیں ہوئی۔ 
اﷲم اکرم نزلہ ووسع مدخلہ وادخلہ جنت الفردوس۔ 
(بشکریہ ماخوذ گلستان حدیث از مولانا محمد اسحق صاحب بھٹی حفظہ اﷲ) 

٭٭٭

مولانا شکراﷲ صاحب گونڈوی رحمہٗ اﷲ

(۱۹۰۰؁ء ــــ ۱۹۶۲؁ء )
حضرت العلام جناب مولانا شکراﷲ صاحب سمرہن کلاں جماعت کے ایک نامور عالم تھے انھوں نے زندگی بھر اسلام کی خدمت کی بڑے خو د دار اور وضع دار تھے۔مولانا شکر اﷲ صاحب کی زندگی کی پوری عمارت اعتدال و توازن کے قابل رشک اور خوبصورت ستونوں پر استوار تھی جس طرح ظاہر حسین تھا اسی طرح ان کے باطن میں حُسن کے جلوے کار فرما تھے۔ نمونہ سلف حضرت مولانا محمد اظہر بہاری اور مولانا اﷲ بخش بسکوہری ( جو میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگردوں میں تھے) کے وفات کے بعد علاقہ پھر شرک و بدعت کی طرف گامزن ہوا تو مولانا شکر اﷲ صاحب کو شرک وبدعت خرافات و منکرات کو ختم کرنے کیلئے اﷲ تعالیٰ نے اس علاقہ میں پیدا فرمایا ۔ 
آپ پچاس سال سے کچھ زیادہ ہی دعوت و تبلیغ درس و تدریس سر انجام دی ضلع اور بیرون ضلع کے بے شمار شاگردوں نے آپ سے کسب فیض حاصل کیا آپ نے اتنے لوگوں میں علم دین کی نشرو اشاعت کی کہ لا تحصی ولا تعد یہ درویش منش لوگ دین کے آبرو تھے۔ اور انہی کی سرگرمیوں سے اس علاقہ میں اسلام پھیلا۔ اور لوگوں نے اﷲ کی بتائی ہوئی سیدھی راہ پر چلنا شروع کیا مولانا کے دیگر یادگاروں کے علاوہ خاص یاد گاریں اور صدقہ جاریہ مدرسہ زینت العلوم اور آپ کی تالیف شدہ کتابیں اور آپ کے صاحبزادہ مولانا عبد الرب گونڈوی ہیں اس مرد مومن نے ساری زندگی دین اسلام کی خدمت کرتے ہوئے گزاری۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را 
اب ذیل میں ملاحظہ فرمائیے مولانا کے بارے میں مولانا کے چچیرے بھائی حکیم مولانا سمیع اﷲ صاحب علیگ کا مضمون ناچیز حکیم صاحب کا شکر گذار ہے کہ موصوف نے مولانا کے متعلق تفصیلی معلومات سے آگاہ کیا ۔ جزاک اﷲ احسن الجزاء 
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ، بلرام پور 
۱۰؍دسمبر ۲۰۱۲؁ء 
مولانا شکر اﷲ صاحب استاذ کے علاوہ آپ میرے چچا زاد بڑے بھائی بھی تھے۔ اور مربی بھی اورعظیم محسن بھی ورنہ ہاتھ میں قلم کے بجائے کچھ دوسرا ہوتا ۔ ہمارا خاندان وتدداء کے قریب موضع سرّہ سے وابستہ تھاجدّ امجد دُلار محمد عرف دَلاّ تھے یہ موضع نامعلوم کیوں راس نہ آیا تو سمرہن کلاں منتقل ہوگئے حکومت کی طرف سے تین مواضعات زمینداری میں تفویض ہوئے مگر سمرہن کلاں ہی کو ترجیح دیا ۔ موضع بنکٹوا اور سیوا نگر کو نظر انداز کردیا ۔ دلار محمد کی پانچ اولاد تھیں جن کے سب سے چھوٹے اور کمزور لڑکے مصاحب علی تھے۔ مصاحب علی کے بڑے لڑکے برخور دار مولانا کے والد محترم ہیں آپ کا ننہال گینسڑی تھا۔ جہاں اس وقت مولانا عبد الرب صاحب گونڈوی قیام پذیر ہیں ان کے مکان کے پورب سڑک سے دکھن طرف ان کا گھر تھا۔ صحیح طرح سے مولانا کی تاریخ پیدائش معلوم نہیں تاہم قرین قیاس یہ ہے کہ ۱۹۰۰ء ؁ کے قریب ہی سال پیدائش ہوگی ۔ مقام پیدائش سمرہن کلاں ہے مولانا محمد اظہر مسلم بہاری کا زمانہ تھا جن سے توحید و سنت کا دور دورہ تھا ان کے انتقال کے بعد علاقہ پھر شرک و بدعت میں ڈوب گیا گونڈہ سے پورب کھراسہ کے میاں صاحب کٹر سنّی تھے بدعت کا شہرہ تھا تاہم میاں صاحب کی آمد سے مزید شرک سے لوگ کتراتے نظر آتے تھے دعوت سلفیت ، توحید و سنت کمزور ہوتی گئی اس ہمالیائی علاقہ پر پرور دگار عالم کی رحمت جوش میں آئی ۔ جب آپ سن شعور کو پہونچے تو میاں صاحب کی زیر تربیت پروان چڑھنے لگے اسی درمیان موضع مجہنی میں سرکاری مڈل اسکول کھل گیا آپ نے وہاں داخلہ لے لیا کچھ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعہ سراج العلوم بونڈھیار تشریف لے گئے وہاں سے فراغت کے بعد دہلی مدرسہ زبیدیہ پُل بنکس میں داخلہ لے لیا سند فراغت کے بعد اساتذہ کرام کی بے پناہ خواہش ہوئی کہ آپ مدرسہ زبیدیہ ہی میں درس و تدریس کا کام انجام دیں اور آپ کی شادی بھی کردی جائے مگر خاندان کے بزرگ چچا عبد الغنی جو ابھی جاپان سے حکومت ہند کی فوج میں شامل جاپان کی مدد کیلئے بھیجے گئے تھے۔ واپس آئے تھے ا ن کو پسند نہ آیا وہ دہلی مدرسہ زبیدیہ پہونچے اور اساتذہ کرام سے مولانا کی واپسی کیلئے انتہائی کوشش کی مگر اساتذہ سمرہن بھیجنے پر رضا مند نہ ہورہے تھے ان کاکہنا تھا کہ تم لوگ مشرک معلوم ہوتے ہو اور بدعتی بھی ، شکر اﷲ کو اپنے ماحول میں رنگ دو گے۔ وجہ یہ تھی کہ میاں صاحب کھراسہ والے چونکہ حنفی المسلک تھے اور دو ہاتھ سے ان لوگوں نے پہونچتے ہی مصافحہ کرنے کی کوشش کی تھی اسلئے وہ تیار نہ ہورہے تھے۔ چچا جوکہ فوجی وردی میں تھے معذرت کی اور توبہ بھی کیا قسمیں بھی کھائیں تب جاکر ان کے ساتھ مولانا کو بھیجنے پر راضی ہوئے۔ 
استادمحترم سمرہن کلاں واپس بلائے گئے درس و تدریس کیلئے کوئی مناسب جگہ نہ تھی اسی دوران آپ کی شادی موضع سمرا سابق ضلع بستی حال ضلع سدھارتھ نگر مولانا عبد المالک کی ہمشیرہ سے ہو گئی میرے پاس جانوروں کے باندھنے کی گھاری تھی اسی میں تعلیم دینا پسند کیا جگہ کشادہ اور صاف ستھری تھی اسلئے یہ نیک کام انجام پذیر ہونے لگا ۔ جس کے قریبی طالب علم جناب محمد صدیق صاحب خزانچی رام پور بھاری گواہ ہیں بچوں کے کھانے کا انتظام بھی میرے ہی غریب خانے میں ہوا یوں کہئے میرا گھر سمرہن میں پہلا دینی درسگاہ یا دینی قلعہ قرار پایا بقول شخصے ؂ 
نہ ایٹم ان کے ہاتھوں میں نہ راکٹ ان کے پیروں میں 
جلائی مشعل قرآن و سنت بس اندھیروں میں 
مدرسہ زینت العلوم : مولانا کی تقریر اور خلوص نے پورے علاقے کے ہندو اور مسلمانوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا مدرسہ کیلئے جگہ کی تلاش جاری تھی بحمد اﷲ موجودہ جگہ مل گئی مدرسہ کا نام مدرسہ زینت العلوم رکھا گیا مشاورتی کمیٹی بنائی گئی جس میں پنچ عبد الغفور صاحب لکھوری عظمت اﷲ خاں ہری ہر پور ، کفایت اﷲ خاں گلرہا اور محمد زکریا خاں نبھونی رجواپور کے پردھان رمنگرہ کے رؤساء اس کمیٹی کے ممبر بنائے گئے بچے اور بچیوں کا ہجوم بڑھتا گیا ہرہٹہ کے عبد الرشید پردھان اسرائیل سرپنچ محمد الیاس خاں رموا پور کے کلو صاحب وغیرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ۔
پہلا اجلاس ہوا جس میں مولانا ابوالقاسم صاحب سیف بنارسی اور ان کے ہم عصر علماء اس اجلاس میں تشریف لائے ۱۹۳۶؁ء کو مدرسہ زینت العلوم کی بنیاد رکھی گئی ، اسٹاف کا اضافہ ہوا۔
یہ علاقہ توحید و سنت کے شیدائیوں کیلئے مدرسہ زینت العلوم مینارۂ نور ثابت ہوا مگر اسی درمیان موضع اکرہرا ضلع سدھارتھ نگر کے مولانا عتیق الرحمن صاحب توحید و سنت کو خیر باد کہتے ہوئے تلسی پور آدھمکے اور مدرسہ انوارالعلوم پھر مدرسہ عتیقیہ کی بنیاد ڈال کرشرک و بدعت کے فروغ میں منہمک ہوتے نظر آئے جو غالباً موضع سمرا کے رشتہ سے قریبی رشتہ دار بھی تھے۔ 
اولاد: لڑکوں میں مولانا عبد الرب گونڈوی لڑکیوں میں فاطمہ مومنہ قابل ذکر ہیں ۔
شاگرد:ویسے تو آپ کے شاگرد بے شمار ہیں۔ قابل ذکر شاگرد وں کے اسماء بالترتیب درج ذیل ہے۔ مولانا عبد الخالق بڈھی مولانا عبداﷲ سعیدی ہرہٹہ عبد الوکیل کسارہ بستی مولانا عبد المالک عبد الواحد ، عبد الوہاب ۔ ماسٹر عبد الستار قدسی کواپور منشی محمد ہاشم ادئی پور احمد اﷲ خاں رجوا پور وغیرہ وغیرہ ۔
حکیم مولانا محمد سلیمان صاحب بانی جامعہ عربیہ قاسم العلوم گلرہا مولانا کے خاص دوستوں میں شمار ہوتے تھے آپ اچھے حکیم و نباض بھی تھے حکیم محمد یونس وحکیم عبد المنعم صاحب مولانا کے خاص مداحوں میں سے تھے پنچ عبد الغفور صاحب لکھوری ہمیشہ مولانا کا تقریری پروگرام اپنے ہی مکان پر کراتے تھے جس میں چین پور ، بنکٹوا ،تلسی پور کا علاقہ پتنگوں کی طرح امڈ پڑتا تھا۔ 
آپ مؤلف بھی تھے شمع اسلام ، خطبات اسلام ، آئینہ اسلام ، عقائد اسلام وغیرہ کتابوں کا بے مثال تحفہ بھی دے گئے جو مولانا کیلئے صدقہ جاریہ ہے۔ 
وفات:۱۹۶۲؁ء مدرسہ ریاض العلوم دہلی میں میری تعلیم کا آخری سال تھا امتحان سالانہ بالکل قریب تھا۔ زوروں کی تیاری جاری تھی اسی درمیان میں مولانا کے وفات پانے کی اطلاع ملی میرے استاذ محترم ۱۹۶۲؁ء جنت الفردوس کو سدھار گئے اور میں اپنے استاذ و بھائی کی تجہیز و تکفین میں شریک ہونے سے کوسوں دور تھا میرے دل پر جو گذری وہ صرف اﷲ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔ 
بہر کیف مولانا عبد الرب صاحب گونڈوی کی رہنمائی میں تجہیز و تکفین اور تدفین عمل میں آئی ان گنت سو گواروں نے تڑپتا دل نم آنکھوں اور بوجھل قدموں سے اپنے رہنما کو آپ کی وصیت کے مطابق مدرسہ زینت العلوم کے بازو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ 
اﷲ تعالیٰ سے دلی دعا ہے کہ استاذ محترم کو جنت الفردوس میں جگہ دے آمین۔ 
ناچیز 
سمیع اﷲ ریاضی علیگ 
سمرہن کلاں یکم دسمبر ۲۰۱۲؁ء 

٭٭٭

شاعر اسلام مولانا ذکر اﷲ ذاکر ندوی رحمہ ﷲ 

(۱۹۲۹؁ء ـــــ ۲۰۰۶؁ء)
یہ دنیا اور اس کی چمک دمک فانی ہے حیات جاودانی بقا اور دوام صرف اﷲ کی ذات کو حاصل ہے ہر ذی روح کو اس دنیائے فانی سے عالم ابدی سفر کرنا ہے ۔
شاعر اسلام مولانا ذاکر ندوی ایک طویل علالت کے بعد مورخہ ۴؍ فروری ۲۰۰۶؁ء بروز سنیچر انتقال فرما گئے۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون 
یہ حادثہ جانکاہ بجلی بن کر گری اور علاقہ میں صف ماتم بچھ گئی ذاکر صاحب نے مکتب کی تعلیم بسکوہر بازار میں اپنے والد محترم و مولانا عبد الستار اور میاں عبد الستار صاحبان سے حاصل کی اور جامعہ سراج العلوم بونڈھیار ۱۹۴۰؁ء سے ۱۹۴۷؁ء میں جماعت رابعہ تک تعلیم مکمل کی اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنؤ میں داخلہ لیا مولانا محمد عمران خاں ندوی بھوپالی کے اہتمام کا زریں دور تھا اور فضیلت کا کورس ۱۹۵۰؁ء میں مکمل کر کے سند فراغت حاصل کی ذاکر صاحب ذہین حاضر جواب تھے ان کی ذکاوت و صلاحیت اس بات سے عیاں ہے کہ وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے طلبہ یو نین’’ جمعیۃ الاصلاح ‘‘ کے ناظم رہے ندوی صاحب نے۷۷ سال کی عمر پائی۔ 
بسکوہر بازار ایک قدیم تاریخی و تجارتی منڈی ہے یہ ہمیشہ سے بڑا مردم خیز رہا ہے یہاں بڑے بڑے علماء و فضلاء صلحاء و اتقیاء ڈاکٹر انجینیر پیدا ہوئے ذاکر صاحب علامہ مولانا عبد الغفور مُلا فاضل بسکوہری رحمہ اﷲ کے چشم و چراغ تھے علامہ بسکوہری ۱؂ بڑی خوبیوں کے مالک تھے 
 ۱؂ علامہ بسکوہری ؒ کو اﷲ تعالیٰ نے تین لڑکوں اور ایک لڑکی سے نوازا تھا بڑے کا نام مولانا عبداﷲ سلفی دوسرے کا نام مولانا ذکراﷲ ندوی تیسرے کا نام ماسٹر فضل اﷲ تھا سبھی اﷲ کو پیارے ہوچکے ہیں۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون ان لڑکوں پر علامہ بسکوہری کی تعلیم و تربیت کی پوری چھاپ تھی اس وقت بھی گھر کے سبھی ارکان پر ( بقیہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں)
 اپنے وقت کے اجلہ علماء میں ان کا شمار ہوتا تھا انھیں استاذ الاساتذہ کا خطاب ملا ان کے علم و فضل علمی وجاہت کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی کہ انھوں نے دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں علمی مسند سجائی اور طلبہ کو علم سے سیراب کیا عظیم ادیب اردو و فارسی عربی پر پوری قدرت تھی ۔ درس و تدریس میں مہارت تھی ملک کے مشہور اہل حدیث جامعات و اداروں میں سالہا سال انھوں نے پڑھایا اور ہزاروں طلبہ کو علم کی زینت سے سنوارا۔
نومبر ۱۹۶۱؁ء میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا تین روزہ اجلاس عام بمقام نوگڈہ منعقد ہوا جس میں علامہ بسکوہری نے اس موقع پر بطور استقبالیہ عربی قصیدہ کہا تھا ۔ ذاکر صاحب نے اس کا منظوم اردو ترجمہ پیش کیا اس منظوم ترجمہ کی بات نہ بتائی جائے تو کوئی یہ پرکھ نہیں سکتا کہ یہ ترجمہ ہے ۔ چند عربی قصیدہ و ترجمہ قارئین کی ضیافت طبع کیلئے ہدیہ قارئین ہے۔ 
بستی و غوندہ لقد طابت دیارھما بطیب ھدی رسول اﷲ ذی الحر م
سرزمین بستی و گونڈہ ترا دور آگیا جن کے ہیں اعیان سب علام و فہام ہمام 
نفسی الغلاء لاسلاف لنا بذلو نفوسہم عنہ فی الانوار والظلم 
انکی خدمات جلیلہ آج بھی ہیں آشکار میں فدا ان پر ہوں کیسے تھے بزرگان کرام 
اﷲ بخش عباد اﷲ اظہرنا مخدومنا و خلیل منبت الکر م 
مولانا اﷲ بخش مولانا عباد اﷲ مولانا اظہر مخدوم پنچ ہرہٹہ اور چشم کرم حاجی محمد خلیل
شیخنا نعمۃ اﷲ الذی لمعت آثار خدمتہ الاسلام کالأطم 
محترم وہ نعمت اﷲ حاتم دوراں تھے جو جن کو ملی یادگاروں کوہے گردوں کو دوام 
ھذا سراج علوم من ماثرہ لم یستطیع حاسدأطفاء ہ نعم 
 (پچھلے صفحہ کا بقیہ )دینداری کا غلبہ ہے اور اسلامیات کے سخت پابند ہیں علمی گھرانہ کی خو رچی بسی ہے علامہ بسکوہری کے دیگر یادگاروں کے علاوہ آپ کے دو پوتے مولانا ذکاء اﷲ ندوی اور مولانا حمیداﷲ ندوی علامہ بسکوہری کے جاشین اور وارث ہیں (عبدالرؤف خاں ندوی) 
اک سراج علم وہ نیپال میں روشن کیا جس کے گردو پیش پروانوں کا ہے اک ازدحام
آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس نوگڈھ اور اس کے ارکان پر مشتمل اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔ 
الا ترون لھم بالھند موتمرا اعضاء ہ الشہروا بالعلم والفہم 
ایک کل انجمن قائم ہے ان کی اے خوشا جن کے ہیں اعیان سب علام و فہام ہمام 
شیخ الحدیث عبیداﷲ ۱؂ افضلنا ھوالمحکم فینا عند منحتصم 
صاحب تقویٰ عبید اﷲ وہ شیخ الحدیث منفرد ہے بحث اور تحقیق میں جن کا مقام 
نذیر احمد۲؂ فینا لا نظیر لہ فی العلم والفضل والانشاء بالقلم 
اور علامہ نذیر احمد ہیں بے شک بے نظیر جن کے خامے کی روانی جیسے دریا کا خرام 
طوبیٰ لنا ناب عنہم بعدہم خلف شدّ و مأ ندہم فی امر دینہم 
مرحبا و حبذا اپنے خلف کچھ کم نہیں جان و دل سے تھام کر بیٹھے ہیں ملت کا نظام 
عبدالرؤف ۳؂ ناموس لہ عبدالجلیل ۴ ؂ و اعون ذوہمم 
حضرت عبد الرؤف اور حضرت عبد الجلیل اور بھی ساتھی جو ہیں جادو رقم شیریں کلام 
آپ نے کئی کتابیں لکھیں مگر فاروق نامہ منظوم سر فہرست ہے جو شاہنامہ اسلام حفیظ جالندھری کے طرز پر حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کی سوانح حیات پر مشتمل ہے ۔ 
محترم قاضی محمد عدیل عباسی رحمہ اﷲ نے کسی دعوتی پروگرام کے موقع پر آپ کو حفیظ ثانی کا لقب دیا تھا ذاکر صاحب علاقہ و قرب و جوار میں پھیلے ہوئے شرک و بدعت کی تار و پود بکھیرنے توحید کی شمع آخری سانس تک جلاتے رہے علمی و جماعتی حلقوں میں آفتاب و ماہتاب بنکر چمکے آپ کی ذات 
۱؂ صاحب مرعاۃ المفاتیح شیخ الحدیث عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری 
۲؂ علامہ نذیر احمد رحمانی املوی ۳؂ خطیب الاسلام مولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈا نگری 
۴؂ مفکر ملت علامہ عبد الجلیل رحمانی رحمہ اﷲ 
گرامی ہمہ گیر شخصیت تھی دبلے پتلے نحیف لاغر اکثر کالی شیروانی اور علی گڑھی پائجامہ میں ملبوس نظر آتے تھے۔ 
ذاکر صاحب نیک متواضع خلیق ملنسار تھے سیاسی لوگ آپ کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے تھے سلفیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ذاکر صاحب دینی اور مذہبی امور میں بڑی دلچسپی رکھتے اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ۔ بسکوہر بازار آپ کے مکان کے بغل والی مسجد کی جب از سر نو تعمیر و توسیع کی بات آئی تو آپ نے ہمت مرداں مدد خدا کے پیش نظر اس عظیم ذمہ داری کو اپنے ناتواں کندھے پر اٹھا لیا اور عوام وخواص کے بھر پور تعاون سے اس مسجد کی تعمیر مکمل کراکے ہی دم لیا۔
اﷲ تعالیٰ نے ذاکر صاحب کو شعر و سخن اور نثر نگاری کے ساتھ ساتھ فن خطابت کی صلاحیت سے بھی نوازا تھا موضع جیتا پور میں تقریباً چالیس برس تک خطبۂ جمعہ کا فریضہ پابندی سے سر انجام دیتے رہے۔ ۴؍ فروری ۲۰۰۶؁ء بعد نماز مغرب بسکوہر میں وفات پائی دوسرے دن ۵؍ فروری ۲۰۰۶؁ء مولانا سید عبد الاول فیضی ریواں نے نماز جنازہ پڑھائی اور بسکوہر اپنے آبائی قبرستان میں مدفون ہوئے کثیر تعداد میں لوگ نماز جنازہ میں شامل ہوئے ۔ 
اﷲم اغفر لہ وراحمہ و عافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ 
ذاکر صاحب نے اپنے پیچھے ہرا بھرا خاندان چھوڑا ہے مولوی ذکاء اﷲ ندوی سلمہ اﷲ آپ ہی کے چشم و چراغ ہیں اﷲ تعالی ندوی صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔ بشری لغزشوں کو معاف فرمائے اور ان کے اعمال حسنہ کو شرف قبولیت بخشے۔ آمین 
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے 
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے 
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ۔ بلرام پور 
۱۵؍فروری ۲۰۰۶؁ء 

جناب حکیم مولانا عبد الحق صاحب رحمانی رحمہ اﷲ تھرولی

کوئی کاشانہ مکینوں سے نہیں خالی ہوا ہے چمن جس کا نہیں رخصت کوئی مالی ہوا 
جناب حکیم مولانا عبدالحق صاحب رحمانی بسکوہربازار ۱۹۰۳؁ء میں پیدا ہوئے آپ کے والد صاحب کا اسم گرامی نعمت اﷲ تھا اﷲ تعالیٰ نے آپ کو پانچ لڑکے اور پانچ ہی لڑکیوں سے نوازا تھا دو لڑکے اور دو لڑکیوں کو چھوڑ کر سبھی بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے۔ جو لڑکے اور لڑکیاں بقید حیات تھے ان کے نام درج ذیل ہیں مولانا محمد صدیق صاحب رحمانی مولانا عبدالحق صاحب رحمانی ، بشریٰ خانم ، اقلیمہ خانم۔
مولانا محمد صدیق صاحب رحمانی ومولانا عبد الحق رحمانی دونوں بھائیوں نے دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے سند فراغت حاصل کی اور مولانا اﷲ بخش بسکوہری سے بھی اخذ علم حاصل کیا، چند دنوں کے بعدمولانا محمد صدیق رحمانی بسکوہر سے تلاش معاش کے سلسلے میں صوبہ آندھرا پردیش کے ایک مشہور شہر وساکھاپٹنم تشریف لے گئے کئی اداروں سے وابستگی کے بعد وساکھا پٹنم میں سرکاری ملازمت مل گئی پھر اپنے بال بچوں کو مستقل طور پر وساکھا پٹنم بلا لیا اور وہیں ہو کر رہ گئے مولانا محمد صدیق صاحب رحمانی نے اپنی پوری زندگی درس و تدریس ، دعوت و تبلیغ اور مذہب اسلام کی خدمت میں صرف کردی ، کئی سال تک صوبائی جمعیت اہل حدیث آندھرا پردیش کے امیر جماعت تھے شعلہ بار خطیب تھے آپ کا خطاب بہت موثر ہوتا تھا جب آپ قیامت ، جنت ، دوزخ کے عنوان پر بولتے تومجمع پر سناٹا طاری ہوجاتا ، دوران خطاب سامعین رونے لگتے مولانا بہت ہی متواضع ، خلیق، ملنسار اور بامروت تھے ۱۹۸۳؁ء میں وساکھا پٹنم میں انتقال فرمایا اور وہیں سپر د خاک ہوئے۔ تغمدہ اﷲ برحماتہ
نعمت اﷲ صاحب نے اپنے دونوں لڑکوں محمد صدیق ۱؂ رحمانی اور عبد الحق رحمانی کو ایک ہی ساتھ دارالحدیث رحمانیہ میں حصول تعلیم کی غرض سے بھیجا تھا مولانا محمد صدیق صاحب رحمانی ومولانا عبد الحق صاحب رحمانی نے رحمانیہ دھلی سے سند فراغت ممتاز نمبرات سے حاصل کی اس کے بعد مولانا عبد الحق رحمانی نے دہلی طبیہ کالج میں داخلہ لیا جب فضیلت اور حکمت کی سند لیکر اپنے وطن بسکوہر بازار پہونچے تو والدین کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی چند سال والدین کی خدمت میں لگے رہے اس کے بعد مولانا نے بسکوہر بازار کو خیر باد کردیا اور ہجرت کرکے مع اہل و عیال گینسڑی بازار سے شمال جانب پانچ کلو میٹر دور موضع تھرولی میں آکر مستقلاً آباد ہوگئے۔
مولانا عالم دین کے ساتھ ساتھ اچھے حکیم بھی تھے اﷲ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں زبردست شفا عطا فرمائی تھی مولانا کے دولت خانہ پر (تھرولی) ہر وقت مریضوں کا ازدحام رہتا تھا کچھ دنوں درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری تھا دعوت و تبلیغ آپ کا خالص مشن تھا ۔ آپ نے پورے علاقے میں کلمۂ توحید بلند کیا اور لوگوں کو شرک و بدعت ، خرافات و منکرات سے دور رہنے کی تلقین کرتے رہے اور اپنے پیارے میٹھے انداز میں دین کی نشرو اشاعت کی مہم جاری رکھی مولانا اچھے مدرس تھے اچھے خطیب تھے اچھے حکیم تھے درس و تدریس دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ دین کی جس بنیادی خدمت کو آپ نے لازمہ ٔ حیات قرار دے رکھا تھا وہ شرک و بدعت خرافات و منکرات کے خلاف اعلان جنگ تھا مولانا پر اﷲ کی خوشنودی کا شامیانہ قائم رکھے انھوں نے نامساعد و 
 ۱؂ مولانا محمد صدیق رحمانی کو اﷲ نے چار لڑکوں اور چھ لڑکیوں سے نوازا تھا راشدہ مرحومہ کے علاوہ سبھی لڑکے اور لڑکیاں بقید حیات ہیں لڑکوں کے نام بالترتیب یہ ہیں عبد الرب۔ عبد الخالق ۔ جمیل احمد ۔ عبد القدیر ندوی اور لڑکیوں کے نام بالترتیب یہ ہیں ، شمیمہ خانم۔ عقیلہ خانم ۔ راشدہ مرحومہ۔ عطیہ خانم مُنّا خانم ۔ تنویر سلمہا ماشا اﷲ مولانا کے سبھی اولاد خوش حال ہیں اور سب بچوں پر دینداری کا غلبہ اور اسلامیات کے پابند ہیں ۔ (عبد الرؤف خاں ندوی)
ناموافق حالات میں دینی علوم کی ترویج و اشاعت کا اہتمام کیا لوگوں کے دکھ درد میں آپ برابر شریک رہتے تھے مولانا نیک صالح خداترس ، متقی عابد وزاہد شب زندہ دار تھے علاقہ کے عوام و خواص آپ کی بڑی عزت کر تے تھے آپ کی تحریک پر علاقہ میں کئی مسجدیں تعمیر ہوئیں جس میں سینکڑوں لوگ روزانہ پنج وقتہ نماز اور نماز جمعہ ادا کرتے ہیں آپ کی پُرزورتحریک و سفارش پر الحاج سمیع اﷲ خاں رئیس رنیا پور نے تلسی پور محلہ پوروا میں ضلعی جمعیت اہلحدیث کی جامع مسجد کی تعمیر کیلئے اپنی ذاتی زمین مفت میں عنایت فرمائی۔
مولانا نہایت سادہ زندگی بسر کرتے اور عوام میں گھل مل کر رہتے کسی سے کسی قسم کی کدورت نہیں رکھتے تھے ان کا آئینۂ قلب بُغض و عداوت کے داغ دھبوں سے صاف تھا کبیر بھگت کے الفاظ میں :
؂ کبیرا کھڑا بازار میں مانگے سب کی خیر نا کاہو کی دوستی نا کاہو سے بیر 
اس مرد درویش نے ہمیشہ وقار کی زندگی بسر کی اور انتہائی تکریم کے ساتھ اس دنیائے ناپائدار سے رخصت ہوئے۔
مولانا کے دو لڑکے ہیں جن کا اسم گرامی مولاناشمیم احمد اوراور مولانا نسیم احمدریاضی ہے شمیم صاحب مستقل موضع تھرولی میں رہتے ہیں اور مولانا نسیم احمد ریاضی سرکاری ملازمت پا جانے کی وجہ سے عرصہ سے مع بال بچوں کے ساتھ وساکھا پٹنم میں مستقل آباد ہوگئے ہیں ۔ حکیم صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے سات لڑکیوں سے نوازا تھا جن میں دو لڑکیوں کو چھوڑ کر سبھی اﷲ کو پیاری ہو چکی ہیں جو دو لڑکیاں بقید حیات ہیں ان کے نام یہ ہیں رقیہ خانم اور رضیہ خانم دونوں شادی شدہ اور بال بچے والیاں ہیں ،ماشاء اﷲ آپ کے سبھی لڑکے اور لڑکیاں تعلیم و تربیت سے مزین اور احکام شریعت پر پوری طرح عمل پیرا ہیں ۔
دنیا کا سلسلہ اسی طرح چل رہا ہے کسی دن ہم بھی چلتے بنیں گے جو یہ حروف لکھ رہے ہیں قانون قدرت یہی ہے جو ابتدائے آفرینش سے چلا آرہا ہے کوئی آیا کوئی گیا یہ دنیا فانی ہے اس میں کسی کو قرار نہیں ہے تمام سلسلے عارضی اور وقتی ہیں موت کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا جب فرشتۂ اجل آتا ہے سب اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں قرآن مجید نے بالکل صحیح کہا ہے :
کل من علیہا فان و یبقیٰ وجہہ ذوالجلال والاکرام 
؂ اقربا اولاد کو بس صبر کی تلقین دے یا خدا مرحوم کے احباب کو تسکین دے 
مولانا نے کم و بیش نوے برس عمر پاکر ۱۶؍جنوری ۱۹۹۳؁ء بعد نماز فجر تھرولی میں اس جہان فانی کو خیر باد کہا اور عالم جاودانی کو راہ لی ۔ اسی روز شام ۵؍بجے تھرولی کی سر زمین نے ان کے جسد خاکی کو بدرجہ غایت مسرت کے ساتھ اپنی آغوش میں لے لیا نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے برادرم مولوی شمیم احمد کی امامت میں ادا کی گئی ۔ 
اﷲم اکرم نزلہ ووسع مدخلہ وادخلہ الجنۃ الفردوس
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ، بلرام پور 
۲۰؍جنوری ۲۰۱۳؁ء 

٭٭٭


ڈاکٹر محفوظ الرحمن مدنی رحمہ ٗ اﷲ

کنڈؤ ۔ بلرام پور یوپی
یوں تو دنیا میں انسانوں کی کمی نہیں لیکن باکمال اور عبقری شخصیتیں خال خال نظر آتی ہیں بعض حادثات ایسی ہوتی ہیں جو غیر متوقع طور پر واقع ہوتی ہیں جنھیں سن کر زبان گنگ اور آنسو خشک ہو جاتے ہیں۔انھیں میں برادرم الدکتور محفوظ الرحمن صاحب مدنی بن مولانا زین اﷲ خاں صاحب کنڈؤ کی اچانک موت علمی دنیا کا ایک عظیم خسارہ ہے یہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ علم و فضل کا یہ آفتاب حرکت وعمل کا پتلا دین حق کا داعی قرآن و سنت کا شارح ، توحید کا پرستار نامور محقق عالم کئی علمی عربی تحقیقی کتابوں کا مصنف بھولا بھالا ہنستا مسکراتا نورانی چہرہ صدر جامعہ خیر العلوم ڈومریا گنج کو اب دیکھنا ممکن نہ ہو سکے گا ۔ 
جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے وہ زمین کے پیٹ میں ایک دن ضرور جائے گا۔ 
یہ سطریں لکھتے وقت آنکھیں اشکبار ،دل مغموم ، قلم لرزاں ہے : ان العین تدمع والقلب یحزن ولا نقول الا ما یرضی ربنا بغراقک لمحزونون۔
شیخ محفوظ الرحمن زین اﷲ موضع کنڈؤ ضلع بلرام پور میں ۲ ؍ مارچ ۱۹۴۸؁ء میں پیدا ہوئے آپ کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسہ میں ہوئی عربی کی تیسری چوتھی اور پانچویں جماعت کی تعلیم جامعہ فیض عام مؤ سے حاصل کی ۱۹۶۴؁ء میں داراعلوم دیوبند میں داخلہ لیا ۱۹۶۸؁ء میں دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کی۔ ۱۹۶۹؁ء میں جامعہ سلفیہ بنارس میں داخلہ لیکر۔ تخصص فی الشریعۃ کا کورس مکمل کیا ۔ 
۱۹۷۲؁ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے کلیۃ الدعوۃ واصول الدین سے ایم ۔ اے کیا اور ۱۹۸۳؁ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۱۹۸۰؁ء میں ایم اے کرنے کے بعد جامعہ اسلامیہ مکتبۃ الحدیث میں ریڈر مقرر ہوئے۔ ۱۹۸۴؁ء میں سعودی حکومت کی جانب سے مرکز الدعوہ والارشاد دبئی میں دعوت و تبلیغ سے منسلک ہو گئے آپ نے دبئی میں رہ کر وہاں کی مختلف مساجد میں مستقل طور پر خطبۂ جمعہ دیا ایک عرصہ تک مرکز الدعوہ والارشاددبئی کے دعاۃ اسلام کے نگراں رہے عالمی رفاہی کمیٹی میں ھیئۃ الاعمال الخیریہ العالمیہ عجمان کی شمالی ہندوستانی کے نمائندہ رہے۔
قصبہ ڈومریا گنج ضلع سدھارتھ نگر میں اپنے چچا جناب ڈاکٹر عبد الباری خاں حفظہ اﷲ کے ساتھ مل کر خیر ٹیکنیکل سو سائٹی قائم کی جس کی نگرانی میں درج ذیل ادارے اپنا فریضہ بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں ۔ کلیۃ الشریعہ جامعہ خیر العلوم ۔کلیۃ الطیبات ( نسوا ں کالج) مدرسہ عائشہ صدیقہ ۔ مدرسہ ابو بکرصدیق۔ خیر پرائمری ہائر سکنڈری اسکول ۔ مدرسہ ابی ابن کعب لتحفیظ القرآن الکریم ۔ مرکز الدعوۃ الاسلامیہ۔ قسم کافل الایتام ۔ قسم التکافل الاجتماعی ۔ قسم بناء المساجد ۔ خیر ٹیکنیکل سنٹر ۔
قابل ذکر اساتذہ کرام: قا بل ذکر اساتذہ میں شیخ کے والد بزرگوار مولانا زین اﷲ صاحب ۔ مولانا محمد احمد صاحب ناظم ۔ مفتی حبیب الرحمن اعظمی ، مولانا عبد السبحان ، شیخ الحدیث محمد زکریا کاندھلوی قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند مولانا عبد الوحید رحمانی شیخ الجامعہ مولانا شمس الحق سلفی مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی ڈاکٹر ربیع بن ہادی مدخلی شیخ حماد بن محمد الانصاری ڈاکٹر محمود ڈاکٹر ضیا عمری محمد امین مصری وغیرہم ۔
شیخ سے مجھ ناچیز کے خوشگوار تعلقات تھے مجلس کے قیام کے بعد جب اس کے اغراض و مقاصد سے آگاہ ہوئے اور ناچیز کی خانہ ساز شریعت اور آئینۂ کتاب و سنت دیکھا تو مسرت کا اظہار فرمایا اور قیمتی مشوروں سے نوازا ڈھیر سی دعائیں دیں ،آپ شو گر کے دائمی مریض تھے انتقال سے قبل کچھ بلڈ پریشر کا عارضہ لا حق ہو گیا ، دبئی اسپتال میں ایڈمٹ کئے گئے جہاں ۴۰؍سال ۱۰؍ماہ اور ۲۴؍دن کی عمر میں ۲۶؍ جنوری ۱۹۹۸؁ء بروز دو شنبہ گیارہ بجے شب کو اس دار فانی سے رخصت ہوگئے اور دبئی ہی میں محلہ سونا پور کے مقبرہ میں علم و دانش کا وہ نیر تاباں جو افق کنڈؤسے طلوع ہوا تھا وہ دبئی میں پچاس سال کی عمر میں ہمیشہ کیلئے سپرد خاک ہو گیا ، نماز جنازہ آپ کے صاحبزادہ مولانا عبید الرحمن نے پڑھائی آپ نے چھ نرینہ اولاد چھوڑی ہیں مولانا عبیدالرحمن ، ڈاکٹر احمد ، محمد، خالد، حامد، عبد اﷲ سبھی ماشاء اﷲ تعلیم یافتہ ہیں اور درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ میں مصروف ہیں ۔
شیخ ہر دلعزیز خلیق ملنسار زاہد عابد تھے اﷲ تعالیٰ شیخ کی بال بال معفرت فرمائے اور انکی ملی رفاہی خدمات کو قبول فرمائے ۔ اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ آمین 
اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہووسع مدخلہ عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ، بلرام پور 
(سہ ماہی مجلہ ا لفرقان ڈومریا گنج ۳۱؍جنوری ۱۹۹۸؁ء شمارہ جنوری فروری ۱۹۹۸؁ء)


٭٭٭


ایسا کہاں ملیں گے تمہیں نیک طبع لوگ 
ڈاکٹر عبد الوہاب خلیل الرحمن مدنی صدیقی رحمہ اﷲ 
ضلع سدھارتھ نگر سابق ضلع بستی کا دور افتادہ گاؤں بھٹ پرا جماعتی تاریخ میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے وہاں بڑی پیاری اور دل آویز شخصیت گزری ہے جس کو ادب و احترام کے پیش نظر علاقہ کے لوگ ’’ بابا‘‘ کے نام سے پکارتے تھے بلکہ انھیں بابائے قوم کہا جانے لگا طلبہ ، علماء اور عوام کی اس محبوب شخصیت اور بابائے قوم کا نام نامی مولانا خلیل الرحمن رحمانی تھا۔ ۱؂
اﷲ تعالیٰ نے بابائے قوم کو صالح اولاد کی نعمت سے سر فراز فرمایا تھا آپ نے اپنے تمام لڑکوں کو دینی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنے میں کوئی فروگذاشت نہیں کیا ۔ مولانا خلیل الرحمن صاحب رحمانی ۲؂ رحمہ اﷲ کی ذریت میں فضیلۃ الشیخ الدکتور عبد الوہاب مدنی رحمہ اﷲ ایک بڑے عالم دین اور علم و تعلیم تصنیف و تالیف دعوت و تبلیغ کے میدان کے ایک عظیم سپاہی تھے۔
ڈاکٹر عبد الوہاب مدنی یکم اگست ۱۹۴۹؁ء کو بھٹ پرا کے ایک علمی خانوادہ میں پیدا ہوئے مولانا نے ابتدائی تعلیم مدرسہ مفتاح العلوم میں حاصل کی پھر جامعہ دارالہدیٰ یوسف پور میں ایک سال تعلیم حاصل کی مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے جامعہ فیض عام مؤ میں داخلہ لیا ایک سال کے 
  ۱؂ مولانا قربان علی و مولانا خلیل الرحمن صاحب اصلاً شہر فیض آباد کے رہنے والے تھے ۱۸۵۷؁ء میں جب انگریزوں کے خلاف نا کام تحریک چلی او ر انگریزوں نے جب کامیابی حاصل کرلی تو وہاں کے ہندوستانی فوجیوں کو گرفتار کرنے لگے چونکہ مولانا قربان علی کا تعلق فوج سے تھا اسلئے فیض آباد سے بھاگ کر بھٹ پرا (نوگڈھ) آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے ۔
۲؂ ڈاکٹر عبد الوہاب صاحب مدنی کے والد محترم کا اسم گرامی مولانا خلیل الرحمن اور دادا کا اسم گرامی مولانا قربان علی تھا یہ دونوں ایک بلند پایہ عالم گذرے ہیں مولانا خلیل الرحمن رحمانی نے مدرسہ مفتاح العلوم بھٹ پرا کو ۱۹۱۵؁ء میں قائم کیا مولانا خلیل الرحمن رحمانی کی وفات کے بعد ڈاکٹر عبد الوہاب مدنی اپنے آبائی مدرسہ مفتاح العلوم کی ذمہ داری آخری سانس تک نبھاتے رہے ۔ (عبدالرؤ ف خاں ندوی)
بعد جامعہ سلفیہ بنارس میں عا لمیت سال اول میں داخلہ لیا اور ۱۹۷۰؁ء میں وہاں سے فضیلت کی سند حاصل کی ۱۹۷۳؁ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے منظوری آگئی وہاں چار سال اکتساب علم کرکے ۱۹۸۷؁ء میں ( B. A.) کی ڈگری حاصل کی پھر مزید حصول علم کیلئے جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ میں داخلہ لیا اور وہیں الرد علی الرافضہ نامی کتاب کی تحقیق کر کے ایم ۔ اے کی ڈگری حاصل کی پھر دار الحدیث الخیریہ مکۃ المکرمہ میں بحیثیت استاذ مقرر ہوئے اور اہل وعیال کے ساتھ وہیں مقیم ہو گئے۔ 
ڈاکٹر صاحب کی وفات سے جماعت ایک عظیم سپوت سے محروم ہوگئی جماعت اہل حدیث ہند خصوصاً جماعت سدھارتھ نگر رفقاء احباب اعزہ و اقارب اساتذہ کرام شاگردان و دیگر متعلقین و پسماندگان کو خصوصاً دلی صدمہ پہونچا ہے اس عالم ناپائیدار میں کوئی بھی حیات ابدی کا سند لیکر نہیں آیا ہے کل نفس ذائقۃ الموت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں ۔ 
اہل علم کی موت سے ایک عالم اداس ہو جاتا ہے سچ ہے موت العالم موت العالم علما ء کی موت علوم ومعارف کی موت ہے ۔ 
رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
اﷲ تعالیٰ دولت علم یکبارگی لوگوں کے سینوں سے نہیں نکالے گا بلکہ علماء کو فوت کرکے علم اٹھائے گا حتی کہ جب علم نبوت کے حقیقی وارث باقی نہیں رہیں گے تو جہلا مسند علم پر بیٹھ کر اپنی جہالت کی بنا پر ایسے فتوی جاری کریں گے جس کے ذریعہ خود بھی گمراہ ہونگے اور سادہ لوح عوام کو بھی گمراہ کریں گے (الحدیث) 
علماء حق کا اس دنیا سے اس تیزی اور جلدی جلدی سے یکے بعد دیگرے رخصت ہونا علامات قیامت میں سے ایک نشانی ہے۔ 
تصنیفی خدمات :آپ کی تصنیفی خدمات درج ذیل ہیں ۔ 
(۱) الرد علی الرافضہ تحقیق و دراسہ :یہ ماجستر کا رسالہ ہے 
(۲) الدعوۃ السلفیہ فی شبہ القارۃ الہندیہ : یہ پی ایچ ڈی کا رسالہ ہے ۔ 
(۳) انسان ایک عجیب مخلوق: ترجمہ اردو 
(۴) شہادتین مفہوم اور تقاضے : ترجمہ اردو 
(۵) مجلس میلاد کا حکم : ترجمہ اردو 
(۶) نماز : ترجمہ اردو 
ڈاکٹر صاحب سے ناچیز کے خوشگوار تعلقات تھے آپ جب سالانہ گرمیوں کی تعطیل میں نوگڈھ تشریف لاتے تو ایک ہفتہ قبل اپنی آمد کا بذریعہ فون مطلع فرما دیتے حسب پروگرام ملاقات کیلئے حاضر ہوتا سلام وکلام کے بعد فرماتے برادرم ندوی صاحب مجلس کی طرف سے اس سال کون سا علمی تحفہ لائے ہیں اﷲ کا شکر و احسان ہے کہ مجلس اور اس کے معاونین کی خدمت قدر کی نگاہوں میں جگہ پاتی ہیں مجلس کے مقاصد میں یہ عظیم مقصد بھی ہے کہ عام مسلمانوں کے سامنے نئی نئی مفید مطبوعات کے علاوہ اسلاف کرام کی نادر و نایاب کتابوں کی بھی اشاعت کرکے ملک کے مختلف زبانوں میں مفت تقسیم کی جائیں ۔ الحمد ﷲ یہ مفید سلسلہ جاری ہے یہ قارئیں کرام فیصلہ کریں گے کہ ناچیز اپنے مقصد میں کہاں تک کامیاب ہے البتہ میری کوشش جدو جہد جاری ہے اور اپنی حسب استطاعت گاڑی کھینچ رہا ہوں ۱۹۹۱؁ء میں مجلس کا قیام عمل میں آیا اس وقت سے اب تک سال میں ایک دو کتابیں مختلف موضوع پر شائع ہو رہی ہیں اور ملک میں مفت تقسیم کا سلسلہ بھی جاری ہے یہ اﷲ کی توفیق و معاونین کی توجہ سے جن کی تعداد بہت قلیل ہے انھیں میں سے فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالوہاب مدنی صاحب بھی تھے اﷲ تعالیٰ ان معاونین کرام کو جو ہمارے درمیان نہیں ہیں اس کا صلہ مرحمت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ جگہ دے اور ہمارے وہ معاونین جو بقید حیات ہیں اﷲ ان کی عمرمیں برکت دے اور مزید دینی خدمت کی توفیق سے نوازتا رہے انھیں مخلص دوستوں اور قدردانوں کے تعاون سے اب تک جو کچھ ہو سکا ہے اور آئندہ بھی توقع ہے میرے عزائم اور حوصلہ کیلئے آب حیات سے کم نہیں ہے بات طویل ہوگئی ڈاکٹر صاحب کو جب کوئی علمی تحفہ پیش کرتا خوشی کا اظہار فرماتے تشجیعی کلمات سے اور ڈھیر سی دعاؤں سے نوازتے۔ 
ڈاکٹر صاحب ۱؂ کی تعمیر و ترقی میں علمی گھرانے کی خو رچی بسی ہوئی تھی اور فکرو نظر میں سلفیت کی روح کار فرما تھی جامعہ سلفیہ بنارس میں علمی ماحول میں استفادہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی فیض یابی اور دارالحدیث خیریہ مکہ مکرمہ کی تدریس نے قرآن و حدیث میں گہرا شعورپیدا کر دیا تھا۔ 
توحید خالص جو شریعت اسلامی کی روح اور دل ہے توحید خالص اور اتباع سنت کی ترجمانی و تشریح بڑے انوکھے انداز میں فرماتے تھے ایمان و یقین کی حلاوت چاشنی نے ان کے دل کو پاک و صاف اور کردار میں طہارت پیدا کردی تھی۔ اور سماجی تعلقات میں ان کی فروتنی انکسارو بے نفسی ، ایثار و قربانی و خدمت خلق کے جذبہ نے لوگوں کے دلوں میں ان کے لئے احترام و محبت اور خلوص کے جذبات پیدا کردئیے تھے جس کی وجہ سے ان کی شخصیت میں نکھارآ گیاتھا جو اسلامی اخلاق کا طبعی اور منطقی نتیجہ ہے ۔
ڈاکٹر صاحب علم و علماء کے قدر دان مہمان نواز خوش مزاج شیریں بیان متواضع خلیق اور ملنسار تھے ان کی عادت اور اخلاق کے بارے میں اس قدر کہنا کافی ہے کہ وہ قدیم شرفاء کے اوصاف حسنہ کا صحیح نمونہ تھے متانت وضع داری شائستگی اور معاملات کی صفائی ، ایفائے عہد کی پختگی 
۱؂ ڈاکٹر عبد الوہاب مدنی تین بھائی تھے بڑے بھائی مولانا سیف الاسلام صدیقی عرصہ ہوا اﷲ کو پیارے ہو چکے ہیں مولانا عبد الآخر اور مولانا عزیز الرحمن سلفی ابھی بقید حیات ہیں اﷲ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے آمین ( عبد الرؤف خاں ندوی) 
ان کی زندگی کا طرہ امتیاز تھیں ۔ 
ڈاکٹر عبد الوہاب صاحب مدنی شوگر ہائی بلڈ پریشر کے عارضہ میں گرفتار تھے دن بدن طبیعت بگڑ تی اور صحت کمزور ہوتی رہی دوا علاج کا سلسلہ جاری رہا ۔بالآخر وقت اجل آپہونچا اور اچانک حرکت قلب بند ہوجانے سے آپ کا انتقال ہوگیا ۔ انا ﷲ وانا الہ راجعون 
آپ کی وفات کا یہ واقعہ ۱۹؍جولائی ۲۰۰۶؁ء بروز بدھ بمقام طائف میں پیش آیا آپ اپنے بچوں کے ساتھ گھومنے گئے تھے آپ نے اپنے پسماندگان میں ایک بیوہ تین لڑکے اور چار لڑکیاں چھوڑا ہے۔ آپ کے بڑے لڑکے محمد بن عبد الوہاب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کلیۃ الحدیث سے فارغ ہیں اور نوگڈھ میں بزنس کر رہے ہیں دوسرے لڑکے احمد عبد الوہاب کلیۃ الشریعۃ واللغۃ العربیۃ رأس الخیمہ الامارات فرع جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ الریاضکے فارغ التحصیل ہیں اور وہیں کسی ادارہ سے منسلک ہیں تیسرے لڑکے عبدالرحمن عبد الوہاب سعودیہ عربیہ میں زیر تعلیم ہیں ۔ 
افسوس کہ علم و دانش کا وہ نےّر تاباں جو افق سرزمین بھٹ پرا نوگڈھ سے طلوع ہوا تھا وہ سرزمین مکۃ المکرمہ جس کو بلد الامین کہا گیا ہے ۱۹ ؍جولائی ۲۰۰۶؁ء ہمیشہ ہمیش کیلئے غروب ہوگیا۔
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کی دینی علمی خدمات اخلاص و محبت کا صلہ عطا فرمائے ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ 
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ، بلرام پور ماہنامہ نوائے اسلام دہلی شمارہ ستمبر ۲۰۰۶؁ء 
٭٭٭٭٭

بزرگ عالم دین مولانا عبد السلام طیبی صاحب

دعوت و اصلاح اور تربیت کے ایک عہد کا خاتمہ 
تعلیمی اور دعوتی حلقوں کیلئے یہ خبر نہایت افسوس ناک ہے کہ جماعت کے بزرگ عالم دین کہنہ مشق مدرس اور مخلص داعی جناب مولانا عبد السلام رحمانی طیب پوری ۹۵ برس کی عمر میں ممبرا ضلع تھانہ (مہاراشٹر) میں ۱۳؍دسمبر ۲۰۱۱؁ء کو انتقال ہوگیا ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون 
مولانا عبد السلام صاحب جماعت کے معروف عالم دین اور جامعہ اسلامیہ کے بانی رئیس جناب ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب کے والد گرامی تھے ضلع بلرام پور یوپی کی معروف بستی ’’طیب پور ‘‘ (اترولہ)مولانا کا مولد و مسکن تھا ان کی تعلیم کا آغاز جامعہ سراج العلوم بونڈھیار سے ہوا کچھ دنوں کیلئے دارالحدیث رحمانیہ دہلی بھی تشریف لے گئے مگر تکمیل جامعہ رحمانیہ بنارس سے کی آپ کے اساتذہ میں شیخ الحدیث علامہ عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری مولانا عبد الغفار حسن رحمانی ، مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی اور ماہر علوم نقلیہ و عقلیہ علامہ نذیر احمد رحمانی املوی رحمہم اﷲ جیسی عبقری شخصیات قابل ذکر ہیں۔ 
مولانا کی زندگی کا بیشتر حصہ دعوت و تدریس میں گذرا ابتدائی دنوں میں آپ نے بعض مدارس میں تدریس و تربیت کا فریضہ انجام دیا علوم عقلیہ و نقلیہ پر اچھی نظر تھی نیز تدریس و تربیت کا سلیقہ بھی تھا اسلئے اس میدان میں نہایت کامیاب رہے کچھ دنوں تک گھر ہی پر مقیم ہوکر خاموشی سے دعوت کا کام کرتے رہے چند برسوں تک ضلعی جمعیت اہل حدیث گونڈہ و بستی کے مبلغ بھی رہے آخری وقت تک دعوت و تبلیغ کا سلسلہ قائم رکھا ۔ اﷲ تعالیٰ مولانا کی خدمت جلیلہ کو قبول فرمائے آمین۔
اﷲ تعالی پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے اور مولانا کی بال بال مغفرت کرے ۔
اﷲم اغفر لہ وارحمہ و عافہ واعف عنہ وادخلہ الفردوس الاعلیٰ آمین 
الحاج سمیع اﷲ خاں صاحب رحمہ اﷲ رنیا پور 
الحاج سمیع اﷲ خاں صاحب خاندان ہرہٹہ کی ایک معزز شخصیت تھی آپ مخدوم پنچ ہر ہٹہ کے پوتے تھے آپ کی تاریخ پیدائش ۱۹۲۰؁ء ہے الحاج سمیع اﷲ خاں کے والد گرامی کا اسم گرامی عبد اﷲ خاں تھا بڑی بارعب شخصیت تھی صوم صلوٰۃ کے پا بند دراز قد بڑی بڑی آنکھیں کشادہ پیشانی رنگ گندمی آواز گرجدار سفید کرتا اور سفید علی گڈھی پائجامہ و صدری میں اکثر ملبوس نظر آتے تھے لمبی لمبی داڑھی یہ حلیہ عبد اﷲ خاں ٹھیکیدار کے آخری لمحات کا ہے عبد اﷲ خاں اسٹیٹ بلرام پور کے دور میں تلسی پور دیوی پاٹن میلے کا منتظم و انچارج ہوا کرتے تھے قصبہ تلسی پور کے محلہ پُوروا کو ٹھکیدار عبد اﷲ خاں نے ہی بسایا تھا ۔
اسی گاؤں رنیا پورکے پنچ مخدوم صاحب کے دوسرے پوتے جن کا اسم گرامی عطاء اﷲ خاں تھا اور ان کے والد محترم کا اسم گرامی عبد الجبار خاں تھا ان کے دو لڑکے تھے ایک کا نام الحاج عطاء اﷲ خاں دوسرے کا نام کفایت اﷲ خاں تھا۔ الحاج عطاء اﷲ خاں کو دینی احکام و مسائل سے بھر پور واقفیت تھی کتب بینی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا حاجی صاحب کے نام کی نسبت (عطاء اﷲ ) سے آپ کو اکثر لوگ احتراماً بخاری کے نام سے یاد کرتے تھے ہمارے ملک ہندوستان میں ایک مشہور جید عالم ایک عظیم سیاسی لیڈر شعلہ بیان مقرر گذرے ہیں اس دور میں ان کی خطابت کا دور دور تک ڈنکا بج رہا تھا ان کا نام سید عطاء اﷲ شاہ بخاری تھا حاجی صاحب کا نام بھی عطاء اﷲ تھا ۱؂ اسی مناسبت سے اکثر لوگ آپ کو بخاری کے نام سے یاد کرتے تھے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو چار لڑکوں 
 ۱؂ حاجی عطاء اﷲ صاحب کے چھوٹے بھائی کفایت اﷲ خاں انتہائی نیک اﷲ والے متواضع خلیق ملنسار حق گو احکام شریعت کے پابند اور پکے موحد اور اپنے مسلک اہل حدیث کے پُر جوش داعی تھے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو بھی کئی لڑ کوں سے نوازا ہے آپ کے بڑے لڑکے حاجی مقبول احمد اپنے والد محترم کفایت اﷲ کے صحیح وارث ہیں ۔
( عبد الرؤف خاں ندوی تلسی پور۔ بلرام پور) 
سے نوازا ہے سبھی لڑکے تعلیم یافتہ اور بر سر روزگار ہیں نیک خلیق ، ملنسار اور اخلاق کے اعلیٰ نمونہ ہیں آپ کے لڑکے خورشید احمد عرف خرم خاں اپنے باپ کے صحیح وارث اور جانشین ہیں اﷲ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور دینی خدمات سے نوازتا رہے آمین اگر اﷲ نے توفیق دی تو ان کی حیات و سوانح کسی موقع پر لکھوں گا انشا ء اﷲ ۔
عار ف باﷲ مخدوم پنچ صاحب جناب بابو فصیح الدین خاں کے جد اعلیٰ تھے خاندان ہرہٹہ کی ایک عظیم شخصیت ہیں جو جماعتی وملکی پیمانہ پر معروف و مشہور ہیں علمی لحاظ سے بھاری بھرکم شخصیت کے مالک ہیں آپ کا دانشور اور علم و فکر حلقوں میں شمار ہوتا ہے سیاست میں امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اﷲ کے نظریہ کے حامی ہیں ان سے ملاقات کرکے احساس ہوتا ہے کہ شرافت کا مجسمہ ہیں تمام علماء عوام و خواص میں ہر دلعزیز ہیں آپ گینسڑی بازار کے چالیس سال تک پردھان اور کئی سرکاری اداروں کے پربندھک اور چیر مین رہے۔ آپ کی عظیم ملی و جماعتی و رفاہی و فلاحی خدمات ہیں آپ اپنے پر دادا مخدوم پنچ کے صحیح جانشین ہیں آپ مسلک اہل حدیث کے ترجمان و علمبر دار ہیں مسلکی غیرت کوٹ کوٹ کر بھری ہے آپ ۴۵ برس ضلعی جمعیت اہل حدیث گونڈہ بلرام پور کے با اتفاق رائے ناظم اعلیٰ رہے اور اس وقت ضلعی جمیۃ کے سرپرست ہیں مرکز ابوالکلام آزاد دہلی کی مجلس منتظمہ کے رکن ہیں اس کے علاوہ کئی سرکاری نیم سرکاری اور دینی اداروں کے سرپرست اور مجلس عاملہ و شوریٰ کے ممبر ہیں مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ للبنات گینسڑی کے مؤسس و رئیس ہیں پوری زندگی مسلک اہل حدیث و تحریک اہل حدیث کے فروغ و ارتقاء میں صرف کردی آپ ۱؂ نے ملک کی جماعت کو اپنے رفقا
 ۱؂ آپ کے والد محترم محمد شفیع پنچ کو اﷲ تعالیٰ نے تین لڑکوں سے نوازا تھا بڑے لڑکے کا نام رفیع الدین خاں تھا نہایت حق گو معاملہ فہم تجربہ کار خلیق ،ملنسار صلوات خمسہ کے پابند تھے چند سال قبل اﷲ کو پیارے ہو چکے ہیں اور گینسڑی کے قبرستان میں مدفون ہیں ۔ آپ کے دولڑکے ہیں ڈاکٹر نسیم احمد خاں ناظم مدرسہ فیض العلوم گینسڑی ( بقیہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں ) 
کے تعاون سے خواب غفلت سے بیدار کرنے اور جمود و تعطل کو ختم کرنے میں اہم رول ادا کیا جمعیت کے ۴۵ سالہ دور میں آپ کی نظامت میں اہم و تاریخی کارنامے انجام پائے جو تاریخ کی محفوظ امانت ہیں علم اور علماء کے قدردان سبھی حلقوں میں محترم اور محبوب ہیں مہمان نوازی اور خدمت خلق اور اخلاق حسنہ سے بھی اﷲ تعالیٰ نے نواز رکھا ہے کوئی بھی شخص ان کے پاس جاتا ہے اس سے مل کر خوش ہوتے ہیں بڑے خلیق اور بامروت ہیں ادھر کچھ دنوں سے صاحب فراش ہیں دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کا سایہ تادیر ہم لوگوں پر قائم رہے اور صحت عاجلہ و کاملہ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین اﷲ تعالیٰ نے آپ کو تین لڑکوں اور ایک لڑکی سے نوازا ہے تینوں لڑکے انتہائی شریف ، خلیق ، ملنسار اور اخلاق کے اعلیٰ نمونہ ہیں ان کے نام یہ ہیں ۔ محمد شاہد ، ڈاکٹررضی الدین ، صلاح الدین ۔ 
اگر اﷲ کی توفیق شامل حال رہی توموصوف کی حیات و خدمات پر کسی دوسرے موقع پرتفصیل سے لکھوں گا ۔ انشاء اﷲ 
 آج ہے بزم میں جن کی کسمپرسی دیدنی 
اٹھیں گے وہ بزم سے سب کو پتہ چل جائے گا 
جیسا کہ گذشتہ سطور میں آچکا ہے کہ الحاج سمیع اﷲ خاں مخدوم پنچ صاحب کے پوتے تھے عارف باﷲ مخدوم پنچ صاحب نہایت نیک خدا ترس متقی تھے آپ سبھی حلقوں میں ہر دل عزیز اور محبوب تھے علماء بیواؤں اور یتیموں اور تحریک اہل حدیث کے فروغ میں پوری زندگی صرف کردی آپ کی کوشش سے پورے علاقے میں دینداری پھیل گئی اور آپ کا نام دور دراز مقامات پر 
( پچھلے صفحہ کا بقیہ ) و رکن عاملہ ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بلرام پور ، سلیم احمد خاں پردھان یہ دونوں بھائی خلیق ، ملنسار ہیں ڈاکٹر نسیم احمد اپنے والد کے صحیح وارث ہیں دوسرے صاحبزادہ جناب حاجی فصیح الدین صاحب ہیں جن کا ذکر سطور بالا میں آچکا ہے تیسرے لڑکے حاجی مسیح الدین ایڈوکیٹ بلرام پور ہیں موصوف بھی بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں اﷲ تعالیٰ ان دونوں بھائیوں کی عمر میں برکت عطا فرمائے آمین ۔ (عبدالرؤف خاں ندوی تلسی پور) 
بھی روشن ہو گیا اپنی اور اپنے بچوں کی سنت کی پوری پابندی کی مجال نہ تھی کہ چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی خلاف سنت کوئی کام کرسکتا جود و سخا میں یکتائے زمانہ تھے آپ کے جود و سخا کی شہرت دور دور تک پھیل گئی ۔ بڑے خلیق بامروت تھے ۱۹۰۰؁ء میں وفات پائی اور ہرہٹہ کے قبر ستان میں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں سپرد خاک ہوئے ۔تغمدہ اﷲ برحماتہ
آپ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ شہر بلرام پور کے بدعت گڈھ محلہ چکنی میں ایک سلفی مسجد کی اپنے دست مبارک سے بنیاد ڈالی اور اپنے جیب خاص سے مسجد کی تعمیر کراکے اﷲ کے یہاں جنت میں اپنے گھر کا انتظام کرلیا مساجد کی تعمیر اﷲ تعالیٰ کی رضا مندی اور جنت کے ان محلات کو پانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے چنانچہ حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
من بنٰی مسجداً ﷲ تعالیٰ ینبغی بہ وجہ اﷲ بنیٰ اﷲ لہٗ بیتاً فی الجنۃ (بخاری ۴۵۰ مسلم ۵۴۴) 
یعنی جو شخص اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر ایک مسجد کی تعمیر کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس شخص کیلئے جنت میں ایک گھر بناتاہے۔ 
تلسی پور ایک معروف و مشہور مرکزی منڈی ہے یہاں کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب ۳؍۱ ہے سینکڑوں مسلم گھرانوں اور ہزاروں مسلمانوں کی اس بستی میں اہل حدیث افراد چند گھروں پر مشتمل ہیں ۔ مسلم آبادی ا ن سُنیوں پر مشتمل ہے جو بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں خال خال دیو بندی مسلک کے ہیں ۔
تلسی پور کے اطراف واکناف میں اہل حدیث افراد کی بیشتر آبادی کے پیش نظر ایک سلفی جامع مسجد کی اشد ضرورت تھی وہ مختلف کاموں سے روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں تلسی پور آتے رہتے ہیں اور ان کو پنج وقتہ نماز اور خاص طور سے جمعہ کی نماز میں جو روحانی و ذہنی تکلیف ہوتی تھی اس کا صحیح اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو کسی بدعت گڈھ میں آباد ہیں افراد جماعت بے حد پریشان تھے در در کی ٹھوکریں کھا رہے تھے اﷲ غریق رحمت کرے الحاج سمیع اﷲ خاں صاحب کو کہ محترم مولانا عبد الحق صاحب رحمانی تھرولی اور عقیل احمدخاں ۱؂ کی پُرزور سفارش پر سلفی جامع مسجد اور دفتر و مدرسہ کیلئے تلسی پور محلہ پوروہ کی اپنی ذاتی زمین وقف کرکے اپنے دادا مخدوم پنچ کی طرح اﷲ کے یہاں جنت میں اپنے لئے ایک گھر کا انتظام کرلیا اﷲ تعالیٰ حاجی سمیع اﷲ صاحب کی حسنات کو قبول فرمائے آمین۔یہ صدقہ جاریہ ہے جو حاجی صاحب اور ان کی اولاد کو اس کا اجرملتا رہے گا ۔ 
مسجد دفتر اور مدرسہ کی عمارت مکمل ہو گئی تو غریب الوطنی سے نجات پاکر اپنی ذاتی عمارت میں پنجوقتہ نماز اور نماز جمعہ کی ادائیگی ۔ تنظیم دعوت و تبلیغ کا کام اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے شروع کر دیا گیا یہ انقلاب افراد جماعت کیلئے بے پناہ مسرتوں کا پیغام لایا، بحمد اﷲ اس وقت قصبہ تلسی پور میں اپنی جماعت کی سات مسجدیں ہوگئی ہیں جس میں پنجوقتہ نماز کے ساتھ ساتھ جمعہ کی نماز بھی ہوتی ہے۔
محترم حاجی صاحب ایک بااصول آدمی تھے مہمان نواز خلیق ملنسار شیریں زبان اور حسن اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھے ۔
حاجی صاحب انتقال سے کئی سال پہلے حج جیسے اہم فریضہ سے فارغ ہو چکے تھے صوم و صلوٰۃ اور نماز با جماعت کی پابندی اور دیگر نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔متوسط قد
 ۱؂ جناب بابو فصیح الدین خاں گینسڑی جناب شرافت اﷲ خاں وکیل ہرہٹہ ڈاکٹر ببن خاں اور راقم الحروف عبد الرؤف ندوی کی تحریک پر اور مولانا عبد الحق کی پُر زور سفارش پر الحاج سمیع اﷲ خاں رنیا پور نے ضلعی جمعیۃ کی جامع مسجد کیلئے مفت زمین عنایت فرمائی ۔ اﷲ تعالیٰ حاجی صاحب کی حسنات کو قبول فرمائے ۔ آمین (عبد الرؤف خاں ندوی تلسی پور ) 
گندمی رنگ گداز بدن کشادہ پیشانی مسکراتا چہرہ یہ آپ کا حلیہ تھا۔ آپ مستقل گھوڑے کی سواری کرتے تھے ہمارے علاقے کے رؤسا اور زمین دار اکثر گھوڑے اورہاتھی ہی کی سواری کرتے تھے کیونکہ اس وقت ملک الموت (موٹرسائیکل )سواریوں کا وجود ہی نہ تھا ۔ 
اﷲ تعالیٰ نے حاجی صاحب کو پانچ اولاد کی نعمت سے نواز رکھا ہے سبھی اولاد تعلیم یافتہ ہیں حاجی صاحب اکثر کہا کرتے تھے میرے دادا مخدوم پنچ کے پانچ لڑکے تھے الحمد ﷲ مجھے بھی اﷲ تعالیٰ نے پانچ ہی لڑکوں سے نوازا ہے لڑکوں کے نام بالترتیب یہ ہیں ۔ (۱) شکیل احمد (۲) غیاث احمد ایڈوکیٹ (۳) عقیل احمد خاں نیتا(۴) ڈاکٹر افروز احمد (۵) آفتاب احمد سبھی لڑکے تعلیم یافتہ اور بر سر روزگار ہیں خلیق ملنسار اور اخلاق کے اعلیٰ نمونہ ہیں عقیل احمد خاں اپنے باپ کے صحیح جانشین اور وارث ہیں۔
حاجی صاحب آخری لمحات میں کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو گئے تھے کافی علاج معالجہ چلا ممبئی بھی لیجائے گئے مگر مرض میں کچھ افاقہ نہ ہوا گھر واپس آگئے مرض نے شدت اختیار کی آخر کار وقت اجل آپہونچا اور مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۹۱؁ء میں آپ کا رنیا پور میں انتقال ہوا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون نماز جنازہ بزرگ عالم دین مولانا عبد الحق رحمانی تھرولی کی امامت میں ادا کی گئی اور رنیا پور کے قبرستان میں عظیم مجمع کی موجودگی میں مدفون ہوئے۔تغمدہ اﷲ برحماتہٖ 
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ، بلرام پور ۳۰؍اپریل ۱۹۹۱؁ء 
٭٭٭٭

الحاج محمد رفیق ایڈوکیٹ رحمہٗ اﷲ بلرام پور 

یہ خبر جماعتی حلقوں میں انتہائی رنج و غم کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ محترم الحاج محمد رفیق خاں ایڈوکیٹ بلرام پور جو مخدوم پنچ کے پر پوتے تھے یکم اپریل ۱۹۹۵؁ء کو گینسڑی ریلوے اسٹیشن کے سامنے ایک میٹا ڈور کی زد میں آکر سخت زخمی ہوگئے اور بے ہوشی کی حالت میں لکھنؤ میڈیکل کالج لے جائے گئے ڈاکٹروں کی زبر دست کوششوں کے باوجود مورخہ ۳؍ اپریل ۱۹۹۵؁ء ۳؍بجے شب اﷲ کو پیارے ہو گئے ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون 
وکیل صاحب ۱؂ اپنے دور کے نامور وکلاء میں شمار ہوتے تھے بلرام پور میونسپل بورڈ کے کئی سال تک چیر مین بھی رہے ۔ فریضۂ حج کی ادائیگی سے قبل پیشۂ وکالت ترک کردیا تھا نہایت درجہ حق گو بیباک دین پسند مسلک سلف کے داعی تحریک اہل حدیث کے علمبردار اور اصلاح قوم و ملت کے سر گرم سپاہی تھے ۔ اصلاحی لٹریچر و کتابیں خود تصنیف کرکے اپنے خرچ پر طبع کروا کر مفت تقسیم کرتے تھے۔ 
وکیل ۲؂ صاحب نے اپنے پر دادا مخدوم پنچ ہرہٹہ کی بلرام پور میں تعمیر کرائی ہوئی سلفی 
۱؂ الحاج محمد رفیق ایڈوکیٹ کے مخدوم پنچ جداعلیٰ تھے آپ کے والد محترم کا اسم گرامی حاجی محمد صدیق تھا فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے حج کے سب ارکان پورے کر چکے تھے کہ اچانک بیمار ہوئے اور وقت اجل آ پہونچا وہیں انتقال کیا اور سر زمین مکہ میں جسکو بلد الامین کہا گیا ہے مدفون ہوئے بہت ہی نیک موحد احکام شریعت کے پا بند اور مسلک اہل حدیث کے داعی تھے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دو لڑکوں سے نوازا تھا بڑے الحاج محمد رفیق تھے جن کا ذکر درج بالا سطور میں آچکا ہے دوسرے صاحبزادہ کا اسم گرامی محمد شفیق خاں سرپنچ تھا ، انتہائی نیک سادہ مزاج غیور حق گو خاموش طبع خوش خلق خوش مزاج صلوات خمسہ کے پابند خلیق ، ملنسار تھے قلب کے مریض تھے ، گینسڑی میں ۲۹؍ اکتوبر ۲۰۰۱؁ء کواچانک انتقال ہوا اور گینسڑی ہی کے قبرستان میں مدفون ہوئے نماز جنازہ ناچیز کی امامت میں ادا کی گئی ۔ تغمدہ اﷲ برحماتہ (عبد الرؤف خاں ندوی) 
۲؂ حاجی محمد رفیق ایڈوکیٹ کے دادا کانام محمد اسحق پنچ تھا اﷲ تعالیٰ نے ان کو تین لڑکوں سے نوازا تھا (۱) عبد المجید (۲) محمد شفیع پنچ (۳) محمد صدیق : عبد المجید صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے ( بقیہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں ) 
مسجد کی تو سیع و تجدید محض اپنے بل بوتے پر کی دینی اداروں کو اخلاص کے ساتھ مشوروں اور مالی تعاون سے نوازتے رہتے تھے افسوس ہے کہ اس تاریخی شہر بلرام پور میں جو شرک و بدعت کا زبردست مخالف اور توحید و سنت کا ایسا مبلغ ہو جو ان کا جانشین بن سکے دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا الاان یشا ء اﷲ آپ مکارم اخلاق اور ستودہ صفات سے متصف تھے یہی وجہ ہے کہ آپ ہر حلقہ میں ہر دلعزیز تھے جم غفیر نے آپ کے جنازہ میں شرکت کی اور بلرام پور کے قبر ستان میں تدفین عمل میں آئی ۔ اﷲ تعالیٰ ان کے پسماندگان ۱؂ کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ آمین
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ، بلرام پور ۸؍اپریل ۱۹۹۵؁ء 
( پچھلے صفحہ کا بقیہ )پانچ لڑکوں سے نوازا تھا ، (۱) عبد الرشید پر دھان (۲) عبد الحمید (۳) عبد الوحید عرف منے پر دھان (۴) عبد ا لمعید(۵) مجیب اﷲ یہ سبھی بھائی مستقل ہرہٹہ میں آباد ہیں ان میں صرف مجیب اﷲ بقید حیات ہیں اور سبھی بھائی چند سال پہلے اﷲ کو پیارے ہو چکے ہیں یہ سب مخدوم پنچ کے پر پوتے تھے ان سب پر دینداری کا غلبہ تھا اور مسلک اہل حدیث کے داعی و عامل تھے ۔ اﷲ تعالیٰ ان سب پر اپنا کرم فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے آمین۔
اشفاق احمد خاں سابق پردھان عبدالحسیب خاں اعجاز احمد خاں سابق پردھان تنویر احمد خاں ہرہٹہ اپنے اپنے باپ کے صحیح جانشین اور وارث ہیں اﷲ تعالیٰ ان سبھوں کو احکام شریعت کا پا بند بنائے اور نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق عنایت فرماتا رہے آمین ( عبد الرؤف خاں ندوی) 
۱؂ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو چار لڑکو ں سے نوزا ہے ڈاکٹر محمد طارق ، محمد خالد راشد ایڈوکیٹ ، ارشد رفیق : ڈاکٹرطارق اپنے والد صاحب کے جانشین ہیں اور مسجد اہل حدیث محلہ چکنی بلرام پور کے متولی ہیں ، 
محمد شفیق صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے پانچ لڑکو ں سے نوازا ہے سبھی خلیق ، ملنسار ہیں محمد فاروق وکیل ڈاکٹر زبیر احمد ریاض احمد آفتاب احمد ، انور کمال عزیزان محمد فاروق وکیل اور ڈاکٹر زبیر احمد اپنے والد محترم کے صحیح جانشین اور وارث ہیں ۔ ( عبد الرؤف خاں ندوی، تلسی پور) 
ممتاز عالم دین فضیلۃ الشیخ صلاح الدین مقبول احمد مدنی کے والد محترم
 الحاج مقبول احمد صاحب جواررحمت میں 
جماعتی حلقوں میں یہ خبر بڑے رنج و غم کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ جماعت کے مستند عالم دین نامور محقق عربی و اردو کے مشہور مصنف ادیب اور شاعر فضیلۃ الشیخ صلاح الدین مقبول احمد مدنی حفظہ اﷲ تعالیٰ ( کویت) کے والد بزرگوار جناب الحاج مقبول احمد صاحب ایک ماہ کی علالت کے بعد ۱۴؍ جولائی ۲۰۱۱؁ء کی شب میں تقریباً پونے ۱۲؍بجے ۸۰ سال کی عمر میں اپنے گھر اونرہوامیں انتقال فرما گئے ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون 
حاجی مقبول احمد صاحب عرصہ سے ذیابطیس (سوگر) جیسے موذی مرض میں مبتلا تھے ایک ہفتہ قبل مرض نے شدت اختیار کرلی اور آپ کی وفات کا سانحہ پیش آگیا ۔ جمعہ کی شب میں وفات اور نزع کے وقت کلمۂ توحید کا پڑھنا حسن خاتمہ اور خیر کی دلیل ہے۔ 
ناچیز کے حاجی صاحب سے خوشگوار اور دیرینہ تعلقات تھے ذاتی طور پر مجھے اس سانحہ ارتحال کا قلبی رنج ہے آنکھیں اشکبار ہیں دل مغموم قلم لرز رہا ہے ۔ متوسط قد گداز جسم گندمی رنگ کشادہ پیشانی مسکراتا چہرہ سفید کرتا اور اس پر صدری تہبند میں ملبوس سادگی اور صدق و صفا کا پیکر یہ تھا ہمارے حاجی صاحب کا حلیہ، آہ! اب یہ صورت کبھی دیکھنے کو نہ ملے گی ۔
قرآن مجید کی تلاوت آپ کا معمول تھا خاص کر رمضان المبارک میں شب بیداری عبادت اور قرآن مجید کی تلاوت کا خاص اہتمام فرماتے تھے ساتھ ہی روزانہ قرآن کا ترجمہ اور تفسیر کا مطالعہ بھی آپ کا معمول تھا، رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں یہ عمل بہت زیادہ ہوجاتا تھا ۔ 
حاجی صاحب مہمان نواز تھے ان کے مطبخ میں مہمانوں رشتہ داروں اور احباب کے لئے انواع واقسام کے کھانے تیار ہوتے تھے حاجی صاحب کی اپنی خوراک تو بالکل سادہ اور معمولی تھی موٹے چاول روٹی دال اور ساگ ترکاری وغیرہ پر اکتفا کرتے تھے لیکن مہمانوں رشتہ داروں اعزہ اقارب اور احباب کیلئے پُر تکلف کھانا تیار کراتے تھے اور جب شیخ صلاح الدین صاحب کویت سے تشریف لاتے تو مہمانوں کا از دحام ہو جاتا اور ایک منٹ کیلئے چولھا ٹھنڈا نہیں ہوتا اپنا کام اپنے ہاتھ کرتے تھے کسی کو تکلیف نہ دیتے تھے۔ 
پکے سچے موحد مسلمان تھے شرک و بدعت و خرافات ، منکرات رسم و رواج کو سخت نا پسند کرتے تھے اپنے علم کے مطابق برابر لوگوں کو سمجھاتے اور ان خرافات سے دور رہنے کی تلقین کرتے۔ 
ذہن کے صاف حق گو اور دل کے غنی تھے شیریں بیان شریف الطبع اور اخلاق کے اعلیٰ نمونہ تھے تواضع و انکساری کے خو گر تھے حلم اور بُردباری کوٹ کوٹ کر بھری تھی عفو و درگذر آپ کا شیوہ تھا ۔ اہل علم کی بہت ہی تکریم کرتے تھے ، اپنے دروازہ سے کسی بھکاری کو خالی ہاتھ واپس نہیں جانے دیتے تھے۔
آپ کے اندر بہت سی خوبیاں تھیں کس کس خوبی کا شمار کیا جائے ۔ 
  خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں 
آپ کی تدفین آپ کے آبائی گاؤں اونرہوا کے قبر ستان میں ۱۵؍جولائی ۲۰۱۱؁ء بعد نماز جمعہ ہوئی جنازہ میں گاؤں ، علاقہ قرب وجوار کے علاوہ مدارس ، جامعات کے ذمہ داران اساتذہ کرام علماء عظام نے بھاری تعداد میں جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل کی اور مولانا شفیع اﷲ رحمانی ملگہیا کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ 
آپ نے پسماندگان میں چھ لڑکے شیخ صلاح الدین ، جمال الدین، علاء الدین،
جلال الدین ، عزیز الدین پرمکھ ۔ ظہیر الدین ایک لڑکی اور اپنی اہلیہ کو چھوڑا ہے۔
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو اعلیٰ علیےن میں جگہ دے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازے ۔آمین اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ ووسع مدخلہ
شیخ صلاح الدین مقبول احمد مدنی نے اپنے پدر بزرگوار کے سانحۂ ارتحال پر ایک طویل نظم لکھی ہے اس میں سے چند اشعار ہدیہ قارئین ہیں ان اشعار میں آپ نے جس قلبی دکھ رنج اور صدمہ کا اظہار فرمایا ہے اس کا وہی لوگ اندازہ کر سکتے ہیں جن کے والدین اب اس دنیا میں نہ رہے واضح رہے کہ شیخ نے وفات کی خبر کویت میں سنی شدیدخواہش اور کوشش کے باوجود نماز جنازہ میں شرکت نہ فرماسکے تھے۔ 
اس جنازہ کا عجب پُر کیف نظارہ رہا مقبرہ توحید و سنت ہی کا گہوارہ رہا 
میری آمد کو نہ جو بر وقت طیارہ رہا سب تھے حاضر غیر حاضر بس یہ ناکارہ رہا 
عمر بھر ہوتا رہے گا اس مسافر کو ملال 
اپنی مسبوقی کا جب بھی اس کو آئے گا خیال 
 اب کہاں سے ان کو آخر ڈھونڈھ کے لاؤں گا میں زندگی بھر اپنی کوتاہی پہ پچھتاؤں گا میں 
اپنے گھر پہ شوق سے اب کیسے آپاؤں گا میں والدہ کو چھوڑ کے اب کیسے جاپاؤں گا میں 
 بس انھیں جذبات میں ڈوبا ہوا مدہوش ہوں 
شب کی تاریکی میں تنہائی ہے اور خاموش ہوں 
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ حاجی صاحب کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین 
والسلام 
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ، بلرام پور ۲۰؍نومبر ۲۰۱۱؁ء 
٭٭٭٭

مولانا عبدالرؤف ندوی کی والدہ صاحبہ 

والدہ محترمہ جس کیلئے بشارت دی گئی ہے کہ’’ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے ‘‘ ایک طویل علالت کے بعد ہم لوگوں کو چھوڑکر مورخہ ۱۳؍اپریل ۱۹۸۷؁ء بروز پیر غریب خانہ پوروہ تلسی پور اﷲ کو پیاری ہو گئیں۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون آپ کی لاش موضع ہرہٹہ لے جائی گئی اور ناچیز راقم الحروف عبد الرؤف ندوی کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور ایک عظیم مجمع کی موجودگی میں ہرہٹہ کے آبائی قبرستان میں مدفون ہوئیں۔
والدہ ماجدہ بہت ہی نیک سیدھی سادھی بھولی بھالی تھیں شاید ہی ان کی ذات سے کسی کو تکلیف پہونچی ہو ۔ صوم و صلوٰۃ کی پابند ، مہمان نواز کشادہ دل صابرہ و شاکرہ تھیں ۔
عمر کچھ بھی ہو جائے جب تک ماں زندہ ہے لڑکا لڑکا ہی بنا رہتا ہے اپنی عمر کا احساس تو سایہ سے محرومی کے بعد ہی ہوتا ہے مجھ کو صدمہ و دکھ اس بات کا ہے کہ میرے لئے غائب و حاضر ہر حال میں دعا کیلئے ممتا کے اخلاص کے ساتھ ہاتھ پھیلانے والا اب اس دنیا میں اس درجہ کا کوئی نہ رہا اب بھی اﷲ رکھے بہتیرے موجود ہیں ۔ لیکن آہ وہ آنسو وہ خلش وہ درد کہاں باب رحمت پر ہاتھ پھیلانے والی کنج لحد میں جا چکی ہے یقینا اس رحمت کے سائے کا اٹھ جانا بہت بڑا حادثہ ہے اﷲ تعالیٰ والدہ ٔ مرحومہ کو جنت الفردوس میں درجات عالیہ سے سرفراز فرمائے اور ان کی لغزشوں کو در گذر فرمائے اور ان کی قبر کو نور سے بھر دے ۔ آمین 
شاعر مشرق علامہ اقبال رحمہ اﷲ کی لازوال نظم والدہ مرحومہ کی یاد میں ذہن میں متلاطم اور زبان پر رواں ہو جاتی ہے علامہ اقبال نے اپنی ماں کو جس طرح ہر شخص کی ماں بنا دیا ہے وہ شاعر اور شاعری دونوں کی معراج ہے چاہتاہوں کہ ایک دفعہ قارئین بھی پڑھ لیں ۔
کس کو ہوگا اب وطن میں آہ میرا انتظار 
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار 
خاک مرقد پر تیری لے کر یہ فریاد آؤں گا 
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا 
تربت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا 
گھر میرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا 
دختر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات 
تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات 
عمر بھر تیری محبت میری خدمت کر رہی 
میں تیری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی 
رب ارحمہما کما ربیانی صغیرا 
غمزدہ
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ، بلرام پور ۱۸؍اپریل ۱۹۸۷؁ء 

٭٭٭

مولانا عبدالرؤف ندوی کے والد ماجد صاحب رحمہٗ اﷲ 

والدہ ماجدہ کے انتقال کے دو سال بعد مورخہ ۲۵؍ مارچ ۱۹۸۹؁ء بروز ہفتہ بوقت فجر والد محترم بھی ہم لوگوں کو چھوڑ کر اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملے۔ انا ﷲ واناالیہ راجعون 
والد محترم ۱؂ بہت ہی نیک فتنہ و فساد سے دور دوسروں کے دکھ درد میں برابر کے شریک خلیق ، ملنسار ، متواضع خلوص کے پیکر تھے صابر و شاکرصوم و صلوٰۃ کے پابند قرآن مجید سے والہانہ لگاؤ تھا روزانہ بعد عشاء و فجر آدھا پارہ کبھی ایک پارہ جب تک صحت اچھی تھی تلاوت آپ کا معمول تھا اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیتے تھے مجال نہ تھی کہ چھوٹے سے چھوٹا بچہ خلاف سنت کوئی کام کرسکتاکسی سائل کو دروازہ سے کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں کرتے مہمان نوازی میں ضرب المثل تھے والد محترم بہت سی خوبیوں کے مالک تھے کن کن خوبی کا شمار کیا جائے ۔ 
 خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں 
والدین کتنی عظیم نعمت ہیں دونوں کا یکے بعد دیگرے رحلت کرجانا دکھ و تکلیف کی بات ہے جو ماں کے پیٹ سے آیا ہے اس کو مٹی کے پیٹ میں جانا ہے یہ دنیا فانی ہے اور سب کو یہاں 
 ۱؂ اﷲ تعالیٰ نے والد محترم کو تین لڑکوں اور ایک لڑکی سے نوازا تھا بڑے بھائی کا نام عبد المعبود تھا جو ۲۱ ؍نومبر ۱۹۹۲؁ء میں ہم لوگوں سے جدا ہوگئے ۔ تغمدہ اﷲ برحماتہ ان کو اﷲ تعالیٰ نے کئی اولاد سے نوازا تھا مولانا زبیر احمد مدنی اور تین لڑکیوں کو چھوڑ کر سبھی بچپن ہی میں فوت ہو گئے منجھلے بھائی کا نام عبد الرب ہے ان کے تین لڑکے اور تین ہی لڑکیاں ہیں تینوں لڑکوں کے نام یہ ہیں طفیل احمد فیضی ۔ سہیل احمد ۔ فضیل احمد چھوٹا لڑکا راقم الحروف عبد الرؤف خاں ندوی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے ناچیز کو بھی تین لڑکوں اور پانچ لڑکیوں سے نوازا ہے تینوں لڑکوں کے نام یہ ہیں محمد ظفر محمدی ۔ محمد اقبال ۔ محمد سلمان ۔ یہ سب بچے تعلیم یافتہ ہیں اﷲ تعالیٰ ان کو نیک بنائے اور احکام شریعت پر چلنے کی تو فیق دے اور ان کی عمر میں بر کت عطا فرمائے آمین ۔ 
ہمشیرہ شاکرہ خاتون یکم فروری ۲۰۰۳؁ء کو تلسی پور میں انتقال کی اور ہرہٹہ کے آبائی قبرستان میں مدفون ہوئیں ۔
 ( عبد الرؤف خاں ندوی ) 
سے چلے جانا ہے اسلئے صبر و رضا کے سوا کوئی چارہ نہیں یہ سطریں لکھتے وقت دل بیقرار آنکھیں اشکبار قلم لرزاں ہے ۔
ہم اس موقع پر آنکھ سے آنسو بہا سکتے ہیں جس طرح رسول اﷲ ﷺ کے صاحبزادہ حضرت ابراہیم کی وفات پر رسول اﷲ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے جواب میں آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں انہا رحمۃ بے شک یہ جذبۂ رحمت کے آنسو ہیں ۔
ان العین تدمع والقلب یحزن ولا نقول الا ما یرضٰی ربنا وانا بغراقک یاابراہیم لمحزونون ۔
رب ارحمہما کما ربیانی صغیراً 
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ والد محترم کی لغزشوں کو درگزر فرمائے اور ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کو جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کی بال بال مغفرت فرمائے ۔ آمین 
  اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ 
غمزدہ
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ، بلرام پور 
۲۷؍ مارچ ۱۹۸۹؁ء 
 والدین کے انتقال پُر ملال کے موقع پرشیخ الحدیث علامہ عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری صاحب مرعاۃ المفاتیح کا تعزیتی پیغام 
مکرمی جناب مولانا عبد الرؤف ندوی صاحب عافاہ اﷲ 
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ 
آپ کا لفافہ مرقومہ ۲۸؍مارچ ۱۹۸۹؁ء یکم اپریل کی ڈاک سے موصول ہوا جس سے یہ معلوم ہوکر کے سخت افسوس اور صدمہ ہوا کہ آپ کے والد بزرگوار ایک طویل علالت کے بعد انتقال فرما گئے ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون اﷲم اغفر لہ وارحمہ واعف عنہ وقہ فتنۃ القبر و عذاب النار وادخلہ الجنۃ 
خط سے یہ معلوم ہوکر مزید صدمہ اور غم ہوا کہ دو سال پہلے آپ اپنی والدۂ محترمہ کے سایۂ شفقت و عافیت سے محروم ہوگئے ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون اﷲ تعالیٰ دونوں حضرات کی بال بال مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین 
آپ اپنے علم و فضل اور فہم و دانش کی وجہ سے مجھ جیسے لوگوں کی تلقین صبر سے مستغنی اور بے نیاز ہیں مرحومین ہماری اور بالخصوص اپنی اولاد کی دعاؤں کے محتاج ہیں انشاء اﷲ یہ عاجز دیگر مرحومین کی طرح ان کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھے گا ۔ اﷲ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو حُسن قبول عطا فرمائے۔ آمین 
انشاء اﷲ تعالیٰ آنے والے جمعہ کو جنازۂ غائبانہ ادا کر دیا جائے گا یہ معلوم ہوکر افسوس ہو رہا ہے کہ اب تک آپ کی صحت قابل اطمینان نہیں ہوئی ہے اور علاج کا سلسلہ جاری ہے ، اﷲ تعالیٰ سے بخلوص قلب دعا ہے کہ وہ آپ کی صحت بہتر سے بہتر کردے تاکہ اطمینان و یکسوئی کے ساتھ دینی و ملی اور دعوتی کام انجام دے سکیں۔ 
افسوس کہ شیخ صلاح الدین مقبول احمد صاحب مدنی سے اطمینان کی ملاقات نہیں ہو سکی اور بڑی تشنگی رہ گئی اﷲ تعالیٰ ان سے زیادہ سے زیادہ دینی ملی علمی جماعتی خدمات لیتا رہے اور قبول فرمائے مولانا عبد الرحمن سلمہ مکہ مکرمہ گئے ہوئے ہیں انشاء اﷲ ہفتہ عشرہ میں واپس آجائیں گے یہ عریضہ ان کے منجھلے لڑکے از ہر سلمہ سے لکھوا رہا ہوں میری اور والدۂ عبد الرحمن سلمہ کی حالت اچھی نہیں ہے ہم دونوں آپ جیسے مخلص لوگوں کی غائبانہ پُر خلوص دعاؤں کے سخت محتاج ہیں ۔ الحمد ﷲ علیٰ کل حال اﷲ تعالی ہمیں ارزل عمر سوء کبر سے محفوظ رکھ کر حسن خاتمہ نصیب کرے آمین۔
والسلام
عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری 
۲۶؍۴؍ ۱۹۸۹؁ء 



٭٭٭



 مولوی مشتاق احمد فیضی رحمہ اﷲ 

یہ خبرہم لوگوں پر بجلی بن کرگری کہ مورخہ ۴؍ اپریل ۱۹۸۴؁ء بروز جمعہ ساڑھے سات بجے بنارس کے اسپتال میں ایک ہفتہ علالت رہ کر عزیز القدر مولوی مشتاق احمد فیضی ہم لوگوں کو تڑپتا چھوڑ کر اﷲ کو پیارے ہو گئے ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون 
عزیزی مولوی مشتاق احمد رحمہ اﷲ برادر معظم جناب عبد المعبود خانصاحب کے بڑے صاحبزادہ تھے اﷲ تعالیٰ نے بڑے بھائی کو کئی اولاد سے نوزا تھا مگر مشیت خداوندی کہ وہ سب بچپن ہی میں فوت ہوگئے دو صاحبزادگان عزیزان مولوی مشتاق احمد فیضی اور مولانا زبیر احمد مدنی ۱؂ جامعہ فیض عام میں زیر تعلیم تھے کہ عزیزی مشتاق احمد دوران تعلیم جبکہ فضیلت سال کا سالانہ امتحان صرف ایک ماہ رہ گیا تھا عین جوانی میں داغ مفارقت دے گئے ۔
عزیزی مجھ کو کافی عزیز تھے بچپن سے میرے پاس رہے ان کی تعلیم و تربیت پر میری خاص توجہ رہتی تھی عزیزی کی وفات سے ہم لوگوں کو خاص کر بڑے بھائی صاحب کو سخت صدمہ 
پہونچا بھائی صاحب اس صدمہ کو برداشت نہ کرسکے اور چند سال بعدوہ اﷲ کو پیارے ہوگئے دل بے قرار آنکھیں اشکبار اور قلم کانپ رہا ہے سچ ہے ؂
پی گئی کتنوں کالہو تیری یاد غم ترے کتنے کلیجے کھا گیا 
۱؂ مولانا زبیر احمد عبد المعبود المدنی سلمہ اﷲ تعالیٰ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فارغ التحصیل ہیں عزیزی ایک فعال متحرک نوجوان فاضل ہیں پڑھے لکھے حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں درس و تدریس تصنیف و تالیف تحقیق و تدقیق دعوت و تبلیغ امامت و خطابت علمی اور رفاہی و فلاحی کاموں کے علاوہ جماعتی مسلکی اور تنظیمی کاموں میں بھی رواں دواں رہتے ہیں اﷲ تعالیٰ عزیزی کی جد و جہد کوقبول فرمائے اور زیادہ سے زیادہ دینی وملی خدمات سے نوازتا رہے آمین ( عبد الرؤف خاں ندوی) 
عزیزی کا سانحۂ ارتحال ایسا ہے کہ قلم لکھنے سے قاصر ہے ہم بے بس اور مجبور ہیں ہم شریعت کے دائرہ اور مقررہ حدکے اندر صرف آنسو بہانے پر اکتفا کر رہے ہیں ہم اور ہماری اولاد اور ہمارے والدین اور جملہ مال متاع یہ سب اﷲ کی ملک ہیں اور ہمارے پاس بطور عاریت کے ہیں اگر مالک اپنی دی ہوئی چیز ہم سے واپس لے لے تو اس میں رونے دھونے کا کیا حق ہے ۔
عزیزی بیس سال کے اندر ادیب، ادیب ماہر ، منشی عالم کامل اور جامعہ فیض عام سے سند عا لمیت ممتاز نمبروں سے کامیاب ہو چکے تھے بے حد ذہین و فطین سنجیدہ لائق محنتی نیک اساتذہ کرام کے نور نظر تھے اور ناظم جامعہ مفتی مولانا حبیب الرحمن فیضی کے مقرب تھے اور کئی سال تک جامعہ کے طلبہ کی انجمن کے سکریٹری رہ چکے تھے ۔عزیزی کے بنارس اسپتال میں وفات کی خبر ملنے پرجامعہ فیض عام میں صف ماتم بچھ گئی ۔ بنارس سے نعش مؤ لائی گئی اور مؤ سے بذریعہ جیپ ہمارے گھر ہرہٹہ نعش پہونچی تو ہم لوگوں پر بجلی بن کر گری پورا گاؤں سوگوار تھا اﷲ تعالیٰ نے اپنی امانت واپس لے لی ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے ہم لوگوں کیلئے یہی صبر و تسکین کی بات ہے موت الغربۃ شہادۃ 
عزیزی کو ایک عظیم مجمع کی موجودگی میں ھرھٹہ کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا نماز جنازہ مولانا عبد الحمید فیضی استاذ جامعہ فیض عام مؤ کی امامت میں ادا کی گئی دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ عزیزی کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کو جوار رحمت میں جگہ دے آمین ۔ 
اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ
ماتھے پر تحریر ہے غم کی خشک ہیں لب آنکھیں نم ہیں ٭ ہم سے ہمارا حال نہ پوچھو ہم تو سراپا ماتم ہیں 
غمزدہ
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ۔ بلرام پو ر
ماہنامہ آثار مؤ مئی جون ۱۹۸۴؁ء 
٭٭٭٭

 قدسی صاحب رحمہٗ اﷲ علیہ 

یہ خبر جماعتی حلقوں میں انتہائی رنج و غم کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ شاعر اسلام عبد الستار قدسی صاحب کواپوری مورخہ ۲۶؍ اپریل ۲۰۱۲؁ء مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ گینسڑی کے سامنے مین روڈ پر ایک موٹر سائیکل کی زد میں آکر سخت ڑخمی ہوگئے اور بے ہوشی کی حالت میں ضلع بلرام پور اسپتال میں لے جائے گئے ، ڈاکٹروں کی زبر دست کوششوں کے باوجود اسی دن بعد نماز مغرب اسپتال میں ہی زخموں کی تاب نہ لاکر اﷲ کو پیارے ہو گئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون 
مورخہ ۲۷؍اپریل ۲۰۱۲؁ء بروز جمعہ ایک عظیم مجمع علماء عوام و خواص کی موجودگی میں بعد نماز جمعہ کوا پور کے قبرستان میں سپرد خاک کر دئے گئے ۔ نماز جنازہ مولانا زبیر احمد عبد المعبود مدنی معاون ناظم ضلعی جمعیت اہل حدیث بلرام پور نے پڑھائی۔
آپ نے مڈل تلسی پور میں پاس کیا اور عربی و فارسی کی تعلیم کانپور میں حاصل کی ، ملک کی آزادی سے قبل ہی منشی اور منشی کامل کا امتحان فرسٹ ڈویزن سے پاس کیا اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے ۱۹۴۷؁ء میں دارالحدیث رحمانیہ دہلی بھی گئے اور مطلوبہ جماعت میں داخلہ بھی ہو گیا مگر آزادی کے ساتھ ساتھ تقسیم ہند کا خونچکا ں حادثہ پیش آگیا جس کی وجہ سے ناکام و نامراد وطن واپس آگئے۔ 
  اﷲ تعالیٰ نے قدسی صاحب کی عمر میں بڑی بر کت عطا فرمائی اور تقریباً نوے سال کی بہاریں گذاریں ۔ تقریباً ستر سال درس و تدریس تعلیم و تربیت سے جڑے رہے ۔ تربیت کا پیارا انداز تھا قدسی صاحب تجربہ کار معلم اردو، فارسی،حساب پر مکمل عبور تھا ۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ آپ سے استفادہ کرتے تھے۔ آپ کی وفات سے سب سے زیادہ تعلیمی و علمی صدمہ معہد خدیجۃ الکبریٰ گینسڑی کو پہونچا ہے ۔ مدرسہ ہذا کیلئے انہوں نے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا ۔ قدسی صاحب نہایت سادگی پسند جفاکش متواضع منکسر المزاج مخلص اور پیکر استغناء تھے ۔ ہر شخص سے اس کی قوت فہم اور رسائی ذہن کے مطابق بات کرتے۔ لالچ طمع حرص دنیوی مال و متاع اور روپئے پیسے کی محبت سے دل بالکل خالی تھا اس کا اندازہ اس حقیقت سے کیجئے کہ وفات کے وقت ان کو ماہانہ مشاہرہ ساڑھے تین ہزار ملتے تھے جبکہ اس وقت ان کے شاگرد وں کی تنخواہیں اس سے کہیں زیادہ ہیں۔
قدسی صاحب جن کو آج رحمہ اﷲ لکھتے ہوئے دل و دماغ پر ایک لرزہ طاری ہو رہا ہے دل بے قرار اور آنکھیں اشکبار ہیں قدسی صاحب فارسی اور اردو کے مسلم الثبوت استاد تھے ان کی تحریر و تقریر کا ایک ایک جملہ اور کلام و بیان کا ہر ہر لفظ ان کے علم و صلاحیت کی وسعت کی شہادت دیتا ہے شاعری کا کیا کہنا مکاتب ومدارس عربیہ کے قومی و ملی ترانے اور دیگر نظمیں جوجام قدسی ، آہنگ قدسی(کا ناشر راقم الحروف ہے) کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے ۔ یہ ان کی پختہ شاعری ، معلومات کا خزینہ اور فضل و کمال کا بین ثبوت ہے ۔آپ کے لکھے ہوئے اکثر ترانے ضلع بلرام پور کے مکاتب و مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ للبنات گینسڑی کے ترانے سے کافی شہرت حاصل کی جامعہ قاسم العلوم گلرہا کیلئے قدسی صاحب نے ایک شاندار ترانہ تحریر فرمایا جس کو ۲۰۰۹ کی کانفرنس میں طلبائے ادارہ نے پیش کیا تھا اس ترانہ میں آپ نے مسلک سلف کی خوب خوب ترجمانی کی ہے قاسم العلوم گلرہا باغوں کے درمیان ایک و سیع و عریض تالاب کے منڈیر پر واقع ہے جائے و قوع اور محل وقوع کا نقشہ کھینچتے ہوئے قدسی صاحب لکھتے ہیں ؂
یہ بوستاں بھی اور درمیان باغ بوستاں 
یہ چشمہ رواں بھی اور کنار چشمۂ رواں 
دعائیہ کلمات اس طرح لکھتے ہیں ؂
ہے قدسی شکشتہ کے دل شکشتہ کی دعا 
کہ اس کے جانثاروں سے ہمیشہ غم رہے جدا 
آپ نے پوری زندگی درس و تدریس دعوت و تبلیغ اصلاح معاشرہ میں صرف کردی مدرسہ زینت العلوم سمرہن کلاں ، فضل رحمانیہ پچپڑوا ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بلرام پور(تلسی پور) بشن پور ٹنٹنوا قاسم العلوم گلرہا اور آخر میں تادم حیات مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ للبنات گینسڑی سے منسلک رہے آپ بڑی خوبیوں کے مالک تھے متواضع منکسر المزاج صابر اور قانع تھے عادت و اطوار لباس وغیرہ انتہائی سادہ آپ اخلاق کے اعلیٰ نمونہ تھے بے حد ملنسار اور خوش خلق تھے شہرت طلبی سے کوسو ں دور رہتے قدسی صاحب جنھوں نے جامعہ عربیہ قاسم العلوم گلرہا کی ترقی و عروج میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر ڈالی تھیں اخیر عمر میں نا قدری کے شکار ہو گئے اور آپ مستعفی ہو گئے قدسی صاحب پندرہ سال تک جمعیۃ میں میرے ساتھ کام کر چکے تھے ان کی صلاحیت و قابلیت کو میں اچھی طرح جانتا تھا قدسی صاحب کو میں مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ گینسڑی لے آیا اور ماشاء اﷲ آپ نے مدرسہ ھذا کی آخری دم تک خوب خوب خدمات انجام دیں۔
آخر کار علم کا یہ بحر بیکراں نوے سال کی عمر میں ۲۶؍ اپریل ۲۰۱۲؁ء بعد نماز مغرب اپنے خالق حقیقی سے جا ملا اﷲ تعالیٰ قدسی صاحب کی لغزشوں کو درگذر فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ، آمین 
میر تقی میر سے معذرت کے ساتھ 
؂ مصائب اور تھے پر ان کا جانا ٭ عجب اک سانحہ سا ہو گیا 
اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ، بلرام پور 
۱۰؍مئی ۲۰۱۲؁ء 
جناب مولانا عبد الوحید صاحب سلفی رحمہ اﷲ 
(تاریخ پیدائش ۱۹۲۴؁ء تاریخ وفات ۱۹۸۹؁ء )
علم میں حلم میں انصاف میں ہر خوبی میں 
ہم نے ڈھونڈا نہ ملا مثل ترا عالم میں 
سابق ناظم جامعہ سلفیہ بنارس اور سابق امیر مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند مولانا عبد الوحید سلفی بن الحاج عبد الحق بن حافظ عبد الرحمن ۲۳؍جنوری ۱۹۲۴؁ء بروز چہار شنبہ مدن پورہ بنارس میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم محلہ کے مکتب سے شروع کی پھر جامعہ رحمانیہ بنارس میں داخلہ لیا اور یہیں سے فراغت حاصل کی۔ 
آپ کے اساتذہ میں مولانا محمد منیر خاں مولانا سعید محدث بنارسی مولانا عبد الغفار حسن رحمانی مولانا عبد المجید حریری مولانا عبید اﷲ منبر مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی مولانا حبیب احمد صاحب اور انگریزی کے استاذ ماسٹر اکبر خاں اور احمد سعید قابل ذکر ہیں ۔ 
۱۹۴۳؁ء میں الہ آباد بورڈ یوپی سے عا لمیت کا امتحان پاس کیا ۱۹۴۶؁ء میں پرائیویٹ طور پر انٹر کا بھی امتحان دیا اور اچھی پوزیشن سے کامیابی حاصل کی فراغت کے بعد جامعہ رحمانیہ بنارس سے تدریسی آغازکیا ۳۶سال کی عمر میں دسمبر ۱۹۶۰؁ء کو جامعہ رحمانیہ بنارس کے ناظم منتخب ہوئے اور نومبر ۱۹۶۶؁ء تک اس اہم عہدے پر فائز رہے پھر ۱۹۶۳؁ء میں جامعہ سلفیہ دارالعلوم بنارس کی تاسیس سے لیکر آخر عمر تک اس ادارہ کے بھی ناظم اعلیٰ رہے ۱؂ آپ نے جس محنت اور جانفشانی 
 ۱؂ ناظم اعلیٰ مولانا عبد الوحید سلفی کی وفات کے بعد جامعہ سلفیہ بنارس کی مجلس منتظمہ نے باتفاق رائے آپ کے صاحبزادہ مولانا عبد اﷲ سعود حفظہ اﷲ کو ناظم اعلیٰ منتخب کیا بحمد اﷲ مولانا عبد اﷲ سعود صاحب سلفی مدنی اسی وقت سے ناظم اعلیٰ کے فرائض بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں اور جامعہ کے عروج و ارتقاء کیلئے ہمہ وقت کوشاس ہیں اﷲ تعالیٰ اس علمی چمن کو ہمیشہ سر سبز و شاداب رکھے اور اس پر کبھی خزاں نہ آئے۔ (عبد الرؤف خاں ندوی ۔ تلسی پور ) 
سے اسے ایک تنا آور شجر کی شکل میں کھڑا کیا ارباب جماعت سے پوشیدہ نہیں۔ 
آپ ابتدا ہی سے مرکزی جمعیۃ اہل حدیث کے ممبر تھے ۱۹۷۲؁ء کے انتخاب میں آپ نائب صدر کی حیثیت سے منتخب ہوئے اس وقت ڈاکٹر سید عبد الحفیظ سلفی صدارت کے عہدۂ جلیلہ پر فائز تھے پھر ستمبر ۱۹۷۹؁ء کے انتخاب میں مرکزی جمعیۃ کے صدر منتخب ہوئے ۱۹۸۵؁ء میں بنگلور اجلاس کے انتخاب میں بھی دوبارہ آپ ہی پر صدارت کی ذمہ داری ڈالی گئی چنانچہ تا وفات نومبر ۱۹۸۹؁ء لگ بھگ آٹھ سال تک آپ نے جماعت کی قیادت فرمائی۔ 
اپنے دور صدارت میں مرکزی جمعیۃ کی تعمیر و ترقی میں بھر پور کردار ادا کیا جمعیۃ کو منظم اور مربوط کیا صوبوں اور ضلعوں کو مرکز سے منسلک کیا شعبۂ دعوت و تبلیغ کو متحرک کیا ریلیف فنڈ قائم کیا جماعت کو متحرک بنانے کے لئے متعدد پروگراموں کو تشکیل دیا اور سب سے بڑا کارنامہ یہ کہ جامع مسجد دہلی جیسے مرکزی مقام پر مرکزی جمعیۃ کو ایک مستقل بلڈنگ بنام اہل حدیث منزل عطا کی۔ 
آپ نے بلاد عرب کے مختلف اجلاس میں بھی جماعت کی نمائندگی فرمائی چنانچہ موتمر المسجد فی العالم مکہ مکرمہ منعقدہ ۱۳۹۵؁ھ موتمر رسالۃ المسجد اور الموتمر العالمی الاول للتعلیم الاسلامیمکہ مکرمہ میں شرکت فرمائی ۱۱؍مئی ۱۹۸۵؁ء کو بنگلور کا تاریخ ساز اجلاس آپ ہی کے زیر صدارت منعقد ہوا ، حرمت حرمین کانفرنس منعقدہ دہلی اور شبان اہل حدیث کانفرنس بھی آپ ہی کی صدارت میں ہوئی آپ کا دور صدارت ہر اعتبار سے ترقی پذیررہا۔ بالآخر ۲۵؍ نومبر ۱۹۸۹؁ء کو ۶۵ سال کی عمر میں گنجینۂ علم و فضل اور پیکر صبر و رضا نے عالم جاودانی کو لبیک کہا ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون اﷲم اغفرلہ وارحمہ و عافہ واعف عنہ
بشکریہ ماخوذ مجلہ اہل حدیث دہلی 
٭٭٭

مولانا عبد القدوس صاحب ٹکریاوی رحمہٗ اﷲ 

آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی 
اﷲ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی 
مولانا عبدالقدوس صاحب رحمہ اﷲ ٹکریاوی ڈومریا گنج ضلع سدھارتھ نگر یوپی بیسویں صدی کے ان بابصیرت علماء اور بلند فکر قائدین میں سے تھے جن کا وجود سراپا ملت اسلامیہ کیلئے باعث خیر تھا آپ مشہور عالم دین مثالی خطیب شیریں بیاں واعظ اعلیٰ درجہ کے منتظم کامیاب مدرس و مربی مسلک کتاب و سنت کے شارح و ترجمان منہج سلف کے امین ووارث ، ملت و جماعت کے بے لوث خادم مرنجان مرنج اور باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے آپ کی ذات میں بجلی کی کڑک پہاڑوں کی استقامت ہمالہ کی بلندی سمندر کی گہرائی موجود تھی آپ میں متنوع صفات جامع کمالات و خصوصیات تھیں ۔
نام و نسب : عبد القدوس بن الحاج حشم اﷲ بن الحاج تراب ……
حلیہ : میانہ قد گندمی رنگ بیضوی چہرہ سفید گھنی داڑھی سفید کرتا سفید علی گڑھی پائجامہ خاص موقع پر صدری اور شیروانی سر پر رامپوری ٹوپی کندھے پر سفید رومال رہتا تھا مسکراہٹ ہمیشہ چہرہ پر عیاں رہتی تھی بوڑھاپے میں ہمت جوان تھی ۔ یہ تھا ہمارے مولانا عبد القدوس صاحب رحمہ اﷲ کا حلیہ ۔ 
تاریخ پیدائش: بروایت شیخ مولانا عبد الواحد مدنی مولانا کی تاریخ پیدائش موضع ٹکریا ڈومریاگنج ضلع سدھارتھ نگر میں ۱۹۲۰؁ء میں ہوئی۔ 
تعلیم : مولانا نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسہ میں حاصل کی مکتب کی تعلیم حاصل کرکے جامعہ سراج العلوم بونڈھیار میں داخلہ لیا ۔ یہاں چند سال رہے پھر جامعہ فیض عام مؤ تشریف لے گئے یہاں بھی چند سال محنت لگن سے تعلیمی سفر جاری رکھا مزید اعلیٰ تعلیم کے لئے دہلی کا رخ کیا وہاں مدرسہ جامع اعظم دہلی میں داخلہ لیا اس وقت وہاں شیخ الحدیث مولانا عبد السلام صاحب بستوی اور مولانا عبد الغفور صاحب بسکوہری و دیگر اساطین علم تشنگان علم کو سیراب کر رہے تھے مزید تعلیم کیلئے مدرسہ مسجد فتح پوری میں داخلہ لیا اور یہیں علم کی تکمیل فرمائی اور سند فراغت حاصل کی ۔ مدرسہ فتح پوری میں بھی اس وقت مشاہیر علماء تشنگان علوم کو سیراب کر رہے تھے مولانا سعید احمد اکبر آبادی ایڈیٹر بر ہان دہلی اور مولانا فخر الحسن دیوبندی وغیرہم واضح رہے بعد کے ادوار میں یہی مولانا فخر الحسن صاحب دارالعلوم دیو بند کے شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے مولانا نے ۱۹۴۵؁ء میں مدرسہ فتح پوری سے سند فراغت حاصل کی۔
مشہور اساتذہ کرام : شیخ الحدیث مولانا عبد السلام بستوی مدیر الاسلام دہلی مولانا عبدالغفور صاحب بسکوہری مولانا سعید احمد اکبرآبادی شیخ الحدیث مولانا فخرالحسن صاحب دیو بندی وغیرہ وغیرہ 
مشہور تلامذہ: مولانا عبد اﷲ بخاری امام شاہی جامع مسجد دہلی مولانا عبد الباری فتح اﷲ مدنی سعودیہ عربیہ حافظ مولانا عبد اﷲ عبدا لحمید بحرین مولانا عتیق الرحمن ندوی اثری دریا آباد مولانا عبد الواحد مدنی ڈومریا گنج وغیرہم مولانا کے شاگردوں کی فہرست بہت لمبی ے سردست ان کا شمار کرنا محال ہے ویسے مولانا سے بہت سے طلبہ نے علوم حاصل کئے اور قرآن و حدیث میں مہارت پیدا کی ۔ 
مولانا کی خوش بختی ملاحظہ ہو کہ وہ اپنے وقت کے مشہور علمی سر چشموں سے سیراب ہوتے رہے اور انھیں اس دور کے مشاہیر اہل علم کے حضور زانوئے شاگردی تہ کرنے کے مواقع میسر آئے اور ان کے طریق ہائے درس کا انھیں پتہ چلا۔ 
مولانا عبد القدوس صاحب بچپن ہی سے بلاکے ذہین تھے ایک دفعہ مدرسہ فتح پوری میں دوران درس مولانا عبد القدوس صاحب نے مسئلہ رفع الیدین پر مولانا فخر الحسن دیوبندی پر اعتراض کیا کہ استاذ محترم رفع الیدین کی اثبات میں ساری حدیثیں مرفوع موجود ہیں تو آپ لوگ اس کی تردید کیوں کرتے ہیں مولانا فخر الحسن صاحب رائے قیاس کا سہارا لیکر اس مسئلہ کو ایک ہفتہ تک طول دیتے رہے اور مولانا عبد القدوس صاحب کھل کر اس مسئلہ پر بحث کرتے رہے آخر کار مولانا کے استاذ محترم فخر الحسن صاحب مولاناعبدالقدوس صاحب کو مطمئن نہ کرسکے درس اور تقریری پروگراموں میں مولانا بے حد شوق و دلچسپی سے حصہ لیتے تھے اور ہمیشہ اساتذہ اور منتظمین کے اعزاز و اکرام سے نوازے جاتے تھے۔
مدرسہ مظہر العلوم اوسان کوئیاں کی نشاۃ ثانیہ:مولانا عبد القدوس صاحب۱۹۴۵؁ء میں سند فراغت پانے کے بعددہلی ہی میں کسی مناسب جگہ کی تلاش میں تھے بحمد اﷲ حسب خواہش ان کو جگہ مل بھی گئی مگر شیخ الحدیث مولانا عبد السلام صاحب بستوی رحمہ اﷲ کے حکم و اصرار پر مدرسہ مظہر العلوم آنا پڑا شیخ الحدیث بستوی نے فرمایا وہ ادارہ ہمارے بزرگوں کا قائم کردہ ہے اور کئی سالوں سے بند پڑا ہے وہاں اس وقت تمہاری سخت ضرورت ہے جاؤ اﷲ کانام لیکر کام شروع کردو میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں مولانا گھر آئے گاؤں کے سر برآوردہ حضرات کی میٹنگ طلب کی بحث و مباحثہ کے بعد شرکاء حضرات نے مدرسہ کی باگ ڈور آپ کے حوالے کردی مولانا نے اﷲ کا نام لیکر کام شروع کردیا مولانا نے اس بار عظیم کو اٹھانے کے بعد ایک مالی کی طرح اس باغ کی آبیاری کی بڑی محنت جانفشانی و جد و جہد سے چند سالوں میں مدرسہ میں پہلے کی طرح رونق آگئی اور پہلے ہی کی طرح گہما گہمی شروع ہوگئی ۔ 
مدرسہ مظہر العلوم کے عرو ج وارتقاء کیلئے مولانا نے انتھک محنت کی آپ عزم و ہمت کے بڑے دھنی تھے عزم وہمت کا ہمالہ تھے میں نے آل انڈیا اہلحدیث نوگڈھ کانفرنس میں آپ کی جانفشانی محنت اور ہمت کو دیکھا ہے اور اپنے یہاں ریاستی کانفرنس۱۹۶۸؁ء تلسی پور میں بھی دیکھا ہے خلوص، محنت، جفاکشی، احساس ذمہ داری ، جذبۂ خدمت دین ، صالحیت اور صلاحیت مولانا عبد القدوس صاحب میں یہ چھ عناصر تھے جن کو ان کی حیات مبارکہ کے لازمی عناصر کی حیثیت حاصل تھی یہ عناصر نعم الرفیق کے طور پر تمام عمر ان کے ساتھ رہے آخر دم وقت تک مدرسہ جماعت و جمعیۃ کی خوب خدمت کرتے رہے۔ 
یہ بات شاید کم ہی لوگوں کو معلوم ہو کہ مدرسہ مظہر العلوم اوسان کوئیاں میں نمونہ سلف مولانا محمد اظہر مسلم بہاری و مولانا اﷲ بخش بسکوہری نے بھی چندسالوں تک یہاں کے تشنگان علوم کو سیراب کیا ہے۔ 
مولانا عبد القدوس صاحب اپنی ذاتی کوشش سے ڈومریا گنج میں کئی مساجد و مدارس کی بنیاد رکھی اس کو بنوایا سنوارا مولانا کے اندر دعوت و تبلیغ کا اتنا مخلصانہ جذبہ تھا کہ ہر موسم میں گاؤں سے بذریعہ سائیکل ڈومریا گنج جمعہ کی نماز پڑھانے کیلئے تشریف لاتے تھے۔ 
زہد و تقویٰ :مولانا نیک خدا ترس ، حق گو متقی احکام شرع کے پابند تھے مفکر ملت مولانا عبدالجلیل صاحب رحمانی کافی اصرار کے ساتھ اپنے دارالعلوم ششہنیاں میں درس و تدریس کی غرض سے مولانا عبد القدوس صاحب کو لے گئے ایک دن ناظم صاحب کے خاندان کے ایک شخص نے دارالعلوم کے اسٹاف اور گاؤں کے علماء کی دعوت کی سبھی علماء کرام بڑے ذوق وشوق سے دعوت کھانے گئے مگر مولانا عبد القدوس صاحب نے اس دعوت میں شرکت نہ فرمائی جب آدمی آپ کو بلانے آیا تو مولانا عبدالقدوس صاحب نے فرمایا کہ میں بے نمازی کی دعوت نہیں کھاتا ہوں۔
اسی طرح سیٹھ شوکت علی صاحب جو کافی معروف و مشہور سیٹھ ہیں اور مولانا عبد القدوس صاحب سے دیرانیہ مراسم اور خوشگوار تعلقات تھے غالباً والد یا والدہ کے انتقال پر علماء کرام کی دعوت کی علاقہ کے سبھی علماء کرام دعوت میں شریک ہوئے مگر مولانا تشریف نہیں لے گئے اس بات پر سیٹھ صاحب سخت ناراض ہو گئے مولانا کے مدرسہ کا چندہ جو دیتے تھے بند کردیا کچھ دنوں کے بعد سیٹھ صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا مولانا سے ملاقات کی اور مولانا کے مدرسہ کا چندہ دوگنا کردیا۔ 
پپرا رام لعل کا فساد : غالباً ۱۹۶۶؁ء میں پپرا رام لال میں بہت بڑا فساد ہوا تھا ایک نیتا کے اشارہ پر اس گاؤں کے شر پسندوں اور بلوائیوں نے پورے گاؤں کے مسلمانوں کے گھروں کو لوٹ لیا اور آگ کے حوالے کردیا مسلمانوں کا جانی نقصان تو نہیں ہوا تھا مگر مالی نقصان کا یہ عالم تھا کہ مسلمان نان شبینہ کے محتاج ہو گئے اس وقت مولانا اسکول پر چائے پی رہے تھے اتنے میں ایک آدمی ہانپتا کانپتا مولانا کے پاس آیا اور فساد کی اطلاع دی مولانا چائے کی پیالی چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور گاؤں کے کچھ لوگوں کو ساتھ لیا اور جب پپرا رام لال گاؤں پہونچے تو آہ و بکا کی صدائیں گونج رہی تھیں اور پپرا کے پاس ایک مسلم اکثریت گاؤں تھا وہاں پر فورس ٹکی ہوئی تھی کہ کوئی شخص نہ جاسکے مولانا اور ان کے ساتھی دوسرے راستہ سے گاؤں میں پہونچے سبھی لوگوں نے فساد زدہ لوگوں کی بڑی مدد کی بڑی مشکل سے فسادات پر قابو پایا گیا اسی وقت سے مولانا عبدالقدوس صاحب کو مجاہد ملت کہا جانے لگا۔ 
فریقین کے خلاف رپورٹ درج کی گئی مولانا کا نام ناظم لکھا گیا وارنٹ گرفتاری کا دور چلا مولانا کے نام بھی وارنٹ گرفتاری آئی نام ناظم لکھا تھا ظاہر بات ہے مولانا کانام عبدالقدوس تھا جب معلوم کیا گیا ناظم کس کا نام ہے گاؤں والوں نے بتایا ہمارے گاؤں میں اس نام کا کوئی نہیں ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا اور مولانا کو عدالت کی بادیہ پیمائی سے محفوظ رکھا۔ 
ایک خواب : نمونہ سلف مولانا سید محمد ممتاز صاحب ندوی ۱ ؂ کرتھی ڈیہہ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم بزرگ گذرے ہیں ان کی دعوت و تبلیغ سے علاقہ سے شرک وبدعت کا استیصال ہوا ایک شب مولاناسید محمد ممتاز صاحب نے خواب دیکھا کہ میں جنت میں ہوں اور میرا عصا مولانا عبدالقدوس صاحب کے ہاتھ میں ہے ۔ صبح ہوئی تو مولانا ممتاز صاحب نے اپنے لڑکے سے کہا جب مولانا عبدالقدوس مدرسہ جانے کیلئے ادھر سے گذریں تو ان کو بلا لانا ۔ مولانا تھوڑی دیر بعد تشریف لائے تو لڑکے نے مولانا کا پیغام سنایا مولانا عبد القدوس صاحب خدمت میں حاضر ہوئے السلام علیکم کے بعد مولانا محمد ممتاز صاحب نے اپنا خواب بیان کیا کہ آج شب میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں جنت میں ہوں اور ہمارا عصا تمہارے ہاتھ میں ہے اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ میرے بعد دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری تم پر ہے اور تم میرے وارث ہو مولانا عبد القدوس صاحب اس خواب کی تعبیر مولانا سید ممتاز صاحب سے سن کر بہت خوش ہوئے۔
اخلاق و عادات :مولانا بلند اخلاق نہایت مخلص تھے مطالعہ کتب کے بے حد شوقین تھے علامہ رشید مصری کی تفسیر زیادہ پسند کرتے تھے طلبہ کے لئے انتہائی شفیق علماء کرام کے انتہائی قدر داں اور ان کا بے حد احترام کرتے تھے خطیب الاسلام جھنڈا نگری مفکر ملت مولانا عبد الجلیل رحمانی مولاناعبد المبین منظر سے بڑی محبت و قربت تھی کھانے پینے اور لباس وغیرہ تکلف سے ذہن
۱؂ مولانا ممتاز علی بن سید عابد علی ندوی آپ کا مولد موضع کسمھی تحصیل ڈومریا گنج ہے منجملہ اور اساتذہ کے آخر میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے سند فراغت حاصل کی اس دور میں مولانا حفیظ اﷲ صاحب اعظمیندوہ کے شیخ الحدیث تھے حدیث ان سے پڑھی ۔الہ آباد بورڈ سے فاضل ادب کا امتحان پاس کیا فراغت کے بعد موضع کرتھی ڈیہہ سدھارتھ نگر کو سکونت کی عزت بخشی ، تبلیغ توحید و سنت شعار رہا قصبہ ہلورمیں امامیہ(اثناعشریہ) کی کثرت ہے مگر آپ کے وعظ و تذکیر سے بے شمار امامیہ حلقہ اہل حدیث میں داخل ہوگئے (بقیہ اگلے صفحہ پر)
 بالکل پاک تھا پڑھنا لکھنا اور درس و تدریس ان کے اصل مشاغل تھے روزانہ درس قرآن و درس حدیث دینا آپ کا معمول تھا مصائب و آلام کی گھڑیوں میں خلوت میں بیٹھ کر یاد الٰہی میں کھو جاتے اور ذکر الہی کی روحانی ومعنوی طاقت سے گردش ایام کا مقابلہ کرتے اور کامیاب رہتے الا بذکر اﷲ تطمئن القلوب اپنے ماتحت افراد کی خبر گیری کرتے اور ان کا حوصلہ بڑھاتے دینی قائد ہونے کی حیثیت سے لوگوں کے دلوں میں ان کیلئے عقیدت و احترام کا جذبہ پایا جاتا تھا۔
اولاد: اﷲ تعالیٰ نے مولانا کو تین لڑکوں سے نوزا ہے بڑے اور منجھلے صاحبزادے تعلیم سے فراغت کے بعد تجارت میں لگے ہوئے ہیں تیسرے صاحبزادے فضیلۃ الشیخ عبد الواحد مدنی حفظہ اﷲ ہیں جن کا جماعت کے اکابر علماء میں شمار ہوتا ہے مولانا کی یادگار اور صحیح وارث ہیں تصنیف و تالیف درس و تدریس ،دعوت و تبلیغ جمعیۃ و جماعت کی خدمات کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے صالحیت اور صلاحیت کی دولت سے بھی نوازا ہے مولانا عبد الواحد مدنی کی یہ بہت بڑی خدمت دین ہے کہ انھوں نے ڈومریا گنج میں بنام صفا شریعت کالج کی کئی ایک وسیع و عریض بلڈنگ تعمیر کرائی اور متعدد جلیل القدر اساتذۂ کرام کی خدمات حاصل کیں نہایت خوش قسمت وہ مقام ہے جہاں قال اﷲ وقال الرسول کی روح پرور صدائیں بلند ہو رہی ہیں انتہائی عالی بخت ہیں یہاں کے لوگ جو اس سلسلہ کو قائم رکھنے کیلئے پوری تگ و دو کر رہے ہیں بے حد قابل ستائش ہیں مولانا عبد الواحد مدنی جو 
(پچھلے صفحہ کا بقیہ )یہی نہیں بلکہ علاقہ میں کئی امام باڑے مسجدوں کی شکل میں منتقل ہوگئے کئی مندر بھی فرزندان اسلام کی عبادت گاہ بن گئے طبیعت مناظرانہ تھی مگر زہد و تقویٰ میں بھی بے مثال تھے باوجودیکہ گھر اور مسجد کے درمیان نالہ پڑتا تھا مگر اس پر بھی برسات میں بھی تہجد کی نماز مسجد ہی میں پڑھتے تھے اس تقویٰ کی وجہ سے حکام ضلع احترام سے پیش آتے تھے صبر کی دولت سے مالا مال تھے ضلع بستی کے ان مشہور علمائے اہل حدیث میں سے تھے جن کی وجہ سے دوسرے اضلاع میں بھی جماعت کی دھاک بندھ گئی تھی ۔( تراجم علمائے حدیث ہند ابویحیی امام خاں نوشہروی)
اس درسگاہ کی جڑیں مضبوط کررہے ہیں بدرجہ غایت مستحق اکرام ہیں یہاں کے مدرسین جنھوں نے اس ادارہ کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دے رکھا ہے یہ صدقہ جاریہ ہے جس کا اجر بارگاہ الٰہی سے انھیں ہمیشہ ملتا رہے گا ۔ 
وفات: یوں تو روزانہ بلکہ ہر لمحہ موت کا سلسلہ جاری ہے لیکن بعض لوگوں کے چلے جانے سے سارا ماحول سوگوار نظر آتا ہے بالخصوص جبکہ وہ جانے والا کوئی عبقری مردم ساز عہد ساز اور گوناگوں اوصاف حمیدہ کا مالک ہو افسوس دین حنیف کا جانباز مجاہد اسلام کا مخلص داعی امت مسلمہ کا بے لوث 
خادم قوم و جماعت کا سچا رہنما ہمارے درمیان سے اٹھ گیا اس فاضل اجل اور قرآن وحدیث کے خادم نے مورخہ ۱۴؍دسمبر ۱۹۷۶؁ء کو اپنے گاؤں ٹکریا میں وفات پائی اور مولانا مرحوم کی وصیت کے مطابق آپ کی نماز جنازہ خطیب الاسلام مولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈانگری ؒ نے پڑھائی اورعلماء طلبہ عوام و خواص علاقہ اور قرب و جوار کے ایک عظیم مجمع کی موجودگی میں آبائی قبرستان ٹکریا میں سپرد خاک کردئیے گئے۔ 
اﷲم نور قبرہ ووسع مدخلہ وادخلہ الجنۃ الفردوس 
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ۔ بلرام پور 
۵؍ جنوری ۲۰۱۳؁ء 

٭٭٭


چودھری مولانا عبد القیوم صاحب سلفی املیا

مولانا عبد القیوم صاحب جماعت کے ایک مخلص بزرگ عالم دین تھے آپ قصبہ تلسی پور کے شمال جانب ۲۰؍کلو میٹردور ایک معروف و مشہور تاریخی موضع بنھونی میں ۱۹۲۰؁ء کو پیدا ہوئے آپ کے والد محترم کا اسم گرامی محمد یعقوب خاں تھا محمد یعقوب خاں کے دو لڑکے تھے ایک کا نام مولانا عبد القیوم سلفی دوسرے کا نام چودھری عبد العزیز خاں تھا ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسہ میں حاصل کی ۔ تلسی پور مڈل پاس کیا ، مولانا کا نیک لوگوں کا گھرانہ تھا ۔ ان کے ارکان پر دینداری کا غلبہ تھا اسی پاکیزہ ماحول میں مولانا کی پرورش ہوئی مولانا کے والد محترم پکے موحد تھے آپ کی خواہش و تمنا تھی کہ اپنے لڑکے عبد القیوم کو عالم دین بنائیں گے ۔ چنانچہ مولانا عبدالقیوم صاحب کو اسی مقصد سے جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر بھیجا گیا چند سال وہاں تعلیمی سفر جاری رہا اس وقت دارالحدیث رحمانیہ دہلی کی تعلیم کی بڑی شہرت تھی دہلی کا رخ کیا اور رحمانیہ میں داخلہ لیا محنت ولگن سے تعلیمی سفر جاری تھا کہ اچانک ملک کے بٹوارہ کا سانحہ ۱۹۴۷؁ء میں پیش آگیا شر پسند اور بلوائیوں نے دارالحدیث رحمانیہ کو لوٹ لیا دہلی کے مسلمانو ں پر مظالم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور سب سے بڑا نقصان جماعت کا ہوا ۔ دہلی اجڑ گئی مولاناتعلیم کی تکمیل نہ کر سکے اور کیسے کرتے جب وہ ادارہ ہی فساد کی نذر ہوگیا مولانا مجبوراً گھر واپس آگئے چند دنوں کے بعد مؤ گئے اور وہاں جامعہ فیض عام مؤ میں داخلہ لیکر اور اساطین علم سے اخذ علم حاصل کیا اورسند فراغت حاصل کی۔ 
فراغت کے بعد گھر واپس آئے اپنے گاؤں املیا میں گاؤں والوں کی مدد سے ایک مدرسہ قائم کیا جو بحمد اﷲ چل رہا ہے ۔ 
ہمارے علاقہ تلسی پور میں بحمد اﷲ اپنی جماعت کے کئی ایک نامی گرامی خاندان آبادہیں جو پورے ضلع میں پھیلے ہوئے ہیں انھیں میں ایک خاندان چودھری خاندان کہلاتا ہے اسی خاندان کے مولانا چشم و چراغ تھے اس خاندان میں ماضی قریب و بعید میں کئی عظیم ہستیاں ۱؂ جنم 
لیں اور اپنے وقت میں بڑے کارہائے نمایاں سر انجام دیں ۔ یہاں موقع نہیں کہ ان ہستیوں کی 
۱؂ چودھری شمس اﷲ خاں علاقہ و خاندان چودھری کی ایک معزز و موقر شخصیت تھی اﷲ تعالیٰ نے آپ کو علم و دولت سے نوازرکھا تھا مگر اس کے باوجود انتہائی سادگی کی زندگی بسر کرتے تھے کرّوفر شان و شوکت سے کوسوں دور احکام شریعت کے پابند انتہائی صابر و شاکر متواضع خلیق و ملنسار تھے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو چھ لڑ کوں سے نوازا تھا ماشاء اﷲ سبھی لڑکے تعلیم یافتہ اور سرکاری اعلیٰ منصب پر فائز تھے اور دین و دنیا کے سنگم تھے آپ کے لڑکوں نے اپنے وقت میں بڑے کارہائے نمایاں سر انجام دیں جو تاریخ کی محفوظ امانت ہیں ۔
اب آئیے چودھری سمش اﷲ خاں کے صاحبزادگان اور ان کے پوتوں کے اسماء گرامی بالترتیب ملاحظہ فرمائیں ۔ 
(۱) بڑے لڑکے کا نام احمد اﷲ خاں تھا ان کو اﷲ تعالیٰ نے تین لڑکوں سے نوزاتھا عبد الوہاب ۔ عبد المنان ۔ عبد الخالق یہ تینوں صاحبان تقسیم ملک کے وقت پاکستان چلے گئے تھے پاکستان چند سال رہ کر سعودیہ عربیہ میں جاکر مستقل سکونت اختیار کرلی ان لوگوں کا سعودیہ عربیہ میں انتقال ہوا اور وہیں مدفون ہوئے ۔ 
(۲) دوسرے لڑکے کا اسم گرامی چودھری عظمت اﷲ خاں تھا انجمن محمدیہ تلسی پور کے بانی و دیگر کئی اداروں کے سر پرست بھی تھے عقل و فہم دانشوری و معاملہ فہمی میں ید طویٰ حاصل تھا احکام شریعت کے پابند مسلک اہل حدیث کے پُر جوش داعی و عامل تھے آپ بنھونی کے آبائی قبرستان میں مدفون ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو چار لڑکوں اور تین لڑکیوں سے نوازا تھا برادرم جناب بشارت اﷲ خاں کو چھوڑ کر سبھی اﷲ کو پیارے ہو چکے ہیں بڑے لڑکے جناب ڈاکٹر رفعت اﷲ خاں علی گڈھ مسلم یو نیور سٹی میڈیکل کالج سے منسلک تھے آپ کا علی گڈھ کے نامور ومشہور ڈاکٹروں میں شمار ہوتا تھا بڑی اچھی تشخیص تھی عین جوانی میں علی گڈھ انتقال ہوا اور علی گڈھ ہی میں مدفون ہوئے۔دوسرے لڑکے شوکت اﷲ خاں اپنے والد کی طرح معاملہ فہم تھے عین جوانی میں ہری ہر پور میں انتقال کرگئے اور ہری ہر پور میں مدفون ہوئے ۔ سب سے چھوٹے لڑکے شرافت اﷲ ایک جانکاہ حادثہ میں آغاز جوانی میں وفات پا گئے اپنے گاؤں ہری ہر پور میں مدفون ہیں۔ الحمد ﷲ جناب بشارت اﷲ خاں صاحب ( بقیہ اگلے صفحہ پر) 
حیات و خدمات پر روشنی ڈالی جائے اگر اﷲ نے توفیق دی حالات نے رفاقت کی تو کسی دوسرے موقع پر مفصل حالات لکھوں گا ۔ انشاء اﷲ 
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان بزرگوں کی دینی خدمات ایثار و قربانی کو قبول فرمائے ۔آمین
(پچھلے صفحہ کا بقیہ) بقید حیات ہیں اور کئی سالوں سے اپنے کارو بار کے سلسلہ میں سعودیہ عربیہ جدہ میں مع بال بچوں کے مقیم ہیں انتہائی نیک اﷲ والے احکام شریعت کے پابند مہمان نواز ملنسار خوش اخلاق خوش مزاج خوش گفتار اخلاق کے اعلیٰ نمونہ اپنے والد محترم کے صحیح جانشین اور وارث ہیں پریشاں حال غریبوں محتاجوں کے مسیحا اور نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اﷲ تعالیٰ آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائے آپ کے بچوں کو بھی آپ ہی کی طرح نیک بنائے تاکہ وہ اپنے والدین کیلئے صدقۂ جاریہ بن سکیں۔ 
(۳) چودھری شمس اﷲ کے تیسرے لڑکے کا اسم گرامی کفایت اﷲ خاں تھا انتہائی مخلص نیک خدا ترس احکام شریعت کے پا بند موحد مسلک اہل حدیث کے پُر جوش داعی و عامل ،شرک و بدعت سے سخت بیزار و نفرت ، نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہر ایک کے دکھ درد میں برابر کے شریک ، حق گو صابر و شاکر ، مہمان نواز سنّت پر شیفتہ مالدار ہونے کے باوجود آپ کی زندگی انتہائی سادہ جو ملا کھا لیا جو ملا پہن لیا آپ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیتے مجال نہ تھی کہ کوئی بچہ سنت کے خلاف کام کرتا آپ کی قدرو منزلت علاقہ اور گاؤں والوں کے دلوں میں بہت تھی کفایت اﷲ صاحب نے ستر سال کی عمر پائی اور بنھونی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو چھ لڑکوں اور تین لڑکیوں سے نوازا تھا سب سے بڑے لڑکے کا اسم گرامی الحاج عنایت اﷲ خاں ہے اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے اندر باوقار منصب پر فائز ہیں انتہائی نیک شریف الطبع خدا ترس احکام شریعت کے پابند حق گو امین صادق با اصول معاملات میں کھرے وعدہ کے پکے غریبوں یتیموں پریشان حال لوگوں کے مسیحا آپ کے گھر کے ارکان پر دینداری کا غلبہ ہے اﷲ تعالیٰ آپ کی عمر میں برکت عطا کرے آپ اپنے والد محترم کے صحیح جانشین و وارث ہیں اﷲ تعالیٰ آپ کے بچوں کو نیک بنائے تاکہ وہ اپنے والدین کیلئے صدقہ جاریہ بن سکیں آپ اخلاق کے اعلیٰ نمونہ ہیں۔ 
دوسرے لڑکے نعمت اﷲ خاں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں پروفیسر ہیں ( بقیہ اگلے صفحہ پر) 
یہ خاندان دین و دنیا کا سنگم ہے اس خاندان پر اﷲ تعالیٰ کی ہمیشہ رحمت و برکت رہی ہے اس خاندان میں عالم بھی ہیں حافظ بھی ہیں قاری بھی ہیں ماسٹر بھی ہیں ڈاکٹر بھی ہیں انجینیر بھی ہیں پروفیسر بھی ہیں ریڈربھی ورسیر بھی ہیں آفیسر بھی ہیں ایڈوکیٹ بھی ہیں نیتا بھی ہیں اس خاندان کے 
(پچھلے صفحہ کا بقیہ) تیسرے لڑکے رحمت اﷲ عرف پتن مرحوم کین یونین کے چیر مین تھے عین جوانی میں انتقال فرماگئے اور اپنے گاؤ ں گلرہا کے قبرستان میں مدفون ہیں چوتھے لڑکے ڈاکٹر عبد اﷲ خاں ہیں جو تلسی پور میں پریکٹس کر رہے ہیں نیک بااصول اخلاق کے اعلیٰ نمونہ ہیں احکام شریعت کے پابند ہیں ۔ پانچویں لڑکے عبیداﷲ خاں ہیں علاقہ قرب و جوار کے مشہور ادارہ جامعہ عربیہ قاسم العلوم گلرہا کے صدر ہیں چٹھویں لڑکے ڈاکٹر احسان اﷲ خاں ہیں جو دہلی میں کسی ادارہ سے منسلک ہیں۔ 
(۴) چودھری شمس اﷲ صاحب کے چوتھے لڑکے کا اسم گرامی سلامت اﷲ خاں تھا ان کے تین لڑکے ہیں اختر سلامت جعفر سلامت انور سلامت تینوں بھائی امریکہ میں رہ رہے ہیں ۔ سلامت اﷲ خاں صاحب علی گڈھ مسلم یونیور سٹی کے اندر ریڈرتھے آپ نے انگریزی میں کئی کتابیں لکھی ہیں جو مفید نہیں مفید تر ہیں اہل علم ان کتابوں سے فیض حاصل کررہے ہیں علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں آپ کا انتقال ہوا اور علی گڈھ کی سر زمین میں مدفون ہوئے ۔
(۵) چودھری صاحب کے پانچویں لڑکے کا اسم گرامی ظہیر الحق تھا انتہائی نیک اﷲ والے احکام شرع کے پابند پکے اہل حدیث خلیق ملنسار اخلاق کے اعلیٰ نمونہ تھے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو پانچ لڑکوں او ر دو لڑکیوں سے نوازا ہے بڑے صاحبزادہ کا اسم گرامی عرفان ظہیر ہے جو اس وقت نائیجیریا میں ہیں دوسرے صاحبزادے نعمان ظہیر ہیں تیسرے صاحبزادہ سلمان ظہیر ہیں چوتھے صاحبزادہ الحاج رضوان ظہیر ایم پی ہیں پانچویں صاحبزادہ ریحان ظہیر ہیں سبھی بھائی نیک شریف النفس خلیق ملنسار اور اخلاق کے اعلیٰ نمونہ ہیں دینی وملی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں کئی اداروں کے سر پرست اور روح رواں ہیں ۔ 
الحاج رضوان ظہیر صاحب ایم پی صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے ہر طرح سے نواز رکھا ہے دنیا میں بہت نام کمایا آپ ماشاء اﷲ صحیح العقیدہ موحد مسلمان بھی ہیں حاجی بھی ہیں نمازی بھی ہیں ( بقیہ اگلے صفحہ پر) 
 لڑکے ملک کی مختلف یونیور سٹیوں علی گڑھ مسلم یونیور سٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی ،دہلی یونیورسٹی کے علا وہ بیرون ملک کی یونیورسٹیوں میں بھی حصول علم میں مصروف ہیں مگر اپنے اسلاف کی طرح اخلاف کا حال نہیں ہے دینی لحاظ سے دن بدن زوال کی طرف گامزن ہیں اﷲ رحم فرمائے ۔ 
 (پچھلے صفحہ کا بقیہ) اور احکام شرع کے پابند بھی غریبوں بے کسوں یتیموں کے مسیحا بھی ہر ایک کے دکھ درد میں برابر شریک رہتے ہیں میری آپ سے گذارش ہے کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کب بلاوا آجائے اسلئے کسی مناسب جگہ پر مسجد یا دینی ادارہ یا اسپتال وغیرہ قائم کردیں تاکہ آپ کو اور آپ کی اولاد کو اس صدقہ جاریہ کا ثواب ملتا رہے اﷲ کا نام لے کر کام شروع کردیں تاکہ دنیا کی طرح اﷲ کے یہاں بھی سر خروئی اور نام روشن ہو ۔ 
(۶) چودھری صاحب کے چھوٹے لڑکے کا اسم گرامی حبیب اﷲ خاں تھا آپ کو اﷲ تعالیٰ نے دو لڑکوں سے نوازا تھا شاہد حبیب راشد حبیب وکیل افسوس کہ یہ دونوں بھائی عین جوانی میں یکے بعد دیگرے انتقال کر گئے اور اپنے گاؤں دیو نگر میں دونوں بھائی مدفون ہیں دونوں بھائی انتہائی نیک اﷲ والے دینی کاموں اور دینی ادروں سے کافی لگاؤ تھا اﷲ تعالیٰ جنت الفردوس عطا فرمائے آمین آپ دونوں بھائیوں کے کئی لڑکے ہیں اﷲ تعالیٰ ان کی نگہبانی فرما اور ان کو نیک بنا اور ان کی عمر میں برکت عطا فرما آمین ۔ 
اس خاندان اور علاقہ میں اپنی جماعت کی دیگر عظیم ہستیاں بھی تھیں جوآج ہمارے بیچ نہیں ہیں وہ اسلام کے داعی مسلک اہل حدیث کے ترجمان تحریک اہل حدیث کے علم بردار سنت پر شیفتہ شرک و بدعت کے خلاف پوری زندگی بر سر پیکار رہے ان بزرگوں کی دینی ملی مسلکی جدو جہد ایثار و قربانی کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا یہ ہماری جماعت کے ستون و معمارتھے مکاتب اورمدارس اور مساجد کے قائم کر نے والے اور آباد کرنے والے اور اﷲ کا دین ضلع و بیرون ضلع میں پھیلانے میں ان بزرگو ں نے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا تب جاکر مذہب اسلام اصلی حالت میں موجود ہے اﷲ تعالی ان بزرگوں کی دینی و ملی خدمات کو قبول فرما کر اس کا بھر پور صلہ مرحمت فرمائے آمین یا رب العالمین ۔ 
 طوالت کے خوف سے سبھی کا نام لکھنا محال تر ہے مثال کے طور پر درج ذیل اسماء گرامی ہدیۂ قارئین ہے ۔ 
حاجی عبد اﷲ بجوا کلاں حکیم محمد یونس بجوا کلاں خورشید احمد بجوا کلاں حاجی عبد الوہاب اونرہوا حاجی عبدا لعزیز اونرہوا حاجی عبد الجلیل اونرہوا حاجی عبد الوہاب گینسڑی حاجی مہندی حسن پرسا ( بقیہ اگلے صفحہ پر) 
حلیہ: میانہ قد ،چھریرہ بدن ،بیضوی چہرہ، کشادہ پیشانی، بڑی بڑی آنکھیں، سفید کرتا ،سفید علی گڑھی پائجامہ ، چہرہ پر مسکراہٹ خاص موقع پر شیروانی سر پر رام پوری ٹوپی کندھے پر رومال ، یہ تھا ہمارے مولانا کا حلیہ ۔
(پچھلے صفحہ کا بقیہ) امیر احمد خاں ٹھکرا پور عبد الخالق کنان عبد الباسط عبد الجلیل حاجی محمد حنیف سانتھی رفیع الدین خاں محمد شفیق گینسڑی محمد حیات سنجھول حاجی حسن محمد بسم اﷲ پخوری عبد الرحیم منیجر دیالی پور چودھری جلیل احمد صاحب جمیل احمد کمہریا ابراہیم پرینا عبد الرشید عبد الوحید عبد المعید محمد خاں شرافت اﷲ وکیل ہرہٹہ ماسٹر مقصود احمد دیالی پور محمد مصطفی بسنت پور جنکپور حاجی محمد ایوب ڈاکٹر عبد الرشید چین پور محمد ےٰسین بسنت پور محمد خلیل سکریٹری سنگرام پور حاجی عظیم اﷲ بھیکم پور کلو صدر شنکر نگر پردھان خلیل احمد املیا شوکت اﷲ ہری ہر پور شاہد حبیب راشد حبیب دیو نگر میاں عبد الحمید بھلوہیا حاجی عبد القیوم موتی پور حاجی کفایت اﷲ احمد اﷲ پردھان برکت اﷲ رجوا پور مولوی عباس علی حاجی اکبر علی نوبستہ حاجی عبد الغفور تلسی پور شمس اﷲ رموا پور محمد ابراہیم تھرولی چودھری محمد سعید نبھونی حاجی محمد بشیر بنکٹوا مولوی محمود الحسن ندوی محمود نگر مولوی داؤد حسن بھلوہیا حاجی یار محمد سنجھول عبد الرحیم پرنسپل فضل رحمانیہ پچپڑوا حاجی عبد الرحیم امرہوا جمیل احمد مدرہوا محمد الیاس سر پنچ عبد الرؤف پنچ شریف پردھان ثناء اﷲ بھگوان پور چودھری محمد مستقیم جیو ڈیہہ محمد عمر جے نگرا عبد القیوم لیکھپال جے نگرا مقصود احمد پردھان جے نگرا بیت اﷲ جے نگرا عبد الجلیل رفیع الدین پخوری صلاح الدین گسائی ڈیہہ ولی محمد جیتا پور حاجی محمودالحق املیامحمد عاشق رمنگرا عبد الغفور لکھوری خلیل احمد پنچ بجوا کلاں حاجی عبد الرحیم سمرہن کلاں حاجی عبد الغفار صاحب موتی پور محمد یونس پردھان پرتاپ پور محمد حنیف پردھان مجگواں حاجی بسم اﷲ رنیا پور کفایت اﷲ رنیا پور حمزہ لدھوری مقصود لدھوری حاجی عنایت اﷲ تھارو بھوجپور اشفاق احمد منوہرا پور ذکر اﷲ چیونٹہوا حاجی دیانت اﷲ مولوی عبد الرحیم امینی حاجی ابوالخیر اونرہوا حاجی محمد یونس سنگرام پور محمد نصیر پردھان لٹھاور ماسٹر عبد القادر شنکر نگر مولانا ابولقمر محمد عمر بلرام پور ی عبدالستار قدسی حبیب احمد ہلورا مولوی حبیب اﷲ جھووا حاجی محمد ایوب منکا پور ماسٹر عبد العزیز سسئی جوگا ماسٹر عبد المعبود بجوا کلاں حاجی مقبول احمد اونرہوا مولانا عبد القیوم املیا ماسٹر عبد المجید بنکٹوا،ابوطالب تلسی پور وغیرہ وغیرہ 
(عبد الرؤف خاں ندوی تلسی پور بلرام پور ) 
جماعت سے عشق : مولانا اسلام کے مخلص داعی تھے علاقہ اور ضلع کے کئی اداروں کے سر پرست اور مجلس عاملہ کے رکن اور ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بلرام پور کے آخر وقت تک نائب صدر رہے ۔
مولانا عبد القیوم صاحب سلفی وفات سے چند سال قبل ہی حج کی سعادت سے بہرہ ور ہو چکے تھے ، جماعت و مسلک سے عشق کا یہ حال تھا کہ اپنے گاؤں املیا سے پیدل ۲۲؍کلو میٹر دور ضلعی جمعیۃ کی میٹنگوں میں تلسی پور برابر تشریف لاتے تھے اس وقت آمد و رفت کے ذرائع مفقود تھے۔ 
مولانا سیدھے سادھے انسان تھے غریبوں مجبوروں کا خاص خیال رکھتے بوڑھوں کمزوروں سے حال احوال پوچھتے مریضوں کی عیادت کرتے ہر تکلیف پر صبر کی تلقین کرتے اس بات پر کڑی نظر رکھتے کہ گاؤں میں خلاف شرع کوئی کام نہ ہو عورتوں سے پردے کی پابندی کراتے نیک خداترس شب زندہ دار ،خلیق ملنسار ، مہمان نواز تھے راستہ میں چلتے توہر چھوٹے بڑے کو سلام کرتے سب لوگ ان کی تکریم کرتے عوام میں میل ملاپ سے رہتے کسی سے کسی قسم کی کدورت نہیں رکھتے ۔ ان کا آئینہ قلب بُغض و عداوت کے داغ دھبوں سے پاک و صاف تھا۔ 
کسی سے مرعوب ہونا اور کسی کے سامنے جھکنا ان کی خاندانی روایت اور ذاتی فطرت کے خلاف تھا وہ وقار سے رہتے تھے اور اپنے مقام و مرتبہ کو ملحوظ رکھتے تھے اصحاب اقتدار کے پاس جانے سے احتراز کرتے علماء کے بڑے قدر داں اخلاق کے اعلیٰ نمونہ تھے ان کا دل خدمت دین کے جذبہ سے بھر پور تھا ۔ یہی ان کی زندگی کا مقصد تھا۔
راقم الحروف کے ساتھ مولانا کے تعلقات بدرجہ غایت مخلصانہ تھے جب ملتے تو ایسے ڈھب سے ملتے جیسے ہم عمر اور برابر والے ملتے ہیں حالانکہ خاکسار ان سے عمر میں بہت چھوٹا ہے۔
اس عالم دین پر اﷲ کی خوشنودی کا شامیانہ قائم رہے انھوں نے نامساعد حالات و ناموافق حالات میں اپنے علاقہ کے دینی علوم کی ترویج و اشاعت کا اہتمام کیا اور لوگوں کی خیر و صلاح کیلئے پوری زندگی کوشاں رہے۔
اولاد: اﷲ تعالیٰ نے آپ کو تین لڑکوں سے نوزا تھا بڑے لڑکے جناب چودھری عبد الحفیظ خاں ایڈوکیٹ گونڈہ نامور وکیل تھے گونڈہ میں عین جوانی میں وفات پاگئے اسی طرح مولانا کے چھوٹے لڑکے ڈاکٹر عبد اللطیف خاں صاحب بھی عین جوانی میں گونڈہ ہی میں وفات پا گئے ۔ منجھلے لڑکے الحاج عبد الحمید خاں بقید حیات ہیں اور مولانا عبد القیوم صاحب کے صحیح وارث ہیں اﷲ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے آمین ۔ 
وفات : افسو س جماعت و مسلک کا داعی ایک راسخ العقیدہ موحد عالم دین ۱۹۹۰؁ء میں ہم لوگوں سے جدا ہو گیا یہ تھکا ماندہ مسافر ستر سال کی عمر میں اپنی آخری آرام گاہ املیا میں اطمینان سے محوخواب ہو گیا ۔
اﷲم ووسع مدخلہ واجعل جنت الفردوس ماواہ 
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ۔ بلرام پور 
۶؍جنوری ۲۰۱۳؁ء 
٭٭٭



جناب مولانا عبد الجبار صاحب رحمانی رحمہٗ اﷲ ( پاٹیشری نگر ) 

جماعت اہل حدیث خالص دینی تحریک ہے اس کا سر چشمہ قرآن و حدیث ہے اس میں کسی امام کسی پیر کسی مرشد کے قول و فعل کی قطعاً گنجائش نہیں یہی وجہ ہے کہ تحریک کاروان رشد و ہدایت اپنے روز اول سے رواں دواں رہا اسے نہ کوئی آزمائش اور فتنہ متاثر کرسکا اور نہ مصلحتوں کا شکار ہوئی کیونکہ نہ تو یہ وقتی احوال و ظروف کی پیدا وار تھی اور نہ ہی کسی سیاست یا مصلحت پسندی کی دین یہ تو اسلام کی صحیح اور مکمل تعبیر ہے توحید خالص تزکیہ نفس اور جہاد فی سبیل اﷲ اس کے بنیادی اصول ہیں مولانا عبد الجبار صاحب رحمانی اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی مسلک اہل حدیث کے سر گرم سپاہی مسلک اہل حدیث کے داعی اور تحریک اہل حدیث کے علمبردار تھے پوری زندگی شرک و بدعت ، قبر پرستی ، شخصیت پرستی ، پیر پرستی سے بر سر پیکار رہے مولانا عبدالجبار صاحب رحمانی ۱؂ ضلع بلرام پور کے مشہور و معروف موضع اونرہوا میں۱۹۲۰؁ء کوپیدا ہوئے بچپن ہی سے بلا کے ذہین تھے ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسہ میں حاصل کی چند سال جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر بغرض حصول تعلیم گذارے ، اس وقت دارالحدیث رحمانیہ کا فیضان علم جاری تھا سیدھے دہلی پہونچے اور آخری وقت تک اپنی علمی پیاس بجھاتے رہے مولانا احمد اﷲ پرتاب گڈھی شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری ، مولانا نذیر احمد رحمانی املوی وغیرہ سے اخذ علم حاصل کیا اور اچھے نمبرات سے سند فراغت لیکر اونرہوا واپس ہوئے۔ 
 ۱؂ مولانا عبد الجبار صاحب رحمانی چار بھائی تھے بڑے رحمانی صاحب تھے دوسرے بھائی کا نام مولانا عبد الغفار تیسرے کا عبد الستار چوتھے بھائی کا نام منشی عبد العزیز تھا چاروں بھائی بلا کے ذہین خلیق ملنسار حاضر جواب خوش مزاج ، خوش اخلاق تھے چاروں بھائی اﷲ کو پیارے ہو چکے ان کی اولاد پاٹیسری نگر اور اونرہوا میں قیام پذیر ہیں تغمدہ اﷲ برحماتہ ( عبد الرؤف خاں ندوی) 
اونرہوا چندسال رہ کر راجہ پاٹیشری پر شاد بلرام پور کے گاؤں پاٹیشری نگر (کواپور) مع اہل و عیال آکر مستقل آباد ہو گئے ۔ یہاں آکر گاؤں والوں کی مددسے ایک مدرسہ قائم کیا آخری سانس تک اس مدرسہ کے ناظم اعلیٰ رہے اس مدرسہ کے عروج وارتقاء کیلئے ہمیشہ کوشاں رہے ۔ خطبۂ جمعہ اور عیدین کی امامت زیادہ تر آپ ہی کرتے تھے آپ حق گو، خلیق، ملنسار ، مہمان نواز ، سنت پر شیفتہ آپ کی زندگی ٹھاٹ اور کرو فر سے پاک و صاف بے حد سادی تھا ۔ جو ملا کھا لیا اور جو ملا پہن لیا ۔ آپ کی قدر و منزلت گاؤں والوں کے دلوں میں بہت تھی پورا گاؤں اتفاق رائے سے آپ کو تمام دینی و دنیوی معاملات میں سر براہ تسلیم کئے رہا آپ اختلاف و انتشار سے کافی دور اور اس کے خاتمہ کیلئے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے دینی اجلاس و کانفرنسوں سے ہمیشہ لگاؤ رہا اپنے مدرسہ کی طرف سے پابندی سے سالانہ تبلیغی پرو گرام کا انعقاد کراتے حق گوئی ، خدا ترسی، رحم دلی ، بڑوں کا احترام چھوٹوں پر شفقت علماء کے قدرداں ، احکام شریعت کی پا بندی ، قوت برداشت مولانا کے وہ اوصاف تھے جو انھیں دارالحدیث رحمانیہ دہلی کے اپنے عالی مرتبت اساتذہ سے ورثے میں ملے تھے۔
شرک و بدعت رسم و رواج ، خرافات و منکرات سے سخت بیزار رہتے تھے اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے ۔ ؂ عطا کر دے انھیں یارب بصارت بھی بصیرت بھی
مسلماں جا کے مٹتے ہیں سواد وخانقاہی میں 
اس علاقہ کے بزرگوں کی دینی جد و جہد و ایثار قربانی کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ آپ ستر سال کی عمر پاکر موضع پا ٹیشری نگر ۱۹۹۰؁ء کو داعی اجل کو لبیک کہا اور یہیں کے قبرستان میں ایک عظیم مجمع کی موجودگی میں سپرد خاک ہوئے ۔ تغمدہ اﷲ برحماتہ 
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ۔ بلرام پور 
۳۱؍ دسمبر ۲۰۱۲ ؁ء 
جناب مولانا محب اﷲ صاحب سلفی رحمہ اﷲ( ملگہیا)
جماعت کے مشہور و معروف بزرگ عالم دین جناب مولانا محب اﷲ صاحب موضع ملگہیا میں ۱۹۱۷ء ؁ میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کی مولانا کا گھرانہ دیندار گھرانوں میں تھا اسلئے گھر کے تمام ارکان پر دینداری کا غلبہ تھا مکتب اور کچھ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دہلی کا رخ کیا اس وقت دارالحدیث رحمانیہ دہلی کی بڑی شہرت تھی ہر طرف تشنگان علوم جوق در جوق رحمانیہ کا رخ کرتے مولانا بھی دہلی پہونچے اور رحمانیہ میں داخلہ لیا تعلیمی سفر جاری ہی تھا کہ اسی درمیان ۱۹۴۷؁ء میں ملک کے بٹوارہ کا حادثہ پیش آگیا اس وجہ سے وہاں تعلیم کی تکمیل نہ کر سکے اور کیسے کرتے جب وہ ادارہ ہی فساد کی نذر ہو گیا اس فساد میں مسلمانوں کا جانی ومالی بہت نقصان ہوا ، اہل حدیث جماعت کی تو کمر ہی ٹوٹ گئی مجبوراً مولانانے جامعہ رحمانیہ بنارس میں آکر تعلیم مکمل کی اور یہیں سے سند فراغت لی۔
مولانا تعلیم کی تکمیل کے بعد درس و تدریس سے جڑ گئے ملگہیا، گینسڑی ، کوئلہ باسہ ، مؤآئمہ، تلسی پور نصف صدی سے زیادہ درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ سے جڑ ے رہے یوں کہئے درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ آپ کے مشاغل میں تھے آخری وقت میں جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کے شعبہ نسواں کلیۃ عائشہ صدیقہ میں کئی برس تک طالبات کو تفسیر ، حدیث اور فقہ وغیرہ کی تعلیم دی ۔ 
علم دین حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا مسلمان کیلئے دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے اور اس کی تبلیغ کرنا اور لوگوں کو اﷲ اور رسول اﷲﷺ کے احکام سے آشنا کرنا ہمارے فرائض میں شامل ہے مولانا نے پوری زندگی درس و تدریس ، دعوت و تبلیغ میں گذار دی ۔ بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے جب آپ چلنے پھر نے سے مجبور ہوگئے تو لگ بھگ دس سال سے گھر پر رہنے لگے تھے۔ 
مولانا حق گو جری ، خلیق ملنسار ، مہمان نواز ، نیک خدا ترس متقی تھے ۔ مسلکی غیرت کوٹ کوٹ کر بھری تھی سنت کے خلاف کوئی بات سننا گوارہ نہیں کرتے تھے شرک و بدعت سے سخت بیزاری تھی فرمایا کرتے تھے جو شخص کسی بدعتی سے تعلقات رکھتا اور اس کی تکریم کرتا ہے وہ مواخذہ اخروی سے بچ نہیں سکتا ہے۔ 
مولانا اپنے دور کے مشہور سلفی المسلک تھے اتباع سنت ان کا شیوہ ، صالحیت ان کی پہچان اور قرآن و حدیث سے قلبی تعلق ان کا تعارف تھا ۔ 
افسوس کہ دین حنیف کا جانباز اسلام کا مخلص داعی جماعت و مسلک کا سچا رہنما ہمارے درمیان سے اٹھ گیا ۔ اس فاضل اجل نے اور قرآن و حدیث کے خادم نے مورخہ ۲؍ اگست ۲۰۱۲؁ء کو شب میں داعی اجل کو لبیک کہا اور ۳ ؍ اگست ۲۰۱۲؁ء تقریباً ۱۱؍ بجے دن میں ایک عظیم مجمع کی موجودگی میں آپ کو آپ کے آبائی قبرستان ملگہیا میں سپرد خاک کر دیا گیا نماز جنازہ مولانا احسان اﷲ رحمانی استاذ جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کی امامت میں ادا کی گئی۔
اﷲم اغفر لہ وارحمہ و عافہ واعف عنہ 
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ۔ بلرام پور 
۵؍ جنوری ۲۰۱۳؁ء 


مولانا حکیم الحاج محمد سلیمان رحمہ اﷲ 

(بانی ٔ جامعہ عربیہ قاسم العلوم گلرہا ) 
آپ کا اسم گرامی محمد سلیمان باپ کا نام محمد سرفراز خاں تھا ۔ آپ کی پیدائش ۱۹۰۶؁ء میں موضع گلرہا میں ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم اپنے گھر ہی پر حاصل کی مکتب کی تعلیم مہراج گنج بازار میں حاصل کی ۔ 
ثانوی تعلیم مدرسہ احمدیہ بلرام پور میں حاصل کی پھر مزید علمی تشنگی کو بجھانے کے لئے مدرسہ دارالہدیٰ یوسف پور ، ضلع بستی جواب ضلع سدھارتھ نگر میں ہے تشریف لے گئے وہاں آپ ایک مدت تک رہ کر علم دین حاصل کیا یہ قدیم دینی ادارہ اب بھی تشنگان علوم کو سیراب کر رھا ہے اﷲ تعالیٰ اس محبوب ادارہ کو قائم و دائم رکھے آمین ۔
اس کے بعد مزید علوم و فنون حاصل کرنے کے لئے دہلی کا سفر کیا اور مدرسہ زبیدیہ دہلی میں داخلہ لیکر اس مرکز علم و فن میں مختلف علوم وفنون کی تعلیم حاصل کی ۔ عربی علوم کی تکمیل کے بعد علم طب کے حصول کی طرف مائل ہوئے اور نہایت ہی تندہی اور مستعدی سے علم ِطب کی تکمیل کی اور ایک بہترین طبیب ثابت ہوئے اور اپنی طبّی حذاقت سے عوام کو فائدہ پہونچاتے رہے ۔ جناب حکیم محمد ادریس اعظمی کے بقول مولانا مرحوم مفردات میں کافی ملکہ رکھتے تھے اور آج بھی قرب و جوار کے لوگ آپ کی طبّی حذاقت کو سراہتے ہیں ۔ 
تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا مرحوم نے عملی دنیا میں قدم رکھا تو سب سے پہلے درس و تدریس کا سلسلہ جاری کیا چنانچہ ایم ۔ پی۔ پی کالج بلرام پور میں شعبۂ فارسی کے لکچرار مقرر ہوئے اور نہایت ہی جانفشانی سے کام کیا اور تشنگانِ علوم کو سیراب کیا۔ لیکن کچھ دنوں بعد گھریلو ضروریات کی بناء پر استعفٰے دینا پڑا اور قصبہ تلسی پور میں تجارت کرنے لگے لیکن تجارت کا سلسلہ کچھ ہی دنوں بعد ختم ہوگیا ، اﷲ تعالیٰ کو آپ سے کچھ اور ہی کام لینا تھا چنانچہ آپ نے تجارت کو بھی چھوڑ دیا اور گھر ہی پر رہ کر کاشتکاری کرنے لگے۔
۱۹۵۶؁ء میں مولانا مرحوم حج بیت اﷲ کا فریضہ ادا کیا آپ کے ہمراہ علاقہ کے جو لوگ سفرحج میں نکلے تھے ان میں سے ایک حاجی شمس اﷲ صاحب مرحوم اودئی پور ی نیز انہی کے رشتہ دار حاجی باؤر صاحب مرحوم بھی تھے آپ کے حج بیت اﷲ کرنے سے قبل جوار میں بہت ہی کم لوگ ہیں جنہوں نے یہ فریضہ ادا کیا ۔ گلرہا میں تو آپ سے قبل کسی نے حج کا فریضہ ادا ہی نہ کیا تھا آپ کے حج بیت اﷲ کرنے کے بعد لوگ کثرت سے حج کرنے لگے، ماشاء اﷲ خاندان کے ہی کئی افراد حج کر نے گئے ۔ 
تاسیس مدرسہ قاسم العلوم گلرہا : زیارت بیت اﷲ سے واپسی کے بعد مولانا مرحوم نے اپنے خاندان کے چند سر برآوردہ اور مخلص احباب کے سامنے ایک مدرسہ کے قیام کی تجویز پیش کی۔ ان لوگوں نے باتفاق رائے آپ کی آواز پر لبیک کہا اور مدرسہ کے قیام کی تجویز پاس کی ۔ چنانچہ ۱۹۵۸؁ء میں مدرسہ عربیہ قاسم العلوم گلرہا کا قیام عمل میں آیا ، جس کی سنگ بنیادمولانا مرحوم نے اپنے ہی مبارک ہاتھوں سے رکھا۔ مدرسہ قاسم العلوم گلرہا کے پہلے مدرس کی حیثیت سے جناب مولانا محمد عمر صاحب سلفی مامور ہوئے اور تا دم تحریر ادارہ میں نمایاں خدمت انجام دیتے رہے ۔ مدرسہ بتدریج مائل بہ عروج رہا اور الحمد ﷲ آج مدرسہ کافی ترقی پر ہے۔ دعا ہے کہ اﷲ رب العالمین اسے دوام و استحکام بخشے۔ آمین 
وفات : ۱۹۷۴؁ء میں آپ کے اوپر فالج کا پہلا حملہ ہوا جس کی بنا پر آپ مزید خدمت دین سے معذور ہو گئے ۔ علاج و معالجہ سے قدرے افاقہ ہوا لیکن اپریل ۱۹۷۶؁ء میں فالج کا دوسرا اور شدید حملہ ہوا جس سے آپ بالکل معذور ہو گئے اور دو مہینہ شدید بیمار رہ کر فالج کے تیسرے حملہ میں جون۱۹۷۶؁ء میں اپنی جان جانِ آفریں کے حوالہ کردی ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
اولاد: آپ کے بڑے لڑکے برادر محترم ماسٹر رفیع احمد صاحب تھے جو ۱۹۸۳؁ء میں انتقال کر گئے۔ آپ کے دوسرے لڑکے برادر محترم مولانا ضیاء اﷲ صاحب ہیں جو حصول تعلیم سے فارغ ہوتے ہی ۱۹۶۵؁ء ہی سے مولانا مرحوم ہی کے اصرار پر کاشت کاری میں لگے ہوئے ہیں۔ 
آپ کا تیسرا لڑکا ناچیز راقم الحروف ( نور اﷲ اثری) ہے جو عربی علوم کی تکمیل کے بعد علم طب کی تکمیل کی اور ۱۹۸۲؁ء ہی سے علاج و معالجہ میں مشغول ہے اور حسب توفیق الہی خدمت دین بھی انجام دیتا ہے۔ 
فضل وکمال: مولانا مرحوم ایک باعمل عالم متقی و پرہیز گار ، جری، بیباک اور حق گو انسان تھے ، زہد و قناعت کے پیکر شرع کی حد درجہ پابندی کرنے والے تھے آپ منکسر المزاج مگر کبر و غرور چھو تک نہ گیا تھا ، علم اور اہل علم کے بے حد قدر داں تھے ، رشتہ داروں کا بڑا پاس و لحاظ کرتے تھے خصوصاً غریب رشتہ داروں کا تو بے حد خیال رکھتے تھے۔ آپ خلاف شرع کاموں کو نہ تو پسند کرتے بلکہ کر نے والوں کی فوراً نکیر کرتے تھے۔ 
مولانا مرحوم مروجہ رسوم و رواج سے بے حد گھٹن محسوس کرتے تھے بلکہ ایسا کرنے والوں سے دور رہتے تھے اس کے یہاں کی دعوت تک نہیں قبول کرتے تھے ۔ 
مولانا مرحوم ایک شادی میں گئے وہاں خلاف شرع مروجہ رسم و رواج ، گانا بجانا ہو رہا تھا، مولانا مرحوم نے پہلے منع کیا لیکن وہ لوگ نہ مانے تو مرحوم اسی وقت جب کہ کافی رات بیت چکی تھی وہاں سے چلے آئے۔ 
گاؤں ہی کے ایک فرد نے ایک اخلاقی جرم کرڈالا ، اس نے ساتھ ہی ساتھ اسلامی غیرت کو للکارا ، مولانا اس واقعہ سے خاموش نہ رہے اور نہایت جرأت و ہمت سے اس مجرم کو اس کے گھر کے اندر سے پکڑ کر باہر لائے اور اسے سزا دی گئی پھر وہ ایسے جرم سے ہمیشہ کے لئے تائب ہو گیا۔ 
مرحوم بہت ہی رقیق القلب تھے اﷲ کا ذکر بکثرت کرتے تھے نماز تہجد کے پابند تھے اور روتے گڑ گڑاتے تھے، اپنی غلطی پر متنبہ ہونے کے بعد بہت نادم ہوتے تھے ، دوسروں کے قصور کو معاف کر دیا کر تے تھے بڑے ہی مہمان نواز تھے جو کچھ میسر ہوتا بلا تکلف پیش کر دیا کرتے تھے اﷲ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ رب العالمین مولانا مرحوم کی غلطیوں کو معاف فرمادے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے ۔ آمین
تبلیغی خدمات : مولانا نے اپنے ہی علاقہ میں رہ کر وعظ و نصیحت کرنا شروع کیا ۔ چنانچہ احیاء کتاب و سنت کا سلسلہ برابر جاری رکھا ، جمعہ کا خطبہ اور عیدین کا خطبہ آپ برابر دیتے رہے، مولانا شکر اﷲ صاحب مرحوم کی معیت میں قرب و جوار کے مواضعات میں بھی تبلیغ کیلئے جاتے رہے۔ 
تعلیمی خدمات: آپ نے ہر آن تعلیم کو فوقیت دی تعلیم ہی کے لئے آپ ہمیشہ کوشاں رہے بچپن سے جوانی تک حصول تعلیم میں صرف کیا جب عملی دنیا میں قدم رکھا تو تعلیم ہی آپ کا مطمح نظر رہا۔ مدرسہ زینت العلوم سمرہن کے قیام سے ہی اس کا تعاون کرتے رہے جب مدرسہ عربیہ قاسم العلوم گلرہا کا قیام ہوا تو آخری دم تک اس کی آبیاری کرتے رہے اپنے بچوں کو حصول تعلیم کا شوق دلاتے رہے، نیز عوام کو بھی ۔ غرضیکہ علم کی خدمت آپ کا ہر آن کا مشغلہ تھا ۔ 
جماعتی خدمات : مسلمانوں کو جماعتِ اہل حدیث سے مربوط رکھنے کے لئے آپ نے بڑی قربانیاں دی ہیں ۔ آپ برابروعظ و نصیحت کرپتے رہتے جماعت اہل حدیث کے فروغ کیلئے آپ میں بڑی تڑپ تھی چنانچہ مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند کی جانب سے جب بھی کوئی سفیر یا ارگنائزر آتا تو اپنا کارو بار چھوڑ کر ان کا ساتھ دیتے تھے ۔ 
آپسی اختلاف کی وجہ سے گلرہا کے مسلمانوں نے ایک اور مسجد بناڈالی تھی جس کی حیثیت مسجد ضرار کی سی تھی اسے ختم کرنے میں آپ نے انتھک کوشش کی معاملہ کی نوعیت چوں کہ بے حد اہم تھی اس لئے اس مسئلہ کو سلجھانے میں باہر سے علماء مدعو کئے گئے حضرت مولانا عبد الرؤف صاحب رحمانی جھنڈانگری رحمہ اﷲ حضرت مولانا عبد الشکور صاحب دور صدیقی اور حضر ت مولانا زین اﷲ صاحب طیب پوری وغیرہم تشریف لائے ، مولانا سید مصطفےٰ حسن صاحب جے نگرا والے بھی تشریف لائے، افہام و تفہیم کی بات آئی اور معاملہ سلجھ گیا ، مولانا سید مصطفےٰ حسن صاحب نے اس مسجد کو اپنے ہاتھوں سے منہدم کیا اور اس طرح گاؤں ایک بہت بڑے فتنہ سے بچ گیا۔
جماعتی حمیت ہی کی بناء پر جب ۱۹۶۱؁ء میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا جلسہ نوگڈھ میں منعقد ہوا تو اپنے علاقہ کی جانب سے پیش پیش رہے کثیر تعداد میں لوگوں کو اس اجلاس میں شرکت کیلئے آمادہ کیا اور لوگ شریکِ اجلاس ہوئے ،آپ کی یہ مخلصانہ خدمت ہے۔ 
اسی طرح جب ۱۹۶۸؁ء میں ریاستی کانفرنس تلسی پور میں ہوئی تو اس میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ غالباً ۱۹۳۵؁ء کی بات ہے جب حضرت مولانا ثناء اﷲ صاحب امرتسری رحمۃ اﷲ علیہ تلسی پور میں تشریف لائے اور ایک جلسۂ عام کو خطاب کیا تو آپ نے اپنے گاؤں سے کئی لوگوں کو مولانا امرتسری مرحوم کا وعظ سننے کیلئے آمادہ کیا اور ساتھ لے گئے ، موضع گلرہا سے کافی لوگوں نے اس اجلاس میں شرکت کی اور علما کی نورانی تقریروں سے فائدہ اٹھایا۔ 
(ڈاکٹر) نوراﷲ اثریؔ گلرہا 
٭٭٭٭



٭٭٭


نمونۂ سلف مولانا محمد زماں رحمانی رحمہ ٗاﷲ

حیات و خدمات
شمال مشرقی ہندوستان یعنی صوبہ اتر پردیش کے قدیم اضلاع بستی،گونڈہ اور گورکھپور (بعد میں ان اضلاع میں مزید چار اضلاع :سدھارتھ نگر،بلرام پور ،سنت کبیر نگر اورمہراج گنج بنادئے گئے) نیز ان سے متصل نیپال کے اضلاع کپل وستو اور روپندیہی ایک زمانہ میں سید قطب علی مرید سید احمد شہید بریلوی،سید جعفر علی نقوی،مولانا عباد اﷲ تلمیذ شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی،مولانا اﷲ بخش بسکوہری ،مولانا محمد اسحق بانسوی،مولانا اظہر شاہ بہاری،شیخ الاسلام علامہ ثناء اﷲ امرتسری ، صاحب سیرۃ البخاری مولانا عبد السلام مبارکپوری، صاحب تحفہ علامہ عبد الرحمن محدث مبارکپوری اورمولانا عبد الرزاق سمراوی رحمہم اﷲ جیسے مخلص دعاۃ و مصلحین کے دعوتی و تبلیغی مراکز رہے ہیں ، ان میں سے بعض نے ان علاقوں میں مستقل سکونت اختیار کرکے پورے تسلسل کے ساتھ دعوت دین کا فریضہ انجام دیا جب کہ بعض بزرگوں نے اس خطہ میں باقاعدہ سکونت تو اختیار نہ کی مگر ان حضرات کا یہاں کثرت سے آنا جانا رہا اور وہ گاہے گاہے ان خطوں میں پہونچ کر اسلام کی نشر و اشاعت کرتے رہے، ان بزرگوں سے متصلاً بعد مولانا سید ممتاز علی، مولانا سید عابد علی ،مولانا عبد الغفورملا فاضل بسکوہری،مولانا ابو عبد الرب شکر اﷲ اور ان کے معاصر علماء ربانیین رحمہم اﷲ بھی توحید اور اتباع کتاب و سنت کی دعوت کوبڑے موثر اور نتیجہ خیز انداز میں کامیابی سے آگے بڑھاتے رہے، یہ بزرگان دین اپنی علمی ضیا پاشیوں اور دعوتی و اصلاحی کاوشوں سے ان خطوں میں کتاب و سنت کی روشنی عام کرنے اور مشرکانہ عقائد کے استیصال ساتھ بدعات و خرافات کے خاتمہ کے لئے فداکارانہ طور پر مصروف عمل رہے جس کے اچھے نتائج بحمد اﷲ و فضلہ برآمد ہوئے، ان حضرات کے بعد ان کے تربیت یافتہ تلامذہ اور علماء نے علاقائی،صوبائی اورملکی سطح پر دعوت دین کی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں،ان نفوس قدسیہ میں علاقہ کے ایک بزرگ عالم دین،مخلص داعی اور بے لوث مصلح میرے دادا مولانا محمد زماں رحمانی رحمہ اﷲ بھی تھے جن کی حیات و خدمات کے بعض گوشوں کو اس تحریر میں اجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 
 مولد و مسکن اور خاندانی حالات: دادا مولانا محمدزماں رحمانی بن نبی احمد، کا مولد و مسکن ضلع سدھارتھ نگر(سابق ضلع بستی،یوپی) کی معروف ومشہور مسلم اکثریتی بستی انتری بازار (محمودوا گرانٹ) ہے، جوقصبہ شہرت گڈھ سے مغرب کی جانب ۵کیلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے، یہ گاؤں ضلع سدھارتھ نگر بلکہ آس پاس کے دیگر اضلاع میں بعض امتیازات وخصوصیات کے باعث معروف ہے ،اول یہ کہ گاؤں ہونے کے باوجود اس کی آبادی قصبہ کے برابر ہے، دوم اس بستی میں تعلیم یافتہ خصوصاً دینی علوم سے آراستہ افراد کی تعداد دیگر مقامات کی بہ نسبت زیادہ ہے، سوم جماعت کے چند اکابر علماء اورمصلحین کا مرز بوم ہے اورچہارم یہاں جماعت کا قدیم ترین ادارہ ’’مدرسہ بحرالعلوم‘‘ قائم ہے جوعلی الاطلاق اس خطہ میں مدرسہ دارالہدی یوسف پور کے بعد جماعت کا سب سے قدیم ادارہ ہے اورماضی میں اس کی شاندار اورقابل قدر دعوتی وتعلیمی خدمات رہی ہیں۔
 دادا مولانا محمد زماں رحمانی کے والد جناب نبی احمد گوکہ باقاعدہ پڑھے لکھے نہ تھے تاہم وہ دین پسند اور تبلیغ و ارشاد کے جذبہ سے سرشار ایک موحد مسلمان تھے اور نیپال کے پہاڑی علاقہ ’’دیوکھر‘‘میں تجارت اور دعوت و تبلیغ کے لئے ان کا آنا جانا اکثرہوتا تھا‘جب کہ ان دنوں وہاں جانے کے لئے حمل و نقل کے وسائل بالکل مفقود اور نا پید تھے ، اسی طرح موصوف ان تین بزرگوں (داہو میاں، قاسم علی خیاط اور نبی احمد)میں سے ایک تھے جنھوں نے اپنے گاؤں اور علاقہ کی اصلاح کے لئے مولانا سید عابد علی رحمہ اﷲ کو انتری بازار آنے اور یہاں تبلیغ دین اور اصلاح عقیدہ کی دعوت دی تھی،اس میں ذرہ برابربھی شک نہیں کہ مولاناعابد علی کی آمد کی برکت اور ان کی کوششوں سے گاؤں میں توحید اور اتباع سنت کا بول بالا اور شرک و بدعت اور تعزیہ داری وغیرہ کا خاتمہ ہوا، مولانا ہی نے آکر گاؤں کی جامع مسجد میں مدرسہ بحرالعلوم نام سے ایک تعلیمی ادارہ کی داغ بیل بھی ڈالی جس میں کچھ دنوں بعد ادیب العصر علامہ عبد الغفور ملا فاضل بسکوہری رحمہ اﷲ جیسی عبقری اور علمی شخصیت نے بھی ایک عرصہ تک تدریس اور دعوت کا فریضہ انجام دیا۔ 
ولادت: دادا مولانا محمد زماں رحمانی کی ولادت کی قطعی تاریخ کسی مستند ذریعہ سے معلوم نہ ہوسکی، اس زمانہ میں آج کی طرح سند فراغت میں بھی تاریخ پیدائش درج کرنے کارواج نہ تھا، تاہم ایک محتاط اندازہ کے مطابق آپ کی پیدائش بیسویں صدی عیسوی کے بالکل شروع یعنی ۱۹۰۲ء کے آس پاس ہوئی ہوگی۔
تعلیم و تربیت:اس زمانہ میں گاؤں کے اندر نہ مدرسہ تھا ،نہ ہی کوئی مکتب اور نہ ہی دور دور تک علم کا چرچا، اس لئے آج کی طرح بالکل بچپنے ہی میں دادا کی تعلیم کا سلسلہ جاری نہ ہوا، بلکہ سن شعور کو پہونچنے کے بعد تقریباً ۱۹۱۴ء کے آس پاس آپ کے والد گرامی نے آپ کی تعلیم کی جانب توجہ فرمائی اور سب سے پہلے گاؤں کے ایک معمولی پڑھے لکھے بزرگ میاں عبد الغفور کی تربیت میں دے دیا،انھیں میاں صاحب سے دادا رحمہ اﷲ نے قرآن مجید ناظرہ اور اردو کی چند ابتدائی کتابیں پڑھیں،میاں عبد الغفور کی خدمت میں چند سال گذارنے کے بعد تقریبا ۱۹۱۷ء میں مدرسہ دارالہدی یوسف پور(قائم شدہ: ۱۸۵۴ء) تشریف لے گئے جہاں آپ نے مولانا سید عابد علی رحمہ اﷲ سے ایک سال تک تعلیم حاصل کی جو ان دنوں مدرسہ دارالہدی یوسف پور میں مدرس تھے، مولاناسیدعابد علی اپنے وقت کے بڑے متدین،صاحب ورع و تقوی اور باوقار عالم دین ،مخلص داعی اور بے لوث مصلح تھے، موصوف نے کچھ دنوں تک ندوہ میں تعلیم پائی تھی اور غالبا علامہ ہلالی سے بھی استفادہ کیا تھا،انھوں نے طب یونانی اور حکمت کی تعلیم بھی حاصل کی تھی ۔ 
انھیں دنوں جب باشندگان انتری بازار نے اپنی اور آس پاس کی بستیوں کی اصلاح کے لئے مولانا عابد علی رحمہ اﷲ کو انتری آنے کی دعوت دی،تومولانا نے دعوتی جذبہ سے سرشار ہوکر ان کی دعوت بلا قیل و قال قبول فرمائی اور دارالہدی یوسف پور کو خیر باد کہہ کر انتری بازار تشریف لے آئے اور پہونچتے ہی مسجد میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع فرمادیا،مسجد میں قائم یہی مدرسہ بعد میں بحرالعلوم کے نام سے مشہور ہوا، دادا مولانا محمد زماں رحمانی رحمہ اﷲ بھی ایک سال یوسف پور میں گذار کر اپنے مشفق استاد کے ہمراہ اپنے گاؤں واپس آگئے اور تقریبا۱۹۲۵ء تک یہیں زیر تعلیم رہے ، اس دوران گاؤں کے لوگوں نے دینی جوش و جذبہ کا مزید مظاہرہ کیا اور مولانا عابد علی رحمہ اﷲ کی دعوتی و تعلیمی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے جذبہ سے انھوں نے ایک اور مدرس کی تقرری کا فیصلہ کیا ،اس مقصد کے لئے ان کی نگہ انتخاب ادیب اریب علامہ عبد الغفور ملا فاضل بسکوہری رحمہ اﷲ (م ۱۳۹۹ھ مطابق ۱۹۷۹ء) جیسی عبقری شخصیت پر پڑی اور وہ مولانا کو لانے میں کامیاب بھی ہوگئے، مولانا بسکوہری کے تشریف لانے کے بعد دادا کو ان سے استفادہ کا زیادہ موقعہ ملا اور پوری تندہی سے حصول علم میں لگ گئے اور ۱۹۲۵ء تک ترجمہ قرآن اوربلوغ المرام کے علاوہ عربی قواعد صرف و نحو اور ادب و انشاء کی کتابوں کی بنیادی تعلیم حاصل کرلی۔
۱۹۲۵ء میں اساتذہ کے مشورہ سے آپ کو مدرسہ کنز العلوم ٹانڈہ ضلع فیض آباد بھیج دیا گیا جو اس دور میں اچھا اور معیاری مدرسہ تصور کیا جاتا تھا، مگر اب شاید اس کا نام و نشان تک باقی نہیں، وہاں پہونچ کر آپ نے مولانا علیم اﷲ جیسے اساتذۂ فن سے سال بھر استفادہ کیا، پتہ نہیں دادا کی افتاد طبع کا نتیجہ تھا یا علم کے پیاس کی شدت کہ آپ ۱۹۲۶ء میں کنز العلوم چھوڑ کر مدرسہ فیض عام مؤ(قائم شدہ:۱۹۰۲ء) پہونچ گئے،فیض عام اس وقت مشاہیر اہل علم و فن اور نامور اساتذہ کا مرکز تھا، ہر فن کے ماہر اور متخصص اساتذہ وہاں موجود تھے اور جماعتی سطح پراسے ممتاز اور مرکزی مقام حاصل تھا، تقریبا دو سالوں تک آپ نے یہاں رہ کر امام نحو مولانا احمد مؤی (۱۲۹۰۔۱۳۶۷ھ) مولانا عبد الرحمن مؤی (۱۲۹۰۔۱۳۵۷ھ) مولانا عبد اﷲ شائق مؤی،مولانا عصمت اﷲ رحمانی(م ۱۹۷۷ء) جیسے اساتذہ سے استفادہ کیا، ۱۹۲۸ء میں آپ فیض عام چھوڑ کر مدرسہ سراج العلوم جھنڈانگر (قائم شدہ :۱۹۱۴ء ) پہونچے اور دو سال تک ماہر علم فرائض مولانا عبد الرحمن بجواوی اور مولانا عبد الغفور بسکوہری سے کسب فیض کیا ،مولانا بسکوہری ان دنوں جھنڈانگر میں تدریسی فریضہ انجام دے رہے تھے۔
تعلیم کی آخری منزل: غالبا ۱۹۳۰ء کا سن رہا ہوگا جب مولانا عبد الغفور بسکوہری رحمہ اﷲ میاں شیخ عطاء الرحمن رحمہ اﷲ کی پر خلوص دعوت پرتدریس کے لئے دار الحدیث رحمانیہ دہلی (۱۹۲۱ء ۔۱۹۴۷ء)تشریف لے گئے، چنانچہ مشفق استاد گرامی کی معیت میں دادا رحمہ اﷲ نے بھی سند فراغت حاصل کرنے کے لئے دارالحدیث رحمانیہ کا رخت سفر باندھا، یہ وہ زمانہ تھا جب رحمانیہ دہلی کی ٹھوس تعلیم اور موثر تربیت کا شہرہ عرب سے عجم تک پھیلا ہوا تھا اور رحمانیہ مشاہیر اساتذۂ فن کا مرکز بنا تھا، اس دانش کدہ میں پہونچ کر آپ نے شیخ الحدیث مولانا احمد اﷲ پرتاب گڈھی، مولانا نذیر احمد املوی،شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارکپوری،مولانا عبد اﷲ پرتاب گڈھی، مولانا سکندر علی ہزاروی اور ادیب اریب مولانا عبد الغفور ملا فاضل بسکوہری رحمہم اﷲ جیسے یکتائے فن اور نابغۂ روزگار اساتذہ سے استفادہ کیا، یہاں دو سال کی تعلیم پوری کرکے ۱۳۵۱ھ مطابق ۱۹۳۲ء میں آپ نے رحمانیہ سے سند فراغت حاصل کی، دادا کے بقول آپ کی دستار بندی محدث کبیرعلامہ عبد الرحمن مبارک پوری صاحب تحفہ کے مبارک ہاتھوں عمل میں آئی، جلسۂ دستار بندی میں ہندوستان کے اکابر علماء و مشائخ تشریف فرما تھے،جن میں شیخ الاسلام مولانا ابوالوفا ثناء اﷲ امرتسری،مولانا محمد جوناگڈھی،مولانا شرف الدین دہلوی اور مولانا عبد اﷲ روپڑی جیسی عبقری شخصیات قابل ذکر ہیں، سند الإجازۃپردارالحدیث رحمانیہ کے مہتمم میاں شیخ عطاء الرحمن اور نامور اساتذہ کے دستخط کے ساتھ بحیثیت ناظر تعلیمات مولانا عبد اﷲ روپڑی رحمہ اﷲ کا دستخط ثبت ہے۔
حصول علم کی راہ میں قربانیاں: میرے دادا بتاتے تھے کہ جن دنوں میں اپنے پہلے استاد میاں عبد الغفور مرحوم کی خدمت میں تعلیم پاتا تھا ان دنوں میں باشعور تھا اور گھر پر دیر تک پارچہ بافی کے بعد وقت نکال کر میاں صاحب کے پاس پڑھتا تھا، گویا اس وقت آپ کی تعلیم جزوقتی تھی، اسی طرح میری دادی بتاتی تھیں کہ تمھارے دادا جن دنوں کنز العلوم ٹانڈہ میں پڑھ رہے تھے وہ بسا اوقات اپنی بھوک مٹانے کے لئے جنگل میں اُگے جھربیری کے سوکھے پھلوں پر گذارہ کرتے تھے، مدرسہ میں بھی کھانے کا معقول نظم نہ تھا اور گھر میں بھی غربت و افلاس کا دور دورہ تھااس لئے گھر سے بھی معقول اخراجات نہ مل پاتے تھے،مگر حصول علم کا شوق تھا کہ بھوکے پیاسے رہ کر بھی ہمارے اسلاف حصول علم میں لگے رہے۔
زمانہ طالب علمی میں کتابوں کا شوق:دادا رحمہ اﷲ کے پاس اسلامی مآخذ کی بڑی اور اہم کتابیں بھی تھیں جنھیں وہ لکڑی کی ایک مضبوط اور خوبصورت الماری اور لکڑی ہی کے ایک بڑے خوبصورت بکس میں بڑی حفاظت سے رکھتے تھے، بچپن میں برسات گذرنے کے بعد انھیں دھوپ دکھانے کا کام میرے بچپنے میں میرے اور میری چھوٹی پھوپھیوں کے ذمہ ہوتا تھا ، ہم ان کتابوں کی قدر و قیمت سے نا آشنا تھے، غفلت اور لاپرواہی میں اگر اٹھاتے اور رکھتے کتابیں گر جاتیں یا ان کا کوئی ورق الگ ہوجاتا تو دادا کی جان نکل جاتی اور غصہ اور افسوس کے ساتھ ارشاد فرماتے’’ بچہ! تمھیں کیا پتہ کہ یہ کتابیں کتنے فاقوں اور پریشانیوں کے بعد حاصل ہوئی ہیں‘‘ ہم اس وقت اس جملہ کا مطلب نہیں سمجھ پاتے اور دادا کی خفگی سمجھ کر اسے ٹال جاتے، مگر جب کچھ شد بد ہوئی تو دادی جان نے اس جملہ کا مطلب واضح کرتے ہوئے بتایا کہ ’’بیٹا تمھارے دادا گھر سے ملنے والے معمولی اخراجات کو بھی پورا بچالیتے تھے،کبھی بازار سے اپنی خواہش کی کوئی چیز نہ کھاتے تھے، پیسے چونکہ کم ہوتے تھے اس لئے نئی کتاب خرید نہ سکتے تھے بلکہ وہ دہلی میں کتابوں کی ان دکانوں پر جاتے جہاں پرانی کتابیں کم قیت پر ملتی تھیں اور وہ انھیں خرید لیا کرتے تھے‘‘،جو کتابیں دادا کے آثار اور باقیات کی شکل میں محفوظ ہیں ان میں بعض کتب تفاسیر،حدیث کی تقریبا تمام متداول کتابیں( صحا ح وجوامع )، اور شروحات حدیث میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اﷲ کی فتح الباری کی اکثر جلدیں جو مصر کی چھپی ہیں اور علامہ شمس الحق ڈیانوی کی عون المعبود قابل ذکر ہیں،یہ اس وقت کی بات ہے جب آج کی طرح کتابوں کی اشاعت عام نہ تھی کہ اب تو بڑی اوراہم ترین کتابوں کے مالک وہ لوگ بھی بن بیٹھے ہیں جو صحیح طور سے ان کتابوں اور ان کے مصنفین کا نام بھی پڑھنے کی استعداد نہیں رکھتے،بلکہ بڑے بڑے علماء اور محققین بھی فتح الباری جیسی کتابیں دیکھنے کو ترستے تھے ، یہ کتابیں نہایت خستہ اور بوسیدہ ہوچکی ہیں اور ہاتھ لگتے ہی پھٹ جاتی ہیں، عون المعبود جس کا اوپر ذکر ہوا ہے درمیان سے اس کے کچھ صفحات غائب تھے، والد محترم حفظہ اﷲ جن دنوں جامعہ سلفیہ بنارس میں تدریسی فریضہ انجام دے رہے تھے ان دنوں موصوف نے اس کی از سر نو جلد سازی کرائی اور غائب صفحات کی جگہ سادے کاغذات لگوائے، اور جلد سازی کے بعدکتاب کے دوسرے نسخہ کی مدد سے اپنے بعض خوش خط تلامذہ سے مبیضہ کی تسوید کرائی، جن حضرات نے بہ طور خاص یہ خدمت رضا کارانہ طور پر انجام دی ہے ان میں شیخ شمیم احمد محمد خلیل السلفی(مکتب الدعوۃ ،قطر) اور شیخ محمد اجمل السلفی(مکتبۃ الشیخ جمعہ الماجد،دبیٔ) قابل ذکر ہیں، فجزاہما اﷲ خیرا۔
اخلاق و شمائل: دادا مولانا محمد زماں رحمانی نہایت خلیق،متواضع،منکسر المزاج ،بلند اخلاق و کردار کے حامل اور خلوص و ﷲیت کا پیکر تھے، دوست تو دوست اپنے بدخواہوں اور دشمنوں تک سے محبت و شفقت کا برتاؤ کرتے،اختلاف و انتشار اور لڑائی جھگڑا سے کوسوں دور بھاگتے،خدا شناسی ،خود شناسی اور جہاں شناسی میں بھی طاق تھے،ان کی زندگی بڑی صاف ستھری اورسادہ تھی، وضع قطع اوراخلاق واوصاف میں نمونۂ سلف کہے جاتے تھے،اتباع سنت کا پاکیزہ جذبہ ان کے رگ و پے میں سرایت کئے تھا،اس لئے عبادات سے لے کراخلاقیات،معاملات یہاں تک کہ عادات میں بھی وہ سنت پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے،لمبے سنتی بال رکھتے،جمعہ اور عیدین میں عمامہ باندھتے،چلتے تو ہاتھ میں عصا ضرور ہوتا، عیدین میں بالخصوص اپنا وہ عربی عبا پہنتے جو فراغت کے موقعہ پر دارالحدیث رحمانیہ سے انھیں دیا گیا تھا، صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کا بڑا اہتمام فرماتے۔
خدمت استاد:خدمت استاد میں بھی دادا مرحوم اپنی مثال آپ تھے،چونکہ طالب علمی کا بیشتر حصہ علامہ بسکوہری رحمہ اﷲ کی زیر تربیت گذرا تھا اس لئے ان سے خاص تعلق خاطر تھا، زمانۂ طالب علمی سے وفات تک جب بھی استاد کی خدمت کا موقعہ ملتا اسے غنیمت جان کر ہاتھ سے نہ جانے دیتے، اس زمانہ میں جب کہ وسائل حمل و نقل مفقود ہونے کے سبب سفر بڑا پُر مشقت ہوتا تھا بسا اوقات گھریلو پیداوار کے فصلی اور موسمی تحائف خود سر پر لاد کر پیدل مولانا بسکوہری کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور ہمیں بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے، مجھے یاد ہے کہ دادا کی زندگی کے آخری ایام اور اپنے زمانہ طالب علمی میں ایک دوست کے نکاح میں شرکت کے لئے مجھے بیت نار جانے کا اتفاق ہوا، ان دنوں بیت نار کا راستہ بسکوہر ہوکر تھا، دادا کو جب خبر ہوئی کہ میرا ارادہ بیت نار جانے کا ہے تو موصوف نے مجھے اپنے استاد محترم سے ملاقات کرنے،ان کی خدمت کرنے اور ان سے دعا لینے کی خصوصی تلقین فرمائی،اور واپسی میں مجھے یہ سعادت حاصل بھی ہوئی ۔ 
شیخ الحدیث علامہ عبیداﷲ رحمانی مبارکپوری رحمہ اﷲ سے بھی آخر تک اچھے تعلقات قائم رہے، جن مسائل میں دادا کو انشراح نہ ہوتا تھا ان کے تعلق سے حضرت شیخ الحدیث سے رجوع فرماتے،جوابی پوسٹ کارڈ پر استفتاء بھیجتے اور جلد ہی جواب آجاتا، میں نے اس طرح کے کئی خطوط بچپنے میں دیکھے ہیں ، مگر اس وقت ان کی قدر و قیمت سے ناآشنا تھا،اب ان میں سے دو ایک پوسٹ کارڈ کہیں محفوظ رکھے ہوئے ہیں، شیخ الحدیث رحمہ اﷲ پوسٹ کارڈ کے ایک حصہ پر جواب لکھتے اور پتہ والے حصہ میں مختصر خط تحریر فرماکر اپنی خیریت بتاتے اور اپنے شاگرد کی خیریت معلو م کرتے، مگر افسوس اب نہ وہ ساقی رہے اور نہ ہی پیمانہ سلامت رہا۔ اﷲم اغفر لہم جمیعا ۔ 
تلامذہ کے ساتھ بے پناہ شفقت:شاگردوں سے بھی حد درجہ اخلاق کریمانہ بلکہ شفقت پدرانہ کے ساتھ پیش آتے،مدرسہ آتے ہوئے طلبہ کو اپنے والدین اور خویش و اقارب کے چھوڑنے کا غم نہ ہوتا تھا، مدرسہ بحر العلوم انتری بازار میں پڑھنے والے اکثر تلامذہ آپ کو والد ہی تصور فرماتے تھے،اور اسی تعلق کی بنا پر وہ میری دادی کو اماں، والدہ محترمہ کو بھابھی اور پھوپھی صاحبات کو بوبو(آپا)ہی کہا کرتے تھے، مدرسہ کے چھوٹے بچوں کو ہدایت تھی کہ جب بھی انھیں بھوک لگے یا کوئی ضرورت ہو گھر جاکر اپنی ضرورت پوری کرلیں،میری دادی اور والدہ دادا کی ہدایت کے مطابق ان کا خیال رکھتیں بلکہ بعض وہ تلامذہ جو اس وقت ہمارے اکابر میں ہیں وہ خود ہی گھر کے اندر جاکراپنے ہاتھوں پتیلی اور ہانڈی سے کھانا نکال کر بے تکلفی سے کھالیا کرتے تھے۔ یہ طلبہ دادا کا احترام بھی بہت کرتے تھے اور آپ کی تربیت سے بہرہ ور ہوتے۔دادا کے ایک شاگرد رشید اور بزرگ عالم دین مولانا محب اﷲ رحمہ اﷲ (ملگہیا) نے کئی بار مجھ ناچیز سے دادا کی شفقت و محبت کا ذکر آبدیدہ ہوکر کیا ،مولانا فرمایا کرتے تھے کہ’’ مولانا محمد زماں صاحب کے دور میں جھنڈانگر کے ستر فیصد طلبہ تہجد گذار تھے،باقی اگرچہ تہجدکے پابند تو نہ تھے مگران کی پنج وقتہ نمازیں وقت سے بے وقت نہ ہوتی تھیں‘‘،مولانا کا بیان ہے کہ’’ اس دور میں ہم طلبہ اذان،اقامت اور پہلی صف میں جگہ لینے لے لئے جھگڑا کرلیتے تھے، یہ سب مولانا کی شفقت اور مخلصانہ تربیت کا نتیجہ تھا،آج نہ وہ اساتذہ ہیں نہ طلبہ‘‘۔
اس موقعہ پردادا کے ایک شاگرد رشیداور نامور عالم دین مناظر اسلام مولانا عبد المبین منظر رحمہ اﷲ کے تعلق سے ایک واقعہ کا ذکر مناسب معلوم ہوتاہے، مولانا منظر رحمہ اﷲ کا خود بیان ہے کہ مولانا زمانۂ طالب علمی کی کسی شرارت کے سبب مجھ سے ناراض رہے، مگر جب میں نے اپنی کتاب ’’سیف اﷲ خالد بن ولید ‘‘تصنیف کی تواس کا ایک نسخہ میں نے مولانا کی خدمت میں بھی پیش کیا، مولانا نے اس کو قبول کیا اور جستہ جستہ نظر ڈال کر فرمایا کہ اب اس کتاب کو دیکھ میں نے تمھاری غلطی معاف کردی۔ 
سماجی زندگی: دادا کی سماجی و معاشرتی زندگی بھی بے حد خوش گوار تھی،محلہ،پاس پڑوس اور گاؤں کے لوگ آپ کا بڑا احترام کرتے بلکہ علاقہ میں بڑے مولوی صاحب کے نام سے یاد کئے جاتے تھے، گھر سے باہر نکلتے تو راستہ میں مرد حضرات آپ کو دیکھ کر احتراما کھڑے ہوجاتے اور سلام کرتے،عورتیں آپ کو دیکھ کر گھروں میں گھس جاتیں،البتہ بوڑھی عورتیں چہرہ پھیر کر وقار سے کنارے کھڑی رہتیں اور جب آپ ان کے سامنے سے گذرتے تو وہ سلام کرتیں۔ 
ورع و تقویٰ اور زہد: دادا بڑی محتاط زندگی گذارنے کے عادی تھے، رزق حلال کا خاص خیال رکھتے،خود بھی حلال کھاتے اپنے بال بچوں اور خویش و اقارب کو بھی اس کی تلقین فرماتے، جن دنوں مدرسہ بحر العلوم انتری بازار کی باگ ڈور آپ کے ہاتھ میں تھی ان دنوں دھان کوٹنے کی مشین علاقہ میں نہ تھی، مدرسہ کو عشر کی شکل میں جو دھان ملتا تھا اسے آپ گاؤں کی عورتوں سے اجرت پر کُٹواتے، میرے گھر بھی غربت تھی، دادا کچھ دھان گھر بھی لے آتے اور میری دادی،والدہ اور پھوپھیاں مل کر ڈھینکی ( دھان کوٹنے کا آلہ) سے چاول تیار کرتیں اور اجرت کے طور پر کھدی(چاول کا ٹوٹا حصہ) ہمیں حاصل ہوتا تھا، میری والدہ کا بیان ہے کہ ایسے مواقع پر دادا سخت ہدایت فرماتے اور ایک دانہ چاول ادھر ادھر نہ کرنے کی تلقین کرتے اور صاف کہہ دیتے کہ اگر اس میں کچھ ہوا تو میں بری الذمہ ہوں تمھیں اﷲ کے یہاں اس کا حساب دینا ہے، یہ میرے بالکل بچپنے کے واقعات ہیں، میں خود دیکھتا کہ میری دادی میری والدہ اور پھوپھیوں کو سردیوں کی رات میں پچھلے پہر بیدار کرتیں، چراغ یا لالٹین کی روشنی میں دھان کوٹنے کا سلسلہ شروع ہوتاجو اذان فجرتک جاری رہتا،دھان کوٹتے وقت اکثر میری والدہ اور پھوپھیاں دیوان گلشن ہدایت اور شاہنامہ اسلام کے اشعار پڑھتی رہتیں، اسی طرح مدرسہ کے غلے بھی حفاظت کے مقصد سے ہمارے گھر رکھے جاتے ،اس کے لئے میری والدہ محترمہ اور دادی جان وغیرہ نے مٹی کے بڑے بڑے ڈہرے تیار کئے تھے،ان غلوں کے سلسلہ میں بھی دادا جان کی ہدایت اور نگرانی بڑی سخت ہوتی تھی کہ ایک دانہ بھی ضائع نہ ہونے پائے۔
خود داری و خود شناسی : آپ کے اوصاف ستودہ اور خصال محمودہ میں آپ کی خودداری اور خود شناسی بھی ہے، موصوف اپنے مقام و مرتبہ کو بھی جانتے تھے اور اپنی پر وقار شخصیت کی حفاظت بھی فرماتے تھے، دادا کی زندگی بھرگھر کی مالی حالت کبھی بھی بہت بہتر نہ رہی، بس بقدر کفاف ہی آمدنی تھی اور اسی کے سہارے زندگی گذرتی رہی، گھر میں ہم سب موٹا کھانے اور پہننے کے عادی تھے، کبھی فاقہ کی نوبت بھی آجاتی مگر دادا نہ خود اس کا اظہار فرماتے اور نہ ہی گھر کے کسی فرد کو اجازت دیتے کہ اپنی پریشانی کا تذکرہ پاس پڑوس یا اقرباء سے کرے، مجھے اپنے بچپن کی کئی راتیں یاد ہیں جب ہم نے کبھی کھدی یا گیہوں کے بھونے پراکتفاء کیا اور کبھی دَلیہ (جس میں صرف نمک اور پانی ہوتا تھا) یاایسے ہی کوئی معمولی چیز کھاکر پانی پی لیا اور بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ ہم سب کو بالکل بھوکے ہی سونا پڑا، دادا جان اپنے طورپر انتظام فرماتے ،مگرنہ حرف شکایت زبان پر لاتے، نہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے اور نہ ہی کسی سے زبان کھولتے،حالانکہ جب کبھی ہمارا حال پڑوسیوں پر کسی طور ظاہر ہوجاتا تو وہ اس بات پر ناراض ہوتے ،ان کے گھر کی نیک دل خواتین میری والدہ اور دادی پر خفا ہوتیں کہ ہمیں نہ بتایا اور بچوں کو بھوکا سلادیا۔
دادا کی خود داری کے تعلق سے ایک واقعہ قابل ذکر ہے ، ۱۹۵۸ء میں جب والد محترم مولانا عبد الحنان فیضیؔ حفظہ اﷲ مدرسہ فیض عام،مؤ ناتھ بھنجن سے فارغ ہوئے تو ان دنوں ہندوستان کے ہونہارطلبہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے جامعہ ازہر مصر میں داخلہ لیا کرتے تھے، والد صاحب کے رفقاء درس جومؤ کے تھے وہ بھی جامعہ ازہر جانے کی تیاری میں لگ گئے، والد صاحب کے اندربھی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے جامعہ ازہر جانے کی شدید خواہش اورتڑپ تھی ،مگراس کے لئے وسائل دستیاب نہ تھے، والد صاحب نے جب دادا مرحوم سے اپنی خواہش کا تذکرہ کیا تو آپ نے برجستہ جواب دیا کہ’’ میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں تمھیں ازہر بھیج سکوں ، نہ ہی میں اس کے لئے کسی سے قرض لے سکتا ہوں اورنہ ہی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا سکتا ہوں‘‘، بہرحال والد صاحب کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی، جب کہ انھیں دادا جان نے اپنے ہی گاؤں کے ایک ذہین اور ہونہار فارغ التحصیل نوجوان کے ازہربھیجنے کا انتظام علاقہ کے اپنے عقیدت مند اہل خیر حضرات سے کرادیا تھا ۔
اپنا کام اپنے ہاتھ: تواضع اور خاکساری کا یہ عالم تھا کہ اپنا کام خود انجام دینے میں کبھی عار اورجھجھک محسوس نہ فرماتے،تھوڑی بہت کھیتی جو وراثت میں ملی تھی اسے خود کرتے تھے، پھاوڑا چلاتے،بوجھ ڈھوتے،فصلوں کی کٹائی اور دنوائی کرتے یہاں تک کہ جانوروں کا چارہ بھی کھیتوں کی میڈوں سے چھیل اور کاٹ کر لے آتے، میں نے خود دادا جان کے ساتھ گھاس چھیلتے ہوئے فارسی کی ابتدائی کتابیں آمد نامہ اور تیسیر المبتدی یاد کی ہیں، گویا وہ گھاس چھیلتے ہوئے مجھے پڑھاتے بھی رہتے تھے۔
حق گوئی و بے باکی:ان تمام اوصاف کے ساتھ مزاج میں تیزی بھی پائی جاتی تھی لیکن وہ ناحق نہ ہوتی ،حق کے سلسلہ میں آپ کی سختی قابل دید ہوتی تھی ،وہ حق کے خلاف کسی سے ایک لفظ بھی سننا پسند نہ کرتے تھے، گویا حق گوئی و بیباکی آپ کا طرۂ امتیاز تھا،اگر کوئی شخص خلاف شرع یا خلاف سنت کوئی عمل کرتا تو سود و زیاں کی پروا کئے بغیر برملا ٹوکتے ،حالانکہ اس کے نتیجہ میں بسا اوقات آپ کو نقصان بھی اٹھانا پڑتا، مجھے یاد ہے کہ میرے بچپنے میں گاؤں کے اندر چوری چکاری عام تھی،مسلمانوں ہی کے کچھ بدقماش لوگ یہ واردات نجام دیتے تھے اور گاؤں کا امن و سکون غارت کئے ہوئے تھے، ایک دن جمعہ کے خطبہ میں یہی موضوع بیان کیا اور آخر میں چوروں کو ڈانٹا اور سرزنش کی، نتیجہ یہ ہوا کہ گیہوں کی میری وہ فصل جو تقریبا پک کر تیار تھی رات میں ان چوروں نے اس کو بالیوں سے آزاد کردیا اور فصل بغیر بالیوں کے کھڑی رہی ۔
اولاد و احفاد: آپ کی دو شادیاں ہوئیں، پہلی شہرت گڈھ میں، مگر یہ شادی ساز گارثابت نہ ہوئی ، دوسری شادی نیپال سرحد پر واقع ککرہوا بازار کے قریب مٹھول نامی بستی میں ہوئی، ان سے متعدد اولاد ہوئیں،سب سے بڑی میری پھوپھی رحیم النساء تھیں،دوسرے نمبر میرے والد بزرگوار، پھر میرے چچا عبد الرحمن اور ـضیاء الرحمن اور میری کئی پھوپھیاں، چچا عبدالرحمن بچپن ہی میں انتقال کرگئے جب کہ چچا ضیاء الرحمن بلوغت کی عمر کو پہونچ کر داغ مفارقت دے گئے، جواں سال بیٹے کی وفات کا صدمہ داداکو آخر عمر تک رہا، اولاد نرینہ میں والد محترم مفتی و شیخ الحدیث مولانا عبد الحنان فیضی بحمد اﷲ و فضلہ باقی رہے جو دادا کے خلف الرشید اور سچے جانشین ہیں، پوری زندگی درس و تدریس،دعوت و ارشاد اور فتوی نویسی میں صرف کردیا، والد محترم ؔ حفظہ اﷲ کا شمار ہندوستان کے چند معروف اساتذۂ حدیث میں ہوتا ہے، چنانچہ ۲۰۰۴ء میں منعقد ہونے والی آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس پاکوڑ میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی جانب سے جن چند منتخب وممتاز اہل علم و فضل کو ایوارڈ سے نواز کر ان کی تکریم کی گئی ان میں والد محترم بھی شامل تھے جنھیں طویل مدت تک حدیث کی تدریس اور فتوی نویسی کے لئے ایوارڈ دیا گیا،واضح رہے کہ موصوف کم و بیش پچاس(۵۰) برسوں سے حدیث کی امہات کتب کا درس تسلسل کے ساتھ دے رہے ہیں اور کم و بیش چھتیس(۳۶) برسوں سے جامعہ سراج العلوم جھنڈانگرمیں صحیح بخاری شریف پڑھارہے ہیں، کئی برسوں تک موصوف یہاں کے صدرالمدرسین اور شیخ الجامعہ بھی رہے اور اس پیرانہ سالی میں جب کہ آپ کی عمر ۸۰؍ برس سے متجاوزہے جامعہ سراج العلوم میں بحیثیت شیخ الحدیث اور مفتی اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں،واضح رہے کہ تعلیمی سال ۱۹۷۳-۷۴ء تا ۷۷- ۱۹۷۶ء چار برسوں تک موصوف جامعہ سلفیہ بنارس کے مسند درس کو بھی رونق بخش چکے ہیں اور وہاں تفسیر بیضاوی ،جامع ترمذی اور سنن ابی داؤدا ور دیگرفنون کا درس دے چکے ہیں۔گنہگار راقم کا بھی مولانا محمد زماں رحمانی رحمہ اﷲ سے خونی تعلق ہے وہ میرے مشفق دادا تھے اور مجھ سے بڑی محبت فرماتے تھے، دادا کی چائے کے لئے اس زمانہ میں ایک پاؤ دودھ آتا تھا، اوپر کی بالائی میرے حصہ میں آتی تھی اور باقی ماندہ دودھ سے صبح و شام دادا کی چائے بنتی تھی، ان کی زندگی کے آخری ایام میں جب میں جامعہ رحمانیہ بنارس کی جماعت ثالثہ یا رابعہ کا طالب علم تھا تو ان کی موجودگی میں مجھے اپنے گاؤں کے اندر جمعہ کا پہلاخطبہ دینے کا موقعہ ملا،میں نے انجمن میں سنائی گئی دو تین رٹی رٹائی تقریروں کے سہارے جیسے تیسے خطبہ مکمل کیا، دادا بہت خوش ہوئے،دعائیں دیں اور فرمایا کہ’’ اﷲ کا شکر ہے میں نے اپنے کانوں سے تمھارا خطبہ سن لیا اور مجھے اطمینان ہوگیا ،ان شاء اﷲ علمی و دعوتی وراثت ہماری اولاد میں باقی رہے گی‘‘، انھیں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ میرا خانوادہ دعوت و تعلیم سے جڑا ہوا ہے اور دادا کے بعد والد صاحب،پھر راقم اور اس کے بڑے بیٹے عزیزم مولوی سعود اختر سلفی اپنے اپنے طورپر اس فریضہ سے عہدہ برآ ہونے کے لئے کوشاں ہیں،باقی بچے بھی ان شاء اﷲ اسی میدان میں رہیں گے۔ اﷲ ہم سب کو اخلاص کے ساتھ خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
رفقاء و احباب: یوں تو آپ کے تعلقات جماعت کے اکثر اہل علم و فضل سے تھے اوران کے درمیان باہم تقدیر و احترام کا تباد لہ ہوتا رہتا تھا ،مگر چند شخصیات سے دادا کے دوستانہ مراسم تا حیات باقی رہے اور ان کے یہاں بکثرت دادا کا آنا جانا رہا، ان بزرگوں میں میاں محمد زکریا (جھنڈانگر،نیپال)مولانا اولاد حسین(ششہنیاں،سدھارتھ نگر) مولانا محمد اسحق رحمانی (چیونٹہوا، بلرام پور) مولانا عبد الآخر بنارسی(بنارس) قاری مولانا عبد السبحان مؤی(مؤ) مولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈانگری (جھنڈانگر، نیپال) مولانا محمد تسلیم رحمانی (چمپارن،بہار)مولانا عظیم اﷲ (اکرہرا ، سدھارتھ نگر)مکھیا محمد امین و شیخ رحمت اﷲ(انتری بازار) اور مولانا عبد الرحیم نو مسلم (کھیرٹیا،سدھارتھ نگر) جیسے اہل علم و فضل قابل ذکر ہیں، اﷲ ان سب کی مغفرت فرمائے۔
میرے بچپنے میں مولانا محمد اسحق رحمانی (م ۱۹۸۸ء) کا ورود مسعود میرے گھر ہوا،دادا رحمہ اﷲ خاصے کمزور ہوکر گھر بیٹھ گئے تھے، انھیں کی عیادت کے لئے غالبا مولانا کی تشریف آوری ہوئی تھی، یہ میرے زمانۂ طالب علمی کا دور تھا اور میں جامعہ سلفیہ بنارس میں عالم اول یا ثانی میں پڑھ رہا تھا، دادا نے اپنی طاقت سے بڑھ کر ان کی ضیافت کا انتظام کیا، گرمیوں کے دن تھے، شام کوچارپائی گھر سے باہر کھلے آنگن میں بچھائی گئی،بستر لگا اور مولانا محمد اسحق رحمانی آرام فرما ہوئے، دادا کے اشارہ پر میں ان کے سر میں تیل مالش کرنے لگا اور جسم دبانے لگا، مولانا مجھ سے صرف و نحو کے کچھ سوالات فرماتے رہے، کچھ میں بولتا اور زیادہ تشریح وہ خود فرمادیتے،پھر عربی کے کچھ اشعار سنانے کا حکم ہوا، مجھے أزہار العرب اور مجموعۃ من النظم و النثر کے کچھ اشعار یاد تھے انھیں سنادیا،پھر مولانا جوش میں آئے اور دیوان متنبی ،حماسہ اور سبعہ معلقہ کے اشعار پوری روانی اور ترتیب کے ساتھ دیر تک پڑھتے رہے، یہ اشعار میرے علمی مستوی سے اونچے تھے اس لئے پلے نہ پڑے، البتہ اس بات پر بڑا تعجب ہورہا تھا کہ یہ نحیف و نزار اور دیہاتی انداز کے مولوی صاحب کس قدر ذہین ہیں کہ زمانہ طالب علمی کے سارے اشعار ان کو ازبر ہیں، مولانامحمد اسحق رحمانی نے فراغت کے بعد غالبا کہیں باقاعدہ تدریسی فریضہ انجام نہ دیا، انھوں نے طب و حکمت کی تعلیم بھی حاصل کی تھی اور گاؤں میں رہ کر اپنی کھیتی باڑی کے ساتھ خدمت خلق کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے،اگر یہ کسی اچھے ادارہ میں لگے ہوتے تو زبان و ادب کے اچھے استاد اور مدرس ہوتے۔ خوشی کی بات ہے کہ ان کے فرزند ارجمند ڈاکٹرمولانا محمد اقبا ل سلفی، مدنی جامعہ سلفیہ کے نامور فضلاء میں شمار ہوتے ہیں اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے کسب فیض کے بعد عرصہ سے جامعہ محمدیہ منصورہ ،مالیگاؤں میں حدیث و علوم حدیث کے مایہ ناز استاد ہیں، فن اسماء الرجال پر گہری نظر ہے اورجرح و تعدیل ان کا خصوصی موضوع ہے جس پر موصوف کئی علمی و تحقیقی کتابیں تصنیف فرماکر اہل علم و فن سے خراج تحسین حاصل کرچکے ہیں، بارک اﷲ فیہ و کثر أمثالہ، آمین۔
دادا کے رفقاء میں ایک بزرگ مولانا محمد تسلیم رحمانی کا ذکر ہوا ہے وہ صوبہ بہار کے ضلع چمپارن کے رہنے والے تھے ، ان کے صاحب زادے مولانا امان اﷲ فیضی بہاری بھی جماعت کے اکابر علماء اور نامور اساتذہ میں گنے جاتے ہیں،ایک عرصہ تک وہ جامعہ ریاض العلوم دہلی میں صدر مدرس اور شیخ الحدیث رہ چکے ہیں، چنانچہ ۲۰۰۴ء کی منعقدہ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس پاکوڑ میں موصوف کو بھی ایوارڈدیا گیا،ان کے خاندان میں بھی علمی وراثت کا سلسلہ جاری ہے اور مولانا امان اﷲ فیضی کے ہونہار صاحب زادے مولانا علی اختر مدنی صاحب دعوتی و تدریسی میدان میں اپنا ایک خاص مقام بنا چکے ہیں اوراپنے والد کے زمانہ ہی سے ریاض العلوم، دہلی میں مدرس ہیں۔
 ان اہل علم و فضل رفقاء کے ساتھ پاس پڑوس کے نیک دل مسلمانوں سے بھی بہت دادا کے گہرے دوستانہ مراسم تھے،ان میں مجہنی،دھنورہ مستحکم،دھندھرا،موہن کولہ،گنیش پور،گولھورا،رومندیوی،کھڑکیاں،گنجہڑا،ندولیا،امہوا،راماپور،جیت پور، برئنیاں، بھٹملا، بیدولی، اور کچھار علاقہ کے ببھنی بازار،بھینسہوا، اورسنبرسا وغیرہ کے اہل توحید مسلمان قابل ذکر ہیں۔
نامور تلامذہ:دادا نے اپنی زندگی کابیش تر حصہ درس و تدریس اور تعلیم و تربیت میں گذارا اور تقریبا نصف صدی تک بستی،گونڈہ اور نیپال کے معروف و ممتاز تعلیمی اداروں میں طلبہ کو فیض یاب فرماتے رہے ،اسی لئے ان علاقوں میں آپ کے شاگردوں کا جال بچھا ہوا ہے، ذیل میں چند ممتاز اور نامور تلامذہ کا ذکر کیا جارہا ہے :
مناظر اسلام مولانا عبد المبین منظر(سمرا) ،مفسر قرآن مولانا عبد القیوم رحمانی(دودھونیاں )، مولانا محمد حسن رحمانی (اونرہوا) مولانا عبد الشکور دور صدیقی(بیت نار)،مولانا عبد الصبور رحمانی(اکرہرا)،مولانا امر اﷲ عارف سراجی(کونڈرا گرانٹ) ، مولانا قطب اﷲ رحمانی ندوی(ملگہیا)، مولانا محمد عمر سلفی(انتری بازار) ، مولانا اقبال حسین بستوی(ریواں)،مولانا محب اﷲ صاحب (ملگہیا) ،مولانا عبد اﷲ رحمانی (بسکوہر) (رحمہم اﷲ) مولاناعبد الحمید رحمانی(دہلی)مفتی مولانا عبد الحنان فیضی(انتری بازار) مولانا محمد مستقیم سلفی(استاد جامعہ سلفیہ،بنارس)،مولانا عبد الحمید شفیقی(انتری بازار)،مولانا عبد الرشید مدنیؔ(نائب شیخ الجامعہ،جامعہ سرا ج العلوم جھنڈانگر) مولانا ڈاکٹر بدر الزماں نیپالی (بجوا، نیپال ) مولانا شفیع اﷲ رحمانی(ملگہیا)،مولانا عبد اﷲ مدنی (جھنڈانگر)مولانا نعیم الدین مدنی(شیخ الجامعہ جامعہ سلفیہ،بنارس)۔
یہ آپ کے شاگردوں کی مختصر فہرست ہے جن میں اکثر دین کی خدمت کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اور جو موجود ہیں وہ سب مختلف طریقوں سے دینی فرائض انجام دے رہے ہیں ، یہ سب ان شاء اﷲ دادا کے لئے صدقۂ جاریہ ہیں۔
حج کی خواہش و تڑپ: دادا کے دل میں زیارت حرمین شریفین اور حج بیت اﷲ کی بڑی خواہش تھی، اولاً وسائل محدود ہونے کے سبب جوانی میں ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی،تاہم اپنی وفات سے کچھ پہلے آپ نے اس کے لئے خود سے ایک منصوبہ بنایا اور اپنی محدود آمدنی میں سے کچھ حصہ پس انداز کرنے کا سلسلہ جاری فرمایا، آہستہ آہستہ یہ رقم ایک ہزار سات سو روپئے ہوگئی، اس زمانہ میں اتنی رقم سے بحری جہاز سے حج ہوجاتا تھا، تقریبا ۱۹۷۰ء یا ۱۹۷۱ء میں اس کے لئے فارم بھی پُر کیا مگر منظوری نہ آئی، آپ مایوس نہ ہوئے اور آئندہ برس پھر قسمت آزمائی کا ارادہ فرمایا ، مگر اس دوران ایک زبردست حادثہ رونما ہوگیا، در اصل دادا نے یہ رقم اپنے ایک قریبی عزیز کے یہاں بہ طور امانت رکھوادی تھی اور دادا کی اجازت سے یہ رقم ان کے عزیز نے تجارت میں لگا رکھی تھی،اﷲ کا کرنا ان صاحب کے کپڑے کی دوکان میں زبردست چوری ہوگئی کہ وہ اس لائق نہ رہے کہ یہ رقم یکمشت ادا کرسکیں، اس لئے دادا کو حج نہ کرپانے کابے حدصدمہ اور قلق ہوا، اور اس خواہش کو اپنے سینہ میں لئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے، والد محترم مولانا عبدالحنان فیضی حفظہ اﷲ نے ۱۹۹۴ء میں جب والدہ محترمہ کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کرلی تو گھر میں طے پایا کہ دادا کی جانب سے بھی حج بدل کا انتظام کیا جائے،چنانچہ ۱۹۹۶ء میں راقم آثم نے حج کا فارم پر کیا اور دادا کی جانب سے حج بدل کی سعادت حاصل کی۔ 
علالت و وفات: دادا کی صحت پہلے بہت اچھی بلکہ قابل رشک تھی، گورا چھریرا بدن تھا، کھیتی کسانی کرنے کے سبب ان کے عضلات گٹھے گٹھے تھے،مگر اﷲ کی مشیئت ۱۹۷۳ء میں وہ ذیابیطس(SUGAR) جیسی موذی اور مہلک بیماری میں مبتلا ہوگئے، جھنڈانگر کے معروف طبیب حاذق حکیم مقبول احمد خاں مرحوم کا علاج چلتا رہا مگر اس مرض سے نجات نہ مل سکی،اس زمانہ میں اس بیماری کے لئے آج کی طرح زود اثر ایلوپیتھک دوائیں اور انسولین انجکشن کا وجود نہ تھا ، اس بیماری کے سبب آپ نہایت نحیف و نزار ہوگئے اور ساری دعوتی و تعلیمی سرگرمیاں موقوف ہوگئیں، کم و بیش دو برس بستر علالت پر رہے، اس دوران میری دادی نے ان کی بہت خدمت کی،اولاد و احفاد نے بھی دادا کی خدمت میں کوئی کوتاہی نہ کی، آخری ایام میں ذیابیطس کے اثر سے اختلاج قلب کا عارضہ بھی لاحق ہوگیا تھا، ان سب کے باوجود آپ کی کوئی نماز قضاء نہ ہوئی،نماز سے شغف کا یہ عالم تھا کہ انتقال سے دو ایک روز پہلے جب غشی کے بعد افاقہ ہوتا تو لیٹے لیٹے اقامت کہہ کر نماز شروع کردیتے، آخروقت موعود آپہونچا اور ۱۶؍اپریل ۱۹۷۸ء کو سنیچر کی رات گذار کر بوقت فجر اپنی جان جان آفریں کے حوالہ کی،إنا ﷲ و إنا إلیہ راجعون۔
جنازہ و تدفین: دادا کے انتقال کی خبر بجلی کی طرح علاقہ و اطراف میں پھیل گئی جب کہ اس زمانہ میں آج کی طرح فون اور موبائل کی سہولیات میسر نہ تھیں،اپریل کا مہینہ تھا،چلچلاتی دھوپ اور گرم جھکڑ کی پروا کئے بغیر آپ کے معتقدین میلوں دور سے آپ کے جنازہ میں شرکت کے لئے پروانہ وار امنڈ پڑے،آس پاس کے مواضعات کے علاوہ نیپال کے علاقوں سے لوگ بذریعہ سائیکل یا پیدل چل کر جنازہ میں شریک ہوئے،مدرسہ سراج العلوم جھنڈانگر میں تو گویا تعطیل ہی ہوگئی تھی،اساتذہ اور اکثر طلبہ کسی نہ کسی طری انتری پہونچ گئے، دادا کی زندگی ہی میں مدرسہ بحر العلو م انتری بازار کے اس وقت کے ذمہ داران کی خواہش تھی کہ آپ کومدرسہ کے احاطہ ہی میں دفن کیا جائے اور بعد از مرگ بھی مدرسہ کے اس خادم کو مدرسہ سے علیحدہ نہ کیا جائے، دادا سے اجازت لی گئی مگر آپ نے انکار فرمایا اور وصیت کے انداز میں کہا کہ’’ میری تدفین عام قبرستان میں کی جائے‘‘، بہر حال تجہیز و تکفین کے بعد آپ کا جنازہ مدرسہ بحرا لعلوم میں لایا گیا جہاں بعد نماز ظہر مولانا محمد خلیل رحمانی رحمہ اﷲ کی امامت میں ہزاروں سوگواروں اور عقیدت مندوں نے نماز جنازہ ادا کی اور قبل نماز عصر وصیت کے مطابق عام قبرستان میں سپرد خاک کردئے گئے۔
خدمات
 دادا مولانا محمدزماں رحمانی علاقہ کے معروف صاحب زہد وورع عالم دین، کہنہ مشق مدرس، مخلص مبلغ اوربے لوث داعی ومصلح تھے، متحدہ ہندوستان کی مایہ ناز سلفی درسگاہ دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے فراغت کے بعد آپ کی پوری زندگی درس وتدریس اوردعوت وتبلیغ میں گذری، موصوف کا شمار ضلع بستی و گونڈہ کے نامور مدرسین اور شیریں بیان مقررین میں ہوتا تھا،موصوف نے اضلاع سدھارتھ نگر،بلرام پور،بستی، گونڈہ ، سنت کبیر نگر،مہراج گنج اور ان سے متصل نیپال کے اضلاع کپل وستو اور روپندیہی کو اپنی دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور اس پورے خطہ میں موثر اور نتیجہ خیز انداز میں دعوت و اصلاح کا فریضہ انجام دینے میں کامیابی حاصل کی،آپ کی کوششوں سے ان علاقوں میں بڑی حدتک توحید کی روشنی پھیلی اوریہاں کے مسلمان شرک وبدعت کی گمراہیوں سے تائب ہوئے، دادا مرحوم سیدھے سادے مسلمان تھے ، ان کی زندگی بڑی صاف ستھری اورسادہ تھی، وضع قطع اوراخلاق واوصاف میں نمونۂ سلف کہے جاتے تھے، ان کا وعظ سادہ مگربڑا موثر اوردلپذیر ہوتا تھا، قرآن وسنت کے معانی ومفاہیم خالص دیہاتی زبان میں اس طرح بیان کرتے تھے کہ عوام کوانھیں سمجھنے میں ذرہ بھی دشواری نہ ہوتی تھی،مدرسہ بحرالعلوم کی نشأۃ ثانیہ کا سہرا بھی ان کے سر ہے کہ اسے گاؤں کی مسجد سے منتقل کرکے آبادی سے باہرشمال جانب ایک وسیع قطعہ آراضی پر قائم کیا،دو مرحلوں میں مدرسہ سراج العلوم جھنڈانگرمیں بھی کم و بیش ۱۴؍ برسوں تک تدریسی خدمت انجام دیں اوراس دوران اکثر تدریس کے ساتھ بہ حیثیت صدرالمدرسین تعلیمی اورداخلی انتظام و انصرام میں الحاج نعمت اﷲ خاں اور ان کے فرزندگرامی مولانا جھنڈانگری کے معاون اور تعلیم و تربیت کے نگراں رہے، دارا لعلوم ششہنیاں کے قیام کے بعدشعبہ عربی کے پہلے مدرس مقرر کئے گئے، عمر کے آخری ایام میں مدرسہ عربیہ قاسم العلوم گلرہا، بدل پور، بلرام پور تشریف لے جاکر وہاں بھی اپنا فیض عام فرمایا۔آگے سطور میں دادا مولانا محمد زماں رحمانی رحمہ اﷲ کی تدریسی و دعوتی خدمات کا سرسری جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
تدریسی خدمات:۱۹۳۲ء میں دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے فراغت کے بعد دادا مولانا محمد زماں رحمانی کو الحاج نعمت اﷲ خاں رحمہ اﷲ نے مدرسہ سراج العلوم میں مدرس مقرر فرمایا، حاجی صاحب دادا کو زمانۂ طالب علمی سے بخوبی جانتے تھے یہاں تک کہ جب اپنے صاحب زادے مولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈانگری رحمہ اﷲ کو دار الحدیث رحمانیہ کے زمانۂ طالب علمی میں خطوط لکھتے تھے تو دادا کی بھی خبر خیریت دریافت فرماتے اور سلام لکھتے، اس مضمون کے بعض خطوط میری نظر سے گذرے ہیں، بہر حال دادا رحمہ اﷲ اپنے مادر علمی مدرسہ سراج العلوم جھنڈانگرمیں تقریبا ۱۹۳۹ء تک تدریسی فریضہ انجام دیتے رہے، اس زمانہ میں چوتھی اور پانچویں جماعت کے طلبہ مدرسہ میں داخل تھے اور موصوف انھیں تنہا ساری کتابیں پڑھاتے تھے،ان کا خود بیان ہے کہ فجر کی نماز کے بعد مسجد ہی میں درس کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا ،پہلے الگ الگ جماعتوں کے طلبہ کو تفسیر و ترجمہ قرآن کادرس دیتا پھر حدیث پڑھنے والے طلبہ آتے ،یہ سلسلہ دیر دن چڑھے تک جاری رہتا، ناشتہ کا وقفہ ہوتا،پھر طلبہ ایک ساتھ مسجد میں بیٹھ جاتے اور باری باری انھیں دوپہر تک دیگر علوم وفنون پڑھاتا، دوپہر کے کھانے اور نماز ظہر کے لئے وقفہ ہوتا، نماز ظہر کے معا بعد پھر پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ شروع ہوجاتاجو اذان عصر تک جاری رہتا، جن طلبہ کا درس نہ ہوتا تھا وہ دادا کی نگرانی میں اپنی کتابوں کا مذاکرہ کرتے رہتے اور انھیں یاد کرتے۔ جماعت کے ولی اور فرشتہ صفت بزرگ میاں محمد زکریا رحمہ اﷲ جو مدرسہ سراج العلوم کے وقت قیام ہی سے یہاں مدرس تھے وہ خود مشکاۃ کے درس کے وقت دادا کے پاس بیٹھ کر استفادہ فرماتے اور ذرہ بھی عار نہ محسوس کرتے۔
اس دوران گاؤں میں مولانا سید عابد علی رحمہ اﷲ نے بحر العلوم کی شکل میں جو علمی پود لگایا تھا وہ بعض اسباب سے سوکھ رہا تھا اور اسے کسی کے خون جگر کی ضرورت تھی،چنانچہ اس کی آبیاری کے لئے گاؤں کے باشعور لوگوں کی نظر انتخاب آپ پر پڑی اور آپ کو انتری بلالیاگیا، دادا اپنے مادر علمی کی خدمت کے لئے نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ گاؤں پہونچ کر مدرسہ کی تعمیر و ترقی میں مصروف ہوگئے،بحر العلوم مولانا عابد علی رحمہ اﷲ کے زمانہ ہی سے جامع مسجد میں قائم تھا، دادا نے بھی وہیں تدریس کا سلسلہ شروع کیا، مگر کچھ دنوں بعد بیرونی طلبہ کی کثرت کے سبب مسجد ناکافی ہوگئی اوروہاں تعلیمی سلسلہ جاری رکھنا مشکل ہوگیا تو دادا نے مدرسہ کومسجد سے علیحدہ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ،اس سلسلہ میں گاؤں کے ذمہ دار حضرات سے مشورے ہوئے اور سب کی رـضامندی کے بعد دادا نے اپنے دوست اور معتمد خاص مکھیا محمد امین وغیرہ کے تعاون سے گاؤں سے باہر بجانب شمال ایک قطعہ زمین خرید کر وہاں مدرسہ اور عید گاہ کی تاسیس و تعمیر فرمائی اور بحر العلوم جامع مسجد سے یہاں منتقل ہوگیا، کچھ دنوں بعد جب طلبہ کی کثرت کے سبب یہ جگہ بھی ناکافی ہوگئی تو گاؤں سے دور شمال کی طرف نہایت پرفضا اور کھلی جگہ ایک وسیع قطعہ آراضی خرید کر وہاں آپ نے ایک مسجد اور مدرسہ کی بنیاد ڈالی اور مسجد کے ساتھ تین کمروں کی تعمیر مکمل کرائی، اب پہلا تعمیر کیا گیا مدرسہ مکتب کے لئے اور اس نئی عمارت کوشعبہ عربی کے لئے خاص کردیا گیا۔گویا یہ کہنا بالکل بجا اور درست ہے کہ مولانا سید عابد علی رحمہ اﷲ مدرسہ بحر العلوم کے بانی و مؤسس تھے تو دادا مولانا محمد زماں رحمانی رحمہ اﷲ اس کے معمار،آپ کی انتھک کوششوں اور بے پناہ جد و جہدکے سبب بحر العلوم جلد ہی ترقی کے منازل طے کرکے بام عروج پر پہونچ گیا اور جماعت کے اہم اداروں میں شمار کیا جانے لگا، مختلف اطراف و جوانب سے تشنگان علوم دینیہ اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے بحر العلوم آتے اور دادا کے فیض تربیت سے مستفید ہوکر جاتے، دادا نے بحرالعلوم کی آبیاری آٹھ برسوں تک اپنے خون جگر سے کی اور اسے پروان چڑھانے کے لئے اپنی ساری توانائیاں صرف کردیں،یہ سلسلہ تقریبا ۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۶ء تک جاری رہا۔
۱۹۴۴ء میں مفکر اسلام مولانا عبد الجلیل رحمانی رحمہ اﷲ (۱۹۱۷۔۱۹۸۶ء) نے ششہنیاں میں دارالعلوم کے نام سے ایک عربی مدرسہ کی داغ بیل ڈالی، ان دنوں مولانا عبد الجلیل رحمانی دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں مدرس تھے،پھر اپنے گھریلو مسائل کے سبب موصوف ۱۹۴۵ء میں دارالعلوم آگئے ، قیام مدرسہ کے بالکل آغازمیں میرے نانا مولانا فتح محمد صاحب( انتری بازار ) اور منشی رحم اﷲ ( بنکٹوا) تدریسی خدمت پر مامور ہوئے، دارالعلوم کے دائرۂ عمل کو وسعت دینے اور علاقہ میں دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کو تیز تر کرنے کے لئے مولانا عبد الجلیل رحمانی نے دادا رحمہ اﷲ کواپنے یہاں آنے کی دعوت دی، اگرچہ آپ بحر العلوم چھوڑنا نہ چاہتے تھے لیکن جذبۂ دعوت و تبلیغ کے پیش نظر ۱۹۴۶ء میں آپ ششہنیاں تشریف لے گئے،دارالعلوم میں تدریس کے ساتھ انتظام و انصرام کی ذمہ داری بھی دادا کے سپرد تھی ،چنانچہ انھوں نے اپنی انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے علاقہ میں اس کاموثر تعارف کرایا اور وہاں کھپریل کاایک مدرسہ اور مسجد تعمیر کرانے میں کامیاب ہوئے۔ اس دوران آپ نے اس پورے خطہ اور نیپال کے متصل علاقوں میں تبلیغی دورے بھی کئے جس کے بڑے نمایاں اثرات ظاہر ہوئے،ششہنیاں کے زمانۂ قیام میں میرے پھوپھا اور خسر مولانا عبد الوہاب ریاضی بن میاں محمد زکریا رحمہ اﷲ اور والدمحترم مولانا عبد الحنان فیضی بھی دارالعلو م میں زیر تعلیم رہے، اس دور کے دیگر اساتذہ میں میرے نانا مولانا فتح محمد صاحب کے علاوہ مولانا عبد القدوس ٹکریا اور مولانا عبد الشکور دور صدیقی قابل ذکر ہیں،ششہنیاں میں دادا کا قیام تین برسوں تک رہا ۔
تین برس کی اس مدت میں بحرالعلوم دادا کی غیر موجودگی میں سوکھ کر تقریبا ًبے آب ہوگیا، اس لئے اس کی آبیاری کے لئے آپ دوبارہ انتری بازار تشریف لائے اور ۱۹۴۹ء سے ۱۹۶۴ء کا طویل زمانہ اس کی نشو و نما اور تعمیر و ترقی کے لئے وقف کردیا۔
اس کے بعد خطیب الاسلام مولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈانگری کی دعوت پر دادا دوبارہ مدرسہ سراج العلوم جھنڈانگر تشریف لائے اور تقریبا ۱۹۷۰ء تک بحیثیت صدر مدرس یہاں تدریسی ،دعوتی اور انتظامی خدمات انجام دیتے رہے، اس زمانہ میں میرے والد بزرگوارمو لانا عبد الحنان فیضی بھی جامعہ میں تدریس و افتاء کی خدمت پر مامور تھے۔
مدرسہ بحر العلوم کی خدمت سے دست برداری کوکئی سال ہوگئے تھے، اس دوران خون جگر سے سیراب کیا ہوا گلستاں خزاں کے بے درد ہاتھوں اجڑ چکا تھا،اس لئے دادا نے مدرسہ سراج العلوم کو خیرباد کہہ کر مدرسہ بحر العلوم کی خدمت کا فیصلہ کیااور۱۹۷۰ء میں آپ انتری واپس آگئے، کچھ دنوں سب ٹھیک رہا مگر ۱۹۷۲ء میں بدقسمتی سے آپ کو ذیابیطس کا عارضہ لاحق ہوگیا جس کے سبب آپ کمزور ہوگئے اور پہلے جیسا نشاط باقی نہ رہا،بینائی بھی متاثر ہوگئی، کسی طرح کچھ دنوں تک مدرسہ کو سنبھالا مگر جب کمزوری زیادہ بڑھ گئی تو ۱۹۷۴ء میں آپ نے مدرسہ کی خدمت سے معذرت فرمادی اور گھر بیٹھ گئے ۔
 مولانا محمدعمر سلفی رحمہ اﷲ میرے گاؤں کے صاحب عزم و حوصلہ عالم اور دادا کے خاص شاگرد تھے، وہ گلرہا،ضلع بلرام پور (اس وقت کے ضلع گونڈہ) میں مدرسہ قاسم العلوم نام سے ایک ادارہ چلارہے تھے جہاں مکتب کے ساتھ عربی کی ابتدائی تعلیم ہوتی تھی، مولانا محمد عمر سلفی نے اس ادارہ کو اپنی محنتوں اور صلاحیتیوں سے ترقی دی، وہ قاسم العلوم میں گوکہ صرف صدر مدرس تھے تاہم عملا وہی نظامت بھی فرماتے تھے ، انھوں نے دادا سے گلرہا تشریف لے جانے کی گذارش کی ، دادا نے اپنی کمزوری کے باعث معذرت کردی اور ہم اولاد و احفاد بھی نہیں چاہتے تھے کہ دادا اس بیماری اور کمزوری کی حالت میں گھر چھوڑ کر اب کہیں باہرجائیں،لیکن مولانا محمد عمر سلفی کا اصرار شدت اختیار کرگیااور انھوں نے ہر ممکن خدمت کی یقین دہانی کرائی،پرہیزی کھانے کے انتظام کا وعدہ بھی کیا اور یہ بھی فرمایا کہ مولانا میرے والدکے مانند ہیں میں ان کی خدمت میں کوتاہی کون کہے غفلت بھی نہ کروں گا ، مولانا پڑھائیں نہ صرف ادارہ میں بیٹھے رہیں اور ہمیں ان کی خدمت کا موقعہ ملتا رہے یہی ہمارے لئے کافی ہے،ہم سب حصول برکت کے لئے مولانا کو لے جانا چاہتے ہیں، یہ سب سن کر دادا بھی نرم پڑ گئے اور ہم سب نے بھی انھیں جانے کی اجازت دے دی، اس طرح ایک سال دادا نے کواپور کے خطہ میں گذارا، تدریس و دعوت کا کام تو بس واجبی سا تھا، دادا بیٹھے رہتے تھے اور علاقہ کے لوگ حاضر ہوکر دعائیں لیتے اور فیض حاصل کرتے۔
انداز تدریس:دادا چونکہ دارالحدیث رحمانیہ دہلی کے فیض یافتہ تھے اس لئے جملہ علوم و فنون پر انھیں کامل دسترس حاصل تھا اور تمام مضامین کی تدریس کی صلاحیت مسلَّم تھی،افہام و تفہیم کا انداز بڑا نرالا تھا، ما فی الضمیرکی ادائیگی بڑی خوش اسلوبی اور سلیقہ سے فرماتے،مشکل سے مشکل مسائل بڑی سادگی کے ساتھ مختصر الفاظ میں ایسا حل کردیتے کہ طالب علم ساری بات سمجھ بھی لیتا اور اس کے ذہن میں کوئی اشکال باقی نہ رہ جاتا ، صرف و نحو کے تو گویا امام تھے،ہدایۃ النحو،فصول اکبری اورکافیہ و شافیہ وغیرہ کتابوں کی عبارتیں آپ کو ازبر تھیں،چنانچہ دادا کی وفات سے کچھ ماہ پہلے میں نے کسی تعطیل میں جب میں نے آپ سے کافیہ کا درس لیا، تومجھے یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ اس پیرانہ سالی میں بھی آپ کو اس کی اکثر عبارتیں یاد تھیں۔ واضح رہے کہ جامعہ سلفیہ بنارس میں کافیہ کی جگہ شرح شذورالذہب داخل نصاب تھی اس لئے میں نے کافیہ نہ پڑھی تھی،اس کتاب کی شہرت کے سبب مجھے اس کے پڑھنے کی خواہش ہوئی۔ 
دادا کے طریقہ تدریس کے تعلق سے یہ بات بڑی اہم ہے کہ وہ صرف و نحو پڑھاتے ہوئے ان کے قواعد کے اجراء پر خصوصی توجہ کرتے تھے،نیز مبتدی طلبہ کو قواعد نحو اور صرف کی گردانیں اس قدر ازبر کرادیتے کہ وہ انھیں سورہ فاتحہ کی طرح یاد رہتیں اور جو بھی قاعدہ پوچھا جاتا فورا بتاتے اورجس کلمہ کی بھی گردان ان سے کرائی جاتی وہ ایک سانس میں گردان جاتے، یہاں تک کہ عربی کے معروف کلمات کو چھوڑ کر اردو بلکہ گونڈہ بستی کی دیہاتی زبان کے الفاظ مثلا ’’کھپڑا ‘‘اور’’ چھپرا ‘‘ جیسے نامانوس اور مشکل الفاظ کی گردان بھی وہ پوری روانی سے سنا جاتے اور کہیں نہ اٹکتے، اسی طری اونچی جماعتوں کے طلبہ کو تفسیر و حدیث پڑھانے کے لئے داداپوری تیاری کرتے، بلوغ المرام کا وہ نسخہ جس سے موصوف پڑھاتے تھے وہ میرے پاس محفوظ ہے،میں نے اس میں دیکھا ہے کہ دادا نے اس نسخہ کے ہر صفحہ پر عربی میں خوش خط حواشی اپنے قلم سے تحریر فرمائے ہیں جن میں الفاظ کی تشریح اورمتعارض حدیثوں میں تطبیق کے ساتھ بعض مقامات پر ائمہ کے اقوال راجح قول کی تعیین مع دلائل مذکور ہیں۔
 مذکورہ مدارس جہاں آپ نے تدریسی فرائض انجام دئے ہیں ان کے سوا علاقہ میں جماعت کے دوسرے مدرسوں سے بھی آپ کے تعلقات بڑے گہرے تھے،کہیں آپ ممتحن کی حیثیت سے تشریف لے جاتے تو کہیں رائے مشورہ کے لئے آپ کو بلایا جاتا، جامعہ انوار العلوم پرسا عماد میں جن دنوں فراغت تک تعلیم ہوتی تھی آپ جلسہ دستار فضیلت میں تقریبا ہر سال مدعو کئے جاتے اور فارغین کی دستاربندی آپ ہی فرماتے تھے۔
دعوتی و تبلیغی خدمات: دادا مولانا محمد زماں رحمانی رحمہ اﷲ نے درس وتدریس کے علاوہ اضلاع بستی ،گونڈہ اورنیپال کے بعض علاقوں اور خطوں میں اپنے نرالے انداز تبلیغ سے نمایاں خدمات انجام دیں، اطراف وجوانب میں گھوم پھر کربدعات وخرافات کو مٹایا اورلوگوں کو خالص توحید کا شیدائی بنایا، آپ زمانۂ تدریس میں امربالمعروف اورنہی عن المنکر کے بنیادی فریضہ سے غافل نہ رہے خصوصاً ششہنیاں کے زمانۂ قیام میں تمام ترتوجہ اسی کی طرف مرکوزرہی، آپ میدان خطابت کے شہ سواراوراس میں فنکار انہ درجہ کی مہارت رکھتے تھے، زبان صاف اورشستہ تھی ،دادا کے بقول انھوں نے اس میدان میں مولانا عبدالرزاق سمراوی رحمہ اﷲ سے رہنمائی حاصل کی تھی، آ پ سلیس اورعام فہم زبان میں تقریرفرماتے ،اکثرتقریریں بستی اورگونڈہ کی مادری زبان میں ہوتی تھیں، موقع بہ موقع مسائل کی وضاحت دیہاتی مثالوں سے کرتے، چنانچہ یہ سیدھی سادھی تقریر فصاحت وبلاغت اورمسجع ومقفی تقریروں سے کہیں زیادہ مؤثرثابت ہوتی ، ڈاکٹرعبدالعلیم صاحب اکرہروی حفظہ اﷲ جوایک عرصہ سے رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ میں شعبۂ تحقیق سے وابستہ رہ کر علمی و تحقیقی فرائض انجام دے رہے ہیں ‘ انھوں نے ۱۹۶۸ء میں تلسی پور کے اندر منعقدہ صوبائی کانفرنس کی رپورٹنگ کرتے ہوئے دادا جان کی تقریرپران الفاظ میں تبصرہ کیاتھا کہ ’’مولاناکی تقریر میں عوام کے لئے بڑی دلچسپی کاسامان ہوتاہے، چٹکلے میں بڑے پتے کی بات کہہ جاتے ہیں۔‘‘(الہدی دربھنگہ اپریل ۱۹۶۸ء)
راقم کو دادا کے دور جوانی کی تقریریں سننے کا تو موقعہ نہ ملا، تاہم دور بڑھاپا میں ۱۹۶۸ء سے ۱۹۷۷ء تک متعدد بار آپ کے خطبات جمعہ اور بعض جلسوں میں آپ کاخطاب سننے کا موقعہ ملا ہے، ان جلسوں میں تلسی پور کی صوبائی کانفرنس بھی ہے جو ۱۹۶۸ء میں ریلوے اسٹیشن سے دکھن جانب منعقد ہوئی تھی ، اس کانفرنس میں دادا کے ساتھ میں بھی گیا تھا، اس وقت میری عمر دس برس سے بھی کم تھی لیکن اس کے بعض مناظر مجھے یاد ہیں، بہت بڑا اجتماع تھا اور جماعت کے اکابر علماء اس میں تشریف لائے تھے، دادا کی تقریر عصر کی نماز کے بعد ہوئی تھی، پنڈال میں سامعین تو موجود ہی تھے اسٹیج بھی علماء سے بھرا ہوا تھا، اس زمانہ میں لوگ جلسہ سننے آتے تھے اور خوب سنتے تھے،اس تقریر میں دادا نے کیا بیان کیا تھا مجھے کچھ پتہ نہیں ،لیکن مجھے جو یاد ہے وہ یہ کہ سامعین بڑی توجہ سے تقریر سن رہے تھے اور دادا کی کوئی بات سن کر کبھی مسکراتے اور کبھی ہنس پڑتے اور تھوڑی ہی دیر میں آبدیدہ ہوجاتے، اسی طرح کچھ اور جلسوں میں بھی مجھے حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا جہاں دادا بھی تشریف لے گئے تھے، ان میں اٹوابازار سے متصل دوپھڑیا کا دوروزہ عظیم الشان جلسہ تھا ، یہ ۱۹۷۲ یا ۱۹۷۳ء کی بات ہوگی ،میں ان دنوں درسگاہ اسلامیہ اکرہرا میں جماعت ثانیہ کا طالب علم تھا اور وہیں سے اپنے بعض اساتذہ اور ساتھیوں کے ساتھ جلسہ میں پہونچا تھا، دادا بھی اس میں مقرر کی حیثیت سے مدعو تھے اور گاؤں سے تشریف لائے تھے، یہ جلسہ خاص پس منظر میں منعقد ہوا تھاکہ گاؤں کے لوگوں کو ایک بڑی افتاد اور آزمائش سے نجات ملی تھی اور ایک نہایت خطرناک مقدمہ میں وہ بری کردئے گئے تھے، جلسہ کی صدارت استاد الاساتذہ مولانا عبد الغفور بسکوہری رحمہ اﷲ فرمارہے تھے، اورجماعت کے بڑے مقررین میں مولانا محمد داؤد راز رحمہ اﷲ نیز مولانا عبدالحمید رحمانی حفظہ اﷲ (جو ان دنوں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے ناظم عمومی تھے اور بڑا ولولہ انگیز خطاب کرتے تھے) اس میں تشریف فرما تھے ، مجھے یاد ہے کہ علامہ بسکوہری رحمہ اﷲ نے موقعہ کی مناسبت سے اپنے خطبہ صدارت میں سورہ یوسف کی تفسیر بیان کی تھی اور حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ سے استیناس کرتے ہوئے بستی والوں کو دلاسہ اور تسلی دیا تھا نیز حق کی فتح پر انھیں مبارکباد دی تھی، دادا رحمہ اﷲ نے بھی خطاب کیا تھا لیکن کیا موضوع تھا مجھے یاد نہیں، البتہ رحمانی صاحب نے اس موقعہ پر خواتین کے حقوق بیان کرتے ہوئے دوپھڑیا کے لوگوں کو بہت ڈانٹا تھا،ان کے جملوں کی گھن گرج آج بھی محسوس کررہا ہوں۔ 
یوں تودادا رحمہ اﷲ زمانۂ طالب علمی ہی سے میدان خطابت میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے اورفراغت کے بعدبھی اس کے ذریعہ دین کی خدمت کرتے رہے ،مگربونڈیہار کے ایک عظیم الشان اجلاس میں جب آپ کو خطاب کا موقعہ ملا جس میں جماعت کے اکابر علماء بھی شریک تھے تو آپ نے اس میں خطابت کے ایسے جوہردکھائے جس پراکابرین جماعت خصوصاً مولانا امرتسری رحمہ اﷲ نے آپ کی بے حد ہمت افزائی فرمائی، جس کے نتیجہ میں آپ میں مزید جرأت وبے باکی پیداہوئی اوربڑے بڑے اجتماعات میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے خطاب فرمانے لگے۔
اصلاح وتبلیغ کاجذبہ آپ کے دل میں بچپن ہی سے موجزن تھا اس سلسلہ میں آپ کے متعلق ایک واقعہ مشہور ہے ،مدرسہ بحرالعلوم کے قیام کا بالکل ابتدائی زمانہ تھا اور مولانا سید عابد علی رحمہ اﷲ کو آئے ہوئے زیادہ دن نہ گذرے تھے اس لئے گاؤں سے بدعات وخرافات کامکمل خاتمہ نہ ہوا تھا، منجملہ دیگر شرکیہ اعمال کے تعزیہ داری کا بھی عام رواج تھااور گاؤں میں گھر گھر چوکے بنے تھے اور بڑے دھوم دھام سے تعزیہ اٹھایا جاتا تھا، ایک بارعاشوراء کے موقع پرجب تعزیہ مسجد کے سامنے سے گذراتومولانا عابد علی کی شہ پر اوردادا مرحوم کی قیادت میں آپ کے چند ساتھیوں نے تعزیوں پرحملہ کرکے انھیں توڑپھوڑ کررکھ دیا،مگرمولاناعابد علی کی پشت پناہی اوران کے رعب ودبدبہ کی وجہ سے کسی کومزاحمت کی ہمت نہ ہوئی،پھر آہستہ آہستہ گاؤں سے اس کا خاتمہ ہوگیا۔
دادا رحمہ اﷲ کو بستی گونڈہ وغیرہ کے اکثرجلسوں میں مدعوکیا جاتا،جہاں آ پ کی اصلاحی تقریریں ہوتیں ، مگرآپ کی دعوتی وتبلیغی سرگرمیاں صرف جلسوں اورخاص دینی محفلوں اورمجلسوں تک محدود نہ تھیں بلکہ آپ ہمہ وقت یہ فریضہ انجام دیتے رہے،جہاں کہیں کسی کوغلط کام کرتے دیکھتے بلاتامل ٹوک دیتے، جس زمانہ میں آپ دہلی تشریف لے گئے تھے پوراعلاقہ بدعات وخرافات سے گھراہواتھا ،مولانا عابدعلی اورمولانا بسکوہری کی تبلیغی مساعی سے گو کہ اصلاح عقائد کا نمایاں کام ہوا تھا ،مگر مکمل شرک و بدعت کا مکمل قلع قمع آپ کی وطن واپسی کے بعدہوا، ضلع بستی گونڈہ اورنیپال کے سرحدی علاقے اگرچہ آپ کی دعوت وتبلیغ کے خصوصی مراکزتھے مگرمغربی یوپی خصوصاً ٹیرہ ٹکرا، بریلی،رچھا،دھونراٹانڈہ،جوکھن پور ،قنوج ،قائم گنج اور گنج ڈوڈوارہ جیسے دوردراز علاقوں میں آپ کے تبلیغی دوروں کا خاصا اثر رہا ہے اور ان علاقوں کے بزرگ جو باقی ہیں انھیں یاد کرتے ہیں، دادا رحمہ اﷲ عید الفطر کی نماز ایک زمانہ تک جوکھن پور ضلع بریلی ہی میں پڑھایا کرتے تھے،ان خطوں میں دادا کے بکثرت آنے جانے سے مذکورہ مقامات کا نام مجھے بچپن ہی میں یاد ہوگیا تھا۔
ان مقامات کے علاوہ بہاراوراس سے متصل نیپال کے مختلف علاقوں کے تبلیغی دور وں کابھی پتہ چلتاہے ،مولانا عبدالغفور اصلاحی کے بیان کے مطابق مرحوم نے چمپارن، چندن بارا، کھٹملیا، باباگنج، جھمکا، بلی رام پور، روٹہٹ، لچھمنیا،جنگڑوا، بیریا، راج پور، سنگرہا، اُرے بھاج وغیرہ علاقوں کا بھی دورہ فرمایا جن کا خاص اثرہوا۔
دادا پوری پابندی کے ساتھ خطبات جمعہ کا اہتمام فرماتے تھے، خطبہ کبھی کبھار گاؤں میں ارشاد فرماتے اور اکثر قرب و جوار یا دور دراز کے مواضعات میں تشریف لے جاتے، مجہنی،جیت پور،اونرہوا،سمری،الگا جونیپال کے سرحدی مواضعات ہیں اور ان کی مسافت میرے گاؤں سے ۱۵ سے ۲۰ کیلو میٹر سے کسی طرح کم نہ ہوگی پیدل چل کر پہونچتے اور جمعہ کا خطبہ دیتے تھے،مجھے یاد ہے صبح ناشتہ کرکے اپنا عصا اٹھاتے اور گھر سے پیدل چل دیتے،وہاں پہونچ کر جمعہ کا خطبہ دیتے پھر کچھ دیر مسجد میں مصلیان کے ساتھ بیٹھتے سوال و جواب ہوتا اور کبھی عصر سے پہلے اور کبھی عصر کی نماز پڑھ کر گھر واپس ہوتے اور مغرب تک یا اس کے کچھ بعد گھر پہونچ جاتے ، ایسے ہی ہندوستان کے سرحدی مواضعات دھنورہ مستحکم،موہن کولا ،دھندھرا،پیکی،گنیش پور،گولھورا وغیرہ میں بھی آپ کا کثرت سے آنا جانا ہوتا تھا اور ان مواضعات سے آپ کو خاص تعلق تھا۔گاؤں میں جب آپ ہوتے عیدین کا خطبہ آپ ہی ارشاد فرماتے، عیدین کے لئے بڑے اہتمام سے تیاری کرتے،نہا دھوکر اپنا سب سے اچھا لباس پہنتے،خوشبو لگاتے اور کلغی والی ٹوپی کے ساتھ عمامہ باندھتے اور عربی عبا پہن کر تکبیرات کہتے عیدگاہ پہونچتے، مجھے یاد ہے کہ عمامہ باندھنے کا اہتمام کچھ زیادہ فرماتے تھے، آئینہ سامنے رکھتے اور اگر پیچ تھوڑی ادھر اُدھر ہوتی تو عمامہ پھر سے کھولتے اور جب تک بالکل درست نہ ہوجاتا کھول کھول کر باندھتے رہتے۔
کبھی جب باقاعدہ تبلیغی مشن پر روانہ ہوتے تو جس علاقہ میں پہونچتے وہاں کی ہر بستی میں تشریف لے جاتے اور کئی کئی دن گذار دیتے تھے، کبھی نیپال کے ترائی علاقہ میں پہونچ جاتے تو حاجی محمد یونس پتریا کے یہاں مقیم ہوتے اور ان کے ساتھ گھوم کر پورے علاقہ کا دورہ کرتے، جہاں بیٹھتے وہاں دین اسلام کی بات ہی جاری رہتی،سوال و جواب بھی ہوتا، کسی کے دروازہ پر یا مسجد میں وعظ کی مجلسیں بھی قائم ہوتیں، ایسے ہی نوگڈھ کا مٹکا علاقہ، بانسی اور پتھرا بازار کے آس پاس کے مواضعات،ڈومریاگنج سے متصل مسلم آبادیاں،اوراٹوا،بسکوہر،بونڈیہار،شنکر نگر،کواپور اور تلسی پور کے آس پاس کے جس گاؤں میں بھی راقم کا جانا ہوا اور وہاں دادا کا ذکر خیر آیا تو ہر جگہ کے بزرگوں نے یہ شہادت دی کہ مولانا ہمارے یہاں آیا کرتے تھے اور کئی کئی دن قیام فرماتے تھے، اور یہ حقیقت ہے کہ دعوت کا کام بڑے پتہ ماری کا ہے، صرف جمعہ کا خطبہ دے کریا جلسہ میں ایک تقریر کرکے داد وتحسین اور نذرانہ وصول کر رفو چکر ہوجانے سے بات نہ بنے گی، عوام کے درمیان رکناہوگا ،ان کے مسائل و مشکلات سننے پڑیں گے، ان کا حل ڈھونڈھنا ہوگا اور ہرسطح پر انھیں مطمئن کرنا ہوگا، ان کی عملی تربیت کے لئے وقت دینا ہوگا، انھیں اذکار و دعائیں یاد کرانی ہوں گی اور اپنی ساری توجہ ان پر صرف کرنی ہوگی تب دعوت کا اثر ظاہر ہوگا، آج ہم نے جلسوں میں تقریروں اور خطبات جمعہ ہی کوکافی سمجھ لیا اور عوام سے ہمارا رابطہ کٹ سا گیا ہے اسی لئے ہماری کوششیں ثمر بار نہیں ہورہی ہیں۔
دعوت وتبلیغ ہی کے حوالہ سے ایک اور بات کا ذکر مناسب ہے کہ ہمارے بزرگ عشوائی انداز کے خطاب سے پرہیز کرتے تھے کہ جہاں موقعہ ملا کھڑے ہوگئے اور زبان پرجوکچھ آیا کہہ گئے، بلکہ ہمارے اکابر علماء اور دعاۃ خطاب کے لئے باقاعدہ تیاری کرتے تھے، مناسب موضوع کا انتخاب فرماتے اور اس کے تعلق سے نصوص اور ضروری مواد اکٹھا کرکے ایک خاص ترتیب کے ساتھ انھیں ذہن نشین کرتے، پھر پورے اعتماد کے ساتھ مسجدوں کے منبر یا جلسوں کے اسٹیج پر رونق افروزہوتے اور عوام کو مستفید فرماتے، اس سلسلہ میں خطیب الاسلام علامہ عبد الرؤف رحمانی رحمہ اﷲ کی مثال ہمارے لئے کافی، خطیب الاسلام کے لقب سے سرفراز کی جانی والی اس مایہ ناز علمی شخصیت کا حال یہ تھا کہ وہ بغیر پیشگی تیاری کے کبھی بھی خطاب نہ فرماتے تھے، اور جب تیاری کے ساتھ اسٹیج پر آتے تو ایک ایک موضوع پر گھنٹوں بولتے جاتے،حوالہ پر حوالہ دیتے اور سامعین کا دل اپنی مٹھی میں لے کران میں علوم و عرفان کے خزانے بھر دیتے، دادا کے بارے میں بہت تفصیل تو نہیں معلوم ہے تاہم ان کے باقیات میں ہمیں ان کی ایک موٹی کاپی ہاتھ لگی جس میں انھوں نے بعض موضوعات کے تعلق سے آیات قرآنی ،احادیث مبارکہ اور مستندواقعات خاص ترتیب کے ساتھ جمع کررکھی تھیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خطاب سے پہلے ایک نظر کاپی پر ڈالنے کے عادی تھے، تاکہ نصوص و واقعات مستحضر رہیں، میرے خیال میں یہ ایک داعی کے لئے بہت مناسب اور ضروری ہے،اس کا جو لوگ بھی اہتمام کرتے ہیں وہ تقریروں میں ادھر اُدھر بھٹکتے نہیں اور وقت گذاری کے بجائے سامعین کو مناسب پیغام دینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
دادا اپنے تبلیغی دوروں میں بڑی مشقت اٹھاتے تھے،وسائل حمل و نقل کی فراوانی آج کی طرح نہ تھی بلکہ اکثر علاقوں میں بس اور ٹرین کی سہولت بھی مفقود تھی،اس لئے زیادہ تر سفر پیدل ہی ہوتا تھا، جلسوں وغیرہ میں بھی منتظمین زیادہ سے زیادہ بیل گاڑیوں کا اہتمام کرتے تھے، موٹر سائیکل اور جیپ کار تو دور کی بات ہے ان بزرگوں کو سائیکل بھی میسر نہ تھی، مگر تبلیغ کا سودا سرمیں سمایا رہتا تھا، گرتے پڑتے ہر جگہ پہونچ جاتے،اورجہاں پہونچتے لوگ والہانہ استقبال کرتے،ان کے وجود کو نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر خوب استفادہ کرتے،خدمت میں بھی کوتاہی نہ کرتے، میرے والد محترم حفظہ اﷲ کے ہم سبق ساتھی اورجامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کے پرانے سکریٹری برائے سرکاری امور مولانا حقیق اﷲ رحمہ اﷲ نے اپنے والد حاجی محمد زکریا کی دادا سے عقیدت و محبت کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک واقعہ بیان فرمایاکہ’’ ایک بار مولانامحمد زماں رحمہ اﷲ بارش کے موسم میں میرے گاؤں کے لئے پیدل نکلے، گاؤں سے پہلے ایک نالہ تھا جوبارش کے پانی سے بھرا تھا، شام بھی ہوگئی تھی اور اندھیرا چھانے لگا تھا،مولانا کو پانی کا کچھ اندازہ نہ تھا اس لئے انھوں نے احتیاطا نالہ پار کرنا مناسب نہ سمجھا، میرے گاؤں کا ایک غیر مسلم نالہ کی دوسری طرف اپنے کام میں مصروف تھا ،مولانا نے اسے آواز دے کر بلایا اور کہا کہ جاؤ گاؤں میں حاجی محمد زکریا سے کہہ دو کہ نالہ کی دوسری جانب انتری کے مولانا کھڑے ہیں، اس غیر مسلم نے میرے والد حاجی محمد زکریا کو پیغام پہونچایا ، سن کر وہ دوڑے دوڑے آئے اور کہا مولانا آپ وہیں کھڑے رہیں میں آتا ہوں، وہ سینہ بھر پانی میں گھس کر مولانا کے پاس پہونچے،سلام، مصافحہ اور معانقہ کے بعد مولانا کو کندھے پر لاد کر نالہ پار کرایا، مولانا نے کہا بھی کہ حاجی صاحب میں آپ کے ساتھ نالہ پار کرلوں گا، مگر والد صاحب نہ مانے اور کہا ایک دن آپ کی خدمت کا موقعہ ملا ہے اسے میں گنوانا نہیں چاہتا۔یہ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اﷲ والے اس کے دین کی نشر واشاعت میں جو تکلیفیں اور مشقتیں اٹھا تے تھے تو اﷲ ان کی مدد بھی کرتا تھا اور لوگوں کے د لوں میں ان کی محبت نقش کردیتا تھا، آج مجھ جیسے کار دعوت سے وابستہ لوگوں کے اندر نہ وہ اخلاص ہے اور نہ وہ فداکارانہ جذبہ،اسی لئے ہم عوام کی محبتوں سے بھی محروم ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کے تیکھے تبصروں اور تنقیدوں کا مخاطب سب سے زیادہ ہم ہی ہوتے ہیں تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں، اﷲ ہم سب کی اصلاح فرمائے، آمین۔
قصہ تبلیغی گھوڑے کا: ان دنوں جب حمل و نقل کے وسائل محدودتھے تو مدرسہ بحر العلوم میں سواری اور باربرداری کے لئے دادا نے پہاڑی نسل کا ایک عمدہ گھوڑاحاصل کیا تھا جسے دادا کے معتقد خاص الحاج شہادت حسین رحمہ اﷲ (بیدولی، نیپال ) نے عطا فرمایا تھا اور جو بالعموم میرے نانا مولانا فتح محمدرحمہ اﷲ کے استعمال میں رہتا تھا، اس لئے کہ وہ مدرسہ کے مستقل مبلغ اور محصل تھے اور مدرسہ کے لئے تعاون حاصل کرنے کی غرض سے وہ اکثر دوروں پر رہا کرتے تھے، ایک نشانہ بناکر گاؤں سے نکلتے اور ایک بستی سے دوسری بستی پھر وہاں سے تیسری آبادی سے ہوتے ہوئے ہفتہ عشرہ میں اپنی منزل پر پہونچ جاتے، اور پھر راستہ بدل کر بستی بستی پھرتے کئی ہفتہ بعد مدرسہ واپس ہوتے، جہاں جاتے وہاں وعظ و نصیحت کا پروگرام بھی بنتا اور عشر و زکاۃ کی شکل میں مدرسہ کے لئے آمدنی بھی ہوجاتی، کبھی جب نانا مدرسہ پر ہوتے تو دادا بھی گھوڑے کو تبلیغ کے لئے استعمال کرلیتے اور اس پر سوار ہوکر قرب و جوار کی بستیوں میں تشریف لے جاتے، یہ گھوڑا نسل کے لحاظ سے تیز اور مضبوط توتھا ہی اپنی قسمت کے اعتبار سے بھی بڑا مبارک تھا کہ اسے بڑے عظیم مقصد کے لئے استعمال کیاجارہا تھا، بدشگونی کے تعلق سے جو حدیث آئی ہے اس میں بیوی اورگھرکے ساتھ گھوڑے کا بھی ذکر ہوا ہے، اور علماء نے اس کی کئی توجیہات پیش کی ہیں،ان میں ایک توجیہ یہ بھی مذکور ہے کہ بیوی کی نحوست اس کی بدخلقی اور بدزبانی سے عبارت ہے اور گھر کی نحوست اس کے تنگ ہونے یا اس کے پڑوسیوں کے خراب ہونے کے سبب سے ہے ،جب کہ گھوڑے کی نحوست اس وقت ہے جب اسے جہاد،دعوت و تبلیغ اور نیک کام میں استعمال نہ کیا جائے، اس لئے یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ تبلیغی گھوڑا نحوست سے نہ صرف بری تھا بلکہ نہایت مبارک اور مسعود تھا۔
مذکورہ گھوڑا تو مجھے یاد نہیں، غالبا میرے سن شعور کو پہونچنے سے پہلے ہی وہ مرچکا تھا، تاہم آم کا وہ پیڑ جس میں وہ گھوڑا بالعموم باندھا جاتا تھا اور اس کے سبب وہ ’’گھوڑہوا پیڑ‘‘ سے جانا جاتا تھا میں نے اور میرے کچھ بچوں نے بھی دیکھاہے جو تقریبا دس برس پہلے حادثاتی طور پر اپنے انجام کو پہونچا۔ 
جماعتی خدمات:- جمعیت و جماعت سے دادا کی وابستگی ہمیشہ رہی،موصوف اگر چہ اس کے کلیدی مناصب پر تو کبھی نہ رہے تاہم یک طویل زمانہ تک آپ متحدہ جمعیت اہل حدیث اضلاع بستی وگونڈہ کے رکن رکین رہے، اور جمعیت کی سرگرمیوں میں برابر حصہ لیتے رہے، مولانا عبدالقدوس ٹکریا وی،مولانا عبدالجلیل رحمانی ،مولاناعبدالرؤف رحمانی جھنڈانگری رحمہم اﷲ جیسے اعیان جمعیت کے دوش بدوش جمعیت کے کازکوبڑھانے میں ان کے ساتھ ساتھ رہے، اوراس کی تقریباً ہرمیٹنگ میں شریک ہوتے رہے، آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس نوگڈھ منعقدہ ۱۹۶۲ء کے لئے مالی تعاون حاصل کرنے میں بھی دادا رحمہ اﷲ نے کافی محنت و جاں فشانی فرمائی اور والد صاحب کے بقول بے پناہ بھاگ دوڑ کے سبب وہ بیمار بھی ہوگئے تھے،ان ایام میں موصوف مدرسہ بحرالعلوم سے وابستہ تھے اوراپنے بعض اساتذہ و طلبہ کے ساتھ رضاکارانہ طورکانفرنس کے انتظام و انصرام میں لگے رہے، کانفرنس کے تقسیم کار میں آپ کے ذمہ‘ اذان،نماز با جماعت اور وضو کے لئے پانی کی فراہمی جیسا اہم کا م تھا، چنانچہ مدرسہ بحرالعلوم کے طلبہ کے ساتھ آپ نے یہ فریضہ بحسن وخوبی انجام دیا،وقت پر اذان اور جماعت کا اہتمام کرایا۔
  اﷲ تعالیٰ دادا کی بال بال مغفرت فرمائے، اورہمیں اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے۔ آمین 

عبدالمنان سلفی 
ریکٹرجامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر نیپال 
۳؍مارچ ۲۰۱۳؁ء

٭٭٭





مولانا زین ﷲ ضیغم رحمہٗ ﷲ 

مختصر اوصاف و خصائل 
مشرقی یوپی کے جن اضلاع میں سلفی علماء و دیگر افراد اہل حدیث اور سلفی مدارس و جامعات کی تعداد زیادہ ہے ، ان میں ضلع سدھارتھ نگر بھی ہے سدھارتھ نگر میں علاقہ نوگڈھ کے بعد سب سے زیادہ سلفی حضرات تحصیل ڈومریا گنج میں ہیں۔ میرا گاؤں اہرا ڈیہہ تحصیل ڈومریا گنج میں قاضی بیارا کے قریب واقع ہے گاؤں کے بعض بزرگوں سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ گاؤں میں جو خان یا چو دھری خاندان کے لوگ ہیں جیسے میرا خاندان اور الحاج خیر اﷲ ؒ وغیرہ کا خاندان، ان کے آبا و اجداد انیسویں صدی کے اواخر میں فیض آباد سے ہجرت کرکے اہرا ڈیہہ میں آباد ہو گئے۔ 
میرے دادا جان محمد ؒ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے اردو حساب اور قرآن ناظرہ تک تعلیم محدود تھی ،مگر دینی و سیاسی شعور رکھتے تھے علاقہ میں بیارا قاضی کانگریسی و مسلم لیگ سیاست کا مرکز تھا ، میرے دادا قاضی عدیل عباسی ؒ وغیرہ کے پُر جوش حامیوں میں سے تھے ، میں نے اپنے دادا جان محمد ؒاور چھوٹے دادا ارسال محمد کو دیکھا تو نہیں ہے مولانا زین اﷲ ضیغم ؒ سے خاندان اور گاؤں کی بہت سی باتیں سنتا رہا ہوں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دادا وغیرہ کا علمی معیار بہت بلند نہیں تھا مگر اﷲ تعالیٰ نے انھیں دینی مزاج دیا تھا، وہ صلوات خمسہ کے پابند تھے ، گاؤں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے اور علاقہ میں ان کے اچھے اثرات تھے۔ 
ن تمہیدی سطور کے بعد والد محترم مولانا زین اﷲ ضیغم ؒ کے حالات زندگی اور اوصاف و خصائل پر مختصر روشنی ڈال رہا ہوں اگر اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی تو آئندہ کسی موقع پر اپنے والدین کے احوال و اوصاف کا تفصیلی تذکرہ کروں گا ، انشاء اﷲ 
مختصر حالات زندگی: والد محترم مولانا زین اﷲ ضیغم ؒ کی ولا دت تقریباً ۱۹۲۹؁ء میں خالص دینی اور کسی حد تک علمی گھرانہ میں ہوئی ، شروع ہی سے ان کی تربیت اچھے انداز میں ہوئی ، چھ سات سال کی عمر میں حصول تعلیم میں لگا دئیے گئے پرائمری کی تعلیم پر یلا بازار میں مکمل کی جو ہمارے گاؤں سے قریب ہی واقع ہے ، گھر پر قرآن ناظرہ مکمل کیا، اس کے بعد قادرآباد میں مڈل پاس کیا، ان دونوں جگہوں میں اردو ہندی دونوں زبان پڑھتے رہے مڈل پاس کر نے کے بعد جامعہ سراج العلوم بونڈھیار میں داخلہ لیا ، جہاں درجہ ادنیٰ دو سال اور عربی اول و دوم دو سال ، اسی طرح چار سال تعلیم حاصل کی وہاس فارسی کی تکمیل کے ساتھ اسلامی تاریخ ترجمہ قرآن اور نحو و صرف وغیرہ علوم حاصل کئے آپ کے رفقائے درس میں مولانا ذکر اﷲ ذاکر ندوی ؒ ، منشی عابد علی ؒ بیت نار اور جناب تجمل صاحب بونڈھیار قابل ذکر ہیں ، جن اساتذہ سے آپ نے استفادہ کیا ان میں ملافاضل عبد الغفور بسکوہری ؒ ، مولانا زین اﷲ طیب پوری ؒ اور مولانا محمد اقبال صاحب رحمانی وغیرہ ہیں جن سے ہمیشہ آپ کا شاگردانہ تعلق رہا ۔ 
جامعہ سراج العلوم بونڈھیار میں والد صاحب پڑھ ہی رہے تھے کہ یکے بعد دیگرے بڑے دادا جان محمد ؒ اور چھوئے دادا ارسال محمد ؒ وفات پاگئے بونڈھار کی زندگی ہی میں شادی ہو چکی تھی ، اس طرح گھر کی پوری ذمہ داری سر پر آگئی ،ازدواجی زندگی کا بوجھ اور چھوٹے بھائی محمدعباس ؒ کے ساتھ تین بہنوں زلیخا ، صافیہ اور رقیمہ کی کفالت نے مشکلات میں اضافہ کر دیا آخر کار عربی دوم کی تعلیم کے بعد آپ نے تعلیم بند کردی اور تلاش معاش میں لگ گئے۔ 
حصول معاش کے سلسلہ میں والد صاحب نے کئی سال تک اندور اس کے بعد کئی سال تک بھیونڈی میں گذارے اور غیر علمی ملازمت سے وابستہ رہے۔ آخر کار خدمت دین کے جذبہ نے والد صاحب کو مجبور کیا کہ وہ دینی تعلیم میں لگ جائیں ، گھر پر آگئے اور معمولی تنخواہ پر گاؤں میں ہی بچوں کو تعلیم دینے لگے اور کھیتی باڑی کی نگرانی کرنے لگے ، گاؤں میں کوئی مدرسہ نہیں تھا ، مختلف جگہوں میں بچوں کو پڑھاتے رہے ، پھر گاؤں والوں کے اصرار پر والد صاحب نے الحاج خیر اﷲ صاحب ؒ اور جناب محمد حنیف صاحب وغیرہ کے تعاون سے گاؤں کے شمال میں مدرسہ نور العلوم السلفیہ ۱۹۶۵؁ء میں قائم کیا جو اب تک چل رہا ہے ۔
گاؤں میں تنخواہ معمولی تھی اس لئے والد صاحب نے گاؤں چھوڑ کر دو سال تک قاضی بیارا کے شمال میں واقع موضع نوڈیہوا میں تدریسی ملازمت کی پھر وہاں سے الگ ہوکر ایک مدت تک کدربٹوا میں مولانا عبد الرؤف رحمانی ؒ کے حکم سے تعلیم دی ، اس کے بعد کئی سال تک گورا بھاری اور آخر میں کئی سال تک بیرہوا میں تعلیم دی، تدریسی زندگی میں والد صاحب ہر جگہ امامت و خطابت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ۔ 
قابل ذکر ہے کہ والد صاحب جب کدربٹوا نیپال میں پڑھا رہے تھے اس وقت ایک سال میں بھی والد صاحب کے ساتھ تھا اور ان سے فارسی پڑھتا تھا، میرے ساتھ مولانا شمیم احمد خاں ندوی ناظم جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر اور ڈاکٹر منظور احمد علیگ بھی والد صاحب سے پڑھتے تھے اسی طرح وہ دونوں حضرات میرے بچپن کے ساتھی ہیں ۔ 
والد صاحب جب گورا بھاری میں تعلیم دے رہے تھے انھیں دنوں مولانا رفیق احمد رئیس احمد سلفی سابق مدیر الصفا نئی دہلی نے والد صاحب سے اردو وغیرہ کی تعلیم حاصل کی ہے، جس کا تذکرہ مولانا رفیق احمد رئیس سلفی صاحب نے کئی بار مجھ سے کیا ہے یہ ۱۹۷۱؁ء یا ۱۹۷۲؁ء کی بات ہے، ان دنوں میں دارالعلوم دیو بند میں پڑھ رہا تھا ، والد صاحب کے ساتھ ایک بار گورا بھاری گیا تھا، اور وہاں میں نے خطبۂ جمعہ بھی دیا تھا ۔ 
والد صاحب جب بیرہوا میں پڑھا رہے تھے ، اسی وقت اختلاج قلب میں مبتلا ہوگئے ، یہ ۱۹۷۴؁ء کا حادثہ ہے ، میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہو چکا تھا ، جامعہ ازھر مصر میں میرا داخلہ منظور ہو گیا تھا ، میں گھر آیا والدہ ماجدہ نے بتایا کہ کئی مہینے ہوئے تمہارے والد صاحب گھر نہیں آئے میں بیرہوا گیا تو والد صاحب کو بیمار پایا ، میرے اوپر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ۔ ہوش و حواس اڑ گئے اور مجبوراً میں نے جامع از ہر جانے کا اراد ہ ختم کر دیا ، گھریلو ذمہ داریاں انجام دینے کیلئے تدریسی زندگی سے وابستہ ہو گیا۔ 
والد صاحب ایک لمبی مدت تک بیمار رہے ، مختلف جگہوں پر میں نے علا ج کرایا مگر کو ئی خاص فائدہ نہیں ہوا ، آخر کار ۱۹۸۱؁ء میں والد صاحب وفات پا گئے اور گاؤں کے شمال میں واقع خاندانی قبرستان میں مدفون ہوئے۔ سقی اﷲ ثراہ و جعل الجنۃ مثواہ ۔ 
میں ان دنوں جامعہ سراج العلوم بونڈیہار میں مدرس تھا ، وفات سے ایک دن پہلے گھر آیا ، والد صاحب کو کسی حد تک ہشاش بشاش پایا ، میں نے والد صاحب سے کہا کہ ماشاء اﷲ آپ ٹھیک ہو رہے ہیں تو انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا، مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور بڑے درد کے ساتھ کہا ؂ 
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے رخ پر رونق 
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے 
یہ شعر پڑھنے کے بعد والد صاحب دیر تک مجھے دیکھتے رہے ، پھر بڑے یاس و قنوط سے کہا : بیٹا طبیعت ٹھیک نہیں ہے والد صاحب سے یہ میری آخری گفتگو تھی، آخر کار دوسرے روز وہ راہی ملک عدم ہوگئے، یہ میری زندگی کا عظیم حادثہ تھا جسے میں بھول نہیں سکتا۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون 
اوصاف و خصائل : والد صاحب نصف صدی سے زائد زندگی کے سرد و گرم حالات کا مقابلہ کرتے رہے ، تیس سال تک تعلیم و تدریس اور امامت و خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے ، وہ کوئی مستند عالم تو نہیں تھے ، مگر ذاتی مطالعہ سے دینی مسائل کی اچھی معلومات رکھتے تھے، اور جہاں کہیں بھی رہے اپنے علم و عمل اور اخلاق و کردار کی وجہ سے خواص و عوام میں بہت مقبول رہے ، وہ زہد و تقویٰ اور دینداری کی بنا پر مومن کامل کا مصداق تھے، اﷲ تعالیٰ نے انھیں بہت سے علمی و عملی اور اخلاقی و دینی اوصاف و خصائل سے نوازا تھا، جیسے سحر خیزی ، جرأت و بیباکی ، لاٹھی کا فن ، اردو و فارسی میں مہارت ، ذوق شعر و سخن ، عمدہ اسلوب خطابت، گھراور سماج کی اصلاح کا جذبہ، اساتذہ کا ادب و احترام ، غرباء پروری اور سادی مزاجی ، وغیرہ سطور ذیل میں ان اوصاف جمیلہ پر مختصر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔
والد صاحب زاھد شب زندہ دار تھے ، صلاۃ تہجد اور آہ سحر گاہی کے عادی تھے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا اسی وقت سے والد صاحب کو صلاۃ تہجد کا پابند پایا وہ مجھے عبادات کی ترغیب دیتے ہوئے علامہ اقبالؒ کا یہ شعر اکثر پڑھتے: ؂
عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو 
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی 
اور کبھی کبھی علامہ اقبالؒ کی سحر خیزی کا ذکر کرتے ہوئے یہ شعر پڑھتے:
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی 
نہ چھوڑے پھر بھی لندن میں وہ آداب سحر خیزی 
جو اﷲ تعالیٰ کا بندہ کامل بن کر زندگی گزارتا ہے اور صرف رب العالمین سے ڈرتا ہے وہ جری و بے باک ہوتا ہے ، کسی غیر اﷲ سے نہیں ڈرتا ہے اسی وجہ سے والد صاحب بڑے جری و بیباک تھے ، حق بات کہتے ہوئے کسی سے نہیں ڈرتے ، اصحاب جاہ و منصب وارباب حکو مت کسی کی پرواہ نہیں کرتے ۔ کدربٹوا کی زندگی میں مولانا عبد الرؤف رحمانی ؒ ان کی جرأت و بیباکی سے بہت گھبراتے تھے اور اسی لئے ان کا بڑا لحاظ بھی رکھتے تھے، والد صاحب اکثر یہ شعر بھی پڑھا کرتے تھے۔ ؂
آئین جواں مردی حق گوئی و بیباکی 
اﷲ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی 
گاؤں کی زندگی میں کئی بار بعض معاملات میں داروغہ وغیرہ والد صاحب کی جرأت و بیباکی سے بہت متاثر ہوئے اور گورابھاری کی زندگی میں ایک بار علاقہ کے اہروں کو والد صاحب نے للکارا آخر کار وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے اور گورا بھاری کے لوگ ان کے مظالم سے محفوظ رہے۔ 
والد صاحب لاٹھی کا فن بھی جانتے تھے یہ فن انھوں نے اندور کی زندگی میں سیکھا تھا ، والد صاحب کا جسم کچھ بھاری تھا مگر بڑے تیز طرار ، جفاکش اور محنتی تھے ، لاٹھی بہت اچھی چلاتے تھے ، وہ کہا کرتے تھے کہ اگر دس بیس لوگ مجھے گھیر لیں ، سب کے ہاتھوں میں لاٹھیاں ہوں اور میں خالی ہاتھ رہوں تو میں اپنی حکمت و فن سے کسی کی لاٹھی چھین کر اپنا دفاع کر لوں گا ۔ انشاء اﷲ
میرے گاؤں کے لوگ نہیں جانتے تھے کہ والد صاحب فنکار لٹھ بازہیں ، گاؤں میں عبدالغنی نام کے ایک مشہور لٹھ باز تھے ، ایک بار گاؤں والوں نے تماشا دیکھنے کیلئے گاؤں کے شمالی کھلیان میں ان سے والد صاحب کا مقابلہ کرایا، اس مقابلہ میں والد صاحب کامیاب رہے اور وہ ہار گئے۔ 
ہندی و حساب کے ساتھ اردو وفارسی میں والد صاحب کو بڑی مہارت تھی، اردو کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے ، اچھی اردو بولتے اور لکھتے تھے ، بونڈہار کی زندگی میں والد صاحب نے اساتذۂ فن سے بہت سی کتابیں پڑھی تھیں جیسے گلستاں ، بوستاں، یوسف وزلیخا، رقعات عالمگیری اور اخلاق محسن وغیرہ، اسی لئے فارسی زبان پر انھیں بڑا عبور تھا، وہ کلیات اقبال کے ساتھ پیام مشرق بڑی دلچسپی سے خوب مزہ لے کر پڑھتے تھے، کلیات اقبال اور پیام مشرق اب بھی میری لائبریری میں موجود ہیں جو والد صاحب کی یادگار ہیں ۔
والد صاحب مجھے اردو میں خطوط لکھتے ان میں صحت زبان کا بڑا خیال رکھتے ، مناسب الفاظ و تعبیرات اور چھوٹے چھوٹے جملے استعمال کر تے، میں انھیں غور سے پڑھتا اور بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا اس لئے کہ خطوط نویسی انشا پر دازی کا بڑا اہم ذریعہ ہے۔ 
والد صاحب کبھی کبھی میرے خطوط میں واقع غلطیوں کی اصلاح بھی کرتے ۱۹۷۲؁ء میں والد صاحب گورا بھاری میں پڑھا رہے تھے ، میں دارالعلوم دیو بند میں پڑھتا تھا ، ایک بار میں نے والد صاحب کو خط لکھا ، اسلوب تحریر میں غلطی یہ ہو گئی کہ نئے پیرا گراف کا آغاز میں نے عام سطروں کے برابر کیا جب کہ ہونا یہ چاہئے کہ نئے فقرہ کی پہلی سطر کو داہنے جانب کچھ جگہ چھوڑ کر لکھنا چاہئے ، والد صاحب نے گورا بھاری سے ۱۶؍ اپریل ۱۹۷۲؁ء کو جو کارڈ میرے نام لکھا اس میں لکھتے ہیں : 
’’ میرا خط آپ غور سے پڑھئے ابتدا مضمون میں میں نے کچھ جگہ چھوڑ دی ہے 
اس کا نام ہے پیرا گراف ، آپ اردو کی کوئی کتاب دیکھیں وہ میرے طریقہ تحریر
کی تائید کرے گی۔ (مکتوب گورا بھاری ) ‘‘
والد صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے شعرو سخن کے ذوق سے بھی نوزا تھا، وہ بونڈہار پڑھنے کے زمانہ ہی میں شاعری کی مشق کرنے لگے تھے بعد میں مختلف موضوعات پر بہت سی نظمیں لکھی ہیں ۔ کبھی کبھی مجھے منظوم خطوط بھی لکھے ہیں ، شاعری میں ان کا تخلص ضیغم تھا، افسوس کہ والد صاحب کی نظمیں محفوظ نہیں رہ سکیں ضائع ہو گئیں ،بس ان کے کچھ خطوط کارڈ کی شکل میں میرے پاس محفوظ ہیں۔ 
والد صاحب کی شاعری میں آمد تھی آورد نہیں تھا ، موڈ ہوتا تو برجستہ نظم تیار کر دیتے جس میں تکلف کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا تھا، ۱۹۶۱؁ء کی بات ہے، نوگڈھ میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس ہو رہی تھے ، میں مکتب میں پڑھتا تھا ، والد صاحب نوگڈھ نہیں جا سکے تھے ، جس روز کانفرنں تھی مجھ سے کہا کاغذ اور قلم لاؤ، میں نے حاضر کر دیا ، والد صاحب نے ایک لمبی نظم لکھی، کچھ اشعار مجھے اب تک یاد ہیں ملاحظہ کیجئے اور برجستگی و روانی کی داد دیجئے: 
ہو مبارک تجھ کو اے نوگڈھ کہ یہ روز سعید ٭ تیری قسمت میں لکھا کلک ازل نے روزعید
آیا بابر کا زمانہ آیا قطب الدین بھی ٭ شیر شاہ سوری بھی گذرا آیا عالمگیر بھی 
 میری نظروں نے نہیں دیکھا کبھی ایسا سماں ٭ مثل نوگڈھ ہند میں یہ سلفیوں کا کارواں
نوگڈھ کانفرنس میں علامہ ثناء اﷲ امرتسری ؒ موجود نہیں تھے ، پہلے ہی ان کی وفات ہو چکی تھی ، اسی کا اظہار مقطع میں یوں کیا گیا ہے: 
؂ دین کے تارے اکٹھے ہیں قمر رخصت ہوا 
آہ ضیغم! ضیغم پنجاب ہم میں نہ رہا 
شاعر اسلام ذاکر ندوی ؒ والد صاحب کے رفیق درس اور بے تکلف ساتھی تھے ، ان دونوں میں دور طالب علمی ہی سے شاعرانہ نوک جھوک لگی رہتی تھی، کبھی کبھی ذاکر صاحب کوئی نظم لکھتے تو والد صاحب جوابی نظم لکھتے ، دونوں حضرات کی نظمیں خوب پسند کی جاتی تھیں۔ 
جناب ذاکر صاحب امتحان یا کسی دوسری مناسبت سے بونڈہار جب بھی آتے کوئی نئی نظم ضرور لکھ کر اساتذہ و طلبہ وغیرہ کو سناتے ، ایک بار ذاکر صاحب بونڈہار آئے والد صاحب بھی موجود تھے ، انھوں نے ایک نظم پڑھی جس کا ایک شعر یہ تھا ؂ 
مجھ سے بڑھ کر کون ہے تیرا شناسائے مزاج 
نام ذکر اﷲ ہے ذاکر مرا ذاتی خطاب 
والد صاحب نے ایک جوابی نظم لکھی جو بہت پسند کی گئی اس کے چند اشعار یہ ہیں :
تجھ سے بڑھ کر میں ہوں اے ذاکر شناسائے مزاج نام زین اﷲ ہے ضیغم مرا ذاتی خطاب 
تجھ سے پہلے بھی رہا اور بعد بھی تیرے رہا خوب دیکھا میری نظروں نے فضائے بونڈہار
 میرے ہمدم تو یقینا صاحب گفتار ہے غازی کردار بن ذاکر تو بیڑا پار ہے 
والد صاحب اچھے خطیب بھی تھے ، تعلیم اگرچہ عربی دوم تک تھی ، لیکن تفہیم القرآن وغیرہ کتابوں کی مدد سے قرآن سمجھ لیتے تھے عبادات و اخلاق اور حقوق و معاملات کے بارے میں اچھی معلومات رکھتے تھے اور اسلامی و ہندوستانی تاریخ پر گہری نظر رکھتے تھے ، اکثر تقریریں قرآن کی روشنی میں کرتے تھے، وہ جلسوں کے آدمی نہیں تھے ، بس جمعہ کے خطبے ہی دیتے تھے ، مسلمانوں کے دینی و اخلاقی حالات پر بڑی دردمندی سے بولتے تھے ، سماج اور معاشرہ پر ان کی تقریروں کے بڑے اچھے اثرات پڑتے تھے اور لوگ انھیں بہت پسند کرتے، کدربٹوا میں مولانا عبد الرؤف رحمانی کی موجودگی میں خطبہ دیتے ، ایک بار مولانا رحمانی نے بڑی سادگی سے کہا کہ مولانا کیا بات ہے کہ آپ کی تقریر لوگ میری تقریر سے زیادہ پسند کرتے ہیں ، والد صاحب نے کہا ایسی کوئی بات نہیں ہے ، آپ کہاں اور میں کہاں ، رحمانی صاحب اس جواب سے بہت خوش ہوئے ۔ 
والد صاحب کے اندر گھر اور سماج کی اصلاح کا بڑا وافر جذبہ تھا وہ عبادات واخلاقیات اور حقوق ومعاملات کے سلسلہ میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کرتے وہ جہاں بھی رہے ان کی اصلاحی کوششوں سے وہاں کے دینی واخلاقی حالات میں کافی سدھار آیا گاؤں میں چچا محمد عباس ؒ و چچا کرم علی ؒ وغیرہ انھیں کی ترغیب سے نماز کے پابند ہوئے اور زندگی بھر نماز پڑھتے رہے گھر کے بارے میں وہ بہت سخت تھے مجھے والدہ صاحبہ اور پھوپھی وغیرہ کو زبانی طور پر اور خطوط کے ذریعہ نماز وغیرہ کی سخت تاکید کرتے وہ میرے نام خط میں یہ تحریر کرتے ہیں ان دنوں میں مکتب میں پڑھتا تھا۔ 
’’ آپ پڑھنے میں خوب محنت کیجئے ایک سال میں قرآن ختم ہوجانا چاہئے 
اور ایک سال کے بعد نماز کے سارے آداب معلوم ہوجانا چاہئے اپنی والدہ کو
تاکید کرنا کہ روزانہ قرآن ضرور پڑھا کریں شافیہ(میری پھوپھی) کو بھی نماز کی
تاکید کرنا میں نے اگر دین میں آپ لوگوں کو سست پایا تو آپ لوگوں کا ساتھ چھوڑ 
دوں گاشافیہ کے متعلق میری رائے ہے کہ اگر صفی اﷲ( میرے پھوپھا) نماز پڑھنے
کا اقرار کرے تو مجھے یہ رشتہ پسند ہے ورنہ میں یہ رشتہ توڑ دینا چاہتا ہوں کیوں کہ 
مجھ سے قیامت میں حساب لیا جائے گا کہ بہن بحالت یتیمی تمہارے پاس تھی اسے
بے نمازی کو کیوں دے دیا شافیہ اگر جانا چاہیں تو صفی اﷲ کو بلا کر میرا خط سنا دینا 
تب بھیجنا۔‘‘ (ماخوذ از مکتوب ۲۸؍ جولائی ۱۹۶۰؁ء) 
یہ خط اگرچہ میرے نام تھا مگر اس کی اصل مخاطب میری والدہ ماجدہ تھیں اسلئے کہ وہی گھر کی ذمہ دار تھیں بعض خطوط میں والد صاحب نے ابوالقاسم سلمہ اﷲ (میرے چھوٹے بھائی) کے بارے میں بڑی فکر مند ی ظاہر کی ہے اور والدہ کو اس کی تربیت اور دیکھ ریکھ کی ترغیب دی ہے اس وقت ابوالقاسم بہت چھوٹا تھا آخر کار اس کے بچپن ہی میں والد صاحب کی وفات ہو گئی اور میں نے ہی اس کی تربیت اور تکمیل تعلیم کی ذمہ داری انجام دی چنانچہ جامعہ سراج العلوم بونڈہار ، معہد عثمان بن عفان دہلی اور ندوۃ العلماء لکھنؤ میں تعلیم مکمل کر کے اب وہ کویت میں بر سر روزگار ہیں ۔ 
والد صاحب گھر اور سماج کی اصلاح کے بارے میں جس طرح انتہائی حساس اور بہت سخت تھے ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے گھر میں اﷲ کی توفیق سے دینداری کا ماحول ہے اور میں خود بچپن سے صلوات خمسہ کا پابند ہوں ، اب تک میری نماز قضا تو ہوئی ہے مگر کوئی نماز چھوٹی نہیں ہے ، فالحمد ﷲ علیٰ ذلک۔ 
والد صاحب اپنے اساتذہ کا بہت زیادہ ادب و احترام ملحوظ رکھتے تھے موقع پر ان کی خدمت کرتے تھے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتے تھے میں جب بونڈہار پڑھ رہا تھا والد صاحب مجھ سے ملنے آتے تو میں نے دیکھا ہے کہ وہ اپنے استاذ مولانا محمد اقبال رحمانی ؒ کے سر میں کبھی کبھی تیل کی مالش کرتے کبھی کبھی مولانا زین اﷲ طیب پوریؒ آتے اور والد صاحب سے ملاقات ہو جاتی تو والد صاحب ان کے سر میں بھی تیل لگاتے میں پوچھتا کہ یہ بوڑھے میاں کون ہیں تو بتاتے کہ یہ میرے استاذ ہیں ۔
والد صاحب کدربٹوا کی زندگی میں جب گھر آتے تو اٹوا ہوتے ہوئے اپنے استاذ گرامی ملا فاضل عبد الغفور بسکوہری ؒ سے ملاقات کرنے کیلئے کبھی کبھی بسکوہر بھی جاتے اس سفر میں کئی بار میں بھی والد صاحب کے ساتھ رہا ہوں ، اور بارہا میں نے استاذ کی شفقت و محبت اور شاگرد کے ادب و احترام کے مناظر دیکھے ہیں والد صاحب مجھ سے کہا کرتے تھے کہ بیٹا ! استاذ کی خدمت کرکے انھیں خوش رکھنے کی کو شش کرو انھیں کبھی ناراض نہ کرو ! اس سے علم میں برکت ہوتی ہے۔
والد صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے دل درد مند دیا تھا ، وہ غرباء و مساکین کا بڑا خیال رکھتے گاؤں میں اگر معلوم ہوتا کہ کسی کے یہاں انتہائی تنگ دستی ہے وہ فاقہ سے دوچار ہے تو اس کے گھر غلہ اور کھانے کے سامان بھجوادیتے ، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کوئی گدا گر آتا وہ کہتا کہ میرے پاس کپڑے نہیں ہیں تو والد صاحب اسے اپنی لنگی اور کرتا خندہ پیشانی سے دیدیتے ، یہ واقعہ میں نے کئی بار دیکھا ہے ۔
مذکورہ اوصاف کے ساتھ والد صاحب کے اندر حد درجہ سادہ مزاجی تھی، ان کی طبیعت و مزاج میں کوئی تکلف و تصنع نہیں تھا ، وہ اسلاف کے طرز پر سادہ زندگی گذارتے کرتا لنگی اور ٹوپی استعمال کرتے لاٹھی اور انگوچھا لئے رہتے ، ایک سوتی یا پلاسٹک جھولا میں سامان رکھتے ، سفر کے دوران ایک لوٹا بھی ساتھ رکھتے تاکہ راستہ میں نماز کیلئے وضو کرنے کی سہولت ہو۔ 
والد صاحب کی وفات پر تیس سال سے زائد مدت گذر چکی ہے مگر ان کی زندگی کے بہت سے سبق آموز واقعات ذھن و دماغ پر نقش ہیں ، سطور بالامیں بہت اختصار کے ساتھ ان کے اوصاف و خصوصیات کا تذکرہ کیا گیا ہے اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی اولاد (ابوالعاص وحیدی و ابوالقاسم ) ان کے تمام احفاد (منظور، نجیب، جاوید، صبیحہ ، اور منظر وغیرہ) اور ان کے تمام گھر والوں کو ان کے اوصاف و خصائل اپنانے کی توفیق بخشے، والدین کی قبروں کو نور سے بھر دے اور انھیں آخرت میں جنت الفردوس عطا کرے۔ آمین 
اﷲم اغفر لہما وارحمہما کماربیانی صغیراً 
(ابوالعاص وحیدی )
جامعہ عربیہ قاسم العلوم گلرہا بلرام پور یوپی 
۶؍ فروری ۲۰۱۳؁ء 

٭٭٭


بسم اﷲ الرحمن الرحیم 
حرف آغاز 
الحمد ﷲ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی محمد سید الانبیاء والمر سلین وعلی آلہ و صحبہ اجمعین و علی جمیع من تبعہم باحسان إلی یوم الدین امابعد! 
قوموں اور ملتوں کیلئے تذکرۂ اسلاف کی بڑی اہمیت ہے اسلئے کہ ان کے حالات و سوانح اور حوادث وواقعات میں عبرت و نصیحت اور رشد و ہدایت کا سامان ہوتا ہے ، قرآن کریم اور احادیث نبوی میں گذشتہ قوموں اور تاریخ انسانی کے رجال و شخصیات کے تذکرے اسی مقصد کے پیش نظر کئے گئے ہیں تاکہ اصحاب عقل و دانش ان سے رہنمائی حاصل کریں ، قرآن کریم میں ایک جگہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے: 
 لقد کان فی قصصہم عبرۃ لاولی ان کے بیان و تذکرہ میں یقینا عقل والوں 
 الالباب (یوسف۱۱۱) کیلئے عبرت و نصیحت ہے 
بعض احادیث میں رسول اﷲ ﷺ نے گذرے ہوئے لوگوں کے ذکر خیر کا حکم دیا ہے ، عبد اﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : 
 اذکروا محاسن موتاکم و کفو اپنے گذرے ہوئے لوگوں کی خوبیاں 
عن مساویہم (رواہ ابو داؤد والترمذی) ذکر کرو اور ان کی برائیوں سے باز رہو ۔
اس حدیث کی سند میں ایک منکر الحدیث راوی عمران بن انس مکی ہیں ، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے لیکن اس کا معنیٰ و مفہوم درست ہے اور مزاج کتاب و سنت کے مطابق ہے لہذا اس سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔
بہر حال قرآن و حدیث کی روشنی میں تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری کی بڑی اہمیت ہے اسلئے اسلامی تاریخ میں اس کا طویل زریں سلسلہ پایا جاتا ہے ، اور محدثین عظام ، علماء کرام نے رجال و شخصیات کے حالات و سوانح پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں کہ اگر انھیں اکٹھا کیا جائے تو بڑی لائبریری تیار ہوجائے اس موضوع پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں وہ عربی و اردو اور دنیا کی تمام زبانوں میں ہیں ۔ 
ہندوستان کا صوبہ اتر پردیش مختلف میدانوں میں ممتاز اور باکمال رجال و شخصیات سے معمور رہا ہے ، بعض صوبوں کو چھوڑ کر اس صوبہ میں اہل حدیث افراد اور سلفی علماء کی بھی کثرت رہی ہے ، خاص طور پر مشرقی یوپی اس لحاظ سے بہت ممتاز ہے کہ اس کی تاریخ با غیر ت افراد اہل حدیث اور مشہور و ممتازعلماء کے درخشاں کارناموں سے انتہائی روشن ہے ۔ ، ضرورت تھی کہ مشرقی یوپی کے کاروان سلف پر کوئی جامع کتاب لکھی جائے اور اس کے نقوش و اثرات پر مفصل روشنی ڈالی جائے تاکہ نئی نسل اس سے رہنمائی حاصل کرے۔
اﷲ تعالیٰ جزائے خیر دے ممتاز صاحب قلم مولانا عبدالرؤف ندوی حفظہ اﷲ کو کہ انھوں نے مشرقی یوپی کے ممتازافراد اہل حدیث اور سلفی علماء کے حالات و سوانح مرتب کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے اور بنام’’ کاروان سلف ‘‘ یہ کتاب مرتب کی ہے اور اس کی تکمیل کا عزم کیا ہے۔
یہ کتاب جو قارئین کے ہاتھوں میں ہے اس سلسلہ کی پہلی جلد ہے ، مولانا ندوی نے دوسری جلد کا خاکہ بھی اس کتاب میں شامل کر دیا ہے اور ان علماء کی ایک فہرست دیدی ہے جن کے حالات و سوانح کا تذکرہ دوسری جلد میں آئے گا ، واﷲ ہو الموفق وہو المعین۔ 
مولانا عبد الرؤف ندوی حفظہ اﷲ کی میری ذرہ نوازی رہی ہے کہ اس کتاب کی تالیف کے سلسلہ میں انھوں نے مجھ سے بھی مشورے لئے ہیں اورمیرا مشورہ قبول کرتے ہوئے اس کتاب کے خاکہ اور فہرست علما میں ان لوگوں کو بھی شامل کر لیا ہے جو فقہی طور پر اہل حدیث تھے اگرچہ تنظیمی طور پر جماعت اسلامی سے وابستہ رہے ہیں ، ممکن ہے بعض اہل علم اس سے اتفاق نہ کریں ۔ 
مولانا ندوی صاحب کا میں حد درجہ شکر گذار ہوں کہ ان کے اصرار پر میں نے والد محترم مولا نا زین اﷲ ضیغم رحمہ اﷲ پر ایک مختصر مضمون لکھا جسے انھوں نے کاروان سلف میں شامل کرلیا ہے۔ جزاہ اﷲ احسن الجزاء
اﷲ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ مولانا عبد الرؤف ندوی حفظہ اﷲ کو تذکرہ کاروان سلف مشرقی یوپی کی تکمیل کیلئے عزم و ہمت اور صحت و عافیت بخشے ، اور یہ کتاب علمی حلقوں میں قبولیت کی لازوال دولت سے مالا مال ہو اور مؤلف کیلئے ذخیرۂ آخرت ثابت ہو نیز ناشر اور تمام معاونین کو اجر عظیم سے نوازے۔ آمین 
دعاگو 
ابوالعاص وحیدی 
پرنسپل جامعہ عربیہ قاسم العلوم گلرہا بلرام پور ، یوپی 
۶؍۲؍۲۰۱۳؁ء 
٭٭٭


فہرست کاروان سلف حصہ دوم  
اﷲ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر و احسان ہے کہ اس نے ’’ کاروان سلف حصہ اول ‘‘ کی تکمیل کی توفیق عنایت فرمائی ورنہ ؂
کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل نسیم صبح تیری مہربانی 
ممتاز علمائے اہل حدیث مشرقی یوپی کی ایک لمبی فہرست ہے جن کی دعوتی ،تدریسی و تصنیفی خدمات ناقابل فراموش ہیں درج ذیل ممتاز اہل حدیث مشرقی یوپی اور بعض اہم شخصیات کے حالات و سوانح کا تذکرہ کتاب ’’ کاروان سلف حصہ دوم‘‘ میں آئے گا انشا ء اﷲ۔ ہوالموفق وہو المعین۔ (عبد الرؤف خاں ندوی تلسی پور) 
٭ مولانا فاخر زائر الہ آبادی ٭ مولانا محمد یحییٰ بنارسی
٭ مولانا عبداﷲ عرف جھاؤ الہ آبادی ٭ڈاکٹرجاوید عالم بنارسی
٭ مولانا عبد الحق محدث بنارسی ٭ حافظ عبید الرحمن بنارسی
٭ نواب صدیق حسن خاں ٭ مولانا عبد الرحمن بقا غازی پوری
٭ مولانا خرم علی بلہوری ٭ مولانا حفیظ اﷲ سابق مہتمم ندوۃ العلماء
٭ مولانا عبد المجید حریری بنارسی ٭ مولانا سلامت اﷲ جیراجپوری
٭مولانا عبدالمعید بنارسی ٭ حکیم عبداﷲ جیراجپوری
٭مولانا سعید احمد بنارسی ٭مولانا عبدالغفور جیراجپوری
٭ مولانا ابو مسعود قمر بنارسی ٭ مولانا سخاوت علی جونپوری
٭ حافظ محمد عباس بنارسی ٭ مولانا شبلی جونپوری
٭مولانا ابو علی اثری ٭ مولاناسید امیر ملیح آبادی
٭ مولانا عبدالسلام بستوی ٭ مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی
 ٭ مولانا عبدالرحمن ڈومکی ٭مولانا مفتی حبیب الرحمن مؤی ٭ مولانا عبیداﷲ رائے بریلوی ٭ مولانا عظیم اﷲ مؤی
٭ مولانا سید ممتاز علی ندوی ٭فضا ابن فیضی
٭ مولانا محمد یوسف شمس فیض آبادی ٭ مولانا سیداقبال حسین ریواں
٭ مولانا عبدالحلیم شرر لکھنوی ٭ مولانا عبدالعظیم اکرہرا
٭ مولانا سید ابوالخیر برق حسنی لکھنوی ٭ مولانا عبدالصبور رحمانی اکرہرا 
٭ مولانا محمد امین اثری مبارک پوری ٭ قاری عبدالحق بانسوی
٭ مولانا فیض اﷲ مؤی ٭مولانا حکیم جمیل احمد اٹوابازار
٭ مولانا حسام الدین مؤی ٭ حافظ نذیر احمد قنوجی
٭ مولانا ابوالمکارم مؤی ٭مولانا محمد یوسف رحمانی بہرائچی
٭ مولانا ابوالمعالی مؤی ٭ مولانا عباداﷲ قاسمی اہراڈیہہ
٭ مولانا عبد الرحمن آزاد مؤی ٭ مولانا عبداﷲ صدیقی الہ آبادی
٭ مولانا محمد احمد (بڑے مولوی صاحب) ٭ مولانا زین اﷲ کنڈؤ
٭ مولانا محمد احمد صاحب (ناظم) ٭مولانا عارف سراجی 
٭ مولانا عبداﷲ شائق مؤی ٭ مولانا محمد حسن رحمانی اونرہوا
٭ مفتی عبدالعزیز صاحب مؤی ٭ مولانا خلیل احمد رحمانی ٹکریا
٭ مفتی حبیب الرحمن مؤی ٭مولانا سید تجمل حسین مہراج گنج
٭ مولانا فیض الرحمن فیض ٭ ماسٹر عبدالقادر شنکر نگری 
٭ مولانا عبدالشکوردورصدیقی بیت نار ٭ میاں عین اﷲ شنکر نگری
٭ مولانا محمد حنیف ہاتف بیت نار ٭ ڈاکٹر محمد یونس ارشد بلرامپوری
٭ مولانا سید عبدالاول فیضی ریواں ٭قاری جلیل احمد شنکر نگری
٭ مولانا عزیز احمد ندوی بونڈھیار ٭ماسٹر محمد اسماعیل سیکھرپوری
٭مولانا عبدالمعبود فیضی کنڈؤ ٭ مولانا عبدالکریم ندوی 
٭ مولانا زین اﷲ طیب پوری ٭مولانا محی الدین ندوی
٭حاجی اشفاق احمد وزیر ی بھدوہی ٭ ماسٹر مقصود احمدتنہاانقلابی دیالی پور 
٭ حاجی مشتاق احمد انصاری بھدوہی ٭ مولانا محبت اﷲ دودھونیاں
٭ ڈاکٹر حامد الانصاری انجم ٭ مولانا خیراﷲ اثری مہراج گنج
٭ مولانا قطب اﷲ رحمانی ندوی ٭مولانا محمد عمر سلفی انتری بازار
 ٭ مولانا صبغۃ اﷲ ندوی ٭ مولانا عابد علی مدنی سمرہن خورد ٭قاری عبدالمنان اثری ٭ حکیم محمد ادریس اعظمی تلسی پور
٭ محمد صغیر سالار تلسی پور ٭ ابوطالب صاحب تلسی پور 
٭٭٭


فہرست مضامین 
عناوین 
صفحہ
عرض مرتب 
7
!حرف آغاز 
12
M تاریخ اہل حدیث کے چند اوراق
15
7مولانا سیدجعفر علی نقوی 
18
K حاجی عبد الجبار سرمہ دانی والے
19
/مولانا اﷲ بخش بسکوہری
19
5مولانا محمد اظہر بہاری 
20
3مولانا محمد اسحاق بانسوی 
21
5مولانا عباد اﷲ یوسف پوری
22
3مولانا احمد علی ابری ڈیہہ
23
3حافظ لال محمد بانسوی 
23
7مولانا عظیم اﷲ نیپالی 
23
1مخدوم پنچ ہرہٹہ 
23
U استاذالاساتذہ حافظ عبد اﷲ غازی پوری 
25
Qمولانا محمد عبدالرحمن محدث مبارک پوری 
35
عناوین 
صفحہ
Cمولانا ابوالقاسم سیف بنارسی 
72
9مولانا عبدالسلام مبارک پوری
78
Cمولانا احمد اﷲ محدث پرتاپگڈھی 
84
Sامام فرائضمولانا عبد الرحمن بجواوی 
89
?مولانا محمد دبکاوی 
93
y شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری 
96
Q علامہ نذیر احمد املوی رحمانی 
114
s خطیب الاسلام مولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈا نگری
118
Oمفکر ملت مولانا عبدالجلیل رحمانی 
122
Qنمونہ سلف مولانا محمدزماں رحمانی 
132
Lمفسر قرآن مولانا عبدالقیوم رحمانی 
168
q مناظراسلام مولانا عبدالمبین منظر 
181
Iمولانا عبدالقدوس سلفی ٹکریاوی 
185
Qنمونہ سلف مولانا محمد اقبال رحمانی 
193
Uبقیۃ السلف مولانا ابوالعرفان محمد عمر سلفی
198
O حکیم مولانا محمد اسحق رحمانی 
203
?مولانا عبدالوحید رحمانی (ناظم)
214
عناوین 
صفحہ
U مولانا عبدالوحید رحمانی ( شیخ الجامعہ)
216
Y مولانا مختار احمد ندوی سلفی 
219
9ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری 
224
9مولانا صفی الرحمن مبارک پوری
240
=مولانا محمد رئیس ندوی 
251
5ڈاکٹر رضاء اﷲ مبارک پوری
261
3مولانا نورعظیم ندوی ازہری
275
Aمولانا عبدالحکیم مجا زاعظمی 
280
=مولانا شبیر احمد صدیقی کنڈؤ
290
?ڈاکٹر محفوظ الرحمن مدنی کنڈؤ
304
Y ڈاکٹر عبدالوہاب صدیقی مدنی نوگڈھ
307
=مولانا عابدحسن رحمانی کنڈؤ
312
?مولانا عبدالسلام طیبی طیب پور 
315
U مولانا شکر اﷲ گونڈوی سمرہن کلاں
316
a مولانا فرید احمد رحمانی پیکولیا مسلم
321
S حکیم مولانا عبدالحق رحمانی تھرولی
326
Gحکیم مولانا محمد سلیمان گلرہا
330
Qمولانا ذکر اﷲ ذاکر ندوی بسکوہربازار
335
عناوین 
صفحہ
Sمولانا زین اﷲ ضیغم اہرا ڈیہہ
339
Wمولانا عبدالجبار رحمانی پاٹیشری نگر
351
Yمولانا محب اﷲ سلفی ملگہیا 
353
Yمولانا عبدالقیوم سلفی املیا 
355
Uماسٹر عبدالستار قدسی کواپور 
363
Mالحاج شیخ محمد ایوب قنوجی 
366
Gالحاج عبدالعزیز انصاری 
371
Sحاجی سمیع اﷲ خاں رنیا پور 
375
Sحاجی محمد رفیق ایڈوکیٹ بلرام پور 
381
Mحاجی مقبول احمد اونرہوا
383
Gوالدہ ماجدہ 
386
Eوالد بزرگوار 
388
K مولوی محمد مشتاق فیضی ہرہٹہ 
392
N خطبۂ استقبالیہ اجلاس عام ہرہٹہ 
394
?خود نوشت حالات 
403
?کاروان سلف حصہ دوم 
413

_حاتم جماعت الحاج شیخ محمد ایوب قنوجی رحمہ اﷲ 

(وفات: ۱۹۵۷ ؁ء)
؂زندگی وقف تھی مولا کی رضا خاطر
اس نے جو کچھ بھی کیا دار بقا کی خاطر
شیخ محمد ایوب قنوجی کی شہر قنوج میں ایک معزز اور دیندار گھرانے میں مورخہ ۱۸۸۷ء ؁ کو ولادت ہوئی آپ کے والد محترم کا اسم گرامی شیخ محمد یعقوب تھا شہر قنوج کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے پہلے یہ ضلع فرخ آباد کا حصہ تھا حکومت نے ۱۹۹۸ ؁ء میں اس شہر کو ضلع کا درجہ دیا ، یہ شہر ایک قدیم معروف و مشہور اور مردم خیز اور عطر سازی کی بہت بڑی منڈی ہے یہاں سے عطر تیار کرکے پورے ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک سپلائی کیاجاتا ہے۔ یہ شہر عطر سازی کے علاوہ علم و فضل مدارس و مساجد کی وجہ سے بھی ایک ممتاز مقام رکھتا ہے اس شہر میں جماعت اہلحدیث کے افراد بھی آباد ہیں جو اپنی اہلحدیثیت کی وجہ سے دوسرے مقامات کے افراد جماعت سے ممتاز ہیں یہ لوگ اہل حدیث ہی نہیں بلکہ اہل حدیث گر ہیں ۔ 
شیخ محمدایوب صاحب اسی شہر میں پیدا ہوئے اور آپ کا گھرانہ خالص دینی گھرانہ تھا آپ کی نشو نما اور تعلیم و تربیت بھی خالص دینی ماحول میں ہوئی ابتدائی تعلیم اپنے مدرسہ میں حاصل کی شہر قنوج اور مضافات میں جن کی کوششوں سے اہل حدیثیت کو فروغ ملا ان میں ایک عظیم شخصیت شیخ محمد ایوب صاحب کی بھی ہے ۔ 
اس شہر قنوج سے بڑی بڑی یگانۂ روزگار اور عبقری شخصیتیں پیدا ہوتی رہیں مولانا سید اولاد حسن قنوجی، مولانا سید احمد حسن عرشی ، نواب صدیق حسن خاں قنوجی کا اسی شہر سے تعلق تھا مولانا سید اولاد حسن قنوج میں پیدا ہوئے اور یہیں مدفون ہوئے ، نواب صدیق حسن خاں ۱؂ کا آبائی 
 ۱؂ کتاب و سنت کی اشاعت اور شرک و بدعت کی بیخ کنی نواب صدیق حسن خاں کی زندگی کا اصل مقصد تھاچنانچہ اپنی مشہور کتاب ابقاء المنن ص ۵۴ میں تحریر فرماتے ہیں۔ (بقیہ اگلے صفحہ پر)
وطن قنوج ہی تھا۔ شیخ محمد ایوب نے تجارت کے ماحول میں اپنی آنکھیں کھولی تھیں لیکن مذہبی و دینی ماحول نے آپ کو علوم دینیہ و عصریہ کے حصول کا موقع عطا کیا اہل علم و دانش بالخصوص جماعت کے اکابرعلماء کی دائمی صحبت نے آپ کو صاحب فضل بنادیا۔ 
 (پچھلے صفحہ کا بقیہ) میرا اگر بس چلتا تو میں یہ نیت رکھتا ہوں کہ نہ کسی کتاب کو جو مخالف کتاب اﷲ ہوتی روئے زمین پر باقی رکھتا نہ کسی بدعت کو جو متصادم سنت ہوتی باقی چھوڑتا اور نہ کسی فن کو جہاراً او لیلاً و نہاراً عمل میں آنے دیتا اور اگر ایسا وقوع میں آتا تو حدود شرع سے اس کا تدارک کرتا۔ 
نواب صدیق حسن خاں بر صغیر کے بہت بڑے مفسر بہت بڑے محدث بہت بڑے محقق بہت بڑے مورخ بہت بڑے ہمدرد خلائق اور بہت بڑے مبلغ اسلام تھے نواب صاحب دنیائے اسلام کے کثیر التصانیف مصنف ہیں ان کی چھوٹی بڑی تصانیف کی کل تعداد ۲۳۰ کے لگ بھگ ہے ان میں سے سات قرآن مجید کے متعلق تینتیس حدیث شریف کے متعلق تیس عقائد کے سلسلہ میں بائیس عام فقہی مسائل کے موضوع پر گیارہ رد تقلید کے متعلق بائیس تاریخ و سیر کے متعلق تیرہ مناقب و فضائل کے سلسلے میں بائیس علوم و ادب کے بارے میں اڑتیس اخلاقیات کے موضوع پر چھ سیاست کے موضوع پر ایک شیعیت کے سلسلہ میں اور سترہ کتابیں تصوف کے موضوع پر ہیں ان کے علاوہ بعض چھوٹے بڑے رسائل بھی مختلف عنوانات سے متعلق تصنیف فرمائے۔ 
نواب صاحب کا سلسلہ نسب تینتیس واسطوں سے رسول اﷲ ﷺ تک پہونچتا ہے نواب صاحب کے والد مکرم کا اسم گرامی سید اولاد حسن تھا جو ۱۲۱۰؁ھ ۹۶۔۱۷۹۵؁ء میں شہر قنوج میں پیدا ہوئے قنوج اور لکھنؤ بعض معروف اساتذہ سے حصول علم کے بعد سید اولادحسن ۱۲۳۳؁ھ ۱۸۱۸؁ء میں دہلی گئے وہاں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور شاہ رفیع الدین رحمہم اﷲ سے استفادہ کیا ، سید اولاد حسن نے کتاب و سنت کی تبلیغ واشاعت کے سلسلے کی سترہ کتابیں تصنیف کیں ۱۲۵۳؁ھ ۱۸۳۸؁ء میں قنوج میں انتقال فرمایا صرف ۴۳ سال عمر پائی ۔
سید اولاد حسن کی نرینہ اولاد میں دو بیٹے تھے بڑے سید احمد حسن عرشی اور چھوٹے سید صدیق حسن خاں باپ کی وفات کے وقت احمد حسن عرشی سات برس کے تھے اور نواب صدیق حسن پانچ برس کے تھے۔ 
سید اولاد حسن کی وفات کے بعد یہ کم سن بچے انتہائی غربت کی زد میں آگئے تھے گھر میں اپنے اسلاف کی صرف کتابیں رہ گئی تھیں جنھیں وہ دیکھتے رہتے تھے اور وہ کتابیں ان کے دل میں تحصیل علم (باقی اگلے صفحہ پر)
حاتم جماعت شیخ محمد ایوب بن شیخ محمد یعقوب قنوجی کا نام نامی افراد جماعت کیلئے کسی تعارف کا محتاج نہیں آپ جماعت اہل حدیث کے باغباں تھے اور اسے خون جگر سے سینچا آپ جماعت اور جماعتی مدارس جامعات کے اخراجات کا بیشتر حصہ برداشت کرتے تھے ہزاروں غریبوں یتیموں اور بیواؤں ،معذوروں کو ماہانہ سالانہ و ظیفہ دیتے تھے ، دینی تعلیم حاصل کرنے والے غریب علماء و طلبہ کی ہرطرح تعاون کرتے تھے آپ کے جودو سخا کا سیل رواں قنوج کے علاوہ پورے ملک میں تھا آپ نے مختلف مقامات پر درجنوں مساجد و مدارس تعمیر کروائے آج قنوج اور مضافات اور بیرون ضلع میں کتاب و سنت کی تعلیم و تبلیغ اور مسلک عمل بالحدیث کے جو آثار پائے جاتے ہیں اس میں شیخ محمد ایوب و شیخ محمد یعقوب کا اچھا خاصہ حصہ ہے ۔ 
آپ کے اندر سب سے خاص بات یہ تھی کہ آپ کے ہر کام میں خلوص کار فرما ہوتا قناعت و استغناء آپ کی فطرت ثانیہ تھی توکل علی اﷲ آپ کا اصلی وصف تھا عابد شب زندہ دار خشیت و ﷲیت راست بازی میں اپنی مثال آپ تھے اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ کردار کے لحاظ سے آپ اپنا جواب نہیں رکھتے تھے سادگی ،ضبط و تحمل ،خلوص ووفا ، مسلکی غیرت جیسے صفات آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے آپ کی ذات مجسم صبر و شکیب تھی ہمسایوں اور پڑوسیوں کے حقوق کی پاسداری کرنا اپنا فریضہ سمجھتے تھے اور ان کیلئے اپنا دروازہ کھلا رکھتے تھے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو مال و دولت کے ساتھ ساتھ چار بیٹوں اور چار بیٹیوں سے بھی نوازرکھا ہے۔ 
(۱) بڑے صاحبزادہ کا اسم گرامی جناب الحاج عبد المالک ہے ۔
(پچھلے صفحہ کا بقیہ)کا جذبہ پیدا کرتی تھیں، نواب صدیق حسن خاں کے علمی کارناموں کی داستان اس یقین کے ساتھ ختم کی جاتی ہے کہ ان کے کارناموں کی صدائے باز گشت اس وقت تک سنی جاتی رہے گی جب تک دنیا کے کسی گوشہ میں بھی حدیث پاک اور سنت نبویہ کا پیغام باقی ہے (بحوالہ دبستان حدیث از مولانا محمد اسحاق بھٹی) 
(عبدالرؤف خاں ندوی) 
الحاج عبد المالک حفظہ اﷲ کو اﷲ تعالیٰ نے پانچ بیٹوں سے نوزا ہے سب کے نام بالترتیب درج ذیل ہیں۔ (۱) عبد الرحمن مالک (۲) فوزان مالک (۳) عبد اﷲ مالک (۴) خرم مالک (۵) خسرو مالک 
(۲) الحاج أحسن مرحوم کے دو بیٹے ہیں (۱) فیصل احسن (۲) سیف احسن 
الحاج أحسن صاحب کی تاریخ وفات ۲۰۰۷؁ء ہے۔
(۳) الحاج محمد محسن صاحب حفظہ اﷲ کو اﷲ تعالیٰ نے ایک بیٹاسے نوازاہے جن کا نام کاشف محسن ہے۔
(۴) الحاج عبد الآخر صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے دو بیٹوں سے نوازا ہے (۱) سرمد آخر (۲)محمد سعد آخر ۔ 
شیخ محمد ایوب قنوجی کے سبھی لڑکوں لڑکیوں پوتوں پوتیوں کی پرورش و پرداخت تعلیم و تربیت دینی ماحول میں ہوئی ہے اور ان کے گھر کے تمام ارکان پر دینی غلبہ ہے سبھی اخلاق کے اعلیٰ نمونہ احکام شریعت کے پابند غریبوں ، یتیموں، معذوروں کے مسیحا ہیں دینی و جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ملک کے تمام مکاتب ، مدارس، جامعات کیلئے آپ کا دروازہ کھلا رہتا ہے جس طرح شیخ محمد ایوب صاحب اپنے والد محترم کے صحیح جانشین تھے اسی طرح محترم عبد المالک صاحب و محترم محمد محسن صاحب بھی اپنے والد محترم و دادا محمد یعقوب کے صحیح جانشین ہیں۔ 
بحمد اﷲ شیخ محمد ایوب صاحب کی وفات کے بعد جود و سخاکا یہ چشمہ رواں ہے فیاضی و سخاوت کا یہ سیل رواں آپ کے صاحبزدگان جاری کئے ہوئے ہیں ۔ 
حافظ عبد المالک والحاج محمد محسن اپنے عقیدہ وعمل کی پاکیزگی کے لحاظ سے پوری جماعت میں مشہور ہیں یہ اہل حدیث کے ان اولین نمونوں کی نمائندگی کرتے ہیں ۔
محترم حافظ نذیر احمد قنوجی بستوی جنکی آدھی عمر قنوج میں آپ کے زیر سایہ گذری ہے روای ہیں کہ:
’’ شیخ محمد ایوب قنوجی میں دعوت وتبلیغ کی بڑی تڑپ تھی علماء کرام سے اکثر کہا کرتے کہ اسلام کی اشاعت ہم سب پر فرض ہے اسلام کی اشاعت زبان سے میٹھے الفاظ میں کرنی چاہئے اور تحریر میں بھی ہاتھ نرم رکھنا چاہئے جو شخص میٹھے بول سے آشنا نہیں اور نرم لہجہ میں بات کرنے کا سلیقہ نہیں رکھتا وہ بڑا عالم تو ہو سکتا ہے کامیاب مبلغ ہر گز نہیں ہو سکتا اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے سختی اور خشونت کا مذہب نہیں ہے ‘‘
اﷲ اﷲ اندازہ کیجئے عمل و کردار اور فضل و کمال کے اعتبارسے یہ لوگ کس قدر اونچے مقام پر فائز تھے وہ زمانہ لد گئے جن میں یہ لوگ ابھرے تھے اور وہ سانچے ٹوٹ گئے جن میں ان اوصاف کے لوگ ڈھلے تھے۔ ؂ پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ لوگ 
 افسوس! تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کے صاحبزدگان و پوتوں کی زندگی میں برکت عطا فرمائے اور ان کے اعمال خیر کے دائرے کو زیادہ سے زیادہ وسعت عطا فرمائے اور دنیا و آخرت میں انھیں کامرانی سے نوازے تاکہ وہ اپنے والدین کیلئے صدقہ جاریہ بن سکیں ۔ آمین 
وفات: الحاج شیخ محمد ایوب صاح کا وقت اجل آپہونچا ۱۹۵۷؁ء کو یہ گوہر نایاب ہم لوگوں سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا رہ گئیں تو صرف ان کی یادیں۔
اﷲ تعالیٰ آپ کی لغزشوں کو درگذر فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین ۔اﷲم اغفرلہم وارحمہم وعافہم واعف عنہم 
عبد الرؤف ندوی 
تلسی پور۔ بلرام پور 
۹؍ اپریل ۲۰۱۳؁ء 
٭٭٭

الحاج عبد العزیز انصاری رحمہ اﷲ

وفات: جون ۲۰۰۵؁ء 
؂موت سے کس کو رستگاری ہے آج انکی تو کل ہماری باری ہے 
الحاج عبد العزیز صاحب انصاری رحمہ اﷲ کے والد محترم کا اسم گرامی الحاج عبد الحفیظ انصاری تھا حاجی صاحب صالح اور نیک دل انسان تھے امانت دیانت عبادت و ریاضت تقویٰ و خشیت کشادہ دستی فیاضی و سخاوت علماء کی قدر دانی بڑوں کی عزت چھوٹوں پر شفقت اور مہمان نوازی جیسے اوصاف حمیدہ میں اپنے والد محترم کے صحیح جانشین تھے۔
متوسط قد و قامت ، گندمی رنگ ، لمبی داڑھی اور سنت کے مطابق بال ،شخصیت نہایت سحرانگیز اور باوقار گفتار میں ذہانت کا اظہار اور رفتار میں متانت ووقار آشکار تکلف و تصنع سے خالی سادہ اور صاف ستھری زندگی یہ تھا سراپا الحاج عبد العزیز انصاری صاحب کا۔ 
حاجی صاحب مقام برئی فتح پور ۱۹۲۴؁ء کو ایک معزز اور دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے ۱۹۳۱؁ء میں مقام برئی فتح پور میں زبر دست فرقہ وارانہ فساد ہو گیا جیسا کہ عام طور پر ہمارے ملک میں جب بھی جس جگہ بھی فرقہ وارانہ فساد ہوتے ہیں اس میں نقصان اقلیتوں کا ہی ہوتا ہے اسی مقام برئی میں اقلیتوں کا زبر دست جانی و مالی نقصان ہوا جو کل کروڑ پتی تھے آج نان شبینہ کے محتا ج ہوگئے ایسی حالت میں لوگ برئی سے سکونت ترک کرکے مختلف مقامات پر جاکر آباد ہوگئے اسی طرح ہمارے حاجی صاحب کے والد محترم بھی اپنا گھر بار چھوڑ کر کانپور میں آکر مستقلاً آباد ہوگئے اس وقت الحاج عبدالعزیز انصاری رحمہ اﷲ صرف سات سال کے تھے کانپور ہی حاجی صاحب نے دینی و عصری تعلیم کی تکمیل فرمائی اور اپنے آبائی پیشہ تجارت میں اپنے والد محترم کا ہاتھ بٹانے لگے کچھ دنوں کے بعد اﷲ تعالیٰ نے آپ کی تجارت میں بڑی برکت دی اور رحمت و برکت وکرم کی بارش ہونے لگی۔ 
اﷲ تعالیٰ ان گذرے ہوئے تمام لوگوں پر رحم فرمائے ہماری اور ان کی زندگیوں میں کافی بُعد و فاصلہ ہے وہ دنیا سے محبت اسلئے رکھتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ عبادت و اطاعت الٰہی کیلئے وقت میسر آجائے لیکن آج کے مسلمانوں کا حال کیا ہے لوگ دنیا سے محبت کس لئے رکھتے ہیں یہ سوال کسی جواب کا محتاج نہیں کیونکہ حالات وواقعات خود گواہی دیتے ہیں کہ دنیا اپنی تمام ترفتنہ سامانیوں کے ساتھ چھا چکی ہے اور حضرت انسان نے اپنی سواری کو دنیا کے دروازہ پر باندھ دیا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کیلئے آیا ہے اﷲ ہی سے ہم مدد کے طلبگار ہیں۔ 
حاجی صاحب کو ہمیشہ خوف خدا اور آخرت کی فکر تھی ہم دنیاوی امتحان کیلئے کیا کیا جتن نہیں کرتے اور اس کے حصول کیلئے ہر مہنگی و سستی چیز خرچ کر ڈالتے ہیں اور بہت سے اہم کام چھوڑ دیتے ہیں لیکن ہمیں آخرت کے سوال کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ 
ابوالسعد حسان بن حریث نے یہ آیت کریمہ پڑھی۔ 
وکل انسان الزمناہ طائرۃ فی عنقہ (الاسراء:۱۳) 
ہم نے ہر انسان کی اچھائی ، برائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے اور کہا کہ اس آیت کریمہ کا یہ مطلب ہے کہ ہر انسان کے دو کھلے ہوئے اور ایک بند صحیفے (نامۂ اعمال) ہیں۔ اے ابن آدم جب تک تم باحیات ہو تمہارا صحیفہ کھلا ہوا ہے لہذا اپنی مرضی کے مطابق جو چاہو اس میں ریکارڈنگ کرالو جب مر جاؤ گے تو تمہارا صحیفۂ اعمال بند کردیا جائے گا،پھر جب دوبارہ زندہ کئے جاؤگے تو حساب وکتاب کیلئے دوبارہ صحیفۂ اعمال تمہارے سامنے رکھ دیا جائے گا : اقرأ کتابک کفیٰ بنفسک الیوم حسیبا (الاسراء:۱۴) 
خود ہی انسان اپنا حساب پڑھ لے آج تو تو خود ہی اپنا حساب لینے کیلئے کافی ہے۔
زندہ شخص کا نامۂ اعمال جس کے اندر انسان کے تا حیات کئے دھرے کام کی ریکارڈنگ کی جاتی ہے اس کے مرنے کے ساتھ ہی حساب کیلئے بند کرکے رکھ دیا جاتا ہے اسلئے ہمارے نامۂ اعمال کھلے ہوئے ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی جائزہ لیا کہ اس میں کیا لکھا جارہا ہے ، اعمال صالحہ مقبول عبادتیں توبہ و استغفار یا ہمارے جھوٹ ، بے ایمانی ، مکروفریب عیاری و مکاری اور فضول کام اگر ہم میں سے کوئی شخص کاغذ و قلم لیکر اپنے صرف ایک گھنٹہ کے افعال واقوال کو لکھے پھر اسے پڑھے تو اسے اپنے کردار کی خبر مل جائے گی اور اس زندگی ہی میں وہ اپنے نامۂ اعمال کو دیکھ لے گا اوربہت ممکن ہے کہ اسے اپنی خطا کا احساس ہو جائے اپنی گمراہی سے باز آجائے نیک اعمال کیلئے کوشاں ہو جائے صدقہ و خیرات دینے میں جلدی کرنے لگے ہر وقت خوف خدا اور فکر آخرت ہو جھوٹ فریب عیاری ومکاری کے قریب نہ جائے شرک و بدعت سے کنارہ کش ہوجائے اور توبہ کی تجدید کی توفیق مل جائے۔ 
الحاج عبدالعزیز انصاری رحمہ اﷲ کے اندر ایسی خوبیاں تھیں جو ان کو دیگر ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہیں وہ تقویٰ شعار ،عابد شب زندہ اور ضبط و تحمل صبر و قناعت کا نمونہ تھے خوف خدا فکر آخرت خشیت الٰہی کی زندہ تصویر تھے ان کی نمازیں رسول اﷲ ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق ہوتی تھیں ’’ نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو‘‘ ان کی نمازیں خشوع و خضوع سے معمور تھیں ، قیام و قعود اور رکوع و سجود اس قدر ٹھہر ٹھہر کر اطمینان و سکون کے ساتھ کرتے تھے کہ لوگوں کا ایمان تازہ ہو جائے آپ پختہ اہل حدیث سچے متبع شریعت اور پابند کتاب و سنت تھے خصوصاً ہر چھوٹی بڑی سنت پر عمل کرنے کا جذبہ آپ کے اندر بہت زیادہ تھا ، حدیث اصحاب الحدیث اور علمائے اہل حدیث سے بھی بڑی عقیدت و محبت تھی خاص طور سے شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارکپوری مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی مولانا ابومسعود قمر بنارسی مولانا محمد جوناگڈھی خطیب الاسلام مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگری مفکر ملت مولانا عبدالجلیل رحمانی سابق ناظم عمومی مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند سے زندگی بھر خوشگوار تعلقات تھے ۔ 
حاجی صاحب ۱۹۸۹؁ء میں فریضہ حج کی سعادت سے بہرہ اندوز ہوئے حاجی صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے پانچ لڑکوں اور ایک لڑکی سے نوازا ہے جن کے اسماء گرامی بالترتیب درج ذیل ہیں۔
(۱) اقبال احمد انصاری مرحوم (۲) جاوید احمد انصاری (۳) حاجی پرویزاحمد انصاری 
(۴) خورشید احمد انصاری (۵) حاجی سرفراز احمد انصاری (۶) شکیلہ بانو 
اقبال احمد انصاری کا ۲۰۰۸؁ء میں انتقال ہوچکا ہے بقیہ سارے بھائی بہن شادی شدہ اور بال بچوں والے ہیں اور اپنے کارو بار میں لگے ہوئے ہیں ماشاء اﷲ پرویز بھائی اور سرفراز بھائی ۲۰۰۹؁ء میں فریضۂ حج کی سعادت سے بہرہ اندوز ہو چکے ہیں۔ 
حاجی صاحب کے سبھی لڑکے نیک صالح پختہ اہل حدیث اور متبع سنت ہیں سلفیت غریبوں بیواؤں یتیموں معذوروں کے مسیحا ہیں ، علم اور علماء کے قدر دان ہیں دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں برادرم سر فراز احمدانصاری و پرویز احمد انصاری اپنے والد محترم کے صحیح جانشین ہیں۔ 
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس دنیائے فانی میں فلسفۂ حیات سے واقف ہیں اور اپنی حیات مستعار کے ایک ایک لمحہ کی قدر و حفاظت کرتے ہیں نیکی اور اخلاص اور صوابدید معاملات کا رفع دفع کرتے ہیں سماجی برائیوں کے خلاف سخت رویہ اپناتے ہیں حاجی صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے خوب نوازا تھا ۔اور بھرپور زندگی عطا کی تھی ۔ ۸۲ سال کی عمر پائی انھوں نے اپنے پیچھے بڑا خوشحال کنبہ چھوڑا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کے بچوں پوتوں نواسیوں کو مزید نیک بنائے تاکہ وہ اپنے والدین کے حقوق میں صدقہ جاریہ بن سکیں۔ 
آپ کے سبھی لڑکے علم و علماء کے قدر دان ہیں وعظ و نصیحت بہت شوق سے سنتے ہیں دینی و مذہبی کتابوں کا وقت نکال کر بھر پور مطالعہ کرتے ہیں مسلک اہل حدیث کے پُر جوش داعی و عامل ہیں شرک و بدعت سے سخت بیزاری رہتی ہے سب میں خلوص وانکساری خوش کلامی اور اخلاق کے اعلیٰ نمونہ ہیں۔
اﷲ تعالیٰ ان کو مزید دین کی خدمات کی توفیق سے نوازتا رہے اور ان کی عمر اور کاروبار میں برکت عطا فرمائے آمین ۔ 
وفات : اس عالم آب وگل میں ہر وقت موت و حیات کا کھیل جاری رہتا ہے اور روزانہ بے شمار لوگ رخت سفر باندھتے ہیں اور بے شمار لوگ اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں حاجی صاحب کا وقت اجل آپہونچا اور مختصر سی علالت کے بعد ۱۶؍جون ۲۰۰۵؁ء کو سفر آخرت پر روانہ ہوگئے ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں آپ کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیئے گئے۔
اﷲم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ وادخلہ الجنۃ الفردوس 
عبد الرؤف ندوی 
تلسی پور۔ بلرام پور 
۹؍ اپریل ۲۰۱۳؁ء 
تذکرہ حضرت العلام مولانا شبیرا حمد صاحب صدیقی رحمہٗ اﷲ 
(ولادت ۱۹۲۶؁ء وفات ۱۹۸۸؁ء )









الحمد ﷲ والصلوٰۃ والسلام علی رسول اﷲ و بعد !
’’جانے والوں کا اچھے انداز میں تذکرہ کیا کرو‘‘ اس نبوی تعلیم و ترغیب کے علاوہ خود قرآن کریم کا ایک قابل لحاظ حصہ انبیاء کرام علیہم السلام اور صالحین کے تذکرہ پر مشتمل ہے ، اس تذکرہ سے مقصود نبی اکرم ﷺ کو حوصلہ دلانا ، تسکین و تسلی اور دلجمعی کا سامان کرنا اور شاہراہ حیات میں رہنمائی کرناہے ’’ وکلا نقصّ علیک من انباء الرسل مانثبت بہ فؤادک(ہود:۱۲۰)گویا نیک لوگوں کا تذکرہ کرنے سے انسان کو تسکین ، حوصلہ رہنمائی اور روشنی ملتی ہے ۔ پھر یہ تذکرہ اگر ایسی شخصیت کا ہو جس سے حیات انسانی میں دنیا کا سب سے گہرا تعلق اور مضبوط ترین رشتہ ہو ، باپ اور بیٹے کا ہو ، تو یہ تذکرہ اپنی معنویت اور ابعاد میں دو چند اور سہ چند ہوجاتا ہے ، اس کی خوشگواری و دل آویزی فزوں تر ہوجاتی ہے۔ 
ابا مرحو م و مغفور ہمارے لئے ایک مشفق و غمگسار باپ کے سوا، ایک عظیم دینی ، علمی، فکری، دعوتی، و تربیتی سربراہ اور ایک بہترین قدوہ و اسوہ کی حیثیت رکھتے تھے ۔ ان کی عالمانہ عظمت ، ان کی خطیبانہ شان ، ان کا منہج تربیت ، ان کا تعلق مع اﷲ ، انکی دینی حمیت و غیرت ، بے نفسی اور ایثار ، تواضع اور انکساری، صبر وحلم ، شکر و رضا اور دوسری غیر معمولی انسانی خوبیوں اور عظمتوں نے ان کی شخصیت کو انتہائی جامع اور دل آویز بنادیا تھا، ان کی زندگی جرأت ، عزیمت ، استقامت اور قربانی کا ایک قابل رشک نمونہ پیش کرتی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ انہیں دردمند دل اور دور رس نگاہ عطا کی تھی ، حسن اخلاق کا پیکر تھے ، محبت و خلوص ایسا کہ جو شخص جتنا قریب ہوتا اسی قدر وہ ان کی محبت سے فیض یاب ہوتا ،بالخصوص طلبہ اور نوجوانوں سے ان کی محبت ضرب المثل تھی ، خوردنوازی اور چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کیلئے وہ ایک مثال اور نمونہ تھے ،ان کی زندگی کی ایک نمایاں ترجیح افراد سازی اور اس کیلئے ہمہ آن فکر مند رہنا اور سعی و جہد کرنا تھا ۔
 ؂ اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل 
اسکی ادا دل فریب، اس کی نگہ دل نواز 
کار دعوت و تبلیغ اور اشاعت و اقامت دین ہی ان کی زندگی کا محور و امتیاز اور ان کا حقیقی تعارف تھا ، اسلاف کا نمونہ اور علمائے حق کی تابندہ روایات کے امین و مظہر تھے۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے کہ انبیاء کی میراث درہم و دینار نہیں بلکہ ان کی میراث علوم نبوت ہیں ، اور ان کے حقیقی ورثہ علمائے امت ہیں ’’ ان العلماء ورثۃ الانبیاء وان الأنبیاء لم یورثو دیناراً ولا درہماً انما ورثو العلم ، فمن أخذہ أخذ بحظ وافر‘‘( ابوداؤد، کتاب العلم حدیث نمبر ۳۶۴۱) 
ا ن کی زندگی مقصدیت کی روح سے معمور اور جذبۂ اعلائے کلمۃ اﷲ سے سرشار تھی امت مسلمہ کے تمام دینی واجتماعی معاملات میں ہمیشہ متحرک و فعال رہے ، مصائب و آلام سے بے پرواہوکر پوری تندہی ، یکسوئی اور خندہ جبینی کے ساتھ ان کی زندگی کا ہر لمحہ دین و ملت کیلئے وقف رہا ، قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور اﷲ کی رضا کے سوا اور کوئی عوض مطلوب نہ رہا۔ اﷲ تعالیٰ جب کسی بندہ مومن کو اپنے دین کی حفاظت واشاعت کیلئے منتخب کرتا ہے تو اس پر خصوصی التفات فرماتا ہے ۔ اﷲ نے انہیں انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں ، ایک دور افتادہ گاؤں سے اٹھایا اور ہندوستان کی سطح پر دعوت و اقامت دین کے لئے جدوجہد کرنے والی معروف اہل علم و فکر شخصیات میں لا کھڑا کیا ۔ذلک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء۔
۱۳۴۴؁ھ مطابق ۱۹۲۶؁ء میں ضلع گونڈہ (حالیہ بلرام پور) کی ایک معروف اور دعوتی وتعلیمی اعتبار سے منفرد بستی ’’کنڈؤ بونڈھیار‘‘ میں پیدا ہوئے ۔ کنڈؤ ان کا نانیہال تھا دادیہال ضلع بستی ( حالیہ سدھارتھ نگر) کا ایک گاؤں ’’ٹنڈوا‘‘ تھا جہاں ان کے اجداد اور والد مرحوم جناب علی رضا صاحب کا ایک وسیع، ذی حیثیت ووجاہت اور خوشحال خاندان تھا ، لیکن والدہ مرحوم’’زبیدہ خاتون ‘‘(ہماری دادی جان) کو بدعت و بریلویت اور بدعقیدگی کی وجہ سے وہاں کی فضا بالکل راس نہ آئی ، مرحومہ نہایت صحیح العقیدہ اور مسلک اہل حدیث کے متبع اور داعی کی ایک ممتاز دینی گھر کی پروردہ تھیں ، چنانچہ دینی و مسلکی حمیت اور توحید و عقیدہ کی حفاظت کی غرض سے ٹنڈوا سے کنڈؤ چلی آئیں اور اپنے (نسبتاً کم پڑھے لکھے ) شوہر کو بھی ہجرت پرآمادہ کرلیا، کنڈؤ میں اﷲ کے نام اور ایک چھوٹے سے گھر کے سوا کچھ نہ تھا ، اس لئے کہ مرحومہ کے جد محترم جو خاندان سادات اور تحریک شہیدین کے ایک گمنام مجاہد (مشہوربہ قاری نانا) تھے، کہیں سے ہجرت کرکے پہلے قصبہ بلرام پور ، پھر اترولہ اور بالآخر کنڈؤ میں اقامت گزیں ہو گئے تھے۔ بایں ہمہ جناب علی رضا مرحوم نے اپنا وطن ٹنڈوا اور وہاں کی وسیع آراضی و جائداد چھوڑکر کنڈؤ رہنا پسند کیا ( آراضی کا ایک چھوٹا سا حصہ ابا مرحوم کو آخری عمر ۱۹۸۶؁ء میں سفر حج سے قبل اپنے ایک مخلص بہی خواہ پیشکار جناب عبدالحلیم صاحب نوڈیہوا کے تعاون اور اصرار سے بازیاب ہو گیا تھا) اپنے باپ کے اکلوتے نرینہ اولاد تھے اور دو بہنیں تھیں ۔ والدہ محترمہ کا سایہ بالکل بچپن ہی میں اٹھ گیا تھا۔ 
ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی ، پھر ۱۹۳۷؁ء میں بعمر گیارہ سال کنڈؤ بونڈھیار کے مشترکہ و معروف مدرسہ سراج العلوم کے درجۂ فارسی میں داخل ہوئے ، یہ مولاناحکیم محمد یاسین رحمہ اﷲ کے اہتمام وانصرام کا دور تھا، ۱۹۴۰؁ء میں جب مولانا محمد اقبال رحمانی صاحب رحمہ اﷲ اپنی تعلیم سے فراغت کے بعدجامعہ سراج العلوم کے مہتمم و منصرم ہوئے تو وہ دوسری جماعت کے طالبعلم تھے ، مولانا محمد اقبال رحمانی رحمہ اﷲ نے خصوصی توجہ اور شفقت فرمائی اور براہ راست اپنی نگرانی میں تعلیم و تربیت کا اہتمام فرمایا، تین سالوں کی سخت نگہداشت کے بعد مولانا رحمانی اور دیگر محبین و مخلصین نے اعلیٰ تعلیم کیلئے ‘جامعہ الہیات‘کانپور کا انتخاب کیا جہاں سے موصوف نے ۱۹۴۳؁ء میں داخل ہوکر شعبان ۱۳۶۵؁ھ مطابق جولائی ۱۹۴۶؁ھ میں بعمر ۲۰ سال شہادت فراغ حاصل کیا۔ والد محترم جناب علی رضا صاحب بھی دوسال قبل چل بسے تھے ۔ فراغت کے فوراً بعدجامعہ سراج العلوم ہی میں تدریس کیلئے تقرر ہوا ، لیکن مدرسہ کے ایک اعلیٰ ـذمہ دار سے جو سخت مسلم لیگی تھے ، نظریاتی اختلاف کے سبب فوراًہی سبکدوش کر دئیے گئے ، جس کے رد عمل میں موصوف کے دوسرے مربی و سرپرست اورمحترم استاذ جناب مولانا زین اﷲ صاحب رحمہ اﷲ گونڈوی نے جو جمعیۃ العلماء سے متاثر اور مسلم لیگ کے سخت مخالف تھے ، کنڈؤ گاؤں ہی میں مدرسہ سراج العلوم سے الگ ایک نئے مدرسہ ’ مصباح العلوم‘ کی بنیاد ڈال دی اور ابا مرحوم کو تقرر فرما کر بچوں کی تعلیم اور اہل قریہ کی دینی تربیت پر مامور فرمایا۔ مئی ۱۹۴۸؁ء میں قصبہ ڈومریا گنج کے ایک اہل حدیث دیندار گھرانہ جو قصبہ میں محدث محمدعبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اﷲ صاحب تحفہ کا میزبان ہوا کرتا تھا محترمہ آسیہ خاتون بنت جناب اصغر علی مرحوم ( ہماری والدہ محترمہ جو الحمد ﷲ ابتک حیات ہیں) سے شادی ہوئی ، تعلیم یافتہ اور نیک سیرت شریک حیات نے اپنے شوہر نامدار کو خدمت دین کیلئے یکسو کر دیا، اﷲ نے ہر طرح کی خیر و برکت سے نوازا، گیارہ اولاد عطا ہوئیں جن میں چار بیٹے اور چار بیٹیاں اب تک حیات اور اولاد واحفاد والی ہیں ۔
کنڈؤ میں تدریس و تربیت کیلئے کم و بیش دس سال کا قیام انتہائی مفید اور بار آور ثابت ہوا ، اہل قریہ کی دینی تربیت ، غیر اسلامی اثرات کا خاتمہ، معاشرہ کی پاکیزگی ، نمازوں اور دینی شعائر کی اقامت، عدل و انصاف اور مدنی طرززندگی سے مطابقت پیدا کرنے کی آخری سعی و جہد اور کنڈؤ کو ایک مثالی بستی بنانے کیلئے موصوف نے زبر دست قوت اصلاح کا مظاہرہ کیا ۔ گاں کے بارسوخ افراد پر مشتمل ایک اصلاحی کمیٹی کا قیام، چھوٹی سی لائبریری ، تعلیم بالغاںْ کا نظم ، شرعی پنچایت اور فصل مقدمات اور اس کے مماثل دیگر متعدد اقدامات پر مستزاد گاؤں کے ذہین اور سریع الفہم ہونہار بچوں کو مقامی تعلیم سے آراستہ کرکے ملک کے اعلیٰ سلفی و غیر سلفی مدارس میں داخل کرایا اور اس بات کی پوری فکر کی کہ ان منتخب طلبہ کا سلسلۂ تعلیم منقطع نہ ہو ، اہل ثروت کو آمادہ کرتے رہے اور کمزور و مفلوک الحال گھر کے بچوں کیلئے اہل خیر سے تعاون حاصل کرکے اور دیگر ذرائع سے اثرات و رسوخ پیدا کرکے کفالت کا انتظام کرتے رہے ، جس کے نتیجہ میں کنڈؤ گاؤں فیضی، اثری،اصلاحی،ندوی اور قاسمی فضلاء کی کثرت کیلئے مثال بن گیا۔
طبیعت بے چین پائی تھی ، ذہن اقدامی و انقلابی لیکن تعمیری تھا کثرت سے مطالعہ کرتے تھے محنت اور جفا کشی کے عادی اور قناعت پسند تھے ، ملک کی تقسیم اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی ملی صورتحال سے سخت آزردہ تھے، قرآن و حدیث کے ساتھ تاریخ و سیرت کا گہرا مطالعہ تھا، تحریک شہیدین اور علماء اہل حدیث و صادق پور سے گہرا تاثر تھا، اسلامی حکومت و خلافت اور غلبۂ دین کا طبیعت پر سخت تقاضہ تھا ، ۱۹۵۲؁ء میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اﷲ کی تحریرات و لٹریچر تک رسائی اور مناسبت ہوئی۔ ۱۹۵۴؁ء میں مولانا امین اصلاحی کی معرکۃ الآراء کتاب’’ دعوت دین اور اس کا طریق کار ‘‘ مطالعہ میں آئی اور جماعت اسلامی کی طرف میلان ہو گیا۔ 
اہل حدیث مسلک کی ترجیح و برتری ، کتاب و سنت کی ترویج ، اپنے تحقیقی و ترجیحی مسلک کے تحفظ و دفاع ، شرک و بدعت اور غیر اسلامی و مسرفانہ رسوم سے مسلم معاشرہ کو پاک کرنے اور رکھنے کے بلند اور اعلیٰ و پاکیزہ مقاصد کے ساتھ ’ اقامت دین‘کے نصب العین کا توافق، اپنی ذہنی و فکری استعداد اور قابلیت ، آمادگی اور ہم آہنگی بالآخر ۱۹۵۶؁ء میں جماعت اسلامی کی باقاعدہ رکنیت اختیار کرنے پر منتج ہوئی۔ چنانچہ جماعت اسلامی کی فکری اساس ’اقامت دین‘ سے بالکلیہ ہم آہنگ لیکن تفصیلات و مناہج کے باب میں مستقل فکر اور تشخص رکھتے ہوئے جو مؤصل بالکتاب والسنہ ہو، زندگی بھر ایک ضابطۂ کار کے پابند رہے، اعتدال و توازن اور توسیع پر مبنی اس نقطۂ نظر کو اپنا نصب العین قرار دیا جس میں اپنی بنیادوں سے انحراف نہ ہوا ورزمانہ کی وسعتوں اور تقاضوں کا پورے عالمانہ شعوروادراک کے ساتھ احاطہ کیا جائے ۔وسعت نظر اور کھلاپن ان کے شخصی مزاج اور فکری پس منظردونوں کا حصہ تھا۔
۱۳۷۵؁ھ مطابق ۱۹۵۶؁ء میں جماعت اسلامی سے انتساب کے بعد حالات میں تبدیلی آئی جس کے نتیجہ میں کنڈؤ کے مشن کو دوسرے افراد کے حوالہ کرکے صوبہ بہار ضلع سنگھ بھوم کے قصبہ’ جئنت گڑھ‘ میں سلفی المسلک اور جماعت اسلامی کے زیر اثر ایک مدرسہ میں تدریس واہتمام سے منسلک ہوگئے ، لیکن دو سالوں کے بعد ہی جماعت اسلامی کے ایک تنظیمی فیصلہ کی روشنی میں ۱۱؍ رمضان ۱۳۷۷؁ھ مطابق یکم اپریل ۱۹۵۸؁ء کو ہمہ وقتی کارکن کے طور پریوپی کے مشرقی اضلاع کے ناظم بنادئیے گئے ۔ اپنے علم و فضل، حرکت و فعالیت، نصب العین کیلئے حد درجہ فنائیت، حلقۂ کار میں غیر معمولی افادیت و تاثر ، رفقاء جماعت کی تعداد میں روز افزوں اضافہ اور نہایت حکیمانہ اور تدریجی اسلوب میں ان کی ذہنی و عملی تربیت ، مختلف صلاحیتوں کے حامل افراد کا انتخاب او ر تحریک کیلئے ان کی تیاری اور دیگر حالات کی روشنی میں انہیں جماعت نے ترقی دیکر حلقۂ کار کی توسیع کردی اور ۱۸؍جمادی الثانی ۱۳۷۹؁ھ مطابق یکم ستمبر ۱۹۶۹؁ء کو ناظم ڈویزن بنا دئیے گئے اور گورکھپور شہر میں ان کا صدر دفتر قائم ہوا ، اگلے مرحلوں میں جماعت کے سب سے اہم مرکزی پالیسی ساز ادارہ’ مجلس نمائندگان‘ اور صوبائی مجلس شوریٰ کے رکن بنائے گئے اور تاحیات رکن رہے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ذرائع مواصلات بہت محدود تھے ، اکثر پیدل سفر ہوتااور وزانہ کئی کئی میل چلنا ہوتا ، دوران سفر کثرت تلاوت اور غور و تدبر کا معمول رہتا اور اپنے خطابات و دروس کی ذہنی تربیت و تیاری اور بشرط موقع و سہولت نکات نویسی اور تحضیر فرماتے۔ مسلسل سفر، سخت جسمانی محنت و مشقت ، پیہم پروگراموں ،خطابات ودروس اور تنظیمی مصروفیات ،غذا اور اوقات غذا کی سخت بے قاعدگی کی باعث جلد ہی عارضۂ قلب میں مبتلا ہوگئے، بعمر ۴۹ سال ۲۰؍اپریل ۱۹۷۵؁ء کو بیارہ قاضی میں ایک خطاب عام کے دوران پہلا ہارٹ اٹیک ہوا ، علاج سے کچھ راحت ہوئی لیکن معمول و مصروفیات میں کوئی فرق نہ آیا ، وقفہ وقفہ سے قلبی تکلیف ہو جایا کرتی، معالجین بالخصوص ڈاکٹر منصورحسن (مشہور ماہر امراض قلب لکھنؤ جو ابا مرحوم کے اچھے شناسا اور دوست تھے) کا اصرار تھا کہ آپ آرام کریں ، خطاب بالکل نہ کریں ، لیکن یہ کیسے اور کیوں کر ممکن تھا۔ ۱۲؍فروری ۱۹۸۲؁ء کو فیض آباد دورہ کے موقع پر عین نماز جمعہ کی حالت میں دوسرا ہارٹ اٹیک ہوا ،اطبا نے صورتحال کی سنگینی سے خبر دار کیا ، بالآخر سات ماہ کی لمبی رخصت علالت پر آرام کیا ، لیکن پھر اپنی تمام مصروفیات پر بحال ہو گئے مگر اب جسم کی توانائی جواب دے چکی تھی، ۱۴۰۶؁ھ مطابق اگست ۱۹۸۶؁ء میں والدہ محترمہ کے ساتھ (میری موجودگی میں) فریضۂ حج ادا کیا اور واپسی کے بعد ستمبر میں ہمہ وقتی ذمہ داری سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ، ۲۸؍ فروری ۱۹۸۶؁ء کو امیر جماعت اسلامی ہند نے بوجہ علالت استعفیٰ منظور کیا تاہم استعفیٰ کے بعد بھی تادم آخر حسب وسعت و امکان جماعت کی رضا کارانہ خدمت کرتے رہے۔ 
ملک میں جب ایمر جنسی کا نفاذ ہوا اور جماعت اسلامی پر پابندی لگائی گئی تو تمام اعیان جماعت کی طرح وہ بھی گرفتار کرکے جیل بھیجے گئے ، سنت یوسفی کی ادائیگی پر بے حد شاداں و فرحاں ہوئے اور عنداﷲ مقبولیت کا اشارہ خیال کیا ، ۲۳؍جولائی ۱۹۷۵؁ء کو صبح آٹھ بجے کنڈؤ سے گرفتار ہوئے اور گونڈہ سنٹرل جیل کے بیرک نمبر ۹ میں دفعہ ڈی۔ آئی۔آر کے تحت کم و بیش دس ماہ قید رہے اور ۱۵؍مئی ۱۹۷۶؁ء کو رہا ہوئے، پھر مقدمہ چلا، عدالت میں خور جرح کی اور جواب دیا، الزامات ساقط ہوئے اور ۲۱؍دسمبر کو حق میں فیصلہ ہوا۔
جیل کے قیام کو غنیمت اور عطیۂ خداوندی سمجھا ، مسلم قیدیوں میں دعوت واصلاح اور تبلیغ و تربیت کے ساتھ غیر مسلم قیدی بالخصوص آر ایس ایس کے افراد کو اسلام کی تفہیم و تبلیغ ، شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش میں کسر نہ اٹھا رکھی ، قرآن و حدیث کی تعلیمات اور ان کی آفاقیت و ابدی صداقت کو پوری قوت استدلال سے واضح کیا، اس ملک کیلئے اسلام کی افادیت ناگزیریت اور اس کے نظام عدل و احسان میں ملک و اہل ملک اور ساری انسانیت کی بھلائی باور کرائی ، ہندو مذہب کا بھی مزید تفصیلی مطالعہ کیا اور ہندی زبان سیکھی جو وہ نہیں جانتے تھے ۔ قیدوبند کے ایام کو تاعمر بڑے رشک و حسرت سے یاد کرتے، جیل سے باہر آنے کے بعد بھی قیدی ساتھیوں بالخصوص ہندو احباب سے راہ و رسم رکھی ، اکثر فرماتے کہ کاش اسی حالت قید میں موت آ گئی ہوتی، ایک بار جیل میں قلبی تکلیف ہوئی تو گمان کیا کہ شاید وقت موعود آگیا اور اﷲ نے تکفیر سئیات و رفع درجات کا سامان فرما دیا لیکن قضا قدر پر راضی رہے کیونکہ اﷲ کے اذان کے بغیر کسی متنفس کو موت کیونکر آسکتی ہے وما کان لنفس أن تموت الا باذن اﷲ کتاباً مؤجلاً۔ اس وقت گونڈہ سنٹرل جیل کے جیلر ضلع بریلی کے ایک دیندار مسلمان جناب قریشی صاحب تھے ابا مرحوم کے بڑے مداح و معترف ہو گئے تھے اور ہر طرح کی آسائش کا خیال رکھتے تھے ، چنانچہ جب عید آئی تو جیل کے اندر ابا مرحوم کی امامت میں نماز عید ادا کی گئی، بعد میں میری جیلر صاحب سے ملاقات بھی رہی اب انتقال فرماچکے ہیں ، اﷲ ان کی مغفرت فرمائے۔ 
اﷲ تعالیٰ نے ان کو موت بھی عجیب عطا فرمائی ۔ اجلاس مرکزی مجلس نمائندگان جماعت اسلامی ہند منعقدہ ۲۱ تا ۲۷؍ مارچ میں شرکت کی ، ۱۸؍مارچ کو گھر سے دہلی تشریف لے گئے ، اس وقت امام ابن قیم رحمۃ اﷲ علیہ کی مشہور تصنیف ’ کتاب الروح ‘ زیر مطالعہ تھی، اجلاس میں بھرپور شرکت کی ،مولانا ابوللیث اصلاحی، ندوی اور دیگر علماء و عمائدین جماعت کے منتخب مجمع میں درس حدیث دیا اور اس کیلئے اپنا پسندیدہ اور اس وقت ان پر غالب و مہیمن عنوان ’ بے ثباتی دنیا ، موت کی کثرت سے یاد، اختیار کیا ، حاضرین اور خود ان پر گریہ طاری رہا بعض شرکاء نے ان کا اس موضوع میں اس درجہ انہماک و استغراق اور استحضار آخرت اور سوز دروں کے کیفیت دیکھ کر بے اختیار کہہ دیا کہ لگتا ہے یہ مولانا کا ہم سے آخری خطاب ہے ۔ تمام اعیان جماعت کو ترغیب و تشویق کے مختلف اسلوبوں سے یہ تلقین کرتے رہے کہ آپ حضرات ابن قیم کی تصنیفات کا خصوصی مطالعہ کریں۔ ’ کتاب الروح‘ کی مشتملات اور مضامین کی تاثیر اور خود ان کے بیان کی تاثیر کے نتیجہ میں ایک ہی دن میں غالب شرکاء نے اردو بازار سے کتاب الروح خرید کر مطالعہ شرو ع کر دیا ۔ اسی اثنا میں ۲۵؍مارچ جمعہ کا دن آیا تو اپنے دیرینہ تعلق اور مسلک اہل حدیث سے شدید وابستگی کا اقرار و اظہار کرنے کی غرض سے خطبۂ جمعہ کیلئے مدرسہ ریاض العلوم تشریف لے گئے ، وہاں بھی خطبہ کا وہی رنگ غالب تھا ’لقاء رب اور اس کی تیاری‘۔ 
۲۸؍مارچ کو براہ راست وطن واپسی کے بجائے رام پور اس غرض سے تشریف لے گئے کہ سابق امیر جماعت مولانا محمد یوسف صاحب سے ملاقات اور ان کی عیادت کرلیں جو ان دنوں صاحب فراش تھے’ اسی طرح جامعۃ الصالحات میں اپنے دیرینہ رفقاء اور جامعہ کے حالات کے خبر گیری کرلیں ۔ لکھنؤ تشریف لائے تو باصرار و اہتمام اپنے دو بیٹوں عزیزی ڈاکٹر محفوظ الرحمن جاوید سلمہ اﷲ (مقیم حال برطانیہ) اور عزیزی ضیاء الرحمن سلمہ اﷲ(حال ایڈمنسٹریٹر فاؤنڈیشن فارسوشل کیر لکھنؤ) کو جو ندوۃ العلماء میں زیر تعلیم و تکمیل تھے اپنے ساتھ لیکر گھر پہونچے ، یہاں اور وہاں سب کو تعجب ہوا کہ یہ کیا اہتمام ہے ؟ میں سعودی عرب جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ کے کلیہ اصول الدین میں زیر تعلیم تھا اور سب سے چھوٹے بھائی عزیزی مشتاق احمد سلمہ اﷲ (حال ڈجئرکٹر ارم ہاسپٹل لکھنؤ ) جامعہ اسلامیہ تلکہنا میں زیر تعلیم و قیام تھے۔
۱۹؍شعبان ۱۴۰۸؁ھ مطابق ۷؍اپریل ۱۹۸۸؁ء جمعرات کادن بہت مصروف گذرا ، صبح ناشتہ کے بعد ڈاک کا جواب لکھنے اور تھوڑی دیر کتاب الروح کا مطالعہ کرنے کے بعد حسابات (شخصی و جماعتی) کا تصفیہ تحریر کیا ، ایک بیگ میں مبلغ چار ہزار کی نقد امانت رکھ کر صاحب حق کو پہونچانے کی تاکید تحریر فرمائی ، والدہ محترمہ حیران تھیں کہ یہ کیا استغراق ہے ؟ کہاں کی تیاری ہے؟ کیوں آج بے نیاز ، منقطع اور اس درجہ منہمک ہیں ، نمازوں کیلئے مسجد جاتے رہے ، عشا کی نماز غالباً خود پڑھائی ، بعد عشاء دو عالم دین تلامذہ کے مابین ایک آراضی تنازعہ کا تصفیہ کرایا اور کسی قدر سختی اور تنبیہ کے ساتھ ان دونوں کو رجوع الی الحق پر آمادہ کیا ، بظاہر طبیعت معمول پر تھی ، حسب دستور اپنی شام کی دوا بھی لے چکے تھے اب آرام کا وقت تھا ، لیکن عزیزی جاوید سلمہ کے بعض علمی سوالات پر گفتگو ہوئی اور پھر کچھ دیگر علمی مواد املاء کرانے لگے ، ساڑھے دس بجے کا وقت تھا ، املاء میں مصروف تھے کہ زندگی کا آخری اور شدید ہارٹ اٹیک ہوا ، کچھ دیر بعد حیرت انگیز طور پر طبیعت سنبھل گئی ، تمام افراد خانہ ارد گرد کھڑے تھے ، جاوید سلمہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس چارپائی پر بٹھا لیا ، سخت ضعف و نقاہت تھی ، آواز نہایت نحیف و نزار تھی لیکن کم و بیش نصف گھنٹہ تک پہلے دین پھر دنیا پھر معاملات اور آخر میں اپنی موت کی بابت اطلاع ، غسل اور تجہیز و تکفین کے متعلق و صیتیں اور ہدایات فرماتے رہے پھر فرمایا کہ میری گریجویٹی اور فنڈ کی مکمل رقم ( جو ابھی تک جماعت ہی کی تحویل میں تھی اور خطیر تھی) کے بارے میں بابو (ظہیر ) سے کہہ دینا کہ یہ ساری رقم میں جماعت کو ہدیہ کرنے کا متمنی تھا، اگر میری اس خواہش کی تکمیل کردیں گے تو میری دیرینہ آرزو پوری ہوگی( الحمد ﷲ اولین فرصت میں اس مبارک خواہش کی من و عن تکمیل کردی گئی) پھر فرمایا کہ تم سب میرے لئے نمازوں کے بعد (نماز کی شرط کے ساتھ) یہ دعا بالالتزام کرتے رہنا ء رب اغفرلی ولوالدی و للمؤمنین یوم یقوم الحساب ۔ پھر فرمایا اپنی ماں کا خیال رکھنا ، مجھے اپنی پوری زندگی میں ان سے بڑا سہارا اور تقویت ملی ہے۔ پھر ہاتھ چھوڑ دیا ، آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور چند منٹ انتہائی گریہ وزاری اور جذبۂ عبودیت سے سر شار اپنی تفریط و سئیات پر نادم ہو کر استغفار کیا اور کہا کہ اے اﷲ ابھی میں حالت غرغرہ میں نہیں پہونچا ہوں ، ابھی تو میری توبہ قبول فرما سکتا ہے، میں اپنی رو سیاہیوں کے ساتھ تجھ سے ملنے میں شرماتا ہوں ، تجھ سے روشن چہرے کے ساتھ ملنے کا آرزو مند ہوں۔ شب کے ڈھائی بجے تھے ابھی الحاح و زاری کی حالت طاری تھی کہ جناب باری تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری کا وقت موعود آپہونچا، کل شیء ہالک الا وجہہ انا ﷲ وانا الیہ راجعون یاایتہا النفس المطمئنۃ ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی۔
جلد ہی خبر وفات دوردور تک پہنچ گئی، جنازہ میں شرکت و مشایعت کیلئے مشرق میں گورکھپور، نوگڈھ اور مغرب میں شہر گونڈہ ،بلرام پور اور تلسی پور تک سے بڑی تعداد موجود تھی، علاقہ کے غیر مسلم بھی قابل لحاظ تعداد میں شریک تھے۔ ان کے علماء تلامذہ نے جن کی تعداد تین درجن سے زائد تھی مولانا عابد حسن رحمانی صاحب رحمہ اﷲ کی قیادت میں غسل دیا۔ وقت غسل ایک نامانوس لیکن غیر معمولی واقعہ پیش آیا۔ نل سے نکلنے والا پانی آخری دور غسل میں یکایک دودھ جیسا سفید ہو گیا ، لوگوں کو حیرت ہوئی ، موجود علماء نے اس کی اچھی توجیہہ کی اور اﷲ کی جانب سے اپنے مومن بندے کیلئے انعام و اکرام اور مقبول ہونے کا اشارہ سمجھا ، مولانا عابد حسن رحمانی رحمہ اﷲ نے خطبہ ٔ جمعہ میں اس امر کی مزید وضاحت کی اور کسی طرح کی بد عقیدگی سے محفوظ رکھنے کی سعی بلیغ فرمائی ۔ بعد جمعہ سپرد خاک کر دئیے گئے۔ مع الذین انعم اﷲ علیہم من النبیےن والصدیقین والشہداء والصالحین و حسن اولئک رفیقاً۔ 
احادیث میں وارد فضائل کی وجہ سے جمعہ کے دن موت کی وہ خاص دعا فرماتے ، اﷲ نے ان کی یہ بھی سن لی، سفر کے دوران موت سے بھی پناہ مانگتے تھے ، قرض اور برے بڑھاپے سے بھی ، بظاہر ساری دعائیں مستجاب ہوئیں اور بڑی قابل رشک موت عطا ہوئی، ملکی سطح پر ممتاز اہل علم اور اصحاب فضل و کمال نے ان کی ہمہ جہت دینی خدمات اور مؤثر شخصیت کا اعتراف کیا اور ان کے متعلقین سے گہری تعزیت کی جن میں مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی امیر جماعت اسلامی ہند، مولانا ابوالحسن علی ندوی اور متعدد اہل حدیث علماء و ارباب مدارس شامل ہیں۔ 
بعض خصائل وامتیاز : منہج سلف پر تمسک اور اصرار ، اور مسلک اہل حدیث پر تصلب اور استقلال ان کا بڑا نمایاں وصف تھا، معاصر اہل حدیث علماء مثلاً شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارکپوری ، مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈانگری وغیرہما سے گہرا ارتباط اور باہم احترام کا تعلق تھا ، جماعت اسلامی سے وابستگی کے باوجود تمام حلقوں میں ان کی چلت پھرت تھی ، مولانا ابوالحسن علی ندوی سے ان کے گہرے مراسم اور باہم مراسلت تھی، اہل حدیث مدارس اور دیگر دینی و دعوتی اجلاسوں میں ان کی شرکت لازم خیال کی جاتی، اکثر فرماتے کہ مسلکی اور مقاصدی لحاظ سے جماعت اہل حدیث تمام تنظیموں سے بہتر اور قابل احترام ہے۔ 
تجدید واصلاح اور احیاء واقامت دین ، اسلامی نشأۃ ثانیہ ، اسلام کی موجودہ عصر میں مطلوبہ تفہیم و تشریح اور دور جدید کے زندہ مسائل کے فہم و ادراک کے ضمن میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اﷲ کے نتائج فکر نے ان کو مطمئن کیا، تاہم ان کا یہ اطمینان اصولی نوعیت کا تھا ، وہ خود ایک بیدار مغز عالم اور علوم اسلامیہ کے فاضل تھے ، علماء کیلئے اندھی تقلید کو حرام تصور کرتے ، روایتی اور اپنے عہد میں رائج تعبیرات نے ان کے بے چین ذہن میں کئی سوالات پیدا کئے جن کا شافی جواب نہ پاکر انہوں نے خود مطالعہ کیا اور پورے انشراح و بصیرت کے ساتھ جس فکر سے مطمئن ہوئے تو پھر وہی فکر ان کی تمام سرگرمیوں کامحوو مرکزر قرار پایا، اور پھر اسی کی ترویج واشاعت کے لئے وقف ہو کر رہ گئے۔ 
مسلمانوں کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے بارے میں انہیں بڑی فکر دامن گیر تھی ، اکثر کہتے کہ موجودہ نظام تعلیم اور اس پر مستزاد جارح ہندتو، اور اس کا علمبردار حکومتی نظام تعلیم مسلم نسلوں کی ذہنی و فکری ارتداد پر منتج ہوگا، اس کے بھیانک نتائج سے ہر قابل ذکر پروگرام میں لوگوں کو خبر دار اور فکر مند کرتے، مسلمانوں کے دینی و تعلیمی معاملات اور ان کے تشخص پر بڑا زور رہتا ، بچیوں کی اعلیٰ دینی تعلیم سے انہیں گہری دلچسپی تھی اور اس کے لئے بقدر وسع ہمہ دم کوشاں رہتے ، فرماتے کہ ایک بچی کی تعلیم دراصل پوری نسل کی تعلیم سے عبارت ہے۔ 
اظہار خیال کا سلیقہ بھی خوب ملا تھا ، شان خطابت مشہور تھی ، ترتیب و مواد ، قوت تاثیر اور سحر بیانی مسلم تھی ، اسلوب حکیمانہ اور فطری تھا ، سننے والا خود کو قدم بقدم چلتا ہوا محسوس کرتا ، مشکل سے مشکل علمی مسئلہ کو پبلک اجتماع میں ایسے سادہ اور فطری لہجہ میں بیان کرتے کہ سننے والوں میں شاہد ہی کوئی استفادہ سے محروم رہتا ، اپنے خطابات عام میں پیچیدہ اور مشکل ترین مسائل کو اس قدر عام فہم اور پر شوق انداز میں سادگی اور بے تکلفی سے بیان کر جاتے کہ کسی ان پڑھ دیہاتی کو سمجھنے میں دشواری نہ ہوتی لوگوں کی نفسیات کا پورا خیال رہتا ، ہر طبقہ کی ذہنی سطح اور اخذ واستعداد کی صلاحیت کے مطابق گفتگو کرتے، قرآن و حدیث سے اشتہاد، سیرت، صحابہ و تابعین کے واقعات ، تاریخی شواہد ، تمثیلی بیانات اور آفاق وانفس (کائنات) کے دلائل سے پوری تقریر مرصع ہوتی، سننے والوں کے نہ صرف بہت سے اشکالات دور ہو جاتے بلکہ ان کے ذہن کا رخ بدل جاتا ۔ خطابات میں کبھی تو ایک ہی موضوع اور کبھی مختلف پیرایوں میں مختلف موضوعات پر اظہار خیال ہوتا، ان میں ملکی و ملی اور علاقائی مسائل پر بھی اظہار خیال ہوتا اور بین الاقوامی معاملات پر بھی۔ بالخصوص مسلمانوں کے تعلیمی مسائل، خواہ ہندوستان کے ہوں یا بیرون ہند کے۔ انداز بیان کی شگفتگی اور سوز دروں کی وجہ سے لوگ کشش محسوس کرتے ، چہرے پر نورانیت کے ساتھ وقار نمایاں تھا ۔
جن لوگوں نے ان کو قریب سے دیکھا ، ان کی دلنواز گفتگو سنی، گرمی و گداختگی قلب کا گدازاور حرارت محسوس کی ، ان کی بلند ہمتی و عالی ظرفی ، خندہ جبینی و نرم روئی، خلوص و اپنائیت ، ربانیت و روحانیت نے ان کے بارے میں ایک بلند تصور دل میں بٹھایا اور ہمیشہ کے لئے یہ تصور اور ان کی انسانی عظمت کا نقش دل میں بیٹھ گیا۔ اﷲ ان کی مغفرت فرمائے، ان کی علمی و دینی خدمات کو اپنی بارگاہ عالیہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے اور ہمیں ان کا سچا جانشین بنائے۔
وصلی اﷲ علیٰ نبینا محمد وآلہ و صحبہ وبارک وسلم۔ 
ظہیر احمد صدیقی ندوی لکھنؤ
۱۸؍اپریل ۲۰۱۳؁ء