پیر، 12 فروری، 2018

کاروان سلف حصہ اول تالیف مولانا عبدالروف ندوی، پہلا حصہ

0 comments
Click to Download
Click on Title to download



مولانا عبدالرؤف ندوی مؤلف کاروان سلف

بسم اﷲ الرحمن الرحیم 
عرض مرتب
نحمدہٗ و نصلی علی رسولہٖ الکریم اما بعد 
یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ جماعت کی تساہل اور لا پرواہی کی وجہ سے سینکڑوں عبقری شخصیتوں کی حیات و خدمات پر اتنا دبیز پردہ پڑ گیا ہے کہ نئی نسل ان کے کارنامے و خدمات تو کجا ان کے نام سے ناواقف ہے ہمارے یہاں اپنے بزرگان دین علمائے کرام کی سوانح نگاری کا جذبہ نایاب نہیں تو کمیاب ضرورہے دوسری جماعتوں نے اپنے اکابر و شیوخ اور ان کے خادموں کی بھی تاریخ لکھ ڈالی ہے ضرورت ہے کہ جماعت کے اہل قلم حضرات اس اہم گوشہ کی طرف توجہ دیں ورنہ بقول نامور اہل قلم مشہورسوانح نگار مولانا محمد اسحق بھٹی حفظہ اﷲ :
’’بزرگوں سے متعلق واقعات و کارنامے حکیموں کے طبی نسخے کی طرح سینہ بہ سینہ چلتے چلتے ان کے واقف کاروں کا دور ہی ختم ہو جائے گا۔‘‘
داستانیں لکھ کے رکھ لو چند عنوانوں کے ساتھ
پھر یہ باتیں ختم ہوجائیں گی دیوانوں کے ساتھ 
اس موقع پر ایک فارسی شاعر کی نصیحت یاد آتی ہے ۔
؂ نام نیکاں رفتگاں ضائع مکن
تابماند نام نیکاں بر قرار 
راقم الحروف سے بعض اہل علم و فضل کا شدید اصرار رہا خصوصاً مولانا ابوالعاص وحیدی صاحب حفظہ اﷲ و مولانا رفیق احمد رئیس سلفی کا کہ اس موضوع پر ضرور لکھیں چنانچہ مولانا رفیق احمد رئیس سلفی حفظہ اﷲ علی گڑھ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’ گرامی قدر محترم جناب مولانا عبد الرؤف خاں ندوی صاحب ؍ حفظہ اﷲ تعالیٰ 
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبر کاتہ مزاج گرامی!
ہم آپ کے انتہائی شکر گذار ہیں کہ آپ نے اپنے ذخیرۂ علمی سے جماعت اہل حدیث کی تاریخ کا اہم ورق فراہم کردیا ہے اس کے مطالعہ سے قارئین ذی اکرام کی معلومات میں اضافہ ہوگا انشاء اﷲ اور مشرقی یوپی جماعت اہلحدیث کے تاریخی ارتقاء کو کسی حد تک اس کے پس منظر کے ساتھ سمجھ سکیں گے۔
مجھے آپ سے قوی امید ہے کہ اس طرح کی عنایات کا سلسلہ جاری رہے گا اور ہم ان سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوتے رہیں گے آپ سے مزید درخواست ہے کہ آپ اپنے وطن علاقہ ، قرب وجوار اور پڑوسی اضلاع خاص کر مشرقی یوپی کی جماعت اہل حدیث سے متعلق قدیم اکابر علماء کے سوانحی خاکے اور دعوت و کتاب کی توسیع و اشاعت کے سلسلے میں بھی اپنی معلومات قلمبند فرمائیں اس سلسلے میں چند ایک مضامین ضرور لکھے گئے ہیں ، لیکن ان سے اس دیار میں جماعت اہل حدیث کی تاریخ کی کڑیوں کو مربوط کرنا مشکل ہے ۔ 
والسلام
  رفیق احمد رئیس سلفی علی گڈھ
۱۰؍ جنوری ۲۰۰۷ ؁ 


بر صغیر ہندو پاک کے علمائے اہل حدیث نے علوم نبوت کی ترویج و اشاعت اور اس کی حفاظت کیلئے جو خدمات سر انجام دی ہیں وہ تاریخ کا ایک سنہرہ باب ہے ہمیشہ علمائے اہل حدیث دیار ہند میں علوم نبوت کی شمع کو فروزاں کرنے کیلئے تن من دھن قربان کردیا اور مسند علم و فضل اور دعوت وعزیمت کے مقام پر آفتاب بن کر چمکے جس کی ضیا باری سے ایک عالَم مستفید ہوا ، اس حقیقت کا اعتراف عرب علماء نے کھلے دل سے کیا ہے ۔ چنانچہ علامہ رشید رضا مصری لکھتے ہیں :
’’ ولولا عنایۃ اخواننا علماء الہند بعلوم الحدیث فی ہذا العصر لقضی علیہا بالزوال من امصار الشرق فقد ضعفت فی مصر والشام والعراق و الحجاز منذ القرن العاشر حتی بلغت منتہی الضعف فی اوائل القرن الاول الرابع عشر ‘‘ 
(مقدمۃ مفتاح کنوز السنۃ بحوالۂ دبستان حدیث از محمد اسحق بھٹی حفظہ اﷲ) 
اگر ہمارے برادران علمائے اہل حدیث ہند کی توجہ علوم حدیث کی جانب نہ ہوتی تو مشرقی ممالک سے علم حدیث اٹھ چکا ہوتا جیساکہ دسویں ہجری ہی سے ملک مصر ، شام، عراق اور حجاز سے علوم حدیث کا سلسلہ کمزور پڑنا شروع ہوا یہاں تک کہ چودہویں صدی میں اس کی کمزوری انتہا کو پہونچ گئی۔ 
اس کتاب میں زیادہ ترمشاہیر علماء کے سانحۂ ارتحال پر راقم الحروف کے قلبی تاثرات و احساسات ہیں جو ملک کے اخبار ، مجلہ و رسائل میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں ان منتشر اوراق کو یکجا کرکے کتابی شکل میں مرتب کرکے شائع کی جارہی ہے اس سے استفادہ کا دائرہ وسیع ہوگااور عوام و خواص اس کتاب سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں گے اس کے علاوہ اس کتاب کی تالیف میں جماعت کے مختلف رسائل و جرائدکے علاوہ مولانا محمد اسحق بھٹی حفظہ اﷲ کی کتاب ’’دبستانِ حدیث ‘‘ و ’’گلستان حدیث‘‘سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
اس کتاب میں مشرقی یوپی کے مشاہیر اہل حدیث علمائے کرام اور بعض دیگر اہم دینی شخصیات مرحومین کا تذکرہ ہے یہ حقیقت ہے کہ بعض مخلص علما ء کی کوششوں سے توحید و سنت کا چراغ روشن ہوا اورآج بھی بحمد اﷲ روشن ہے اور اس کی روشنی سے ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ایک ممالک فیض یاب ہو رہے ہیں اس خطے سے جو علماء اٹھے انھوں نے اپنی علمی ، دعوتی ، تصنیفی اور تحقیقی خدمات سے ایک عالم کو متاثر کیا ہے اور دن بدن یہ سلسلہ بحمد اﷲ دراز ہو رہا ہے۔ 
اس کتاب میں بیشتر ان ہستیوں کا تذکرہ ہے جو نصف صدی سے علم و فن کی ہر مجلس کے دفتر کھنگال ڈالے اور جن کے کارناموں سے دین و ملت کا ہر گوشہ معمور ہے اور جنہوں نے اسلام مخالف طاقتوں سے چومکھی لڑائی لڑی ہے اور بحمد اﷲ ہر محاذ پر کامیاب و کامران رہے ہیں ۔اسی طرح اس کتاب میں بعض ایسے اہل حدیث افراد کا بھی تذکرہ ہے جو مستند علماء تو نہیں ہیں مگر احیاء توحیدو سنت میں ان کا بڑا اہم رول رہا ہے۔
میں نے اپنی دانست میں ان سب کے متعلق کامل احترام کے ساتھ گذارشات پیش کرنے کی کوشش کی ہے ،اور ان کی حیات و خدمات پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔
ہمیں بڑی مسرت ہے کہ بر صغیر ہندو پاک کے علمائے اہل حدیث کی گراں قدر خدمات جو ابھی تک تشنۂ تکمیل او ر قابل اشاعت تھیں الحمد ﷲ مورخ اسلام اور مسلک اہل حدیث کے ترجمان تحریک اہل حدیث کے علمبردار معروف و مشہور اہل قلم محترم مولانا محمد اسحق بھٹی حفظہ اﷲ نے تاریخ اہل حدیث کے مجموعے کی طباعت کا آغاز کردیا ہے اس موضوع پر اب تک آدھا درجن سے زائد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور یہ مفید سلسلہ تا ہنوز جاری ہے ۔ ان کتابوں میں علمی معلومات کا خزانہ اکابر کا تعارف ان کی حیات و خدمات کو خوبصورت اور دلاویز اسلوب نگارش میں پیش کرکے جماعت اہل حدیث کے ذمہ واجب الاداء قرض کو چکا دیا ہے ہم اس کے لئے مولانا بھٹی صاحب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کی عظیم خدمت کو شرف قبولیت سے نوازے ۔ آمین
شخصیتوں کے تقدیم تاخیر میں ان کے زمانۂ وفات کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے بلکہ شخصیتوں کے علم و فضل اور ان کے مرتبہ و مقام کے درجات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ ملحوظ رہے کہ اس کتاب میں مشرقی یوپی کے اضلاع کے بہت سے ممتاز اہل حدیث علما ء و شعراء کا تذکرہ نہیں آسکا ہے ۔ اسلئے ان کے حالات و سوانح اس کتاب کے حصہ دوم میں شامل کیا جائے گا انشاء اﷲ ۔ اس کتاب کے آخر میں اس کی فہرست ملاحظہ فرمائیں۔ 
ناچیز مولانا ابوالعاص وحیدی حفظہ اﷲ کا شکریہ ادا کرنا اپنا خوشگوار فریضہ سمجھتا ہے کہ آپ نے مفید تاثرات قلمبند کئے و حوصلہ افزا کلمات اور اہم مشوروں سے نوازا۔ فجزاک اﷲ احسن الجزاء
ہماری کوشش رہی ہے کہ یہ کتاب کمپوزنگ اور طباعت کی غلطیوں سے پاک رہے لیکن ہر نقص سے پاک صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات اقدس ہے غلطی کرنا بشریت کا خاصہ ہے اور ہزار کوشش کے باوجود کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی غلطی رہ ہی جاتی ہے اسلئے قارئین سے گذارش ہے کہ اگر کوئی غلطی نظر آئے تو ناچیز کو مطلع کرنے کی زحمت فرمائیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی اصلاح کی جاسکے ۔ وماتوفیقی الا باﷲ 
اﷲ تعالیٰ مؤلف ، مرتب، ناشر اور معاونین کرام کی کوششوں کو قبول فرماکر بخشش کا ذریعہ بنائے ۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اعمال خیر کی توفیق عطا فرمائے اور قرآن و حدیث کی تبلیغ و اشاعت کو ہمارا معمول بنا دے ۔ آمین یا رب العالمین  
والسلام
طالب دعا
عبد الرؤف خاں ندوی
  مدیر
مجلس التحقیق الاسلامی
تلسی پور، بلرام پور ،یو پی
۲۰؍فروری ۲۰۱۳؁ء

خطبۂ استقبالیہ اجلاس عام 


(موضع ہرہٹہ ،تلسی پور ،بلرام پور منعقدہ ۳؍مئی ۲۰۱۱ ؁ء)
الحمد ﷲ رب العالمین والصلاۃ والسلام علیٰ رسولہ الکریم اما بعد ! 
محترم صدر اجلاس ! علماء کرام ارکان مجلس استقبالیہ دور ونزدیک سے تشریف لائے ہمارے معزز مہمانان گرامی اور جماعتی غیرت وحمیت سے سرشار باشندگان ہرہٹہ بزرگو! نوجوانو! اور خواتین اسلام! 
سب سے پہلے میں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں تشکر وامتنان کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں جس کے بے پایاں فضل و کرم لطف واحسان اور توفیق عمیم سے ہم یہ عظیم الشان اجلاس منعقد کرنے میں کامیاب ہو سکے ورنہ ؂
کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل نسیم صبح تیری مہربانی 
اس عظیم الشان اجلاس میں اپنی جانب سے انجمن شبان المسلمین اور اراکین مدرسہ ضیاء العلوم و مجلس استقبالیہ ہرہٹہ کے با حمیت سلفی اخوان اور مسلک سلف کی ترویج واشاعت میں سرگرم بزرگو ں اور نوجوانوں کی جانب سے آپ تمام حضرات کو دل کی اتھاہ گہرائیوں میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ دور دراز سفر کی دشواریاں برداشت کرکے اور اہم مصروفیات کو موقوف کرکے اس اجلاس عام کیلئے وقت نکالا بالخصوص اپنے معزز علماء کرام و مقررین عظام کے ہم بیحد شکر گزار ہیں جنھوں نے ہماری درخواست کی پذیرائی فرمائی اور اپنی شرکت سے اجلاس کے وقار میں اضافہ کیا اﷲ تعالیٰ ان سبھی کو جزائے خیر دے او ران کی شرکت اور حاضری کو قبول فرمائے۔
حضرات! اس عظیم الشان تاریخی اجلاس کے زرّیں موقع پر میں نہیں چاہتا کہ آپ اورآپ کے معزز خطباء و مقررین کے درمیان حائل ہوا جائے مگر یہ سوچ کر کہ ؂
 امیر جمع ہیں احباب درد دل کہہ لے پھر التفات دل دوستاں رہے یا نہ رہے
اجلاس کی مناسبت سے چند امور کا تذکرہ مناسب سمجھتا ہوں امید ہے کہ چند منٹ کی یہ سمع خراشی آپ کے لئے ناگوار خاطر نہ ہوگی۔
حضرات! میرے پاس کہنے کیلئے کوئی نئی بات نہیں ہمارا دستور العمل قرآن ہے اور اس کی صحیح اور عملی تفسیر حدیث رسول ہے اسی کے مطابق قرن اول قرن ثانی قرن ثالث تک عمل ہوتا رہا صحابۂ کرام تابعین عظام تبع تابعین ، محدثین کرام کا دائرہ عمل بھی اسی محور ومرکز پر تھا نہ کوئی فرقہ تھا اور نہ گروہ بندی سب لوگ براہ راست اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے پیروکار تھے یہ بات بھی سبھی کے نزدیک متفق علیہ ہے کہ خیر القرون یعنی صحابہ کرام ، تابعین عظام اور تبع تابعین کے پاکیزہ دور میں ان فقہی و مسلکی فرقوں میں سے کسی کا و جود نہ تھا صرف قرآن و حدیث سب کا مذہب تھا اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خیر القرون کے مسلمان جو سب سے بہتر واعلیٰ اور افضل تھے کیا ان کے پاس کوئی دستور العمل نہیں تھا ضرور تھا یہی قرآن و حدیث کا ذخیرہ تھا براہ راست تمام مسلمان اسی لائحہ عمل کے مطابق عمل کرتے تھے کیونکہ ہمیشہ کیلئے خدائی اعلان یہی ہے کہ ومن یطع اﷲ و رسولہ فقد فاز فوزاً عظیماً ( القرآن) 
آنحضرت ﷺ نے فرمایا ایک جماعت ہمیشہ حق پر رہے گی جو تجدید دین اور احیائے سنت کے فریضہ کیلئے کو شاں رہے گی۔ ( الحدیث) 
حضرات ! ہر دور میں اسلام کی نمائندگی کرنے والا ایک طبقہ موجود رہا ہے تجارتی راستوں سے جن عرب تاجروں نے ہندوستان میں تجارت کی وہیں انھوں نے عملی اور اعتقادی مسائل کو محض اخروی اجر کی خاطر پیش کیا بلکہ اس سسکتی انسانیت کے سامنے اسلام کی وہ تعبیر انھوں نے رکھی جس میں بت پرستی تو دور کی بات ہے شخصیت پرستی کا ذرہ برابر تصور قابل برداشت نہیں تھا پھر محمد بن قاسم ثقفی تشریف لائے انھوں نے آتے ہی سندھ ، ملتان کے علاقوں کی کایا پلٹ دی وہاں کے باشندوں کے دلوں سے شرک و بت پرستی کے جراثیم کو نکال کر توحید کی صاف ستھری اور نکھری ہوئی تعلیمات کو اس انداز سے پیش کیا کہ پورا خطہ آپ کا گرویدہ ہوگیا ۔ اور اس وقت جبکہ یہ اصلاحی تحریک اپنے شباب پر تھی محمد بن قاسم ثقفی کی معزولی کی حکم آن پہونچا تو یہاں کے باشندے چیخ اٹھے اور یہ کہکر ان کی معزولی کو چیلنج کیا کہ یہ تو رحمت کا فرشتہ ہے ہم اسے جانے نہیں دیں گے۔ 
پھر ہمارے ملک میں حدیث کے خادموں میں حضرت مجدد الف ثانی وہ ہستی ہیں جنھوں نے بر صغیر میں انقلاب برپا کر دیا اور شرک وبد عت کا قلع قمع کیا ، علامہ اقبال نے بہت صحیح ان کا تعارف کرایا ہے ؂
 وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں اﷲ نے بر وقت کیا جس کو خبر دار 
 گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے جس کے نفس کَرم سے ہے گرمیٔ احرار
حضرات! ہمارے ملک ہندوستان میں جب قرآن و حدیث سے لگاؤ کمزور پڑنے لگا شرک و بدعت کی مسموم فضا سے ہندوستان کی سر زمین تاریک ہو گئی تو ایک مقدس جماعت میدان عمل میں آئی جس کو خالص ولی اللٰہی تحریک کہہ لیجئے شاہ ولی اﷲ ؒ محدث دہلوی نے کتاب حجۃ اﷲ البالغہ کی شکل میں جد وجہد کی ۔ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا پھر شاہ صاحب کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی توفیق سے نوازا وہ پُر عزم و پُر جلال باعزیمت اور عملی شخصیت جس نے اپنے عمل سے ایک عالم کو روسناش کیا ، آپ نے شرک و بدعت ، خرافات و منکرات کے رد میں وہ عظیم الشان کتاب لکھی جس کا نام ’’ تقویۃ الایمان‘‘ ہے ، جو قیامت تک ان کے لئے اور ان کی جماعت کیلئے شہادت دے گی اور یہ حقیقت ہے کہ اپنی زبان اپنے اسلوب اپنے اختصار اپنی جامعیت اور اپنے سچے عقائد کے لحاظ سے تقویۃ الایمان کی مثال بہت کم ملے گی ۔ اردو زبان میں ہندو پاک کے اندر اس سے زیادہ تعداد میں آج تک کوئی کتاب نہیں چھپی ۔ توحید کے موضوع پر اس سے زیادہ مستند کتاب آج تک نہیں لکھی گئی ، اس کتاب سے لاکھوں انسانوں کو ہدایت ملی ، یہ کتاب توحید کی منجنیق ہے ۔ دہلی میں میاں سیدمحمد نذیر حسین محدث دہلویؒ کو کون نہیں جانتا انھوں نے ساٹھ سال دہلی میں درس دیا اور ۲۶ ممالک کے طلبہ نے ان سے علم حدیث کی تکمیل کی۔
میاں صاحب کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ جو تاریخ کی زینت ہے میاں محمد نذیرحسین دہلوی کے پاس علامہ نواب صدیق حسن خاں بھوپالی نے خط لکھا کہ میرے عزیز میرے یہاں بھوپال میں چیف جسٹس کا عہدہ خالی ہے آپ آجائیے اور آپ کی تنخواہ ایک ہزار روپیہ ماہانہ ہوگی‘‘ 
یہ ۱۸۸۷ ؁ء کی بات ہے جو ایک لاکھ روپیہ سے کم نہیں ، تو میاں محمد نذیر حسین محدث دہلویؒ نے لکھا کہ ’’ میرے پاس چٹائی پر بیٹھنے والے ، چٹائی پر پڑھنے والے اور پڑھانے والے کدھر جائیں گے ان کا مستقبل کیا ہوگا‘‘
تو اس ایثار و قربانی کے ساتھ جماعت کی یہ درسگاہیں چلیں ۱۹۴۷ ؁ء کے بعد تمام تر کسمپرسی اور حالات کی ستم ظریفی کے باوجود ہماری جماعت نے کروٹ لی اور پورے ملک میں جماعت کے مرکزی و ذیلی درسگاہوں کا ایک جال بچھا دیا اور الحمد ﷲ اپنی تمام تر کمزوریوں اور مجبوریوں کے باوجود جتنی درسگاہیں ہماری جماعت نے قائم کیں اور جتنے ادارے اپنی تعداد اد اور تناسب کے اعتبار سے ہماری جماعت چلارہی ہے کہیں بھی کوئی جماعت اس تناسب کے اعتبار سے تعلیمی و تربیتی ادارے نہیں چلارہی ہے ۔ 
تحریک اہلحدیث کا مقصود توحید اور رضائے الٰہی اس کی منزل ہے سیرت طیبہ کو اپنی زندگی میں نافذ کرنا اور اﷲ کے بندوں کو اﷲ سے جوڑنا اس کا مشن ہے اور یہی اصل اسلام ہے ۔ 
اس موقع پر مشہور شاعر فضا ابن فیضی رحمہ اﷲ کی ایک نظم کا ایک بند ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جس میں تحریک اہلحدیث کے مزاج کی بڑی اچھی ترجمانی کی گئی ہے ؂
یہ فلسفہ رومی بھی غلط یہ حکمت یونانی بھی غلط 
یہ بنیش روحانی بھی غلط یہ دانش برہانی بھی غلط
 صوفی کی ریاضت بھی دھوکہ واعظ کی ہمہ دانی بھی غلط
 جب تک نہ دلیل راہ نہیں یہ سنت قرآں اے لوگو! 
محترم حضرات ! عہد رسالت سے آج تک اس تحریک کے حاملین پورے تسلسل کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دیتے چلے آرہے ہیں دعوت و تبلیغ کا میدان ہو یا تصنیف و تالیف کا آزادیٔ وطن کا مسئلہ ہو یا دفاع اسلام کا ، شرک وبدعت کا مسئلہ ہو یا منکرین حدیث کا ، قادیانیت کا مسئلہ ہو یا شیعیت کا ہر موڑ پر علمائے اہلحدیث نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کارہائے نمایاں انجام دیئے تفصیل کیلئے اس قلیل فرصت میں موقع نہیں ۔ ؂
کبھی فرصت میں سن لینا بڑی ہے داستاں میری 
مقام اجلاس ہرہٹہ : ضلع بلرام پور کے مواضعات میں ہرہٹہ کا ایک ممتاز مقام ہے یہ ایک تاریخی موضع ہے قصبہ تلسی پور تحصیل سے جنوب طرف تقریباً بارہ کلو میٹر دور بسکوہر روڈ پر واقع ہے اس موقع پر یگانہ روز گاراور بادۂ توحید سے سرشار ہستی ہماری یاد کی سب سے زیادہ مستحق ہے جس نے شرک و بدعت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے اس علاقہ میں شمع توحید روشن کی اس ہستی سے میری مراد عارف باﷲ مخدوم پنچ ھرھٹہ کی ذات والا صفات ہے اس موقع پر ایک فارسی شاعر کی نصیحت یاد آتی ہے ؂
نام نیکاں رفتگاں ضائع مکن تا بماند نام نیکاں بر قرار 
مخدوم پنچ صاحب کی نیکیوں کا ثمرہ ہے کہ ان کا خاندان ہرہٹہ ہرا بھرا خوب پھل پھول رہا ہے ہرہٹہ کے علاوہ آپ کی اولاد واحفاد گینسڑی، رنیاپور، ٹھکراپور، تھارو بھوجپور، سنجھول، بلرام پور میں بھی آباد ہیں یہ لوگ خاندان ہرہٹہ کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔
مخدوم پنچ رحمہ اﷲ علماء کے قدر داں ، مہمان نواز ، دریا دل ، بیواؤں، یتیموں، غریبوں، کے مسیحا تھے تحریک اہلحدیث کے فروغ میں ان کی پوری زندگی وقف تھی آپ کی کوششوں سے پورے علاقے میں دینداری پھیل گئی اورآپ کا نام دور دراز مقامات پر بھی روشن ہو گیا اپنی اور اپنے بچوں کو سنت کی پیروی پر آمادہ رکھا ، مجال نہ تھی کہ چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی خلاف سنت کوئی کام کرسکتا ، جودو سخا میں یکتائے زمانہ تھے ، آپ خلیق با مروت کرم فرما تھے ۱۹۰۰ ؁ء میں ہرہٹہ وفات پائی اور آپ کو ان کے آبائی قبرستان ہرہٹہ میں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں سپرد خاک کیا گیا ۔ تغمدہ اﷲ برحمتہ و غفرانہ 
آپ کے تمام کارناموں میں سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے بدعت گڈھ شہر بلرام پور محلہ چکنی میں زمین خرید کر اپنے دست مبارک سے ایک سلفی مسجد کی بنیاد رکھی اور اپنی جیب خاص سے مسجد کی مکمل تعمیر کرائی ۔ اس موقع پر اس خاندان کے ایک معزز فرد جناب الحاج محمد رفیق خاں ایڈوکیٹ رحمہ اﷲ کا ذکر کرنا ضروری ہے جن کا مکان چکنی مسجد کے بغل میں ہے جنھوں نے زندگی بھر اس مسجد کی سرپرستی کی اور اب ان کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر طارق رفیق اور خاندان کے دوسرے لوگ اس کی دیکھ ریکھ کر رہے ہیں ۔ جزاہم اﷲ احسن الجزاء ۔
سلفی علماء بہت دنوں تک اس مسجد سے سلفی مشن کو چلاتے رہے ہیں اور وہ زریں سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔
علامہ عبدالرحمن محدث مبارکپوری صاحب تحفۃ الاحوذی رحمہ اﷲ ۱۲۸۳؁ء تا ۱۳۵۳؁ء کا ربط و تعلق بلرام پور ، اﷲ نگر ، کونڈؤ بونڈیہار سے بہت زیادہ رہا ہے اور یہاں کے تعلیمی عروج و ارتقاء میں انکی کو ششوں کا بڑا دخل رہا ہے ۔ 
علامہ محدث عبد الرحمن مبارکپوری نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب تحفۃ الاحوذی کا ایک حصہ اسی مسجد اہلحدیث محلہ چکنی بلرام پورمیں مرتب کیا ۔
ضلع بلرام پور کے یہ علاقے جو ان دنوں اہلحدیثیت اور سلفیت کے زندہ تابندہ نشان ہیں آج سے ایک صدی قبل شرک وبدعت ، خرافات و منکرات ، تعزیہ داری اور دوسری جاہلی رسوم میں گھرے ہوئے تھے اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہرہٹہ اور دیگر مقامات میں علامہ محمد اظہر بہاری علامہ اﷲ بخش بسکوہری علامہ محمد دبکاوی (جن کا تحریک شہیدین سے بہت گہرا تعلق ہے) دعوت وتبلیغ ، تعلیم وتربیت کے سلسلہ میں برابر آتے رہے اور اس بنجر زمین کے سینے کو چیر کر اس میں توحید وسنت کی تخم ریزی کا عمل شروع کیا ، دین خالص کے کرنوں سے منور کیا اور ان بزرگوں نے ان مواضعات کو قرآن وحدیث کی تعلیمات سے روسناش کرایا اور شرک وبدعت کے دلدل سے نکال کر اصل دین سے ہمکنار کیا اور ضلع بلرام پور ، بستی، گونڈہ ، سدھارتھ نگر کے اس وسیع و عریض علاقے میں اہلحدیثیت کو اتنی جلا حاصل ہوئی کہ آج یہاں کے مسلمان پکّے اہلحدیث ہیں اور اہلحدیث گر بھی ہیں ۔
مدرسہ ضیاء العلوم کا قیام : اس آزاد ہندوستان میں انسان دشمن عناصر کی طرف سے ہماری زبان تہذیب و ثقافت ہمارے عقائد و نظریات کو جب دیومالائی تعلیم کے ذریعہ مسموم کیا جانے لگا اور اسلام پر چومکھی حملہ ہونے لگا تو انہی مخالف تھپیڑوں نے ہمارے بزرگوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا ہمیں اپنا بھولا ہوا سبق بھی یاد دلایا قوم نے شہر بہ شہر ، قریہ بہ قریہ علم دین کی شمعیں روشن کیں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہمارا موضع ہرہٹہ اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہا ۔ جناب حکیم فرزند علی گنوری رحمہ اﷲ کی تحریک پر گاؤں کے چند روشن دماغ اور بیدار مغز لوگوں نے ۱۹۵۳؁ء میں ضیاء العلوم کے نام سے مدرسہ کی بنیاد ڈالی اور اسی وقت چھپر کے گھر میں عم محترم مولانا عبد اﷲ سعیدی حفظہ اﷲ و میاں عبدالحلیم صاحب رحمہ اﷲ نے اﷲ کا نام لیکر چند بچوں کو بٹھاکر تعلیم کا آغاز کر دیا آپ دونوں بزرگوں کی مخلصانہ جدوجہد میں اﷲ تعالیٰ نے اتنی برکت عطافرمائی کہ چند برسوں میں گاؤں اور مضافات میں ایک اچھی خاصی ٹیم پڑھے لکھوں کی تیار ہوگئی انھوں نے مدرسہ ضیاء العلوم سے نکلنے کے بعد ملک کے عظیم اداروں میں تعلیم کی تکمیل فرمائی اس وقت علاقہ ضلع صوبہ اور ملک ہی میں نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی مدرسہ ضیاء العلوم کے پڑھے ہوئے علماء دعوت وتبلیغ درس و تدریس تصنیف و تالیف اور امامت وخطابت جیسے اہم فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہیں ۔
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے اس مادر علمی کو ہمیشہ سرسبز و شاداب رکھے اور اس پر کبھی خزاں نہ آئے۔آمین
ایسے موقع پر ہمارے وہ معز و موقر علماء کرام و بزرگان دین بھی یاد آرہے ہیں جو وقتاً فوقتاً دینی واصلاحی پروگرام میں ہمارے یہاں تشریف لاتے رہے اور باشندگان ہرہٹہ و مضافات کو اپنے مواعظ حسنہ سے نوازتے رہے جو لوگ اﷲ کے جوار رحمت میں جا بسے ان کی مغفرت کیلئے بارگاہ ایزدی میں دست بدعا ہیں اور جو حضرات با حیات ہیں ان کی درازی عمر کیلئے تہہ دل سے متمنی ہیں ۔
بڑی ناسپاسی ہوگی اگر اس موقع پر ارکان مجلس استقبالیہ کا شکریہ ادا نہ کروں جن کی کوششوں سے اس اجلاس کا انعقاد ممکن ہو سکا بالخصوص مجلس استقبالیہ کے ناظم مولانا عبد القادر فیضی ؔ اور علاء الدین جو اس اجلاس کے روح رواں ہیں اور جنھوں نے اس پروگرا م کی کامیابی کیلئے اپنا پسینہ بہایا مدرسہ ضیاء العلوم ہرہٹہ کے ناظم مولانا زبیر احمد عبد المعبود مدنی ؔجنھوں نے قدم قدم پر منتظمین جلسہ کی رہنمائی فرمائی اور باشندگان ہرہٹہ شکرو سپاس کے مستحق ہیں جنھوں نے اپنے طور پر رضاکارانہ خدمات انجام دیں اور اجلاس کو کامیاب بنانے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کیں ۔ اﷲ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے اور ان سب کی خدمات کو شرف قبول عطا فرمائے ۔ آمین 
والسلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ 
عبد الرؤف خاں ندویؔ 
صدر مجلس استقبالیہ اجلاس عام منعقدہ ۳؍مئی ۲۰۱۱ ء ؁ بروز منگل 
ہرہٹہ تلسی پور ، بلرام پور،( یوپی)

٭٭٭







ضلع گونڈہ ،بلرام پور ، بستی اور سدھارتھ نگر کی تاریخ اہلحدیث کے چند اوراق

علامہ مولانا عبد الغفو ر ملا فاضل بسکوہری رحمہ اﷲ کے والد محترم کا اسم گرامی جعفر خاں تھا غالباً ۱۹۰۵؁ء میں آپ کی ولادت ہوئی۔
آپ کامولد قصبہ بسکوہر بازار ضلع بستی حال سدھارتھ نگر ہے ابتدائی تعلیم جناب مقصود علی خاں صاحب شاہجہاں پوری سے حاصل کی، تکمیل دارلعلوم دیوبند میں کی ادب ودیگر علوم مولانا اعجاز علی اور مولانا ابراہیم صاحب بلیاوی سے اور حدیث مولانا انور شاہ کشمیری مرحوم سے پڑھی اور تکمیل کے بعد ملک کے مختلف عظیم اداروں میں معقول اور منقول حدیث و تفسیر و ادب پڑھاتے رہے الٰہ آباد بورڈ سے ملاّ مولوی منشی اور فاضل کا امتحان پاس کیا ، فراغت کے بعد بلرام پور ڈگری کالج سے تدریسی کام کی ابتدا کی لیکن وہاں کی فضا آپ کو راس نہ آئی اور مستعفی ہوگئے ۔
بسکوہر، انتری بازار ، جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر میں پڑھانے کے بعد کئی برس ملک کی عظیم درسگاہ دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں طلبہ کی علمی پیاس بجھاتے رہے اس کے بعد کئی برسوں جامع اعظم دہلی اور دارالعلوم جودھپورمدرسہ فیض عام مؤ مدرسہ سراج العلوم کونڈؤ بونڈھیار مدرسہ رحمانیہ کلکتہ دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ وغیرہ میں درس و تدریس سے منسلک رہے ۔ مولانا ایک جید و محقق عالم تھے عربی میں فی البدیہ قصائد لکھتے تھے مولانا علم کی دولت سے مالا مال تھے ۔اﷲ تعالیٰ نے جس فراوانی سے آپ کو علم کی دولت سے نوازا تھا اور اس دولت کو جس فیاضی سے آپ نے لٹایا وہ آپ ہی کا حصہ ہے ۔
قابل ذکر تلامذہ میں مولانا عبد الغفار حسن رحمانی پاکستان مولانا عبد الخالق صاحب کھنڈیلوی پاکستان مولانا سید اقبال حسین ریواں مولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈانگری مولانا عبد القیوم رحمانی مولانا عبد الجلیل رحمانی مولانا محمد اقبال رحمانی مولانا عبد المبین منظر حکیم مقبول احمد صاحب بڑھنی حکیم جمیل احمد مرغہوا حکیم مولانا محمد اسحق چیونٹہوا مولانا محمد زماں رحمانی انتری وغیرہم ہیں۔
آپ نیک خدا ترس ، متقی شب زندہ دار تھے سنت پہ شیفتہ مسلک اہل حدیث کے ترجمان اور تحریک اہل حدیث کے علم بردار تھے پوری زندگی درس و تدریس ، دعوت و تبلیغ میں صرف کردی مسلکی غیرت کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔ انتہائی خو د دار تھے پوری زندگی کسی سرمایہ دار کے جیب پر بوجھ نہ بنے ، مولانا عبدالغفور بسکوہری نے اہل حدیث کانفرنس منعقدہ ۲۰ ، ۲۱ ، ۲۲؍فروری ۱۹۲۸؁ء کی ایک رپورٹ ہفت روزہ اہل حدیث امرتسر کو ارسال کی تھی ۔ جو ہفت روزہ اہل حدیث امرتسر شمارہ مارچ ۱۹۲۸؁ء میں شائع ہوئی تھی جس میں ضلع گونڈہ ، بلرام پور ، سدھارتھ نگر ، نیپال، بستی کے بزرگان دین کے سدھر نے اور سدھارنے والوں کی دینی جدو جہد اور ایثار و قربانی کی مختصر حالات پر روشنی ڈالی تھی جو ہدیہ قارئین ہے ۔
۱۴؍مئی ۱۹۷۸؁ء میں علم و فضل کا یہ درخشاں آفتاب اپنے وطن بسکوہر بازار میں ہمیشہ کیلئے غروب ہو گیا اور اپنے آبائی قبرستان بسکوہر بازار میں مدفون ہوئے۔ 
اﷲم اغفر لہ وارحمہ و عافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ 
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را 
عبد الرؤف ندوی ؔ 
تلسی پور بلرام پور یوپی 
۲۲؍د سمبر ۲۰۱۲؁ 
اہلحدیث کانفرنس ۱؂ منعقدہ بتاریخ ۲۷؍۲۸؍۲۹؍ شعبان ۱۳۴۶ ؁ھ مطابق ۲۰؍۲۱؍۲۲؍ فروری ۱۹۲۸؁ء نہایت شان و شوکت سے ہوا ۔ نامی گرامی علماء کرام مدعو تھے خصوصاً مولانا ابوالوفا ء ثناء اﷲ امرتسری شیر پنجاب کی شرکت جلسہ کیلئے روح رواں تھی، آپ کا استقبال نہایت شان سے ہوا علامہ مولانا عبد الغفور بسکوہری رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں : کہ الحمد ﷲ جلسہ ھذا خوب شاندار ہوا تقریباً پانچ ہزار آدمیوں کا اجتماع رہا بہت سے احناف گذشتہ خیالات سے الگ ہوکر توحید و سنت کے قائل وعامل بنے۔ ہندو بھی مسلمان ہوئے ، خطبٔہ استقبالیہ پڑھا گیا خطبۂ استقبالیہ میں ضلع گونڈہ ، بلرام پور، بستی اور سدھارتھ نگرکے بزرگان دین کے مختصر حالات پر روشنی ڈالی گئی۔عربی فارسی قصائد بھی سنائے گئے یہ کانفرنس ان اضلاع میں اپنی نوعیت میں خاص تھا۔
 ۱؂ یہ تاریخی و مثالی سہ روزہ اہل حدیث کانفرنس ۲۰؍۲۱؍۲۲؍فروری ۱۹۲۸؁ء شیخ الاسلام مولانا ابواوفاء ثناء اﷲ امرتسری رحمہ اﷲ کے زیر صدارت مقام تلسی پور ضلع گونڈہ حال ضلع بلرام پور یوپی پولیس اسٹیشن سے دکھن جہاں اس وقت تلسی پور کا نیا اسپتال بنا ہوا ہے اسی مقام پر ہوئی ۔ یہ کانفرنس ہر لحاظ سے تاریخی و مثالی رہی فصیح الدین خاں گینسڑی کی روایت کے مطابق اس تاریخی کانفرنس کے انعقاد کے محرک اور منتظم فصیح الدین صاحب والد محترم جناب محمد شفیع خاں پنچ گینسڑی حاجی عبدالغفور تلسی پور چودھری عظمت اﷲ بنھونی خلیل احمد پنچ بجوا کلاں، حاجی محمد ایوب چین پور و حاجی محمد حسن و بسم اﷲ پخوری وحاجی عبدالرحیم منیجر دیالی پور ضلع گونڈہ و بستی کی اخوان جماعت کی بھاری تعداد جنھوں نے شب و روز محنت کرکے اس کانفرنس کو کامیاب بنایا ۔ اس کانفرنس میں مولانا امرتسری رحمہ اﷲ کی شرکت کا دعوت نامہ لیکر مفسر قرآن مولانا عبد القیوم رحمانی اور مولانا زین اﷲ طیب پوری کو امرتسر بھیجا گیا تھا ٹھیک ۱۸ سال بعد اسی سرزمین تلسی پور میں عقیل احمد خاں کے دادا ٹھیکیدار عبد اﷲ خاں کی پوروہ زمین پر ۱۹۴۶؁ء میں درج بالا حضرات کی جدوجہد میں سہ روزہ اہل حدیث کانفرنس منعقد ہوئی ، یہ کانفرنس بھی مولانا امرتسری رحمہ اﷲ کے زیر صدارت ہوئی یہ کانفرنس بھی ہر لحاظ سے کامیاب رہی اور جماعت میں کافی بیداری آئی شرک و بدعت و خرافات و منکرات کا استحصال ہوا مقام کانفرنس پوروہ تلسی پور جہاں پر آج ضلعی جمعیۃ کی جامع مسجد و مدرسہ قائم ہے اہلیان تلسی پور وتلسی پور ، گونڈہ و بستی کے ( بقیہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں)
(۱) مولانا سید جعفر علی نقوی صاحب رحمہ اﷲ: ۱؂
سب سے پہلے جو مقدس ہستی اس علاقہ میں پیدا ہوئی وہ مولانا سید جعفر علی نقوی صاحب رحمہ اﷲ کی ہستی ہے آپ موضع میر مجھوا ضلع بستی کے رہنے والے تھے آپ کی خاص صفت اشاعت توحید تھی اور بمقتضائے آیۃکریمہ ادع الی ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ لوگوں کو عجیب حکمت و نصیحت سے توحید پر پختہ کرتے تھے۔
( پچھلے صفحہ کا بقیہ) افراد خوش قسمت ہیں کہ ان دونوں کانفرنسوں میں شیر پنجاب مولانا ابواوفاء ثناء اﷲ و دیگر اکابر علماء کے مواعظ حسنہ سے مستفید ہوئے ٹھیک ۲؍ سال کے بعد اسی سرزمین تلسی پور میں جہاں اس وقت پاور ہاؤس ہے اسی جگہ پر ۱۹۶۸؁ء میں ریاستی کانفرنں ہوئی جو نوگڈھ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس ۱۹۶۲؁ء کے بعد تلسی پور کی یہ ریاستی کانفرنس دوسرے نمبر پر تھی اس کے علاوہ ضلعی کانفرنسوں و دیگراجلاس کا شمار کرنا مشکل ہے اور ادھر کئی سالوں سے سناٹاہے ۔ والسلام
عبد الرؤف ندوی ؔ 
تلسی پور بلرام پور یوپی 
۲۱؍مارچ ۲۰۱۳؁ 

 ۱؂مولانا نقوی صاحب خالص اہل حدیث تھے تقلید سے کوسوں دور تھے بعض لوگوں نے آپ کو حنفی بتلا کر اپنی کوتاہ نظری کا ثبوت دیا ہے جتنے مدارس آپ نے قائم کئے وہ سب اہل حدیثوں کے ہیں اور وہ آپ ہی کے مسلک کے ترجمان رہے ہیں اس سے بھی آپ کااہل حدیث ہونا ثابت ہوتا ہے مولانا جعفر علی نقوی صرف ایک مجاہد ہی نہیں تھے بلکہ ایک ممتاز عالم دین تھے علوم عقلیہ و نقلیہ میں ان کو مہارت حاصل تھی آپ کی کئی تصنیفات ہیں جس میں تاریخ احمدیہ بہت مستند کتاب ہے سید صاحب کے حالات اور تحریک جہاد کے بارے میں بہت مستند کتاب ہے فارسی زبان میں ہے مولانا علی میاں ندوی اور مولانا غلام رسول مہر نے اس سے کافی استفادہ کیا ہے اس کتاب کی تاریخ تالیف ۱۲۷۳؁ھ نکلتی ہے ۔ مولانا سید جعفر علی نقوی کے والدکا نام قطب علی تھا اس خاندان کے جد امجد سید جلال الدین آٹھویں صدی ہجری میں ہندوستان آئے اجوھیا میں مقیم ہو گئے گیارہویں (بقیہ اگلے صفحہ پر)
(۲) حاجی عبد الجبار صاحب رحمہٗ اﷲ سرمہ دانی والے :
دوسری مخلص ہستی جو ان اضلاع کی ہدایت کے واسطے پیدا ہوئی وہ حاجی عبد الجبار صاحب رحمہ اﷲ سرمہ دانی والے کی ہستی ہے آپ مقام گنوریا ریاست بلرام پور کے رہنے والے تھے آپ نے توحید وسنت کی اشاعت میں جس طرح خلوص سے کام لیا ہے اس کی مثال خیر القرون میں ہی مل سکتی ہے آپ سرمہ دانی کی دستکاری سے بقدر ضرورت کسب حلال حاصل کرکے شب و روز اپنی عمر کا حصہ اشاعت توحید و سنت میں صرف کرتے تھے آپ کی اشاعت سے علاقہ ہی میں نہیں بلکہ دیگر اضلاع میں بھی خوب توحید پھیلی باوجود لا علمی کے آپ کا وعظ اسرار سے بھرا ہوا بے نظیر ہوتا تھا اﷲ تعالیٰ نے آپ کا سینہ کھول دیا تھا آپ کی بات بجلی کی طرح اثر پیدا کرتی تھی۔ رحمہ اﷲ 
(۳) مولانا اﷲ بخش صاحب بسکوہری رحمہ اﷲ
مولانا اﷲ بخش ۱؂ بسکوہری مرحوم کی بزگزیدہ ہستی علاقہ کی ہدایت کا ذریعہ ہوئی آپ صوبہ پنجاب ضلع انبالہ کے رہنے والے تھے آپ قوم چھتری سے تھے ۔ بچپن ہی میں والد بزرگوار کا سایہ آپ کے سر سے اٹھ گیا تھا آپ یتیم ہو گئے تھے سن شعور پہونچنے کے بعد حلقہ بگوش اسلام
(پچھلے حاشیہ کا بقیہ) صدی ہجری کے لگ بھگ اس خاندان کے کچھ لوگ میر مجھوا ضلع بستی میں آباد ہو گئے ۲؍رمضان ۱۲۱۸؁ھ کو آپ کی ولادت ہوئی آپ تحریک شہیدین کے میر منشی تھے ۔ نومبر ۱۹۷۱ء میں علم و فضل کا یہ درخشاں آفتاب اپنے وطن مجھوا میر میں ہمیشہ کیلے غروب ہو گیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون 
 ۱؂ آپ صوبہ ہر یانہ کے انبالہ شہر کے رہنے والے سکھ تھے والد کا نام پر بھا کر سنگھ تھا جو ایک فوجی تھے سن شعور پہونچنے کے بعد حلقہ بگوش اسلام ہوئے موصوف تعلیم کی تکمیل کی غرض سے دہلی آئے اور یہاں سیدمحمد نذیر حسین محدث دہلوی سے تعلیم کی تکمیل کی وہاں سے لکھنؤ آئے اور مولانا سید عبد الحئی لکھنؤ سے بھی اکتساب فیض کیا پھر فیض آباد آئے اور آپ کو فیض آباد سے بسکوہرکے ایک تاجر چرم خدا بخش بسکوہری اپنے ساتھ بسکوہر لے آئے بسکوہر کچھ عرصہ رہ کر موضع اوسان کوئیاں ڈومریا گنج کے مدرسہ مظہر العلوم میں عرصہ تک درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا آپ کے رفقاء میں مولانا بشیر احمدسہسوانی اور مولانا عبد التواب علی گڑھی خاص طور پر قابل ذکر ہیں یہ دونوں بھی میاں محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگرد تھے۔ (عبدالرؤف خاں ندوی)
 ہوئے اور شوق علم دل میں لے کر شہر دھلی میں شیخ الکل میاں محمد نذیر حسین محدث دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شرف تلمذ حاصل کیا بعد تحصیل علم دہلی سے رخصت ہوکر بسکوہر تشریف لائے اور یہیں درس و تدریس کا کام شروع فرمایا اور تقریباً چالیس برس تک اپنے فیوض سے لوگوں کو فائدہ پہونچاتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج ہمارے علاقہ میں آپ کے لائق شاگرد زیور علم سے آراستہ ہوکر لوگوں کیلئے ہدایت کا نمونہ بنے جن میں سے آپ کے خاص شاگرد مولانا
 دیانت اﷲ ۱ ؂ سمراوی ہیں مولانا مرحوم توحید و سنت پر دل سے شیدا تھے اپنی ساری عمر آپ نے جس پرہیز گاری اور احتیاط سے بسر کی ، اس کی مثال ملنی مشکل ہے آپ کا اکل حلال ضرب المثل بنا، قریباً ساٹھ برس کی عمر میں بمقام بسکوہر آپ کا انتقال ہوا ،اور یہیں مدفون ہوئے مولانا اﷲ بخش بسکوہری کا بھی تقریباً ۶۳ برس کی عمر میں بسکوہر انتقال ہوا ، اور بسکوہر بازار کی جامع مسجد سے متصل قبرستان میں مدفون ہوئے ۔ تغمدہ اﷲ برحماتہ 
(۴) مولانا سید محمد اظہر مسلم بہاری رحمہ اﷲ 
مولانا اﷲ بخش کے ہم عصر جناب مولانا سید محمد اظہر ۲؂ مرحوم ہیں آپ صوبہ بہار کے رہنے والے تھے کسی وقت اس علاقہ میں تشریف لائے (سب سے پہلے کواپور کے پاس موضع جے نگرا میں قیام رہا اس کے بعد موضع ادئی پور آپ نے مستقل سکونت اختیار کرلی یہیں سے آپ 
  ۱؂ مولانا دیانت اﷲ سمراوی ؒ کے علاوہ دیگر قابل ذکر شاگردوں کے نام یہ ہیں مولانا جعفر علی مرغہوا مولانا محمد صدیق صاحب رحمانی مولانا عبد الرزاق سمراوی مولانا عبد الستار بسکوہری مولانا خلیل احمد بسکوہری مولانا عبدالرحمن بجواوی مولانا محمد بخش بسکوہری وغیرہ مولانا اﷲ بخش کے تین فرزند تھے مولوی محمد ابراہیم، محمد ذکریا، اور محمد ادریس ۔ مولوی محمد ابراہیم صاحب کا ابھی چند سال پہلے انتقال ہوا ہے محمد زکریا اور محمد ادریس کا انتقال ہوئے عرصہ ہوگیا آپ کے پوتے پر پوتے فیض آباد سے متصل قصبہ بھدرسہ وبسکوہر میں آباد ہیں ۔(عبد الرؤف خاں ندوی)
  ۲؂ علاقہ کے مسلمانوں پر آپ کی ایسی گرفت تھی کہ آپ کی اجازت کے بغیر (بقیہ اگلے صفحہ پر )
پورے علاقہ میں اپنا مشن چلاتے رہے) آپ کی بزرگی و دینداری پر اکثر لوگ فریفتہ ہوکر آپ سے بیعت ہوگئے اور اس تعلق کی بنا پر ان کی نگرانی اور ان کو دینداری پرآمادہ رکھنے کیلئے آپ نے ساری عمر اس علاقہ میں صرف کردی۔ آپ نہایت قد آور قوی الاعضاء اور گندمی رنگ کے تھے اور مولانا عبدالحق صاحب محدث بنارسی کے خاص شاگردوں میں سے تھے سنت کے سچے عاشق تھے اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا غرض کل کام میں سنت کا بہت خیال رکھتے تھے آپ کو جزئیات مسائل بہت مستحضر تھے علاوہ صحاح ستہ کے نیل الاوطار و زاد المعاد ، کشف الملہم وغیرہ کتب حدیث کے گویا حافظ تھے آپ کا کتب خانہ بے نظیر کتابوں سے بھرا رہتا تھا ، آپ کے ذریعہ سے علاقہ میں سنت کا بہت کچھ چرچا ہوا اکثر مرد و عورت آپ کی ذاتی کوشش سے آباو اجداد کے رسوم کو ترک کرکے سنت پر عامل ہوگئے ، اور آج اکثر اہلحدیث مولانا سید محمد اظہر صاحب بہاری کی یادگار باقی ہیں ، تقریباً ایک سو برس کی عمر پائی اس عمر میں بھی آپ کے ہوش وحواس میں کچھ فرق نہ آیا تھا آپ کی آخری آرام گاہ بھی موضع ادئی پور ،بلرام پورمیں ہے ،یہیں مدفون ہوئے۔
اﷲم اغفر لہ و ارحمہ و عافہ واعف عنہ و اکرم نزلہ ووسع مدخلہ
(۵) مولانا محمد اسحق صاحب بانسوی رحمہٗ اﷲ
انہی بزرگان اہلحدیث میں سے حضرت مولانا محمد اسحق صاحب بانسوی بھی تھے آپ قصبہ بانسی کے رہنے والے تھے توحید و سنت کی حمایت میں شب وروز کوشاں رہتے تھے آپ 
(پچھلے حاشیہ کا بقیہ)لڑکی اور لڑکے کا رشتہ طے نہیں ہو سکتا تھا بارات وغیرہ رسومات پر کڑی نظر رکھتے تھے بڑے بڑے زمیندار آپ کے سامنے آنے اور جواب دہی سے خائف رہا کرتے تھے اور دور دراز علاقوں میں دعوتی اور تبلیغی پرو گراموں میں حصہ لینے کیلئے آپ پالکی پر چلتے تھے اور پالکی اٹھانے والے کو ان کی مزدوری پہلے ہی دے دیتے تھے ہمارا ضلع بلرام پور آج منہج سلف عقیدہ صحیحہ سے جو وابستگی ہے مولانا سید محمد اظہر بہاری کی رہین منت ہے۔ (عبد الرؤف خاں ندوی) 
میں اخلاص کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا آپ کا علمی تجربہ بھی بڑھا ہوا تھا درس وتدریس کا کام شوق سے کرتے تھے چنانچہ آپ کی علمی غذا کی پروردہ ایسی چند ہستیاں تیار ہوئیں جو مخلوق کی ہدایت کانمونہ بنیں چنانچہ ذیل میں ان کا ذکر آتا ہے ۔ 
(۶) مولانا عباد اﷲ صاحب یوسف پوری رحمہٗ اﷲ
مولانا محمد اسحاق صاحب مرحوم کے شاگردوں میں سے اول شاگرد مولانا عباد اﷲ صاحب ۱؂ یوسف پوری رحمہ اﷲ ہیں موضع یوسف پور علاقہ مٹکا کا متصل علاقہ ہے نیپال کے رہنے والے تھے آپ بھی شیدائے سنت تھے علم کا بہت کچھ شوق تھا آپ کے کتب خانہ میں نایاب کتابیں موجود رہتی تھیں آپ کو بھی سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی سے شرف تلمذ حاصل تھا آپ کی کوشش سے علاقہ مٹکا ونیپال میں جماعت اہل حدیث کی خوب ترقی ہوئی یہاں تک کہ علاوہ دو ایک جگہ کے سارا علاقہ اہل حدیث ہوگیا آپ کی یادگار مدرسہ یوسف پور سدھارتھ نگرہے آپ مدرسہ یوسف پور کے بانیوں میں سے ہیں ۔ اﷲ غریق رحمت کرے ، آمین
۱؂ مولانا عباد اﷲ بستوی میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگرد خاص تھے نوگڈھ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر موضع یوسف پور کے رہنے والے تھے یہاں مسلم آبادی اولاً تو بہت کم تھی دوسرے وہ سب کے سب جہالت بدعات و رسوم باطلہ میں گرفتار تھی تمام مسلمان قبریں پوجتے تھے تعزہ داری کرتے تھے پیروں کے حلقہ بگوش تھے اور وہ جو چاہتے اپنے مریدوں سے کرا لیتے تھے اور یہ اس کی تعمیل میں ذرہ بھی چوں و چرا نہیں کرتے تھے پہلے تو عارف باﷲ مولانا عباد اﷲ رحمہٗ اﷲ نے اپنے وعظ وارشاد سے ان سب چیزوں کی اصلاح کی ایک ایک کو صراط مستقیم پر لائے پھر آپ نے یوسف پور میں مدرسہ دارالہدیٰ قائم کیا آپ اس مدرسہ کے بانیوں میں سے ہیں اس علاقہ کایہ قدیم مدرسہ ہے بحمد اﷲ دن بدن ترقی پر ہے مولانا عباد اﷲ رحمہٗ اﷲ کی تاریخ پیدائش ۱۸۳۱؁ء اور تاریخ وفات ۱۸۹۷؁ء ہے۔ ( عبد الرؤف خاں ندوی) 
(۷) مولانا احمد علی صاحب رحمہٗ اﷲ اوبڑی ڈیہہ
دوسرے لائق شاگرد جناب مولانا احمد علی صاحب موضع اوبڑی ڈیہہ ضلع گونڈہ کے رہنے والے تھے علاقہ کے ممتاز عالموں میں سے تھے آپ کو توحید کا سچا عشق تھا آپ کی ذات گرامی سے بھی علاقہ میں خوب دینداری پھیلی۔ رحمہ اﷲ 
(۸) حافظ لال محمد صاحب بانسوی رحمہ اﷲ 
تیسرے شاگرد جناب حافظ لال محمد صاحب تھے آپ شیفتہ توحیدتھے مولانابانسوی کے بجائے آپ نے خوب دعوت وتبلیغ کیا آپ کی بات ایسی پُر تاثیرہوتی تھی کہ بعض عالموں کو بھی غفلت سے ہوشیار کردیا کرتی تھی اﷲ تعالیٰ حافظ صاحب کو غریق رحمت کرے ۔ آمین 
(۹) مولانا عظیم اﷲ صاحب رحمہٗ اﷲ نیپالی 
چوتھے قابل شاگرد جناب مولانا عظیم اﷲ صاحب تھے آپ کو اﷲ تعالیٰ نے سنت کا کمال عشق عطا کیا تھا آپ کی سعی بلیغ سے بھی قوم بہت کچھ سدھری ۔
(۱۰) مخدوم ۱؂ پنچ صاحب رحمہ اﷲ موضع ہرہٹہ
متذکرہ بالا ہستیوں کی جان توڑ کوششوں کی وجہ سے علاقہ میں خوب دینداری پھیلی چاروں طرف دیندارہی دیندار نظر آنے لگے خصوصاً مخدوم پنچ ساکن ہرہٹہ ضلع گونڈہ حال بلرام پور
۱؂ مخدوم پنچ رحمہ اﷲ بن کلو خاں کا مسکن موضع ھرھٹہ جوتلسی پور سے جنوب جانب اٹوا روڈ پر ۱۲ کلو میٹر دور پر یہ مرکزی موضع واقع ہے مخدوم پنچ کے پانچ لڑکے تھے پہلی محل سے محمد اسحق پنچ، عبید اﷲ خاں عبد الجبار خاں دوسری محل سے عبد اﷲ خاں ، محمد خلیل خاں ۔ آپ کے سبھی لڑکوں کا عرصہ ہوا انتقال ہو چکا ہے اور پوتے بھی اﷲ کو پیارے ہو چکے ہیں قابل ذکر پر پوتوں میں جناب فصیح الدین خاں صاحب گینسڑی و محمد مسیح ایڈوکیٹ بلرام پور بقید حیات ہیں اﷲ تعالیٰ ان کی عمر دراز فرمائے آمین۔ ( عبد الرؤف خاں ندوی)
پر دینداری کا وہ رنگ چڑھا کہ گردو نواح کے دور دراز مقامات پر بھی مخدوم پنچ کا نام روشن ہوگیا اپنی اور اپنے بچوں کی صورت و شکل اور شادی وغیرہ میں سنت کی پوری پابندی کرتے تھے مجال نہ تھی کہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی خلاف سنت کوئی کام کرسکتا جود و سخا میں وہ یکتائے زمانہ تھے اپنے وقت میں اپنی نظیر خود تھے باوجود مالداری کے نہایت درجہ غریب آشنا ، آپ کا جود و سخا دور دور تک پھیلا ہوا تھا ۔
آپ کی عظیم یادگار شہر بلرام پور محلہ چکنی کی تعمیر شدہ مسجد ہے ۰ ۱۹۰؁ء میں وفات پائی آپ کی آرام گاہ موضع ہرہٹہ ہے اپنے آبائی قبرستا میں مدفون ہیں ۔ تغمدہ اﷲ یرحماتہ 
( ہفت روزہ اہلحدیث امرتسر مارچ ۱۹۲۸؁ء)
یہ چند ہستیاں تھیں جن کی کمال کوشش سے توحید و سنت کا پرچم سارے علاقہ میں اڑنے لگا اور کثیر تعداد میں شیفتہ توحید وسنت نظر آنے لگے لیکن آہ آج یہ مقدس ہستیاں ہماری نظروں سے غائب ہیں اور ہم ان کے دیکھنے کو ترستے ہیں ۔ 
یہ عبقری ہستیاں یکے بعد دیگرے ہمارے درمیان سے اٹھتی گئیں تو اس وقت کے علماء و خواص نے جماعت اہل حدیث کی امارت کیلئے علامہ محمد عبد الرحمن محدث مبارکپوری کو آمادہ کیا اور انھوں نے امارت کا بار گراں بخوشی قبول فرمایا۔ آئندہ سطور میں علامہ مبارکپوری صاحب تحفۃ الاحوذی کی حیات وخدمات پر مفصل روشنی ڈالی جائے گی ۔ انشاء اﷲ 

٭٭٭

مولانا فرید احمد رحمانی رحمہ اﷲ پیکولیا مسلم 


ضلع بستی و گونڈہ کے لئے اور خصوصاً اہل حدیثوں کے یہاں مولانا فرید احمد بن برکت اﷲ رحمانی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں آپ ۱۹۲۲؁ء یا ۱۹۲۳؁ء میں ضلع بستی کے ایک مشہورگاؤں پیکولیا مسلم میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی ۱۹۳۳؁ء میں اردو سے اور ۱۹۳۴؁ء میں ہندی سے مڈل پاس کیا پھر آپ کا رجحان دینی تعلیم کی طرف ہوا لہذا آپ ۱۹۳۴؁ء میں شکراوہ کے ایک دارالعلوم میں داخل ہوئے مدرسہ ابھی نیا قائم ہوا تھا بڑی مشکل سے آپ وہاں ایک سال رہ سکے پہلی جماعت کی تعلیم کے بعد ۱۹۳۸؁ء میں جامعہ فیض عام مؤ میں داخلہ لیا اور دو سال تک یہاں رہے ۱۹۳۹؁ء میں جامعہ رحمانیہ کا ارادہ کیا اور وہاں پر جماعت ثالثہ میں داخلہ ہوا ۱۹۴۳؁ء میں جامعہ رحمانہ خیر باد کرکے مدرسہ غزنویہ امرتسر چلے گئے وہاں کے جن علماء سے استفادہ کیا ان میں ایک خاص نام محمد حسین صاحب تھے اس کے بعد آپ مزید تعلیم کے لئے مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اﷲ کے قائم کردہ مدرسہ میں داخل ہوئے یہاں آپ نے ترمذی ابوداؤد اور مسلم محمد گوندوی سے پڑھی ، سند فراغت سے ایک سال پہلے گھر آئے اس وجہ سے سند حاصل نہ کرسکے آپ بچپن ہی سے ذہین تھے شکراوہ میں آپ پہلی پوزیشن لائے ۔ بلوغ المرام ملا ۔ جامعہ فیض عام آپ دو سال رہے ، پہلے سال قافیہ میں پورے نمبر لائے تحفۃ الاحوذی اور دوسرے سال بلوغ المرام مکمل حفظ کرنے پر صحیح بخاری انعام میں ملا ۔ گھر آکر آپ نے ضلع بستی کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا گاؤں پر ایک مدرسہ کھولا جس میں آپ منتظم بھی تھے مدرس بھی بعد میں آپ نے تدریس چھوڑ دی اور تجارت میں لگ گئے مگر عمر کے آخری ایام سے کچھ پہلے تک مدرسہ کی نظامت کرتے رہے مدرسہ سے آپ کو کتنی محبت تھی اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کا اکثر وقت مدرسہ ہی میں گزرتا تھا ۔ شروع میں مدرسہ مسجد سے ملحق تھا مگر آپ نے کوشش کرکے اس کے لئے گاؤں سے باہر ۲۲ بیگھہ زمین خرید کر اسے وہاں منتقل کر دیا آپ اسے ایک بڑا اقامتی ادارہ بنانا چاہتے تھے اس کیلئے آپ نے ماہر اساتذہ کی ٹیم اکٹھا کرلی تھی طلبہ کی بھلائی کی خاطر آپ نے مدرسہ کا الحاق جامعہ اسلامیہ سنابل دہلی سے کرانا چاہا اس پر گاؤں کے کچھ لوگوں سے اختلاف ہوا۔آپ اس وقت تک کمزور بھی ہوچکے تھے روزانہ مدرسہ پر جانے میں پریشانی بھی ہوتی اسلئے آپ نے نظامت سے استعفیٰ دے دیا ۔ مولانا کی زندگی ایک فعال زندگی تھی مدرسہ کی ذمہ داری سے استعفیٰ کے بعد گھر میں بیٹھنا آپ کو قطعی گوارہ نہ تھا ۔ گور بازار میں مسجد سے ملحق ایک زمین تھی آپ نے اس زمین پر صدر مرکز مولانا عبد الحمید رحمانی سے مشورہ کرکے ابوالکلام آزاد محمدیہ بوائز پبلک اسکول کی بنیاد رکھ دی آج کل یہ مرکز کے اداروں میں ایک ممتاز حیثیت کا ادارہ مانا جاتا ہے بغیر کسی تاخیر کے آپ نے اسی سال تعلیم کا سلسلہ شروع کرا دیا اس سے پہلے اس مسجد میں مرکز کی ایک شاخ مدرسہ محمد یہ قائم تھی آپ نے اس مدرسہ کے نام سے محمدیہ کو پبلک اسکول کا ایک جز ء بنا دیا اسکول قائم ہونے کے بعد یہ اسکول آپ کی توجہات کا مرکز بن گیا صبح کو بچوں کے ساتھ اسکول بس میں بیٹھ کر آنا اور شام کو انھیں بچوں کے ساتھ گھر واپس جانا آپ کا معمول بن گیا ۔ 
اسکول میں کاموں کی نگرانی جس محنت و لگن سے کرتے تھے وہ آپ کا ہی حصہ تھا آپ کی محنتوں کا ثمرہ تھا کہ ایک معمولی سی مدت میں گور علاقہ کا سب سے اور معتبر ادارہ بن گیا ۔ آپ کے زمانہ میں حالت یہ ہوگئی تھی کہ غیر مسلم بھی اپنے بچوں کو ابوالکلام آزادمحمدیہ پبلک اسکول میں پڑھانا باعث فخر سمجھتے تھے اسی وقت آپ نے پرنسپل کو تاکید کردی کہ ۴۰ فیصد سے زیادہ غیر مسلم بچوں کو نہ داخل کیا جائے تاکہ ادارے کا اقلیتی کردار متاثر نہ ہو۔ 
عادات و اطوار : اﷲ رب العزت نے آپ کو حق گوئی امانت دیانت خلوص توکل اور استغناء جیسی صفات سے نوازا تھا ہمیشہ حق بات کہتے تھے خواہ کوئی ناراض کیوں نہ ہو جائے مجھے یاد نہیں کہ آپ نے کبھی مصلحتاً بھی جھوٹ بولا ہو زندگی بھر تجارت کرتے رہے لاکھوں روپیہ لوگوں نے آپ کا ہڑپ لیا مگر صبر کا دامن آپ نے نہیں چھوڑا ، کوئی محتاج آ پ کے در وازے پر آجاتا اور اپنی پریشانی بیان کردیتا تو چاہے ادھار لیکر اس کی ضرورت پوری کرتے مگر اس کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتے ، کتنے لوگوں کو میں نے خود دیکھا کہ اپنی ضرورت بتاکر ادھار رقم لیکر گئے اور پھر منہ نہ دکھایا ، مہمان نوازی آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ہمیشہ ایک دو مہمان آپ کے یہاں رہا کرتے تھے ۔ 
والد محترم جناب مولانا اسرائیل صاحب سلفی اونرہوی کی ناگہانی موت کے بعد استاذ مربی اور والد سب کچھ تھے اس وقت ہم سبھی بھائی بہن چھوٹے چھوٹے تھے میں مدرسہ جانا ابھی شروع کیاتھا کہ یہ حادثہ پیش آیا ۔ نا نا محترم کو اس سے کافی صدمہ ہوا مجھے اور میرے بڑے بھائی قاری زبیر صاحب کو اپنے ساتھ لے گئے اور درجہ پنجم تک کی تعلیم اپنی نگرانی میں رکھ کر دلوائی ، اس موقع پر اﷲ تعالیٰ نے اگر نانا جان کے دل میں یہ بات نہ ڈالی ہوتی تو شاید ہم بھائی بھی ان بچوں کی طرح گلیوں میں گھومتے پھرتے نظر آتے ، باجماعت نماز کے بہت پابند تھے کیامجال تھی کہ نماز کے وقت گاؤں کا کوئی شخص مسجد کے علاوہ دوسری سمت ان کے سامنے سے گذر جائے ، نماز کے معاملہ میں وہ کسی کو نہیں بخشتے تھے ایک مرتبہ تو انھوں نے فجر کی نماز کیلئے اپنے کسی قریبی مہمان کی پٹائی بھی کردی اذان ہوتے ہی گھر سے نکلنا ضروری ہوجاتا تھا سنت کے بڑے پابند تھے تہجد کی نماز کبھی نہیں چھوڑتے تھے گھر کا ماحول بالکل کسی مدرسہ کی طرح تھا آخری عمر میں جب کہ اعضاء کمزور ہوگئے اور دہلی میں ایک حادثہ میں ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور مصنوعی ہڈی لگانی پڑی تب بھی آپ مسجد جایا کر تے تھے اورباجماعت نماز پڑھا کرتے تھے ۔
آپ نے جامعہ اصلاح المسلمین کی طرف سے مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمہ اﷲ کی کتاب اہل حدیث اور مسلمان اور مولانا عبد الرحمن دیو بندی کی کتاب ’’ میں اہل حدیث کیوں ہوا‘‘ چھپواکر پورے ملک میں مفت تقسیم کرایا ۔ 
مولانا کی آخری آرزو : انتقال کے سے کچھ دن پہلے ابوالکلام آزاداسلامک اویکنگ سنٹر کی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں شریک ہونے کے لئے دہلی گئے ہوئے تھے آپ نے اس موقع پر مجھ سے کہا تھا کہ میری آخری خواہش ہے کہ گھر کی مسجد سے ملحق ایک حفظ کا مدرسہ قائم کردوں اس کے لئے انھوں نے صدر مرکز ابوالکلام آزاد کو بھی خط لکھا تھا مگر آپ کی زندگی نے آپ کا ساتھ نہ دیا اور آپ کا انتقال ہو گیا ۔ 
مرکز ابوالکلام آ زاددہلی سے آپ کے تعلقات : آپ تا عمر مرکز ابوالکلام آ زاد کے مجلس عاملہ کے ایک سر گرم رکن رہے خواہ کتنے ہی بیمار کیوں نہ ہوں مرکز کی میٹنگوں میں شرکت کیلئے ضرور حاضر ہوا کرتے تھے آخری دفعہ جب حاضر ہوئے تھے تو ان کی حالت یہ تھی کہ لاٹھی کے سہارے بمشکل قدم اٹھاپاتے تھے ایک جگہ سے دوسری جگہ کندھے کے سہارے لے جانا پڑتا تھا مگر وہ آپ کا جذبہ تھا آپ نہ صرف یہ کہ میٹنگ میں شریک ہوئے بلکہ اپنے ایک بھتیجے سے ملنے آگرہ بھی گئے ۔
انتقال : آپ کے مزاج میں سختی تھی جسکی وجہ سے لوگ عام طور پر آپ کا سامنا کرنے سے ڈرتے تھے کئی دفعہ خیال ہوا کہ آپ سے زندگی کے بارے میں اہم معلومات پوچھ کر لکھ لوں مگر ہمت نہیں ہوسکی اس کا نقصان یہ ہوا کہ آپ کی زندگی کے بہت سارے گو شوں کے بارے میں معلومات نہ ہوسکی ۔ مزاج کی سختی کے باوجود عجیب بات میں نے یہ محسوس کیا کہ آخری عمر میں بہت نرمی آگئی تھی کوئی بات بھی کرتے تو ہنس کر مسکرا کر کہا کرتے تھے انتقال سے پہلے والی رات میں سینے میں معمولی سے درد کی شکایت کی ۔ تیل سے مالش کر دی گئی اور آپ سو گئے کسے معلوم تھا کہ اس سونے کے بعد اب جگنا نہیں ہو گا صبح جب فجرکے وقت آپ بیدار نہیں ہوئے تو کمرے میں جا کر دیکھا گیا معلوم ہوا کہ رات ہی میں کسی وقت آپ کا انتقال ہوگیا ، تھوڑے ہی دیر میں آپ کے انتقال کی خبر اطراف و جوانب میں پھیل گئی مولانا کے پوتے عبداﷲ بتاتے ہیں کہ وہ دادا کے کمرے میں گئے تو انھیں ایسا محسوس ہوا کہ پورا کمرہ عطر کی خوشبو میں ڈوبا ہوا ہے انھوں نے اپنی والدہ سے اس خوشبو کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے لا علمی کا اظہار کیا جب بستر ہٹا کر مولانا کو دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے ہیں ۔ مولانا نے پوری زندگی اﷲ کی راہ میں وقف کر دی تھی اور ہر کام دین کی سر بلندی کیلئے ہوا کرتا تھا ۔ 
غالباً یہ اﷲ کی طرف سے بشارت کی نشانی تھی مولانا کا سانحہ ارتحال مورخہ ۲؍ دسمبر ۲۰۰۰؁ کی شب میں پیش آیا آپ کی لاش کو آبائی قبرستان میں دفن کے لئے پیکولیا لے جایا گیا جہاں انھیں ہزاروں سو گواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔ 
اﷲم اغفر لہ وارحمہ
والسلام 
عزیز احمد اسرائیل سنابلی 
۲۳؍دسمبر ۲۰۱۲؁ 
٭٭٭



 مولانا ابوالارشاد محمد دبکاوی رحمہٗ اﷲ 

مولانا محمد صاحب رحمہ اﷲ پیلی بھیت کے ایک موضع دبکا میں ۱۲۷۷؁ھ میں پیدا ہوئے آپ کے والد محترم کا اسم گرامی امیر الدین تھا مولانا محمد دبکاوی کے عہد آخر کی زہرہ گداز داستانیں اہل محفل نے برسوں اخبار اہل حدیث امرتسر کی زبان سے سنیں مولانا محمد دبکاوی کے اساتذہ علم و فن میں مولانا محمد سعید بنارسی ، مولانا محمد ابراہیم آروی ، مولانا ابوالحسنات عبدالحئی لکھنوی ، حضرت میاں محمد نذیر حسین محدث دہلوی اور نواب صدیق خاں بھوپالی ہیں ، نواب صاحب سے ابن ماجہ ، ترمذی اور صحیح مسلم پڑھی جن کی سند اواخر شعبان ۱۲۸۹؁ھ میں دسخطی حضرت عالی جاہ مرحمت ہوئی اور میاں محمد نذیر حسین محدث دہلوی سے ۱۲۸۱ ؁ھ میں تحصیل کر چکے تھے ۔
تکمیل کے بعد کچھ عرصہ بھوپال رہے غالباً نواب صاحب کی وفات کے بعد اپنے وطن موضع دبکا پیلی بھیت چلے آئے یہاں ایک مدرسہ چشمۂ فیض جاری کیا جو آٹھ برس تک قائم رہا مگر آخر میں باہمی اختلاف و انتشار کی وجہ سے بند ہوگیا۔ مولانا میں اتباع سنت کا جذبہ اور مسلک سلف کی پابندی کا داعیہ اور ان کی حیات مستعار کا جوہر اساسی تھا مولانا بہت نیک خدا ترس شب زندہ دار توکل علی اﷲ متقی مہمان نوازخلیق اور اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ تھے دعوت و تبلیغ میں ایک خاص اسلوب تھا جس سے سامعین بے حد متا ثر ہوتے تھے آپ کا مشن تھا کہ لوگ شرک و بدعت و خرافات ومنکرات ہندوانہ رسم و رواج سے توبہ کرلیں ۔ خالص کتاب و سنت کی تعلیمات کو اپنائیں کسی آمیزش کے بغیر سارے مسائل حیات کو کتاب و سنت کی روشنی میں حل کریں ۔ قبر پرستی تعزیہ پرستی شخصیت پرستی سے بچیں پہلے اپنی اور اپنے گھر کی اصلاح کریں آپ کا یہ مشن علاقہ کیلئے نہیں بلکہ سب کیلئے تھا ۔ 
ہمارا علاقہ شرک و بدعت کا گڈھ تھا ان اسلاف کرام و بزرگان دین نے جان توڑ کوشش کی اور ان کی کوششوں سے یہ علاقے ایسے سدھر ے جہاں علاقہ میں ایک دو موحد اہل حدیث نظر نہ آتے تھے وہاں چند مواضعات کو چھوڑ کر اکثر مواضعات بحمد اﷲ اہل حدیث ہوگئے۔ 
آپ کو اہل بدعات نے اس قدر تکلیفیں دیں کہ اہل و عیال کے ہمراہ لے جاکر جہاں بھی سکونت اختیار کی وہیں یہ جماعت درپے آزار ہوگئی اس لئے دربدری کی وجہ سے آپ بالکل بے مایہ ہوگئے اور آخر عمر نہایت عسرت و تنگی میں بسر ہوئی ۔ 
آخر میں آپ مع اہل و عیال ضلع گونڈہ حال ضلع بلرام پور کے معروف و مشہور موضع ہرہٹہ ۱؂ میں سکونت اختیار کرلی ۔ اہل ہرہٹہ نے آپ کی ہر طرح مدد فرمائی اور ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ ہرہٹہ میں آپ کو بڑی عزت ملی ۔ آپ کثیر الاولاد تھے بچپن میں ایک صاحبزادہ حکیم عبد اﷲ صاحب اور تین لڑکیوں کے علاوہ سب فوت ہو گئے تھے ۔ حکیم عبد اﷲ اور ان کے اہل و عیال ملک کے بٹوارے کے موقع پر پاکستان میں جاکر شہر سکھر میں آباد ہوگئے بٹوارہ کے بعد حکیم عبداﷲ ہرہٹہ دو تین بار بغرض ملاقات تشریف لائے مولانا محمد صاحب ہرہٹہ سے آخری لمحات میں موضع سنجھول آکر مستقلاً آباد ہو گئے تھے ۔ موضع سنجھول ہر ہٹہ خاندان کی ایک شاخ ہے موضع سنجھول تحصیل تلسی پور ہی میں آپ مورخہ ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۳۱؁ء میں انتقال کیا اور یہیں مدفون ہوئے۔ اﷲم اغفر لہ وارحمہ
تلامذہ: مولوی دین محمد نو مسلم ساکن شاہجہاں پوری ضلع میرٹھ مولوی ابو یحییٰ محمد عبد اﷲ مولوی سبحان اﷲ ، مولوی محمد عبد اﷲ عرف عبد القادر خاں قائم گنج ضلع فرخ آباد مولوی حکیم عبد الرحمن ساکن نسانواں ضلع پیلی بھیت وغیرہ ہیں چند رسالہ بھی لکھے جن میں بعض چھپ گئے تھے اور بعض کے 
۱؂ موضع ہرہٹہ ضلع بلرام پور تحصیل تلسی پور اٹوا روڈ پر تلسی پور سے دکھن جانب ۱۲ کلو میٹر پر یہ مشہور و معروف تاریخی موضع واقع ہے ۔ (عبد الرؤف خاں ندوی) 
مسودے قلت سرمایہ کی وجہ سے آپ کے صاحبزادہ حکیم محمد عبد اﷲ کے پاس تھے ان میں سے تحفۃ الاخوان بالاحادیث والقرآن قابل قدر رسالہ ہے کاش یہ کتاب شائع ہوجاتی ۔ 
 خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
والسلام 
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ۔ بلرام پور
۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۲؁ 

٭٭٭






استاذ الاساتذہ حافظ عبد اﷲ غازی پوری رحمہٗ اﷲ

(ولادت ۱۸۴۵؁ء وفات ۲۶؍نومبر ۱۹۱۸ء)
برصغیر ہندوپاک کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں لا تعداد عظیم شخصیات عالم وجود میں آئیں ، جن میں ایک عالی مرتبت شخصیت حضرت حافظ عبد اﷲ غازی پوری کے نام سے موسوم ہے ۔ درس و تدریس میں وہ اپنے دور کے ہندوستان میں بے حد شہرت رکھتے تھے ۱۲۶۱ھ (۱۸۴۵ء) میں ضلع اعظم گڑھ کے شہر مؤ میں پیدا ہوئے ، والد کا نام عبد الرحیم تھا اور دادا کانام دانیال تھا۔ 
حضرت حافظ عبد اﷲ ۱؂ غازی پوری غریب خاندان کے غریب فرد تھے ، پڑھتے بھی تھے اور ساتھ ساتھ مزدوری بھی کرتے تھے سب سے پہلے بارہ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا، اسی زمانے (۱۸۵۷ء) میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی شروع ہوگئی ، جسے انگریزی حکومت نے غدر کا نام دیا ۔ یہ نہایت اذیت ناک زمانہ تھا اور لوگ اپنے آبائی علاقوں سے نکل کر مختلف مقامات میں بکھر گئے تھے ۔ حافظ صاحب کے خاندان کو اپنے اصل مسکن مؤ سے نکلنا پڑا ۔ یہ لوگ وہاں کی سکونت ترک کرکے غازی پور آگئے ۔ حافظ صاحب نے غازی پور کے ’’ مدرسہ چشمہ رحمت میں ‘‘ مولوی رحمت اﷲ لکھنوی اور ان کے بڑے بھائی مفتی نعمت اﷲ سے ابتدائی درسی اور بعض متوسط درجات کی کتابیں پڑھیں ۔ یعنی شرح جامی، قطبی، اور اصول فقہ کی کتابوں کے بعض حصوں کا درس لیا۔
غازی پور مدرسہ کے ’’ چشمہ رحمت ‘‘ سے نکل کر جون پور پہونچے ۔ وہاں کے ’’ مدرسہ امام بخش ‘‘ کی مسند درس پر مفتی محمد یوسف فرنگی محلی لکھنوی متمکن تھے ۔ حافظ عبد اﷲ صاحب نے ان 
 ۱؂ جن کی ذات پر علم کو فخراور عمل کو ناز تھا تدریس جن کے دم سے زندہ تھی اساتذہ جن پر اس قدر نازاں کہ میاں محمد نذیر حسین محدث دہلوی فرمایا کرتے تھے میرے درس میں دو عبد اﷲ آئے ایک عبد اﷲ غزنوی دوسرے عبداﷲ غازی پوری (عبد الرؤف خاں ندوی) 
سے درسی کتابیں پڑھیں۔استاذمکرم اپنے اس شاگرد کی ذہانت پر نہایت خوش تھے ۔ چشمہ رحمت احناف کا مدرسہ تھا اور حافظ عبد اﷲ صاحب بھی اسی مسلک کے پابند تھے ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد اسی مدرسہ میں بطور مدرس ان کا تقرر ہوا۔ ان کے زمانۂ تدریس میں حنفی طلباء بھی ان کی خدمت میں آتے اور اہلحدیث طلبا بھی حاضر ہوتے تھے۔ اہلحدیث طلبا میں سید علی نعمت عظیم آبادی، مولانا محمد سعید بنارسی،مولانا عبد الرحمن مبارکپوری، مولانا عبد السلام مبارکپوری اور بعض دیگر طلبا شامل تھے جو حصول علم کیلئے حافظ صاحب کے درس میں شریک ہوئے ۔ بعض مسائل کی تحقیق میں اہلحدیث طلبا سے کبھی سوال وجواب کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا یہ سلسلہ کچھ آگے بڑھا تو حضرت حافظ صاحب کو تقلیدی مسائل پر غور کرنے کا موقع ملا ۔ اس کا ذکر مولانا ابو یحییٰ امام خاں نو شہروی اخبار’’اہلحدیث‘‘ (امرتسر) کے حوالے سے بہ روایت مولانا عبد السلام مبارکپوری ، ’’ تراجم علمائے حدیث ہند‘‘ میں مندرجہ ذیل الفاظ میں کرتے ہیں ۔
’’ مولانا حافظ عبد اﷲ صاحب غازی پوری فرماتے ہیں یہ لوگ (اہلحدیث طلبا) فقہ حنفی پر مناقشات کرتے اور تحقیق کا پہلو ڈھونڈھتے ۔ میں اس سے پہلے کئی بار قفہ و اصول فقہ پڑھا چکا تھا ۔ پہلے میں تو اسی قدیم روش کے مطابق جیسے کوئی ادھار کھائے بیٹھا ہو ، خوامخواہ ہر ایک مسئلہ ، ہر ایک بات، ہر ایک اصول کا ، اگرچہ وہ تحقیق سے گرا ہوا ہو ، جواب دیتا رہا۔ پھر میں نے سوچا کہ جو بات تحقیق سے گری ہوئی ہے ، خواہ مخواہ اس کی تائید کرنا تو عدل و عقل دونوں سے بعید ہے ، اور احادیث سے متعلق یہ کہہ دینا کہ یہ شوافع کے موافق ہیں اور یہ حنفیوں کے جیسا کہ عام دستور ہے ، نہایت غلط طریق ہے ، اور یہ اصولی لوگ بھی ہمارے جیسے ہی انسان تھے ، اور انہی نصوص سے جو ہمارے سامنے موجود ہیں ، ان اصول کو مستنبط کرتے تھے، علاوہ بریں یہ اصول بھی اس لئے بنائے گئے ہیں کہ ان سے کام لیا جائے ۔ پس ان خیالات کی وجہ سے خود بخود تقلید سے کنارہ کشی اور علم حدیث کی طرف توجہ ہوتی گئی۔‘‘ ۱؂
مولانا حافظ عبد اﷲ غازی پوری مزید فرماتے ہیں :۔
’’انہی دنوں میں نے یہ خواب دیکھا کہ ایک مقام میں اژدحام کثیر ہے ۔ لوگ بکثرت چلے جارہے ہیں اور مصافحہ کیلئے کوشش کررہے ہیں ۔ کسی نے کہا کہ سیدنا حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ تشریف رکھتے ہیں ۔ لوگ آپ سے شرفِ مصافحہ حاصل کررہے ہیں ۔ میں نے دیکھا ایک شخص اژدحام سے باہر نکلا ۔ میں نے پوچھا کیا تم نے شرفِ مصافحہ حاصل کرلیا ہے ؟اس نے کہا ہاں ۔ میں نے کہا مہربانی سے وہ اپنا ہاتھ مجھے دیدو ، میں بھی مشرف ہو جاؤں اور برکت حاصل کرلوں ۔ اس نے ہمت دلائی اور کہا کہ واسطے کی کیا ضرورت ہے ۔ تم خود ہمت کرکے آگے بڑھو اور اژدحام سے دل میں کچھ بھی ہراس نہ لاؤ ، بلا واسطہ شرف مصافحہ حاصل کرو ۔ چنانچہ اس کے ہمت دلانے پر میں آگے بڑھا اور جناب سید نا محمد ﷺ سے بلا واسطہ مصافحہ اور برکت حاصل کی ۔ اس پر میں نے اس شخص کا جس نے ہمت دلائی تھی ، شکریہ ادا کیا اور مجھے نہایت مسرت حاصل ہوئی ۔ بیدار ہوا تو وہی مسرت وہی سماں دل میں باقی تھا۔
’’ اس خواب کی تعبیر میں نے یہ سوچی کہ اﷲ سبحانہ تعالیٰ نے مجھے بذریعہ اس خواب کے متنبہ فرمایا ہے کہ عمل بالسنہ اور علم حدیث اور تحقیق مسائل کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے اور خواہ مخواہ کی تقلید سے پرہیز کرنا چاہیئے‘‘
پھر جب تقلید کو ترک کرکے حضرت حافظ صاحب نے براہِ راست قرآن و حدیث پر عمل کرنے کا عزم فرمایا اور اس کا آغاز بھی کر دیا تو انہیں کن حالات کا سامنا کرنا پڑا؟ اس کا جواب خو د حضرت حافظ صاحب ہی کی زبانِ مبارک سے سنیے ٔ فرماتے ہیں:
۱؂اخبا اہلحدیث (امرتسر) ج:۱۷ ص ۱۶۷۔ بروایت مولانا عبد السلام مبارکپوری
’’ جب عمل بالسنہ شروع کیا تو میں ان دنوں (غازی پور میں) کوتوالی مسجد کا امام تھا ۔ شہر میں بڑی عزت تھی کہ مدرسہ ’’چشمۂ رحمت‘‘ میں مدرس تھا ۔ مغرب کی نماز میں مسجد بازار کے اندر واقع ہونے سے بڑا اژدحام ہوا کرتا تھا ۔ میں نے نماز میں بلند آواز سے آمین پکاری۔ تمام مقتدی میرے پیچھے سے ہٹ گئے اور مجھے سخت سست بولنے لگے ، مگر میں نے اپنی نماز اسی اطمینان سے ختم کی۔ اگرچہ لوگوں نے زبان درازیاں کیں ، مگر کوئی ضرر نہ پہنچاسکا۔
’’ جناب مولوی رحمت اﷲ صاحب بانی مدرسہ’’چشمۂ رحمت ‘‘ بڑے سنجیدہ تھے اور تجربہ کار آدمی تھے ۔ جب تک وہ حیات رہے ، برابر میری تائید فرماتے رہے ۔‘‘
معلوم ہوا کہ مدرسہ چشمۂ رحمت کی تدریس کے زمانے ہی میں حضرت حافظ صاحب نے عمل بالسنہ کا سلسلہ شروع فرمادیا تھا اور اس مدرسہ کے بانی مولوی رحمت اﷲ اسے صحیح قرار دیتے اور حضرت حافظ صاحب کے اس ضمن میں موید تھے۔
پھر وقت آیا کہ حضرت حافظ صاحب مدرسہ چشمۂ رحمت کی تدریس سے علےٰحدہ ہوگئے اور دہلی جاکر حضرت میاں سید نذیر حسین رحمہ اﷲ کے حلقۂ درس میں شمولیت فرمائی ۔ میاں صاحب سے تفسیر وحدیث کی کتابیں پڑھیں ۔ اس کے بعد پھر غازی پور کے اسی مدرسہ چشمۂ رحمت میں تشریف لائے ، جہاں سے دہلی گئے تھے ۔ اب وہ اس مدرسہ کے مدرس اعلیٰ کے منصب پر فائز تھے اور طلبا کی کثیر تعداد ان سے مصروفِ استفادہ تھی۔
مولانا فرنگی محلی اس دور کے بہت بڑے حنفی عالم تھے ، جن سے حضرت حافظ عبد اﷲ غازی پوری کے مراسم قائم تھے ۔ ان دونوں بزرگوں کے درمیان ایک مرتبہ نماز میں رفع الیدین کے متعلق گفتگو ہوئی، اس کا ذکر سید سلیمان ندوی اپنے بھائی کے حوالے سے ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔ 
’’ میرے برادر معظم صاحب حافظ صاحب کے تلامذہ میں سے ہیں ۔ ان کا بیان ہے کہ فاضل لکھنوی مولانا عبد الحئی فرنگی محلی نے ایک بار جناب حافظ صاحب سے پوچھا کہ آپ نے رفع الیدین عند الرکوع و عند رفع الراس من الرکوع کیوں اختیار کیا؟ جناب حافظ صاحب نے آبدیدہ ہوکر فرمایا مولانا آپ بھی پوچھتے ہیں ۔ یہ سن کر مولانا عبد الحئی خاموش ہوگئے‘‘ ۱؂
علما ء و طلبا کے حلقوں میں حضرت حافظ صاحب کے سلسلہ درس اور طریق تدریس کی بڑی شہرت تھی ۔ نہایت انہماک اور لگن سے پڑھاتے تھے ۔ اگر کسی طالب علم کا دن کو کسی وجہ سے ناغہ ہوجاتا تو رات کو پڑھا دیتے یا کسی اور وقت میں یہ کمی پوری فرما دیتے۔ تفسیر ، حدیث، عربی ادبیات اور اصول حدیث وغیرہ علوم پر عبور تھا ہی، منطق اور دیگر علوم میں بھی مہارت رکھتے تھے ۔ اس کی مثالیں ذیل میں بیان کی جاتی ہیں۔ 
(۱) …… مولانا ابو النعمان عبد الرحمن مؤی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حافظ صاحب سے عرض کیا کہ جناب نے صدرا ، قاضی مبارک اور ہدایہ کتنی مرتبہ پڑھائی ہوں گی؟ فرمایا صحیح طور سے تو یاد نہیں، مگر تیس چالیس مرتبہ سے کم کیا پڑھائی ہوں گی۔ 
(۲)……صاحب عون المعبود علامہ شمس الحق نے چند علماء کے سامنے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ میرے کتب خانے میں منطق کی ایک بہت پرانی کتاب تھی ۔ عبارت کی پیچیدگی کے ساتھ مسائل منطقیہ کا بیان کچھ ایسا تھا کہ کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی ۔ جناب حافظ صاحب اتفاق سے ڈیانواں تشریف لائے میں نے وہ کتاب دکھا کر کہا کہ یہ چیستان معلوم ہوتی ہے ۔ حافظ صاحب کتاب کے چند اوراق الٹ پلٹ کر دیکھے توفرمایا ۔ کوئی ایسی بات نہیں ۔ مسائل وہی ہیں ، عبارت ذرا پیچیدہ ہے ۔ اس کے ساتھ ہی مضامین کا مطلب عام فہم الفاظ میں بیان فرما دیا ۔ ۲؂
۱؂ تراجم علمائے حدیث ہند، ص:۴۶۰۔بحوالہ اخبار اہلحدیث (امرتسر) ج:۱۷ ص ۱۶۸ 
۲؂ تراجم علمائے حدیث ہند، ص:۴۶۰،۴۶۱
حافظ صاحب کئی برس غازی پور کے مدرسہ چشمۂ رحمت میں درس دیتے رہے ۔ اس وقت اس شہر میں تقلید کے دلدادہ احناف کا غلبہ تھا ۔ البتہ مولوی رحمت اﷲ ( بانی مدرسہ) اعتدال پسند تھے ۔ ایک بزرگ وہاں شاہ امانت اﷲ صاحب اقامت فرما تھے ، وہ توحید کے نام لیواؤں اور متبعین سنت کے سخت مخالف تھے۔ ان کی وجہ سے حافظ صاحب کو بہت سی اذیتوں میں مبتلا کیا گیا ۔ وہاں کی مسجد اہلحدیث پر بھی ان لوگوں نے قبضہ کرلیا ۔ بالآخر مولانا عبد العزیز رحیم آبادی اور مولانا ابو محمد ابراہیم آروی کے اصرار پر حافظ صاحب نے مدرسہ احمدیہ آرہ کی مسند درس سنبھالی ۔ بیس سال وہاں ان کا سلسلہ درس جاری رہا۔
مولانا ابو محمد ابراہیم آروی سفر آخرت پر روانہ ہوگئے تو حضرت حافظ صاحب کو دہلی کے اصحاب علم نے اپنے ہاں بلا لیا ۔ یہ حضرت مولانا محمد بشیر سہسوانی کی وفات کے بعد کا واقعہ ہے ۔ وہ آٹھ سال دہلی رہے ۔ وہاں ان کے معمولات مولانا ابو یحےٰی امام خاں نوشہروی کے بقول یہ تھے۔ 
٭…… صبح حوض والی مسجد (نئی سڑک) میں درس قرآن دیتے، جس میں بے شمار لوگ شامل ہوتے اہل حدیث بھی اور احناف بھی ۔ وہاں بعض شائقین علم ان سے درسی کتابیں بھی پڑھتے ۔
٭…… اس کے بعد نماز ظہر تک مدرسہ ریاض العلوم( نزد جامع مسجد) میں طلبا کو مستفید فرماتے۔
٭…… نماز ظہر کے بعد مدرسہ علی جان (متصل گھنٹہ گھر) میں سلسلۂ تدریس شروع ہوجاتا۔ ترجمے کے وقت تلاوت قرآ ن کی سعادت مولانا محمد یونس دہلوی پرتاپگڑھی کو حاصل ہوتا۔
  دہلی میں یہ سلسلہ آٹھ سال تک نہایت باقاعدگی کے ساتھ جاری رہا۔ لیکن اس کے بعد یہ ہوا کہ لکھنؤ میں ان کے ایک قریبی عزیز خان بہادر ڈاکٹر عبد الرحیم وفات پاگئے ۔ ان کی تعزیت کیلئے لکھنؤتشریف لے گئے ۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کے چھوٹے چھوٹے یتیم بچے تھے ۔ ان کی نگرانی اور تعلیم وتربیت کیلئے وہ وہیں کے ہو رہے۔ لیکن وہاں بھی دارالعلوم ندوۃ العلماء کے اونچے درجوں کے طلبا ان سے تحصیل علم کرتے رہے۔ 
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ۲۲، ۲۳ ؍دسمبر ۱۹۰۶؁ء کو ہندوستان کے صوبہ بہار کے شہر آرہ میں وہاں کے مدرسہ احمدیہ کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا تھا، جس میں ملک کی جماعت اہل حدیث کے بہت سے علمائے کرام شامل ہوئے تھے۔ اسی موقع پر جماعت کو منظم کرنے کی غرض سے آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ یہ جماعت اہل حدیث کی پہلی ملک گیر تنظیم تھی۔ اس کے صدر حضرت حافظ عبد اﷲ غازی پوری کو بنایا گیا تھا اور ناظم اعلیٰ مولانا ثناء اﷲ امرتسری تھے۔
حضرت حافظ نے طویل عرصے تک خدمت تدریس انجام دی ۔ ان کے تلامذہ کی فہرست بہت وسیع ہے ، جس میں بر صغیر کے مشاہیر علمائے عظام شامل ہیں، جنھوں نے آگے چل کر درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے مختلف زاویوں میں بے پناہ خدمات سر انجام دیں ۔ ان میں سے چند حضرات کے اسمائے گرامی یہاں درج کئے جاتے ہیں۔
مولانا محمد سعید بنارسی، شا ہ عین الحق پھلواروی، سید علی نعمت پھلواروی، مولانا عبد الرحمن مبارکپوری، مولانا عبدالسلام مبارکپوری، مولانا محمد اسماعیل جونپوری، مولانا عبدالوہاب پیغمبر پوری، مولانا ابو بکر محمد شیث جون پوری ( سابق استاذ دینیات مسلم یونیوسٹی علی گڑھ) مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا فضل الرحمن ( سابق پروفیسر عالیہ کلکتہ) مولانا محمد اسحاق آروی۔ 
حضرت حافظ صاحب نے مختلف موضوعات پر کتابیں بھی تصنیف کیں جو مندرجہ ذیل ہیں :
(۱)…… ابراء اہل حدیث والقرآن 
(۲) …… مقدمہ صحیح مسلم : یہ مقدمہ عربی زبان میں ہے ۔
(۳)…… تسہیل الفرائض : یہ کتاب علم میراث کے موضوع پر ہے۔
(۴)…… منطق : یہ ایک رسالہ ہے جو اردو زبان میں ہے۔
(۵)…… فصول احمدی: یہ علم صرف میں ہے۔
(۶) …… النحو : علم نحو میں۔
(۷)…… مسئلہ زکوٰۃ : اردو میں 
(۸)…… ایک رسالہ رکعت تراویح کے متعلق لکھا۔
حضرت حافظ عبد اﷲ صاحب غازی پوری نے ۲۱؍صفر ۱۳۳۷ھ ( ۲۶؍نومبر۱۹۱۸ء) کو لکھنؤ میں رحلت فرمائی ۔ قمری حساب سے تقریباً ۷۷ برس کی عمر پائی۔ اس زمانے کے اخبار اہل حدیث (امرتسر) میں ان کے متعلق بہت کچھ شائع ہوا ہوگا، لیکن وہ ہمارے سامنے نہیں ہے۔
حافظ صاحب غازی پوری کا ذکر نزہۃ الخواطر میں حکیم سید عبد الحئی حسنی نے بھی کیا ہے ۔ ان کے عربی الفاظ کا اردو ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’ شیخ، صالح،علامہ عبد اﷲ بن عبد الرحیم بن دانیال مؤی اعظم گڑھی ثم غازی پوری ۔ حدیث و فقہ کے ماہر علماء میں سے تھے ۔ ۱۲۶۱ھ میں مؤ میں پیدا ہوئے جو ضلع اعظم گڑھ کا ایک شہر ہے ۔ پہلے قرآن حفظ کیا ۔ پھر حصول علم کیلئے غازی پور گئے وہاں مولوی رحمت اﷲ لکھنوی اور ان کے بڑے بھائی مفتی نعمت اﷲ سے بعض درسی کتابیں پڑھیں ۔ پھر جون پور کو روانہ ہوئے ، وہاں مدرسہ امامیہ حنفیہ میں مفتی محمد یوسف بن محمد اصغر لکھنوی سے استفادہ کیا ۔ بعد ازاں دہلی جاکر ہمارے شیخ سیدمحمد نذیر حسین محدث دہلوی سے کتب حدیث پڑھیں اور ان سے خوب اخذ فیض کیا ۔ ۱۲۹۷ھ میں سرزمین حجاز کا سفر کیا اور حج و زیارت سے بہرہ ور ہوئے ۔ وہاں قاضی محمد بن علی شوکانی کے تلمذ شیخ معمر عباس بن عبد الرحمن یمنی سے ملاقات ہوئی اور ان سے سند حدیث لی ۔ پھر واپس ہندوستان تشریف لائے اور غازی پور میں سکونت اختیار کی۔ پچیس سال سے زیادہ عرصہ غازی پور اور عظیم آباد کے قریب کے ایک گاؤں دیانواں اور آرہ میں مشغول درس و تدریس رہے۔ اس اثنا میں ان سے لا تعداد تشنگان علوم نے تفسیر و حدیث اور مختلف علوم کی تحصیل کی۔ 
فراوانیٔ علم اور کثرتِ درس و افادہ کے ساتھ ساتھ ، فقاہت اور زہد و تقویٰ کی دولت سے مالا مال تھے۔ دنیا اور اس کے مال ومتاع سے کوئی رغبت نہ تھی ۔ براہِ راست حدیث پر عامل تھے ۔ کسی امام کی تقلید نہیں کرتے تھے ۔ اﷲ کی سیدھی راہ پر گامزن ہونے کی بناپر انھیں لوگوں کی طرف سے تکلیفیں پہونچائی گئیں اور اپنے شہر غازی پور سے انھیں نکال دیا گیا ۔ پھر صوبہ بہار کے شہر آرہ میں چلے گئے اور وہاں درس و تدریس کی خدمت انجام دینے لگے ۔ مولانا محمد بشیر سہسوانی کی وفات کے بعد انھیں دہلی کے لوگوں نے دہلی بلا لیا ۔ وہاں بھی مدت تک ان کا سلسلۂ درس جاری رہا۔ 
حکیم سید عبد الحئی حسنی فرماتے ہیں :
’’ بعد ازاں حافظ صاحب لکھنؤ تشریف لے گئے اور اپنے یتیم عزیزوں کی تعلیم وتربیت کی غرض سے اسی شہر میں مقیم ہو گئے ۔ وہ مجھ سے بے حد محبت کرتے تھے اور ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ میرے پاس تشریف لاتے تھے۔ میری اقتدا میں نماز جمعہ پڑھتے تھے ان کی زندگی کی آخری بیماری میں ، میں ان کا معالج تھا۔ بارگاہ الہی سے ان کی برکات ہمارے لئے نفع بخش ہوں ، آمین۔
انھوں نے متعدد کتابیں تصنیف کیں ، جن میں سے ایک علم صرف میں ، ایک علم نحو میں ، ایک منطق میں ، ایک وراثت میں، اور ایک مسئلہ ٔ تر اویح کی تحقیق کے بارے میں ہے ۔
انھوں نے منگل کے روز دن کے آخری حصہ میں ۲۱؍ صفر ۱۳۳۷ھ کو لکھنؤ میں وفات پائی اور نماز عشاء کے بعد قبرستان عیش باغ میں انھیں دفن کیا گیا۔ ‘‘ ۱؂ 
علامہ سید سلیمان ندوی نے دسمبر ۱۹۱۸ء کے ’’ معارف‘‘ (اعظم گڑھ ) میں ’’ مولانا حافظ 
۱؂ نزہۃ الخواطر ،ج :۸ ص: ۳۰۶،۳۰۷
عبد اﷲ غازی پوری‘‘ کے عنوان سے ان کی وفات پر تعزیتی شذرہ لکھا جو بعد میں ان کی کتاب ’’ یاد رفتگاں‘‘ میں چھپا یہ شذرہ ذیل میں درج کیا جا رہا ہے۔ 
جناب مولانا عبد اﷲ صاحب غازی پوری کا واقعۂ وفات علما کے طبقہ میں خاص حیثیت سے اثر انگیز ہے ۔ مولانا مرحوم نے گو طبعی عمر پائی ، لیکن اس خیال سے کہ وہ اس عہد میں اگلی صحبتوں کی تنہا یادگار تھے ، ہم ان کیلئے اس سے دراز عمر کے متوقع تھے۔ مولانا اتباع سنت ، طہارت و تقویٰ ، زہد وورع، وسعت نظر اور کتاب و سنت کی تفسیر و تعبیر میں یگانۂ عہد تھے ۔ اپنی عمر کا بڑا حصہ انھوں نے علوم دینیہ خصوصاً قرآن مجید اور حدیث شریف کے درس و تدریس میں گذرا اور سیکڑوں طلبا ان کے فیض تربیت سے علما بن کر نکلے ۔ ابتداء ً چشمۂ رحمت غازی پور میں ، پھر مدرسہ احمدیہ آرہ میں اپنی مسند درس بچھائی ۔ آخر عمر میں دہلی کے دارالحدیث میں قیام فرمایا ، لیکن خانگی حوادثات کے باعث پریشان حال رہے۔ اب افسوس کہ یہ شمع نور و ہدایت ۲۱؍صفر۱۴۳۷ھ مطابق ۲۶؍نومبر۱۹۱۸؁ کو ہمیشہ ہمیش کیلئے بجھ گئی۔ رحمہ اﷲ تعالیٰ
’’ مجھے لکھنؤ میں مولانا سید عبد الحئی صاحب ناظم ندوہ کی قیام گاہ پر مولانا سے ملاقات کی سعادت ایک دو دفعہ حاصل ہوئی۔ دبلے پتلے ، نحیف، داڑھی کے بال خفیف، سادی وضع ، صورت سے متواضع اور حلیم معلوم ہوتے تھے۔
’’ مرحوم کا اصلی وطن گو مؤ ضلع اعظم گڑھ تھا ۔ مگر قیام بیشتر غازی پور میں رہا ، اسلئے غازی پوری کے نام سے شہرت پائی۔ ابتدائی تعلیم چشمۂ رحمت غازی پور میں ہوئی ۔ یہاں مولوی رحمت اﷲ صاحب غازی پوری اور مولوی فاروق صاحب چریا کوٹی سے پڑھا ۔ پھر جون پور جاکر مدرسہ امام بخش میں مفتی محمد یوسف صاحب فرنگی محلی سے درسیات پڑھیں اور آخر میں حدیث کی کتابیں مولانا سید نذیر حسین دہلوی سے پڑھیں اور مسلک میں انہی کی تعلیم کا اثر ان پر غالب ہوا‘‘۔ ۱؂ 
 ۱؂ یاد رفتگاں ص :۳۸،۳۹ (بشکریہ ماخوذ کتاب گلستان حدیث از مولانا محمد اسحق صاحب بھٹی حفظہ اﷲ تعالیٰ )
 مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارکپوری رحمہ اﷲ 
صاحب تحفۃ الاحوذی 
صوبہ یوپی کے ضلع اعظم گڑھ کا ایک مشہور قصبہ مبارکپور ہے ۔ اس قصبہ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ طویل مدت سے علم اور اصحاب علم کے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں ایک انصاری خاندان آباد ہے ، جسے اﷲ تعالیٰ نے علم کے ساتھ عمل کی نعمت عظمیٰ بھی عطا فرمائی ہے اس خاندان کی جس عالی قدر شخصیت کے متعلق ان سطور میں چند گزارشات پیش کرنا مقصود ہے ، ان کا اسم گرامی حضرت مولانا محمدعبد الرحمن تھا اور کنیت ابولعلیٰ تھی۔ والد کا نام نامی حافظ عبد الرحیم اور جدامجد کا حاجی بہادر تھا۔ حاجی شیخ بہادر دیانت و اتقا کے اعتبار سے اس قصبے کے ممتاز فرد تھے ۔ ۱؂
 حافظ عبد الرحیم مبارکپوریؒ
حاجی شیخ بہادر کے صاحبزادے حافظ عبد الرحیم تھے ، انھیں بھی بارگاہِ خداوندی سے ممتاز مقام ودیعت فرمایا گیا تھا۔ وہ ’’بڑے حافظ صاحب‘‘ کے عرف سے معروف تھے ۔ انھوں نے قرآن مجید کی قرأۃ و تجوید کا علم قاضی امام الدین جون پوری سے حاصل کیا تھا جو اپنے عہداور علاقے میں اس فن کے بہت بڑے عالم تھے ۔ پھر اس مرتبۂ کمال کو پہونچے کہ جب تک مبارک پور اور اس کے قرب و جوار کا کوئی شخص حفظ قرآن کے بعد حافظ عبد الرحیم کو قرآن مجید نہ سنا لیتا، اسے پورا حافظ قرآن نہیں قرار دیا جاتا تھا ۔ اس اعتبار سے کہنا چاہئے کہ اس عہد میں اس نواح کے تمام حفاظ ان کے شاگرد تھے۔ ۲؂ 
حافظ عبد الرحیم صاحب اپنے علاقہ کے مشہور طبیب بھی تھے اور نامور عالم دین بھی۔ 
۱؂ تذکرہ علمائے مبارکپور، ص ۱۴۵
۲؂ مولانا عبد الرحمن مبارکپوری حیات و خدمات،ص:۴۱
انھوں نے حدیث و فقہ ، منطق و فلسفہ اور صرف ونحو وغیرہ علوم مروجہ اپنے دور کے مشاہیر اساتذہ سے حاصل کئے تھے ، جن میں قاضی محمد مچھلی شہری، مولانا محمد فیض اﷲ مؤی اور ملا محمد حسام الدین مؤی کے اسمائے گرامی خاص طور سے لائق تذکرہ ہیں ۔ مؤخر الذکر دونوں حضرات کے سامنے انھوں نے غازی پور کے مدرسہ چشمۂ رحمت سے زانوئے شاگردی تہ کئے تھے۔ 
حصول علم کے بعد حافظ عبد الرحیم مبارک پوری نے مبارک پور میں خود سلسلۂ تدریس جاری کیا ۔ ان کے شاگردوں میں حافظ شاہ نظام الدین سریانوی اور سیرۃ البخاری کے مصنف شہیر مولانا عبد السلام مبارک پوری شامل ہیں ۔ 
مبارکپور اور اس کے مضافات میں مسلک اہل حدیث کی نشرو اشاعت میں حضرت حافظ عبد الرحیم مبارکپوری کی کو ششوں کا بڑا دخل ہے ۔ وہ مسلک کے بہت بڑے داعی اور مبلغ تھے۔ انھوں نے رمضان المبارک ۱۳۳۰ھ ( ستمبر ۱۹۱۲ء) میں وفات پائی۔ 
اولاد نرینہ
حضرت حافظ عبد الرحیم مبارکپوری کے تین بیٹے تھے ۔ سب سے بڑے شیخ محمد علی ، ان سے چھوٹے حکیم محمد شفیع اور سب سے چھوٹے مولانا عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اﷲ علیہم یوں تو شیخ محمد علی اور حکیم محمد شفیع کو بھی اﷲ تعالیٰ نے علم و صالحیت کے جوہر سے نوازا تھا ، لیکن آئندہ سطور میں صرف ان کے برادر اصغر حضرت مولانا ابوالعلی محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اﷲ کے علمی و تصنیفی کوائف معرضِ بیان میں لانا مقصود ہے ۔
ولادت اور تعلیم 
حضرت مولانا عبد الرحمن مبارکپوری کی ولادت ۱۲۸۳ھ ( ۱۸۶۵ء) میں ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ مبارک پور کے محلہ صوفی پورہ میں ہوئی۔ ان کا گھرانہ شرف ومجد اور فضل وکمال کا گھرانہ تھا تھا اور اس گھرانے کے افراد تقویٰ و عرفان کی دولت سے مالا مال تھے۔ مولانا ممدوح نے اسی پاکیزہ ماحول میں تربیت پائی اور انہیں خوشگوار فضاؤں میں حصول علم کی راہ پر گامزن ہوئے۔ 
آغاز تعلیم 
قرآن مجید اورعربی و فارسی کی ابتدائی کتابیں اپنے محلے کے مدرسے میں پڑھیں ۔ اس کے بعد قرب و جوار کے اہل علم سے استفادہ کیا، جن میں مولانا خدا بخش مہراج گنجی ( متوفی ۱۳۳۳ھ) مولانا فیض اﷲ مؤی (متوفی ۱۳؍ربیع الاول ۱۳۱۶ھ) مولانا محمد سلیم پھرہاوی ( متوفی۱۳۲۴ھ) مولانا حسام الدین مؤی(متوفی ۱۳۱۰ھ) اور مولانا سلامت اﷲ جیراج پوری ( متوفی ۳۰ ربیع الاول ۱۳۲۳ھ) شامل ہیں ۔ ان گرامی قدر اساتذہ سے حضرت مولانا نے فارسی ادب و انشا، صرف و نحو ، فقہ و اصول اور منطق وغیرعلوم کی کتابیں پڑھیں۔ 
تحصیل علم کے لئے سفر
جب عمر کی کچھ منزلیں طے کر چکے اور مختلف علوم متداولہ کی بعض کتابیں قرب وجوار کے اساتذہ سے پڑھ لیں تو اپنے مسکن سے باہر قدم نکالا ۔ اس زمانے میں مبارک پور سے کچھ فاصلے پر دو مشہور مدرسہ تھے ایک جونپور میں احناف کا مدرسہ تھا جو وہاں کے رئیس منشی امام بخش نے مولاناسخاوت علی کی تحریک پر ۱۲۶۷ھ میں جاری کیا تھا ۔ اس سے پہلے صدر مولانا عبد الحلیم فرنگی محلی تھے۔ ان کے بعد ۱۲۷۷ھ میں اس کے صدر مدرس مولانا محمد یوسف فرنگی محلی کو مقرر کیا گیا تھا۔ مولانا فضل حق خیرآبادی کے ممتاز شاگرد مولانا ہدایت اﷲ خاں رام پوری بھی اس کے صدر مدرس بنائے گئے تھے۔ 
دوسرا مدرسہ چشمۂ رحمت تھا جو غازی پور میں مولانا رحمت اﷲ فرنگی محلی نے ۱۸۶۹ء میں شہر کے وسط میں پانچ روپئے ماہ وار کرائے کا مکان لے کر جاری کیا تھا ۔ تھوڑے عرصے میں اس مدرسہ نے شہرت حاصل کرلی تھی اور یوپی اور بہار کے دور دراز علاقوں سے شائقین علم آکر اس میں تحصیل علم کرنے لگے تھے۔ مدرسہ چشمۂ رحمت میں عربی، فارسی، اردو کے علاوہ ہندی، سنسکرت اور انگریزی کی بھی ابتدائی تعلیم دی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں مسلمان طلبا کے علاوہ ہندو طلبابھی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اس کے اساتذہ کی عالی قدر جماعت میں حضرت مولانا حافظ عبداﷲ غازی پوری جیسے اکابر اصحابِ علم شامل تھے جو طلبا کو تفسیر، حدیث،فقہ، ادب اور معانی و بیان کی کتابیں پڑھاتے تھے ۔ یعنی منقولات و معقولات کی تعلیم کا پورا انتظام تھا۔ حضرت مولانا مبارک پوری پانچ سال یہاں حضرت حافظ عبد اﷲ غازی پوری رحمۃ اﷲ علیہ سے حصول علم میں مشغول رہے۔ حضرت مولانا رحمۃ اﷲ علیہ کے والد مکرم حافظ عبد الرحیم مرحوم مغفور بھی مدرسہ چشمۂ رحمت سے فیض یاب تھے۔
حضرت میاں صاحب کی خدمت میں 
حضرت مولانا مبارک پوری نے مدرسہ چشمۂ رحمت میں حضر ت حافظ عبد اﷲ غازی پوری سے خوب استفادہ کیا۔ وہ بھی لائق شاگرد کی صلاحیت سے بہت متاثر تھے اور ان پر بے حد شفقت فرماتے تھے۔ اسی تاثر و شفقت کا نتیجہ تھا کہ حضرت استاذ نے علم کے اس بے پناہ شائق شاگرد کو حضرت میاں سید نذیر حسین رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں دہلی جانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ انھوں نے دہلی کے لئے شد رحال کیا اور حضرت میاں صاحب کے حلقہ درس میں شامل ہوئے۔ یہ ۱۳۰۶ھ کا واقعہ ہے ۔ اس وقت حضرت مولانا مبارک پوری عالم شباب میں تھے اور حضرت میاں صاحب رحمۃ اﷲ علیہ عمر مبارک کی ۸۶ منزلیں طے کرچکے تھے ۔ حضرت میاں صاحب سے انھوں نے صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد، اواخر نسائی، اوائل ابن ماجہ ، مشکوٰۃ المصابیح، بلوغ المرام ، تفسیر جلالین ، تفسیر بیضاوی ، اوائل ہدایہ اور نخبۃ الفکر کا اکثر حصہ پڑھا۔ نیز سوا چھ پاروں کا ، قرآن مجید کا ترجمہ سنایا اور کتب مذکور کے علاوہ دیگر کتب حدیث و تفسیر اور فقہ کی سند حاصل کی۔ سند کے آخر میں حضرت میاں صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے یہ الفاظ تحریر فرمائے۔ 
واوصیۃ بتقوی اﷲ تعالیٰ فی السر والعلانیۃ واشاعۃ السنۃ السنیۃ بلا خوف لومۃ لائم حرر ۱۳۰۶ الہجریۃ المقدسۃ ۱؂
مقدمہ تحفۃ الاحوذی میں حضرت میاں صاحب رحمہٗ اﷲ کے متعلق مرقوم ہے : 
ہو بخاری زمانہ فی علوم الحدیث و فقہہ وابو حنیفۃ اوانہ فی الاجتہاد و شروطہ، و سیبویہ دورانہ فی العربیۃ ، وجرجانی ایامہ فی البلاغۃ، و شبلی عصرہٖ فی السلوک والعرفان والارشاد، وابن ادہم دہرہٖ فی الزہد واستحقار الدنیا، وابن حنبل ابانہ فی الورع والتقویٰ والقول بالحق والصبر علی المکارہ۔ اٰیۃمن آیات اﷲ و حجۃ من حجج اﷲ ۔ ۲؂ ’’ یعنی حضرت میاں صاحب علوم حدیث اور اس کی فقاہت میں اپنے وقت کے امام بخاری، اجتہاد میں ابو حنیفہ ، عربیت میں سیبویہ، بلاغت میں جرجانی، سلوک اور عرفان وارشاد میں شبلی، زہد و تقویٰ میں ابن ادہم اور صبر واستقامت اور راست بازی میں احمد بن حنبل تھے‘‘۔ ( رحمہٗ اﷲ)
حضرت میاں صاحب رحمۃ اﷲ علیہ موضع سورج گڑھ ( ضلع مونگیر، صوبہ بہار) میں (۱۸۰۵ء) میں پیدا ہوئے اور ۱۰؍رجب ۱۳۲۰ھ(۱۳؍اکتوبر ۱۹۰۲ء) کو دہلی میں وفات پائی۔ بے شک وہ شیخ العرب والعجم تھے ان سے بے شمار علماء و طلبا نے علمی اور روحانی فیض حاصل کیا۔ 
دیگر اصحاب فضل سے حصول اسناد
۱۳۱۳ھ میں حضرت مولانا مبارک پوری رحمہ اﷲ نے اپنے والد مکرم حافظ عبد الرحیم کے استاذ محترم مولانا محمدبن عبد العزیز مچھلی شہری سے سند لی۔ وہ بیک واسطہ امام شوکانی رحمہٗ اﷲ
۱؂ سند کی پوری عبارت کیلئے ملاحظہ ہو ، تحفۃ الاحوذی، ج :۱، ص :۱
۲؂مقدمہ تحفۃ الاحوذی کے آخر میں ص۲( ترجمۃ المولف رحمۃاﷲ علیہ از مولاناعبدالسمیع مبارک پوری)
کے شاگرد تھے یہ سلسلہ سند اس طرح ہے:
ابوالعلی محمد عبد الرحمن مبارک فوری عن علامۃ محمد بن عبد العزیز المدعو بالشیخ محمد الہاشمی الجعفری عن الشیخ ابی الفضل عبدالخالقالبنارسی عن امام المحدثین القاضی محمد بن علی الشوکانی۔
مولانا محمد ہاشمی جعفری ۲۱۵۲ھ کو پیدا ہوئے اور ۱۳؍ جمادی الاخریٰ ۱۳۲۰ھ کو فوت ہوئے۔
۱۳۱۴ھ میں قیام آرہ کے زمانے میں مولانا عبد الرحمن مبارک پوری نے شیخ العرب والعجم قاضی حسین بن محسن انصاری یمانی سے سند لی۔ 
حضرت قاضی حسین بن محسن انصاری کی تاریخ ولادت ۱۴؍ جمادی الاولیٰ ۱۲۴۵ھ اور تاریخ وفات ۱۰؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۲۷ھ ہے۔
ان دونوں اصحاب فضل سے حضرت ممدوح نے فارغ التحصیل ہونے کے کئی سال بعد بعض کتب حدیث کے چند مقامات سنا کر اس وقت سندات لیں، جب کہ آپ باقاعدہ خدمت تدریس سر انجام دے رہے تھے۔ یہ بہت بڑا اعزاز تھا جس کا انھیں ان بزرگان ذی اکرام کی بارگاہ فضیلت سے مستحق قرار دیا گیا۔ اس قسم کے حصول سند کا مطلب اپنی سند کو عالی ثابت کرنا ہوتا ہے اور یہ سلسلہ اسلاف سے چلا آرہا ہے۔
حضرت مولانا مبارک پوری کے والد محترم حافظ عبد الرحیم نے کسی زمانے میں ایک مکان میں درس گاہ قائم کی تھی، جس میں طلبا تعلیم حاصل کرتے تھے۔ مولانا مبارکپوری فارغ التحصیل ہوکر آئے تو انھوں نے بھی اس درسگاہ میں سلسلۂ تدریس شروع کر دیا۔ اس درسگاہ کا نام دار التعلیم تھا۔ اس مدرسے نے بڑی ترقی کی ۔ تدریس کے علاوہ مولانا مبارک پوری یہاں فتویٰ نویسی کی خدمت بھی سر انجام دیتے تھے۔ اس مدرسہ کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی تھی ۔ تھوڑی مدت میں مختلف علاقوں کے طلبا کافی تعداد میں اس مدرسے میں داخل ہوئے اور کسب علم حاصل کیا ۔ ان طلبا کی وسیع جماعت میں سیرۃ البخاری کے مصنف شہیر مولانا عبد السلام مبارکپوری ، دنیائے اسلام کے ممتاز عالم ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی، مولانا عبد اﷲ نجدی، شارح مشکوٰۃ مولانا عبید اﷲ رحمانی ، معروف مصنف ومعلم مولانا نذیر احمد رحمانی املوی اور مولانا حکیم خدا بخش شامل ہیں ۔ ان حضرات نے مدرسہ دار التعلیم میں حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری سے اخذ علم کیا۔ یہ مدرسہ اب بھی قائم ہے اور تشنگانِ علوم اس کے اساتذہ سے استفادہ کرتے ہیں۔۱؂
مدرسہ دار التعلیم میں خدمت تدریس کے علاوہ مولانا مبارک پوری رحمہٗ اﷲ نے اضلاع گونڈہ وبستی وغیرہ کے تبلیغی دورے کئے اور ان اضلاع کے لوگ ان کی تبلیغی مساعی سے بے حد متاثر ہوئے ۔شہر بلرام پور میں اسلامیہ مدرسہ قائم کیا، جس میں ایک مدت تک وہ قرآن و حدیث کا درس دیتے رہے۔ 
۱۹۰۴ء (۱۳۳۹ھ) میں ایک مقام اﷲ نگر میں دینی مدرسے کی تاسیس کی ، جس کا نام وہاں کے لوگوں نے ’’ فیض العلوم ‘‘ رکھا ۔ ۱۹۰۷ء میں کونڈؤ، بونڈیہار کے سرکردہ لوگوں کی دعوت پر تشریف لے گئے وہاں دریائے راپتی کے کنارے جامعہ سراج العلوم کی بنیاد رکھی۔ یہاں ان سے بہت سے شائقین علم نے اکتساب فیض کیا ۔
حضرت میاں صاحب رحمہٗ اﷲ کے شاگرد رشید مولانا ابراہیم آروی مرحوم نے آرہ میں مدرسہ احمدیہ کے نام سے ایک دارالعلوم جاری کیا تھا۔ حضرت حافظ عبد اﷲ غازی پوری رحمۃ اﷲ علیہ کے حکم سے مولانا مبارک پوری ۱۹۱۰ء میں مدرسہ احمدیہ (آرہ) میں درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔
کلکتہ کے مدرسہ دارالقرآن والحدیث میں بھی چند سال ان کی تدریسی سرگرمیاں جاری 
۱؂ ملاحظہ ہو مولانا محمد عبدالرحمن محدث مبارک پوری حیات و خدمات ،ص:۷۹،۸۰
نیز جماعت اہلحدیث کی تدریسی خدمات ،ص:۶۴،۶۵۔
رہیں ۔ اس کے بعد اپنے وطن مبارک پور واپس تشریف لے آئے اور پھر تدریس کیلئے کہیں نہیں گئے۔ گھر میں بیٹھ کر تصنیف وتالیف کو اپنا اولیں مقصد حیات قرار دے لیا۔
اسی اثنا میں سعودی عرب کے حکمراں سلطان عبد العزیز بن عبد الرحمن مرحوم نے بھی ان کو بیت اﷲ شریف میں درس حدیث کیلئے دعوت دی، لیکن اس وقت وہ جامع ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی لکھ رہے تھے،اسلئے سلطان موصوف سے معذرت کردی اور فرمایا اب میں شرح ترمذی کے کام میں مصروف ہوں۔ 
دارالحدیث رحمانیہ کے ناظم شیخ عطاء الرحمن مرحوم نے گراں قدر مشاہرے پر دارلحدیث کی تدریسی کیلئے طلب کیا اس پر بھی معذرت فرمادی۔ ۱؂
حضرت مولانا مبارک پوری رحمہٗ اﷲ کی عمر مبارک کے بائیس تئیس سال درس و تدریس کی وادیوں میں گزرے اور اس اثنا میں بلرام پور بونڈیہار، مبارک پور، آرہ اور کلکتہ وغیرہ کی درسگاہوں میں انھوں نے جلیل القدر معلم کی حیثیت سے بے پناہ خدمات سر انجام دیں اور علماء وطلبا کی کثیر تعداد نے ان سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ ان حضرات میں مولانا عبد السلام مبارک پوری ، ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی، مولانا عبیداﷲ رحمانی، مولانا نذیر احمد رحمانی املوی، محترمہ رقیہ بنت خلیل عرب ، مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی، مولانا حکیم عبد السمیع مبارک پوری، مولانا محمد امین اثری، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا محمد اسحق اثری، مولانا عبد اﷲ نجدی،مولانا شاہ محمد سریانوی، مولانا حکیم عبد الرزاق صادق پوری شامل ہیں ۔ پھر آگے چل کر ان میں سے ہر عالم نے تدریسی ، تصنیفی اور تبلیغی شعبوں میں بے حد تگ و دو کی اور لوگوں نے ان سے بہت فیض پایا۔
۱؂ تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو مقدمہ تحفۃ الاحوذی (ترجمۃ المولف) اور مولانا عبد الرحم مبارکپوری 
حیات خدمات از ڈاکٹر عین الحق قاسمی،ص:۸
حضرت مولانا کی تصنیفی جد و جہد
آئیے اب آئندہ سطور میں حضرت مولانا مبارک پوری رحمہٗ اﷲ کی تصنیفی جدوجہد سے آشنا ہونے کی کو شش کرتے ہیں ۔ لیکن اس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ۱۳۲۰ھ میں ان کو حضرت مولانا شمس الحق صاحب ڈیانوی رحمہٗ اﷲ نے تصنیفی کام میں معاونت کے لئے اپنے ہاں بلا لیا تھا ۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ ۱۳۲۰ھ سے لیکر ۱۳۲۳ھ تک چار سال وہ مولانا ڈیانوی کے پاس قیام پذیر رہے۔ لیکن مولانا محمدعزیر کی تحقیق کے مطابق ۱۳۱۷ھ سے ۱۳۲۳ھ تک سات سال ان کا قیام مولانا ڈیانوی کے ہاں رہا۔ ۱؂ 
مشہور روایت یہ ہے کہ اس اثنا میں مولانا مبارک پوری نے سنن ابی داؤد کی شرح عون المعبود کی تصنیف کے سلسلے میں مولانا ڈیانوی کی معاونت فرمائی۔ لیکن عون المعبود کے مقدمے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوداؤد کی شرح ’’ غایۃ المقصود‘‘ کی تصنیف میں ان کی معاونت کی تھی۔ 
  اب حضرت مولانا مبارک پوری کی تصانیف کا تذکرہ ……!
 ان کی تصانیف کی تعداد بیس تک پہنچتی ہے ، جن میں سے گیارہ مطبوعہ ہیں اور نو غیر مطبوعہ ۔ 
 پہلے مطبوعہ کا تذکرہ:
(۱)…… تحفۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی : یہ حضرت مرحوم کی نہایت مہتم بالشان کتاب ہے یہ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے اور ایک جلد میں مقدمہ ہے مقدمہ ۳۴۴ صفحات پر محیط ہے۔ مقدمہ کے آخر میں حضرت مولانا مبارکپوری کے مختصر حالات زندگی مولانا ابوالفضل عبد السمیع مبارک پوری کے رقم فرمودہ ہیں مقدمے سمیت اس کی پانچ جلدیں ہوئیں ۔
جامع ترمذی کی متعدد حضرات نے شرحیں لکھی ہیں ۔ حضرت مولانا مبارک پوری کو یہ شرح 
۱؂ حیات المحدث شمس الحق واعمالہ از مولانا عزیر، ص: ۲۹۷ 
ضبط تحریر میں لانے کی تحریک اس وقت ہوئی تھی جب وہ بلرام پور و کنڈؤ بونڈھیارغیرہ میں قیام فرما تھے ۔ مولانا نے اس کی تصنیف کا کام شروع بھی فرما دیا تھا ۔ لیکن اس کی تکمیل بعد میں ہوئی۔ ۱؂
  تحفۃ الاحوذی کے مقدمہ کا جو حصہ حضرت مولانا مبارک پوری اپنی بعض جسمانی کمزوریوں کی وجہ سے نہیں لکھ پائے تھے اس کی تکمیل حضرت کی وفات کے بعد حضرت مولانا عبید اﷲ صاحب رحمانی اور مولانا عبد الصمد صاحب مبارک پوری نے فرمائی اور یہ مقدمہ ۱۳۵۹ھ میں مجید برقی پریس دہلی سے شائع ہوا۔ 
تحفۃ الاحوذی مع مقدمہ کے بہت چھپی، بہت مقبول ہوئی اور بہت پڑھی گئی ۔ حضرت مصنف رحمہ اﷲ کا یہ عظیم الشان کارنامہ ہے اور حدیث رسول ﷺ کی بہت بڑی خدمت …… ۱۴۰۴ھ میں یہ عظیم الشان کتاب ہمارے مرحوم دوست مولانا محمد صادق خلیل نے اپنے اشاعتی و تصنیفی ادارے ’’احیاء السنہ ادارۃ الترجمہ والتصانیف ‘‘رحمت آباد فیصل آباد کی طرف سے شائع کی تھی۔ 
(۲)…… مقدمہ تحفۃ الاحوذی: اس کے متعلق بعض گذارشات گزشتہ سطور میں پیش کی جا چکی ہیں۔
  (۳)…… ابکار المنن فی تنقید آثار السنن : یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور اس میں مولانا ظہیرا حسن شوق نیموی ( متوفی ۱۳۲۲ھ) کی کتاب آثار السنن( جز اول) پر تنقید کی گئی ہے ، جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ۔
مولانا ظہیر احسن شوق نیموی اس عہد کے مشہور حنفی المسلک عالم تھے اور مولانا مبارک پوری کے ہم عصر تھے انھو ں نے ’’ آثار السنن‘‘ کے نام سے بہ زعم خویش بلوغ المرام کے انداز میں 
۱؂ محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری ۔ حیات اور خدمات، ص :۳۵ بحوالہ یادگارمجلہ، ص : ۸۰ ،۸۱
کتاب لکھی، جس میں مسائل حنفیہ تقلید وغیرہ کی تائید میں ضعیف حدیثیں جمع کی گئی تھیں ۔ مولانا مبارک پوری نے’’ ابکار المنن فی تنقید آثار السنن‘‘ کے نام سے اس کا جواب لکھا ۔ یہ کتاب تقریباً تین سو صفحات پر مشتمل ہے ۔
(۴)…… تحقیق الکلام فی وجوب القرأۃ خلف الامام: یہ کتاب اردو زبان میں ہے اور دو حصوں میں ہے اس میں احادیث کی رو سے ثابت کیا گیا ہے کہ نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے ۔ اس موضوع پر احناف کے نقطہ نظر کا تفصیل سے جواب دیا گیا ہے۔ 
یہ اہم کتاب متعدد مرتبہ چھپی۔ مولانا عبد الشکور شاہ نے بھی ۱۹۶۸ء میں ادارہ علوم عصریہ سانگلہ اہل (ضلع شیخوپورہ) کی طرف سے شائع کی تھی۔
(۵)…… خیر الماعون فی منع الفرار من الطاعون: ۲۹۰۳ء اور ۱۹۰۴ء میں مبارک پور میں طاعون کی وبا پھیل گئی تھی ، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ مر گئے تھے اور جو بچ گئے وہ وہاں سے دوسرے علاقوں میں بھاگنے لگے تھے ۔ اس وقت مولانا عبدالعلیم صاحب مبارک پوری نے ’’ کتاب الشہادۃ ‘‘ اور مولانا عبد الرحمن مبارک پوری نے کتاب ’’ خیر الماعون فی منع الفرار من الطاعون‘‘ لکھی۔ یہ کتاب اردو زبان میں ہے ۔ اس میں احادیث اور آثار صحابہ کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ طاعون زدہ علاقے سے بھاگنا نہیں چاہئیے۔ 
(۶) …… کتاب الجنائز: یہ کتاب بھی اردو زبان میں ہے اور اس میں انسان کی وفات سے تدفین تک کے ضروری مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کئے گئے ہیں ۔
(۷)……القول السدید فیما یتعلق بتکبیرات العید: یہ کتاب بھی اردو میں ہے اور غالباً اس زمانے کی تصنیف ہے جب حضرت مولانا مبارک پوری مدرسہ دار القرآن والحدیث کلکتہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے تھے۔ اس میں تکبیرات عید ین کے متعلق چند سوالوں کا جواب دیا گیا ہے اور صحیح دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ نماز عیدین کی پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہنی چاہئیں۔ اس مسئلے کی وضاحت کے سلسلے میں یہ نہایت اہم کتاب ہے ۔
(۸)…… نور الابصار: یہ بھی اردو زبان میں ہے ۔ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جمعہ ہر جگہ پڑھنا چاہئیے ، شہروں میں بھی اور قصبات و دیہات میں بھی ۔ کتب کے سر ورق پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا یہ قول درج ہے : جمعوا حیثما کنتم 
’’ یعنی تم جہاں کہیں بھی ہو ، جمعہ ضرور پڑھو‘‘ 
(۹)…… تنویر الابصار فی تائید نور الابصار: یہ بھی اردو زبان میں ہے اور جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ، یہ مولانا کی پہلی کتاب یعنی ’’ نور الابصار‘‘ کی تائید میں ہے۔ 
(۱۰)…… ضیاء الابصار فی رد تبصرۃ الانظار : مولانا ظہیر احسن شوق ینموی نے مولانا مبارک پوری کے رسالے ’’ تنویر الابصار ‘‘ کاجواب ’’ تبصرۃ الانظار‘‘ کے نام سے لکھا تھا جو ان کے رسالے’’ سیرۃ بنگال‘‘ کے ساتھ شائع ہوا تھا ۔ مولانا مبارک پوری نے اس کے رد میں رسالہ ’’ ضیاء الابصار‘‘ لکھا۔ اس کا پورا نام ’’ضیاء الابصار فی رد تبصرۃ الانظار‘‘ ہے ۔ یہ رسالہ اردو میں ہے۔ 
(۱۱)…… المقالۃ الحسنیٰ فی المصافحۃ بالید الیمنیٰ : اردو زبان کے اس کتابچے میں حضرت مولانا مبارک پوری رحمۃ اﷲ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ مصافحہ دائیں ہاتھ سے کرنا چاہئیے، بائیں ہاتھ کو اس میں نہیں ملانا چاہئیے، یعنی ایک ہی ہاتھ سے مصافحہ کیا جائے اور وہ ہے دایاں ہاتھ۔ یہی احادیث صحیحہ اور آثار صحابہ سے ثابت ہے ۔ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا نہ کسی حدیث سے ثابت ہے ، نہ کسی صحابی کے اثر سے ، نہ کسی تابعی کے قول وفعل سے اور نہ ائمہ اربعہ یعنی( امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل) میں سے کسی امام سے۔ 
یہ تھیں حضرت مولانا مبارک پوری رحمۃ اﷲ علیہ کی مطبوعہ کتابیں ۔ ان میں سے پہلی تین کتابیں یعنی تحفۃ الاحوذی ، مقدمہ تحفۃ الاحوذی اور ابکار المنن فی تنقید آثار السنن عربی میں ہیں ،باقی آٹھ اردو میں ہیں، نام سب کے عربی قسم کے ہیں ۔ 
اب حضرت مرحوم کی غیر مطبوعہ کتابوں کی طرف آتے ہیں ۔ 
(۱)…… الدر المکنون فی تائید خیر الماعون : اردو زبان میں یہ رسالہ مولانا نے اپنی مطبوعہ کتاب ’’خیر الماعون فی منع الفرار من الطاعون‘‘ کی تائید میں لکھا ہے۔ غیر مطبوع ہے۔
(۲)…… الوشاح الابریزی فی حکم الدواء الانکلیزی : یہ غیر مطبوعہ اردو رسالہ انگریزی ادویہ کے استعمال کے بارے میں ہے۔
(۳)…… ارشاد الہمائم الیٰ منع خصاء البہائم: اس رسالے میں جانوروں کو خصی کرنے کی ممانعت بیان کی گئی ہے ۔ رسالہ اردو زبان میں ہے ۔
(۴) …… رفع الیدین للدعاء بعد الصلوٰۃ المکتوبہ : اس میں فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کے متعلق وضاحت کی گئی ہے ، لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس موضوع پر مولانا نے کیا موقف اختیار فرمایا ہے۔ کتاب غیر مطبوعہ ہے اور اردو میں ہے۔
(۵)…… الکلمۃ الحسنیٰ فی المصافحۃ بالید الیمنیٰ : دائیں ہاتھ یعنی ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کے بارے میں ۔ یہ رسالہ اردو میں ہے اور نا مکمل ہے۔ 
(۶)…… رسالۃ فی مسائل العشر : دس مسائل کے بارے میں نا مکمل اردو مخطوطہ۔ یہ معلوم نہیں کہ دس مسائل کون سے ہیں۔ 
(۷)…… رسالۃ فی رکعۃ الوتر: رکعت وتر کے موضوع پر مولانا کا اردو میں قلمی رسالہ۔ ۷۱ صفحات کا یہ رسالہ مولانا مبارک پوری کے اپنے ہاتھ کا مرقومہ ہے۔
(۸)…… تنقید الدرۃ الغرۃ : مولانا ظہیر احسن شوق نیموی کا ایک رسالہ ’’ الدرۃ الغرۃ فی وضع الیدین علی الصدور وتحت السرۃ‘‘ہے، جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ نماز میں ہاتھ سینے پر نہ باندھے جائیں بلکہ ناف کے نیچے باندھے جائیں ۔ مولانا مبارک پوری نے اپنے رسالے ’’ تنقید الدرۃ الغرۃ ‘‘ میں مولانا شوق نیموی کے اس رسالے پر تنقید فرمائی ہے ۔ یہ قلمی رسالہ نا مکمل ہے۔ اور اردو میں ہے۔
سلسلۂ افتاء
قرآن، حدیث، فقہ، ادبیات ،اخلاقیات، درسیات ہر موضوع پر مولانا مبارک پوری وسیع نظر رکھتے تھے اور ہر اسلامی و فقہی مسئلے پر بے تکلف گفتگو فرماتے تھے ۔ مسائل کے استخراج و استنباط میں مرتبہ اجتہاد پر فائز تھے ۔ تمام مسالک فقہ کی چھوٹی بڑی کتابیں ان کے زیر مطالعہ رہتی تھیں ۔ تدریس و تصنیف کے ساتھ ساتھ ان کا سلسلۂ افتاء بھی جاری رہتا تھا اور ہر مسلک کے لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور مسائل پوچھتے تھے ، وہ بلا تامل سب کو جواب دیتے تھے۔ زبانی مسائل بھی بیان فرماتے تھے اور تحریری جواب سے بھی نوازتے تھے ۔ قاضی اطہر مبارک پوری لکھتے ہیں ۔ 
’’ بینائی سے محروم ہوجانے کے بعد بعض درسی کتابوں کی عبارتیں زبانی پڑھا کرتے تھے اور ہر قسم کے فتوے لکھوایا کرتے تھے ‘‘ ۱ ؂
قاضی صاحب ممدوح آگے تحریر فرماتے ہیں :
۱؂تذکرہ علمائے مبارک پور ، ص : ۱۴۹ 
’’ ہر مکتب خیال کے لوگ مولانا سے علمی مسائل دریافت کرتے تھے اور وہ ہر مسلک والے کو اس کے مسلک کے مطابق مسئلہ بتاتے تھے ‘‘ ۱؂
مولانا کے والد حافظ عبد الرحیم صاحب کو لوگ ’’ بڑے حافظ صاحب‘‘ کہا کرتے تھے اور مولانا ’’بڑے مولانا صاحب ‘‘ کے لقب سے متعارف تھے۔ ۲؂
مولانا صفی الرحمن صاحب مبارک پوری مسائل شرعی پر حضرت کی وسعت نظر کے بارے میں مولانا عبد الکبیر صاحب کو ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’ شیعہ حضرات اپنے مسلک کے متعلق آپ کے بیان کردہ مسئلے کو اپنے علما کے بتلائے ہوئے مسئلے کے مقابل زیادہ صحیح سمجھتے تھے۔‘‘۳؂
فتاویٰ نذیریہ کی ترتیب
فتاویٰ کے سلسلے میں حضرت مولانا مبارک پوری کی ایک بہت بڑی خدمت یہ ہے کہ انھوں نے حضرت مولانا شمس الحق صاحب ڈیانوی کی فرمائش پر اپنے استاذ عالی قدر حضرت میاں سید نذیر حسین صاحب دہلوی رحمہ اﷲ کے فتوے د و ضخیم جلدوں میں مرتب کئے اور جابجا اپنے فتوے بھی ان میں شامل کئے۔ علاوہ ازیں بہت سے مطول ، متوسط اور مختصر فتوے خود لکھے، جن کا شمار میں لانا مشکل ہے۔ ۴؂؂
آخر عمر میں اپنے استاذ مولانا حافظ عبد اﷲ غازی پوری کے فتوے مولانا مبارک پوری نے فقہی ابواب کی ترتیب سے جمع کئے تھے جو چھپ نہیں سکے ۵؂
یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ حضرت حافظ صاحب غازی پوری رحمہ اﷲ کے فتاوے کا یہ
۱؂؂ ایضاً
۲؂تذکرہ علمائے مبارک پور ، ص : ۱۴۹ 
۳؂مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری ۔ حیات و خدمات ،ص : ۲۰۶
۴؂ ایضاً
۵؂ ایضاً
 معلوم نہیں ہو سکا کہ حضرت حافظ صاحب غازی پوری رحمہ اﷲ کے فتاوے کا یہ مجموعہ کہاں ہے جو مولانا مبارک پوری نے فقہی ابواب کی صورت میں مرتب کیا تھا ۔ اگر وہ موجود ہے ( اور مذکور و بالا الفاظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجود ہے ) تو اسے شائع کرنا چاہیئے۔ فتاوے کے سلسلے کا یقیناً یہ بہترین مجموعہ ہوگا۔ اس کی اشاعت کی طرف توجہ فرمائی جائے تو یہ ایک عظیم دینی خدمت ہوگی۔ 
حضرت مولانا مباک پوری کے فتاوے
خود حضرت مبارک پوری رحمۃ اﷲ علیہ نے فتاوی ٰ نویسی کے سلسلے میں بے حد علمی وتحقیقی کارہائے نمایاں سر انجام دیئے۔ مقدمہ تحفۃ الاحوذی میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ممدوح فتویٰ نویسی کے معاملے میں بہت محتاط تھے۔ بساوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ کسی استفتا کا جواب لکھنا چاہتے تو اس کے متعلق اپنے پاس تشریف لانے والے علمائے کرام سے مشورہ کرتے اور اس کی تمام جزئیات پر غور وفکر کے بعد اس کا جواب تحریر فرماتے یقیناً ان کے فتاوے کو بہت بڑے علمی سرمایہ کی حیثیت حاصل ہے اور روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے مختلف مسائل کے بارے میں ان کی تحقیق ایک جلیل القدر مجتہد عالم کی تحقیق ہے، ان کی جمع و تدوین اور اشاعت نہایت ضروری ہے ۔ 
پتہ چلا ہے کہ حضرت مرحوم کے پر پوتے ڈاکٹر رضاء اﷲ صاحب مبارک پوری ( استاذ جامعہ سلفیہ بنارس) نے فتاوے کے اس ذخیرہ کی جمع و ترتیب کا کام شروع کردیا تھا۔ لیکن افسوس ہے ۳۰؍ مارچ ۲۰۰۳ء کو بمبئی میں ( جہاں وہ جمعیت اہل حدیث کی کانفرنس میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے تھے ) اچانک حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال کر گئے ۔ وفات کے وقت ان کی عمر صرف ۴۹؍ برس تھی ۔اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ 
ڈاکٹر صاحب مرحوم ایک مکتوب میں جو انھوں نے ۳۱؍دسمبر کو ڈاکٹر عین الحق قاسمی کے نام ارسال فرمایا ، لکھتے ہیں : 
’’ جہاں تک فتوی․ نویسی کا تعلق ہے تو محدث مبارک پوری رحمہ اﷲ اس فن سے شروع ہی سے منسلک رہے ، چنانچہ اپنے استاذ ِ محترم جناب مولانا عبد اﷲ صاحب غازی پوری رحمہ اﷲ کے فتاوے کی تنسیق و ترتیب کا کام کیا تھا ، جس کا ایک نسخہ ابھی تک موجود تھا ، مگر کچھ معترضین کی نذرہو گیا۔ اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے۔ مولانا عبد الرحمن مبارک پوری ۱؂ شاید اس سلسلے میں کچھ رہنمائی کر سکیں اسی طرح دوسرے استاذ محدث مولانا نذیر حسین صاحب ( میاں صاحب ) کے فتاوے کی ترتیب بھی آپ ہی نے دی تھی اور اس میں آپ کے فتاوے بھی مختلف اشکال میں ملتے ہیں، کبھی تائید کی شکل میں کبھی مخالفت ۲؂ کی شکل میں اور کبھی مستقل آپ کے لکھے ہوئے فتاوے کی شکل میں ، جس پر میاں صاحب کی تائید ہوتی ہے، اندازہ یہی ہے کہ فتاویٰ نذیریہ میں ایک ثلث ( کم از کم) آپ کے فتاوے ملتے ہیں۔
’’ میرے پاس جو مجموعہ ہے ، بظاہر ایسا لگتا ہے کہ تایا محترم حکیم عبد السلام صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے مختلف طریقوں سے انھیں جمع کیا ہے، کیونکہ ان میں کچھ فتوے ایسے ہیں جو کسی پرچے سے منقول ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کی نقول موجود تھیں ، چنانچہ ان میں بعض فتوے ایسے بھی ہیں کہ مستفتی کے سوالات موجودنہیں ہیں اور صراحت کردی گئی ہے کہ سولات کے جوابات پر اکتفا کیا گیا ہے اور کچھ ردود(کذا؟)کی شکل میں ہیں ۔
’’ فتویٰ نویسی میں بھی مولانا مرحوم نے بھی اپنی محدثانہ روش کو نہیں چھوڑا ہے کتاب وسنت ہی کی روشنی میں ہر سوال کا جواب دینے کی کا میاب کوشش ہے۔احادیث میں تحفۃ الاحوذی 
کا ہی اسلوب پایا جاتا ہے یعنی روایت و درایت کااسلوب۔’’ یہ میری اب تک کی معلومات کا
۱؂ حضرت مولانا عبید اﷲ رحمانی کے صاحبزادے مراد ہیں ۔
۲؂ مخالفت کا مطلب اختلاف ہے جیسے بعض شرعی مسائل میں بعض اوقات اہل علم باہم مختلف آرا رکھتے ہیں ۔
 خلاصہ ہے۔ مجموعے کو نقل کرلیا ہے ۔ اب فتاویٰ نذیریہ سے ان کے فتاوے کو چھانٹ رہا ہوں ، کیونکہ یہی مشورے کے بعد طے پایا ہے کہ مجموعہ اور فتاویٰ نذیریہ سے ان کے فتاویٰ کو الگ کرکے ایک ساتھ شائع کیا جائے ۔ 
بر وقت کتاب الجنائز کی تعریب ۱؂ سے فراغت کے بعد اس کی تبیےض میں لگا ہوا ہوں ، اس سے فراغت مل جائے تو فتاویٰ پر لکھوں گا‘‘۔ ۲؂ 
طبابت و حکمت
زمانہ قدیم میں علم طب کو بے حد اہمیت حاصل تھی ۔ دینی تعلیم حاصل کرنے والے لوگ خاص طور سے اس علم کو مرکز توجہ ٹھہراتے اور طالب علمی کے دور میں یا فارغ التحصیل ہونے کے بعد اس علم کی کتابیں فن طب کے ماہرین سے باقاعدہ سبقاً سبقاً پڑھتے تھے۔ ان کتابوں میں موجزالقانون، حمیات شیخ، کلیات نفیسی، معالجات سدیدی اور شرح اسباب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ 
حضرت مولانا مبارک پوری رحمہ اﷲ کے خاندان کے پرانے اہل علم اس فن سے دلچسپی رکھتے تھے ۔ حضرت مرحوم کے والد حافظ عبد الرحیم صاحب اپنے شہر اور علاقے کے مشہور طبیب تھے۔ مولانا مبارک پوری نے بھی یہ علم پڑھا یعنی یہ علم انھیں اپنے خاندان کی طرف سے ورثے میں ملا تھا۔ اس کا ذکر قاضی اطہر مبارک پوری نے بھی کیا ہے ۔ ۳؂
اس عہد کے اطبازہد وتقویٰ کی دولت سے بھی بہرہ ور تھے اور نادار مریضوں کا مفت بھی علاج کرتے تھے ۔ بلکہ اگر انھیں اپنے گاؤں یا گردو پیش کے کسی گاؤں کے مریض کا پتہ چل جاتا تو خود اس کے گھر جاتے اور علاج کرتے یا اسے نسخہ لکھ کر دیتے۔ یہ کام چونکہ اخلاص پر مبنی ہوتا تھا، 
۱؂ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت مولانا مبارک پوری کی تصنیف کتاب الجنائز کاڈاکٹر رضاء اﷲ مبارک پوری مرحوم نے عربی زبان میں ترجمہ کر دیا ہے ۔۲؂ مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری ۔ حیات و خدمات ، ص :۲۰۷،۳۲۰۸؂ تذکرہ علمائے مبارک پور ، ص: ۱۴۹
اس لئے ان اطبا کے علاج سے اﷲ مریض کو صحت بخشتا تھا۔
حضرت مرحوم بھی طبیب تھے اور یہی ان کا ذریعہ آمدنی تھا ۔ چنانچہ حضرت کے شاگر د ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی لکھتے ہیں :
سوائے طبابت کے مولانا کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا ، اس کے باوجود جود وسخا میں جماعت علما میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا۔ عصر سے مغرب تک کا وقت انھوں نے مریضوں کے لئے خاص رکھا تھا۔ تعجب ہے مولانا کے تذکرہ نگاروں میں سے کسی نے بھی ان کیمہارت طب کا ذکر نہیں کیا، حالانکہ یہ ان کی نمایاں خصوصیت بہترین صفت اور انبیاء و مرسلین بالخصوص خاتم النبیےن حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اقتدا ہے، کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ارواح وابدان دونوں کے طبیب تھے ۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے کہ حضرت مولانا کو طب نفوس کے ساتھ ساتھ طب ابدان کا بھی وافر حصہ ملا تھا جو در اصل نبی ﷺ کی میراث ہے۔ مولانا غریبوں سے علاج کی اجرت نہیں لیتے تھے ، البتہ امیر لوگ جو اجرت دیتے، وہ قبول فرما لیتے تھے۔اسی طرح مولانا صاحب صحیحین کی اس حدیث پر پوری طرحعمل پیرا تھے ، جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ سب سے بہترین کھانا آدمی کے اپنے ہاتھ کی کمائی کا ہے اور اﷲ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔ ۱؂
ڈاکٹر رضاء اﷲ مبارک پوری مرحوم ایک مکتوب میں جو انھوں نے ۳۱؍دسمبر ۱۹۹۳ء کو ڈاکٹر عین الحق قاسمی کے نام جامعہ سلفیہ بنارس سے ارسال کیا ، لکھتے ہیں:
’’ استاذ محترم ڈاکٹر تقی الدین ہلالی رحمۃ اﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے اور شاید ’’ الدعوۃ الی اﷲ فی اقطار مختلفۃ‘‘ نامی کتاب میں بھی لکھا ہے کہ مولانا طبابت کرتے تھے اور صرف 
۱؂ مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری ۔ حیات و خدمات ،ص:۲۱۴۔ بحوالہ مجلہ صوت الجامعہ (عربی) ماہ ستمبر ۱۹۷۳ء (جامعہ سلفیہ بنارس)،:۲۵،۲۶۔
دو تین گھنٹے دکان میں وقت دیتے تھے ، بقیہ اوقات تعلیم وتعلم اور تالیف کتب میں گزارتے تھے ۔ اس کی تائید محترمہ پھوپھی صاحبہ کے بیان سے ہوتی ہے ، وہ کہا کرتی ہیں کہ چچا جان ( یعنی مولانا صاحب) ہفتے عشرے میں ایک دن ہم چھوٹی بچیوں کو دکان صاف کرنے کا حکم دیتے تھے ۔ اس پر ہمیں بڑی خوشی ہوتی تھی ، کیونکہ دکان کی صفائی کرتے وقت اِدھر اُدھر سے پیسے ملا کرتے تھے ، جو ہمارے ہوتے تھے ۔ اس لئے ہم اس دن کا بڑی شدت سے انتظار کرتے تھے۔حضرت مولانا مبارک پوری کے بھتیجے حاجی عبد السلام بن حکیم محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں: حضرت مولانا رحمہ اﷲ کا اصل کام تصنیف وتالیف کا تھا ۔ اس اثنا میں وہ کچھ طبابت بھی کرلیا کرتے تھے ۔ طبابت میں نسخہ نویسی کی فیس بالکل نہیں لیتے تھے، عطار جو آپ کیگھرانے ہی کا تھا ، دواؤں کے پیسے لیتا تھا۔حکیم عبدالسمیع صاحب نے مولانا عبد الرحمن صاحب ہی سے پڑھا تھا ۔ وہ ہمیشہ مولانا کے ساتھ رہے ، دوا باندھنے میں بھی اور دوسرے کاموں میں بھی ۔ انھوں نے امراض چشم میں بڑی مہارت پیدا کرلی تھی ۔آپ کا سرمہ مشہور ہے جو پہلے حکیم محمد شفیع صاحب نے بنا یا تھا ، اسی کو مولانا عبد الرحمن صاحب نے جاری رکھا جو بعد میں ’’حکیم عبد السمیع کا سرمہ ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ ۱؂
حضرت مولانا رحمہ اﷲکے دواخانہ کا نام ’’ دواخانہ مفید عام‘‘ تھا۔ آج بھی اس خاندان میں علم و فضل کے ساتھ ساتھ طبابت کی قدیم روایت قائم ہے ۔ ڈاکٹری سلسلہ بھی جاری ہو گیا ہے۔ یہ سلسلہ ڈاکٹر محمدتقی صاحب اعظمی اور حکیم سیف الرحمن احوذی کے ذریعے سے جاری ہے۔ ان کے دواخانے کا وہی بابرکت نام ہے، دواخانہ مفید عام۔ 
خوش خطی
حضرت مولانا مبارک پوری رحمہ اﷲنہایت خوش خط تھے۔ اردو خط بھی بہت خوبصورت 
۱؂ تذکرہ علمائے مبارک پور ، ص : ۱۵۱
تھا اور عربی خط بھی …………! ڈاکٹر عین الحق قاسمی نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں ان کے اردو عربی دونوں اسالیب خط کے نمونے دے دئیے ہیں ……!
حلیہ مبارک اور لباس 
افسوس ہے اس فقیر کو ان کی زیارت کا شرف حاصل نہیں ۔ لیکن خوشی کی بات ہے کہ قاضی اطہر مبارک پوری نے ان کا حلیہ مبارک بھی بیان کر دیا ہے اور لباس بھی۔قد میانہ، بدن گداز، رنگ گندمی، چہرہ خوبصورت ابھرا ہوا۔ سفید گاڑھے کا مغلئی پائجامہ، نیچا کرتہ گول ٹوپی ، کندھے پر بڑا رومال، ہاتھ میں چھڑی۔ ۱؂
ڈاکٹر عین الحق قاسمی لکھتے ہیں : کہ مولانا محمد عمر مبارک پوری نے جو حضرت محدث مبارک پوری کے مستفیدین میں سے تھے، راقم الحروف کو حضرت کا یہی حلیہ بتایا تھا۔ ۲؂
مولانا امین احسن اصلاحی ان کے حلقہ شاگردی میں رہے ہیں ۔ وہ تحریر فرماتے ہیں :
ان کا چہرہ نہایت معصوم تھا ۔ بچوں کے سوا ان سے زیادہ معصوم چہرہ میں نے کسی کا نہیں دیکھا ان کو دیکھ کر ان سے بے ساختہ محبت کرنے کو جی چاہتا تھا…… میں نے ان کی زبان سے کبھی ایک لفظ بھی ایسا نہیں سنا جس سے کم از کم یہی ظاہر ہوتا ہو کہ وہ اپنے آپ کو ایک عالم ہی سمجھتے ہیں ۔ ۳؂
اخلاق و عادات 
مقدمہ تحفۃ الاحوذی میں حضرت مولانا مبارک پوری کے حالات بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ حضرت مولانا رحمۃ اﷲ علیہ عالی کردار اور بلند اخلاق عالم دین تھے ۔ عمدہ ترین عادات واطوار کے مالک۔ تقویٰ شعار ، دنیوی مال ومنال سے بے نیاز۔ کسی کی دولت کو قبول 
۱؂ تذکرہ علمائے مبارک پور ، ص : ۱۵۱ ۲؂ مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری ۔ حیات و 
خدمات ،ص:۲۱۸ ۳؂ ہفت روزہ ’’المنبر‘‘ (لائل پور ) ۳؍اگست ۱۹۵۵ء
 نہ فرماتے۔ دنیا کی کوئی حرص ان میں نہ تھی(پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ ) دارلحدیث رحمانیہ دہلی اس وقت اہل حدیث کا بہت بڑا مدرسہ تھا جسے دہلی کے امیر ترین دو بھائی( شیخ عبد الرحمن اور عطاء الرحمن) کی بڑی فراخ دلی کے ساتھ چلا رہے تھے ۔ ان کی طرف سے معقول مشاہرے پر حضرت مولانا کو وہاں کی صدر مدرسی کی پیش کش ہوئی ، لیکن مولانا نے یہ پیش کش قبول نہیں فرمائی ۔ اسی طرح سعودی حکومت نے حرم شریف میں گراں قدر تنخواہ پر انھیں درس کیلئے دعوت دی ، یہ دعوت بھی قبول نہیں کی۔ فرمایا بقدر کفاف جو کچھ مجھے مل رہا ہے ، میں اس پر خوش ہوں۔
نہایت متواضع ، منکسر اور ملنسار تھے۔ علماء ، طلبا سے بدرجہ غایت محبت رکھتے تھے ۔ہر طالب علم کی ذہنی اور علمی صلاحیت کا خیال رکھتے تھے اور اس نہج سے بات کرتے جو وہ آسانی سے سمجھ سکتا۔ 
علما ء وطلباء کے علاوہ غیر تعلیم یافتہ لوگوں سے رابطہ رکھتے۔ رشتے داروں اور غیر رشتے داروں سب سے حسن سلوک کا برتاؤ فرماتے ۔ سب کی بات توجہ سے سنتے اور مشورہ لینے والوں کو مفید مشورہ دیتے۔ 
ان کا زیادہ تر وقت درس و تدریس ، مطالعہ و تصنیف اور قرآن و حدیث کے مسائل پر غور و تدبر میں صرف ہوتا یا عبادت اور ذکر الہی میں مشغول ہوجاتے۔ نرم کلام اور شیریں گفتار تھے۔ وقار و متانت کا پیکر اور رعب وجلال کے مالک ۔ لوگوں سے ملتے اور ان کی ضروری باتیں سنتے لیکن کسی کو ان کی مجلس میں کسی شخص کی غیبت کرنے یا کسی کے متعلق ناشائستہ الفاظ کہنے کی مجال نہ تھی۔ اگر کسی کی زبان سے اس قسم کا کوئی لفظ نکل جاتا تو سخت ناگواری کا اظہار کرتے ۔ ان اوصاف وکمالات کی وجہ سے لوگ ان سے انتہائی متاثر تھے اور ان کے دلوں میں ان کی بے پناہ قدر تھی ۔ بلرام پور، بستی اور دیگر مقامات کے بہت سے لوگ ان کے حلقہ بیعت میں شامل تھے۔ 
انھیں تجدد، فیشن اور یورپی تہذیب و ثقافت سے شدید نفرت تھی۔ طلباء اور عقیدت مندوں کو مغربی لباس اور طور طریق سے روکتے اور سادگی کا درس دیتے۔ یہ اور اس قسم کی بہت سی باتیں مقدمہ تحفۃ الاحوذی میں مرقوم ہیں ۔ جب مسند درس پر بیٹھ جاتے تو دورانِ درس کوئی کتنا ہی بڑا آدمی آجاتا ، اس کی طرف توجہ نہ فرماتے اور کسی کی پرواہ کئے بغیر تدریس کا سلسلہ جاری رکھتے۔ اختتام درس کے بعد اس کی طرف توجہ فرماتے اور بات چیت کرتے۔ ۱؂ 
 زاہدانہ و غریبانہ زندگی
۱۹۵۵ء میں فیصل آباد سے مولانا حکیم عبد الرحیم اشرف مرحوم کا ہفت روزہ ’’ المنیر‘‘ شائع ہوتا تھا، اس کے اگست ۱۹۵۵ء ؁ کے شمارے میں حضرت مولانا مبارک پوری کے اخلاق اور عادات و اطوار کے بارے میں حضرت کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کا مضمون شائع ہوا تھا جو اپنے موضوع کا جامع مضمون تھا ۔ مولانا اصلاحی اس میں رقم طراز ہیں :
مولانا (مبارک پوری) حقیقی معنوں میں زاہد تھے ۔ انھوں نے دنیا کمانے کی کوئی فکر نہیں کی ۔ آخر عمر میں تو تمام تر غیبات کو نظر انداز کرکے صرف فن حدیث کو لے کر اپنے حجرے میں معتکف ہو گئے تھے ۔ ان کی زندگی نہایت درویشانہ اورغریبانہ تھی۔ حالانکہ اگر وہ چاہتے تو بڑے عیش وآرام کی زندگی بسر کر سکتے تھے۔ وہ پشاور سے لیکر کلکتے تک اہلحدیث علماء اور عوام کے مرکز عقیدت تھے اور سعودی حکومت بھی ایک زمانے میں ان کی خدمات حاصل کرنے کی متمنی تھی۔ لیکن وہ شرح ترمذی کا کام لیکر اس طرح دنیا سے منقطع ہوکر بیٹھ گئے کہ پھر موت کے سوا ان کے زاوئیے سے ان کو کوئی دوسرا نہ اٹھا سکا۔ 
  ۱؂ مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری ۔ حیات و خدمات ،ص:۲۰۰ بحوالہ یادگار مجلہ،ص:۸۸
مجسمۂ صبروشکر
مولانا امین احسن اصلاحی مزید لکھتے ہیں :
اہل علم سے ان کی گفتگو ہمیشہ زیادہ تر مشکلات ِ حدیث سے متعلق ہوتی تھی ۔ میں نے کبھی ان کی زبان سے کسی شخص کی غیبت یا ہجو نہیں سنی۔ خرابی صحت ، آنکھوں کی معذوری ، کام کی کثرت اور رفقائے کار کی قلت کا شکوہ بھی کبھی ان کی زبان سے نہیں سنا، حالانکہ یہ ساری تکلیفیں فی الواقع ان کو تھیں اور اگر نہ بھی ہوتیں توبھی اگر وہ ان کا ذکر کرتے تولوگ نہایت عقیدت سے ان کی بات سنتے ، مگر وہ مجسمۂ صبر و شکر تھے، کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لاتے۔
تقویٰ اور خشیت الٰہی
حضرت مرحوم کے بارے میں قاضی اطہر مبارک پوری مرحوم کی کتاب ’’ تذکرہ علمائے مبارک پور ‘‘ میں مرقوم بعض باتیں پہلے بیان کی جا چکی ہیں ۔ ان کا تعلق ان کے شہر مبارک پور سے تھا اور وہ انھیں خوب جانتے تھے ۔ فرماتے ہیں:
مولانا کی زندگی سلف صالحین کا نمونہ تھی ۔علم و فضل ، تقویٰ وطہارت، زہد وقناعت، انزوا وعزلت اور سادگی میں اپنی مثال آپ تھے دنیا میں رہ کر دنیا سے بے گانہ ۔ درس و تدریستصنیف و تالیف ، طبابت و حکمت زندگی کے مشاغل تھے۔ خشیت الٰہی کا غلبہ تھا۔ سنا ہے جہری نماز نہیں پڑھاتے تھے، کیونکہ رو دیا کرتے تھے۔ ان کے ایک عزیز شیخ شبلی کا انتقال ہوا، مولانا نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی تو آخری تکبیر میں بے قابو ہوگئے ، مشکل سے تکبیر پوری کرسکے۔ اس جنازے میں راقم بھی شامل تھا۔ ۱؂
حکیم عبد الحئی حسنی نے بھی نزہۃ الخواطر میں مولانا مبارک پوری رحمۃ اﷲ علیہ کا تذکرہ کیا ہے۔ ۱؂ تذکرہ علمائے مبارک پور ،ص:۱۵۰
ان کے عربی الفاظ کا مطلب یہ ہے :
مولانا عبد الرحمن مبارک پوری علمائے ربانیےن میں سے ایک عالم باعمل ، خشوع و خضوع کے پیکر، رقیق القلب ، کثیر البکاء ، سخی اور طلباء کیلئے ایثار پیشہ اور انتہائی خیر خواہخورش وپوشش میں تکلف سے دور، دنیا سے بے نیاز ، عہدہ و منصب اور تنخواہوں کی حرص سے پاک ۔ مطالعہ و تصنیف اور ذکراﷲ میں مشغول۔ سلیم الطبع، صاحب اللسان مگر خاموشی پسند۔ ۱؂
قوت حافظہ 
حضرت مولانا مثالی قوت حافظہ کے مالک تھے ۔ قاضی اطہر مبارک پوری رقم طراز ہیں:
ان کی قوت حافظہ بھی خداداد تھی ۔ بینائی سے محروم ہوجانے کے بعد بھی بعض درسی کتابوں کی عبارتیں زبانی پڑھایا کرتے تھے اور ہر قسم کے فتوے لکھایا کرتے تھے ۔ ۲؂
حضرت کے حافظے کے متعلق مولانا امین احسن اصلاحی اپنے زمانہ طالب علمی کے واقعات بیان کرتے ہوئے ہفت روزہ ’’ المنیر‘‘ لائل پور کے اگست ۱۹۵۵ء کے شمارے میں تحریر کرتے ہیں :
’’ ان کا حافظہ اتنا اچھا تھا کہ آنکھوں کی معذوری ان کیلئے کوئی بڑی رکاوٹ نہیں بن سکتی تھی۔مجھے بارہا ایسا موقع پیش آیا کہ کسی ضرورت کیلئے انھوں نے کوئی کتاب نکلوائی اور بڑی آسانیکے ساتھ محض اپنے حافظے اور اپنے اندازے کے بل بوتے پر مطلوبہ حدیث یا مطلوبہ عبارت تلاش کروالی۔ بعض اوقات وہ یہ تک بتا دیتے کہ فلاں عبارت یا فلاں حدیث صفحے کے کس جانب یا کس حصے میں ہوگی۔ ان کا یہ احتضار میرے لئے اکثر حیرت کا باعث بنتا۔‘‘
۱؂ نزہۃ الخواطر،ج۸،ص:۳۴۳
۲؂ تذکرہ علمائے مبارک پور ،ص:۱۵۰
طلباء کے ساتھ شفقت…… ایک حیرت انگیز واقعہ
حضرت مولانا مبارک پوری طلباء کے ساتھ انتہائی مشفقانہ رویہ اختیار فرماتے اور ان سے نہایت شفقت کا اظہار کرتے تھے۔ اس کا تذکرہ مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم نے اپنے مضمون ’’المنیر‘‘ فیصل آباد (اگست۱۹۵۵ء) میں کیا ہے اور ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی نے بھی ایک مقالہ مطبوعہ’’ صوت الجامعہ‘‘ (بنارس) میں فرمایا ہے ۔ ذیل میں ڈاکٹر ہلالی صاحب کا واقعہ ملاحظہ کیجئے جو بے حد اثر انگیز ہے لکھتے ہیں :
’’ مبارک پور میں مولانا نے استفادے کی غرض سے میرے قیام کے دوران شدید اصرار کے ساتھ مجھے اپنے ہاں مہمان کی حیثیت سے رکھا ۔ چنانچہ نہ مجھے کسی ہوٹل میں جانا پڑا اور نہ کھانا کہیں سے خریدنے کی نوبت آئی۔ جب مبارک پور سے میری روانگی کا وقت آیا اور میں نے فیصلہ کیا کہ اعظم گڑھ تک ٹرین سے جاؤں گا تو مولانا نے فرمایا کہ ٹرین سے نہ جاؤ ، ہماری جان پہچان کے دوآدمی بیل گاڑی لیکر اعظم گڑھ جانے والے ہیں ، ان کے ساتھ چلے جانا۔ یہ تمہارے لئے زیادہ آسان ہوگا۔ ادھر ان دونوں حضرات نے طے کیا تھا کہ آدھی رات کو نکلیں گے ۔ چنانچہ عشاء کی نماز کے بعد میں نے مولانا کو الوداع کہنا چاہا تو فرمایا روانگی کے وقت میں رخصت کرنے آؤں گا ۔ میں نے عرض کی آپ کو زحمت ہوگی، نیند میں خلل پڑے گا۔ فرمایا کوئی بات نہیں …… چنانچہ جب روانگی کا وقت ہوا اور میں ا پنا بیگ اٹھا کر اپنے مسجد والے حجرے سے باہر نکلا تو مولانا کو موجود پایا ۔ پھر ہم دونوں باتیں کرتے ہوئے وہاں پہنچے جہاں وہ دونوں حضرات گاڑی لیکر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ رخصت کے وقت جب انھوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر فرمایا:’’ استودع اﷲ دینک و امانتک وخواتیم عملک، وزودک اﷲ التقویٰ ویسر لک الخیر اینما توجہت‘‘تو اس کے ساتھ ہی انھوں نے چپکے سے میرے ہاتھ میں کوئی کاغذ تھمایا۔ میں نے محسوس کیا کہ نوٹ کی شکل میں کچھ رقم ہے تو میں نے واپس کرنا چاہا اور کہا ’’ جزاک اﷲ‘‘ آپ نے تو لطف وکرم کی انتہا کردی۔ اس کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ اس پر انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور ان دونوں حضرات سے کچھ دور ہوئے تو زور زور سے رونے لگے ۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور کہے جا رہے تھے ’’ لے لو اسے ، لے لو اسے‘‘ چنانچہ میں نے وہ روپیہ لے لیا ۔ ان کا رونا دیکھ کر میرے بدن میں کپکپی طاری ہوگئی اور میں بہت شرمندہ ہوا کہ میرا روپیہ لوٹانا ہی ان کے اس شدید گریہ کا سبب بنا ۔ چنانچہ میں نے ان سے معافی چاہی اور انھوں نے معاف کردیا ۔ سسکیاں لیتے ہوئے آنکھوں سے آنسو پوچھے اور ذرا سنبھلے تو میرا ہاتھ پکڑااور گاڑی کی طرف بڑھے ۔ پھر میں نے ان کو الوداع کہا اور گاڑی پر سوار ہوگیا۔ یہ تمام خیالات اور انفعالات میرے ذہن میں گھومتے رہے ، یہاں تک کہ فجر کا وقت ہو گیاتو ہم لوگ نماز کیلئے رکے۔ میں نے ان دونوں حضرات کی امامت کی۔ جب میں نے قرأت شروع کی تو اس واقعہ کے تصور سے روپڑا۔‘‘ ۱؂ 
مولانا مبارک پوری طلباء سے جس شفقت کا اظہار فرماتے اور تعلیم کے سلسلے میں انھیں جس قسم کے جواب اور صحیح مشورے دیتے، اس سلسلے کا ایک واقعہ قاضی اطہر مبارک پور ی کا پڑھئے وہ لکھتے ہیں :
’’ میں مولانا کی خدمت میں بہ سلسلہ علاج آتا جاتا تھا کبھی کبھی یوں ہی چلا جاتا تھا ۔ 
  ایک مرتبہ مولانا نے پوچھا’’ کون کون سی کتابیں پڑھتے ہو ؟‘‘ میں نے کتابوں کے نام 
بتائے تو فرمایا’’ منطق میں بہت پیچھے ہو، اس میں محنت کرو‘‘ ان کی علمی مشغولیت اور تصنیفی انہماک دیکھ کر لکھنے پڑھنے کا حوصلہ ملا۔ ان کی زبان سے پہلی بار یہ مقولہ سناتھا۔
  ۱؂ مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری ۔ حیات و خدمات ،ص:۲۲۶تا۲۲۸۔ بحوالہ صوت الجامعہ، 
جامعہ سلفیہ بنارس(ستمبر۱۹۷۳ء) مضمون ’’ اہل الحدیث فی الہند‘‘
’’ من ساویٰ یومان فہو فی الخسران‘‘ یعنی جس شخص کے دونوں دن برابرہوں وہ نقصان میں ہے ۔ ہر اگلا دن پچھلے دن سے بڑھا ہونا چاہیے ۔ یہ جملہ آج تک کام دے رہا ہے۔ ‘‘ ۱؂
بلند ترین علمی مرتبہ
اﷲ نے مولانا مرحوم کی ذات میں بہت سے اوصاف جمع فرما دیئے تھے۔وہ تمام علوم مروجہ میں مہارت رکھتے تھے ۔ جن حضرات نے ان کی تصانیف کا مطالعہ کیا ہے ، انھیں معلوم ہے کہ وہ اونچے درجے کے محقق اور بلند پایہ مصنف تھے۔ تدریس کا بھی انھیں خاص ملکہ حاصل تھا ۔ حدیث میں وہ درجۂ امامت پر فائز تھے۔ ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی فرماتے ہیں: 
’’ میں اپنے رب کو شاہد بنا کر کہتا ہوں کہ ہمارے شیخ عبد الرحمن بن عبد الرحیم مبارک پوری رحمہ اﷲ اگر تیسری صدی ہجری کی شخصیت ہوتے تو آپ کی تمام وہ حدیثیں جنھیں آپ نبی کریم ﷺ سے یا آپ کے صحابہ رضوان اﷲ علیہم سے روایت کرتے ، صحیح ترین احادیث ہوتیں اور ہر وہ چیز جسے آپ روایت کرتے ، حجت بنتی اور اس بات میں دو آدمیوں کا بھی اختلاف نہ ہوتا‘‘۲؂
آنکھ کی تکلیف 
زندگی کے آخری دور میں حضرت مولانا مبارک پوری کو آنکھ کی تکلیف ہو گئی تھی،یعنی نزول الماء کے مرض میں مبتلا ہو گئے تھے ، جسے موتیا بند کہا جاتا ہے اور اس مرض کی وجہ سے پہلے ضعف بصارت ہوا ، پھر تھوڑے عرصے میں بصارت ختم ہوگئی۔ اس وقت وہ تحفۃ الاحوذی ( شرح 
۱؂’’میری طالب علمی : قاعدہ بغدادی سے صحیح بخاری تک۔‘‘ص:۱۴۔ مطبوعہ مبارک پور ۱۹۸۷۔ قاضی اطہر مبارک پوری نے۱۴؍جولائی ۱۹۹۶ء کو وفات پائی۔ ۲؂مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری ۔ حیات و خدمات ،ص:۲۳۲ بحوالہصوت الجامعہ ماہ رجب ۱۳۹۴ھ نیز دیکھئیے سہ ماہی ’’تحقیقات اسلامی‘‘ علی گڑھ۔دسمبر ۱۹۹۲ء مضمون ’’ ہندوستان میں علماء محدثین کی دینی خدمات‘‘از : مولانا غازی عزیر صاحب …… 
جامع ترمذی ) کی آخری جلد لکھ رہے تھے۔ اب انھوں نے اپنے عزیزوں حضرت مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری اور مولانا عبد الصمد مبارک پوری کی خدمات حاصل کیں اور ان کے تعاون سے اس کی آخری دو جلدیں مکمل فرمائیں۔ 
اس زمانے میں آنکھوں کے علاج نے زیادہ ترقی نہیں کی تھی ۔ کہیں کہیں اس کاعلاج ہوتا تھا ۔ حضرت مرحوم کے خاندان کے لوگوں نے بار بار کہا کہ لکھنؤ یا دہلی جاکر آنکھ کا آپریشن کرایا جائے ۔ دیگر حضرات نے بھی بہت اصرار کیا لیکن مولانا مرحوم صبر و شکر سے کام لے رہے تھے اور اﷲ کی رضا پر راضی تھے۔ اب چلنا پھرنا بھی مشکل ہوگیا تھااور تصنیف وتالیف کا تسلسل قائم رکھنے میں دشواری پیش آگئی تھی۔ 
آپریشن اور نظر کی بحالی
اسی حالت میں رجب ۱۳۵۳ھ میں تحفۃ الاحوذی کی آخری جلد کی طباعت کیلئے دہلی کا عزم کیا۔افراد خانہ اور سب رفقائے کرام نے مشورہ دیا کہ دہلی میں آنکھ کا آپریشن ضرور کرایا جائے۔ چنانچہ دہلی جاکر ایک آنکھ کا آپریشن کرایا گیا۔ آپریشن کامیاب رہا اور بینائی بحال ہوگئی ۔ سب نے اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور میل جول رکھنے والے تمام حضرات بے حد خوش ہوئے۔
اختلاج ِقلب اور وفات
دہلی سے واپس وطن (مبارک پور) تشریف لائے تو اختلاج قلب کے دورے پڑنے لگے اور اس مرض کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا ۔ شعبان کا آخری نصف شدید تکلیف میں گذرا ، رمضان شریف میں بھی یہی کیفیت رہی ۔ اس کے ساتھ ہی بخار ہونے لگا۔ تیزی کے ساتھ تکلیفیں بڑھنے لگیں اور لمحہ بہ لمحہ وقت موعود قریب آتا گیا ۔ بالآخر نےّر تاباں جو تمام عمر تصنیف وتالیف اور درس و تدریس کی صورت میں دنیا میں روشنی پھیلاتا رہا ، ۱۶؍شوال ۱۳۵۳ھ(۲۲؍جنوری ۱۹۳۵ء) کی رات کے آخری حصے میں ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
تجہیز و تکفین اور تدفین
اس روز نماز عصر کے بعد تجہیز و تکفین کا مرحلہ طے ہوا ۔ نماز جنازہ حضرت مولانا محمد احمد صاحب صدر مدرسین مدرسہ فیض عام مؤ نے پڑھائی ، جس میں تمام مسالک فقہی کے لوگوں نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ کہا جاتا ہے کہ اس علاقے کی تاریخ میں اس سے پہلے کسی کے جنازہ میں انسانوں کا اتنا بڑا ہجوم دیکھنے میں نہیں آیا۔ ۱؂ 
حضرت مولانا کو ان کے آبائی قبرستان میں دفن کیا گیا اور قبر کے سرھانے تاریخ کا کتبہ نصب ہے جس پر یہ الفاظ کندہ ہیں: 
’’حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب المتوفی ۱۶؍شوال ۱۳۵۳ھ ۱۹۳۵ء‘‘ 
اﷲم اغفرلہ و ارحمہ وعافہ واعف عنہ۔ اﷲم نور قبرہ ووسع مدخلہ وادخلہ جنۃالفر دوس۔
  حضرت مرحوم کی وفات پر متعدد اہل علم نے لکھا ۔ تعزیتی مضامین بھی لکھے گئے اور اشعار کی صورت میں بھی عربی، فارسی، اردو میں اظہار تعزیت کیا گیا۔ اس دور کے لکھنے والے سب بزرگان ذی مرتبت اپنی اپنی باری سے اﷲ کے حضور پہنچ چکے ہیں ، رحمہم اﷲ تعالی
میری عمر حضرت کی وفات کے وقت دس سال سے کم تھی اور میں اپنے وطن کوٹ کپورہ میں حضرت مولانا عطاء اﷲ حنیف مرحوم و مغفور سے ابتدائی درسی کتابیں پڑھتا تھا ۔ مجھے اچھی طرح یادہے کہ استاذ محترم کو حضرت کی وفات کی خبر پہنچی تو انھوں نے نہایت افسردہ لہجے میں بتایا 
۱؂ تذکرہ علمائے مبارک پور ،ص:۱۵۶ مقدمہ تحفۃ الاحوذی ۔ یادگار مجلہ، ص : ۸۹۔
مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری ،ص: ۲۴۳،۲۴۴۔
تھا کہ جامع ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی کے مصنف مولانا عبد الرحمن مبارک پوری وفات پاگئے۔ وہ تحفۃ الاحوذی کے علاوہ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔میں نے حضرت کا اسم گرامی سب سے پہلے جناب عطا ء اﷲ حنیف مرحوم سے سنا تھا ۔ پھر کاروانِ زندگی کچھ آگے بڑھا اور ذہن میں علمائے ذی اکرام کے حالات سے آگاہ ہونے کا جذبہ ابھرا تو حضرت مرحوم کے واقعات کی جستجو شروع کی، جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے ۔
حضرت مولانا کے حالات
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے حضرت مولانا مبارک پوری کی وفات سے فوری بعد کی اردو کی نثری اور شعری اخباری تحریروں کے علاوہ ’’ تراجم علمائے حدیث ہند ‘‘ پہلی کتاب ہے ،جس میں مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی نے حضرت کے متعلق مضمون لکھا ۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ ان کی وفات سے تین سال بعد ۱۹۳۸ء میں دہلی سے شائع ہوئی تھی ۔ اس میں شائع شدہ مضمون صرف چھ صفحات پر مشتمل ہے ، اس میں بھی دو صفحے اشعار نے لے لئے ہیں ۔ مضمون اگر چہ بہت مختصر ہے تاہم حوالے کا مضمون ہے۔ 
عربی میں مقدمہ تحفۃ الاحوذی کے آخر میں ’’ ترجمۃ المولف‘‘ کے عنوان سے مولانا عبد السمیع صاحب مبارک پوری کا مقالہ چودہ صفحات کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ نہایت جاندار اور پُر از معلومات مقالہ ہے۔
عربی میں ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی کا مقالہ ’’ اہل الحدیث فی الہند‘‘ ہے جو ستمبر ۱۹۷۳ء کے مجلہ صوت الجامعہ بنارس میں چھپا ، یہ تاثراتی اور واقعاتی مقالہ انتہائی اثر انگیز ہے ۔ اس کے چند اقتباسات گزشتہ صفحات میں درج کئے گئے ہیں ۔ جن کے پڑھنے سے حضرت مولانا مبارک پوری کی عظمت کا نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے ۔ اس میں رفیع القدر شاگرد نے عظیم المرتبت استاذ کی سیرت اور خدمات پر جس انداز میں روشنی ڈالی ہے ، وہ انتہائی قابل قدر ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے محبوب و محسن استاذ کی خدمت میں دردو اخلاص میں ڈوبا ہوا نذرانہ پیش کرکے صحیح معنوں میں حق شاگردی ادا کیا ہے ۔
اسی طرح مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کا مضمون ( مطبوعہ اگست ۱۹۵۵ء ہفت روزہ ’’ المنیر ‘‘ فیصل آباد ) حضرت مبارک پوری رحمۃ اﷲ علیہ کے متعلق جہاں بہت سی علمی و تحقیقی معلومات کی وضاحت کرتا ہے ، وہاں ان کے تواضع ، انکسار اور علماء و طلباء سے ان کی شفقت و رافت کا بھی آئینہ دار ہے۔ 
یہ فقیر حضرت مولانا مبارک پوری رحمۃ اﷲ علیہ کے اہل علم اخلاف کی خدمت میں نہایت ادب سے عرض کرنا چاہتا ہے کہ ان پر بالخصوص یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی صاحب اردو میں حضرت کے مفصل حالات تحریر فرمائیں اور ان کی خدمات گو ناگوں کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کریں ۔ ان کی حیات مبارکہ کے بہت سے گوشے ضبط تحریر میں آگئے ہیں اور بہت سے پردۂ خفا میں ہیں ، جن کی صراحت کرنا ضروری ہے۔ کسی کی جہالت کا اعلان کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا ، میدانِ عمل میں اتریں گے تو بات بنے گی۔
یہ مضمون اپریل ۲۰۰۴ء میں لکھا گیا تھا اور اپریل اور مئی کے ’’الاعتصام ‘‘ کے تین شماروں میں چھپا تھا ۔اس وقت مولانا صفی الرحمن مبارک پوری زندہ تھے ۔ ان کا سانحہ ٔ ارتحال یکم دسمبر ۲۰۰۶ ء کو پیش آیا ۔ لیکن ان سطور میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے ، ان میں اگر چہ قاضی اطہر مبارک پوری کی وجہ سے مولانا ممدوح کا ذکر آیا ہے ، لیکن کسی اہل علم سے متعلق اظہار رائے میں الفاظ کے استعمال کا معاملہ ہم سب سے تعلق رکھتا ہے ۔ کوشش کرنی چاہیے کہ اس میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے ۔ بہر حال وہی مضمون کچھ ردوبدل کے ساتھ ’’دبستان حدیث‘‘ میں نقل کردیا گیا ہے ۔ 
بات موضوع کے دائرے سے باہر تو نہیں نکلی البتہ تھوڑا سا رخ اختیار کر گئی۔ اپنی محدود معلومات کے مطابق میں عرض یہ کر رہا تھا کہ حضرت مولانا مبارک پوری رحمہ اﷲ کے بارے میں اب تک کیا کچھ لکھا گیا ہے۔ 
نزہۃالخواطر کی آٹھویں جلد میں حضرت مرحوم کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ 
ہمارے دوست پروفیسر ڈاکٹر عبد الغفو راشد نے حضرت پر عربی میں پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا، جس پر انھیں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی۔ یہ مقالہ بے شمار دیگر مقالوں کی طرح یونیور سٹی کے شعبۂ مقالات میں پڑا ہے ۔ اس کی دو یا تین کاپیاں ان کے پاس بھی ہوں گی۔ 
حال ہی میں مجھے برادرِ عزیز مولانا محمد عارف جاوید محمدی صاحب نے کویت سے ایک کتاب بھجوائی ہے ، جس کا نام ہے ’’ مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری۔ حیات و خدمات‘‘ ۔ یہ دراصل پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو ڈاکٹر عین الحق قاسمی نے لکھنؤ یونیورسٹی کی طرف سے لکھا اور انھیں اس پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی۔مقالہ بڑی محنت اور تحقیق سے لکھا گیا ہے اور حضرت مولانا کی گھریلو اور عملی زندگی کے (غالباً) تمام گوشے اس میں آ گئے ہیں بہت سی باتیں انھوں نے حضرت مرحوم کے اعزہ واقارب سے خود مل کر یا خط و کتابت کے ذریعے حاصل کی ہیں۔ حضرت مولانا کا اور ان سے تعلق رکھنے والے حضرات کا تذکرہ ڈاکٹر قاسمی بے حد احترام سے کرتے ہیں اس موضوع پر انھوں نے مقالہ کیوں لکھا؟ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ پیش لفظ میں تحریر فرماتے ہیں: 
’’ شکر ہے اس خدائے بزرگ و برتر کا ، جس نے اپنے ایک بہت ہی چھوٹے بندے کو ایک بہت ہی بڑے انسان کی حیات و خدمات لکھنے کی توفیق دی۔
’’ مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری (۱۲۸۳ھ…… ۱۳۵۳ھ) رحمہ اﷲ کی حیات وخدمات پر لکھا گیا یہ مقالہ نہ کسی مرید کا ہے نہ شاگرد کا ، نہ معتقد غالی کا ہے شخصیت پرست کا،نہ فرد خانہ کا ہے نہ عزیز و رشتے دار کا، نہ ہم مسلک کا ہے نہ مقلد جامد کا ، نہ تملق پسند کا ہے نہ بندۂ غرض کا، بلکہ ایک حق پسند اور حق جو طالب علم کا ہے ، جس کی حیثیت علم و فن اور بحث و تحقیق کے میدان میں ایک مبتدی کی ہے ۔ اس مقالے میں مولانا محدث مبارک پوری کی حیات وخدمات کا ’’ معروضی‘‘ جائزہ لیا گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی شخصیت جتنی عظیم رہی ہے ، اتنی ابھی تک اس کی طرف توجہ نہیں کی جاسکی ہے۔ 
’’ عرب و عجم میں ان کے علمی کارنامے بالخصوص ’’ تحفۃ الاحوذی‘‘ کی مقبولیت ہی ان کی شخصیت کا تعارف ہے ۔ ان کی تفصیلی سوانحی حالات ابھی تک لوگوں کے سامنے نہیں آسکے ہیں۔ مقدمہ تحفۃ الاحوذی میں ’’ترجمۃ المولف‘‘ کے عنوان سے جس قدر لکھا گیا ہے ، میری معلومات کی حد تک ابھی تک اس پر کوئی خاص اضافہ نہیں ہو سکاہے۔ ضرورت تھی کہ مولانا محدث مبارک پوری کی حیات و خدمات کا تفصیلی تعارف کرایا جاتا، چنانچہ میں نے اس کا بیڑا اٹھایا اور کام شروع کردیا۔ اس کا ذکر جب میں نے مشہور مصنف اور مورخ اسلام مولانا قاضی اطہرصاحب مبارک پوری سے کیا تو فرمایا :’’بہت اچھا۔ یہ ہمارے ذمہ ایک قرض تھا۔ محنت سے کام کرو تو یہ علمی قرض ادا ہو جائے گا۔ جو تعاون ہوسکے گا کروں گا۔‘‘ اپنی کتاب ’’تذکرہ علمائے مبارک پور‘‘ اور ’’ میری طالب علمی: قاعدہ بغدادی سے صحیح بخاری تک‘‘ ہدیتاً عنایت فرمائی۔ آہ! مولانا قاضی اطہر مبارک پوری اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ مؤرخہ ۲۸؍ صفر۱۴۱۷ھ مطابق (۱۴؍جولائی ۱۹۹۶ء) کو بروز یک شنبہ رات ۹ ؍بج کر ۵۵ منٹ پر اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔ اﷲ انھیں کروٹ کروٹ چین نصیب کرے۔وہ آج زندہ ہوتے تو اس علمی قرض کو ادا ہوتے دیکھ کر کتنا خوش ہوتے۔‘‘ ۱؂
۱؂ مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری ۔ حیات و خدمات ،ص:۲۳۲ 
ڈاکٹر عین الحق قاسمی کا یہ مقالہ اگست ۱۹۹۸ء کو لکھنؤ یونیورسٹی نے منظور کیا اور ۲۰۰۲ء میں مصنف نے اسے کتابی شکل میں شائع کردیا جو ۲۶۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ 
فاضل مصنف حضرت مولانا مبارک پوری کا ذکر بے حد احترام سے کرتے ہیں اور انھیں بالعموم ’’مولانامحدث مبارک پوری ‘‘ لکھتے ہیں ۔ مولانا کی سندوں پر بھی ’’ محمد عبد الرحمن ‘‘ لکھا گیا ہے اور وہ خود بھی اپنا اسم گرامی اسی طرح تحریر فرماتے تھے ، یعنی’’ محمد عبد الرحمن ‘‘ ان کے نزدیک لفظ’’ محمد ‘‘ ان کے نام کا جز تھا ، اس لئے لائق احترام مصنف ان کا نام نامی اسی طرح رقم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا یہی نام تھا۔
ڈاکٹر عین الحق قاسمی نے آخر میں ’’ کتابیات‘‘ کی فہرست درج کی ہے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت مولانا مبارک پوری رحمہ اﷲکے ایک عزیز عبد الکبیر عبد القوی مبارک پوری ۱۹۸۲ء میں مدینہ یونیورسٹی کے طالب علم تھے اور انھوں نے وہاں عربی میں مولانا کے متعلق مقالہ لکھا تھا ، جس کا عنوان ہے ’’حیات المحدث محمد عبد الرحمن المبارک فوری‘‘ ۔ صاحب مقالہ نے اپنا یہ مقالہ ڈاکٹر عین الحق قاسمی کو برائے استفادہ بھیجا تھا۔ اس مقالے کی ایک کاپی میرے پاس بھی ہے جو مجھے از راہ کرم مولانا عارف جاوید محمدی نے کویت سے ارسال فرمائی ہے۔ مقالہ پڑھ کر بے حد مسرت ہوئی ، اسلئے کہ یہ حضرت مبارک پوری رحمہ اﷲ کے خاندان کے ایک فاضل رکن کی کاوش ِ فکر کا نتیجہ ہے، لیکن گذارش یہ ہے کہ اس میں ضروری اضافے کرکے اب تک اسے شائع کیوں نہیں کیا گیا ؟ مقالہ پچیس چھبیس سال پہلے لکھا گیا تھا ۔ اس وقت حضرت مرحوم کے خاندان کے بھی اور خاندان کے علاوہ بھی بہت سے ایسے حضرات موجود تھے ، جنھوں نے حضرت کو بہت قریب سے دیکھا اور ان سے استفادہ کیا تھا۔اور فاضل مقالہ نگار نے ان سے معلومات حاصل کی ہیں ، اس اعتبار سے یہ مقالہ مستند اور صحیح ترین مواد پر مشتمل ہے ۔ لہذا ضروری اضافوں کے ساتھ اسے عربی میں بھی شائع کرنا چاہئے اور اس کا اردو ترجمہ بھی معرض اشاعت میں آنا چاہئے۔
حضرت مولانا مبارک پوری رحمۃ اﷲ علیہ کے سانحہ ارتحال پر ۷۷ سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔اب ان کے خاندان یا تعلق داروں یا شاگردوں میں معلوم نہیں کوئی ایسے بزرگ ہیں یا نہیں ، جنھوں نے حضرت مرحوم کی زیارت کی ہو ، البتہ ان سطور کی تحریر تک پاکستان میں ایک جلیل القدر عالم موجود تھے جنھیں حضرت کی زیارت کا شرف حاصل تھا ، وہ تھے حضرت مولانا عبد الغفار حسن رحمانی رحمہ اﷲ تعالیٰ۔
ان کا ایک طویل انٹر ویو ماہنامہ ’’ شہادت‘‘(اسلام آباد) کے دسمبر ۱۹۹۶ء کے شمارے میں چھپا تھا جو اس کے چیف ایڈیٹر جناب خالد سیال نے ان سے کیا تھا ۔ انٹر ویو بہت سی معلومات کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور نہایت دلچسپ ہے ۔ سوالات بھی اپنے اندروزن رکھتے ہیں اور جواب بھی پُروقار ہیں ، زبان کے لحاظ سے بھی اور بیان واقعات کی صورت میں بھی……!
مولانا عبد الغفار حسن رحمانی سے سوال کیا گیا :
’’ زندگی میں آپ کی پسندیدہ شخصیت کون سی رہی ہے؟‘‘ 
مولانا جواب دیتے ہیں :’’ مولانا محمدعبد الرحمن مبارک پوری کو میں بہت بڑا عالم سمجھتا ہوں ۔ وہ میرے پسندیدہ مصنف بھی ہیں، ان کی سوچ وفکر بڑی متوازن تھی۔ ایک لحاظ سے وہ میرے استاذ بھی تھے۔ وہ دارالحدیث رحمانیہ (دہلی)میں اکثر ٹھہرا کرتے تھے ۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ ایک دفعہ انھوں نے ہمارا امتحان بھی لیا تھا۔ میں ان کے زہد وتقویٰ اور علم سے بہت متاثر تھاوہ دنیا کے حریص نہیں تھے۔ ان کی کتاب تحفۃ الاحوذی عرب ممالک میں بڑی معروف ہے ۔ ہم عصر اساتذہ اور علماء میں ان کی شخصیت ہر لحاظ سے نمایاں اور ممتاز تھی۔‘‘ 
یہاں ایک بات عرض کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ وہ یہ کہ علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم نے ’’ معارف‘’ میں وفیات کے سلسلے میں بہت سے حضرات پر لکھا اور جس شخصیت پر لکھا ( اختصار کے ساتھ یا کسی قدر تفصیل کے ساتھ ) بہت خوبصورت انداز میں لکھا ۔ ان شخصیات میں علماء کے علاوہ غیر علماء بھی شامل ہیں بلکہ اس وسیع فہرست میں غیر مسلم بھی موجود ہیں اور یہ ایک منفرد سلسلہ وفیات ہے ۔ معارف میں شائع شدہ یہ تمام مواد کتابی صورت میں ’’ یاد رفتگاں‘‘ کے نام سے چھپ گیا ہے ۔ سید صاحب مرحوم کی یہ قابل قدر تحریریں ہیں لیکن تعجب ہے سید صاحب نے مولانا مبارک پوری کے بارے میں کچھ نہ لکھا ۔ خدا جانے ان کی توجہ اس طرف کیوں نہ گئی ۔ حالانکہ وہ ان کے بالکل قریب تھے ۔ مبارک پور کا قصبہ ضلع اعظم گڑھ میں ہے اور علم و علماء کے اعتبار سے پُرثروت قصبہ ہے ۔ ۱؂

٭٭٭








۱؂ بشکریہ ماخوذدبستان حدیث از مولانا محمد اسحق بھٹی حفظہ اﷲ ۔ 
مولانا ابولقاسم سیف بنارسی رحمہ اﷲ
(وفات ۲۵؍نومبر ۱۹۴۹ء)
مولانا محمد سعید بنارسی کے سب سے بڑے بیٹے مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی تھے جو یکم شوال ۱۳۰۷ھ ( ۲۱؍ مئی ۱۸۹۰ء) کو بنارس میں پیدا ہوئے ۔ تاریخی نام ’’ محمد فاضل قادر‘‘ (۱۳۰۷ھ) تھا۔ سات سال کی عمر میں ناظرہ قرآن مجید ختم کیا۔ پھر قرآن مجید حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ اسی سال قاضی محمد مچھلی شہری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے سند مسلسل بالا ولیہ حاصل کی ۔ پھر علی الترتیب مندرجہ ذیل حضرات سے اخذ علم کیا۔ 
(۱)…… مولانا سید عبد الکبیر بہاری سے فارسی اور صرف و نحو کی کتابیں پڑھیں۔
(۲)…… مولانا سید نذیر الدین احمد جعفری ہاشمی سے عربی ادبیات و معانی میں استفادہ کیا ۔
(۳)…… مولانا حکیم عبد المجید بنارسی سے فقہ، اصول فقہ، منطق و فلسفہ وغیرہ علوم کی تکمیل کی۔
(۴)…… اپنے والد گرامی مولانا محمد سعید بنارسی سے تفسیر اور حدیث کے علوم سے بہرہ ور ہوئے۔
(۵)…… مولانا شمس الحق ڈیانوی( شارح ابوداؤد) سے بعض کتب حدیث پڑھیں۔
(۶)…… شیخ حسین بن محسن یمنی سے بھی مستفید ہوئے ۔ 
(۷)…… محدثِ پنجاب حضرت حافظ عبد المنان وزیرآبادی کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے اور ان سے اکتساب فیض کیا۔
(۸)…… حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی کے آستانۂ فضیلت کا رخ بھی کیا اور ان سے مستفید ہوئے۔اس طرح انھوں نے وقت کے متعدد مشاہیر رجالِ علم کی طرف رجوع کیا اور ان سے فیض یاب ہوئے۔ سولہ برس کی عمر میں فارغ التحصیل ہوکر اپنے والد مکرم کے قائم کردہ مدرسہ سعیدیہ (بنارس) کی مسند درس پر متمکن ہوئے اور طلباء کو مختلف درسی کتابیں پڑھانا شروع کیں ۔ تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا آغاز کردیا ۔ نہایت ذہین اور لائق ترین مدرس ومصنف کی حیثیت سے شہرت پائی۔
ایک ماہانہ رسالہ ’’السعید‘‘ جاری کیا ، جو علومِ قرآن و حدیث کی ترویج کا بہت بڑا ذریعہ تھا لیکن ۱۳۳۰ھ(۱۹۱۲ء) میں وہ رسالہ بند ہوگیا۔۱۳۳۱ھ (۱۹۱۳ء) میں مولانا ابوالقاسم کو مدرسہ سعیدیہ کے صدر مدرس مقرر کیا گیا۔ تمام علوم و فنون کی درسی کتابیں وہ طلباء کو خود پڑھاتے تھے۔ مولانا ابو یحییٰ امام نو شہروی کے بقول ۱۳۵۳ھ تک وہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم ۲۵ مرتبہ پڑھا چکے تھے ۔ اس وقت ان کی عمر ۵۶ برس کی تھی اور سلسلۂ تدریس جاری تھا۔مطبع سعید المطابع جو ان کے والد مکرم مولانا محمد سعید نے جاری فرمایا تھا، اس کی ذمہ داری بھی ان کے سپردتھی ۔ وہ متحدہ ہندوستان کا زمانہ تھا۔ مختلف مقامات میں جماعت اہل حدیث کے اصلاحی اور تبلیغی جلسے اس عہد میں کثرت سے منعقد کئے جاتے تھے۔ جن جلسوں میں مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی کو دعوت دی جاتی تھی ، ان جلسوں میں وہ شرکت فرماتے تھے ۔ وہ اپنے دور کے بہت بڑے مقرر تھے۔ مناظرے میں بھی انھیں مہارت حاصل تھی اور تقلید وغیرہ مختلف موضوعات پر علمائے احناف سے ان کے مناظروں کا سلسلہ جاری رہتاتھا ۔ آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس سے بھی ان کا تعلق تھا۔اس کے جلسوں میں وہ ضرور شرکت فرماتے تھے۔ کانفرنس کے بعض سالانہ جلسوں کی انھوں نے صدارت بھی کی مثلاً اس کا سترہواں سالانہ جلسہ ۶،۷،۸؍نومبر ۱۹۳۱ء کو پٹنہ میں ان کے زیر صدارت ہوا ۔ اسی طرح تیئیسویں سالانہ جلسے کا انعقاد ۲،۳،۴؍اپریل۱۹۴۳ء کو مؤآئمہ (ضلع اعظم گڑھ ) میں ان کی صدارت میں کیا گیا۔
ملک کی سیاسی تحریکوں میں بھی وہ حصہ لیتے تھے ۔ اس کی پاداش میں انھیں قید و بند کے مراحل سے بھی گزرنا پڑا ۔ ان کا سیاسی تعلق کانگریسی نقطہ نظر سے تھا۔ وہ کھدر کا لباس پہنتے تھے۔تدریسی، تقریری اور مناظراتی سرگرمیوں کے علاوہ ان کی تصنیفی سرگرمیاں بھی ہمیشہ زوروں پر رہیں ۔ ایک حنفی عالم مولانا عمر کریم نے ’’ الجرح علی البخاری ‘‘ لکھی تو مولانا ابوالقاسم بنارسی نے اس کے جواب میں ’’حل مشکلات البخاری‘‘ کے نام سے کتاب تصنیف کی جو موضوع کی نہایت محققانہ کتاب ہے۔ 
ایک کتاب انھوں نے ’’ جمع القرآن والحدیث‘‘ کے نام سے تصنیف فرمائی۔ اس کتاب میں قرآنِ مجید اور حدیث رسول ﷺ کی جمع و تدوین کی وضاحت کی گئی ہے ۔ اس کا ذکرہم نے اپنی کتاب ’’ بر صغیر کے اہل حدیث خدام قرآن‘‘ کے اس مضمون میں کر چکے ہیں جو ان کی خدمت قرآن سے متعلق لکھا گیا ہے ۔
اس کے علاوہ ان کی تصنیفات مندرجہ ذیل ہیں ، جن میں ایک حنفی مصنف مولانا عمر کریم کی بعض کتابوں کے جواب میں لکھی گئی کتابیں بھی شامل ہیں۔
(۱) الامر المبرم لابطال الکریم المحکم (۲) ماء حمیم للمولوی عمر کریم (۳) صراط مستقیم لہدایۃ عمر کریم (۴)الریح العقیم لحسم بناء الکریم (۵) الارجون القدیم فی افشاء ہفوات عمر کریم (۶) الرأس العظیم للمولوی عمر کریم (۷) التنقید فی ردّ التقلید (۸) رمی الجمرتین علیٰ شاک کلمۃ الشہادتین۔ مشتمل بر دو جلد(۹) ذکر اہل الذکر (۱۰) تحریر الطرفین فی صلوٰۃ التراویح والعیدین (۱۱) حکم الحاکم فی کنیۃ ابی القاسم (۱۲) اللوء لوء والمرجان فی تکلم المرأۃ بآیات القرآن (۱۳) لوء لوء الشرع(۱۴) تذکرۃ السعید (۱۵) حل مشکلات بخاری (۱۶)جوابات بارہ سوالات(۱۷)الفصول الشدید(۱۸) علاج درماندہ(۱۹) صخو رالمنجنیق (۲۰) البرذج (۲۱) تحفۃ الصبور (۲۲)الافکار(۲۳) ایضاح المنہج(۲۴) سفر بیت اﷲ (۲۵) دفع بہتان (۲۶) عیدالاضحی (۲۷) السیر الحثیث فی برأۃ اہل الحدیث (۲۸) اربعین محمدی(۲۹) جمع الرسالتین (۳۰) زبان عرب (۳۱) اظہار حقیقت (۳۲) ثنائے ربانی (۳۳) جوا ب دعوت (۳۴) معیار نبوت (۳۵) نورِ اسلام (۳۶)الزہر الباسم (۳۷) الجوائز (۳۸) اجتلاب المنفعہ۔ ان کے علاوہ چند کتابیں اور بھی ہیں جو انھوں نے تصنیف کی ہیں ۔ ان میں سے بعض کتابیں انھوں نے اپنے استاذ محترم مولانا شمس الحق ڈیانوی کے حکم سے لکھیں۔ 
مولانا ابوالقاسم بنارسی ( جیسا کے پہلے بتایا گیا ) مناظر بھی تھے۔ چنانچہ انھوں نے پٹنہ اور الٰہ آباد میں آریہ سماجیوں کے بعض پرچارکوں سے مناظرے کئے۔ احناف سے ٹانڈہ ضلع فیض آباد میں مناظرہ کیا جو علاج درماندہ کے نام سے کتابی شکل میں چھپا ۔ 
مولانا ابوالقاسم بنارسی نے ۲۵؍نومبر ۱۹۴۹ء (۳؍صفر۱۳۶۹ھ) جمعۃ المبارک کے روز وفات پائی نماز جمعہ کیلئے مسجد میں وضو کررہے تھے کہ ان پر فالج کا شدید حملہ ہوا اور ان کی روح قفص عنصری سے پرواز کر گئی۔
ان کی وفات پر مولانا محمد حنیف ندوی نے ’’ آہ مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی ‘‘ کے عنوان سے ہفت روزہ ’’ الاعتصام ‘‘ کے ۹؍دسمبر ۹۱۴۹ء کے شمارے میں حسب ذیل تعزیتی شذرہ لکھا۔
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں 
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی
 فما کان قیس ہلکہ ہلک واحد
 ولکنہ بنیان قوم تہدما
 الیٰ اﷲ اشکو لا الیٰ الناس اننی 
 اری الارض تبقی والاخلاء تذہب
 اخلاء لو غیر الحمام اصابکم
 عتبت ولکن ما علی الموت معتب
قیس کی موت تنہا ایک آدمی کی موت نہیں ۔ اس کے مرنے سے تو پوری قوم کی عمارت گرپڑی ۔شکوہ اﷲ سے ہے ،لوگوں سے نہیں ۔میں دیکھتا ہوں کہ زمین کی آبادیاں جوں کی توں قائم ہیں اور دوست ہیں کہ چلے جارہے ہیں۔ 
دوستو! موت کے علاوہ کوئی اور مصیبت ہوتی تو اس کا گلہ اور چارہ سازی بھی ہوتی۔ موت پر کیا گلہ ہے ۔
علمی حلقوں میں بالعموم اور جماعت اہل حدیث میں بالخصوص یہ خبر بڑے حزن و ملال سے سنی جائے گی کہ حضرت مولانا ابوالقاسم صاحب بنارسی ۲۵؍ نومبر کو جمعہ کے روز بارہ بجے فالج کے شدید حملہ سے چل بسے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ 
’’ مرحوم یگانۂ روز گار عالم ، شیوہ بیان مقرر اور نکتہ سنج مناظر تھے ۔ حدیث و فقہ کے جزئیات پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے ۔ اسلامی تاریخ جس سے علمائے عربی کو بہت کم لگاؤ ہوتا ہے مولانا کا خاص موضوع تھا اور پھر اسلامی تاریخ کا وہ حصہ جس کاتعلق محدثین کے سیر و سوانح سے ہوتا ہے وہ تو گویا انھیں از بر تھا ۔ وقت کے تمام علمی و سیاسی تحریکوں میں نمایاں حصہ لیا ۔ ابتداء ہی سے جمعیت علمائے ہند کے ساتھ رہے اور متعدد بار جیل بھی گئے۔ 
’’ علمی خوبیوں کے ساتھ ساتھ نہایت محبوب شخصیت رکھتے تھے ۔ جس دوست سے ایک مرتبہ ملے اُسے ہمیشہ کیلئے گرویدہ بنا لیا۔آخری بار مرحوم سے مؤ آئمہ اعظم گڑھ میں ملاقات ہوئی۔ کتنا اخلاص ، کتنی اپنائیت اور کس درجہ تواضع کے مناظر دیکھنے میں آئے ! اﷲ اﷲ، اب یہ مواقع کہاں ملیں گے؟
’’ نظریۂ اہلحدیث سے تو مرحوم کو عشق تھا۔ جب تک زندہ رہے اس کی اشاعت و تبلیغ میں کوشاں رہے۔
’’ مرحوم غنیمت کنجاہی کے تاریخی گاؤں کنجاہ، گجرات (پاکستان) کے ایک غیر مسلم خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد کو اﷲ تعالیٰ نے اسلام کی نعمت سے نوازا ۔ اور صلاح و تقویٰ کی بہت بڑی مقدار سے مالا مال تھے۔ ان پر اﷲ کا دو گونہ فضل تھا ۔ یعنی عقیدہ و عمل کی صحت کے ساتھ علم و فضل کی برکتیں بھی ارزانی ہوئیں ۔ اﷲ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے، آمین۔‘‘
(ماخوذ گلستان حدیث از مولانا محمد اسحق بھٹی ؍ حفظہ اﷲ ) 



٭٭٭


مولانا عبد السلام صاحب مبارک پوری رحمہ ٗاﷲ
صاحبِ سیرۃ البخاری 
(وفات ۲۴؍فروری ۱۹۲۴ء)
ہندوستان کے صوبہ یوپی کے جن خاندانوں نے تصنیف وتالیف ، درس وتدریس اور علم و عمل میں بے حد شہرت حاصل کی ان میں ایک خاندان کا تعلق ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ مبارک پور سے ہے یہ قصبہ کسی زمانے میں ریشمی کپڑے کی صنعت کے سلسلے میں مشہور تھا ۔ لیکن پھر علمی میدان کی شہرت اس کے حصے میں آئی۔ جو ریشمی صنعت کے کپڑے کی شہرت سے بازی لے گئی۔
اس خاندان کے ایک رفیع القدر عالم و مصنف مولانا عبد السلام صاحب مبارک پوری تھے جن کے والد گرامی کا نام خان محمد ، دادا کا نام امان اﷲ اور پڑ دادا کا نام حسام الدین تھا۔ یہ تمام حضرات اپنے اپنے عہد کے معروف اہل توحید تھے۔ اتباع سنت ان کا شیوہ ، تقویٰ شعاری ان کا پیشہ، صالحیت ان کی پہچان اور قرآن وحدیث سے قلبی تعلق ان کا تعارف……!
مولانا عبد السلام مبارک پوری نے اسی فضا میں نشو نما پائی اور اسی ماحول میں شعور کی منزل کو پہنچے۔ اردو اور فارسی کی ضروری تعلیم کے بعد عربی کی ابتدا ئی کتابیں اور صرف ونحو کی کتابیں شافیہ اور کافیہ وغیرہ حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری کے والد محترم حافظ حکیم عبد الرحیم مبارک پوری اور دیگر مقامی علماء سے پڑھیں ۔ فقہ کی شرح وقایہ مولانا حسام الدین مؤی سے پڑھی اور باقی درسی کتابیں مولانا عبد الحق ولایتی مدرس مدرسہ فتح پوری دہلی، مولانا عبد الرحمن مبارک پوری ، حضرت حافظ عبد اﷲ غازی پوری اور حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی سے پڑھیں۔سندو اجازۂ حدیث کا حصول میاں صاحب سے بھی ہوا اور شیخ حسین عرب یمنی سے بھی۔ اجازتِ حدیث مسلسل بالاوّلیہ و بلوغ المرام حضرت قاضی محمد مچھلی شہری سے حاصل کی ۔ علم طب حکیم عبد الولی بن حکیم عبد العلی لکھنوی اور بعض دیگر اساتذۂ طب سے پڑھا۔
تکمیل علوم کے بعد زندگی کے آخری دم تک مختلف درسگاہوں میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رہا مثلاً مدرسہ احمدیہ آرہ اور مدرسہ صادق پور پٹنہ میں پندرہ سال ، مدرسہ عالیہ مؤ ناتھ بھنجن میں تین سال، مدرسہ سراج العلوم بونڈیہار میں چار سال علماء وطلباء کو پڑھاتے رہے اور آخر میں دارالحدیث رحمانیہ میں تشریف لائے اور تادمِ زیست اسی سے وابستگی اختیار کئے رکھی۔
مولانا عبد السلام مبارک پوری مطالعۂ کتب کے بے حد شائق تھے ۔ کسی تاجر کتب کے پاس کوئی نئی کتاب آتی اور انھیں اس کتاب کا پتہ چل جاتا تو ہر قیمت پر اسے خریدنے کی کوشش کرتے ۔ کتابو ں سے یہی دلچسپی اور محبت ان کی موت کا باعث بنی۔ ایک رو ز دہلی کی جامع مسجد کے علاقے میں دار الحدیث رحمانیہ سے ایک کتاب خریدنے کیلئے گئے ۔ کتاب خرید کر چاندنی چوک گھنٹہ گھر کے قریب سڑک عبور کررہے تھے کہ اچانک ایک تیز رفتار گھوڑا گاڑی آئی ، جس پر کوئی سوار اور کوچوان نہیں تھا ۔ گھوڑا جو نہایت تیزی سے دوڑ رہا تھا مولانا کے اوپرسے گزرگیا اور وہ اسی وقت وفات پا گئے۔ وہ تازہ خریدی ہوئی کتاب ان کے ہاتھ میں تھی۔ جس کا سبز رنگ کا ٹائیٹل ان کے خون سے سرخ ہوگیا تھا۔ سنا ہے کہ یہ کتاب اب تک ان کے کتب خانے میں اپنے سبز و سرخ رنگ کے ٹائٹل کے ساتھ محفوظ ہے۔ 
مولانا مرحوم کی فن تدریس میں مہارت کا ذکر حضرت مولانا ثناء اﷲ امرتسری مرحوم نے ان کی وفات کے بعد اپنے اخبار’’ اہلحدیث‘‘ امرتسر۷؍ مارچ ۱۹۲۴؁ءکی اشاعت میں 
’’آہ مولانا عبد السلام صاحب مرحوم‘‘ کے عنوان سے مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا تھا۔ 
’’ مولانا موصوف صحیح معنوں میں ایک عالم ، علوم کے مدرس تھے۔ مدرسین کی تلاش میں جب نظر پڑتی تو آپ پر پہلے پڑتی ۔ خدا کی شان آپ کا بڑا لڑکا مولوی عبد العزیز بنگالہ میں خوب کام کرتا تھا۔ کچھ مدت پہلے فوت ہوگیا ۔ اب آپ کی باری آئی۔ آپ مدرسہ رحمانیہ میں مدرس تھے۔ بازار کو نکلے تھے ۔ کیا معلوم تھا کہ قضا لے جارہی ہے۔ سامنے سے گھوڑا گاڑی بے تحاشہ بھاگی آرہی تھی ، کوچ مین بھی نہ تھا ۔ بس گھوڑی کی صورت میں عزرائیل تھا۔ گاڑی کے نیچے دب کر علم و دین کا یہ آفتاب ۲۴؍ فروری ۱۹۲۴ء کو غروب ہو گیا ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ ‘‘
مولانا عبد السلام مبارک پوری عام جماعتی کاموں میں بھی پوری دلچسپی لیتے تھے بلکہ اس سلسلے میں پیش پیش رہتے تھے۔ علمائے کرام کے حالات سے بالخصوص انھیں لگاؤ تھا۔ اخبار’’ اہلحدیث‘‘ امرتسر میں تراجم اہل حدیث کا ایک سلسلہ ۳۰؍اگست ۱۹۱۸ء کو شروع ہوا تھا۔ جو ۱۷؍اگست ۱۹۲۲ء تک جاری رہا تھا۔ اس اثنا میں ۸۲ علمائے کرام کے حالات شائع ہوئے تھے ۔جن میں ایک تہائی کے قریب مولانا عبد السلام مبارک پوری کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ تھے۔ 
مولانا ممدوح نے مضامین کے علاوہ کتابیں بھی تصنیف کیں ۔ ان کی تصانیف میں سیرۃ البخاری کتاب التمدن اور ایک رسالہ تصوف کے بارے میں ہے یہ رسالہ غیر مطبوع ہے ۔
سیرۃ البخاری ان کی ایک نہایت اہم کتاب ہے ۔ اردو زبان میں یہ پہلی کتاب ہے جس میں تفصیل کے ساتھ حضرت امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کے حالات بیان کئے گئے ہیں ۔ اور ان کی محدثانہ شان کے مختلف گوشوں کی وضاحت فرمائی گئی ہے ۔ اس کتاب کو اصحاب علم میں بے حد پذیرائی ہوئی۔ اس موضوع سے متعلق عربی کی بھی کوئی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔
علامہ سید سلیمان ندوی نے مئی ۱۹۱۸ء کے ’’معارف‘‘ (اعظم گڑھ ) میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا۔ 
’’ امام بخاری کو عالم اسلامی میں جو اہمیت حاصل ہے ، محتاج بیان نہیں ۔ ضرورت تھی کہ امام ممدوح کی سیرت ، تصنیفات اور اجتہادات پر ہماری زبان میں کوئی مستقل کتاب لکھی جائے۔ ہم نہایت خوش ہیں کہ جناب مولانا عبد السلام صاحب مبارک پوری نے اس فرض کو نہایت عمدگی اور خوبی کے ساتھ ادا کیا۔ سلاست بیان ، طرز استدلال،استقضائے واقعات، تحقیق مسائل ، تفصیل مطالب، ہر چیز میں ان کے قلم نے اردو کے حکیمانہ مذہبی لٹریچر کی بہترین تقلید کی ہے ۔ 
’’ ہم اس کو اپنے معیار تصنیف کے مطابق سمجھتے ہیں ۔ سوانح نگار نے حصہ اول میں امام صاحب کے حالات وواقعات جمع کئے ہیں اور دوسرے حصے میں ان کی تصنیفات و اجتہاد ات پر نقد و تقریظ لکھی ہے۔‘‘
سیرۃ البخاری پہلی مرتبہ ۱۳۲۹ھ(۱۹۱۱ء) میں چھپی تھی ۔ اس کے بعد کئی مرتبہ چھپی ۔ پاکستان کے بھی دو مختلف اداروں نے اسے شائع کیا ہے۔
سید سلیمان ندوی مرحوم نے ۱۹۰۶ء کے ’’الندوہ‘‘ میں ایک مضمون امام بخاری پر لکھا تھا، جس کی اس وقت کے بہت سے اکابر نے انھیں داد دی تھی، ان میں ایک مولانا حالی بھی تھے ۔ جن کو یہ مضمون سب سے زیادہ پسند آیا اور انھوں نے سید صاحب کو بذریعہ خط اس کی داد دی ۔ لیکن اس ایک مضمون کے علاوہ سید صاحب نے امام بخاری پر اور کچھ نہیں لکھا۔ بلکہ جہاں تک اس فقیر کو یاد پڑتا ہے، دار المصنفین (اعظم گڑھ) میں نہ امام بخاری کے حالات میں کوئی چھوٹی موٹی کتاب لکھی گئی اور نہ ’’ معارف‘‘ میں آج تک اس موضوع پر کوئی قابل ذکر مفصل مضمون شائع ہوا۔ بس اس موضوع کی اردو میں ایک ہی کتاب ہے ، جس میں امام کے تمام محدثانہ پہلوؤں اور ان کی ذاتی و خاندانی زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کیا گیا ہے ، وہ ہے مولانا عبیداﷲ رحمانی مبارک پوری کے والدذی شان حضرت مولانا عبد لسلام مبارک پوری کی تصنیف ’’ سیرۃ البخاری‘‘۔ 
ہندوستان کے مشہور مصنف ومترجم ڈاکٹر عبد العلیم عبد العظیم بستوی نے ’’ سیرۃ البخاری‘‘ کا عربی میں ترجمہ کر دیا ہے جو تحقیق و تخر یج کے ساتھ چھپ چکا ہے اور عرب اہل علم اس سے استفادہ کر رہے ہیں ۔ اب ’’ سیرۃ البخاری‘‘ کتاب سرائے اورو بازار لاہور نے اس طرح چھاپ دی ہے کہ اس کا اردو متن وہی ہے لیکن تحقیق و تخریج کا اردو ترجمہ خود فاضل مترجم ڈاکٹر عبد العلیم عبدالعظیم بستوی نے کر دیا ہے۔ کتاب نہایت خوبصورت انداز میں چھپی ہے ۔ کمپوزنگ ، کاغذ،طباعت، جلد دیدہ زیب ہے۔
سید سلیمان ندوی مرحوم نے اس کتاب پر ’’ معارف ‘‘ میں جو تبصرہ کیا ، وہ قارئین کرام نے پڑھ لیا۔ مولانا ابو علی اثری ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ مولانا عبد السلام مبارک پوری سے سید صاحب کے بڑے گہرے تعلقات تھے ۔ دار المصنفین کے قیام کے بعد وہ ایک مرتبہ سید صاحب سے ملنے آئے تو اس وقت ان( سید صاحب) کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ ان کو دیکھتے تھے اور بار بار یہ شعر پڑھتے تھے:
وہ آئیں گھرمیں ہمارے خدا کی قدرت ہے 
کبھی ہم ان کو، کبھی اپنے گھر کو د یکھتے ہیں
مولانا ابو علی ۱؂ اثری فرماتے ہیں : تعلق کا ایک سبب تو ہم ذوقی تھا کہ دونوں اعلیٰ درجہ کے صاحب علم ، اہل قلم، اور مصنف تھے۔ دوسرے سیرۃ البخاری کے سلسلے میں خدا بخش خاں کی اورئینٹل لائبریری سے استفادے کیلئے وہ پٹنہ گئے۔ پٹنہ کی آمدو رفت میں دونوں حضرات ایک دوسرے سے ملتے تھے اور باہم لطف صحبت اٹھاتے تھے۔ سید صاحب ان کو بھی میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے اجلۂ تلامذہ میں شمار کرتے تھے اور ان کی بڑی قدر کرتے تھے ۔ ۲؂
 ۱؂ افسوس کہ مولانا ابوعلی اثری مورخہ ۳۰؍جنوری ۱۹۹۳؁ء کو سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔ تغمدہ اﷲ برحماتہ (عبدالرؤف خاں ندوی) 
 ۲؂ چند رجال اہلحدیث ، ص : ۷۶ شائع کردہ ندوۃ المحدثین گوجراں والا ۔ مولانا ابو علی اثری اہلحدیث اور دارالمصنفین اعظم گڑھ کے پروف ریڈر اور لائبرین تھے۔
مولانا عبدالسلام مبارک پوری کی کتاب التمدن کے جو مدنیت اسلام کے موضوع کا احاطہ کئے ہوئے ہے ، دو حصے آزادیٔ بر صغیر سے بہت پہلے شائع ہو گئے تھے۔ ایک حصہ غالباً ابھی تک شائع نہیں ہوا۔ 
بہر حال مولانا مرحوم جہاں درس و تدریس میں اپنا ایک مقام رکھتے تھے ، وہاں تصنیف و تالیف میں بھی اﷲ تعالیٰ نے ان کو بڑی مہارت سے نوازا تھا ۔
افسوس ہے مولانا کے مفصل حالات سے ہم آگاہ نہیں ہو سکے۔ جو کچھ ملا نذرِ قارئین کردیا گیا ۔
ان کے ورثا ء کو ان کے حالات تفصیل سے لکھنے چاہئیں۔ 
مولانا کی اولادِ نرینہ چار بیٹے تھے:
(۱) …… حافظ عبد العزیز (۲) …… علامہ عبید اﷲ رحمانی 
(۳)…… ڈاکٹر محمد عزیر اور (۴) مولانا عبید الرحمن طالب مظاہری رحمانی۔
ان میں سے حافظ عبد العزیز عالی قدر باپ کی زندگی ہی میں وفات پاگئے تھے۔ باقی تینوں باپ کی وفات کے بعد سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔ رحمہم اﷲ تعالیٰ ۱؂
(بشکریہ ماخوذکتاب گلستان حدیث ( از مولانا محمد اسحق بھٹی ) 



  ۱؂ تراجم علمائے حدیث ہند ، ص: ۳۹۹ مقدمہ سیرۃ البخاری بہ عنوان ’’ کچھ مؤلف کتاب کے
بارے میں ‘‘ از مولانا عبد الرحمن عبید اﷲ رحمانی ، ص : ۱۸تا۲۰ ( مکتبہ قدوسیہ، اردو بازار
لاہور۔ نومبر ۲۰۰۰ء) 
مولانا احمد اﷲ محدث پرتاب گڑھی دہلوی رحمہ اﷲ 
(وفات ۱۹؍ مارچ ۱۹۴۳ء)
جن حضرات نے تمام عمر گلستانِ علم میں بسر کی اور درس و تدریس کے ہنگامے جاری رکھے ، ان کی وسعت پذیر فہرست میں مولانا احمد اﷲ صاحب کا اسم گرامی پوری آب و تاب کے ساتھ درج نظر آتا ہے ۔ مولانا ممدوح کا مولد اور آبائی مسکن موضع مبارک پور ( ضلع پرتاپ گڑھ یوپی) ہے ۔ ان کے والد کا نام نامی مولانا امیر اﷲ تھا جو حضرت شاہ محمد یعقوب دہلوی مہاجر مکی اور مولانا سخاوت علی جون پوری کے فیض یافتہ تھے۔ شاہ محمد یعقوب کی ہجرت کے بعد وہ حج بیت اﷲ کے لئے گئے تو مکہ معظمہ میں شاہ صاحب کے داماد امیر بیگ سے علم حدیث میں استفادہ کیا ۔ 
مولانا امیر اﷲ کے چار بیٹے تھے ، لیکن علم کی نعمت نہایت فراوانی کے ساتھ ان کے جس بیٹے کے حصے میں آئی وہ ہمارے ممدوح مولانا احمد اﷲ ہیں ، جنھیں پرتاپ گڑھی کی نسبت سے بھی پکارا جاتا ہے اور دہلوی کی نسبت سے بھی۔ پر تاپ گڑھی کی نسبت سے اس لئے کہ ان کا خاندانی تعلق اسی ضلع سے تھا اور دہلوی کی نسبت کا اطلاق ان پر اس بنا پر ہوتا ہے کہ تحصیل علم کے بعد انھوں نے عمر بھر دہلی کے مرکز علم میں مسند درس آراستہ کئے رکھی۔ قرآنِ مجید اور اردو کی ابتدائی تعلیم کے بعد ان کا سلسلۂ حصول ِ علم ذیل کی ترتیب سے چلا۔ 
٭…… ایک بزرگ میاں پیر محمد صاحب تھے ، ان سے گلستاں وغیرہ فارسی کی کتابیں پڑھیں۔
٭…… سید محمد امین نصیرآبادی سے (جو رائے بریلی سے تعلق رکھتے تھے ) صرف ونحو کی کتابیں پڑھیں۔ قرآن مجید بھی انھیں سے حفظ کیا۔ 
٭…… مولانا ہدایت اﷲ خاں جونپوری سے علم فقہ کی شرح وقایہ بھی پڑھی اور ان کے ایک شاگر د سے منطق کی قطبی اور میر قطبی پڑھیں۔
٭…… مولانا زین العابدین جونپوری دکیل سے تفسیر جلالین کا درس لیا ۔ 
اس کے بعد بھوپال کو روانہ ہوئے ۔ اس وقت نواب صدیق حسن خاں تو انتقال فرما چکے تھے ، لیکن وہ بساط علم بچھی ہوئی تھی جو نواب صاحب نے اپنی زندگی میں پوری ریاست میں بچھا دی تھی۔ وہاں کے زمانہ ٔ قیام میں مندرجہ ذیل حضرات سے حصول فیض کیا۔
٭…… مولانا لطف الرحمن بردوانی سے مطول ، میر زاہد اور ملا حسن وغیرہ کتابیں مکمل کیں۔
٭ …… شیخ حسین یمنی سے حدیث میں استفادہ کیا یعنی صحیح بخاری ، صحیح مسلم، ترمذی اور نسائی کے لئے ان کے حضور زانوئے تلمذ تہہ کئے۔
٭…… مولانا سلامت اﷲ جے راج پوری بھی اس وقت بھوپال میں قیام فرما تھے ۔ ان سے کتب حدیث میں سے صحیح بخاری اور ابن ماجہ پڑھیں اور اصول حدیث کی شرح نخبۃ الفکر پڑھی۔
٭…… بھوپال میں ان دنوں ایک عالم دین مولانا احمد سندھی فروکش تھے جو مفتی عبد القیوم بن مولانا عبد الحئی بڈھانوی کے شاگر د تھے ۔ ان سے مولانا احمد اﷲ نے صحیح بخاری کا ثلث اوّل اور صحیح مسلم کے ابتدا کے کچھ حصے پڑھے۔
٭…… قاضی ایوب بھوپالی بھی مفتی عبد القیوم بڈھانوی کے شاگرد تھے ، ان سے مولانا احمد اﷲ کو سنن نسائی اور جامع ترمذی کے کچھ حصے پڑھنے کا موقع ملا۔ 
٭……بھوپال سے الٰہ آباد گئے، وہاں مولانا منیر الدین خاں سے جن کتابوں کے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ، وہ ہیں میر زاہد ، ملا جلال اور مطول کے چند اوراق۔
مندرجہ بالا اساتذہ سے فیض یاب ہونے کے بعد وہ دہلی تشریف لے گئے ۔ وہاں 
٭…… مولانا محمد اسحق منطقی رام پوری سے قاضی مبارک پڑھی۔ 
٭…… ڈپٹی نذیر احمد سے عربی ادبیات کی چار کتابیں پڑھیں۔ سبعہ معلقہ ، متنبی،مقامات حریری اور حماسہ ۔
٭…… مولانا تلطف حسین بہاری (شاگرد حضرت میاں صاحب) سے کتب فرائض پڑھیں۔ 
٭…… مولانا عبد الرشید رام پوری( پروفیسر طبیہ کالج) سے حمد اﷲ ، ہدایہ اخیر ین ، میر زاہد اور رسالہ غلام یحیٰ پڑھے۔
٭…… مولانا نظام الدین مدرس مدرسہ حسین بخش سے جو کتابیں پڑھیں وہ ہیں شمس بازغہ، صدراء، مسلم الثبوت، تصریح، شرح عقائد اور خیالی۔ 
٭…… اب مو لانا احمد اﷲ صاحب، حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی کے حلقۂ درس میں شرکت فرماتے ہیں۔ یہ میاں صاحب کا آخری دور ہے۔ وہاں وہ حضرت کے صحیحین اور بعض دیگر کتب صحاح کے درس میں شامل ہوئے اور ان سے سند و اجازۂ حدیث کا شرف حاصل کیا ۔
٭…… دہلی میں مولانا محمد بشیرسہسوانی سے میر زاہد، امور عامہ اور شرح اشارات پڑھنے کا موقع ملا۔ 
٭…… سند و اجازۂ حدیث کا شرف مولانا شمس الحق ڈیانوی سے بھی حاصل ہوا۔ 
٭…… قیام بھوپال کے زمانے میں وہ قاضی محمد مچھلی شہری سے سند مسلسل بالاوّلیہ کے حصول کی سعادت سے بہرہ یاب ہوئے ۔
٭…… ۱۳۴۵ھ(۱۹۲۷ء) میں مولانا احمد اﷲ نے حج بیت اﷲ کا عزم کیا۔ وہاں شیخ محمد بن عبداللطیف بن ابراہیم بن حسن نجدی محدث سے کتب حدیث کی سند و اجازہ سے سعادت اندوز ہوئے۔ اس طرح انھوں نے اپنے عہد کے بیس اصحاب ِ فضل سے حصولِ فیض کیا اور مرتبۂ کمال کو پہنچے۔ بعض کتابیں مختلف اساتذہ سے کئی کئی مرتبہ پڑھیں۔ اس کے بعد وہ دہلی آئے اور پھر دہلی کو اپنا مستقل وطن بنا لیا۔ 
مولانا احمد اﷲ صاحب نے مولانا محمد بشیر سہسوانی سے بہت استفادہ کیا۔ مولانا محمد بشیر نے دہلی کی حوض والی مسجد میں بصورت درس متواتر ایک مہینہ فرضیت خلف الامام کے موضوع پر تقریر کی۔ یہ تقریر انھوں نے ’’ البرہان العجائب فی فرضیۃ ام الکتاب‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کی۔
تکمیل تعلیم کے بعد مولانا احمد اﷲ دہلوی نے تمام زندگی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ پورے بیس سال دہلی کے مدرسہ حاجی علی جان میں شائقین علم کو تفسیر و حدیث اور دیگر علوم کی تعلیم دیتے رہے۔ ۱۹۲۱ء میں شیخ عبد الرحمن اور شیخ عطاء الرحمن نے دہلی میں دارالحدیث رحمانیہ کی تا سیس کی تو اس کی مسند درس پر متمکن ہوئے اور کئی سال وہاں یہ خدمت سر انجام دی۔ سالہا سال مدرسہ زبیدیہ میں ان کا سلسلہ تدریس جاری رہا ۔ 
ایک مرتبہ ’’ تبلیغ السنہ‘‘ کے نام سے مولانا احمد اﷲ دہلوی نے ایک ماہانہ رسالہ بھی جاری فرمایا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ مدرسہ علی جان میں فریضہ ٔ تدریس کی انجام دہی پر مامور تھے۔ لیکن یہ رسالہ جلد ہی بند ہوگیا تھا، کیونکہ ان کا اصل کام بصورتِ درس خدمت حدیث تھا۔ اور یہ رسالہ اس میں رکاوٹ کا باعث تھا، لہذا قدرتی طور پر اس کے اجرا کے امکانات ختم اور بندش کے اسباب ظہور میں آگئے۔ اصل بات یہ ہے کہ لکل فن رجال کے اصول کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہی تفسیرو حدیث اورفقہ و اصول کی تدریس کے لئے تھا۔
آخر میں ان کی خدمات دہلی کے مدرسہ زبیدیہ نے حاصل کر لی تھیں۔ پہلے مدارس کی طرح مدرسہ زبیدیہ میں بھی ان سے بے شمار علماء و طلباء فیض یاب ہوئے۔
اہل حدیث علما میں تو ان کو بے حد اعزاز کا مستحق گردانا ہی جا تا تھا ، احناف اصحابِ علم بھی انھیں نہایت تکریم کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مولانا کے شاگرد حاجی محمد رفیق زبیدی نے ( جو میرے ہم وطن بھی تھے اور گہرے دوست بھی) مجھے بتایا کہ دہلی کے معروف دیو بندی نقطہ ٔ فکر کے عالم مفتی کفایت اﷲ صاحب بعض فقہی مسائل کے سلسلے میں مولانا کی خدمت میں آیا کرتے تھے اور نہایت ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر ان کے سامنے بیٹھتے تھے۔ خود مولانا بھی ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ 
مولانا کے شاگردوں کو حیطہ ٔ شمار میں لانا ممکن نہیں۔ لا تعداد حضرات نے ان سے تفسیر و حدیث اور دیگر علوم متداولہ کی کتابیں پڑھیں اور آگے پڑھائیں ۔ ان کے شاگردوں کے شاگرد بھی استاذ الاساتذہ ہوئے ۔ 
اس عالی قدر استاذ کے شاگردوں میں حضرت مولانا عبد الجبار شکراوی ، مولانا عبد السلام بستوی ، مولانا محمد یونس دہلوی، شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری اور مولانا نذیر احمد املوی رحمانی ، مفسر قرآن مولانا عبد القیوم رحمانی شامل ہیں اور یہ وہ حضرات ہیں جنھیں علم و عمل اور تصنیف و تدریس میں یگانہ ٔ روزگار سمجھا جا تا ہے ۔ رحمہ اﷲ علیہم 
حضرت مولانا احمد اﷲ دہلوی نے ۱۹؍ مارچ ۱۹۴۳ء کو دہلی میں وفات پائی ۔ ۱؂
(ماخوذ کتاب گلستان حدیث از مولانا محمد اسحق بھٹی حفظہ اﷲ تعالیٰ ) 

۱؂ ان سطور کے ماخذ مندرجہ ذیل ہیں : 
٭ حضرت مولانا سے متعلق بعض علمائے کرام کے بیان کردہ واقعات
٭ مولانا ابو یحیٰ امام خاں نوشہروی کی تصنیف ’’ تراجم علمائے حدیث ہند‘‘
٭ مولانا محمد اسرائیل سلفی ندوی کی تالیف ’’ تراجم علمائے حدیث میوات‘‘
٭ ہفت روزہ اخبار ’’ اہل حدیث‘‘ ( امرتسر) مارچ ۱۹۴۳ء 
شیخ الحدیث مولاناعبید اﷲ رحمانی مبارکپوری رحمہ اﷲ
 صاحبِ مرعاۃ المفاتیح
مرثیہ ہے ایک کا اور نوحہ ساری قوم کا
آل انڈیا ریڈیو سے یہ خبربجلی بن کر گری اور پورے ملک خاص کر پوری جماعت میں صف ماتم بچھ گئی کہ عالم اسلام کے نامور عالم ، مفسر، محدث، مفکر اور ہندوستان کی ممتاز عربی اسلامی ادارہ جامعہ سلفیہ بنارس کے صدر اور مشکوٰۃ المصابیح کے شارح حضرت علامہ مولانا عبیداﷲ رحمانی مبارک پوری صاحب مرعاۃ المفاتیح مورخہ۶؍ جنوری ۱۹۹۴؁ء کو انتقال فرما گئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
مولانا ذکر اﷲ صاحب ذاکر ندوی نے شیخ الحدیث مولانا عبیداﷲ رحمانی مبارک پوری ومولانا نذیر احمد رحمانی املوی کے متعلق آل انڈیا اہل حدیث نوگڈھ کانفرنس میں کیا خوب استقبالیہ شعر لکھا تھا اس وقت وہی زبان پر آرہا ہے ؂
اور مولانا عبید اﷲ رحمانی وہ شیخ الحدیث بحث و تحقیق میں ہے منفرد جس کا مقام 
 اور علامہ نذیر ہیں بے شک بے نظیر ان کے خامہ کی روانی جیسے دریا کا خرام 
افسوس کہ علم حدیث کا آفتاب غروب ہوگیا۔ 
انا ﷲ ما اخد واﷲ ما اعطی کل شییٔ الی اجل مسمی 
ایتہا النفس اجملی جزعا ان ما تحذرین قدوقعا
شیخ الحدیث کی موت ایک پورے عہد کی موت ہے اب جو جگہیں خالی ہوتی ہیں وہ پُر نہیں ہوتی ۔ آج پورا عالم اسلام اس سانحہ پر سو گوار اور ماتم کناں ہے اس سانحہ کی خبر ملتے ہی ہر طرف کہرام مچ گیا ، ہر ایک کا چہرہ مغموم پریشان و مضطرب تھاجامعات ، مدارس عربیہ و مکاتب اسلامیہ میں تعطیل کردی گئی ۔ ملک کے گوشے گوشے میں نماز جنازہ غائبانہ ادا کی گئی آپ سے اخوان جماعت کو اس قدر عقیدت و محبت تھی کہ خبر پاتے ہی وقت کی کمی کے باوجود ملک کے گوشے گوشے سے عقیدت مندوں کی ایک جم غفیر مبارک پور پہنچ گئی ایک اندازہ کے مطابق تقریباً تیس ہزار کا مجمع آپ کی جنازہ میں شریک تھا خود اہل مبارک پور کا بیان ہے کہ سر زمین مبارک پور نے علامہ محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری کے علاوہ کسی جنازہ میں اتنا بڑا مجمع نہیں دیکھا ۔
آپ کی وفات عالم اسلام کیلئے نا قابل تلافی نقصان ہے آپ کی وفات سے پورے عالم اسلام بلکہ عصر حاضر کی تمام علمی و تعلیمی ، فکری و اجتہادی حلقہ جات و مجالس کی تابناکیاں کم ہوگئیں وہ اپنے دور میں علوم اسلامی خاص کر علوم حدیث کی عزت و آبرو تھے۔
شیخ الحدیث کا ذوق تصنیف وتالیف اولاً تو فطری تھا دوسرے موروثی یعنی آپ کے والد محترم مولانا عبد السلام صاحب مبارک پوری سے وراثتاً ملا تھا علامہ مولانا عبدالسلام مبارک پوری درسیات کے بہت اچھے مدرس تھے اور ان کو اپنے استاذ حدیث میاں محمد نذیر حسین محدث دہلوی کی مسند درس حدیث پر متمکن ہونے کا شرف بھی حاصل تھا اس کے ساتھ وہ اردو زبان کے بہت اچھے اہل قلم اور مصنف تھے، ان کی دو کتابیں کافی مشہور ہیں ایک تاریخ المنوال جو ایک خاص سماجی مسئلہ سے متعلق ہے دوسری کتاب سیرۃ البخاری ہے جو اپنے موضوع پر منفرد کتاب ہے۔ 
شیخ الحدیث مبارک پوری کی خوبیوں سے ہر وہ شخص واقف ہے جن کوآپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے علامہ میں علمی تبحر کے ساتھ ساتھ ایسی اخلاقی خوبیاں تھیں جو آج خواص میں مفقود ہیں یہ صفات ہمارے سلف صالحین میں پائی جاتی تھیں جو کتاب و سنت کے شیدائی تھے جو پڑھتے اس پر عمل کرتے تھے وہ محاسن اخلاق کے مجسمے ہوتے تھے ان کی جیتی جاگتی چلتی پھرتی تصویر ہوتے تھے ، عجز و انکساری اخلاق و محبت صداقت وامانت صبرو استقامت تحمل و تشکر ،عفت وپاکبازی عام انسانی ہمدردی خوف خدا ، تقویٰ ،مہمان نوازی اور خدمت خلق اور دوسری صفات عالیہ کے ساتھ جن کی تعلیم اﷲ اور رسول ﷺ نے دی ہے متصف ہوتے تھے اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ مبارک پوری مذکورہ بالا اوصاف سے مکمل طور پر متصف تھے۔ 
علامہ مبارک پوری جیسی جامع کمالات شخصیتیں کہیں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں جملہ اسلامی علوم پر علامہ کی نظر نہایت گہری اور وسیع تھی اور علوم حدیث میں تو امامت و اجتہاد کا درجہ حاصل تھا ۔ علامہ نے اپنی علمی و دینی بصیرت اور تلاش و تحقیق کی ایسی یاد گار یں چھوڑی ہیں جو مدتوں علمی دنیا کی رہنمائی کا کام دیتی رہیں گی ۔ علامہ کی حیثیت گنج گرانمایہ کی تھی ان کا درجہ اتنا بلند اور ان کے علمی دینی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس کی تفصیل کیلئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے اور ایسا کیوں نہ ہو ایسی جامع کمالات ہستی کے حالات کا احاطہ جو تقریباً پون صدی علم و فن کی ہر مجلس میں ضیا بار رہی ہو اور جس کے قلم نے علوم حدیث کے دفتر کھنگال ڈالے ہوں اور جن کے کارناموں سے دین و ملت کا ہر گوشہ معمور ہو ایک مختصر تعزیتی مضمون میں جو نہایت عجلت و ذہنی انتشار اورقلم برداشتہ لکھا گیا ہو اس کو سمیٹنا دریا کو کوزہ میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔
آپ کی عالمانہ ، محققانہ ، محدثانہ مشکوٰۃ المصابیح کی شرح مرعاۃ المفاتیح ہے جس کا درجہ شروح مشکوۃ میں میرے نزدیک وہی ہے جو اصح الکتب بخاری شریف کی شروح میں علامہ ابن حجر عسقلانی کی شرح فتح الباری کا ہے علامہ کی یہ مایہ ناز تصنیف انشاء اﷲ تا قیامت زندہ رہے گی اور ان کے علم و فضل علم حدیث میں ان کے عظیم مرتبہ فقہ الحدیث میں ان کی بے مثال شخصیت ان کی محبت رسول اور اتباع سنت کی شہادت دیتی رہے گی ۔ بقول مجاز اعظمی رحمہ اﷲ 
وہ امین علوم قرآنی نکتہ دیں حدیث لا ثانی 
ایسا انداز درس گویا مسند آراء امام حرّانی
حفظ سنت میں بیہقی زماں شرح میں عسقلانی ثانی 
یوں فتاویٰ میں جودت تنقیح دودھ سے ہوگیا جدا پانی 
ہم نے لوح جبیں پہ دیکھا ہے 
عبرت آموز نور فارانی 
شیخ الحدیث سے میری پہلی ملاقات عہد طالب علمی میں دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں ہوئی الحمد ﷲ آپ کے آخری لمحات تک خوشگوار تعلق قائم رہے ۔ ناچیز پر بڑی شفقت فرماتے تھے ۔خطوط کا سلسلہ بھی جاری رہا سال میں ایک دو بار وقت نکال کر خدمت عالیہ میں ضرور حاضرہوتا اور استفادہ کرتا۔ 
آہ ! اب ایسی صورتیں کہاں دیکھنے کو ملیں گی جن کا وجود سر تا پا خیر ہی خیر ہو اور جن کی زندگی ایثار مجسم ہو شیخ الحدیث صاحب کی وہ شفقت و محبت و کرم یاد کرتا ہوں تو دل تڑپ کر رہ جاتا ہے گویا میر تقی میر سے معذرت کیساتھ ؂
مصائب اور تھے پر ان کا جانا عجب اک سانحہ سا ہوگیا 
عبد الرؤف خاں ندوی ؔ
تلسی پور ۔بلرام پور
۷؍فروری ۱۹۹۷؁ء
(ماہنامہ محدث بنارس شیخ الحدیث نمبر شمارہ جنوری ،فروری ۱۹۹۷؁ء) 
آئیے شیخ الحدیث مولانا عبیداﷲ رحمانی مبارک پوری کے مفصل حالات مولانا محمد اسحق بھٹی حفظہ اﷲ کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں:
۱۹۴۵ء کے اکتوبر میں جمعیت علمائے ہند کے اکابر نے جمعیت کے مرکزی دفتر میں ہندوستان کے مسلمانوں کی سیاسی جماعتوں کے سر کردہ ارکان کا ایک اجلاس طلب کیا تھا۔ استاذ محترم حضرت مولانا عطا ء اﷲ حنیف بھوجیانوی اس وقت فیروز پور میں قیام فرما تھے۔ اور ضلع فیروز پور کی جمعیت علماء شاخ کے صدر تھے۔ اس حیثیت سے انھیں اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ میرے نام بھی دعوتی خط آیا اور میں اجلاس میں شمولیت کے لئے مولانا ممدوح کے ساتھ دہلی گیا تھا۔ ان دنوں ہمیں دلّی کے بہت سے مقامات کی سیر اور متعدد اہل علم سے ملاقات کے مواقع میسر آئے۔ وہ دور کبھی یاد آتا ہے تو دل میں ایک خاص قسم کی جذباتی سی لہر اٹھتی ہے اور تھوڑی دیر بعد دب جاتی ہے۔ 
ایک دن نماز عصر کے وقت ہم نے دار الحدیث رحمانیہ کا قصد کیا ۔ اہل حدیث کا یہ مشہور مدرسہ تھا جو دہلی کے دو مخیر بھائیوں شیخ عبد الرحمن اور شیخ عطاء الرحمن نے تعمیر کرایا تھا۔ وہی اس کے انتظام اور اخراجات کے ذمہ دار تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے مدرسہ رحمانیہ کے قریب ہی مولانا محمد جونا گڈھی کی عالیشان کوٹھی تھی جومدرسہ رحمانیہ کے جانے والے راستے کے بائیں جانب تھی۔ ان کے اخبار محمدی کا دفتر اس کوٹھی کی پہلی منزل میں تھا۔ اس سے تقریباً چار سال پہلے مارچ ۱۹۴۱ء میں مولانا محمد جونا گڈھی تو وفات پاگئے لیکن ان کے مکتبہ محمدی اور اخبار محمدی وغیرہ کی زمام انتظام مولانا سید تقریظ احمد سہسوانی کے ہاتھ میں تھی ۔ ان سے مل کر ہم دارالحدیث رحمانیہ گئے۔ بڑی و سیع اور شاندار عمارت تھی ۔ تعلیم و تدریس کے لئے کھلا ہال ، اساتذہ کی شان کے مطابق ان کی اقامت گاہیں ، طلبا کیلئے دور تک پھیلا ہوا دارالاقامہ ، صاف ستھرا صحن، خاصی وسیع گراؤنڈ جس میں قسم قسم کے درخت سبز دوشالہ اوڑھے اپنی بہار دکھا رہے تھے ۔ ہر لحاظ سے جاذب نظر جگہ اور دلکش منظر۔
حضرت مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری اس وقت دارالحدیث رحمانیہ کی مسند شیخ الحدیث پر فائز تھے ۔ مولانا نذیر احمد املوی رحمانی بھی وہیں خدمت تدریس سر انجام دیتے تھے۔ پاکستان کے مشہور عالم و مدرس مولانا محمد عبدہ بھی ان دنوں وہاں پڑھاتے تھے۔ مولانا عبید اﷲ رحمانی کی زیارت پہلی دفعہ دارالحدیث رحمانیہ میں اسی زمانے میں ہوئی۔ یہ سطور ۲۳؍اکتوبر۲۰۰۸ء کو لکھی جارہی ہیں۔اس حساب سے یہ آج سے ۶۳ سال قبل کی بات ہے۔ میرے ذہن میں ان کا اس وقت کا حلیہ کچھ اس طرح کا آ رہا ہے ۔ میانہ قد ، گندمی رنگ ، کچھ چوڑا چہرہ ، کھلی پیشانی ، چمک دار اور قدرے موٹی آنکھیں ، ابھری ہوٹی ناک نہ تیکھی نہ چپٹی ، چہرے پر پھیلی ہوئی سیاہ داڑھی، قینچی سے باریک تراشی ہوئی مونچھیں ، سر پر غالباً سفید ململ کا عمامہ ،سفید پاجامہ اور سفید قمیص پہنے ہوئے ۔ انکسار اور تواضع کا پیکر۔ گفتگو کا انداز میٹھا اور دھیما۔ 
معلوم ہوتا تھا حضرت مولانا عطاء اﷲ حنیف بھوجیانی سے ان کے مراسم اس ملاقات سے کافی پہلے سے قائم تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے عصر کے بعد چائے مولانا محمد عبدہ کے کمرے میں پی گئی تھی، جس میں مولانا عبید اﷲ رحمانی اور مولانا نذیر احمد رحمانی شریک تھے۔ تقریباً دو گھنٹے ہم وہاں رہے۔ اس اثنا میں یہ حضرات دہلی کے تعلیمی اداروں ، مختلف علمائے کرام اور ان کی علمی سرگرمیوں کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ نماز مغرب ہم نے وہیں پڑھی۔ 
اس مختصر ملاقات کے متعلق میں اپنا عمومی تاثر یہی عرض کر سکتا ہوں کہ ان کے دل میں مولانا عطاء اﷲ صاحب کا بہت احترام تھا اورمولانا کا یہ رویہ بھی ان کے ساتھ نہایت اعزاز کا تھا۔ 
دوسری اور آخری مرتبہ مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری کی زیارت کا شرف اس سے تقریباً پونے دو سال بعد جون ۱۹۴۷ء میں حاصل ہوا۔ ۱۸؍ جون کو میں اور میرے ایک بزرگ دوست قاضی عبید اﷲ مرحوم اپنی ریاست فرید کوٹ کے چند سیاسی مسائل کے سلسلے میں مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات کیلئے دہلی پہنچے ۔ مولانا معین الدین لکھوی بھی ہمارے ساتھ تھے ،( جن کی شادی اس سے کچھ عرصہ پیشترمولانا محمد جونا گڑھی کی صاحبزادی سے ہوئی تھی) ۲۱؍ جون کو ہم مدرسہ رحمانیہ گئے، وہاں مولانا محمد عبدہ صاحب سے ملنا مقصود تھا۔ جو اس وقت مدرسہ رحمانیہ میں فرائض تدریس انجام دیتے تھے۔ اس موقع پر مولانا عبید اﷲ رحمانی اور مولانا نذیر احمد املوی رحمانی کو بھی سلام عرض کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ بس انہی دو مواقع پر یہ فقیر ان کی زیارت سے مشرف ہوا۔
مولانا عبید اﷲ رحمانی ہندوستان کے عظیم علمی خاندان کے عظیم رکن تھے۔ وہ ’’ سیرۃ البخاری ‘‘ کے مصنف اور دارالحدیث رحمانیہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد السلام مبارک پوری کے فرزند عالی قدرتھے۔
جن کے بیشتر حالات گزشتہ صفحات میں بیان کئے گئے ہیں ۔ مبارک پوری خاندان کے اصحاب علم کی خدمات دینیہ کا سلسلہ بہت وسیع ہے، جس کا آغاز حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری کے والد مکرم حافظ عبد الرحیم مبارک پوری سے ہوتا ہے اور اب تک اﷲ کے فضل سے چلا آرہا ہے اور انشاء اﷲ آئندہ جاری رہے گا۔ ۱؂ 
مولانا عبید اﷲ رحمانی کی ولادت محرم ۱۳۲۷ھ ( فروری ۱۹۰۹ء ) میں قصبہ مبارک پور
 ( ضلع اعظم گڑھ یوپی) میں ہوئی۔ علمی اعتبار سے بھی یہ مردم خیز قصبہ ہے اور صنعتی لحاظ سے بھی ہندوستان میں اسے خاص شہرت حاصل ہے ۔ ابتدائی تعلیم جامعہ عالیہ عربیہ ( مؤ ضلع اعظم گڑھ) میں اپنے والد ماجد مولانا عبدالسلام مبارک پوری سے حاصل کی جو اس وقت وہاں کے مسند درس 
۱؂ مولانا عبد الرحمن مبارک پوری اور ان کے والد گرامی حافظ عبد الرحیم مبارک پوری کے حالات کے لئے ملاحظہ ہو راقم کی کتاب دبستان حدیث شائع کردہ مکتبہ قدوسیہ ، اردو بازار ۔ لاہور۔
پر متمکن تھے۔ پھر جب ۱۹۱۷ء یا ۱۹۱۸ء میں وہ مؤ سے جامعہ سراج العلوم بونڈیہار (ضلع بلرام پور ) تشریف لے گئے تو مولانا عبید اﷲ بھی والد ذی شان کے ساتھ وہیں چلے گئے۔ بعد ازاں جب انھیں دہلی کے دار الحدیث رحمانیہ کی مسند شیخ الحدیث پیش کی گئی اور وہاں تشریف لے گئے تو مولانا عبید اﷲ نے بھی والد مکرم کی معیت میں دہلی کے لئے رخت سفر باندھا۔ دار الحدیث رحمانیہ ہی سے انھوں نے ۱۳۴۵ھ ( ۱۹۲۷ء ) میں سند فراغت لی۔ اس وقت ان کی عمر صرف اٹھارہ برس کی تھی۔ نہایت ذہین اور پڑھنے کے بے حد شائق ہر امتحان میں ہمیشہ ممتاز رہے ۔ ۱؂؂
مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری کی تحصیل علم کا سلسلہ اس طرح چلتا ہے ۔ فارسی کی کتابیں جو اس وقت مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں اپنے والد محترم سے پڑھیں علم نحو کی کتابیں شرح جامی تک منطق کی کتابیں قطبی تک علم فقہ کی شرح وقایہ تک اور بعض دیگر علوم کی کتابیں بھی والد محترم سے پڑھیں ۔ مدرسہ رحمانیہ کے پانچ سالہ دور طالب علمی میں معقولات کی کتابوں کی تکمیل مولانا غلام یحییٰ کانپوری سے کی ۔ کتب حدیث کا درس حضرت مولانا احمد اﷲ پر تابگڈھی دہلوی سے لیا جو اس وقت دارالحدیث رحمانیہ کی مسند شیخ الحدیث پر متمکن تھے۔ 
عربی ادبیات کے لئے ایک اور مدرس حافظ عبد الرحمن کے حضورزانوائے شاگردی تہہ کئے۔ جامع ترمذی کا ابتدائی حصہ مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری سے پڑھا ۔ مقدمہ ابن الصلاح بھی انہی سے پڑھا اور سراجی بھی انہی سے پڑھی۔ 
۱؂دار الحدیث رحمانیہ ( دہلی) حضرت مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کی تجویز سے ۱۹۲۱ء میں تقریباً ایک لاکھ روپئیکی لاگت
سے تعمیر ہوا تھا اور اسی سال میں تعلیم کا آغاز ہوگیاتھا تمام اخراجات دہلی کے دو تاجر اور فراخ حوصلہ بھائیوں شیخ عبد الرحمن اور شیخ 
عطاء الرحمن نے بر داشت کئے۔ اس کے اجرا پر ابھی دو سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ شیخ عبد الرحمن و فات پاگئے اور سارا 
بوجھ شیخ عطاء الرحمن پر آن پڑا۔ شیخ عبد الرحمن کے بڑ ے بیٹے حاجی عبد الستار بھی اس دارالحدیث کی تعمیر و ترقی میں پوری دلچسپی 
لیتے تھے۔ لیکن وہ بھی عین عالم جوانی میں اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ دارالحدیث رحمانیہ ہندوستان میں اہل حدیث کا مشہور تدریسی
ادارہ تھا۔ افسوس ہے اگست ۱۹۴۷ء میں ختم ہوگیا۔ 
فار غ التحصیل ہونے کے بعد دارالحدیث رحمانیہ کے مہتمم شیخ عطاء الرحمن نے ان کو وہیں مدرس مقرر کر لیا۔ اور انھوں نے نہایت شوق اور جانفشانی سے یہ خدمت سر انجام ہو نے دینی شروع کر دی تھی۔ ان کے طریق تدریس سے وہاں کے اساتذہ بھی خوش تھے۔ طلباء بھی مطمئن تھے اور مہتمم صاحب کو بھی یقین ہو گیا تھا کہ یہ نوجوان محنت اور یکسوئی سے اس اہم کام میں مشغول ہیں۔ 
ان دنوں اپنے مسکن مبارک پور میں مولانا عبد الرحمن مبار ک پوری جامع ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی لکھ رہے تھے۔ اور اسی دوران میں ان کی بینائی ختم ہو گئی تھی۔ اس کتاب کے لئے انھیں معاون کی ضرورت تھی جو ان کے افکار قلم بند کرنے اور مراجع کی تلاش سے متعلق خدمت انجام دے سکے ، اس سلسلے میں ان کی نگاہ اپنے عزیز نوجوان مولانا عبید اﷲ رحمانی پر پڑی۔ یہ بات دارالحدیث رحمانیہ کے مہتمم شیخ عطاء الرحمن کے علم میں لائی گئی، تو انھوں نے مولانا عبید اﷲ رحمانی کو حضرت کی خدمت میں مبارک پور بھیج دیا ۔ اس سلسلے میں ا ن کے دو ساتھی اور تھے، وہ تھے مولانا عبد الصمد مبارک پوری اور مولانامحمد کنگن پوری ۔ ان حضرات نے دو سال حضرت محدث مبارک پوری کی رہنمائی میں یہ خدمت سر انجام دی اور تحفۃ الاحوذی کا جو حصہ تشنہ ٔ تکمیل تھا، وہ مکمل ہو گیا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عمر کے ابتدائی دور ہی میں مولانا عبید اﷲ رحمانی کو حدیث اور علوم حدیث سے متعلق تحقیقی کاموں سے دلچسپی تھی اور ان کی دلچسپی کا علم اس عہد کے اکابر علمائے کرام کو بھی تھا۔ 
تحفۃ الاحوذی کی تکمیل کے بعد مولانا عبید اﷲ رحمانی پھر دارالحدیث رحمانیہ تشریف لے آئے تھے اور وہی مسند درس سنبھال لی تھی، جس پر اس سے پہلے فائز تھے۔ کچھ عرصے کے بعد انھیں شیخ الحدیث مقرر کر دیا گیا تھا۔ یہ بہت بڑا اعزاز تھا جو انھیں اس عظیم درسگاہ میں ملا ۔ اب مولانا ممدوح رحمانیہ میں طلبا کو کتب صحاح بھی پڑھاتے تھے۔ اور فتویٰ نویسی کا فریضہ بھی انجام دیتے تھے۔ دارالحدیث کے ماہنامہ ’’ محدث‘‘ کے پہلے وہ نائب تھے، پھر اس کے مدیر بنائے گئے۔ بعض انتظامی امور بھی ان کے سپردتھے ، طلبا کی دیکھ بھال اس کے علاوہ تھی۔ اگست ۱۹۴۷ء تک وہ اس منصب پر فائز رہے۔ اس کے بعد حالات نے ایسی کروٹ لی کہ ملک فسادات کی زد میں آگیا اور دار الحدیث رحمانیہ جو ہندوستان میں تدریس کا مشہور مر کز تھا، بند ہو گیا۔ پھر چند ہی روز میں شفیق الرحمن قدوائی میموریل سینٹر اسکول کی شکل میں اختیار کر گیا ۔ یہ اﷲ کی مہربانی ہوئی کہ مسلمانوں کے قبضے میں رہا اگرچہ انداز بدل گیالیکن اس میں سلسلہ تعلیم ہی کاجاری رہا۔ مولانا عبید اﷲ رحمانی حالات کی نا موافق رفتار سے مجبور ہوکراپنے آبائی مسکن مبارک پور چلے گئے تھے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ کو ان سے ایک اور کام لینا مقصود تھا اور وہ کام تھا مشکوۃ شریف کی شرح کا۔ چنانچہ وہ اس کام میں مصروف ہو گئے۔ 
اس میں مصروف ہونے کا پس منظر یہ تھا کہ حضرت استاذ محترم مولانا عطاء اﷲ حنیف بھوجیانی ایک عرصے سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ مشکوٰۃ شریف اور صحاح کی کتابوں پر اہلحدیث کے نقطہ ٔ نظر سے حواشی لکھے جائیں جو طلباء کیلئے بھی مفید ہوں اور اساتذہ کیلئے بھی۔ یہی خواہش حافظ محمد زکریا بن میاں محمد باقر(ساکن جھوک دادو چک نمبر ۴۲۷ گ ب ضلع فیصل آباد) کی تھی۔ ان دونوں کے نزدیک اس کام کے لئے مولانا عبید اﷲ رحمانی موزوں ترین شخصیت تھے۔ چنانچہ آزادیٔ بر صغیر کے بعد ۱۹۴۸ء میں مولانا عطاء اﷲ حنیف بھوجیانی نے مولانا عبید اﷲ رحمانی سے بذریعہ خط رابطہ پیدا کیا اور سب سے پہلے مشکوٰۃ شریف کا حاشیہ لکھنے کے متعلق بات ہوئی۔مولانا رحمانی کے یہ عین تحقیقی ذوق کا کام تھا اور کتب حدیث اور ان کی شروح پر ان کی گہری نظر تھی۔ طویل عرصے تک وہ حدیث کا درس بھی طلباکو دیتے رہے تھے اور حضرت مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری کی رہنمائی میں تحفۃ الاحوذی کی تصنیف کے زمانے میں ان کے شریک کار بھی رہے تھے۔ چنانچہ اﷲ کا نام لے کر انھوں نے یہ کا م شروع کر دیا ۔ اس کے آغاز کے چند مہینے بعد (اگست ۱۹۴۹ء میں)حافظ محمد زکریا تو وفات پاگئے لیکن ان کے والد میاں محمد باقر مرحوم نے اس سے دلچسپی قائم رکھی ۔ مولانا رحمانی کا قلم اختصار کے دائرے سے آگے نکل کر تفصیل کی حدود میں پہنچ گیااور تحقیق کے اس میدان میں اس نے خوب خوب جو لا نیاں دکھائیں ۔ حاشیے کے بجائے مفصل شرح ہو گئی۔ کتاب المناسک تک کام ہواتھا کہ مولانا رحمانی کو مختلف عوارض نے گھیر لیااور قلم کی رفتار رک گئی۔اس شرح کا نام’’ مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ‘‘ ہے۔ پہلے یہ کتاب مولانا محمد عطاء اﷲ صاحب کے اہتمام میں مکتبہ سلفیہ (لاہور) کی طرف سے لیتھومیں شائع ہوئی تھی اور اس وقت طباعت کا یہی سلسلہ چلتا تھاپھر یہ کتاب جامعہ سلفیہ ( بنارس) نے نہایت خوبصورت طریقے سے ٹائپ پر شائع کی جو ۹ جلدوں پر مشتمل ہے ۔یہ کتاب اب مکتبہ سلفیہ لاہور نے بھی شائع کر دی ہے۔ کتاب اگرچہ مکمل نہ ہو سکی مگر جتنی لکھی گئی، اسے ہندوستان ، پاکستان او ر عرب ممالک کے علمی حلقوں میں بے حد پذیرائی حاصل ہوئی ۔ کیونکہ اس میں خالص محدثانہ اسلوب تحقیق اختیارکیا گیا ہے اور فاضل مصنف نے بے حد محنت سے یہ خدمت سر انجام دی ہے۔ 
حضرت ممدوح علوم دینیہ کے تمام پہلؤوں پر عمیق نگاہ رکھتے تھے۔ تفسیر ، حدیث، اصول، فقہ،عربی ادبیات ، صرف و نحو ، منطق و فلسفہ وغیرہ کی متداول درسی کتابوں پر انھیں عبور حاصل تھا۔ اس باب میں وہ اپنے اسلاف ( حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری اور مولانا عبد السلام مبارک پوری) کا حسین ترین نمونہ تھے۔ علم کے علاوہ عمل کی نعمت سے بھی اﷲ تعالیٰ نے انھیں خوب نوازا تھا ۔ جس شخص میں علم اور عمل کی خصوصیات جمع ہو جائیں ، وہ دنیا میں بھی کامیاب ہے اور آخرت میں بھی فوز وفلاح کا مستحق قرار پائے گا ۔
ابتدا ئی گزارشات میں عرض کر چکا ہو ں کہ مجھے ان کی زیارت کا شرف دو دفعہ دارالحدیث رحمانیہ(دہلی) میں حاصل ہوا، وہ بھی بہت مختصر وقت میں ۔ نہ میں ان کے آبائی وطن جاسکا ، نہ دو چار روز کیلئے ان کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا۔ اور نہ ان کے زیادہ دیر تک ارشادات سننے کی سعادت میسر آ سکی۔لیکن ان کی خدمت میں حاضری دینے والے اور ان کی مجلس میں کچھ و قت گزارنے والے بتاتے ہیں کہ وہ انتہائی مہمان نواز تھے۔ بے حد صفائی پسند تھے، چھوٹوں پر شفقت ان کا وطیرہ تھا۔ اور بڑوں کا احترام ان کا شیوہ تھا ۔ بات چیت میں انکسار اور میل جول میں تواضع ان کا معمول تھا۔ عالمانہ وقار اور بزرگانہ اسلوب کلام ان کا شعار تھا۔
حضرت ممدوح عربی کے عالم تھے ، لہذا انھوں نے زیادہ عربی میں کام کیا ۔اردو سے ان کا اعتنا کم رہا ۔ عربی ہی میں انھوں نے مشکوٰۃ کی شرح لکھی اور عربی کتابیں ہی ان کی تدریس کا محور ہیں۔ حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری نے اردو اورعربی دونوں زبانوں میں لکھا۔جس سے عربی والوں کو بھی فائدہ پہنچا اور اردو جاننے والے بھی مستفید ہوئے۔ مولانا عبد السلام مبارک پوری نے ’’ سیرۃ البخاری‘‘ اردو میں لکھی جو اپنے موضوع کی اولین کتاب ہے اور بے حد محققانہ تصنیف۔ امام بخاری کے بارے میں اس پایہ کی کتاب اس کے بعد معرض وجود میں نہیں آسکی۔
اگر چہ مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری کی کوئی مستقل تحقیقی کتاب اردو میں نہیں ( یا اس فقیر کے مطالعہ میں نہیں آئی) لیکن ان کا ایک مجموعہ ٔ مکتوبات ’’ مکاتیب حضرت شیخ الحدیث‘‘ کے نام سے ۲۰۰۲ء میں فردوس پبلی کیشنز نئی دہلی کی طرف سے شائع ہوا ہے۔ یہ وہ مکتوبات ہیں جو انھوں نے مختلف اوقات میں مولانا عبد السلام رحمانی کے نام ارسال فرمائے۔ اس مجموعے کا پہلا خط جو حضرت ممدوح نے مولانا عبد السلام رحمانی کو ارسال فرمایا اس پر ۴؍ صفر ۱۳۷۸ھ(۲۰؍ستمبر ۱۹۵۸ء) کی تاریخ درج ہے اور آخری خط ۱۴؍جولائی ۱۹۹۱ء کا مرقومہ ہے ۔ کم و بیش ۳۴ سال کی طویل مدت میں حضرت نے ان کو ۱۵۴ خطوط ارسال فرمائے ۔ ان خطوط کی مکتوب الیہ نے بے حد حفاظت کی اور انھیں انتہائی احتیاط کے ساتھ سنبھال کر رکھا۔ ان میں چھوٹے خطوط بھی ہیں اور بڑے بھی۔ مختصر بھی ہیں اور مفصل بھی۔ بعض خالص علمی نوعیت کے ہیں اور بعض کی حیثیت مشوروں اور نصیحتوں کی ہے۔ بعض فقہی مسائل پر مشتمل ہیں اور بعض میں ذاتی قسم کے معاملات بیان کئے گئے ہیں ۔ یہ مجموعہ اس وقت میرے سامنے ہے جو ایک سو بیس خطوط پر محیط ہے ۔ اس میں ۳۴ خطوط شائع نہیں کئے گئے جو خالص ذاتی نوعیت کے ہیں ۔ 
یہ خطوط کیا ہیں ۲۳۲ صفحات کی یہ ایک مستقل علمی کتاب ہے، جس میں ساٹھ سے زیادہ فقہی مسائل زیر بحث آئے ہیں اور حضرت مکتوب نگار نے کتاب و سنت اور اسلامی تاریخ کی روشنی میں ان مسائل سے متعلق اپنا نقطہ ٔ نظر بیان فرمایا ہے ۔ ابتدا میں ان علمی و فقہی مسائل کی فہرست دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ کون سا مسئلہ کتاب کے کس صفحہ پر درج ہے ۔ ان مسائل میں سے چند مسائل یہ ہیں : خطبہ ٔ جمعہ کیلئے اذان کی جگہ ۔منبر سے متصل جمعہ کی اذان دینا درست نہیں ۔ علوم شرعیہ سے متعلق تحقیق و تصنیف تکثیر نوافل سے افضل ہے۔ ’’صححہ ابن حبان‘‘ کا مطلب۔ مرحوم والدین کیلئے ایصالِ ثواب کنواں کھدوانا۔ یتیم پوتے کی محجوبیت کا مسئلہ۔ یتیم پوتے کو دادا اگر جائداد دے دے تو اسے قبول کرنے کا مسئلہ ۔ طویل نمازوں پر تنقید ۔ زکوٰۃ کی رقم تعمیر مسجد یا اس کی مرمت میں خرچ کرنا درست نہیں ۔ دادا کیلئے ضروری ہے کہ وہ یتیم پوتے کیلئے وصیت کرے ۔ مرزائیوں کے دونوں گروہ خارج از اسلام ہیں ۔ مرزائیوں کا ذبیحہ حلال نہیں ہے ۔ حج بدل کیلئے یہ شرط نہیں کہ میت پر زندگی میں حج فرض ہو چکا ہو۔ اس قسم کے یا اس سے ملتے جلتے ساٹھ مسائل اس مجموعہ خطوط میں مندرج ہیں ۔ ایک خط میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انھوں نے مشکوٰۃ کی شرح کا نام ’’ مرعاۃ الفاتیح‘‘ کیوں رکھا اور اس کے کیا معنیٰ ہیں ……؟
اس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :
’’ مرعاۃ‘‘ کے معنے اور مطلب پر کچھ اور لوگوں نے بھی شبہہ ظاہر کیا تھا ۔ یہ موقع اس پر کچھ تفصیل ووضاحت سے لکھنے کا نہیں ہے۔ 
’’ تسمیہ کے وقت یہ بات مد نظر رہی کہ نام ’’ مشکوٰۃ المصابیح‘‘ کے وزن پرہو ، اور معنیٰ بھی مناسب ہو ۔ بہت نام ذہن میں آئے آخر ’’ مرعاۃ المفاتیح‘‘ کے سوا کوئی دوسرا نام نہ جچا۔ ’’ مرعاۃ ‘‘ رعی سے ماخوذ ہے ، جس کے معنیٰ حفظ و نگہداشت بھی ہے۔ یقال رعاہ اﷲ ای حفظہ۔ ’’ مرعاۃ المفاتیح‘‘ کے معنیٰ ہوئے ’’محفظۃ المفاتیح‘‘ یعنی مغلقات و مشکلات ِ کتابِ مشکوٰۃ کے فتح و حل اور کشف و ایضاح کے آلات (کنجیوں) کی حفاظت کا ذریعہ۔ ۱؂
مکتوبات کے مختلف وضاحت طلب مقامات پر فاضل مکتوب الیہ مولانا عبد السلام رحمانی نے حواشی دیئے ہیں ، جن سے بات واضح ہو جاتی ہے۔ 
ایک خط میں اپنے فتاوے کی اشاعت کے بارے میں رقم فر ماتے ہیں : 
’’ میرے فتاویٰ کو اپنے زندگی میں شائع کر نے کا میرے سامنے کوئی پروگرام اور منصوبہ نہیں ہے ۔ ہر اہلحدیث عالم کا فتویٰ اس کی اپنی ذاتی رائے اورتحقیق پر مبنی ہوتا ہے ، اسلئے علماء اہلحدیث کے فتووں میں اختلاف ناگزیر ہے ، اور ایک ہی جماعت کے علماء کا ایک ہی مسئلہ میں اختلاف عوام میں انتشار کا باعث ہوتا ہے۔اسی لئے میں نے ’’صوت الجامعہ‘‘ یا ’’ ترجمان‘‘ اور ’’اہلحدیث‘‘ میں اپنے کسی فتوے کو بلا اجازت چھاپنے سے روک دیا ہے ‘‘ ۲؂ 
مکتوبات کا یہ مجموعہ ہندوستان کی جماعت اہلحدیث کے فاضل رکن اور ماہنامہ ’’ الصفا‘‘ (دہلی) کے ایڈیٹر مولانا رفیق احمد رئیس سلفی (ادارہ علوم الحدیث جامعہ اردو روڈ علی گڑھ) 
۱؂ مکتوب نمبر ۴ ص : ۴۸۔۴۹
۲؂ خط نمبر ۸۹،ص:۱۴۲
نے مرتب کیا ہے ۔ انھوں نے ان مکتوبات کو نقل کیا ہے۔ کمپوزنگ کرائی اور پروف ریڈنگ وغیرہ کا مرحلہ طے کیا۔ یہ بے حد محنت اور سر دردی کا کام ہے جو انھوں نے کیا ۔ اس سے قبل بھی وہ حضرت مولانا عبیداﷲ رحمانی کے مکتوبات کا ایک مجموعہ مرتب کرچکے ہیں جو ’’ مکاتیب رحمانی‘‘ کے نام سے مر کزی جمعیت اہل حدیث ہند کے شعبۂ نشرواشاعت مکتبہ ترجمان دہلی نے ۱۹۹۵ء میں شائع کیا تھا ۔ افسوس ہے اس مجموعے سے استفادے کی سعادت سے یہ فقیر مرحوم رہا۔ پیش نظر مجموعہ جسے نمبر ۲ کہنا چاہئے فاضل مرتب نے مجھے مندرجہ ذیل الفاظ لکھ کر ارسال فرمایا۔ 
’’ ہدیۂ پر خلوص:
بخدمت گرامی قدر حضرت مولانا محمد اسحق بھٹی حفظہ اﷲ جو ملت اسلامیہ ہندو پاک کی طویل ثقافتی تاریخ کے دیدہ ور معتبر مورّخ ہیں ، اور عمر کے اس مرحلے میں بھی جن کی ذات گرامی علم و ادب کی محفلیں آباد کئے ہوئے ہے ، ایک عظیم محدث کے خطوط کا یہ مجموعہ ان کی خدمت میں بصد عقیدت و احترام پیش کرتے ہوئے درخواست کرتا ہوں کہ یہ بھی انشاء اﷲ آپ کی مجوزہ سلفی تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔ رفیق احمد رئیس سلفی ………… ۱۵؍ مارچ ۲۰۰۳ء ‘‘ 
لائق مرتب کے یہ الفاظ میرے لئے بہت بڑے اعزاز بلکہ تمغۂ امتیاز کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس پر میں مولانا رفیق احمدرئیس سلفی کا بے حد شکر گزار ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ انھوں نے یہ خطوط مرتب کرکے بہت بڑا جماعتی اور علمی کارنامہ سر انجام دیا ہے ۔ ان خطوط میں واقعات بھی ہیں ، مشورے بھی ہیں، نصیحتیں بھی ہیں ، سلفیت کی تاریخ بھی ہے اور تحقیق و کاوش کی فراوانی بھی ہے ۔ یہ ایک گراں قدر علمی تحفہ ہے۔ جس سے لوگ ہمیشہ اخذ فیض کرتے رہیں گے ۔ مندرجات کی بوقلمونی کے اعتبار سے ہم اسے ایک اہم دارالمعارف یا انسائکلوپیڈیا سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ مولانا عبد السلام رحمانی نے ان خطوط کو محفوظ رکھ کر، مولانا رفیق احمد رئیس سلفی نے ترتیب دے کر اور فردوس پبلی کیشنیز دہلی نے انھیں شائع کرکے قابل قدر علمی خدمت سر انجام دی ہے۔ میرے خیال میں اس مجموعے میں حضرت مرحوم کے نجی خطوط بھی شامل کر دینا چاہئے تھے۔ نبی ﷺ اور صحابہ کرام کے بہت سے نجی اور ذاتی معاملات کتابوں میں مرقوم ہیں اور تاریخ اسلامی بلکہ دین کا جز ولا ینفک ہیں، جو ہمارے لئے عمل کی راہیں متعین کرتے ہیں۔ 
اس مجموعۂ مکاتیب کے آخر میں دس بزرگان ِ جماعت کی تحریروں کا عکس شائع کیا گیا ہے، جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں : (۱) حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی (۲) شیخ حسین بن محسن انصاری (۳) مولانا عبدالرحمن مبارک پوری (۴) مولانا عبد السلام مبارک پوری(۵) مولانا محمد اسماعیل سلفی (۶) مولانا محمد عطاء اﷲ حنیف بھوجیانی (۷) مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری(۸) مولانا نذیر احمد رحمانی املوی (۹) مولانا محمد اقبال رحمانی اور (۱۰) مولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈا نگری۔ 
مندرجات کے اعتبار سے مولانا رحمانی کے خطوط کا یہ مجموعہ بلا شبہ بر صغیر کی سلفی تاریخ کا بہت بڑا حصہ ہے ۔ 
خطوط نویسی پیغمبرانہ طریق تبلیغ ہے، جس کا ذکر قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا (بلقیس) کو خط لکھا اور اسے قبول اسلام کی دعوت دی ۔ اس کا تذکرہ سورہ نمل میں فرمایا گیا ہے۔ وہ خالص ملوکیت کا دور تھا اور ملکہ نے مطلق العنان حکمران ہونے کے باوجود حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط کا جواب دینے کیلئے اپنے وزیروں سے مشورہ کیا ۔ انھیں اس زمانے کے مطابق پارلیمنٹ اور کابینہ اور مشیر بھی کہا جاسکتا ہے ۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس خاتون کی حکمرانی میں جمہوریت کا تصور موجود تھا اور یہی طریق حکمرانی ہے۔ 
اسلامی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ خطوط نویسی کا طریقہ خود نبی ﷺ نے بھی اختیار فرمایا ۔ آپ نے مدینہ منورہ سے مختلف بادشاہوں ، متعدد علاقوں کے حکمرانوں ، قبائل کے سر براہوں اور بعض اہم شخصیتوں کو خطوط لکھے اور انھیں اسلام کی دعوت دی۔ 
نبی ﷺ کے بعد خلفائے اربعہ نے بھی متعدد لوگوں کو خطوط لکھے، جن میں فوج کے جرنیل بھی شامل ہیں اور بعض دیگر حضرات بھی اور یہ خطوط مطبوعہ صورت میں ہمارے علم میں آتے ہیں۔ خطوط نویسی کا سلسلہ بہت پرانا ہے جو اب تک چل رہا ہے۔ علماء کے خطوط ، ادباء کے خطوط ، سیاست دانوں کے خطوط۔ ان میں مفصل خطوط بھی ہیں اور مختصر بھی……!
خطوط روا روی میں لکھے جاتے ہیں ۔ لکھنے والے کو بالکل خیال نہیں ہوتا کہ جو خط وہ لکھ رہا ہے ، وہ کبھی چھپ بھی جائے گا۔ وہ سرسری انداز اور بے تکلفانہ اسلوب میں لکھتا چلا جاتا ہے ۔ اسے ادبی قالب میں ڈھالنے کی بالکل کوشش نہیں کرتا۔ خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ خط نویس کتنا بڑا عالم اور کتنا بڑا ادیب ہے اور اس کے اظہار مدعا کا کیا طریقہ ہے۔ خط اس کے علم ، اس کی تحقیق ، اسکی نفسیات، اس کی سوچ اور اس کی ادبی حیثیت کو سمجھنے کا آئینہ ہوتا ہے۔ 
مولانا عبید اﷲ رحمانی کے خطوط کا یہ مجموعہ بھی ان کے علم کی وضاحت کا آئینہ ، ان کی تحقیق کو اجاگر کرنے کا پیمانہ اور ان کی سوچ کو نمایاں کرنے کا ذریعہ ہے۔ ان کے خطوط سے یہ حقیقت کھل کر قاری کے سامنے آجاتی ہے کہ دینی مسائل کے تمام گوشوں پر وہ گہری نظر رکھتے ہیں، ان کا مطالعہ وسیع ہے ، ان کی سوچ ایک مدبر کی سوچ ہے اور ان کی فکر کا دائرہ دور تک پھیلا ہوا ہے ۔ ان کا قلم ان کی گرفت میں ہے اور ہر موضوع میں انتہائی شائستگی سے اپنا سفر تحریر طے کرتا ہے۔ جو بات وہ کہنا چاہتے ہیں ، اس میں وہ ہر لحاظ سے ان کا معاون ہے۔ یہ سہولت جس اہل قلم کو میسر آجائے ، وہ اس میدان میں ہمیشہ کامیابی سے ہم کنار ہوگا، اور مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری کو اﷲ کے فضل سے یہ سہولت حاصل تھی۔ قلم ان کا تابع فرمان تھا اور ان کا خزانۂ ذہن معلومات سے پُر تھا۔ 
اس عالم اجل اور محدث دوراں نے کچھ عرصہ بیمار رہ کر ۸۵ برس کی عمر میں ۶؍ جنوری ۱۹۹۴ء کو اپنے آبائی وطن مبارک پور میں وفات پائی اور وہیں کے قبرستان میں دفن کئے گئے۔
انّا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔
اﷲم نوّر قبرہ ووسع مدخلہ و ادخلہ جنت الفردوس۔
مولانا مرحوم اس دنیا ئے فانی سے کوچ کرکے اس شان سے عالم جاودانی میں پہنچے کہ شاگردوں بلکہ شاگردوں کے شاگردوں اور عقیدت مندوں کی بہت بڑی تعداد اپنے پیچھے چھوڑی جو ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قال اﷲ وقال الرسول کی دلنواز صدائیں بلند کرنے میں مصروف اور تبلیغ توحید و سنت میں مشغول ہیں۔ اسی قسم کے لوگوں کی علمی سرگرمیوں اور تبلیغی کوششوں سے اشاعت دین ہوئی اور قرآن و حدیث کے احکام کو مرکز عمل ٹھہرایا جانے لگا۔ آئیے سب مل کر ان کے لئے بارگاہِ الٰہی میں مغفرت کی دعا کریں۔ 
اﷲم اغفر لہم وارحمہم واجعل لہم الجنۃ ماویٰ۔
(بشکریہ ماخوذگلستانِ حدیث از مولانا محمد اسحق بھٹی حفظہ اﷲ ) 
٭٭٭



جامع المعقول والمنقول علامہ نذیر احمد رحمانی رحمہٗ اﷲ 
(ذی الحجہ۱۳۲۳؁ھ مطابق فروری ۱۹۰۶؁ء ـ ۱۳۸۵؁ھ مطابق ۳۰؍ مئی ۱۹۶۵ء بروز اتوار؁ )
مولانا نذیر احمد صاحب رحمانی املوی ابن شیخ عبد الشکور بن شیخ جعفر مرحوم جن کا خاندان اطراف میں معزز و موقر ہے۔مولانا نذیر احمدرحمانی کی ولادت ماہ فروری ۱۹۰۶؁ء مطابق ذی الحجہ ۱۳۲۳؁ھ موضع املو میں ہوئی جو قصبہ مبارک پور اعظم گڑھ سے متصل ہے ۔ مولانا مبارک پور اور سرائے میر کے مدرسہ الاصلاح میں پڑھنے کے بعد دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں تشریف لے گئے ہر امتحان میں اول رہے اور سال آخر میں تمام مدرسہ میں اول آنے کی وجہ سے انعام میں صحیح بخاری اور چالیس روپیہ نقد انعام سے سر فراز ہوئے یہ تکمیل ۱۵؍ شعبان ۱۳۴۶ھ ؁ کوہوئی اور اسی سال دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں مدرس کی حیثیت سے نورالانوار و رشیدیہ تک کے اسباق آپ کے سپرد ہوئے ۔
جناب عطاء الرحمن مہتمم مالک دارلحدیث رحمانیہ دہلی مردم شناشی اور خیر اندیشی کے سراپا مزین تھے آپ کی ذہانت و ذکاوت کی وجہ سے آپ کو مدرسہ کی تنخواہ سے حسب معمول پر مشہور عالم معقول مولانا فضل حق صاحب کی خدمت میں رام پور بھیجا مگر یہاں ریاضی کا سلسلہ نہ ہونے کی وجہ سے بدایوں چلے گئے اور مولانا عبد السلام رحمہ اﷲ سے جو ان جملہ علوم میں فرد یگانہ تھے ریاضی و معقولات کی وہ کتابیں پڑھیں جو رحمانیہ کے نصاب سے باہر تھیں یہاں سے سند فراغت کے بعد رحمانیہ میں اپنی جگہ پر واپس تشریف لے آئے اور آخری و قت تک یعنی ۱۹۴۷؁ء تک پڑھاتے رہے۔ 
جناب عطاء الرحمن صاحب مالک و مہتمم رحمانیہ کا آپ پر اس قدر بھروسہ و اعتماد تھا کہ اعظم گڑھ و نواحی کے طالب علم اگر سالانہ تعطیلات میں آپ سے داخلہ کا سرٹیفکٹ حاصل کر لیتے تو کافی ہوتا ۔ یہ دنیا فانی ہے اﷲ کے علاوہ کسی کو بقا نہیں افسوس مولانا نذیر احمد رحمانی کو قضا نے ۳۰؍ مئی ۱۹۶۵؁ء بروز اتوار ہم لوگوں سے چھین لیا جناب ایوب کانپوری نے اس موقع پر یہ شعر کہا تھا ؂ 
مئی کے تیس سنہ ۶۵؁ء بروز اتوار اے ہمدم 
رُلانے کیلئے ساری جماعت کو قضا آئی 
عبد الرؤف خان ندوی
تلسی پور ۔ بلرام پور 
۲۳؍دسمبر ۲۰۱۲؁ء
علامہ نذیر احمد رحمانی کے مزید حالات وکوائف درج ذیل سطور میں مولانا عبد الحمید رحمانی حفظہ اﷲ کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں ۔
اسلام دشمن طاقتوں اور برطانوی استعمار کی سازش کے نتیجہ میں ہندوستان کی تقسیم کا نتیجہ حادثہ جانکاہ پیش آیا اور اس نے ملت اسلامیہ کی کمر توڑ کر رکھ دی اور سلفیان ہند یکسر ٹوٹ کر رہ گئے اس حواس باختگی کے عالم میں بنگلہ دیش ( سابق مشرقی پاکستان) میں علامہ عبداﷲ الکافی اور پاکستان ( سابق مغربی پاکستان ) میں مولانا محمد اسماعیل سلفی گجرانوالہ رحمہ اﷲ اور ہندوستان میں علامہ نذیر احمد رحمانی املوی رحمہ اﷲ نے اپنے اپنے ملک میں کتاب اﷲ اور سنت رسول اور فہم صحابہ پر مبنی عقیدہ منہج سلف اور توحید خالص اور اتباع رسول کے حامل مسلمانوں کے پاؤں جمانے انھیں نیا حوصلہ بخشنے اور ان کے اندر غیر ت حق کی اسپرٹ کی بقا و تحفظ میں قائد انہ رول ادا کیا۔
سلفیان ہند کی حالت مزید ناگفتہ بہ تھی ایک طرف یہ ملک کی اکثریت کے مظالم کا نشانہ تھے خود علامہ نذیر احمد رحمانی رحمہ اﷲ اس دہشت گردی کا شکار ہوئے جیل اور اس کی سختیاں جھیلیں اورکسٹوڈین کے فتنہ میں سالہا سال تڑپتے رہے دوسری جانب مختلف افکار کے حامل مسلمان علماء اور تنظیموں نے سلفیت کی اس مظلوم تحریک کو اپنے ظلم کا نشانہ بنایا کسی نے اس کے محاذ کو تقسیم ملک کے بعد ٹوٹا پھوٹا قرار دیا کسی نے اسے ایک خارجی فکر قرار دیا اس کے طلبہ سلفیت کے اتہام میں بڑے بڑے تعلیمی اداروں سے نکالے گئے ، روشن خیالی کے مدعی ایک بڑے تعلیمی دارہ تک میں اس تحریک کی طرف منسوب طلبہ کو تنگ کیا گیا انھیں روحانی اور دماغی تکلیفیں تو پہونچائی ہی گئیں انھیں جسمانی اذیتیں بھی دی گئیں اس ادارہ نے اپنی تیار کردہ کتابوں اوراس تحریک کو یکسر نظر انداز کردیا اور اگر اس کا کہیں ذکر آیا تو اس کے اساطین پر تہمتیں لگائی گئیں اسلامیان ہند کے کارناموں کی تاریخیں لکھی گئیں کہ اتنی احتیاط برتی گئی کہ کہیں اس زہریلی تحریک کا ذکر نہ آجائے۔ 
ارباب شرک و بدعات اور قبروں اور درگاہوں کی کمائی کھانے والوں کیلئے فتنے شب و روز بڑھتے رہے اور ان کی ٹکسال سے اس مظلوم تحریک اور اس کے حاملین کیلئے کفر کے فتوے ڈھلتے رہے۔اس پر چوطرفہ حملہ اور ہمہ جہتی ظلم و جور کے بالمقابل پوری طاقت اور مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہونے والا شخص ایک کمزور ڈھانچہ اور ہلکے جسم وجثہ کا مالک لیکن گہرے علم وسیع مطالعہ نقلی اور عقلی علوم کا جامع تعلیم و تربیت کا ماہر تحریر و تقریر اور زبان وادب پر یکساں قادر اعلیٰ اخلاق و کردار ورع و تقویٰ ،استغناء و خوداری اور غیرت و حمیت حق اور دعوت و عزیمت کا پیکر نذیر احمد رحمانی تھا ۔ رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ 
اس نبض شناس جماعت و ملت عقیدہ و منہج صحابہ و سلف کے خلاف اٹھنے والے ہر فتنہ کی سرکوبی کی ، رد عقائد بدعیہ ، انوار المصابیح ’’اہل حدیث اور سیاست انتقاد‘‘ جیسی علمی و فکری کتابیں تصنیف کیں جو اپنے اپنے موضوع پر غیر مسبوق قرار دی گئیں۔ 
سلف صالح کے عقیدہ و منہج پر مبنی معیاری دینی نصاب چمن اسلام کی شکل میں پیش کرکے نئی نسل کی ذہن سازی اور دینی تعلیمی کونسل کی تاسیس میں قائدانہ شرکت اور اس کے پلیٹ فارم سے قائدانہ رول ادا کرکے مسلمان بچوں کو دیومالائی فکر سے بچانے کی راہ میں عملی جد و جہد فرمائی۔
مجلات و صحف میں قومی دھارے کے گمراہ کن تصور کے خلاف مقالات لکھ کر نئی نسل کو مرعوبیت سے بچانے کی ممکنہ کوشش کی تقلید جامداور بدعات و خرافات اور شرک و مظاہر شرک کے منھ پھٹ قسم کے نمائندوں اور صحافیوں کو اپنی علمی گرفتوں سے خاموش کیا ملک کی اپنے وقت کی سب سے معیاری درس گاہ جامعہ رحمانیہ بنارس میں مرض الموت تک صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور دوسرے علمی فنی موضوعات کی تدریس کا اعلیٰ معیار قائم فرمایا اور سینکڑوں طلبہ کی علمی واخلاقی تربیت کرکے انھیں مختلف میادین علم و عمل میں عقیدۂ ومنہج سلف کی تعلیم و تدریس اور نشر واشاعت کے قابل بنایا تعلیم و تربیت نظم وانصرام ادارت وقیادت دانش و بینش علم و فضل کی گہرائی و گیرائی ورع و تقویٰ زہد و استغناء شرافت و نجابت معاملہ فہمی و دراندیشی ، حق گوئی و بے باکی اور حق کی غیرت و حمیت میں علامہ نذیر احمد کی موجودہ دور میں مثال نہیں ملتی ۔
(بشکریہ ماہنامہ التوعیۃ اپریل ۱۹۹۵؁ء) 


٭٭٭





امام فرائض علامہ عبد الرحمن ۱؂ صاحب بجواوی رحمہٗ اﷲ 

متاخرین اور موجودہ دور کے لوگوں میں بھی ایسے بہت سے رجال اور شخصیات پر نظر پڑتی ہے جنھیں دیکھ کر اسلاف کی یاد تازہ ہوجاتی ہے انھیں میں سے امام فرائض مولانا عبد الرحمن صاحب بجواویؒ کی ذی علم صاحب کردار اور متقی شخصیت بھی ہے جن میں علم و فن اور زہد و تقویٰ کے ساتھ تواضع و انکساری اور سادگی بدرجۂ اتم پائی جاتی تھی جو یقیناً ایک مومن کامل تھے ۔
قابل ذکر اساتذہ: آپ کے والد مولانا عبد اﷲ صاحب مولانا اﷲ بخش بسکوہری حافظ عبداﷲ غازی پوری مولانا عبد الجبار غزنوی مولانا عبدالوہاب ملتانی محدث کبیر مولانا عبد الرحمن مبارک پوری وغیرہم ۔
مولانا عبد الرحمن بجواوی ؒ نے جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر نیپال سمیت متعدد اہم تعلیم گاہوں ۲؂ میں اپنا مسند درس بچھایا اور علاقہ ہی نہیں بلکہ ضلع میں بڑی موثر دعوتی و اصلاحی جد و جہد فرمائی۔ 
۱؂ آپ کا آبائی وطن بجوا بیروا ضلع بلرام پور ہے جو بڑھنی بازار سے لگ بھگ ۱۰ کلو میٹر پچھم جانب واقع ہے آپ کی ولادت ۱۸۷۳؁ء میں ہوئی آپ کے والد محترم کانام عبد اﷲ تھاوہ عالم دین تھے۔ 
۲؂ آپ نے۱۹۴۶؁ء میں جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں تدریسی خدمات کا آغاز کیا دو سال تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد مدرسہ چشمۂ رحمت مؤ آئمہ ضلع الہ آباد چلے گئے وہاں سے واپس آکر مدرسہ شمس العلوم سمرا اٹوا بازار سے وابستہ ہوگئے صوبہ اڑیسہ میں مدرسہ اسلامیہ کیونجھر اور اپنے گاؤں بجوا مدرسہ رحمانیہ میں بھی کچھ دنوں تک درس دیا دوسرے مرحلہ میں سراج العلوم جھنڈا نگر دوبارہ تشریف لائے اور ۱۹۶۳؁ء سے ۱۹۶۷؁ء تک تدریسی خدمات انجام دیا پھر یہیں سے تدریسی سلسلہ ختم کرکے گھر پر مقیم رہنے لگے آپ نے دو کتابیں لکھی یہ دونوں آپ کی گرانقدر تصنیف ہے رحمۃ الفرائض مولانا عبد الشکور دور صدیقی بیت نار نے اس پوری کتاب کو نظم میں لکھا تھا دوسری کتاب حسن المقالۃ فی بیان الکلالہ اس میں کلالہ کی تشریح اور ورثاء کے درمیان ترکہ کے تقسیم کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔ (عبد الرؤف خاں ندوی) 
مولانا بجواوی کا علمی مقام بہت بلند تھا انھیں ہندوستان کی نابغہ رو زگار شخصیات سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ بعض علمی امور میں بڑے بڑے علماء انھیں مرجع قرار دیتے تھے محترم جناب مولانا عبد الحمید رحمانی صاحب صدر مرکز ابوالکلام آزاد دہلی لکھتے ہیں :
مولانا عبد الرحمن بجواوی رحمہ اﷲ کی عمر کوئی سو سال رہی ہوگی آپ علامہ محدث مبارک پوری صاحب تحفۃ الاحوذی کے جلیل القدر شاگردوں میں سے تھے یو ں تو مرحوم علوم قرآن و سنت عقائد و فقہ اور تمام علوم معقولات و منقولات میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ لیکن جس عظیم الشان علم نے آپ کی شخصیت کو پورے ہندوستان میں نمایاں حیثیت کا مالک بنا دیا تھا وہ علم فرائض ہے علم فرائض جسے نبی اکرم ﷺ نے پورے علوم اسلامیہ کانصف قرار دیا ہے اس سے آپ کو اس قدر شغف تھا کہ نہ صرف آپ بلکہ آپ کے گھر کا ہر باشعور فرد فرائض اور تقسیم میراث کی معمولی جزئیات تک سے واقف تھا شیخ الاسلام علامہ ابوالوفاء ثناء اﷲ امرتسری ؒ مولانا شرف الدین دہلوی اور دوسرے اکابر و اعیان فرائض میں آپ کو مرجع سمجھتے تھے۔ علم فرائض پر آپ کی متعدد تصانیف بھی ہیں جن میں سے رحمۃ الفرائض کو کافی شہرت حاصل ہوئی ۔ (جریدہ ترجمان دہلی یکم مارچ ۱۹۷۲ء) 
مولانا بجواوی کی زندگی کے اوصاف و خصوصیات کا تعارف کراتے ہوئے مولانا عبدالحمید صاحب رحمانی حفظہ اﷲ مزید لکھتے ہیں : 
آپ کی زندگی کی ایک بہت بڑی خصوصیت آپ کی سادگی اخلاص تواضع اور انکساری و فروتنی تھی سادگی کا یہ حال تھا کہ کبھی دو جوڑے سے زیادہ کپڑا نہیں رکھا اور کرتے میں کبھی بٹن تک لگانے کا تکلف گوارا نہ فرمایا اور تواضع وانکساری کایہ حال کہ تلامذہ ۱؂ اور عوام کے سامنے کسی طرح کے 
 ۱؂ مولانا عبد الرحمن بجواوی رحمہ اﷲ کے تلامذہ کی ایک طویل فہرست ہے قابل ذکر تلامذہ میں خطیب الاسلام مولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈانگری مفکر ملت مولانا عبد الجلیل رحمانی مفسر قرآن مولانا عبد القیوم رحمانی مولانا حبیب اﷲ طیب پوری مولانا عبد السلام بستوی مولانا زین اﷲ طیب پوری مولانا اولاد حسین اونرہوا مولانا منیر احمد بونڈھیار وغیرہم تھے( عبدالرؤف خاں ندوی) 
امتیاز کا تصور تک نہ ہوتا تقویٰ اور اکل حلال میں اپنی نظیر آپ تھے ، محدث اعظم مولانا عبد الرحمن صاحب مبارک پوری ؒ اپنی جلالت علمی اور تقوی ورع کے باوجود امامت کیلئے اپنے اس شاگرد کو آگے بڑھا دیتے آپ صحیح معنیٰ میں دور سلف کی یادگار اور ایثار و اخلاص میں صحابہ کا نمونہ تھے ۔ ( حوالہ مذکور) 
مولانا بجواویؒکے اخلاص و ایثار کا اندازہ ان کی زندگی کے اس اہم واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے مولانا ابو العاص وحیدی راوی ہیں کہ مولانا بجواویؒ ایک سال مؤ آئمہ الہ آباد میں تدریس کے فرائض انجام دئیے پورے سال کی تنخواہ انھوں نے آخر سال میں یکبارگی لی سال کے آخر میں گھر آئے اور سال بھر کی اس آمدنی سے اپنے گاؤں بجوا کلاں میں اپنی ہی زمین پر ایک مدرسہ رحمانیہ تعمیر کراکے گاؤں کی جماعت پر وقف کردیا ماشاء اﷲ وہ مدرسہ اب بھی چل رہا ہے اور صدقہ جاریہ ہونے کی وجہ سے مولانا مرحوم کیلئے اجر و ثواب کا چشمہ رواں ہے ۔ ( ماہنامہ السراج جھنڈا نگر نومبر ۱۹۹۶ء ) 
اس واقعہ سے یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ مولانا بجواوی کو دینی علوم کی ترویج واشاعت کیلئے اﷲ تعالیٰ نے کتنا دردسوز اخلاص اور سچا جذبہ عطا فرمایا تھا موجودہ دور میں یہ جذبہ عنقا نظر آتا ہے ۔ 
بلکہ اب تو لوگوں نے دینی تعلیم کو ایک تجارت بنا لیا ہے اور فرضی مدرسوں کی فرضی رسیدیں لئے ہوئے ہند اور بیرون ہند چندہ کرتے ہوئے نظر آ تے ہیں ۔ اس ملت کا خدا ہی حافظ ہے ۔ 
مولانا بجواوی ؒ کے انھیں اوصاف و خصوصیات کی بنا پر جماعت کے بڑے بڑے علماء ان سے بڑی عقیدت رکھتے تھے اور ان کے ساتھ خادمانہ بر تاؤ کرتے تھے اس سلسلہ میں مولانا ابو شحمہ سراجی صاحب کا ایک مشاہدہ ملاحظہ ہو یہ اس وقت کی بات ہے جب مولانا سراجی صاحب جامعہ سراج العلوم بونڈھیار میں دور طالب علمی سے گذر رہے تھے وہ لکھتے ہیں۔ 
جامعہ سراج العلوم بونڈھیار کی زندگی کا ایک بڑا یادگار واقعہ میرے ذہن میں محفوظ ہے کہ ایک مرتبہ جامعہ سراج العلوم بونڈھیار میں مولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈانگری اور علامہ عبیداﷲ رحمانی مبارک پوری وغیرہ تشریف فرما تھے میں محدث عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری کو دیکھا کہ مولانا عبد الرحمن بجواویؒ کے برتن سے مچھلی کے کانٹے نکال کر مچھلی ان کے برتن میں رکھتے ، اور ہڈی سے گوشت نکال کر بو ٹیاں بھی رکھتے تھے اور مولانا بجواوی بالکل خاموشی سے کھا رہے تھے استاذ محترم مولانا محمد اقبال رحمانی ؒ اور ہم قریب سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ (مجلہ الفلاح خصوصی نمبر جون ستمبر ۱۹۹۴ء) 
بالآخر یہ نےّر تاباں امام فرائض جو تمام عمر درس و تدریس دعوت و تبلیغ تصنیف وتالیف کی صورت میں دنیا میں روشنی پھیلاتا رہا ایک سو سال عمر گذار کر فروری ۱۹۷۲؁ء کوہمیشہ کیلئے غروب ہو گیا ۱؂ آپ کی آخری آرام گاہ موضع بجوا کلاں میں ہے اور اپنے آبائی قبرستان میں مدفون ہیں ۔سچ ہے ؂ 
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں 
 تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں 
اﷲ تعالیٰ مولانا مرحوم کو جنت الفردوس عطا فرمائے اور ہم سب کو ان کی زندگی سے عبرت و موعظت حاصل کرنے کی توفیق بخشے ۔ آ مین 
عبد الرؤف خاں ندویؔ 
تلسی پور ، بلرام پور
۲۵؍ستمبر ۲۰۱۲ء
۱؂ آپ کی زندگی کے تین چار سال کا فی ضعیفی میں گذرے اور بسااوقات نیم بیہو شی کی حالت سے دو چار رہتے تھے بقول مولانا عبد السلام رحمانی صاحب بونڈھیار کہ نیم بے ہوشی کی حالت میں ہاتھ کی انگلیاں تسبیح و تہلیل میں برابر چلتی رہتیں اور زبان سے اﷲ اکبر کی صدائیں سنائی دیتی تھیں۔ ( عبدالرؤف خاں ندوی) 
خطیب الاسلام مولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈانگری رحمہ ٗاﷲ 
جانے والا تجھے روئے گا زمانہ برسوں 
(۱۹۱۰؁ء ـــ ۳۰؍نومبر ۱۹۹۹؁ء)
جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر سے بذریعہ فون یہ خبر بجلی بن کر گری کہ خطیب الاسلام علامہ مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگری ناظم جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر بانی مدرسہ عائشہ صدیقہ ، رکن رابطہ العالم الاسلامی مکہ مکرمہ اور ہندو نیپال کے کئی اداروں کے بانی و سر پرست اور مرکزی جمعیت اہلحدیث نیپال کے بانی و صدر ، مرکزی جمعیۃ اہلحدیث ہند کے رکن عاملہ وفات پاگئے ۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون 
یہی قانون قدرت ہے کل نفس ذائقۃ الموت آج ان کی تو کل ہماری باری ہے 
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے 
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا 
موت برحق ہے ہر ذی نفس مخلوق کو موت کا مزا چکھنا ہے نبی، پیغمبر، اولیاء ، رشی، منی بھی اس سے مستشنیٰ نہیں جو آیا ہے اسے ایک دن واپس اپنے خالق حقیقی کے پاس لوٹ کر جانا ہے مگر وہ لوگ ہمیشہ یاد آتے ہیں جو اپنے کو دین و عقبیٰ سے قریب رکھتے ہیں خدا کا خوف خلق خدا کی خدمت ، حق کی تبلیغ اور صحت مندانہ اقدار کی افزائش کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں وہ عالم دین ہوں یا عالم دنیا اﷲ اور موت اور آخرت کو یاد رکھنے والے دوسروں کے لئے مثال اور نمونہ بن جاتے ہیں ۔ 
ہمارے ضلع گونڈہ، بستی، بلرام پور، سدھارتھ نگر کی چند عبقری شخصیتیں چند سال پہلے ہم سے جدا ہو گئیں ، علامہ مولانا عبد الغفور بسکوہری، مفکر ملت مولانا عبد الجلیل رحمانی ، نمونہ سلف مولانا محمد اقبال رحمانی ، مولانا محمد زماں رحمانی ، مولانا عبد القدوس ٹکریاوی ، مولانا عبد المبین منظر ، مولانا محمد اسحق رحمانی مولانا محمد صدیق رحمانی مولانا عبد الصبور رحمانی ، مولانا نور عظیم ندوی ، مولانا عبد الحق رحمانی رحمہم اﷲ آسمان فضل و کمال اور عزت و شہرت کے مہر و ماہ تھے ایک ایک کرکے رخصت ہو گئے جس کی بنا پر ہماری مجلس سونی ہوگئی۔ 
سلفیان عالم کے لئے ۱۹۹۹؁ء نہایت المناک و غم انگیز سال ہے ابھی چند ماہ پہلے دنیائے اسلام کے سب سے بڑے عالم مفتی امت علامہ عبد العزیزبن عبد اﷲ بن بازپھر محدث عصر محمد ناصر الدین البانی اس کے چند ماہ بعد خطیب الاسلام علامہ جھنڈانگری پھر مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی الحسنی الندوی رحلت فرماگئے ان شخصیات کو حفظہ اﷲ کے بجائے رحمہ اﷲ لکھتے ہوئے غم والم سے دل تڑپ رہا ہے یہ ایسی عظیم ہستیاں تھیں جنہوں نے پوری زندگی دعوت و تبلیغ قال اﷲ و قال الرسول میں گزاری یہ علوم اسلامیہ کے پہاڑ تھے ایسی عظیم ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں ایسی ہستیوں کی رحلت کا غم وقتی نہیں ہوتا بلکہ آفاقی ہوتا ہے اور گردش افلاک کے ساتھ اس کی کسک روز افزوں ہوتی جاتی ہے اور جب کوئی کٹھن گھڑی آجاتی ہے تو ان رہنماؤں کے نہ ہونے کا احساس شدت اختیار کرتا ہے اور بے ساختہ ان سائبانوں کے نہ ہونے کا غم آنکھوں میں نمی پیدا کر دیتا ہے ہمارے رہنما و سر پرست جو آج ہمارے بیچ نہیں ہیں ملت پر آنے والی نت نئی مشکلات میں رہبری اور اس سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی تدبیر کر تے تھے ۔
خطیب الاسلام علامہ جھنڈانگری نے صاحب مرعاۃ المفاتیح علامہ محدث عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری و جامع معقول و منقول علامہ نذیر احمد رحمانی املوی وغیرہ سے دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں کسب فیض کیا تھا شیخ العرب والعجم میاں محمد سید نذیر حسین محدث دہلوی کی مشہور درسگاہ کے بعد شیخ عطاء الرحمن دہلوی کے زیر انتظام چلنے والے دارالحدیث رحمانیہ دہلی ہندوستان اور عالم اسلام کی سب سے بڑی اور مثالی درسگاہ تھی جس میں داخل ہونے کیلئے طالبان علوم شریعت ملک و بیرون ملک سے جوق در جوق آتے تھے اور اس چشمۂ علمی سے سیراب ہوتے تھے اس ادارہ سے جو نامور علماء نکلے انھوں نے درس و تدریس تقریر و تحریر تصنیف و تالیف اور اشاعت کتاب و سنت سے تمام عالم کو فیض پہونچایا اور لوگوں میں اعتصام بالکتاب اور اتباع سنت کا ایک عام جذبہ اور ولولہ پیدا کیا ۔ 
خطیب الاسلام جھنڈانگری نے بہت سی یادگاریں چھوڑی ہیں ان میں سے خصوصاً جامعہ سراج العلوم ، مدرسہ عائشہ صدیقہ اپنی علمی و تحقیقی تصنیفات اور مجلہ السراج ہیں ، علامہ جھنڈا نگری کے ساتھ سچی خراج عقیدت یہ ہے کہ ان کی یادگار اور مشن کو آگے بڑھا یا جائے اور نئی نسل کو صحیح عقیدہ اور تعلیم سے آراستہ کیا جائے ۔
خطیب الاسلام کے ہزاروں شاگرد ملک وبیرون ملک کی یونیور سٹیوں ، کالجوں، جامعات ، معاہد اور مدارس میں درس و تدریس تصنیف و تالیف تحقیق و ترجمہ اور دعوت و تبلیغ جیسی اہم خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ 
خطیب الاسلام فن خطابت کے ذریعہ دین و اسلام کی باتیں اجلاس و کانفرنس کے توسط سے پہونچاتے رہے آپ کی تقریر بہت ہی معلوماتی اصلاحی دلچسپ اور دلوں میں اتر جانے والی ہوتی تھی۔ 
جماعت کے مشہور شاعر مولانا ذاکر صاحب ندوی نے ایک موقع پر کہا تھا:
 اﷲ اﷲ وہ خطیب الھند کا زور بیاں بحر میں ہے لہریا ہے موجزن دریائے نور 
اور ایک موقع پر علامہ شائق مؤی نے کہا تھا ؂
حل قرآنی میں آپ اپنی مثال ابن عباس زماں مرد رشید 
خوش بیانی ایسے کہ سامع کیلئے ہر زباں پہ نعرۂ ھل من مزید 
خطیب الاسلام نصف صدی سے زائد مدت تک تقریر و تحریر کی دنیا پر چھائے رہے ہندو پاک کے مشہور جرائد و رسائل و اخبارات میں سنجیدہ علمی ، دینی، واصلاحی ، سماجی ، فکری و شگفتہ مضامین ومقالات لکھتے رہے ۔
مولانا جھنڈانگری کی اہم یادگاروں میں مدرسہ عائشہ صدیقہ ، ماہنامہ السراج اور آپ کی تصنیفات آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس نوگڈھ اور ریاستی کانفرنس تلسی پور ہیں نوگڈھ کانفرنس مولانا جھنڈا نگر ی اور ان کے رفقاء جماعت کی محنت و جدوجہد ولگن سے ایک مثالی و تاریخی کانفرنس ثابت ہوئی ۔ مولانا جھنڈا نگری کی رحلت بیسویں صدی کا سب سے بڑا سانحہ ہے اور دنیائے اسلام کا عظیم نقصان ہے مولانا کی ہمہ جہت خدمات ہیں اور ان کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ ان تمام کا احاطہ چند مضامین میں نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کی شخصیت حیات و خدمات پر مستقل ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے تا کہ آنے والی نسل اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ 
آہ! خطیب الاسلام کی آواز مورخہ ۳۰؍ نومبر ۱۹۹۹؁ء کوہمیشہ کیلئے بند ہو گئی جس کی شیریں وگرجدار آواز ملک کے گوشہ گوشہ میں گونجتی تھی یکم دسمبر ۱۹۹۹؁ء کو بعد نماز عصر قرب و جوار علاقہ، دہلی ،مؤ ،مبارک پور علماء و طلبہ کے عظیم مجمع کی موجودگی میں آپ کو جھنڈینگر کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا ، نماز جنازہ جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر کے مفتی مولانا عبد الحنان فیضی ؔ صاحب نے پڑھائی اﷲ تعالیٰ اسلامی دعوت کے اس زبر دست مجاہد اور علم دین کے اس عظیم عالم پر رحمت کی بارش بر سائے ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور کشادہ جنت ان کا مسکن بنائے ۔ آمین 
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا 
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
عبد الرؤف خاں ندوی  
ماہنامہ السراج جھنڈا نگر خطیب الاسلام نمبر 
۱۲؍ مارچ ۲۰۰۰ ؁ء
مفکر ملت علامہ عبدالجلیل رحمانی رحمہ اﷲ 

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانو ں پر
مولانا عبد الجلیل رحمانی بن تعلقدار ضلع سدھاتھ نگر یوپی کے مشہور و معروف موضع ششہنیاں میں ۱۹۱۸؁ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گو را بازار اور مدرسہ دار الہدیٰ یوسف پور وغیرہ میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر دہلی کیلئے عازم سفر ہوئے اور دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں داخل ہو کر فراغت تک تعلیم حاصل کی ۔ ۱۹۳۶؁ء میں سند فراغت حاصل کرنے کے بعد دارالحدیث رحمانیہ ہی میں تدریسی سلسلہ سے جڑ گئے۔ ان دنوں رحمانیہ میں تدریسی خدمات انجام دینا قابل فخر بات تھی ۔ دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں تدریسی سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہا۔ 
پھر ملازمت ترک کرکے وطن لوٹ کر ۱۹۴۴؁ء میں اپنی ہی زمین پر مدرسہ دارالعلوم ششہنیاں کا سنگ بنیاد رکھا اور آخری سانس تک اس کی نظامت سے جڑے رہے ، اس دارالعلوم کے قیام سے علاقہ مٹکا اور اس سے متصل نیپال کے ترائی علاقہ سے جہالت شرک و بدعت کا دور ختم ہوا اور لوگوں کے اندر دینی تعلیم کے حصول کا رجحان پیدا ہوا جس کے نتیجے میں جگہ جگہ مدارس و مکاتب قائم ہوئے۔ 
اسی دوران ماہنامہ ’’ مصباح‘‘ نامی ایک علمی ، تحقیقی اور فکری مجلہ جاری کیا ۔ جس کے خود ہی مدیر تھے یہ ماہنامہ اپنے دور کا بڑا ہی باوقار علمی مجلہ تھا لیکن نا مساعد حالات کی وجہ سے زیادہ دنوں تک جاری نہ رہ سکا ۔
تصنیفات میں ایک کتاب ’’ شہدائے احد‘‘ یادگار ہے اس کے علاوہ محدث دہلی، اہل حدیث دہلی، اور ترجمان دہلی میں ان کے سینکڑوں علمی و فکری مضامین و مقالات شائع ہوتے رہے ہیں ۔ کئی سال تک مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند کے ناظم اعلیٰ رہے ۔ ۱۷؍ فروری ۱۹۸۶؁ء میں اس جہان فانی کو خیر باد کہا۔ اﷲم اغفر لہ وارحمہ و عافہ واعف عنہ 
مفکر ملت حضر ت مو لانا عبد الجلیل صاحب رحمانی کی وفات کی خبر بجلی بن کر گری ، یہ حادثہ میرے لئے ذاتی حادثہ تھا مولانا مجھ پر بڑی شفقت فرماتے تقریباً تین سال آپ کی صحبت و رفاقت میں دہلی رہا مولانا جماعتی دورے کی وجہ سے کئی کئی ماہ دہلی موجود نہ رہتے تو پندرہ روزہ ترجمان اور اخبار اہلحدیث دہلی کا اداریہ لکھنا اور اس کی ترتیب و تسوید کی ذمہ داری ناچیز کے سر تھی مولانا کی عدم موجودگی میں حتی الوسع اس کام کو مجھے ہی کرنا پڑتا اور جب دہلی سے گھر آگیا تو مولانا رحمانی صاحب جب تلسی پور، گینسڑی تشریف لاتے تب ملاقات ہوتی جماعت کے مدارس ومکاتب و انجمنوں کا سالا نہ اجلاس میں آپ کی شرکت اجلاس کی کامیابی کی ضمانت ہوتی بہت کم اجلاس ایسے ہیں جس کی صدارت کے فرائض مولانا رحمانی رحمہ اﷲ نے نہ انجام دی ہو ۔ مولانا کے انتقال کی خبر سے بڑا دکھ ہوا پوری جماعت سوگوار ہوگئی ۔ دارالحدیث رحمانیہ دہلی کا ایک چراغ نہ رہا ، دارالعلوم ششہنیاں کا بانی ہم سے جدا ہوگیا اور جماعت کا کمانڈر آسودۂ خاک ہوگیا ۔ ہر شخص غم و اندوہ سے نڈھال تھا ہر جگہ ان کا غم منایا گیا تعزیتی اجلاس ہوئے ۔ تعزیتی قرار دادیں پاس کی گئیں ۔ اور آپ کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی گئیں ، نماز جنازہ غائبانہ ادا کی گئی اور مولانا کیلئے دعائے مغفرت کی گئی افسوس کہ ہماری جماعت کے اکابر جو پرانی نسل سے متعلق تھے دھیرے دھیرے ہم سے جدا ہو رہے ہیں ۔ 
مولانا رحمانی کی وفات سے جماعت میں ایک عظیم خلاء واقع ہوگیا ہے مولانا ایک جید اور متبحر عالم کتاب و سنت پر مجتہدانہ بصیرت کے حامل عظیم دانشور و ادیب اور بیباک صحافی اور شعلہ بار خطیب سادگی و خلوص کا مجسمہ بے لوث و مخلص داعی اور رہنما خلیق و ملنسار اور اخلاق کے پیکر اور طلبہ و علماء کے قدر داں اور عظیم مہمان نواز تھے مولانا کو اسلامی علوم تفسیر و حدیث و فقہ طبقات ،تاریخ ، لغت ، ادب کلام ہر چیز میں تبحر تھا جس موضوع اور فن پر گفتگو فرماتے یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس فن کے سوا دوسرے فنون سے واقف نہ ہوں گے۔ لیکن مخاطب سن کر حیرت زدہ اور مبہوت ہوجاتا تھا آپ ہر فن پر جامعیت اور استدلال سے گفتگو کرتے تھے ہم مولانا کی حیات وخدمات پر اجمالی روشنی ڈالتے ہیں۔
دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں بحیثیت طالبعلم :
مولانا رحمانی صاحب بحیثیت طالب علم دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں پانچ سال تک ہر علم و فن کے اساتذہ سے استفادہ کرتے رہے اساتذہ میں مولانا سکندر علی ہزاروی محدث کبیر مولانا احمداﷲ صاحب پرتابپ گڈھی شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ صاحب رحمانی مبارک پوری ، محقق دو راں حضرت مولانا نذیر احمد صاحب رحمانی املوی ، علامہ عبد السلام صاحب بدایونی علامہ عبد الغفور صاحب بسکوہری رحمہم اﷲ قابل ذکر ہیں ۔ رحمانیہ کا روح پرور علمی ماحول مولانا کو خوب راس آئی اور ۱۸ سال کی عمر میں سند فضیلت و جبّہ دستار حاصل کیا اور حضر ت مولانا احمد اﷲ صاحب محدث نے سند اجازت حدیث عنایت فرمائی۔ مولانا رحمانی رحمہ اﷲ بَلاکے ذہین تھے مولانا مرحوم کے بقول ’’ میرے سالانہ اخراجات رحما نیہ کے انعامات ہی سے پورے ہوتے تھے۔ 
دارالحدیث رحمانیہ میں بحیثیت مدرس :
فراغت کے بعد گھر واپس آگئے اور علمی مشاغل جاری رکھنے کا خیال دامن گیر تھا مگر دو سال تک خاطر خواہ جگہ نہ مل سکی کہ یکایک دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے درس دینے کی طلبی پہنچی اور مولانا کسی بھی عذر کی بنا پر اس درخواست کو رد نہ کرسکے کیونکہ دارالحدیث مولانا کا مادر علمی تھا اور اسی چشمۂ فیض سے سیراب ہوئے تھے اور اس کی خدمت مولانا پر فرض تھا چنانچہ آپ بڑی مستعدی و دلجمعی سے سات سال تک طالبان علم نبوت کو سیراب کرتے رہے اسی دوران آپ پر آزمائش کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ، آپ کی رفیقۂ حیات اور والد بزرگوار اور والدۂ محترمہ کا انتقال یہ پیہم تین حادثات مولانا کی زندگی میں غیر مندمل زخم بن گئے اور کسی ایک کے جنازہ میں مولانا کا شریک نہ ہونا بہت ہی روح فرسا حادثات تھے آخر کار ۱۹۴۵؁ء میں رحمانیہ سے مستعفی ہوگئے ۔ 
دارالعلوم کا سنگ بنیاد :
مفکر ملت نے ششہنیاں میں دارالعلوم کا سنگِ بنیاد ۱۹۴۴ء ؁ میں رکھا اور آپ کی شب و روز دوڑ دھوپ اور اخلاص کے نتیجہ میں دو ہی سال میں دارالعلوم کی کافی شہرت ہو گئی اور دوسرے سال ہی عربی خواں طلبہ داخل کئے گئے اور اسٹاف میں اضافہ کیا گیا مسجد اور دارالاقامہ اور لائبریری کا سنگ بنیاد رکھا اور تعلیمی معیار میں سدھار ہوا اور تبلیغ کی غرض سے رسالہ’’ مصباح‘‘ کا اجرا ہوا اور پابندی سے دارالعلوم کے وسیع فیلڈ میں متحدہ ہندوستان کے نامور علماء کرام تشریف لا تے رہے مثلاً مولانا ابوالقاسم صاحب سیف بنارسی مولانا عبد الوہاب صاحب آروی، شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ صاحب رحمانی مبارک پوری مولانا نذیر احمد صاحب رحمانی،مولانا محمد حسین صاحب میرٹھی، علامہ عبد الغفور صاحب بسکوہری ، مولانا داؤد صاحب راز، مولانا عبد اﷲ شائق ، مولانا
 شمس الحق صاحب سلفی، مولانا عبد السلام بستوی، مولانا ابو سعید صاحب بنارسی خطیب الاسلام مولانا عبدالرؤف صاحب رحمانی جھنڈانگری ، قاضی محمد عدیل صاحب عباسی رحمہم اﷲ قابل ذکر ہیں ۔ علامہ عبد الغفور ملا فاضل بسکوہری رحمہ اﷲ نے ایسے ہی ایک سالانہ اجلاس کے موقع پر ایک طویل عربی قصیدہ لکھا تھا۔ جو مصباح میں بابت محرم الحرام ۱۳۷۱؁ھ کے شمارہ میں شائع ہوا تھا۔مولانا مرحوم کی جانفشانی اور شب و روز کی مساعی اور آپ کے حسن انتظام کی خوب خوب داد دی تھی۔ 
ہذا السعید تراہ یبذل خیرہ فی حبّ خیر الخلق لیس بموتل 
اس لائق ہونہار ناظم ( مولانا عبد الجلیل رحمانی) کو دیکھو حضور ﷺ کی اتباع میں نیکی کی کتنی اشاعت کر رہا ہے ۔
فلقد بنیٰ دارالعلوم مشیدۃ بالجص والآجر عمدۃ منزل 
دارالعلوم کی جو عالیشان پختہ عمارت چونے گارے اور اینٹ سے بنی تیار کھڑی ہے وہ انھیں کی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ 
طلباء دار علومہ عاشوا بہ عیشا رغیدا ای عیش محضل 
دارالعلوم کے طلباء نہایت اطمینان اور آشائش کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ 
مولانا کے علمی کارناموں میں دارالعلوم کا قیام اور کتاب ’’ شہدائے احد‘‘ کی تصنیف اور علمی رسالہ ’’مصباح ‘‘کا اجراء ہے جو افسوس نامساعد حالات کی وجہ سے بند کر دینا پڑا مولانا کی صحافت کا مصباح میں رشحات کے عنوان سے اور ترجمان و اہل حدیث کے ایڈوٹوریل اور جماعتی اخبارات و رسائل میں آپ کے گراں قدر مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے کتنی اچھی صلاحیت و قابلیت سے نوزا تھاکہ بر جستہ مضامین لکھتے تھے ملک کے مسائل و دینی تحاریک پر آپ کی گہری نظر رہتی تھی جب بھی ایسا کوئی واقعہ پیش آتا تو مولانا کا قلم متحرک ہو جاتا ، جماعتی تنظیم و اسفار کی وجہ سے مولانا اپنے محبوب ادارہ کو وہ وقت نہ دے سکے جس کا دارالعلوم متقاضی تھا ، مولانا مرحوم اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ’’ دارالعلوم ششہنیاں الیدہ پور ، بستی کے بانی اور روز اول ہی سے اس کے ناظم و مہتمم کی حیثیت سے دارالعلوم کا نگراں ہوں مگر اس کی تعلیمی و تعمیری ترقیات کی طرف کما حقہٗ توجہ نہ دے سکا ۱۹۵۶؁ء لغایۃ ۱۹۷۱ء اہلحدیث کانفرنس (مرکزی جمعیۃ اہلحدیث ہند) کے دستور اساسی کی ترتیب ممبر سازی و انتخابات و اجلاس عام اور جماعت اہلحدیث ہند کے اجتماعی کاموں اور اہلحدیث کانفرنس کے تبلیغی ،تعمیری و تنظیمی امور و مسائل کی گتھیوں کے سلجھانے میں منہمک رہا کاش اپنی صلاحیت اور عمر کا یہ حصہ دارالعلوم کی تعمیری و تعلیمی ضروریات و مسائل کے حل کرنے میں صرف کیا ہوتا ۔ ( ترجمان دہلی یکم و پندرہ فروری ۱۹۷۲؁ء) 
بہر حال مولانا مرحوم دارالعلوم کو کما حقہٗ وقت نہ دے سکے مگر اس چمن کی ایک مالی کی طرح اس کی آبیاری کرتے رہے اور جس دارالعلوم کو خونِ جگر سے سینچا تھا وہ بحمد اﷲ مولانا کے خلف ڈاکٹر جمیل احمد صاحب کی نگرانی میں ترقی کی طرف گامزن ہے میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس ادارہ کو ہمیشہ سر سبز و شاداب رکھے اور اس پر کبھی خزاں نہ آئے آمین ۔ 
مولانا کا تعلق ملک کے دینی تنظیموں سے بھی رہا ۔ آپ برابر میٹنگوں میں شرکت فرماتے اور جماعت کی نمائندگی فرماتے اور اپنی دو ٹوک رائے سے نواز تے ۔ 
۱۹۸۵ء ؁ میں ائمہ مساجد کانفرنس کا انعقاد مولانا مختار احمد ندوی کی زیر سرپرستی مؤ ناتھ بھنجن میں زیر اہتمام جامعہ عالیہ میں عمل میں آیا جس میں ہندوستان و نیپال کے بے شمار علماء و ائمہ و دعاۃ شریک ہوئے اس کانفرنس میں مولانا عبد الجلیل رحمانی بھی مدعوخصوصی تھے اسی موقع پر جامعہ عالیہ کے انجمن تہذیب اللسان کا پہلا شمارہ تہذیب سالانہ میگزین کا اجراء عمل میں آیا اور ایک پُر وقار مجلس منعقد ہوئی جماعت کے موقر علماء و اعیان کے تاثرات بھی پیش ہوئے جب اناؤنسر نے مولانا عبد الجلیل رحمانی کا نام پکارا تو مجاز اعظمی مرحوم نے اسٹیج پر آکر اپنے استاذ محترم کا مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’ مولانا عبد الجلیل رحمانی صاحب وہ ہستی ہیں جنہیں ہم طلبائے دارلحدیث رحمانیہ دہلی میں ائمہ ثلاثہ کے نام سے پکارتے تھے یعنی شیخ الحدیث مولانا عبیداﷲ رحمانی مبارک پوری صاحب مرعاۃ المفاتیح، مولانا نذیر احمد رحمانی املوی، اور مولانا عبد الجلیل رحمانی رحمہم اﷲ اجمعین ۔ پھر مولانا عبد الجلیل رحمانی نے اس موقع پر طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ :
عزیز طلبہ! ابھی تک آپ کی آواز جامعہ کے درو دیوار تک محدودو محصور تھی لیکن اس سالانہ مجلس کے ذریعہ تمہاری صدا و آواز پورے ہندوستان میں گونجے گی اور صحافت کے ذریعہ تمہاری شناخت و پہچان ہوگی ، تمہاری قلمی و تحریری خامیوں پر لوگ اب کھل کر تنقید بھی کریں گے اور خو بیوں پر تعریف و توصیف بھی ہوگی‘‘ 
آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کی نظامت عُلیا:
اکابر کرام رحمہ اﷲ نے آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس ۱۹۰۶ء ؁ میں قائم کیا تھا اسکو چار ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۱۹۰۶؁ء سے ۱۹۴۷؁ء تک اور ۱۹۴۷؁ء سے ۱۹۵۵؁ء تک ۱۹۵۶؁ء سے ۱۹۷۲؁ء تک اور۱۹۷۳؁ء سے ۱۹۹۱؁ء تک۱۹۰۶؁ء سے ۱۹۴۷؁ء تک باتفاق رائے شیخ الاسلام مولانا ثناء اﷲ صاحب امر تسری کا دور زریں تھا آنے والا مورخ اس کو آب زر سے ضرور لکھے گا مولانا رحمانی کا دور نظامت ۱۹۵۶؁ء سے ۱۹۷۱؁ء کا ہے مولانا کا دور بڑی افرا تفری کا دور تھا ۱۹۴۷؁ء کے بعدکسے امید تھی کہ کانفرنس زندہ رہے گی ۔ اہم دینی مکاتب فکر نے تو صاف لفظوں میں اعلان کردیا تھا کہ اہل حدیث کا محاذ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا اور ٹھیک اسی زمانے میں کاظمی بل بھی پارلیمنٹ میں پیش کر دیا گیا اس بل کا محرک اور مرتب بھی وہی مکتب فکر تھا جس نے یہ اعلان کیا تھا کہ اہل حدیث کا محاذ ہمیشہ کیلئے ختم ہوگیا اگر یہ بل اسی صورت میں پارلیمنٹ میں منظور ہوجاتا تو آئینی طور پر اہل حدیث کی موت پر مہر تصدیق ثبت ہو جاتی ، اس صورت حال کیلئے قائد جماعت حضرت مولانا عبد الوہاب صاحب آروی نے مجلس عاملہ کی میٹنگ دہلی میں طلب فرمائی اور تقسیم ملک کے بعد یہ اس کی پہلی میٹنگ تھی مجلس عاملہ نے اس بل کی رفتار پر نظر رکھنے اور اس سلسلہ میں مناسب اور ضروری کاروائی کا اختیار قائد جماعت مولانا عبد الوہاب صاحب آروی کو دیا اور مولانا آروی صاحب بار بار دہلی پہنچ کر حالات کا جائزہ لیتے رہے اس وقت کے جماعت کے اکابرین سے مولانا آروی صاحب برابر رابطہ قائم کئے ہوئے تھے ایسے موقع پر مولانا عبد الجلیل صاحب رحمانی قائد جماعت کے داہنا ہاتھ اور مشیر خاص تھے برابر رابطہ تھا یہ لوگ اس وقت کے وزیر تعلیمات امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات کی اور کاظمی بل کے نقائص اور جماعت اہل حدیث کے حق میں اس کے مہلک اثرات کی طرف توجہ دلائی مولانا آزاد صاحب نے فرمایا کہ آپ اپنی ترمیمات لکھ کر بھیج دیں۔ 
خدا غریق رحمت کرے امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ کو کہ آپ کی توجہ خاص سے کاظمی بل پارلیمنٹ میں منظور ہو گیا اور ۱۹۵۴؁ء کے مسلم وقف ایکٹ میں اس کی وضاحت کردی گئی کہ ہندوستان کے سنی مسلمان کی مستند جماعتیں حنفی ، اہلحدیث اور شافعی ہیں واﷲ الحمد۔ 
جماعت اہل حدیث کا یہ وہ عظیم الشان اور تاریخی کامیابی ہے جس پر حق تعالیٰ کا جس قدربھی شکر ادا کیا جائے کم ہے ۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ مولانا رحمانی کا دور نظامت بڑی افرا تفری کا دور تھا ۱۹۴۷؁ء کے فسادات میں دہلی کے مسلمانوں پر جو گذری اس کو وہی جانتے ہیں خصوصاً اہل حدیث کی دہلی اجڑ گئی ۔ جماعت کے تمام دینی ادارے مدارس اور مساجدویران ہوگئیں رحمانیہ کا کتب خانہ برباد کر دیا گیا جو چند نفوس بچے وہ محوغم دوش رہے ۔ تقسیم ملک سے پہلے جماعت کا قلب اگر دہلی تھا تو دماغ پنجاب ۔ مگر تقسیم کے بعد ہم دونوں سے محروم ہوگئے۔ یہ کس قدر دکھ اور افسوس کی بات تھی کہ جس جماعت کا ماضی انتہائی تابناک و روشن تھاوہ جماعت ۱۹۴۷؁ء کے بعد سے ۱۹۵۸؁ء تک جمود وتعطل کا شکار رہی، جماعت کے بابصیرت علمائے کرام نے ۱۹۵۸؁ء میں مرکزی جمعیۃ کا انتخابی رہنمااصول و دستور مرتب کیا اور مجلس عاملہ نے بحیثیت ناظم عمومی جناب مولانا عبد الجلیل صاحب رحمانی کو منتخب کیا اور آپ نے اکابر علماء کے مشورہ سے دستور مرتب فرماکر مجلس عاملہ میں پیش کیا اور باتفاق رائے دستور کو منظور کرلیا گیا راستے کی ایک رکاوٹ دورہوئی کیونکہ ہر ادارہ کیلئے دستور ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے پورے ملک میں ممبر سازی ضلعی ، صوبائی جمعیتوں کی تشکیل عمل میں آنے لگی ، پوری جماعت میں بیداری کی لہر آگئی ضلعی جمعیت گونڈہ، بستی کی تشکیل بھی بمقام بانسی عمل میں آگئی اس شب میں ایک تاریخی اجلاس بھی ہوا جس کی صدارت مولانا عبد الجلیل رحمانی نے فرمائی، جس وقت یہ عہدۂ جلیلہ آپ کے کندھے پر ڈالا گیا اس وقت پوری ہند یونین پارہ پارہ ہوکر موت و زیست کی کشمکش سے دو چار تھی ۔ اس کی شیرازہ بندی کیلئے اﷲ تعالیٰ نے اس بطل جلیل کو منتخب کیا جس نے خداداد صلاحیت ، بصیرت و بصارت سے جماعت کو منظم کیا پورے ملک میں افراد جماعت تسبیح کے دانوں کی طرح کشمیر سے لے کر راس کماری اور خلیج بنگال سے لے کر بحر ہند کے ساحل تک بکھر ے ہوئے تھے ضرورت تھی کہ ان کو توحید وسنت کی لڑی میں پرویا جائے ملک کے سبھی عوام وخواص چیخ و پکار میں لگے ہوئے تھے مگر بیداری کی لہر پیدا نہ ہوئی تھی آخر میں قائد جماعت مولانا عبد الوہاب صاحب آروی ، خطیب الاسلام مولانا عبد الرؤف رحمانی ، مفکر ملت مولانا عبد الجلیل رحمانی ، مفسر قرآن مولانا عبد القیوم رحمانی، مولانا عبد المبین منظر ، مولانا اقبال رحمانی مولانا عبد القدوس ٹکریاوی و دیگر علمائے کرام کی مساعی جمیلہ بھاگ دوڑ اور شب و روز کی محنت شاقہ سے بیداری کا صور پھونکا جو صور اسرافیل ثابت ہوا اور مردہ جسموں میں جان پڑ گئی ۔ ۱۶؍ ۱۷؍ ۱۸؍ ۱۹ ؍ نومبر ۱۹۶۱؁ء کے اجلاس عام نوگڑھ میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ فرزندان توحید و سنت جمع ہوگئے اور ۱۶ سال کے بعد یہ اجلاس عام بمقام نوگڑھ منعقد ہوا ۔ جو ہر لحاظ سے تاریخی و مثالی ثابت ہوا۔ یہ مولانا رحمانی صاحب اور ان کے رفقاء کار کے فہم و فراست فکر و تدبر و اخلاص کا نتیجہ تھا اسی کانفرنس کی دین مرکزی دارالعلوم بنارس ہے جو بحمد اﷲ ہر لحاظ سے روز افزوں ترقی پر ہے ۔ اﷲ تعالیٰ اس علمی چمن کو ہمیشہ شاداب رکھے۔ آمین 
مولانا مرحوم صبر آزما حالات و ہوش ربا حالات میں طوفان سے کھیلتے اور موجوں سے پنجہ آزمائی کرتے ہوئے جماعت کی کشتی کو غرقاب ہونے سے بچایا اور اختلاف وانتشار کے اس دور میں تنظیم و اتحاد کی دعوت دیتے ہوئے عزم و ہمت امید و یقین کی شمع جلاتے رہے مولانا رحمانی صاحب کو جماعت سے عشق اور دردتھا۔ ہمہ وقت اس کی تنظیم و جماعتی اخبارات ترجمان و اہل حدیث کو اونچا اٹھانے میں سر گرم رہے۔ نوگڈھ کانفرنس ہو یاتلسی پور کی ریاستی کانفرنس ہو یا بانسی کی ضلعی کانفرنس ہر اجلاس کے کامیابی کا سہرا آپ اور آپ کے رفقاء کے سر جاتا ہے۔ 
جماعت و جمعیۃ کے سلسلہ میں آپ کی خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا اور جماعت کبھی بھی مولانا مرحوم کے احسانات سے سبکدوش نہیں ہو سکتی آج مولانا ہمارے درمیان نہ رہے ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ 
’’کل نفس ذائقۃ الموت ‘‘ مگر ہم لوگوں پر ذمہ داری ہے کہ مولانا رحمانی کے مشن کو زندہ رکھا جائے اﷲ تعالیٰ مولانا کو کروٹ کروٹ جنت نصیب عطافرمائے۔آمین
؂ آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے 
پاک ارحم الراحمین ان کی نگہبانی کرے 
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ، بلرام پور یوپی 
۱۲؍ مارچ ۱۹۸۶؁ء 
(مفکر ملت نمبرمصباح) دارالعلوم ششہنیاں سدھارتھ نگر (یوپی)
علم و فضل کا آفتاب غروب ہو گیا 
٭٭٭٭

بزرگ مجاہد آزادی مفسر قرآن مولانا عبد القیوم رحمانی رحمہٗ اﷲ 


جید عالم اور بزرگ مجاہد آزادی مفسر قرآن مولانا عبد القیوم رحمانی نے آج مورخہ ۲۸؍مئی ۲۰۰۸؁ء کوفرشتۂ اجل کو لبیک کہا اور اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون 
مولانا تقریباً ۹۲ برس کے تھے معمولی بیماری کے بعد بغرض علاج انھیں لکھنؤ لے جایا گیا لیکن اس سے قبل ان کا علاج شروع ہوتا ٹھیک ۱۱؍ بجے دن میں ان کی روح پرواز کرگئی ۔ مفسر قرآن اب ہمارے درمیان نہیں رہے ، مگر ان کی یادیں ان کی شفقتیں برابر ہمارے ساتھ ہیں مولانا مجھ پر بڑی شفقت فرماتے مجھ ہی پر کیا بلکہ ہر دینی کام کرنے والے ارباب قلم و صاحب علم و فضل کی خوب ہمت افزائی کرتے تھے ۔ واقعتا اگر اﷲ کی توفیق اور مولانا کی بار بار ہدایتیں رائے و مشورے ڈانٹ ڈپٹ شامل حال نہ ہوتیں تو ایک درجن سے زائد کتابیں ضخیم منظر عام پر نہ آتیں جب بھی ملاقات کیلئے حاضر ہوتا یا اجلاس و کانفرنسوں میں ملاقات ہوتی توڈھیر سی دعائیں دیتے اور حکم ہوتا کہ اس بار فلاں موضوع پر لکھو تمہاری کتابیں مفید اور اصلاحی ہوتی ہیں۔ 
حلیہ : ہمارے مفسر قرآن کا حلیہ یہ تھا ، ریش دراز بال بکھرے ہوئے کتابی چہرہ سانولا رنگ متوسط قد ،بالوں اور لباس سے بے پرواہ بڑی بڑی موٹی آنکھیں کشادہ پیشانی کرتا و پاجامہ کھدر کا ہاتھ میں عصا، کوئی پاجامہ نیچا کوئی اونچا ، شیروانی کا بٹن کچھ بند کچھ کھلا، شیروانی کے ایک آستین میں ہاتھ تو دوسرا آستین سے باہر سر پر عمامہ کبھی پورا کبھی نصف سر کچھ بال عمامہ کے اندر اور کچھ باہر زبان پر اﷲ اکبر اور عوام کو تعلیم الحمد ﷲ رب العالمین کی سرد و گرم حالات کا مقابلہ کرتے دھوپ گرم ہواؤں کے تھپیڑے برداشت کرتے بھوکے اور پیاسے رہتے اپنے کو اﷲ کی راہ میں وقف کر چکے تھے ان کا اپنا کچھ نہیں تھا نہ تن کا مالک نہ من کا جو کچھ ان کے پاس تھا وہ حبّ نبوی اور فنا فی اﷲ تھے۔ 
جنگ آزادی میں شرکت :
جس زمانے میں آپ پنجاب بورڈ کے اعلیٰ امتحان سے گذر رہے تھے اس زمانے میں ہندوستان میں آزادی کی تحریک شباب پر تھی انگریزوں کے ظلم و ستم اور اذیت ناک حرکتوں کو دیکھنے کے بعد مولانا کے جسم میں اک آگ سی لگ گئی اور انگریزوں کے خلاف مولانا کے دل میں ایک شدید نفرت پیدا ہوگئی اس کے بعد آپ نے میدان سیاست میں قدم رکھا اور گاندھی جی اور مولانا ابولکلام آزادو پنڈت جواہر لال نہرو کے نعرہ ’’ کرو یا مرو‘‘ کو اپنے لبوں پر سجاتے ہوئے جنگ آزادی کی تحریک میں باقاعدہ شامل ہوگئے واضح رہے آپ نہرو خاندان سے کافی قریب تھے مولانا کونینی جیل میں لال بہادر شاستری ، فیروز گاندھی ، پنڈت جواہر لال نہرو ، مولانا حسین احمد مدنی، مظفر حسین ، ڈاکٹر کاٹجو پرشوتم داس ٹنڈن ، وسمبھر دیال ، کملا پتی ترپاٹھی جیسے وطن کے مشہور لیڈروں کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ 
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ مولانا محترم رحمہ اﷲ اپنے وطن بستی سے دہلی تشریف لے جا رہے تھے دوران سفر ہی کسی نے آپ کی جیب کتر لی اس کا انھیں غالباً اس وقت احساس ہوا جب اسٹیشن سے باہر آئے اور رکشہ والے سے بات چل رہی تھی تو رکشہ پر بیٹھ کر سیدھا جواہر لال نہرو کی کوٹھی پر پہونچے سنتری سے کہا وزیر اعظم سے جاکر کہو عبد القیوم بستوی آیا ہے ۔ چنانچہ سنتری نے اسی طرح موصوف علیہ الرحمہ کی باتوں کو نقل کردیا فوراً نہرو جی نے اپنے پاس بلوالیا اور پوچھا کہ کیسے آنا ہوا ؟ جواب میں مولانا نے بے ساختہ یہ بات کہی تمہارا ملک جیب کتروں اور پاکٹ ماروں کا ملک ہے راستے میں میری جیب کتر لی گئی ۔ اسلئے مجھے صرف اتنے پیسے دیدو کہ میں واپس اپنے گھر پہونچ سکوں رقم ملتے ہی وہاں سے واپس اپنے گھر کیلئے روانہ ہو گئے۔ 
مولانا حسین احمد مدنی نے اپنی سوانح حیات ’’ نقش حیات‘‘ میں مولانا کا ذکر کیا ہے ۱۹۴۷؁ء میں پنڈت جواہر لال نہرو کی کوشش سے ایشیائی کانفرنس منعقد ہوئی مولانا اس پرو گرام میں شریک ہوئے اور پنڈت جواہر لال نہرو کے کہنے پر آپ نے ترجمانی کے فرائض انجام دیئے ۱۹۴۷؁ء کے بعد بڑھنی بازار بارڈر جھنڈا نگر کی شوگر فیکٹری کے مالکان نے علاقہ میں بدامنی پیدا کی تو آپ نے کامریڈ کرشن چند شاستری کے تعاون سے مل کر وہاں سے ہٹانے کیلئے لکھنؤ جاکر وزیر اعلیٰ بلبھ بھائی پنت سے آرڈر کروایا چنانچہ فیکٹری میرٹھ میں دوانہ کے مقام پر لگائی گئی۔ 
آزادی جشن سیمیں کے موقع پر شریمتی اندرا گاندھی کی طرف سے بابو جگ جیون رام نے گورکھپور کے پاس چوری چورا کے مقام پر مجاہدین آزدی کو ایوارڈ تقسیم کیا تھا جس پر مجاہد آزادی کا نام لکھا تھا آپ کو بھی نوازا گیا ضلع کلکٹرسدھارتھ نگر کی جانب سے آپ کو سدھارتھ بھوم گرو کی شیلڈ بھی مل چکی ہے ۱۹۴۸؁ء میں آپ نے بڑھنی بازار میں ایک ہائی اسکول کی بنیاد ڈالی جو اب انٹر کالج بن چکا ہے اسی طرح موضع مہدیا ضلع سدھارتھ نگر میں مسلم ہائر سکنڈری اسکول قائم کیا وہ اب ایک تسلیم شدہ ادارہ بن چکا ہے اور اب وہ بھی مسلم انٹر کالج ہوگیا ہے۔
مولانا عربی ، فارسی کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر بھی اچھی دسترس رکھتے تھے اسی لئے ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد عرب ممالک میں بھی ہے جہاں سال میں ایک بار جاکر وہ حدیث کا دورہ کراتے تھے انھوں نے اپنے کچھ شاگردوں کو حدیث کی سند اجازت بھی دی تھی انھیں کویت کے ایک دعوتی ادارہ نے ان کی خدمات کے اعتراف میں اعزاز بھی دیا تھا مولانا کے انتقال سے پورا علاقہ یتیم ہوگیا ہے وہ ایک جری اور بے باک عالم دین ، مجاہد آزادی کے علاوہ جذبہ اصلاح و ارشاد سے سرشار ممتاز عالم دین تھے وہ قرآن مجید کی تفسیر اور تلاوت خود اس انداز سے کرتے کہ سننے والے مسحور ہوجاتے ان کا اپنا ایک خاص اسلوب تھا جو دل کی گہرائیوں میں اتر تا چلا جاتا تھا ۔ مفسر قرآن کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کا سب سے بڑا ثبوت آپ کی نماز جنازہ ۱؂ 
میں بھاری تعداد میں شرکت تھی ، شرکاء جنازہ کی تعداد تقریباً ایک اندازہ کے مطابق دس ہزار تھی ، جس میں حکومت ہند کے اعلیٰ حکام ، علماء کرام کی بھاری تعداد قرب وجوار علاقہ ضلع اور بیرونِ ضلع کے علاوہ راجدھانی دہلی سے متعدد اہم شخصیتوں کی موجودگی میں ایک جم غفیر نے مولانا مرحوم کو ۲۹؍مئی۲۰۰۸؁ء صبح ۱۰؍بجے ہزاروں سوگواروں نے بچشم نم اپنے اس محبوب قائد ہر دلعزیز بلند پایہ خطیب اور عظیم عالم دین کوان کے آبائی قبرستان دودھونیاں میں سپرد خاک کردیا ۔ جناب مولانا عبد الحمید رحمانی حفظہ اﷲ کی امامت میں نماز جنازہ پڑھی گئی ، اس موقع سرکاری اعلیٰ حکام نے گارڈ آف آنر پیش کرکے آپ کو خراج عقیدت پیش کی ۔ 
مفسر قرآن کے انتقال پر علامہ اقبال کا یہ شعر ذہن و دماغ میں گردش کر رہا ہے ؂
؂ جوبادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی
اﷲ تعالیٰ آپ کو جوار رحمت میں جگہ دے اور آپ کی لغزشوں کو درگزر فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔ 
عبد الرؤف خاں ندوی
تلسی پور ۔ بلرام پور 
۲۴؍جنوری ۲۰۱۳؁ء 
 ۱؂ مولانا رحمانی ۱۷؍مئی ۲۰۰۸؁ء کو دیوان مؤ پرتاپ گڈھ کے اجلاس میں شریک ہوئے وہاں سے ۲۲؍مئی ۲۰۰۸؁ء کو دودھونیاں اس حالت میں پہونچے کہ اسہال کے شکار تھے گھر پر علاج و معالجہ ہوتا رہا ۲۷؍تاریخ کو مرض نے شدت اختیار کرلی تو ۲۸؍مئی ۲۰۰۸؁ء پی جی آئی ہاسپٹل لکھنؤ لے جایا گیا بالآخر ۲۸؍مئی ۲۰۰۸؁ء بروز جمعرات صبح ۱۰؍بجے روح پرواز کرگئی اورہمارے مفسر قرآن کی آوازہمیشہ ہمیش کیلئے بند ہو گئی۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون(عبدالرؤف خاں ندوی) 
مفسر قرآن کے سلسلہ میں مزیدمفصل حالات درج ذیل سطور میں ملاحظہ فرمائیں: 
خاندانی حالات : ضلع سدھارتھ نگر یوپی کے مشہور سرحدی قصبہ بڑھنی اور نیپال کے شہرت یافتہ سرحدی مقام جھنڈانگر سے دو تین کلو میٹر کے فاصلہ پر ایک مسلم اکثریتی بستی (دودھونیاں) لب سڑک واقع ہے مولانا عبد القیوم بن زین اﷲ رحمانی کا تعلق اسی گاؤں کے ایک معزز اور صاحب حیثیت خاندان سے ہے۔ 
ولادت : مولانا عبد القیوم رحمانی کے بیان کے مطابق مولانا کی پیدائش موضع دودھونیاں میں ۲۰؍ جنوری ۱۹۲۰؁ء کو ہوئی۔ 
تعلیمی مراحل : مولانا کے بقول ان کے بچپن میں چونکہ دودھونیاں گاؤں کے اندر باقاعدہ مکتب قائم نہ تھا ایک میاں صاحب مسجد میں قرآن ناظرہ و غیرہ کی تعلیم دیا کرتے تھے اس لئے باقاعدہ تعلیم کیلئے مولانا دودھونیاں سے متصل سیورا کے سرکاری پرائمری اسکول میں داخل کئے گئے جہاں آپ کی ابتدائی تعلیم مکمل ہوئی پھر کم و بیش ایک سال آپ نے جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابوں کی تعلیم مولانا محمد زماں صاحب رحمانی رحمہ اﷲ م ۱۹۷۸؁ء اور اس وقت کے بعض دیگر اساتذہ کرام سے حاصل کیں ۔ 
جھنڈانگر سے فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھنے کے بعد آپ نے جامعہ اسلامیہ فیض عام مؤمیں داخلہ لیا اور وہاں عربی کی ابتدائی جماعتوں کی تعلیم حاصل کی اور بالخصوص مولانا عبد الرحمن نحوی رحمہ اﷲ سے اکتساب فیض کیا پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کا شوق آپ کو دہلی لے گیا اور تقسیم ہند سے قبل جماعت کی شہرۂ آفاق اور مردم ساز درسگاہ دارلحدیث رحمانیہ ۱۹۳۴؁ءمیں داخل ہوئے اور شیخ الحدیث مولانا عبیداﷲ رحمانی مبارک پوری شیخ الحدیث مولانا احمد اﷲ پرتاپگڈھی مولانا نذیر احمد رحمانی املوی علامہ مولانا عبد الغفور بسکوہری ، مولانا سکندر علی ہزاری رحمہم اﷲ جیسے اساطین فن سے اکتساب فیض کیا اور مولانا کے بقول ۱۹۴۰؁ء میں یہیں سے شیخ الحدیث مبارک پوری رحمہ اﷲ کے ہاتھوں دستار بندی ہوئی۔ دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے شائع ہونے والے ماہنامہ محدث میں مدرسہ کی کار کردگی اور علمی سر گرمیوں پر مشتمل سالانہ رپورٹ شائع ہوئی تھی چنانچہ نومبر ۱۹۳۸؁ء کے شمارہ میں ادارہ کی جانب سے جو مفصل رپورٹ شائع ہوئی اس میں مولانا کا ذکر خیر اچھے انداز میں کیا گیا ہے اس رپورٹ سے حصول علم میں آپ کی محنت دلچسپی اور لگن کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے رپورٹ ملاحظہ فرمائیں ۔ 
’’ اس کے بعد پانچویں جماعت کے ایک طالب علم عبد القیوم بستوی نے ترمذی شریف کی حدیثیں زبانی سنائیں دیکھنے والے حیران تھے کہ ممتحن صاحب نے کتاب ترمذی شریف منگواکر اپنے سامنے رکھی اور جس باب سے متعلق فرمائے فوراً اس کی حدیثیں فرفریہ طالب علم سنانا شروع کردیتا ‘‘ (محدث رحمانیہ دہلی ص ۳۷ ماہ نومبر ۱۹۳۸؁ء)
آپ دہلی کی جامع مسجد فتح پوری میں داخل ہوکر پنجاب بورڈ کے اعلیٰ امتحان مولوی ، فاضل کی تیاری کی اور امتحان میں کامیاب ہوئے اس مرحلہ میں آپ نے مولانا سعید احمد اکبر آبادی اور مولانا عاشق الہی بلند شہری سے بھی استفادہ کیا ۔ 
سیاست میں داخلہ اور جنگ آزادی میں شرکت : 
جس زمانہ میں آپ دہلی میں زیر تعلیم تھے اس زمانہ میں پورے ہندوستان میں آزادی کی تحریک بڑے زور و شور سے جاری تھی مفسر قرآن مولانا عبد القیوم صاحب فرماتے ہیں کہ 
’’ اس زمانہ میں ملک کے سیاسی حالات سے میں متاثر بھی تھا اور انگریز حکومت ہندوستانیوں پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑ رہی تھی اور انھیں کالا پانی بھیج کر جو انسانیت سوز سزائیں دے رہی تھی ان سے میں کافی دکھی بھی تھا کہ مجھے سید احمد شہید رحمہ اﷲ کی سیرت پڑھنے کا موقع ملا اس کتاب نے میرے تن بدن میں آگ لگادی اور میرے دل میں انگریزوں کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوئی جس کے نتیجہ میں میں نے عملاً سیاسی میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا اور جب گاندھی جی اور مولانا ابولکلام آزاد نے ہندوستانی قوم کو (کرو یا مرو) کا نعرہ دیا تو میں جنگ آزادی کی تحریک میں باقاعدہ شامل ہو گیا اور نہرو خاندان سے کافی قریب رہا ، اپنی سر گرمیوں کے سبب میں جلد ہی حکومت کی نظر میں آگیا اور میری گرفتاری کا باقاعدہ وارنٹ جاری ہوا ، اس وقت میں اپنے گاؤں میں تھا مجھے گرفتار کرکے پہلے بستی جیل میں رکھا گیا پھر وہاں سے نینی جیل ( الہ آباد) منتقل کردیا گیا ، اس طرح میں مستقل تین سال تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتا رہا ، البتہ میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اس مدت میں پوری یکسوئی کے ساتھ جیل میں کتابوں کا مطالعہ کرتا رہا ، اس سے ایک طرف میں بیکاری کے کرب سے محفوظ رہا تو دوسری طرف مجھے علمی لحاظ سے بے حد فائدہ ہوا ، الہ آباد سے رہائی کے بعد ایک مرتبہ نو ماہ کیلئے گورکھپور جیل میں قید ہوا اور ایک بار چند مہینوں کیلئے لکھنؤ میں پا بند سلاسل رہا‘‘ ۔ 
مولانا عبد القیوم رحمانی جیسے محبین وطن کی ان سر فروشانہ قربانیوں ہی کے نتیجہ میں ملک ۱۹۴۷؁ء میں انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا مولانا کی زندگی کا یہ گوشہ بڑا روشن اور سبق آموز ہے۔ 
دعوتی خدمات : فراغت کے بعد چند برسوں تک آپ سیاست کے میدان میں ضرور سر گرم رہے، مگر جلد ہی آپ نے عملی زندگی کا رخ دعوت و تبلیغ کی جانب موڑ دیا اور آپ کی عملی زندگی کے پچاس برس دعوت و تبلیغ جیسے مقدس فریضہ کی ادائیگی میں گزرے ،آپ نے وسیع و عریض ہندوستان کے ہر خطہ میں شمال و جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک دعوتی اسفار کئے اور خالص قرآنی آیات کی روشنی میں دعوتی فریضہ انجام دیا ، بالخصوص بہار، بنگال، یوپی اور ممبئی وغیرہ میں آپ کی آمدورفت زیادہ رہی اور ان علاقوں میں آپ کی تبلیغ کا زبر دست اثر ہوا ۔ ہندوستان سے متصل نیپال کے ترائی میں بھی آپ کی دعوتی خدمات کا اچھا اثر رہا۔
مجاہد جنگ آزادی ہونے کی وجہ سے حکومت ہند کی جانب سے سفر وغیرہ کی سہولیات مولانا کو حاصل ہوئیں ، ان سے مولانا نے دعوتی فائدہ اٹھایا اور بلا تکلف ہندوستان کے گوشے گوشے میں پہنچتے رہے ۔ یوں تو آپ نے فراغت کے چند برسوں بعد سے اپنی تقریروں کے ذریعہ دعوت دین کا فریضہ انجام دینا شروع کردیا تھا۔ مگر موصوف کو اس میدان میں ملک گیر شہرت ان کی دو تقریروں کے ذریعہ ہوئی ، پہلی تقریر موصوف نے دارالعلوم ششہنیاں ضلع سدھارتھ نگر کے عظیم الشان جلسہ میں کی جس کا عنوان تھا’’ امراء وسلاطین کے ذریعہ علماء اہلحدیث اور محدثین کا ابتلا و آزمائش ‘‘ جن لوگوں نے آپ کی اس تقریر کو سنا ہے ان کا بیان ہے کہ دورا ن تقریر فتنہ خلق قرآن کے سلسلہ میں حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ کی استقامت کا واقعہ سناتے ہوئے مولانا نہایت پُر جوش ہوگئے اور پورے اسٹیج پر چلتے ہوئے ابن حنبل زندہ باد کا نعرہ لگایا اور دوسری تقریر جس نے موصوف کو شہرت دوام بخشی وہ صوبائی جمعیت اہلحدیث یوپی کی ریاستی کانفرنس منعقدہ ۱۹۶۸؁ءتلسی پور ( بلرام پور) میں ہوئی جسے علماء نے سراہا اور عوام نے پسند کیا ، اس کے بعدآپ کی خطابت کا سورج پورے ملک میں چمکنے لگا۔ 
آپ کی تقریریں اس لحاظ سے ممتاز تھیں کہ موصوف قرآنی آیتوں کے حوالہ سے اپنی باتیں پیش کرتے کہیں ضرورت کے وقت احادیث بھی پڑھتے مگر تاریخی واقعات شاذ و نادر ہی بیان کرتے دوران گفتگو آپ نے اس اسلوب کے اختیار کرنے کا سبب یہ ذکر فرمایا کہ 
’’ بالعموم ہمارے علماء اپنی تقریروں میں تاریخی واقعات قصے اور مثالیں بیان کرتے ہیں جبکہ قرآن میں صاف اور صریح حکم ہے ’’ فذکر من یخاف وعید‘‘ چنانچہ میں نے علماء کی روش سے ہٹ کر اپنی تبلیغ کا ذریعہ قرآن ہی کو بنایا اور اپنی تقریر کو قرآنی تعلیمات ہی میں مصور رکھا اس لئے کہ قرآ ن میں قصص وواقعات امثال و حکم اور تبلیغ ووعظ کے تمام مواد موجود ہیں ‘‘ 
آپ تقریرمیں ایک ایک موضوع پر دسیوں قرآنی آیات خاص انداز میں اس طرح روانی کے ساتھ پڑھتے کہ سماں بندھ جاتا اور سننے والوں کے دلوں پر خاص اثر پیدا ہوتا آپ گو کہ باقاعدہ حافظ قرآن نہیں تھے تاہم قرآن کریم کا بیشتر حصہ حوالہ کے ساتھ آپ کو از بر تھا قرآن کی تفسیر و توضیح کیلئے ’’القرآن یفسر بعضہ بعضاً ‘‘کا اصول کے پیش نظرہوتا قرآنی آیات کا ترجمہ اس قدر صاف اور رواں کرتے کہ سارا مفہوم واضح ہوجاتا بعض آیات کا ترجمہ عوامی زبان میں اس طرح فرماتے کہ اس مفہوم کو بیان کرنے کے لئے اردو کے بھاری بھرکم الفاظ قاصر و عاجز نظر آتے۔ 
توحید آپ کا پسندیدہ موضوع تھا آپ دوران خطاب اس موضوع کو بڑے سلیقہ سے بیان فرماتے اور کہتے کہ توحید کے جملہ مضامین سورہ فاتحہ میں سمو دیئے گئے ہیں چنانچہ الحمد ﷲ رب العالمین میں توحید ربوبیت کا بیان ہے الرحمن الرحیم میں توحید اسماء و صفات کا ذکر ہے جبکہ ایاک نعبد و ایاک نستعین میں توحید الوہیت کو بیان کردیا گیا ہے ۔ 
خطابت کے دوران کبھی جب آپ موڈ میں ہوتے تو اسٹیج پر بیٹھے علماء کو مخاطب کرکے عربی زبان میں توحید کے اسرار بیان فرماتے اور مفردات القرآن ، تفسیر ابن کثیر، الفوز الکبیر، اور جلالین وغیرہ کی تفسیر عبارتوں کو عربی زبان میں فرفر پڑھتے تفسیر کی کتابوں میں آپ کو امام راغب اصفہانی کی مفردات القرآن پر زیادہ اعتماد تھا جن کا اظہار دوران گفتگو آپ نے متعدد بار کیا تھا۔ 
اس میدان میں ایک خصوصیت آپ کو یہ بھی حاصل تھی کہ آپ کی تقریر بلا اختلاف مسلک و مذہب شوق سے سنی جاتی تھی خصوصاً دیو بندی حلقہ کے اجلاس میں آپ مدعو کئے جاتے اور ان میں شریک ہوکر آپ دعوتی فریضہ انجام دیتے۔ 
تدریسی خدمات : آپ نے باقاعدہ کسی مدرسہ میں ملازمت اختیار کرکے تدریسی فریضہ انجام نہیں دیا تاہم جب آپ نے اکرہرا میں ایک دینی درسگاہ المعہد الاسلامی کے نام سے قائم کیا تو اس کے معیار تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے آپ نے بلامعاوضہ اعزازی طور پر اس میں تدریسی فریضہ انجام دیا اور ابتدائی صرف ونحو اور عربی زبان و ادب کی کتابیں پڑھائیں چنانچہ مولانا نے بتایا تھا کہ جس زمانے میں اکرہرا میں تدریسی خدمت انجام دیتا (ڈاکٹر عبد العلیم عبدالعظیم بستوی) جو اس وقت رابطہ عالم اسلامی مکہ المکرمہ کے اندر ایک باوقار منصب پر فائز ہیں زیر تعلیم تھے اور انھوں نے مجھ سے صرف و نحو کی کتابیں پڑھی ہیں ان کی ذہانت کا ذکر کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ ہمیشہ یہ طالب علم سو فیصد نمبر حاصل کرتا تھا ۔
اسی طرح آپ اگر کسی مدرسے میں جاتے تو جس استاذ سے آپ کو خاص تعلق و انس ہوتا ان کے درس میں بیٹھ جاتے اور طلبہ کو خود پڑھانا شروع کر دیتے والد محترم مولانا عبد الحنان فیضی مفتی جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر کا بیان ہے کہ بارہا ایسا ہوا کہ مولانا سراج العلوم جھنڈا نگر میں جلالین کے درس کے دوران میرے کمرہ میں آگئے اور میری جگہ انھوں نے طلبہ کو درس دیا ۔
مدارس و مکاتب کا قیام : آپ نے دعوتی اسفار کے دوران ہر خطہ کے مسلمانوں کو مدارس و مکاتب کے قیام پر ابھارااور علمی طور پر اس سلسلہ میں تعاون بھی کیا چنانچہ بنگال و بہار کے بہت سارے مدارس و مکاتب کا قیام آپ کی تحریک و تشجیع سے عمل میں آیا اس کے علاوہ اس سلسلہ میں آپ کا قابل ذکر کارنامہ اکرہرا مدرسہ کا قیام بھی ہے جب آپ نے بعض مخصوص حالات کے نتیجہ میں اپنے کچھ ساتھیوں کی مدد سے درسگاہ اسلامیہ اکرہرا سدھارتھ نگر کی تاسیس فرمائی جو ایک زمانہ میں ثانویہ تک تعلیم کا بڑا ممتازو معیاری ادارہ کی حیثیت سے شمالی ہند میں معروف تھا آپ نے بتایا کہ ممبئی و غیرہ کے بعض مدارس کی تاسیس بھی انھیں کی کوششوں کے نتیجہ میں ہوئی ہے۔ 
جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر سے آپ کا تعلق : مولانا عبد القیوم رحمانی کو جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر کی تعمیر و ترقی سے ہمیشہ دلچسپی رہی چنانچہ دوران گفتگو آپ نے اس سلسلہ میں فرمایا کہ میں جھنڈا نگر مدرسہ کا ہمیشہ خیر خواہ رہا اور اپنی بساط کے مطابق اس کی خدمت کی کوشش بھی کی جامعہ کی تاریخ میں ایک وہ بھی دور آیا جب اپنوں اور غیروں کی سازش کے نتیجہ میں مدرسہ غیر جماعتی ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گیا تھا اور ناظم جامعہ مولانا عبد الرؤف صاحب رحمانی رحمہ اﷲ کو علٰیحدہ کرکے کدربٹوا مسجد میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا گیا تھا تین چار برسوں میں مدرسہ کی تعمیر و ترقی رک گئی اور وہ روبہ زوال ہوکر کافی مقروض ہوگیا ۔ مولانا جھنڈا نگری کو اپنے خون جگر سے سیراب کئے ہوئے مدرسہ کی بربادی کا بڑا قلق تھا مگر اس کے لئے کوئی کارروائی نہیں کر پارہے تھے مجھے اور علاقہ کے کچھ اور حساس لوگوں کو بھی اس کا صدمہ تھا چنانچہ ہم نے کوشش کرکے غیر جماعتی افراد کو بے دخل کیا اور مدرسہ دوبارہ مولانا جھنڈا نگری کے حوالہ کیا گیا جسے موصوف نے اپنے خون جگر سے سیراب کرکے بام عروج تک پہونچایا مولانا نے یہ انکشاف بھی کیا کہ تقریباً پچیس برسوں تک مدرسہ سراج العلوم جھنڈا نگر کی مجلس منتظمہ کے صدر کی حیثیت سے بھی اس کی خدمت کرتا رہا۔ 
اخلاق و عادات: درویش خدا مست مولانا عبد القیوم صاحب رحمانی کی زندگی ظاہری ٹھاٹ اور کرو فرسے پاک و صاف بے حد سادہ تھا موصوف نے ظاہری اور نمائشی چیزوں کو کبھی اہمیت نہ دی جو ملا کھا لیا اور جو ملا پہن لیا جب کہ ایک خوشحال اور متمول گھرانے سے آپ کا تعلق تھا مگر آپ کی سادہ زندگی دیکھ کر کوئی اجنبی شخص نہ آپ کے مقام و مرتبہ کا اندازہ سکتا ہے اور نہ آپ کی حیثیت کا۔ آپ کی قدر و منزلت لوگوں کے دل میں بہت تھی جس گاؤں کے آپ رہنے والے ہیں ایک عرصہ تک پورا گاؤں متفقہ طور سے آپ کو تمام دینی و دنیوی معاملات میں سربراہ تسلیم کئے رہا اور آپ کی خواہش کے علی الرغم آپ کو بلا مقابلہ گاؤں کا پردھان منتخب کرتا رہا آپ اختلاف و انتشار سے کافی دور اور اس کے خاتمہ کیلئے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے ۔ 
تصنیفی خدمات : آپ کا اصل میدان تو خطابت ہی تھا تاہم آپ میں تحریر و انشاء پردازی کی صلاحیت بھی پائی جاتی تھی چنانچہ مرحوم دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے شائع ہونے والے ماہنامہ محدث میں آپ کے کم از کم دو وقیع مضامین میری نظروں سے گزرے ہیں جن سے میری بات کی تائید ہوتی ہے چنانچہ مئی ۱۹۳۹؁ء کے شمارہ میں قرآن اور توحید باری تعالیٰ کے موضوع پر آپ کے مفصل مضمون کی پہلی قسط چھپی اور مضمون کے آخر میں باقی لکھا ہے ۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے مضمون آئندہ شماروں میں بھی چھپا ہوگا ۔ پہلی قسط میں مولانا نے تمہید میں بڑا پُر جوش اور ولولہ انگیز اسلوب اختیار کیا ہے اور اصل مضمون میں قرآنی آیات سے استدلال کرکے موضوع کو خوب واضح فرمایا ہے یہی وہ موضوع ہے جو آپ کی پوری دعوتی زندگی میں آپ کا پسندیدہ موضوع بنا رہا اور بات کسی بھی عنوان پر ہو آپ اس میں توحید کو لازماً سمو لیتے ؂ 
بنتی نہیں ہے بادۂ ساغر کہے بغیر 
دوسرا مضمون اگست ۱۹۳۸ء ؁ کے شمارہ میں ’’ ایثار مجسم کی زندگی کے مختصر حالات ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے ۔ جس میں آپ نے دارلحدیث رحمانیہ کے ناظم شیخ عطاء الرحمن رحمہ اﷲ کی وفات حسرت آیات کے بعد آپ کے حالات زندگی لکھے ہیں ۔ 
مولانا نے بتایا کہ کسی زمانے میں انھوں نے دو رسالے بھی لکھے ایک چالیس احادیث کی تشریحات پر مشتمل ’’ اربعین ‘‘اور دوسرا ’’ حاضر وناظر ‘‘ جو مولانا عبدالرؤف رحمانی رحمہ اﷲ کی کتاب ’’تردیدحاضر وناظر کی تائید میں تھا میں نے یہ دونوں رسالے نہ دیکھے ۔ تیسرا رسالہ ’’ تاریخ الیہود والنصاریٰ‘‘ عربی زبان میں مطبوع ہے ۔ اس رسالہ میں مولانا نے چند ابواب قائم کرکے ان کے تحت قرآنی آیات جمع کردی ہیں ، اہل علم اور محققین کیلئے لائق مطالعہ ہے ۔ اس رسالہ کی دوبارہ طباعت کیلئے مولانا نے مجھے حکم دیا تھا ، انشاء اﷲ وہ جلد ہی شائع کیا جائے گا ۔ مولانا عبد الحنان صاحب نے مضمون پر نظر ثانی کرتے وقت بتایا کہ مولانا کا کوئی رسالہ عربی زبان میں جامعہ سلفیہ بنارس سے استاذ محترم ڈاکٹر از ہری صاحب کے مقدمہ کے ساتھ شائع ہوا ہے اسی طرح مجھے بھی یاد پڑ تا ہے کہ مولانا عبد الحمید صاحب رحمانی حفظہ اﷲ کے ادارے سے کوئی رسالہ یا آپ کا کوئی مضمون ’’التوعیہ‘‘ میں طبع ہوا ہے ۔ عجلت میں اس کی تحقیق نہ ہو سکی ، انشاء اﷲ جلد ہی اس کی تحقیق کرلی جائے گی۔ 
اولاد واحفاد : آپ کو اﷲ نے پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا ہے، بیٹوں کے نام اس طرح ہیں ۔ بدر عالم خاں ، مسعود عالم خاں، حیدر عالم خاں، ظہیر عالم خاں، قمر عالم خاں۔ ان میں جناب بدر عالم صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور L.L.B.کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد مولانا کے سیاسی وارث بن کر میدان سیاست میں سر گرم ہیں ، البتہ یہ افسوس کی بات ہے کہ مولانا کا کوئی دعوتی جانشین پیدا نہ ہوسکا، اﷲ تعالیٰ پوتوں اور نواسوں کے ذریعہ اس کی سبیل پیدا فرمائے۔ آمین 
عبد المنان سلفی
ماخوذ جریدہ ترجمان دہلی


٭٭٭




مناظر اسلام مولانا عبدالمبین صاحب منظر سمراوی رحمہٗ اﷲ

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے
نام عبد المبین بن محمد فاضل بن ضیاء اﷲ بن روشن خاں ساکن امارے ڈیہہ ولادت ۱۹۲۰؁ء موضع سمرا میں ہوئی ابتدائی تعلیم سمرا ہی میں مولانا عبد الرزاق سمراوی مولانا عبد المجید یوسف پوری سے حاصل کی فارسی و عربی کے ابتدائی اساتذہ میں مولانا محمد زماں صاحب رحمانی انتری بازار مولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈا نگری مولانا عبد الغفور بسکوہری خاص طور پر قابل ذکر ہیں وسطی اور علیاکے اساتذہ میں مولانا محمد یونس صاحب پر تاپ گڈھی ( مدرس مدرسہ میاں صاحب دہلی ) مولانا عبد الغفار حسن عمرپوری مولانا محمد منیر خاں بنارسی مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی جیسے یگانہ روزگار شامل ہیں ۱۳۶۱؁ھ میں آپ نے جامعہ رحمانیہ بنارس سے سند فراغت حاصل کی اس کے بعد ابتک آپ کی تابناک زندگی حرکت و عمل کا پیکر اور گونا گوں خصوصیات و صفات کا مجموعہ رہی آپ صاحب صلاحیت عالم دین بھی تھے اور خوش بیاں خطیب بھی قابل مصنف بھی تھے اور مشہور و معروف شاعر بھی تھے درس و تدریس کے ماہر بھی تھے اور کامیاب مناظر بھی تھے۔ مولانا منظر صاحب گونڈہ و بستی کے اندر صحیح اور آمیزش سے پاک اسلامی تعلیمات نیز تحریک اہل حدیث کے علمبرداروں کے صف میں ایک قائد تھے ۔آپ کے قابل قدر قابل فخردرج ذیل تلامذہ ہیں جو اس وقت ملک اور بیرون ملک اسلام کی عظیم خدمات انجام دے رہے ہیں :
(۱) فخر ملت و جماعت مولانا عبد الحمیدرحمانی مدنی دہلی
(۲) الشیخ صلاح الدین مقبول احمد مدنی کویت
(۳) مولانا شیخ عبد الصبور صاحب رحمانی مالیگاؤں 
(۴) الشیخ عبد القدوس صاحب مدنی الریاض 
(۵) الشیخ شہاب اﷲ صاحب مدنی ممبئی 
(۶) ڈاکٹر عبد لرؤف صاحب رحمانی لکھنؤ
(۷) مولانا عاشق علی صاحب اثری دہلی
(۸) سید احمد صاحب مرغہوا وغیرہم اٹوا بازار 
مولانا منظر صاحب مرحوم اسلاف اور تحریک اہل حدیث کے سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی تھے آپ کی وفات سے علامہ عبد الغفور صاحب فاضل بسکوہری ؒ ، مفکر ملت مولانا عبد الجلیل صاحب رحمانی ، مولانا محمداقبال صاحب رحمانیؒ ، مولانا عبد القدوس صاحب ٹکریاوی ؒمولانا محمد صدیق صاحب رحمانی بسکوہریؒ کا وہ سلسلہ ختم ہوگیا جو اپنے عقیدہ و فکر اخلاص و عمل صبر و عزیمت ایثار و قربانی تعمیری کارناموں اور اپنے پختہ اور مثبت تجربات کے ذریعہ ہماری نئی نسل کو ہماری عظیم روایات کے ساتھ جوڑنے کا فریضہ انجام دے رہا تھا مولانا مرحوم کے اندر جمعیت اور مسلک کی اشاعت و خدمات کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا ، چنانچہ اپنی زبان و بیان کی فصاحت اور شگفتہ تحریروں ، جلسوں ، مناظروں اور اخبارات و رسائل کے ذریعہ برابر مسلک اہل حدیث کی ترجمانی فرماتے رہے اور شرک و بدعت خرافات و منکرات اور تقلید شخصی کے خلاف آخری سانس تک جہاد کرتے رہے دینی وملی ، جماعتی اجلاس کے پروگراموں، میٹنگوں و سمیوزیم میں مولانا کی شرکت کامیابی کی ضمانت ہوتی تھی۔ نوگڑھ کا آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس ہو یا تلسی پور صوبائی کانفرنس یا اٹوا بازار کی ضلعی کانفرنس یا ضلعی جمعیتوں کی کانفرنس مولانا مرحوم اس کے روح رواں تھے مولانا منظر صاحب مدرسہ شمس العلوم کے تا حیات ناظم رہے اور اس کے عروج وارتقاء کے لئے برابر کوشاں رہے۔ ضلعی جمعیت بستی کے ناظم بھی رہے ،پھر کچھ دنوں کے بعد صوبائی جمعیت مشرقی یوپی کے ناظم رہے اور پھر ادھر چند سالوں سے آپ کو صوبائی جمعیت مشرقی یوپی کا امیر منتخب کیا گیا اور تا حیات اس عہدہ جلیلہ پر فائز رہے۔ اور اپنی مستقل بیماری کے باوجود حتی الوسع جمعیت کی گاڑی کھینچتے رہے ۔ مدرسہ و جماعتی ذمہ داریوں کی مشغولیات کے باوجود آپ نے تصنیف و تالیف کا کام بھی جاری رکھا اور کئی اہم و مفید کتابیں تصنیف فرمائیں خالد بن ولید جیسی محققانہ کتاب تصنیف کی سیرۃ النبی ﷺ کے موضوع پر گرانقدر یادگار چھوڑی ہے۔ 
مولانا منظر صاحب ایک بہترین مناظر تھے بے باک حاضر جواب اور شاعر بھی تھے اس دور میں جب کبھی بریلوی مکتب فکر نے مناظرہ کی دعوت دی تو مولانا مرحوم ان کی چیلنج کو قبول فرماتے اورکتاب و سنت کی روشنی میں ایسا دندان شکن جواب دیتے کہ مخالفین راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوتے مولانا کی وفات سے پوری جماعت عظیم مرد مجاہد اور ایک مناظرعالم دین سے محروم ہوگئی ۔ 
کسے معلوم تھا کہ مولانا ہم لوگوں سے جلد ہی جدا ہوجائیں گے موضع دھرم پور ضلع بلرام پور میں ہماری جماعت کے چند نفر ہیں اکثریت اس گاؤں کی بریلوی مکتب فکر کی ہے یہ لوگ آئے دن افراد جماعت سے مناظرہ بازی اور چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے ہیں آپ کی وفات سے ہفتہ عشرہ قبل ضلعی جمعیت گونڈہ کی طرف سے تبلیغی پروگرام میں خالص کتاب و سنت کی باتیں رکھی گئیں ۔ بھلا بریلویوں کو یہ بات کیسے پسند آتیں دوسرے روز مناظرہ کی دعوت دی گئی ہندوستان کے موجودہ ماحول میں یہ قطعی مناسب نہیں تھا کہ مناظرہ کیا جائے مگر تحریک اہل حدیث سے وابستہ حضرات کیلئے بھی مناسب نہ تھا کہ اس چیلنج کا جواب نہ دیا جائے اور راہ فرار اختیار کیا جائے آخر کار مولانا مرحوم کے پاس ایک آدمی کو ناچیز کا خط لیکر سمرا بھیجا گیا جب وہ آدمی خط لیکر سمرا پہونچا اس وقت مولانا آپریشن کے سلسلہ میں بنارس کے سفر کی تیاری میں مشغول تھے آپ نے جواب لکھا کہ بنارس سے واپسی میں تاریخ مقرر کی جائے گی ۔انشاء اﷲ ۱؂
آہ ! کسے معلوم تھا کہ بنارس کا یہ سفر سفر آخرت ثابت ہوگا ۔ اﷲ تعالیٰ مولانا کی لغزشوں کو درگزر فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت عطافرمائے اور پسماندگان کوصبر جمیل کی توفیق دے۔ آمین 
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ۔ بلرام پور 
(نقوش منظرنمبر ) 
۱۰؍فروری ۱۹۹۰؁ء


٭٭٭


 ۱؂ تحریک اہل حدیث کے اس بے باک سپاہی اور اسلام کے مجاہد نے اپنی زندگی کی تقریباً ۴۹ بہاریں دین و ملت کی خدمت میں گزار دیں ۲۶ ؍ربیع الادل ۱۴۱۰؁ھ مطابق ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۸۹؁ء بروز جمعہ بنارس کے اسپتال میں آپ کا انتقال ہو گیا ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون 
نماز جنازہ مولانا زین العابدین ریاضی صدر مدرس جامعہ اتحاد ملت اٹوا بازار نے پڑھائی اور آپ مدرسہ شمس العلوم سمرا ہی کے احاطہ میں اس کے شمالی مشرقی حصہ میں آسودۂ خواب ہیں ۔ رحمہ اﷲ واسکنہ فی دار السلام آمین ( عبد الرؤف خاں ندوی)


بقیۃ السلف حضرت العلام مولانا محمد اقبال رحمانی رحمہ اﷲ 

دل بیقرار آنکھیں اشکبار 
مولانا محمد اقبال بن عبد الستار بن محمد اشرف ۱۹۱۹؁ء موضع بونڈھیار ضلع بلرام پور میں پیدا ہوئے ، ہوش سنبھالتے ہی گاؤں کے مدرسہ میں تعلیم میں لگ گئے اور مختلف اساتذہ کرام سے قرآن و حدیث ، فقہ و تاریخ ادب کی تکمیل کر کے دارالحدیث رحمانیہ دہلی علمی پیاس بجھانے تشریف لے گئے ۔ اس وقت آپ نے اساطین علم و فن سے تعلیم مکمل کی اور سند حاصل کی شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری ، مولانا نذیر احمد رحمانی املوی ، مولانا عبد الغفور بسکوہری ، شیخ الحدیث مولانا احمد اﷲ پرتابگڈھی وغیرہ وغیرہ تھے مولانا کابہت ذہین طالب علموں میں شمار ہوتا تھا دہلی رحمانیہ سے فراغت کے بعد گھر واپس ہوئے اور جامعہ سراج العلوم بونڈھیار سے منسلک ہو گئے اور آخری سانس تک ایک مالی کی طرح اس چمن کی آبیاری کرتے رہے، مولانا محمد اقبال رحمانی میں اﷲ تعالیٰ نے بیک وقت بہت سی خوبیاں جمع کر دی تھیں ۔ 
مولانا مفسر تھے محدث تھے صحافی تھے ادیب تھے اور شاعر بھی تھے ایمن تخلص رکھتے تھے اچھے منتظم تھے ، خلیق، ملنسار ، تواضع، مہمان نواز اور غریب نواز تھے شاگردوں کا بہت خیال رکھتے تھے اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ، کونڈؤ بونڈھیاردینی اور دنیاوی اعتبار سے ایک معزز ترین خاندان میں شمار ہوتا ہے اسی خاندان کے ایک رکن مولانا محمد اقبال رحمانی رحمہ اﷲ بھی تھے۔
مولانا رحمانی ایک مثالی معلم تھے طلبہ کے سامنے عبارت کی تشریح مطالب کی توضیح اور مباحث کی تفسیر ہی نہیں پیش فرماتے تھے بلکہ طلبہ کو ماخذ مراجع سے بھی واقف کراتے تھے ان کے مراتب ذہن نشین کراتے ، ان کو مطالعہ کے آداب بتاتے اور ان سے استفادہ کا سلیقہ سکھاتے تھے۔ آپ کا انداز درس بالکل محدثانہ ہوتا تھا اسماء الرجال کی کتابو ں پر ان کی بڑی گہری نظر تھی مولانا عربی فارسی و اردو کے بہترین ادیب تھے اور اچھے شاعر بھی تھے۔ 
ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے آج ہماری تو کل تمہاری باری ہے ۔ مگر بعض موتیں ایسی ہوتی ہیں جو ناقابل فراموش ہوتی ہیں دل بیقرار آنکھیں اشکبار قلم لرز رہا ہے مولانا کے دور صدارت میں ناچیز ضلعی جمعیت اہل حدیث گونڈہ سے منسلک رہا اسی وجہ سے بارہا حاضری ملاقات اور استفادہ کا موقع ملا اور مولانا محترم رحمانی رحمہ اﷲ سے بہت کچھ سیکھا۔ 
مولانا رحمانی اور ضلعی جمعیت اہل حدیث گونڈہ : اجلاس عام نوگڑھ کے بعد علمائے گونڈہ و بستی نے طے کیا کہ بستی ، گونڈہ، نوگڑھ ، بلرام پورجیسے طویل وعریض اضلاع کے گوشوں میں وسعت کار کے پیش نظر دونوں اضلاع کی جمعیتیں الگ کردی جائیں تاکہ کام کا دائرہ مختصر اور کام کرنے میں آسانی ہو اس مقصد کے پیش نظر ضلعی جمعیت گونڈہ کی تشکیل عمل میں آئی اور متفقہ طور پر مولانا محمداقبال صاحب رحمانی کو صدر منتخب کیا گیا اس وقت سے لے کر مولانا محمد اقبال رحمانی رحمہ اﷲ ۱۹۸۱؁ء تک ضلعی جمعیۃ کے صدر رہے اور ہر طرح جمعیت کی سر پرستی فرماتے رہے وہ دور جمعیت کا مثالی و زریں دور تھا جمعیت گونڈہ نے ہی اس وقت پورے ملک کی جماعت کو خواب غفلت سے بیدار کیا تھا تب جاکر جمود ٹوٹا اس وقت ـضلعی جمعیت نے ہر میدان میں خوب خوب ترقی کی جو آج بھی بطور تحدیث نعمت لوگ ذکر کرتے ہیں ۔ 
مولانا رحمانی اور جامعہ سراج العلوم بونڈھیار : ۱۹۰۷؁ء میں کونڈؤ بونڈھیار کے چند سرکردہ ۱؂ اور مخلص لوگوں نے علامہ عبد الرحمن محدث مبارک پوری صاحب تحفۃ الاحوذی سے بونڈھیار آنے کی درخواست کی علامہ مبارک پوری تشریف لائے اور ان کے ساتھ عا لمیت و فضیلت 
 ۱؂ کنڈؤ بونڈھیار کے ان چند سرکردہ حضرات کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں ڈاکٹر بدر الدین عرف ببن خاں (بقیہ اگلے صفحہ پر)
کے طلبہ بھی آگئے آنے کے بعد علامہ عبد الرحمن محدث مبارک پوری نے اپنے دست مبارک سے کونڈؤ بونڈھیار کے درمیان لب دریائے راپتی جامعہ سراج العلوم کی بنیاد ڈالی ۔ حکیم مولانا محمد ےٰسین رحمہ اﷲ کے بعد ۱۹۴۰؁ء سے ۱۹۸۲؁ء تک مولانا محمد اقبال رحمانی جامعہ کے معلم و مربی اور بعد کے ادوار میں منتظم و منصرم بھی رہے ۔ مولانا مرحوم کا بیالیسی سالہ دور تعلیم و تربیت اصلاح تنظیم اور دعوت و تبلیغ ہر میدان میں عروج وارتقاء ہی کی طرف گامزن رہا بلکہ اگر کہا جائے کہ یہ دور تاریخ جامعہ کا مثالی دور تھا تو بے جا نہ ہوگا۔
دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے فراغت کے بعد مولانا موصوف نے اکیس سال کی عمر میں گھر بار اہل و عیال سب کچھ تج دیا مولانا رحمانی کے دور میں جامعہ نے ہر میدان میں خوب خوب ترقی کی ۱۹۵۳؁ء اور ۱۹۶۴؁ء کے درمیان جماعت سادسہ تک کی تعلیم ہونے لگی بعض سالوں میں فضیلت تک کی تعلیم ہوئی ۔ ۱۹۷۶؁ء کے بعد درجات فضیلت قائم کئے گئے اس وقت سے اب تک اس جامعہ سے ہر سال اوسطاً دس پندرہ طلبہ سند فضیلت حاصل کر تے ہیں مولانا رحمانی کے دور میں شعبۂ حفظ و تجوید بھی قائم ہوا ۔ اس کا تعلیمی سلسلہ دور آخر میں زوروں پر رہا اور اب تک بحمداﷲ وہ سلسلہ جاری ہے۔ 
( پچھلے صفحہ کا بقیہ ) کنڈؤ مقیم حال تلسی پور کے دادا محترم جناب منصب دار خاں سعادت خاں مولانا عبد الحمید صاحب جناب عبد الغنی صاحب مولانا محمد یسین صاحب اور ابوالحسن خاں وغیرہم کی درخواست پر مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری کنڈؤ بونڈھیار تشریف لائے تو جناب منصب دار خاں کے گھر پر تعلیم کا آغاز فرمایا چند دنوں جناب منصب دار صاحب کے گھر پر تعلیم جاری رہی پھر آپس میں لوگوں کے مشورہ پر جناب مولانا محمدعبدالرحمن محدث مبارک پوری نے اپنے دست مبارک سے کونڈؤ بونڈھیار کے درمیان لب دریائے راپتی جامعہ سراج العلوم کی ۱۹۰۷؁ء میں بنیاد ڈالی۔ اﷲ تعالیٰ ان سبھوں کی کوششوں کو قبول فرماکر جنت الفر دوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ آمین ( عبد الرؤف خاں ندوی تلسی پور بلرام پور ) 
موصوف کے دور آخر میں اﷲ تعالیٰ نے جامعہ کو مالی اقتصادی حالت میں ترقی عطا فرمائی مولانا کے دور میں تعمیری اعتبار سے بھی بڑی بڑی ترقیات ہوئیں ، جامعہ کی اکثر عمارتیں اسی دور کی تعمیر کردہ ہیں جس میں حاجی سعادت خاں ، جناب ملک محمد اسماعیل صاحب للن خاں ، جناب حاجی محمد نعیم صاحب و اہل خاندان اور دوسرے معاونین جامعہ کا بھر پور تعاون شامل ہے ۔
اسی دور میں ۱۹۵۵؁ء شیخ الحدیث مولانا عبیداﷲ مبارک پوری رحمہ اﷲ کی سرپرستی میں جامعہ کی ایک باقاعدہ مجلس بنائی گئی اور جامعہ کا دستورالعمل طے کیا گیا،جناب عبد المعبود خاں صاحب للن کے انتقال کے بعد جامعہ کی نظامت کی ذمہ داری مولانا محمد اقبال صاحب رحمانی رحمہ اﷲ کے سپرد کی گئی اور تا حیات آپ جامعہ کے ناظم رہے۔ 
(خطبۂ استقبالیہ اجلاس عام جامعہ سراج العلوم کونڈؤ بونڈھیار بتاریخ ۳۱؍اکتوبرویکم نومبر ۱۹۸۶؁ء)
نمونہ سلف مولانا محمد اقبال رحمانی صاحب کو جامعہ سے محبت تھی کئی بار ملک کے کئی جامعات اور عربی یونیورسٹیوں کے ذمہ داروں نے اونچی تنخواہ پر درس و تدریس کیلئے پیشکش کیں مگر مولانا مرحوم نے ان لوگوں کے پیشکش کو مسترد کردیا اور فرمایا ہمارے جامعہ کا کیا ہوگا ۔ میں قلیل تنخواہ پر جامعہ کی خدمات کو ترجیح دوں گا مولانا موصوف آخری لمحات تک خاموشی سے اپنے قلب و جگر کا تیل جلا جلا کر جامعہ کو روشن کئے ہوئے تھے الحمد ﷲ آج بھی جامعہ کا ملک کے ممتاز و مشہور عربی اداروں میں شمار ہوتا ہے ۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس چمن کو سر سبز و شاداب رکھے آمین۔ بقول مجاز لکھنوی ؂
تا قیامت پھولتا پھلتا رہے تیرا چمن 
حشر کے دن تک تیرا گردش میں پیمانہ رہے 
مولانا رحمانی کے کارناموں میں ایک عظیم کارنامہ شیخ الحدیث علامہ عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری کی معرکۃ الآراء تصنیف مرعاۃ المفاتیح کی طباعت و اشاعت ہے جلد اول پاکستان میں چھپی تھی اور وہاں سے جب اس کا سلسلہ منقطع ہوگیا تو اس کی جلد ثانی و ثالث کی طباعت و اشاعت کی تکمیل مولانا محمد اقبال رحمانی صاحب کی خاص توجہ و جدو جہد سے ہوئی جس سے ملک و بیرون ملک کے علماء و فضلاء فیض حاصل کر رہے ہیں ۔
وفات : ۱۹۸۲؁ء میں مع اہلیہ دوسری بار فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ المکرمہ تشریف لے گئے بیماری کی حالت میں رمضان المبارک ۱۴۰۲؁ھ کا پورا روزہ رکھا دل کے مریض پہلے ہی سے تھے چنانچہ مکہ کے الزہرا اسپتال میں داخل کر دئیے گئے اور اسپتال ہی میں ۳۱؍ اگست ۱۹۸۲؁ء بروز منگل ۶۳ سال کی عمر میں انتقال فرمایا اور جنۃ المعلاۃ میں مدفون ہوئے آپ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ۔ 
آہ ! علم و فضل تقویٰ و طہارت اور جود و سخا کا یہ آفتاب مکۃ المکرمہ میں ہمیشہ کیلئے غروب ہو گیا ۔
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے 
 سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے 
اﷲم اغفر لہ و ارحمہ و عافہ واعف عنہ و اکرم نزلہ ووسع مدخلہ وادخلہ الجنۃ الفردوس۔
  عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ۔بلرام پور 
۱۴؍جون ۱۹۸۳؁ء 
٭٭٭


نمونۂ سلف حضرت العلام مولانا ابو العرفان محمد عمر سلفی رحمہ ﷲ 

جماعتی علمی اور دعوتی حلقوں میں یہ خبر بڑے رنج و غم کے ساتھ سنی گئی کہ نمونۂ سلف جناب مولانا ابوالعرفان محمد عمر سلفی رحمہ اﷲ سابق شیخ الجامعہ و شیخ الحدیث جامعہ سراج العلوم کنڈؤ بونڈھیار ضلع بلرام پور ایک طویل علالت کے بعد ۹؍ مارچ ۲۰۱۰؁ء بوقت ظہر انتقال فرما گئے۔ 
انا ﷲ وانا الیہ راجعون 
معروف عالم دین مولانا ابوالعاص وحیدی حفظہ اﷲ تعالیٰ (جنھیں جامعہ سراج العلوم بونڈھیار میں طویل عرصہ تک مولانا محمد عمر سلفی رحمہ اﷲ کے ساتھ تدریسی و دعوتی فرائض انجام دینے کا موقع ملا اور اسی دوران تاریخ جامعہ مرتب کرتے وقت مولانا کے حالات زندگی قلم بند کر چکے ہیں ) کے مطابق مولانا محمد عمر سلفی کا آبائی وطن ٹیرا ٹکرا ضلع بارہ بنکی تھا مولانا کی پیدائش سے قبل ہی ان کے والد نے ترک مکانی کرکے کرنیل گنج ضلع گونڈہ کے قریب سسئی گاؤں میں سکونت اختیار کی اس بستی میں مولانا محمد عمر سلفی صاحب کی پیدائش ۱۹۲۰؁ء میں ہوئی بعد میں اس بستی کو ان کے والد صاحب نے چھوڑ دیا اور اولاً وال ڈیہہ دھاری گھاٹ میں آباد ہوئے اور بالآخر اوسانی فیروز ضلع گونڈہ نزد گورا چوکی میں مستقل سکونت پذیر ہوگئے۔ 
ابتدائی تعلیم دال ڈیہہ کے قریب پرائمری اسکول میں پائی تقریباً ۱۹۲۳؁ء میں جامعہ سراج العلوم بونڈھیارمیں داخلہ لیا اور جماعت ادنیٰ کی تعلیم مکمل کی اور ۱۹۳۳؁ء سے ۱۹۳۷؁ء تک جامعہ عالیہ عربیہ مؤ میں رہے اور وہاں جماعت رابعہ تک تعلیم مکمل کی اس کے بعد مدرسہ سعیدیہ دہلی تشریف لے گئے اور شیخ الحدیث مولانا احمد اﷲ صاحب پرتابگڈھی اور مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی رحمہ اﷲ سے بطور خاص استفادہ کیا اور ۱۹۴۰؁ء میں وہیں سے فراغت حاصل کی ۔ 
فراغت کے بعد ایک برس تک قصبہ بارہ ضلع غازی پور میں تعلیم و تدریس کا فریضہ انجام دیا اور پھر ریاست پٹیالہ میں تعلیم کی خدمت پر مامور ہوئے اور ۱۹۴۷؁ء تک وہاں رہے ایک برس ناگپور میں بھی رہے پھر شمس الہدیٰ دلال پور مغربی بنگال میں کئی برس تک تدریسی فرائض انجام دئیے ۱۹۶۴؁ء میں ایک سال جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر میں تدریس فرمائی اس کے بعد ۱۹۶۵؁ء سے لے کر ۲۰۰۷؁ء تک پورے تسلسل کے ساتھ جامعہ سراج العلوم بونڈھیار میں تدریسی خدمت انجام دیتے رہے ۔
مولانا اخلاق و معاملات اور عقائد و عبادات میں سلف صالحین کا نمونہ تھے پوری زندگی تعلیم و تدریس اور دعوت و تبلیغ میں گزاردی مولانا سلفی صاحب ایک کہنہ مشق اور منجھے ہوئے استاد اور مشفق مربی تھے ساتھ ہی آپ دعوت وتبلیغ کے میدان میں بھی سر گرم رہے آپ کا وعظ کتاب و سنت کے نصوص سے مدلل اور بڑا موثر ہوتا تھا۔
علاقائی جلسوں اور کانفرنسوں کے علاوہ دور دراز کے دعوتی پروگراموں میں آپ کو شرکت کی دعوت دی جاتی جمعیت و جماعت سے بھی ہمیشہ وابستہ رہے ایک زمانہ تک ضلعی جمعیت اہل حدیث بلرام پور کے امیر جماعت رہے نیز صوبائی اور مرکزی جمعیتوں کے ساتھ بھی تعاون کرتے رہے۔ 
مولانا شب زندہ دار عالم تھے موجودہ زمانہ میں آپ جیسی بزرگ شخصیت کا وجود عنقا ہے مولانا نے بونڈھیار کے طویل قیام کی مدت میں تدریس کے ساتھ افتاء کا بھی کام کیا ہے اور شرعی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی ہے افتاء کیلئے اکثر آپ شروحات حدیث اور فتاویٰ ابن تیمیہ نیز المغنی لابن قدامہ کا مطالعہ فرماتے تھے مولانا کی طویل ترین تدریسی و دعوتی خدمات کے اعتراف کے طور پر آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس پاکوڑ جھارکھنڈ میں آپ کو ایوارڈ اور انعام سے نواز کر آپ کی قدر دانی کی کوشش کی گئی۔ 
بلا شبہ مولانا کی وفات سے زبر دست علمی و دعوتی خلاء پیدا ہوا ہے اﷲ تعالیٰ آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت کرے اور آپ کے جملہ پسماندگان ۱؂ 
 کو صبر جمیل کی توفیق بخشے۔ آمین 
۱؂ پسماند گان میں تین بیٹے اور بیٹیاں ہیں ابھی حال میں ہی مولانا کی اہلیہ کا انتقال ہوا ہے سب سے بڑے لڑکے عبید اﷲ ڈاکٹر ہیں جو پریکٹس کرتے ہیں منجھلے صاحبزادہ مولوی عبید الرحمن سلفی جامعہ سلفیہ بنارس سے فارغ ہیں ۔ اس وقت تلسی پور میں اپنی ذاتی دوکان یو نانی دواخانہ پر رہتے ہیں اور چھوٹے صاحبزادہ گھر پر رہتے ہیں۔ ( عبد الرؤف خاں ندوی تلسی پور ۔ بلرام پور) 
۱۰؍مارچ ۲۰۱۰؁ء تقریباً ۱۱؍بجے دن مولانا عبد السلام رحمانی وکیل الجامعہ و امیر جماعت ضلعی جمعیت اہل حدیث بلرام پور کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور آپ کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تقریباً دو ہزار علماء و طلباء اور عقیدتمند نماز جنازہ میں حاضر رہے ۔ 
اﷲم اغفر لہ وارحمہ و عافہ واعف عنہ واکرم نزلہ 
( ماخوذ ماہنامہ السراج جھنڈا نگر مارچ ۲۰۱۰؁ء)

٭٭٭










مولانا عابد حسن صاحب رحمانی رحمہٗ ﷲ 

نام ونسب : عابدحسن بن حبیب اﷲ بن جمائی بن کریم بخش 
پیدائش ومقام پیدائش: مولانا عابد حسن رحمانی اترپردیش کے ضلع بلرام پور کے مردم خیز گاؤں کنڈؤ میں ۱۹۲۴؁ء میں پیدا ہوئے جہاں ۱۹۰۷؁ء ہی سے جامعہ سراج العلوم کنڈؤ بونڈھیار جیسا عظیم الشان ادارہ قوم وملت کی خدمت کر رہا ہے ۔ 
موصوف کا گھرانہ خالص دینی و علمی گھرانہ ہے آپ کے گھرانے میں آپ کے علاوہ بہت سے علماء پیدا ہوئے ہیں جن میں مولانا عبد السلام رحمانی وکیل الجامعہ جامعہ سراج العلوم بونڈھیار اور مولانا عزیز الرحمن خاں بہادر ازہری مرحوم سر فہرست ہیں ۔ 
تعلیم : ابتدائی تعلیم مدرسہ سراج العلوم کنڈؤ بونڈھیار میں ہوئی یہاں آپ نے فارسی کتابوں مثلاً گلستاں، بوستاں اور اخلاق حسنیٰ وغیرہ کی تعلیم مولانا عبد الغفور بسکوہری سے حاصل کی جبکہ مولانامحمداقبال صاحب رحمانی سے میزان و منشعب وغیرہ پڑھی اس کے بعد آپ مولانا شبیر احمد صدیقی کنڈؤکے ہمراہ کانپور گئے اور جامع العلوم ٹپکا پور میں پہلی جماعت میں داخلہ لیا یہاں ایک سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد رحمانیہ دہلی میں داخلہ لیا اور مشکوٰۃ المصابیح شرح الوقایہ اور جامی وغیرہ پڑھی ۱۹۴۷؁ء میں دہلی میں فساد ہوا تو گھر چلے آئے اور یہ سال جامعہ سراج العلوم میں گزارا ۔ 
دوسرے سال دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں عا لمیت میں داخلہ لیا لیکن یہاں کا علمی ماحول آپ کو اس لئے نہیں پسند آیا کیونکہ یہاں قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کے مقابلہ میں ادب کی زیادہ اہمیت تھی اس لئے آپ ندوہ سے دارالعلوم دیوبند چلے گئے اور وہاں ہدایہ اولین نورالانوار ،تفسیر بیضاوی ،شرح عقائد،نسفی ،سراجی کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد آپ نے جامعہ رحمانیہ بنارس میں داخلہ لیا اور یہیں سے فارغ التحصیل ہوئے۔ 
اساتذہ: آپ کے اساتذہ کی فہرست بہت طویل ہے جس میں مذکور بالا اساتذہ مولانا عبدالغفور صاحب بسکوہری اور مولانا محمد اقبال صاحب رحمانی کے علاوہ مایہ ناز عالم علی میاں ندوی مولانا محبوب الرحمن صاحب ازہری مولانا فخر الحسن صاحب مولانا شبیر احمد صاحب اور مولانا نذیر احمد صاحب رحمانی املوی قابل ذکر ہیں ۔
علمی و دعوتی سر گرمیاں: جامعہ رحمانیہ بنارس سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ نے مختلف اداروں میں تدریسی خدمات انجام دی ہے اور جہاں بھی رہے ہیں وہاں خطبۂ جمعہ کے علاوہ قرب و جوار کے علاقوں میں سلفی دعوت و تبلیغ کے بھی کام کئے ہیں اداروں کی تفصیل حسب ذیل ہیں ۔ (۱) مڈل اسکول اڑیسہ (۲) مدرسہ شمس الہدیٰ دلال پور جھار کھنڈ (۳) مدرسہ اسلامیہ اصلاح المومنین برھیٹ صاحب گنج جھارکھنڈ(۴) مظہر العلوم مالدہ بنگال (۵) جامعہ رحمانیہ بنارس (۶) جامعہ سراج العلوم کنڈؤ بونڈھیار (۷) جامعہ سلفیہ بنارس (۷) مدرسہ انوارالعلوم پرسا عماد سدھارتھ نگر (۹) جامعہ فاطمہ الزہرا مؤ ناتھ بھنجن (۱۰) کلیات الطیبات ڈومریا گنج سدھارتھ نگر (۱۱) مدرسہ دعوۃ الاسلام لال گوپال گنج الہ آباد 
جس سال آپ کلیۃ الطیبات ڈومریاگنج میں تھے اسی سال آپ نے حج بیت اﷲ بھی کیا ۔ 
تلامذہ : آپ کے تلامذہ کا حلقہ بہت وسیع ہے نیز آپ کے تلامذہ میں ایک سے بڑھکر ایک ہیں جس میں دکتور وصی اﷲ محمد عباس جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ دکتور صغیر احمد صاحب متحدہ عرب امارات دکتور فضل الرحمن صاحب شیخ الجامعہ جامعہ محمد یہ منصورہ مالیگاؤں مولانا عبد العلیم عبد العظیم بستوی مکہ مکرمہ دکتور عزیر شمس مکہ مکرمہ دکتور اختر جمال مکہ مکرمہ اور مولانا صلاح الدین مقبول کویت نمایاں حیثیت کے حامل ہیں ۔ 
تصنیف و تالیف :آپ نے کوئی کتاب تصنیف یا تالیف نہیں کی البتہ جامعہ سلفیہ بنارس فتاویٰ لکھتے تھے وہ فتاویٰ جامعہ میں موجود ہیں اور ابھی کتابی شکل میں شائع نہیں ہوئے ہیں ۔
اخلاق و عادات : آپ حد درجہ خاکسار حلیم و بردبار اور ہمدرد و غمگسار تھے نیز سادگی ملنساری اور حق گوئی کے آئینہ دار تھے اخلاص حسن نیت اور بے لوثی آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی آپ کی مہمانوازی کی لوگ مثال دیتے ہیں ۔ لباس طعام اور جملہ لوازمات زندگی میں آپ شب و روز کا باقاعدہ پرگرام رکھتے تھے غرضیکہ آپ کی شخصیت ہمہ جہتی خوبیوں کی حامل تھی۔
اولاد: آپ کے چار لڑکے اور چھ لڑکیاں ہیں اور ماشاء اﷲ سب پڑھے لکھے اور اسلامیات کے پابند ہیں آخری لڑکی کلیۃالبنات جامعہ سراج العلوم کنڈؤ بونڈھیار میں فضیلت سال آخر میں زیر تعلیم ہے اﷲ تعالیٰ اس کو منزل مقصود سے ہمکنار کرے۔
کئی سال بیماری اور ضعیفی کی وجہ سے گھر پر ہی رہتے تھے وقت اجل آپہونچا مورخہ ۱۷؍جولائی ۲۰۰۹؁ء کو آپ کا گھر ہی پر (کنڈؤ) انتقال ہوا ۔ گاؤں قرب و جوار علاقہ کے بھاری تعداد میں علماء شاگرد محبین عقیدت مندوں نے آپ کو آپکے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا ۔ اﷲ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو درگزر فرمائے اور ان کی دینی خدمات کو قبول فرماکر جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ آمین 
( ماخوذ پندرہ روزہ جریدہ ترجمان دھلی ۱۵؍۱۶؍ اکتوبر ۲۰۱۰؁ء ) 


 حضرت العلام مولانا عبد الوحید صاحب رحمانی رحمہٗ اﷲ

شیخ الجامعہ جامعہ سلفیہ بنارس
آل انڈیا ریڈیو سے یہ خبر بجلی بن کر گری کہ ہندوستان کے مشہور و معروف عربی یو نیور سٹی جامعہ سلفیہ کے شیخ الجامعہ فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا عبد الوحید رحمانی صاحب ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۱۰؍دسمبر ۱۹۹۷؁ء کو و فات پاگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون 
یہ قانون قدرت ہے کل نفس ذائقۃ الموت آنکھیں اشکبار ہیں دل مغموم قلم لرز رہا ہے شیخ الجامعہ مولانا عبد الوحید رحمانی کی ولادت بنارس میں ۱۳۴۶؁ء مطابق ۱۹۲۷؁ء کو ہوئی۔ 
مولانا رحمانی کی وفات علمی دنیا کا ایک غم انگیز حادثہ ہے ہر جگہ ان کا غم منایا گیا تعزیتی اجلاس منعقد کئے گئے ۔ ملک کے علاوہ بلاد اسلامیہ میں بھی ان کی روح کو خراج عقیدت پیش کیا گیا سر زمین بنارس میں بہت سے ارباب فضل و کمال تھے خصوصاً مولانا عبد المجید حریری مولانا عبدالمتین صاحب بنارسی مولانا سعید احمد بنارسی مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی قاری ابو مسعود قمر بنارسی مولانا محمد یحییٰ ، مولانا عبد الوحید رحمانی ناظم جامعہ سلفیہ بنارس ،حافظ عبید الرحمن صاحب وغیرہم جنھوں نے دنیا میں اپنے شہر بنارس کا نام روشن کیا اور اس کی شہرت و عزت اور افتخار کا باعث ہوئے ۔ بلا شبہ مذکورہ عبقری شخصیتیں سر زمین بنارس کی علمی شہرت اور عظمت کی ضامن ہیں ۔
مولانا رحمانی صاحب جامعہ سلفیہ کی تاسیس سے لیکر آخری سانس تک جامعہ سلفیہ کے شیخ الجامعہ رہے جامعہ سلفیہ ہندوستان کی سب سے بڑی درسگاہ ہے جس میں علمی پیاس بجھانے کیلئے مشرق و مغرب ، شمال و جنوب ہر طرف سے جوق در جوق طالبان علوم رجوع کرتے ہیں اور اس سرچشمۂ علمی سے فیض یاب ہوتے ہیں مولانا رحمانی کے ہزاروں شاگرد ملک و بیرون ملک کی یونیور سٹیوں ،کالجوں ، جامعات ، مدارس میں درس و تدریس ، تصنیف و تالیف ، تحقیق و ترجمہ دعوت و تبلیغ جیسی اہم خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
علم و دانش کاوہ نیر تاباں جو افق مدنپورہ بنارس سے طلوع ہوا تھا سر زمین بنارس کی خاک میں ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا ۔ میری پہلی ملاقات جامعہ سلفیہ میں ہوئی میرے ساتھ ان کا برتاؤ ایک چھوٹے بھائی کی طرح رہا اشاعتی ادارہ مجلس التحقیق الاسلامی تلسی پور کی کتابوں کی اشاعت کے سلسلہ میں اکثر و بیشتر ملاقات کا شرف حاصل رہا ۔ مفید مشوروں سے نوازتے حوصلہ افزائی فرماتے اخوان جماعت بنارس سے تعاون کی پُر زور اپیل تحریر فرماتے اس میں کوئی شک نہیں کہ مجلس کے قیام ۱۹۹۱؁ء سے لیکر آج تک جو کام ہوا ہے اخوان جماعت بنارس و بھدوہی وغیرہ کا تعاون اگر شامل حال نہ ہوتا تو شایداتنی کم مدت میں مجلس دو درجن علمی ، تاریخی سماجی اصلاحی تحقیقی کتابیں شائع نہ کرسکتی ۔ 
مولانا رحمانی ملک کے مشہور اردو وعربی جرائد و رسائل میں فکر و نظر سنجیدہ متوازن علمی ادبی تاریخی مضامین بھی لکھتے رہے آپ کے مضامین پڑھنے سے آپ کے ذوق تحقیق وسعت نظر اور قوت استدلال کا پتہ چلتا ہے جو کچھ لکھتے تھے مختصر جامع قَلّ ما دَلّ کے مصداق حشو وزوائد سے پاک ہوتا تھا آپ کی اردو خاص کر عربی تحریریں بہت دلکش شگفتہ اور رواں ہوتیں۔
مولانا رحمانی صاحب خلیق و ملنسار تھے ہر دلعزیز تھے مولانا کا دل محبت آشنا تھا ان کی زبان شیریں انکی طبیعت بے آزار اور ان کا قلب کینہ و بُغض سے پاک تھا انکے ساتھ رہنے والوں اٹھنے بیٹھنے والوں کی معلومات اور تجربہ کا تعلق ہے کہ شاید ہی کوئی کہہ سکے ان کا دل کبھی دُکھایا یا ان کو نقصان پہونچایا ہو۔
افسوس اب ایسی صورت کہاں دیکھنے کو ملے گی جن کا وجود سراپا خیرہی خیر ہو اور جن کی زندگی ایثار مجسم ہو اب وہ شفقت و کرم یاد کرتا ہوں تو دل تڑپ کے رہ جاتا ہے ۔
ایسے کہاں ملیں گے تمھیں نیک طبع لوگ افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی 
علم و دانش کا وہ چراغ جو کئی سال سے ضعف و مرض کے جھونکوں سے بجھ بجھ کر سنبھل جاتا تھا آخرکار وہ ہمیشہ کیلئے بجھ گیا، ۷۲ سال کی عمر پائی۔
ناچیز مولانا رحمانی کے پسماندگان بیوہ لڑکے اور لڑکیوں کے غم میں برابر کا شریک ہے اﷲ ان سبھوں کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین 
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مولانا کی قبر کو نور سے بھر دے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ۔آمین 
اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ و اکرم نزلہ 
والسلام 
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ۔ بلرام پور 
۲۷؍ دسمبر ۱۹۹۷؁ء 


٭٭٭


حضرت العلام جناب مولانا مختار احمد ندوی سلفی رحمہ اﷲ 

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
عزیز القدر محمد ظفر عبد الرؤف محمدی سلمہ اﷲ کے ذریعہ ممبئی سے بذریعہ فون علامہ مولانا مختار احمد ندوی سلفی کے سانحہ ارتحال کی خبر ملی کہ ۹؍ستمبر ۲۰۰۷؁ء کو وفات پاگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون یہ خبر بجلی بن کر گری اور پوری جماعت میں صف ماتم بچھ گئی ۔ ہر ایک کا چہرہ مغموم پریشان و مضطرب جامعات مدارس و مکاتب اسلامیہ میں تعطیل کردی گئی ملک کے گوشہ گوشہ میں نماز جنازہ غائبانہ ادا کی گئی ۔ ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بلرام پور (تلسی پور پوروہ) میں بھی بعد نماز جمعہ نماز جنازہ غائبانہ ادا کی گئی موت ایک اٹل حقیقت ہے ۔
الموت قدح کل نفس شاربہا 
والقبر باب کل نفس داخلہا 
اہل علم کی موت سے ایک عالم اداس ہوتا ہے سچ ہے ’’ موت العالم موت العالم‘‘ علماء کی موت علوم و معارف کی موت ہے ۔
حضرت عبد اﷲ بن عباس ؓ فرماتے ہیں :
اتدرون ما ذہاب العلم قلنا لا قال ذھاب العلماء 
جانتے ہو علم کا اٹھ جانا کیا ہے شاگردوں نے کہا ہم نہیں جانتے تو فرمانے لگے علماء کی موت علم کی موت ہے اور طبقات ابن سعد میں ہے کہ جب حضرت زید بن ثابت ؓ فوت ہوئے تو حضرت بن عباسؓ فرمانے لگے ۔
’’لقد دفن الیوم علم کثیر ‘‘ آج علم کا ایک باب ختم ہوگیا ۔
ندوی صاحب کی وفات عالم اسلام کے لئے نا قابل تلافی نقصان ہے آپ کی وفات سے پورے عالم اسلام بلکہ عصر حاضر کی تمام علمی و تعلیمی فکری حلقہ جات و مجالس کی تابناکیاں کم ہوگئیں ۔
سابق امیر جماعت مولانا مختار احمد ندوی بن الحاج محمد ضمیر ۱۹۳۰؁ء میں شہر مؤ کے محلہ وشو ناتھ پوروہ کے ایک دینی اور علمی گھرانہ میں پیدا ہوئے ۔ پورا خاندان چونکہ عامل بالحدیث تھا اسلئے آپ کی پرورش و پرداخت بھی خالص مسلکی ماحول میں ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم وطن مؤ ہی میں حاصل کی چنانچہ جامعہ عالیہ عربیہ میں داخلہ لے کر اکتساب علم کیا پھر جامعہ فیض عام مؤمیں داخلہ لے کر اس دور کے اساتذہ علم و فن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا مزید حصول علم کیلئے اس دور کے مشہور میکدہ کتاب و سنت دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں داخل ہوئے ۔ بعدہ ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخلہ لیکر وہاں سے بھی اکتساب علم کیا ۔ حضرت مولانا محمد احمد صاحب بڑے مولوی صاحب اور علامہ عبد اﷲ شائق مؤی سے سند اجازہ روایت حدیث حاصل کی فراغت کے بعد مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی ؒ کی خدمت میں رہ کر ان سے بھی صحیحین کا درس لیا ۔ 
فراغت کے بعد جامع مسجد اہلحدیث کلکتہ میں بحیثیت خطیب امام مفتی داعی و مرشد اور مناد ایک عرصہ تک خدمت انجام دی کلکتہ کے بعد آپ نے ممبئی میں جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ اور اس کے بعد بنگالی مسجد مدنپورہ کو مرکز دعوت و تبلیغ بنایا اور آخری سانس تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔
آپ کی پوری زندگی دعوت و تبلیغ تصنیف و تالیف میں گذری آپ علوم اسلامیہ کے پہاڑ تھے ایسی عظیم ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں ۔ ایسی عبقری و عظیم ہستیوں کی رحلت کا غم وقتی نہیں ہوتا آفاقی ہوتا ہے اور گردش افلاک کے ساتھ اس کی کسک روز افزوں ہوتی جاتی ہے اور جب کوئی دشوار گھڑی آجاتی ہے تو ان رہنماؤں کے نہ ہونے کا احساس شدت اختیار کرجاتا ہے اور بے ساختہ ان سائبانوں کے نہ ہونے کا غم آنکھوں میں نمی پیدا کردیتا ہے اس میں کوئی شبہہ نہیں ان کی موت عمومی طور پر عالم اسلام کیلئے اور خصوصی طورپر جماعت کیلئے عظیم سانحہ اور بہت بڑا خسارہ ہے ۔
علامہ ندوی آج ہمارے درمیان نہ رہے مگر ان کی مبارک خدمات جو چھوڑ گئے ہیں اور ان کے مبارک اعمال اور ان کی جدو جہد ،ایثار و قربانی اور کوشش اور ان کے قائم کردہ تعلیمی و فلاحی جامعات و ادارے میں مولانا آزاد ہائی اسکول ، جامعہ محمد یہ منصورہ مالیگاؤں، طبیہ کالج ، الدار السلفیہ ، دارالمعارف ، کلیہ فاطمۃ الزہرا مؤ ، محمد یہ کالج ، محمدیہ جنرل اسپتال ، ادارہ اصلاح المساجد ۱؂ 
 ۱؂علامہ مولانا مختار احمد ندوی سلفی رحمہٗ اﷲ کی بہت سی قابل ذکر و قابل فخر یادگاریں ہیں انھیں یادگاروں میں سے آپ کی عظیم یادگار ’’ادارہ اصلاح المساجد کا قیام ہے بحمد اﷲ مولانا ندوی نے پورے ملک میں مساجد کا جال بچھا دیا بعض مقامات پر تو اتنی عالیشان و سیع کشادہ اور مستحکم مساجد تعمیر کرادی ہیں کہ ان کو دیکھ کر سلطنت مغلیہ کے دورکی تعمیرات کی یاد تازہ ہوجاتی ہے انھیں مساجد میں ہماری ضلعی جمعیۃ اہل حدیث کی پوروہ تلسی پور کی جامع مسجد بھی ہے جو عالیشان وسیع کشادہ اور مستحکم اور شاہکار تعمیر ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب تھانہ روڈپر ضلعی جمعیۃ کا آفس تھا وہ دور جمعیۃ کا مثالی اور زریں دور تھا اور آج بھی بطور نعمت لوگ ذکر کرتے ہیں اس وقت آفس سے متصل پچھم جانب مولانا عبد الغفور صاحب بسکوہری رحمہ اﷲ کے دست مباک سے مسجد کی سنگ بنیاد رکھی گئی تھی یہ ۱۹۷۷؁ء کی بات ہے اسی وقت راقم الحروف نے ضلعی جمعیۃ اہل حدیث تھا نہ روڈ کے لیٹر پیڈ پر اس مسجد کی تعمیر کیلئے مولانا مختار احمد ندوی سلفی مدیر اصلاح المساجد ممبئی کی خدمت میں ایک درخواست لکھ کر رجسٹری ارسال کی اور اس درخواست پر صدر محترم مولانا محمد اقبال رحمانی رحمہ اﷲ نے پُر زور سفارش بھی لکھی تھی۔ 
اسی درمیان میں اپنوں نے تھانہ روڈ کی بنیاد ڈالی ہوئی مسجد کی زمین اور آفس کو فروخت کردیا یہ عظیم حادثہ ارباب جماعت کیلئے قیامت صغریٰ سے کم نہ تھا اورارباب جمعیۃ آفس و مدرسہ اور مسجد کیلئے تلسی پور میں کسی مناسب جگہ کیلئے کوشاں تھے اﷲ غریق رحمت کرے عقیل احمد خاں کے والد محترم الحاج سمیع اﷲ خاں رنیاپور کو کہ انھوں نے مولانا عبد الحق تھرولی و عقیل احمد کی جد و جہد سے آفس مدرسہ اور جامع مسجد کیلئے پوروہ تلسی پور میں اپنی ذاتی زمین وقف کردی جب زمین کا مسئلہ حل ہوگیا تو جناب بابو فصیح الدین خاں صاحب نے ناچیزکو ۱۹۷۷؁ء والی درخواست کی یاد دہانی کرائی اور فرمایا اس سلسلہ میں مولانا ندوی سے بات کرو میں نے یاد دہانی کے طور پر ایک دو خط بھی لکھا کہ بحمد اﷲ زمین کا مسئلہ حل ہوگیا ہے اب آپ اس طرف توجہ فرمائیں مولانا ندوی صاحب بذیعہ خط مجھے تسلی دیتے رہے ۔( بقیہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں)
جامعہ محمدیہ للبنین والبنات ، مجلہ صوت الحق ، البلاغ ان کی توسیع و متنوع خدمات کی منہ بولتی نشانیاں ہیں اور یہ صدقہ جاریہ ہیں ۔ یقیناً اﷲ تعالیٰ مولانا ندوی کو اجر عظیم سے نوازے گا ۔
(پچھلے صفحہ کا بقیہ )حسن اتفاق اسی درمیان جامعہ سراج العلوم کنڈؤ بونھیار میں ایک عظیم الشان تاریخی اجلاس عام کا انعقاد بتاریخ ۳۱ ؍ اکتوبر و یکم نومبر ۱۹۸۶؁ء کو جامعہ کے وسیع گراؤنڈ میں ہوا تھا جماعت کے مشاہیر علماء کرام کے علاوہ مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اﷲ بھی بونڈھیار کے اجلاس میں تشریف لائے میں نے موقع غنیمت سمجھا اور مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں جو ۱۹۷۷؁ء میں درخواست دے رکھی تھی ملاقات و گفتگو کیلئے اجلاس میں حاضر ہوا ہمارے صدر محترم مولانا محمد اقبال رحمانی صاحب ۱۹۸۲؁ء میں انتقال فرما چکے تھے اس وقت ضلعی جمعیۃ کے صدر مولانا ابوالعرفان محمد عمر سلفی تھے میں نے ان سے مسجد کے سلسلہ میں مفصل گفتگو کی صدر محترم نے فرمایا آئیے چلیں بات کرتے ہیں ہم دونوں مولانا ندوی صاحب کے پاس گئے گفتگو شروع ہوئی میں نے عرض کیا محترم ضلعی جمعیۃ کی مسجد کی درخواست عرصہ نو سال سے آپ کے فائل میں پڑی ہے اس پر دھیا ن دیں صدر محترم اور احسان اﷲ ناظم جامعہ سراج العلوم نے بھی مولانا ندوی کو پُر زور الفاظ میں توجہ دلائی مولانا ندوی صاحب مسکرائے اور اپنی فائل سے میری ۱۹۷۷؁ء کی لکھی ہوئی درخوست نکالی اور فرمایا کہ میں تمہاری درخواست اسی مقصد سے لایا ہوں کہ جمعیۃ کی مسجد تعمیر کروانی ہے ایسا کرو تم میرے ساتھ چلو ہم چند لوگ شنکر نگر چل رہے ہیں وہیں سے تلسی پور چل کر موقع کا معائنہ کر لیں گے الغرض میں مولانا کے ساتھ شنکر نگر ہو کر تلسی پور آیا اتفاق سے عقیل احمد خاں اور دوسرے لوگ موقع پر موجود تھے میں نے مولانا کا تعارف کرایا اور مولانا ندوی صاحب کی تشریف آوری کے مقصد سے آگاہ کیا مولانا ندوی نے موقع کا معائنہ کیا اور اطمینان کا اظہار فرمایا عقیل احمد صاحب نے چائے و بسکٹ سے تواضع کی مولانا جب گاڑی پر بیٹھ گئے تو مجھ سے اور عقیل احمدخاں سے کہا اﷲ تعالیٰ کے یہاں ہر چیز کا وقت معین ہے میں پہونچتے ہی پہلی قسط صدر مولانا ابوالعرفان محمد عمر سلفی کے پاس بھیج رہا ہوں انشاء اﷲ مولانانے حسب وعدہ رقم بھیجنی شروع کردی اس طرح جناب فصیح الدین خاں ، شرافت اﷲ وکیل مرحوم ڈاکٹر ببّن عقیل احمد خاں ڈاکٹرفیاض احمد،حاجی صلاح الدین وعزیزم قاری عبدالقوی اثری وغیرہ کی توجہ و نگرانی میں الحمد ﷲ ضلعی جمعیۃ اہل حدیث کی یہ جامع مسجد عالیشان وسیع کشادہ اور مستحکم ۱۹۸۷؁ء میں پایۂ تکمیل کو پہونچی جن لوگوں نے بھی اس مسجد کی تکمیل میں حصہ لیا ہے اور لے رہے ہیں اﷲ تعالیٰ ان سبھی لوگوں کی خدمات کو قبول فرمائے اور اجرعظیم سے نوازے۔ آمین ( عبد الرؤف خاں ندوی تلسی پور) 
ندوی صاحب غریب پرور تواضع وانکساری کے دلدادہ زندہ دل ہنس مکھ خلیق ملنسار عابد زاہد تھے مولانا ہمہ وقت سلفی منہج کے ساتھ سینے میں جماعت و ملت کا درد لئے ہوئے دینی و فلاحی کاموں میں اپنے آپ کو مشغول رکھا عام مسلمانوں کے عقائد کی اصلاح تقریر و تحریر کے ذریعہ جو کام کیا ہے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا سچ ہے ۔
تلاش حق سے فروزاں تھی کائنات تری
اسی تلاش میں گم ہوگئی حیات تری 
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان پر خوب رحمت نازل فرمائے اور اپنی نعمتوں کی بارش برسائے اور انھیں انبیاء صدیقین شہداء صالحین کے ساتھ معاملہ فرمائے آمین ۔
؂ آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے 
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے 
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ۔ بلرام پور 
۲۷؍ ستمبر۱۹۹۷؁ء 

٭٭٭






 مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اﷲ صاحب الرحیق المختوم 

(تاریخ پیدائش ۶؍جون ۱۹۴۲؁ء وفات یکم دسمبر ۲۰۰۶؁ء)
موج تسنیم ہے کوثر کی روانی ہے یہ 
جس کا ہر قطرہ ہے موتی وہی پانی ہے یہ 
مولانا صفی الرحمن مبارکپوری ابن عبد اﷲ بن محمد اکبربن محمد علی بن عبدالمومن بن فقیر اﷲ ضلع اعظم گڑھ کے ایک مردم خیز موضع حسین آباد میں پیدا ہوئے جو مبارک پور کے شمال میں ایک میل کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی بستی ہے ابتدائی تعلیم مدرسہ دارالتعلیم مبارک پور میں حاصل کی اس کے بعد ۱۹۵۴؁ء میں مدرسہ احیاء العلوم مبارک پور میں داخلہ لے کر نحو و صرف کی ابتدائی تعلیم حاصل کی ۱۹۵۶؁ء میں مدرسہ فیض عام مؤ میں داخلہ لیا ۱۹۶۱؁ء میں سند فراغت حاصل کی دوران تعلیم ا لہٰ آباد بورڈ سے مولوی عالم فاضل ادب اور دینیات کا بھی امتحان دیا اور فرسٹ ڈویزن سے کامیابی حاصل کی ۔ 
۱۹۶۱؁ء میں جامعہ فیض عام مؤ فراغت کے بعد ضلع الٰہ آباد اور شہر ناگپور میں درس و تدریس کے سلسلہ سے جڑے رہے ۱۹۶۳؁ء اور ۱۹۶۴؁ء میں مدرسہ فیض عام میں اور ۱۹۶۵؁ء میں جامعۃ الرشاد اعظم گڑھ میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا پھر ۱۹۷۲؁ء میں مدرسہ دارالتعلیم مبارک پور میں آگئے لیکن دو سال کے بعد ۱۹۷۴؁ء میں جامعہ سلفیہ بنارس چلے گئے اس طرح دس سال تک ملک کے مختلف عربی جامعات میں اور چودہ سال تک جامعہ سلفیہ بنارس میں رہ کر تدریسی تصنیفی اور تبلیغی خدمت انجام دیتے رہے۔
دوران قیام بنارس ۱۹۸۲؁ء تا ۱۹۸۸؁ء ماہنامہ محدث کے ایڈیٹر رہے از ۱۴۰۹؁ھ تا ۱۴۱۸؁ھ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے تحت سیرت انسائیکلو پیڈیا کی تیاری میں شامل رہے پہلی بین الاقوامی سیرت کانفرنس امریکہ میں رابطہ عالم اسلامی کی نمائندگی کی دینی تعلیمی کونسل لکھنؤ کے رکن بھی رہے۔
آپ ایک با صلاحیت معلم ہونے کے ساتھ ایک اچھے صاحب قلم بھی تھے اسی لئے تدریسی خدمات کی انجام دہی کے ساتھ ہمیشہ تصنیفی و تالیفی سلسلہ بھی جاری رکھا۔ عربی تصنیفات و تالیفات کی تعداد گیارہ اور بزبان اردو بھی گیارہ ہیں ان میں اتحاف الکرام تعلیق بلوغ المرام تجلیات نبوت اور الرحیق المختوم کو خاص مقام حاصل ہے جو ملک و بیرون ملک بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ۔ رابطہ عالمی اسلامی مکہ کی جانب سے منعقدہ سیرت نویسی کے عالمی مقابلہ میں پہلا انعام حاصل کیا اب تک ملک وبیرون ملک میں اس کتاب الرحیق المختوم کا تیرہ زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے آپ نے صحیح مسلم کی مستند المنعم کے نام سے ایک مختصر شرح لکھی ہے جو ابھی حال میں مکتبہ دارالسلام ریاض سے شائع ہوئی ہے ۔
آپ کی زندگی درس و تدریس تصنیف و تالیف کے ساتھ مناظرہ میں بھی گذری ، جہاں آپ نے اسلام کے خلاف اٹھنے والے باطل اعتراضات کا دندان شکن جواب قلم سے دیا وہاں اپنی زبان و بیان کو بھی استعمال کیا ۔ مناظرہ بجر ڈیہہ بہت معروف ہے جس کو رزم حق و باطل کے نام سے کتابی شکل میں شائع کردیا ہے ۔
مولانا مختار احمد ندوی کے عہدہ امارت سے مستعفی ہونے کے بعد ۱۹؍جولائی ۱۹۹۸؁ء سے ۳۰؍اگست ۲۰۰۰؁ء تک آپ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر رہے۔ 
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ۔ بلرام پور 
۲۴؍ دسمبر ۱۹۹۷؁ء 
 
آئیے اب مولانا محمد اسحق بھٹی حفظہ اﷲ کے زبانی مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کے مفصل حالات ملاحظہ فرمائیں ۔
خانوادہ ٔمبارک پور کے اصحاب فضل سے ہر وہ شخص واقفیت رکھتا ہے ۔ جسے اﷲ تعالیٰ نے علم و عمل کی دولت سے کچھ حصہ عطا فرمایا ہے۔ اس خانوادۂ ذی قدر کے رکن حضرت مولانا عبد الرحمن مبا محدث رک پوری کا تذکرہ ’’دبستان حدیث‘‘ میں کیا گیا ہے اور مولانا عبد السلام مبارک پوری ، مولانا عبید اﷲ رحمانی اور ڈاکٹر رضاء اﷲ مبارک پوری کے کوائف حیات کتاب ’’ گلستان حدیث ‘‘ کے مختلف مقامات میں بیان کئے گئے ہیں ۔ ان سطور میں اسی خاندان کے معروف سیرت نگار مولانا صفی الرحمن مبارک پوری کے وہ حالات ضبط تحریر میں لانا مقصود ہے جو اس فقیر کے محدود علم میں آئے ۔ 
مولانا ممدوح کا سلسلۂ نسب جو انھوں نے خود اپنی عظیم تصنیف ’’الرحیق المختوم‘‘ کے شروع میں بیان کیا ہے : صفی الرحمن بن عبد اﷲ بن محمد اکبر بن محمد علی بن عبد المومن بن فقیر اﷲ مبارکپوری اعظمی۔ 
مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کی سند پر بقول ان کے تاریخ پیدائش ۶؍جون ۱۹۴۳؁ء مرقوم ہے ۔ لیکن ان کی اپنی تحقیق یہ ہے کہ وہ اس سے قبل ۱۹۴۲؁ء کے وسط میں پیدا ہوئے ۔ مقام پیدائش ایک چھوٹی سی بستی حسین آباد ہے جو مبارکپور کے شمال میں ایک میل کے فاصلے پر واقع ہے ۔ مبارکپور ، صوبہ یوپی کے ضلع اعظم گڈھ کا ایک مشہور علمی اور صنعتی قصبہ ہے۔
مولانا ممدوح نے کچھ ہوش سنبھالا تو حصول علم کی راہ پر گامزن ہوئے قرآن مجید کا کچھ حصہ اپنے دادا اور کچھ حصہ اپنے چچا سے پڑھا ۔ ۱۹۴۸؁ء میں مبارکپور کے مدرسہ دارالتعلیم میں داخل ہوئے ۔ وہاں چھ سال میں پرائمری درجات اور مڈل کے نصاب کی تعلیم مکمل کی ۔ فارسی کی ابتدائی کتابیں بھی وہیں پڑھیں۔چودہ سال کی عمر کو پہونچے تو جون ۱۹۵۴؁ء میں مبارک پور کے مدرسہ احیاء العلوم میں داخلہ لیا ۔ اس مدرسہ میں عربی زبان و قواعد، صرف ونحو اور بعض مروجہ فنون کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی دوسال بعد ۱۹۵۶؁ء میں مدرسہ فیض عام مؤ ناتھ بھنجن پہنچے جو ان کے قصبہ مبارک پور سے ۳۵ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ اس مدرسے کو اس علاقے میں دینیات کی اہم درس گاہ سمجھا جاتا ہے ۔
مؤ ناتھ بھنجن کے مدرسہ فیض عام میں وہ پانچ سال حصول علم میں مصروف رہے ۔ اس اثنا میں انھوں نے عربی زبان و قواعد اور علوم شرعیہ یعنی تفسیر ، حدیث ، اصول حدیث، فقہ اور اصول فقہ وغیرہ کی تمام نصابی کتابیں پڑھیں۔ اس طرح جنوری ۱۹۶۱؁ء میں ان کی تعلیم مکمل ہو گئی اور انھوں نے سند تکمیل ( شہادۃ التخرج ) حاصل کرلی۔ یہ فضیلۃ فی الشرعیہ اور فضیلت فی العلوم کی سند ہے ، جس کی رو سے انھیں تدریس اور فتویٰ نویسی کی اجازت حاصل ہوگئی ۔ اس وقت مؤ ناتھ بھنجن کے مدرسہ فیض عام کے شیخ الحدیث حضرت مولانا شمس الحق سلفی مرحوم و مغفور تھے، مولانا صفی الرحمن مبارک پوری نے ان سے صحیح بخاری اور بہت سی دیگر درسی کتابیں پڑھیں۔ 
مولانا صفی الرحمن نے انیس برس کی عمر میں یہ تعلیم مکمل کی اور مدارس کے ہر امتحان میں امتیازی نمبروں سے کا میاب ہوتے رہے۔ 
دوران تعلیم ہی میں انھوں نے الٰہ آباد بورڈ کے امتحانات میں شرکت کی ۔ چنانچہ فروری ۱۹۵۹؁ء میں مولوی اور فروری ۱۹۶۰؁ء میں مولوی عالم کے امتحانات دئیے اور دونوں میں فرسٹ ڈویزن حاصل کی پھر طویل عرصے کے بعد نئے حالات کے پیش نظر فروری ۱۹۷۶؁ء میں فاضل ادب اور فروری ۱۹۸۷؁ء میں فاضل دینیات کا امتحان دیا اور دونوں امتحانوں میں فرسٹ ڈویزن میں کا میاب ہوئے ۔
اب ان کے سلسلۂ تدریس کی طرف آئیے ۱۹۶۱؁ء میں مدرسہ فیض عام (مؤ ناتھ بھنجن ) سے فراغت کے بعد ضلع الٰہ آباد اور پھر ناگپور میں درس و تدریس اور تقریر و خطابت کا سلسلہ شروع کیا ۔ اس سے دو سال بعد مارچ ۱۹۶۳؁ء میں اپنی مادر علمی مدرسہ فیض عام (مؤ) کے ناظم اعلیٰ نے اس مدرسے میں خدمت تدریس انجام دینے کی دعوت دی وہاں صرف دو سال گزارے ، پھر حالات ایسے پیداہوئے کہ وہاں سے علیحدگی اختیار کرلی ۔ ۱۹۶۵ء کا سال ’’ جامعۃ الرشاد ‘‘ اعظم گڑھ میں گذرا ۔ فروری ۱۹۶۶ ء ؁ میں مدرسہ دارالحدیث (مؤ) کی طرف سے دعوت آئی اور وہاں مدرس مقرر کر لئے گئے ، تین سال وہاں رہے۔
جنوری ۱۹۶۹؁ء میں صدر مدرس کی حیثیت سے مدرسہ فیض العلوم سیونی چلے گئے۔ سیونی ، مؤ ناتھ بھنجن سے سات سو کلو میٹر دور مدھیہ پردیش میں واقع ہے۔ وہاں چار سال خدمت تدریس سر انجام دی۔ وہاں خطابت جمعہ کی ذمہ داری بھی انہی کے سپرد تھی۔
مدرسہ دارالتعلیم مبارک پور ان کی اوّلین درسگاہ ہے اس کے اصحاب انتظام کے اصرار پر ۱۹۷۲؁ء میں وہاں فریضۂ تدریس انجام دینے لگے۔ دو سال یہاں قیام رہا ۔ اکتوبر ۱۹۷۴؁ء میں جامعہ سلفیہ بنارس چلے گئے وہاں مسلسل چودہ سال درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں مصروف رہے ۔ بنارس سے ماہنامہ ’’ محدث‘‘ فروری ۱۹۸۲؁ء تک چھ سال اس کے ایڈیٹر رہے ۔ اگست ۱۹۸۸؁ء میں مدینہ یونیور سٹی کی دعوت پر وہاں کے شعبۂ خدمۃ السنۃ والسیرۃ سے وابستہ ہوگئے۔ دسمبر ۱۹۹۷؁ء تک وہا ں قیام رہا۔ اس اثنا میں انھوں نے اس شعبے میں مندرجہ ذیل خدمات سر انجام دیں ۔ پہلے عربی تصانیف کا ذکر کرتے ہیں ۔ 
٭…… سیرت پر جو حضرات وہاں کا م کر رہے تھے ، ان کے ساتھ مل کر سیرت انسائیکلو پیڈیا تیار کرنے کے لئے خاکہ بنایا۔
٭…… حرمین شریفین سے متعلق ایک انسائیکلوپیڈیا مرتب کرنے کا منصوبہ بنایا۔
٭…… حدیث کی نو کتابوں اور طبقات ابن سعد وغیرہ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے متعلق جو معلومات پائی جاتی ہیں ان کی جمع و ترتیب کا کام کیا ۔
٭…… حرم مکی کے بارے میں مختلف ماخذ سے مفصل معلومات کارڈ کی صورت میں جمع کئے تاکہ انسائیکلو پیڈیا میں ان کا اندراج ہو سکے۔ 
٭…… سیرت نبوی ﷺ کے سلسلے کی ان تمام احادیث کی فہرست تیار کی جو کتب ستہ اور مسند احمد وغیرہ میں مندرج ہیں ۔
٭…… سیرت کے متعلق مدینہ یونیور سٹی کے ’’مرکز خدمۃ السنۃ والسیرۃ‘‘ میں ایک بہت اہم کام انھوں نے یہ کیا کہ نبی ﷺ کے والد گرامی اور والدۂ محترمہ دونوں کے نسب نامہ کی تفصیل حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام تک مرتب کی اور اس سلسلے کے تمام ناموں کی تحقیق کی۔ 
٭…… نبی ﷺ کی بعثت سے متعلق مختلف مذاہب و ادیان کی کتابوں میں جو بشارتیں مذکور ہیں ان کے بارے میں مولانا موصوف نے ایک کتاب تیار کی۔ جس میں پہلے وہ بشارتیں درج کی گئی ہیں جو بدھ مت کی کتابوں میں درج ہیں ، پھر ہندوؤں اور مجوسیوں کی کتابوں سے بشارتوں کے ذکر کی وضاحت کی گئی ہے۔ 
٭…… مرکز خدمۃ السنہ والسیرۃ کے علاوہ بھی انھوں نے بعض علمی کام کئے۔ مثلاً متعدد کتابوں کو بہ نظر عمیق دیکھ کر ان کے بارے میں رپورٹ تیار کی۔
یہ معلومات اپنے عزیز دوست مولانا محمد عزیر شمس صاحب کے ایک مضمون سے لی گئی ہیں جو ہفت روزہ ’’ الاعتصام‘‘ (مورخہ ۸تا ۱۴ دسمبر ۲۰۰۶؁ء) میں شائع ہوا۔
وہ لکھتے ہیں ’’ افسوس کہ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران مرکز میں ترتیب دئیے گئے سارے کام ہنوز غیر مطبوع ہیں ۔ اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ کبھی ان کی اشاعت کی نوبت آئے گی یا نہیں۔ 
مولانا محمد عزیر شمس نے مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کی غیر مطبوعہ عربی کتابوں میں ان دو کتابوں کے نام بھی لکھے ہیں : ایک شرح ازہار العرب اور دوسری الفرقۃ الناجیہ والفرق الاسلامیہ لاخریٰ ۔ 
ان کی عربی کی مطبوعہ کتابوں میں مندرجہ ذیل کتابیں شامل ہیں۔ 
(۱)……الرحیق المختوم : سیرۃ النبی ﷺ پر عربی زبان میں ان کی یہ ایک بلند پایہ کتاب ہے۔ اس کی تصنیف کا پس منظر یہ ہے کہ ۱۹۷۶؁ء میں جب رابطۂ عالم الاسلامی (مکہ مکرمہ) کی طرف سے سیرت نگاری کے عالمی مقابلے کا اعلان کیا گیا تو مولانا ممدوح نے اس موضوع پر عربی میں ’’ الرحیق المختوم‘‘ کے نام سے کتاب لکھی اور مسودہ رابطہ عالم الاسلامی کو بھیج دیا ۔ بعض اور اہل علم نے بھی اس موضوع پر اپنے اپنے مسودات ارسال کئے لیکن ڈیڑھ سال بعد جولائی ۱۹۷۸؁ء میں پہلی ایشیائی اسلامی کانفرنس منعقدہ کراچی میں مقابلے کا اعلان ہوا تو مولانا صفی الرحمن پہلے انعام کے مستحق قرار پائے۔ مولانا ممدوح نے یہ کتاب صرف پانچ چھ مہینوں میں تیار کی تھی ۔ اس کے بعد خود مصنف نے اس کا اردو ترجمہ کیا اور کتابی شکل میں اسے مکتبہ سلفیہ (لاہور) نے نہایت اہتمام کے ساتھ شائع کیا ۔ اس کا مسودہ دینے کیلئے مولانا ممدوح ۱۹۸۴؁ء میں لاہور تشریف لائے تھے۔ مہینہ یاد نہیں رہا ، لیکن موسم سردیوں کا تھا ۔ ان سطور کے راقم کی ان سے اسی موقع پر ملاقات ہوئی تھی جو پہلی ملاقات بھی تھی اور آخری بھی ۔ اس کتاب نے بڑی مقبولیت حاصل کی اور دنیا کی کئی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے ۔ اس کتاب کی وجہ سے خود مصنف نامدار نے بھی بہت شہرت پائی۔ 
(۲)…… روضۃ الانوار:یہ کتاب بھی سیرت کے موضوع پر ہے اور عربی میں ہے۔ 
(۳)…… اتحاف الکرام: یہ حدیث کی مشہور کتاب بلوغ المرام کی شرح ہے۔
(۴)…… منۃ لمنعم شرح صحیح مسلم : صحیح مسلم حدیث پاک کی انتہائی کتاب ، مولانا نے منۃ المنعم کے نام سے اس کی شرح لکھی۔ 
(۵)…… بہجۃ النظر : یہ کتاب اصول حدیث سے متعلق ہے۔ 
(۶)…… ابراز الحق والصواب فی مسئلۃ السفور والحجاب: اس کا تعلق چہرہ کے پردہ سے ہے۔ 
(۷)…… الاحزاب السیاسۃ فی الاسلام : سیاسی جماعتوں کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر ۔
(۸)…… تطور الشعوب والدیانات فی الہند ومجال الدعوۃ فیہا : ہندوستان میں مذاہب کے ارتقا اور دعوتِ اسلامی کے امکانات کے موضوع پر۔ 
مولانا صفی الرحمن مبارک پوری کی اردو مطبوعہ کتابیں حسب ذیل ہیں ۔
(۱)…… تجلیات نبوت: سیرت سے متعلق۔
(۲)…… المصابیح فی مسئلۃ التراویح: تراویح کے مسئلہ پر امام سیوطی کی عربی کتاب کا اردو ترجمہ۔ 
(۳)…… تذکرہ شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب: یہ قطر کے ایک عالم شیخ احمد بن حجر آل بوطامی کی کتاب کا ترجمہ ہے۔ اس کے شروع میں آل سعود کی تاریخ تفصیل سے قلم بند کی گئی ہے۔ 
(۴)…… قادیانیت اپنے آئینے میں : جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ،یہ کتاب مرزائیت سے متعلق ہے۔
(۵)…… فتنۂ قادیا نیت اور مولانا ثناء اﷲ امرتسری: اس میں قادیا نیت کے بارے میں مولانا ثناء اﷲ امرتسری کی مساعی کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔
(۶)…… انکار حدیث کیوں ؟ حجیت حدیث کے موضوع پر۔
(۷)…… انکار حدیث حق یا باطل ۔
(۸) …… رزم حق و باطل۔ 
(۹)…… اسلام اور عدم تشدد۔
(۱۰)…… اہل تصوف کی کارستانیاں ۔
مولانا ممدوح کی اردو کتابیں جو ابھی تک شائع نہیں ہو سکیں یہ ہیں۔ 
(۱)…… امام ابن تیمیہ ؒ کی کتاب ’’ الکلم الطیب ‘‘ کا اردو ترجمہ
(۲)…… توضیح الاربعین للنووی کا ترجمہ
(۳)…… صحف یہود و نصاریٰ میں نبی ﷺ سے متعلق بشارتیں
مدینہ یونیورسٹی کے شعبۂ خدمۃ السنۃ والسیرۃ سے علیحدگی کے بعد مولانا ممدوح ، مولانا عبد المالک مجاہد کے قائم کردہ مشہور اشاعتی ادارے دارالسلام کے شعبۂ تحقیق و تصنیف کے نگراں کی حیثیت سے مملکت سعودیہ کی دارالحکومت ریاض چلے گئے تھے۔ وہاں انھوں نے اس ادارے کی متعدد عربی اور اردو کتابوں پر نظر ثانی کی۔ 
وہ کچھ عرصہ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر بھی رہے۔
بے حد محنتی اور مستند عالم دین تھے۔اﷲ کے معاملات کو کون ٹال سکتا ہے ۔ ان پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ مستقل مریض ہو گئے۔ اب وہ معالجوں کے زیر علاج تھے۔ لیکن چلتے پھرتے تھے ۔ کبھی ان کا قیام مدینہ میں رہتا ، کبھی ریاض میں اور کبھی اپنے وطن مبارک پور آجاتے۔ مولانا محمد عزیر شمس فرماتے ہیں ’’طبیعت بجھی بجھی سی رہتی تھی ۔ گفتگو کے وقت زبان میں تھوڑی سی لکنت ہوتی مگر توجہ سے باتیں سمجھ میں آجاتی تھیں‘‘۔ 
مولانا صفی الرحمن کا اصل کام تو درس و تدریس اور تصنیف و تالیف تھا ، لیکن دعوت و تبلیغ اور مناظرے اور مباحثے سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ ۱۹۷۸؁ء میں بنارس کے ایک مقام بجر ڈیہہ میں کسی مسئلے پر بریلویوں سے ان کا مناظرہ ہوا ۔ اس مناظرے کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مسلک اہل حدیث اختیار کرلیا اور وہاں اہل حدیث کا ایک مرکز قائم ہوگیا۔ 
منکرین حدیث کے رد میں بھی انھوں نے کتابیں لکھیں ۔ یہ کتابیں اگرچہ مختصر ہیں مگر اس موضوع کا کافی مواد ان میں جمع کردیا گیا ہے۔ ہندوستان کے علاوہ ان کے دعوتی پروگرام سعودی عرب کے بھی مختلف مقامات میں جاری رہتے تھے۔ 
مولانا صفی الرحمن کو اﷲ تعالی نے بہت سے اوصاف سے متصف فرمایا تھا۔ وہ معاملہ فہم ، منتظم، ملکی اور بین الاقوامی حالات سے باخبر اور زیرک اہل علم تھے۔ اسلامی ملکوں کی اصلاحی اور سیاسی تحریکوں سے آگاہ تھے ۔ طلباء کو بھی حصول علم کے ساتھ ساتھ ان تحریکوں سے واقفیت حاصل کرنے کی تاکید فرماتے۔
انھوں نے طویل علالت کے بعد یکم دسمبر ۲۰۰۶؁ء (۹ ذیقعدہ ۱۴۲۷ھ) کو جمعۃ المبارک کے روز اپنے مسکن حسین آباد میں وفات پائی جو کہ مبارک پور سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔
مولانا ممدوح نے مختلف مدارس کے متعدد اساتذہ سے حصول علم کیا ۔ لیکن ہمیں ان کے صرف ایک استاذ گرامی کا پتہ چلتاہے جن سے انھوں نے کتب حدیث پڑھیں اور سند فراغت لی۔ وہ ہیں حضرت مولانا شمس الحق سلفی رحمہ اﷲ ۔
پھر وہ مختلف مدارس میں طویل مدت تک فریضۂ تدریس سر انجام دیتے رہے۔ اس اثنا میں ظاہر ہے ان سے بے شمار طلبا و اساتذہ نے استفادہ کیا۔ لیکن ہمیں ان کے فقط ایک ہی شاگرد کا علم ہو سکا ہے وہ ہیں مولانا شمس الحق سلفی کے فرزند ارجمند مولانا محمد عزیر شمس صاحب۔ محمد عزیر شمس صاحب ان کے نہایت لائق محقق ، بہت سی کتابوں کے مصنف ومولف اور وسیع المطالعہ شاگرد ہیں اور بہت عرصے سے مکہ مکرمہ میں مقیم ہیں۔ اﷲ ان کی عمر دراز فرمائے اور وہ ہمیشہ تصنیف و تالیف میں مصروف رہیں۔ آمین یا رب العالمین۔
میں نے مولانا صفی الرحمن کے متعلق مختصر الفاظ میں جو کچھ لکھا ہے ، اس کا اصل ماخذ جناب محمد عزیر شمس صاحب کا مضمون ہے جو ۸؍دسمبر ۲۰۰۶؁ء کے ہفت روزہ الاعتصام میں شائع ہوا۔ 
یہاں یہ بھی عرض کردیں کہ ۱۹۸۴؁ء میں وہ جب لاہور تشریف لائے تھے تو شیش محل روڈ پر دفتر الاعتصام کے سامنے ہائی اسکول کی گراؤنڈ میں انھوں نے ایک مجنع میں تقریر کی تھی۔ جس میں ہندو ستان میں دعوت دین کے بارے میں چند باتیں بیان فرمائی تھیں اور کہا تھا کہ موجودہ حالات میں اگر وہاں حکمت و دانائی سے غیر مسلموں میں اسلام کے متعلق تقریریں کی جائیں اور خوبصورت الفاظ اور اچھے انداز میں اسلام کے معاشرتی امور اور عبادت سے متعلق احکام کی وضاحت کی جائے بالخصوص مسئلہ توحید کو صراحت سے بیان کیا جائے تو لوگ اس سے متا ثر ہوتے اور سنجیدگی کے ساتھ اپنے مذہب کے ساتھ اس کا مقابلہ کرتے ہیں اور اسلام کے نقطۂ نظر کو ترجیح دیتے ہیں ۔
اس سفر میں وہ لاہور سے بالاکوٹ بھی گئے تھے اور ہمارے مرحوم دوست مولانا عطاء اﷲ ثاقب اپنی گاڑی سے انھیں بالاکوٹ لے گئے تھے۔ مولانا عطاء اﷲ ثاقب اس قسم کے سفر نہایت شوق سے کرتے اور اہل علم کی خدمت کو اپنے لئے سعادت قرار دیتے تھے۔ 
(بشکریہ ماخوذ از گلستان حدیث از مولانا محمد اسحق بھٹی حفظہ اﷲ) 

مولانا عبد الحکیم مجاز اعظمی رحمانی رحمہٗ ﷲ

ہم بوریہ نشیں ہیں زمانے کی آبرو 
جو لوگ آسمان ہیں ہم سے ملا کریں 
(مجاز اعظمی)
مولانا عبد الحکیم رحمانی مجاز اعظمی اس دنیا میں نہیں رہے ۲۴؍ دسمبر ۲۰۱۱؁ء کی صبح تھی نماز فجر کے بعد اچانک موبائل کی گھنٹی بجی ۔ عزیزم طفیل احمد فیضی نے یہ اندوہناک خبر دی کہ مولانا مجاز اعظمی صاحب کا انتقال ہوگیا ۔زبان سے انا ﷲ و انا الیہ راجعون نکلا۔ 
خالق کائنات کا عام قانون ہے کل نفس ذائقۃ الموت ( الانبیاء :۲۵) 
موت کے قانون کا پابند قانون حیات
موت کی زد میں بہر لحظہ ہے پوری کائنات 
اگر انسان کو عمر نوح بھی میسر ہو جائے تب بھی آخری منزل شہر خموشاں ہی ہے جو آخرت کی پہلی منزل ہے۔ 
اس جہان بے وفا کو یاد رہ جائے گا کون 
تا ابد اس میں بھلا آباد رہ جا ئے گا کون 
پندرہویں صدی ہجری اور اکیسویں صدی کے اوائل کایہ بڑا حادثہ ہے کہ جناب ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری ،ڈاکٹر رضاء اﷲ مبارک پوری اور فضا ابن فیضی کے بعد اب مجاز اعظمی رحمانی بھی رخصت ہوگئے۔
رحمانیہ کی عظمت پارینہ کا امین وہ اس حریم ناز کا تھا آخری چراغ 
ان کے بعد اب اندھیرا ہے علم و ثقافت کی وادی قد آور شخصیات سے خالی ہوتی جارہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مجاز صاحب کی وفات سے اردو زبان ایک اچھے نثر نگار سے محروم ہوگئی مجاز صاحب عظیم صحافی و ادیب تھے مجاز صاحب نے ابتدائی تعلیم جامعہ عالیہ مؤ میں حاصل کی اس کے بعد اعلیٰ تعلیم جماعت کی یونیورسٹی دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں حاصل کی اور ۱۹۴۷؁ء میں فارغ ہوئے ۔ خوبصورت چہرے روشن پیشانی ، چہرے پر عینک اور منحنی قد والا یہ انسان جو کوہ وقار بنا ، دفتر میں بیٹھا تپائی پر جھکا حساب و کتاب لکھنے میں مصروف تھا جو انتہائی باریک حروف لکھنے اور پڑھنے کا عادی تھا جوڑ گھٹاؤ اور حساب و کتاب جیسا خشک کام جو علم و معرفت سے کوسوں دور اور جو ریاضی کی موشگافیاں حل کرنے پر مبنی تھا رحمانیہ کا پروردہ عالم کیسے اس پر قناعت کرسکا یا کیسے اپنے آپ کو اس میں ڈھال سکا یہ معمہ آج تک میری سمجھ میں نہ آیا۔ 
مجاز صاحب دارالحدیث رحمانیہ دہلی کی آخری یادگار تھے جو طریقہ اسلاف کے مطابق صبروقناعت کے پیکر تھے اور سادہ زندگی گزارنے کے خوگر بھی۔
شیخ الاسلام علامہ ثناء اﷲ امرتسری کے اخبار اہلحدیث کے بند ہوجانے کے بعد مولانا سید تقریظ احمد سہسوانی نے اخبار اہل حدیث دہلی سے جاری کیا تو مولانا مجاز صاحب کو اس کی ادارت میں شریک کرلیا مولانا اداریہ و مضامین کے ساتھ مستقل ’’ ملکی مطلع‘‘ کا کالم بھی لکھتے تھے ۱۹۵۳؁ء میں قائد ملت مولانا عبد الوہاب صاحب آروی صدر آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کی خواہش پر آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے آرگن ترجمان دہلی کے آپ ایڈیٹر ہوگئے ترجمان کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ۱۹۵۸؁ء تک آپ نے نہ صرف اس کی ادارت کی بلکہ اس کا سارا بوجھ بصد شوق اپنے سر پر اٹھائے رکھا اس درمیان بہت سے قیمتی مضامین پُر مغز مقالات اور مستقل ادارئیے ’’لمعات‘‘ کے عنوان سے لکھے جو تاریخ کے انمول ذخیرے ہیں۔
جامعہ عالیہ میں ایک مرتبہ مولانا عبد الجلیل صاحب رحمانی رحمہ اﷲ تشریف لائے جامعہ عالیہ کے دارالحدیث ہال میں ان کا ایک پروگرام رکھا گیا آپ نے طلبہ سے خطاب فرمایا دوران خطاب طلبہ کو قیمتی نصیحتوں سے نوازا اور مجاز صاحب سے اپنے دیرینہ تعلقات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ( واضح رہے مجاز صاحب مولانا عبد الجلیل رحمانی کے شاگرد رشید تھے) 
صدر صاحب (مولانا محمد اعظمی) کے بارے میں تو میں نہیں جانتا البتہ مجاز صاحب سے اگر آپ طلبہ کچھ سیکھنا چاہیں تو بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں مولانا رحمانی صاحب کی یہ بات پورے مؤ میں گونج گئی مولانا عبد الجلیل صاحب رحمانی کی اس تقریر کے بعد طلبہ کو مجاز اعظمی کی علمی حیثیت کا احساس ہوا اور ان کی عظمت اور علمی سطوت اس وقت سارے طلبہ کو سمجھ میں آئی کہ جامعہ کے ایک کمرہ میں بیٹھا ہوا یہ شخص علم و ادب کا نےّر تاباں ہے مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے نقیب جریدہ ترجمان کا سابق ایڈیٹر مدرسہ رحمانیہ دہلی کا خوشہ چیں اور شیخ الحدیث عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری کے شاگرد رشید ہیں ۔
جماعتی اور مسلکی غیرت آپ میں بدرجہ اتم موجود تھی کتاب و سنت اور منہج سلف کے خلاف اگر کوئی مضمون شائع ہوتا تو اس کا کتاب و سنت کی روشنی میں دندان شکن جواب لکھتے جب کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا توآپ کا قلم مسلک کے دفاع میں حرکت میں آجاتا مشہور واقعہ ہے کہ دارالعلوم دیو بند سے کچھ طلبہ کو محض اس جرم میں نکال دیا گیا تھا کہ ان کا مسلک اہل حدیث تھا انھوں نے حق پسندی اور بے چوں چرا کتاب و سنت کی پیروی کرنے کی حمایت میں زبان کھول دی تھی درمیانی سال تھا طلبہ حیران و پریشان تھے کہ جائیں تو کہاں جائیں اور کیونکر اپنی تعلیمی سال پورا کریں ۔ ارباب دیو بند کی اس نامعقول اور متعصبانہ حرکت پر مولانا رئیس احمدجعفری ندوی اور دیگر اہل قلم نے بھی سخت احتجاج و ریمارک کیا اور اس کے خلاف پُر زور مضامین لکھے ۔ مجاز رحمانی صاحب نے بھی اشعار لکھے جن میں اسلوب بلیغ کی خصوصیات جلوہ گر ہیں مجاز صاحب جب کسی دینی موضوع پر لکھتے تو ان کا اسلوب سادہ سنجیدہ اور سلیس ہوتا اور اگر شعر و سخن کے بارے میں لکھتے تو ان کا اسلوب جمال و جلال سے معمور انتہائی پُر شکوہ اور ادب عالی کا شاہکار ہوتا ذیل میں دونوں طرح کے نمونے ذکر کئے جا رہے ہیں جن میں اسلوب بلیغ کی خصوصیات جلوہ گر ہیں ۔ 
کچھ طالبان علم مجھے کل نظر پڑے معصومیت سے دیکھا کہ منھ ا ن کے بند تھے 
 یہ مختلف چمن کے ہیں گلہائے رنگ رنگ بنگال کے بہار کے یوپی کے چند ہیں 
 پھینکے گئے ہیں زہر ہلاہل سمجھ کے یہ میں نے قریب سے انھیں دیکھا کہ قند ہیں
 یہ چشمہائے خیرہ یہ گردن جھکی ہوئی آواز دے رہی ہے کہ یہ حق پسند ہیں 
 کہتی چمک ہے ان کے سروں کے غبار کی مضمار دین حق کے محجل سمند ہیں 
 ہرہر نفس میں نوحۂ مظلومیت کا سوز ہر جنبش نظر میں رموز گزند ہیں
 لب پر ستم گروں کا بھی نام احترام سے اس منتہائے غم میں بھی احسان مند ہیں
 پوچھا جو میں نے کون ہو تم آئی یہ صدا 
 ہم مجرمین مدرسہ دیوبند ہیں 
مولانا مجاز اعظمی نے ۲۰۰۴؁ء میں بموقع آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس پاکوڑ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی درخواست پر مختصر خود نوشت سوانح لکھی تھی اس میں انھوں نے اپنی کمزوری اور نقاہت کا اظہارکرتے ہوئے درج ذیل قطعات لکھے ہیں وہ قطعات ملاحظہ ہوں ۔ 
خالی متاع زیست سے جب ظرف ہوگیا 
تحلیل آہ سرد میں ہر حرف ہوگیا 
اب گرمی حیات کا کیا خواب دیکھنا 
جودل کہ پہلے دل تھا وہی برف ہوگیا 
یوں چلوں سر خم کہ جیسے عمر رفتہ کی تلاش 
آگے بڑھتا جاؤں اس سے دور ہوتا جاؤں میں
میرے چہرے کی لکیروں پر حروف آخریں
سب پڑھیں پڑھنے سے خود معذور ہوتا جاؤں میں 
ایک سال حالات کچھ زیادہ دگر گوں تھے مسلمانوں پر بالخصوص مدارس اور اہل مدارس پر بیرونی اور اندرونی حملے زیادہ تھے اس سے متاثر ہوکر مولانا نے جو نظم لکھی اور جو پیغام دنیا کو دیا وہ آپ ہی کا حصہ تھا بطور مثا ل ایک مصرعہ آپ بھی سنتے چلیں ۔
ہم بوریہ نشیں ہیں زمانے کی آبرو 
جو لوگ آسماں ہیں ہم سے ملا کریں 
اب مولانا مجاز صاحب کی نثر نگاری بھی ملاحظہ فرمائیں یہ ایک تعزیتی پیغام ہے جو ڈاکٹر رضاء اﷲ مبارک پوری کی وفات پر لکھا گیا تھا ۔
’’ جامعہ عربیہ کے ایک صدی سے جس خانوادہ کے عظیم سرپرست کے ساتھ علمی استفادے کے تعلقات رہے ہیں آج اس کی تیسری کڑی مولانا ڈاکٹر رضاء اﷲ مدنی کی جدائی ادارہ کے جملہ اراکین اور متوسلین کے لئے بڑا سوہان روح ہے محدث کبیر ابوالعلیٰ محمد عبد الرحمن مبارک پوری صاحب تحفۃ الاحوذی سے جامعہ کو اتنی عقیدت تھی کہ ادارہ کی پہلی روداد میں آپ کا معائنہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے اور مرور زمانہ کے بعدان کے حفید شہیر مولانا رضاء اﷲ مبارک پوری نائب امیر مرکزی جمعیہ اہل حدیث ہند اور شیخ الجامعہ السلفیہ بنارس نے اپنے جد امجد کی یا د علمی دنیا میں تازہ کر دی افسوس ابھی پانچویں دہائی میں عمر عزیز گزررہی تھی کہ قضائے الٰہی نے ہم سے چھین لیا آسمان پر ستارے ہزاروں طلوع ہوتے ہیں اور ان کی کچھ جھلک بھی رہتی ہے لیکن ماہ تاباں کی روشنی عالم گیر ہوتی ہے مولانا مرحوم ملت اسلامیہ کے لئے علمی فکری اور ثقافتی حیثیت سے ماہ مبین کی حیثیت رکھتے تھے اور اس کی آخری منزل کی طرف رواں دواں تھے کہ دوران سفر اﷲ کو پیارے ہوگئے اور آپ کی وفات بھی دین کی راہ میں سفر غربت میں ہوئی اور یہ شعر صادق آتا ہے ؂
مل کے خاروں سے دشت غربت میں 
آبلے پھوٹ پھوٹ کر روئے 
علالت میں بھی بے چین دل نے دین کی راہ میں طویل سفر کا حوصلہ دیا اور دوران سفر مولانا رضاء اﷲ ہم سے جدا ہوگئے اور رضائے الٰہی سے ہمکنار ہوئے۔ اس دردناک سانحہ پر جامعہ عالیہ عربیہ مؤ کے اراکین اساتذہ طلبہ اور تمام متعلقین باچشم نم مجسم تعزیت ہوکر مرحوم کیلئے رفع درجات کی اور خانوادۂ مرحوم کیلئے صبر جمیل کی دعا کرتے ہیں اور ان کے نعم البدل کے لئے بھی قاضی الحاجات سے التجا کرتے ہیں ۔ ( محدث بنارس جون تا ستمبر ۲۰۰۳؁ء ص: ۳۲) 
مولانا مجاز اعظمی صاحب ترجمان دہلی سے علیحدگی کے بعد ۱۹۶۲؁ء سے ۱۹۶۸؁ء تک جماعت اسلامی کے آرگن ’’ دعوت دہلی ‘‘ سے منسلک رہے اور مستقل ’’ فکر و نظر ‘‘ کا کالم لکھتے رہے اس میں مضامین کے ساتھ ’’ کوہ پیما‘‘ کے عنوان سے روزانہ ایک قطعہ بھی لکھتے تھے جس سے ملک کے سیاسی حالات پر تبصرہ ہوتا تھا۔ 
ناچیز دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فراغت کے بعد مفکر ملت مولانا عبد الجلیل صاحب رحمانیؒ کے مشورہ پر ۱۹۶۶؁ء میں دہلی آگیا اور اخبار ’’ اہل حدیث‘‘ دہلی جو اس وقت محترم حافظ محمد یحےٰی صاحب کی نگرانی میں نکل رہا تھا منسلک ہوگیا پورے تین سال تک ’’ اخبار اہل حدیث‘‘ کا اداریہ سے لے کر دوسرے مضامین کی ترتیب ، پروف ریڈنگ پریس سے جانے سے لیکر بائنڈنگ کرانے تک سارے کام خاکسار ہی کو انجام دینا پڑتا تھا ، اس کے علاوہ بعد نماز مغرب چار گھنٹہ ’’ دعوت دہلی‘‘ میں بھی وقت دیتا تھا اس وقت مولانا مجاز اعظمی اخبار ’’ دعوت‘‘ دہلی سے وابستہ تھے۔ یہی وہ مبارک ساعت ہے کہ مولانا مجاز اعظمی سے ملاقات ہوئی اور ہم مسلک اور فکر و نظر میں یکسانیت ہونے کی وجہ سے دوری قربت میں بدل گئی۔ 
مولانا مجاز اعظمی خلیق ملنسار اور شفیق انسان تھے ان کے ساتھ تین سال کام کیا اور بہت کچھ استفادہ کیا ۱۹۶۹؁ء میں چند خانگی مجبوریوں کی وجہ سے والد محترم کی طلب پر گھر آگیا اور مولانا مجاز اعظمی صاحب بھی کچھ دنوں کے بعد اپنے وطن مؤواپس آگئے اور اپنے مادر علمی جامعہ عالیہ عربیہ سے وابستہ ہوگئے اور آخری سانس تک اس ادارہ کی خدمت انجام دیتے رہے۔
مولانا مجاز اعظمی سے برابر تعلق قائم رہا ۔ ۱ ؂ سال میں جب کوئی پروگرام بنتا تو مولاناکی خدمت عالیہ میں ضرور حاضری دیتا اور مختلف مسائل پر دیر تک گفتگو ہوتی رہتی چند سال پہلے اپنی کتاب خانہ ساز شریعت اور آئینہ کتاب و سنت پر مقدمہ لکھوانے کی غرض سے حاضر ہوا آپ نے دلچسپی سے مطالعہ فرمایا پھرایک ُپرمغز مقدمہ لکھ کر ہماری ہمت افزائی فرمائی۔فجزاہ اﷲ خیرا لجزاء
یہ مقدمہ پیام مسرت کے عنوان سے کتاب کی زینت ہے اور اردو ادب کا شاہکار ہے ملاحظہ فرمائیں۔ 
’’ اس مسافر کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ جس نے ایک منزل متعین کی ہو لیکن اس کے قدم مخالف سمت کی طرف بڑھ رہے ہوں اس کے حوصلے اتنے بلند ہوں کہ باوجود باد وباراں کا
 ۱؂ پرانے لوگوں میں یہ خوبی تھی کہ وہ آپس کے پرانے تعلقات کو یاد رکھتے اور نباہتے تھے اب یہ قدریں ختم ہوگئیں اب تعلقات کی بنیاد مفادات قرار پاگئے ہیں جب تک کسی کو کسی سے کوئی مفاد وابستہ ہے تعلق قائم ہے مفاد ختم ہوا تو تعلق بھی ختم ہو گیا۔ (عبد الرؤف ندوی) 
کے قدم مخالف سمت کی طرف بڑھ رہے ہوں اس کے حوصلے اتنے بلند ہوں کہ باوجود باد وباراں کا طوفان یا تمازت آفتاب کی شدت اس کے قدموں کو آگے بڑھنے سے نہ روک سکے وہ اس گمان میں بڑھتا چلا جائے کہ منزل مطلوب کی سمت اس کا سفر ہے لیکن درحقیقت وہ منزل سے ہر قدم پر مزید دور ہوتا جائے ۔ یقیناً اس مسافر کے جہل و نادانی پر ہر صاحب بصیرت کو افسوس ہوگا اس بد نصیب مسافر سے ملتا جلتا حال ان مسلمانوں کا ہے جو خود ساختہ و غیر مستند رسوم و اعمال کو فضائل کا درجہ دے کر اپنی مادی پونجی اور جسمانی توانائی کی قربانی دے رہے ہیں بیت اﷲ کے ان تین سو ساٹھ بتوں کو ذہن میں رکھئے جو حق و باطل کی معرکہ آرائی میں سامنے آئے تھے اور اس فرمان خدا کو بھی یاد رکھئے جس میں ( من اتخذ اٰلٰھہ ہواہ الایۃ) کہکر ہوائے نفس کے تراشیدہ اعمال کو الٰہ کا درجہ دینے والو ں کی مذمت کی گئی ہے اور پھر روز افزوں مسلمان کہلانے والوں میں نئی نئی شرعی ایجادات پر نظر دوڑا کر اندازہ کیجئے تو اس تصور سے آپ کی روح کانپ جائے گی کہ یہ عجوبہ پسندی اور عجوبہ طرازی کہیں ان اصنام کعبہ کی تعداد سے تجاوز نہ کر جائے ہمیں خوف ہے کہ امم سابقہ کے نقش قدم پر حذو النعل بالنعل چلنے کی جو علامت قرب قیامت صادق و مصدوق ﷺ کی زبان مبارک نے بیان فرمائی تھی اس کا مصداق یہی رسوم پرستی کی ارتقائی منزل نہ ہو ۔
شریعت کے نام ہر محدث و بدعت کی نمود کو اہل حق نے گمراہی سے تعبیر کیا ہے اور امت کو ان بدعات سے باز رکھنے کے لئے اپنے اندر سیمابی جہاد کو امت کے لئے گلشن رحمت و رأ فت کے پھول سے تشبیہ دی جائے تو بجا ہے اسی طرح کی ایک سعی مبارک ہمارے عزیز دوست مولانا عبدالرؤوف ندوی صاحب نے اس تالیف کے ذریعہ کی ہے موصوف اخبار اہل حدیث دہلی کے ادارۂ تحریر میں جن دنوں شامل تھے وہ ان کا ابتدائی دور تھا پھر بھی اسی وقت آپ کی تحریری سلاست روی سے قارئین متاثر تھے اب تو تین دہائیوں تک تحریری استمرار نے ان کو کہاں سے کہاں تک پہونچا دیا ہے ۔ اﷲم زد فزد 
زیر نظر کتاب جستہ جستہ دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولف نے امت کی نبض پر انگلی رکھ کر صحت یا مرض کی غائرانہ تشخیص بھی کی ہے اور اس کا علاج بھی مستند حوالوں سے متعین کیا ہے ہمیں بڑی مسرت ہے کہ موصوف نے اس حساس موضوع پر توجہ کی کتاب اپنے موضوع پر جامع مفید اور ایک اہم ضرورت کی تکمیل ہے اﷲ تعالیٰ مؤلف موصوف کو مزید توفیق فخر نگاری عطا فرمائے آمین ‘‘ 
مجاز اعظمی 
۲۱؍نومبر ۱۹۹۲؁ء 
میں نے مجاز صاحب کے فکر انگیز تحریروں اور نظموں سے متعدد اقتباسات اس لئے لکھے ہیں تاکہ نئی نسل کو ان کی استعداد وصلاحیت کا اندازہ ہو اور یہ بھی معلوم ہو کہ ہر میدان میں ان کا قلم کتنا اعتماد سے رواں رہتا تھا اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس نقصان عظیم کی تلافی کی کیا صورت ہوگی۔ 
کس کس کو روئیں ہم کس کس کا ماتم ہم کریں 
ایک دن ہم سے بھی خالی یہ جہاں ہوجائے گا 
مولانا مجاز رحمانی صاحب کی شخصیت میں جو دلآویزی جماعتی و مسلکی تڑپ علمی انہماک تدبر و تفکر آداب و اطوار زہد ورع فہم و فراست امانت و دیانت تعلیمی و تحقیقی صلاحیت کتاب و سنت کا ذوق اور عملی سیرت و کردار کے نقوش دکھائی دیتے ہیں ان کے باعث ان کے علمی کارنامے دعوتی سر گرمیاں نظم و نثر کی پختگی مدتوں یاد رکھی جائیں گی ۔ وہ طبعاً ذہین تھے مطالعہ کے ذوق و شوق نے ان کے ہاں وسعت علمی کا وہ جہاں آباد کیا کہ اس کے ایمان افروز اخلاق آموز اثرات ان کی تمام کتابوں میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ان کی شخصیت کا اصل جوہر اور حقیقی اظہار ان کے مقالات مضامین، اداریوں سے ہوتا ہے ۔ 
ربّ رؤف سے بندہ عاصی کی دعا ہے کہ مولانا کی لغزشوں سے در گذر فرمائے اپنی رحمت بے پایاں سے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ آمین
عبد الرؤف خاں ندوی 
مدیر 
مجلس التحقیق الاسلامی تلسی پور بلرام پور یوپی 
مولانا مجاز نمبرمجلہ افکار عالیہ مؤ شمارہ جنوری تا مارچ ۲۰۱۲؁ء 



٭٭٭




علامہ محمد رئیس ندوی رحمہٗ اﷲ 

جہاں بینی مری فطرت ہے لیکن کسی جمشید کا ساغر نہیں میں
آپ کا شمار بر صغیر کے معتبر اور بلند پایہ علماء میں ہوتا ہے آپ کی نظر تفسیر حدیث علوم حدیث ، فقہ اصول فقہ ، رجال تاریخ اور سیرو مغازی پر بے حد گہری تھی اور ہر فن میں بے پناہ مطالعہ رکھتے تھے خاص طور پرفن اسماء والرجال میں ذہبی دوراں تھے۔ 
شیخ مولانا عبد الرزاق عبد الغفار سلفی مدنی تحریر فرماتے ہیں ۱؂ 
میرے ناقص علم کی حد تک بر صغیر کی سطح پر اس فن میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب مشہور زمانہ محدث علامہ انور شاہ کشمیری کے شاگرد خاص اور داماد نے امام بخاری ؒ اور ان کی کتاب صحیح بخاری پر غیر مستند تحریروں اور من گھڑت افسانوں سے زہریلی تنقید کا آغاز کیا اور اس کو انور شاہ کشمیری کے افادات کا مجموعہ قرار دے کر اس کی اہمیت کو دو چند کرنے کی ناکام کوشش کی تو استاذ محترم علامہ محمد رئیس صاحب ندوی نے ان کے ہفوات کا اس قدر شدید علمی محاسبہ اور لا جواب محاکمہ کیا کہ پوری دیو بندی جماعت میں زلزلہ آگیا اس کے فضلا نام نہاد محدثین اور بے مایہ علماء جواب دینے سے قاصر و عاجزرہے علامہ محمدرئیس ندوی کی تحریروں میں سچائی سادگی اور خلوص کی جھلک ہے ہر تحریر میں بالغ نظر ی اور فکر کی پختگی دلائل و براہین کے ساتھ نظر آتی ہے ایک وقت تھا کہ مولانا عامر عثمانی دیو بندی کا علمی دنیا میں بڑا چرچا اور شوربپا تھا ادبی و صحافتی دنیا میں خوب خوب چرچا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی چرب زبانی سے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ یعنی عامر عثمانی صاحب علم اور زبان و بیان کی انتہائی بلند ترین چوٹی پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ جہاں تک کسی دوسرے کی پہونچ اور رسائی ممکن نہیں ہے مگر جب علامہ محمد رئیس صاحب ندوی ؒ نے ان کا شدید 
۱؂ ماہنامہ نور توحید کرشنا نگر نیپال شمارہ ستمبر اکتوبر ۲۰۱۱؁ء ص: ۱۷ 
علمی تعاقب کیا اور عامر صاحب کی ہمالیائی زعم باطل کو دلائل کی روشنی میں مٹی کا ڈھیر ثابت کردیا مولانا عبد الرزاق سلفی مزید لکھتے ہیں ۔۱؂
علامہ محمد رئیس ندوی رحمہ اﷲ علم میں بے نظیر اور تحقیق میں بے عدیل تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کی جملہ تحریریں تحقیقی انداز میں علمی رفعت ووسعت ہمالہ کی بلندی اور سمندر کی وسعت و گہرائی سے بھی ماوراء تھی مولانا ندوی کی تحریروں میں ان کے جگر کا لہو شامل ہے ۔ ان کی جملہ کتابوں کی خاصیت یہ ہے کہ قاری کو غور و فکر پر ابھارتی ہیں ۔ فکر ونظر اور تدبرکی دعوت دیتی ہیں تقلید جامد کے بندھن کو توڑتی ہیں فکر و عمل میں راستی پیدا کرتی ہیں اور کتاب و سنت کی سچی اور سیدھی راہ دکھاتی ہیں آپ کی کتابوں کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلاف سے متعلق جو کتابوں میں پڑھا گیا ہے آپ اس کی ایک زندہ مثال تھے ۔ محنت میں ذکاوت میں جد و جہد میں تلاش حق میں اور تحقیق تو آپ کے مزاج میں رچی بسی تھی یہی وجہ ہے کہ دوران طالب علمی ہی میں آپ نے کتاب و سنت کا دامن مضبوطی سے تھام لیا اور ببانگ دہل اس کا اعلان بھی کردیا‘‘ 
علامہ محمد رئیس ندوی رحمہ اﷲ ڈاکٹر رضاء اﷲ مدنی مبارک پوری ؒ سے گفتگو کر تے ہوئے فرماتے ہیں ( واضح رہے علامہ محمد رئیس ندوی ؒ پہلے دیو بندی مسلک کے تھے) 
جب تحقیق انداز میں حنفی دیوبندی مذہب اور اہل حدیث کا تقابلی مطالعہ میں نے شروع کیا تو نواب صدیق حسن خاں بھوپالی کی کتابوں کے بعد میں سب سے زیادہ آپ کے دادا
 ( علامہ عبد الرحمن محدث مبارک پوری) کی کتابوں خصوصاً تحفۃ الاحوذی اور ابکار المنن سے متاثر ہوا اور اپنے آبائی مذہب یعنی دیوبندی مذہب کو ترک کرکے عملی طور پر اہل حدیث ہوگیا وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں میرا فراغت کا آخری سال تھا ۔
۱؂حولہ مذکور
میرے اس طریق عمل سے بعض اساتذہ طلبہ کو غم و غصہ اور دکھ ہوا ، مگر میرے صحیحین کے استاذ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی الحسنی الندوی رحمہ اﷲ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا خوب اچھی طرح تقابلی مطالعہ کے بعد پورے خلوص کے ساتھ فیصلہ کیا ہے یا کسی ذاتی منفعت کے لئے تم نے تبدیلی مذہب اختیار کی میں نے عرض کیا کہ نہیں بلکہ مجھے اہل حدیث مذہب اختیار کرنے میں آپ کا طریق درس بلکہ صحیحین بھی بڑی حد تک داعی ہوا آپ کا طریق درس بلکہ محدثانہ اور غیر جانب دارانہ بالکل علمائے سلف اہل حدیث جیسا ہے اس پر مولانا علی میاں ندوی رحمہ اﷲ مسکراپڑے اور انھوں نے کہا ہر معاملہ میں اخلاص اور عدل و انصاف کو ہی پیش نظر رکھنا۔ 
فارغ ہونے کے بعد حضرت مولانا علی میاں ندوی کے حکم و مشورہ کے مطابق سلفی درسگاہوں میں درس و تدریس کا کام کرتا رہا ۔ (خصوصی شمارہ محدث جون تا دسمبر ۲۰۰۳؁ء ص: ۵۴) 
یہ ایک کہانی تھی علامہ ندوی کے تلاش حق کی اس کے بعد ان کی پوری زندگی اسی تلاش حق میں گذری اور جو بات بھی حق کے خلاف نظر آئی اس کا خوب خوب پوسٹ مارٹم کیا الغرض ندوی صاحب مفسر تھے ، محدث تھے،فقیہ تھے ، مناظر تھے ، مشہور مصنف تھے ۔ آپ میں زہد ورع ، فہم فراست امانت ، دیانت ، تعلیمی و تحقیقی استعداد ، کتاب و سنت کا ذوق، اور عملی سیرت و کردار کے نقوش دکھائی دیتے ہیں وہ طبعاً بہت ذہین و فطین تھے ان کی شخصیت کا اصل جوہر اور حقیقی اظہار ان کی تصانیف و تراجم سے ہوتا ہے علامہ محمد رئیس ندوی کا قلم شستہ پیرایہ شگفتہ اور سادگی میں پرکاری کے نقوش ان کی تحریر کا خاصہ تھا ۔
علامہ ندوی کا قلم تھا کہ اس کی روانی نیل و فرات کی لہروں کو مات دے رہی ہے آپ کے نکلے ہوئے الفاظ قارئین کے دل و دماغ پر انمٹ نقوش ثبت کر رہے ہیں ا ن کے پڑھنے والوں کا حلقہ جغرافیائی حدود سے ماورا ہے جو ان کی پذیرائی اور لوگوں کی ان سے محبت کا منھ بولتا ثبوت ہے ندوی صاحب کا طرز تحریر طرز درس اور طرز بیان سادہ اور دل میں اتر جانے والا ہے اسی طرح گفتگو بھی نہایت اسلوب میں کرتے تھے عام فہم اور دلنشیں سننے والا کسی صورت اکتا تا نہیں اور نہ الفاظ کے بوجھ تلے دبتا تھا مستقبل کا مورخ علامہ ندوی کی تصانیف سے کسی صورت بے نیاز نہیں رہ سکتا کیونکہ علامہ ندوی کی کتابوں میں معلومات کا ایک جہان آباد ہے ۔ انھیں معلومات کا دفینہ اور علوم کا خزینہ کہنا چاہیئے ندوی صاحب کے ذمہ جامعہ سلفیہ بنارس میں مستقل فتویٰ نویسی کا کام بھی سپرد تھا جو آپ بحسن و خوبی انجام دیتے تھے ۔ 
ندوی صاحب عرصہ سے بیمار تھے بنارس کے اسپتال میں داخل کئے گئے وقت اجل آپہونچا اور جامعہ سلفیہ بنارس میں ۹؍مئی ۲۰۰۹؁ء کو رات تقریباً ۱۱؍بجے آپ کی وفات ہوئی اور جامعہ سلفیہ بنارس کے چند طلباء کے ہمراہ آپ کی لاش کو آپ کے وطن بھٹیا لائی گئی ہزاروں علماء و عوام و خواص شاگرد ، محبین و معتقدین کی موجودگی میں گفتار کردار کے اس پرُ خلوص شخصیت کو ان کے آبائی قبرستان میں دفن کردیا گیا ۔ نماز جنازہ فضیلۃ الشیخ محمد مستقیم سلفی استاذ جامعہ سلفیہ بنارس کی امامت میں ادا کی گئی آئیے ہم سب ملکر ان کیلئے بارگاہ الہی میں مغفرت کی دعا کریں ۔ اﷲم اغفر لہم وارحمہء واجعل لہم الجنۃ ماویٰ 
ورق تمام ہوا مدح ابھی باقی ہے 
سفینہ چاہیئے اس بحر بیکراں کیلئے 
عبد الرؤف خاں ندوی 
تلسی پور بلرام پور یوپی 
۲۵؍مئی۲۰۰۹؁ء 
علامہ محمد رئیس ندوی اپنی نظر میں
ولادت: میرے والدین اور دادی دادا اور نانی نا نا کے کہنے کے مطابق میری ولادت ۷ جولائی ۱۹۳۷؁ءمیں میرے آبائی گھر بھٹیا مروٹیا بازار ضلع بستی یوپی میں ہوئی پہلے ضلع گورکھپور کا ایک حصہ تھا اور فی الحال اس ضلع بستی میں تین اضلاع بن چکے ہیں میرا آبائی مکان جس ضلع میں واقع ہے اس کا نام سدھارتھ نگر ہے اور تحصیل قصبہ بانسی ہے جو دس کلو میٹر بجانب مشرق واقع ہے تحریک شہید ین کے زمانے میں ہمارے ضلع گورکھپور کے بہت سارے اہل علم اس تحریک سے وابستہ رہے بانسی کے قاری عبد الحق صاحب کے آبا و اجداد اور مجھوا میر کے مولانا میر جعفر صاحب وغیرہ اس تحریک میں روح رواں کی حیثیت رکھتے تھے مگر میں نے اپنی طالبعلمی کے دور میں مجھوا میر کا سفر کیا اور میر جعفر کے خاندان کا پتہ لگایا لیکن معلوم ہوا کہ اس گاؤں میں کوئی بھی شخص اہل حدیث نہیں ہے البتہ بانسی مسلم اکثریت اہل حدیث ہے جس کے سلفی مدرسہ و جامعہ پر مودودی لوگ اپنی معروف حکمت عملی سے قابض ہو گئے ہیں ۔
نام و نسب : میر ا نسب نامہ تحریری طور پر محفوظ نہیں کیونکہ اخلاف میں علوم سے ربط نہیں رہا البتہ دادا صاحب کے بیان کے مطابق نسب نامہ اس طرح ہے : محمد رئیس ندوی ولد سخاوت علی ولد محمد باقر بن جہانگیر بن رجب علی اس کے آگے کانسب معلوم نہ ہو سکا ہمارا خاندان انصاری کہلاتا ہے جس کی وجہ سے رفیق محترم مولانا صفی الرحمن صاحب ( الرحیق المختوم) دلائے اسلام ہے یعنی کہ ہمارے اجداد کسی انصاری بزرگ کے ہاتھ پر اسلام لائے تھے جیسے کہ امام بخاری ؒ کے اجداد میں کوئی صاحب یمان جعفی کے ہاتھ پر ایمان لائے تو وہ اس رشتہ کے سبب اپنے کو یمانی جعفی کہتے لگے میرا یہ نام میرے دادا نے تحریر کیا تھا جو ایک سو بیس سال کی عمر میں ۱۹۵۳؁ء میں فوت ہوئے وہ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے صاحب علم تو نہیں تھے لیکن مالدار بہت تھے اور غیر مسلم زمیندار بھی بکثرت ان کی پاپوشی کے لئے حاضر ہوتے اور اہم امور میں ان سے مشورہ کرتے میں اپنی والدۂ محترمہ کی ہدایت کے مطابق دادا ،دادی کی بہت خدمت کرتا اسی لئے مجھے دونوں بہت مانتے تھے اور یہ بہت دیندار اور اقرباء پرور اور غرباء و مساکین کی مالی و معنوی امداد کرتے تھے۔ 
تعلیم : جس زمانہ میں میں پیدا ہوا اس سے تھوڑے دنوں پہلے ہمارے گاؤں میں مکتب کی تاسیس مولوی پیر علی کی جد و جہد سے ہوئی اس موقع پر جو دینی اجلاس ہوا اس میں سلفی علماء ہی مدعو کئے گئے تھے مثلاً حضرت العلام مولانا جھنڈا نگری مولانا عبد التواب ملتانی مولانا عبد الغفار رفیق مولانا محمد زماں رحمانی انتری بازاروغیرہم میں پانچ سال سے بھی کم تھا کہ میری والدہ نے مجھے نماز پنجگانہ پر مواظبت کرائی اور گاؤں کے مکتب نیز نانہال میں رہنے کے زمانہ میں وہاں کے مکتب میں نیز نانا صاحب سے پڑھنے کی تاکید کی اس وقت دونوں ہی مکتب میں صرف دو درجات کی تعلیم ہوتی تھی پھر ہم اپنے گاؤں سے قریب واقع پرائمری اسکول میں داخل ہوگئے پرائمری پاس کیا اس زمانہ میں پرائمری کے سارے اساتذہ غیر مسلم تھے مکتب کے اساتذہ منشی معین الحق و منشی عبد المجید و منشی رضا تھے مروٹیا ہی میں میں نے جونیر ہائی اسکول پاس کیا پرائمری اور جونیر ہائی اسکول میں پڑھنے کے زمانے میں سردی کے مہینے میں استاذ کے گھر یا اسکول کی عمارت میں پڑھنے جانا ہوتا تھا اور اساتذہ بڑی محنت سے پڑھاتے تھے ان کی اردو معلومات آج کل کے اچھے خاصے مولانا صاحبان سے بھی کہیں زیادہ تھی ۔
میں نے جونیر ہائی اسکول کے بعد پرائیویٹ طریقہ پر ہائی اسکول مدرسہ بدریہ پکا بازار بستی ( جو ندوہ کی شاخ تھا) میں رہ کر پاس کیا ادھر دینی عربی اور فارسی تعلیم بھی جاری رہی اور پھر ۱۹۵۷؁ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ جاکر داخلہ لیا پکا بازار بستی و دارالعلوم ندوۃ العلماء کے اساتذہ ۱؂ میں مشہور یہ ہیں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی الحسنی الندوی رحمہ اﷲ (ان سے میں نے حدیث کی سند اجازت بھی حاصل کی جو سید نذیر حسین محدث دہلوی و علامہ عبد الرحمن محدث مبارک پوری صاحب تحفۃ الاحوذی وغیرھما تک پہونچتی ہے یہ سند میں نے کمپوٹر سے طبع بھی کرالی ہے۔ 
فراغت کے بعد : دارالعلوم ندوۃ العلماء سے فارغ ہونے پر ۱۹۶۰؁ء میں مدرسہ بدریہ پکا بازار اور پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ناظم مولانا علی میاں کے حسب ارشاد پڑھاتا رہا پھر مولانا ہی کے حسب مشورہ میں جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگرگیا اور مولانا موصوف کے حسب مشورہ دارالعلوم احمد یہ سلفیہ دربھنگہ بہارمیں پڑھایا اور قاری عبد الحق بانسی کی تحریر پر میں ۱۹۶۹؁ء میں جامعہ سلفیہ بنارس درس و تدریس کے لئے مقرر ہوا تب سے آج تک میں جامعہ سلفیہ بنارس ہی میں اپنے فرائض انجام دے رہا ہوں۔ 
غیر تدریسی درس قرآن وحدیث: یہ میری خوش نصیبی ہے کہ زمانہ طالب علمی ہی سے جو پروگرام حضرت مولانا عبد الغفار ندوی بستوی کے زیر اہتمام چلتا تھا اور سال کے تین مہینوں کی چھٹی میں جب وہ اپنے گھر چلے جاتے تھے تو میں جامع مسجد پکا بازار میں مولانا ہی کے حکم کے مطابق بعد نماز فجر درس قرآن اور بعد نماز مغرب درس مثنوی مولانا روم دیا کرتا تھااور یہ سلسلہ جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں بھی جاری رہا حتیٰ کہ کئی کلو میٹر سے بھی لوگ میرے درس قرآن میں شریک 
  ۱؂ مولانا ندوی کے قابل ذکر اساتذہ میں سے مولانا سید ابوالحسن علی الحسنی ندوی مولانا محمد رابع الحسنی الندوی موجودہ ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ مولانا محمد اسحق سندیلوی ندوی مولانا ابوالفضل عبد الحفیظ بلیاوی صاحب مصباح اللغات مولانا اسباط صاحب قاسمی مولانا مفتی ظہور احمد ندوی مولانا اسحق بلگرامی وغیرہم (عبدالرؤف خاں ندوی)
ہونے کے لئے جامع مسجدجھنڈا نگر میں چلے آتے ۔ مولانا جھنڈا نگری بذات خود پورے درس میں موجود رہتے اور بعض باتیں نوٹ بھی کرتے رہتے یہ سلسلہ بحمد اﷲ دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ میں بھی جاری رہا ۔ البتہ جامعہ سلفیہ بنارس میں اس کا رواج نہیں ۔ 
خطابت: جب تک میں جھنڈا نگر رہا خطبہ جمعہ میں ہی دیتا تھا بلکہ زمانہ طالب علمی میں بھی بکثرت نماز جمعہ پڑھانے اور خطبہ دینے جاتا رہا تبلیغی جماعتوں کے جلسوں میں حاضر ہوتا اور موقع بموقع ان میں بھی خطاب کرتا مگر سات سالوں سے ہارٹ اٹیک کا مریض چل رہا ہوں بنا بریں معالج کی ہدایت کے مطابق تقریر و خطاب سے قاصر ہوں۔ ہاں صرف درس دیتا ہوں۔ 
تصانیف: دارالعلوم ندوۃ العلماء کی عا لمیت سال آخر میں ایک مقالہ پیش کرنا ضروری قرار دیا گیا تھا میں نے ’’ الیہود فی القرآن ‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھا اسے دیکھ کر اساتذہ کرام نے بہت تعریف کی اور حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ نے مجھے تاریخ یہود پر ایک کتاب لکھنے کا مشورہ دیا اور مراجع فراہمی کا وعدہ کیا اور اپنا ذاتی کتب خانہ میرے حوالہ کردیا میں نے زمانہ طالب علمی ہی میں چار ضخیم جلدوں میں یہ کتاب بڑی محنت و توجہ و دیدہ ریزی و دماغ سوزی سے لکھا پانچویں جلد بھی آدھی سے زیادہ لکھ چکا تھا مگر افسوس میری یہ اہم کتاب کسی کی نظر کا شکار ہوگئی اور وہ منظر عام پر آنے سے پہلے مفقود ہو گئی دوبارہ اسے لکھنے کی بالکل ہمت نہیں ہوئی کیونکہ میں مولانا ابوالحسن علی الحسنی الندوی کی صحبت و استفادہ سے محروم ہو چکا تھا ۔ جھنڈا نگر آیا تو ایک بدعتی کی کتاب شاہد کے جواب کے لئے مجھ سے مولانا جھنڈا نگری نے کہا میں نے لکھ دیا جسے انھو ں نے’’ تصحیح العقائد بابطال شواہد الشاہد‘‘ کے نام سے چھپوا دیا ۔ پھر یہی کتاب کئی گنا اضافات کے ساتھ جامعہ سلفیہ میں طبع ہوئی باقی کتابو ں کے نام یہ ہیں ۔ 
(۳) اللمحات الی ما فی انوار الباری من الظلمات: اس کی چار ضخیم جلدیں شائع ہو گئی ہیں پانچویں جلد بھی جامعہ سلفیہ بنارس کے شعبۂ طباعت میں منتظر طباعت ہے چھٹی اور آخری جلد زیر تصنیف ہے۔ 
(۴) ……اسلام میں نماز کا حکم :یہ کتاب مطبوع ہے ۔
(۵)…… غایۃ التحقیق فی اضحیۃ ایام التشریق : یہ کتاب کئی بار متعدد جگہوں سے چھپ چکی ہے ۔
(۶)…… تحویل قبلہ (یہ کتاب کشمیر کی صوبائی جمعیت اہل حدیث نے شائع کی ہے) 
(۷)…… تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق: یہ کتاب بھی مطبوع ہے اس کے کئی ایڈیشن طبع ہو چکی ہے۔ 
(۸)…… سیرت امام ابن حزم (مطبوع) 
(۹)…… علوی مالکی سے دو دو باتیں (مطبوع) 
(۱۰)…… سیرت ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ( یہ کتاب بھی مطبوع ہے) 
(۱۱)…… ضمیر کا بحران ۔ ( یہ کتاب بھی مطبوع ہے)
(۱۲)…… قصہ ایام قربانی کا ۔ ( یہ کتاب بھی مطبوع ہے)
(۱۳)…… رکعات تراویح ۔ ( یہ کتاب بھی چھپ چکی ہے)
(۱۴)…… ایانہ۔ یہ کتاب دربھنگہ میں چھپی ہے۔تین سو صفحات سے زیادہ کی ہے ۔
(۱۵)…… کتابچہ کا جواب دو جگہوں سے مطبوع ہے ۔
(۱۶) …… مفقود الخبر شوہر کا شرعی حکم ۔
(۱۷)…… صحت نکاح کیلئے ولی اور کفو کی شرط 
(۱۸)…… تاریخ اہل حدیث ہند اس کی پہلی ہی جلد ایک ہزار صفحات سے زیادہ ہے۔ 
(۱۹)…… خطبات نغمہ حدیث جامعہ محمد یہ مالیگاؤں 
(۲۰) …… سیرت آدم علیہ السلام 
(۲۱)…… کتاب العقیقہ 
(۲۲)…… اولاد حضرت ام المومنین خدیجۃ الکبری ( زیر تصنیف) 
(۲۳)…… سیرت علامہ نذیر احمد املوی رحمانی ۔ یہ کتاب اخبار اہل حدیث میں کئی قسطوں میں چھپی ہے ۔
(۲۴)…… دیو بندی تحفظ سنت کانفرنس پر سلفی نظریہ یہ کتاب ممبئی کی جمعیۃ چھپوارہی ہے اور بھی کچھ کتابیں ہیں جن کا ذکر عمداً نہیں کررہا ہوں۔ 
اولاد: میری دو شادیا ہوئیں پہلی بیوی سے صرف ایک بچی ہے جو فضیلۃ الشیخ محمد اسماعیل مدنی کے زیر نکاح ہے اس سے سات لڑکے اور دولڑکیاں ہیں ۔ دوسری بیوی سے پانچ لڑکیاں اور ایک لڑکا عبد الحق ہے ۔

٭٭٭




 ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اﷲ 

(تاریخ پیدائش ۱۸؍اگست ۱۹۳۹؁ءوفات۰ ۳؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)؁
نگہ بلند سخن دلنواز جاں پُر سوز یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے 
ہندوستان کے صوبہ یوپی کے ایک شہر کا نام مؤ ناتھ بھنجن ہے جو کپڑے کی صنعت ، علمی مرکز اور علمائے دین کا مسکن ہونے کی بنا پر صدیوں سے مشہور ہے ۔ اس شہر کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس میں سلفی حضرات کے تین بڑے مدارس قائم ہیں ۔ ایک جامعہ عالیہ عربیہ ، دوسرا جامعہ اسلامیہ جسے مدرسہ فیض عام کہا جاتا ہے اور تیسرا جامعہ اثریہ ۔ ان کے علاوہ چھوٹی سطح کے متعدد مدارس جاری ہیں ۔ 
وہاں کے بڑے مدارس نے بے حد شہرت پائی ہندوستان کے مختلف علاقوں اور صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلباء ان میں داخل ہوئے اور انھوں نے علوم دینیہ حاصل کئے پھر وہ تصنیف و تالیف ، دعوت و ارشاد اور درس و تدریس میں مشغول ہو گئے ۔ یہ وہ حضرات ہیں جن کی خدمات کے دائرے علم و عمل کے مختلف شعبوں میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ 
اس شہر کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ یہاں کے انیس علمائے کرام نے حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی سے کتب حدیث پڑھیں اور ان سے سند فراغت لی۔ 
اسی علمی اور صنعتی شہر ( مؤ ناتھ بھنجن) کے ایک خاندان کے ممتاز عالم دین ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری تھے جو ۱۸؍اگست ۱۹۳۹؁ء ( ۲۲؍جمادی الاخریٰ ۱۳۵۸ ؁ھ ) کو پیدا ہوئے ۔ 
وہ اصلاً ایک غریب اور علم سے نا آشنا گھرانے کے فرد تھے ، لیکن اﷲ نے ان کو علم کی بہت بڑی دولت سے نوازا تھا۔ معاشی اعتبار سے بھی انھیں بہت کچھ حاصل ہوا ، ان کے متعلق ان سے قریبی روابط رکھنے والے دہلی کے ایک اہل علم جناب اطہر افضال صاحب کا مضمون ۱۶؍دسمبر ۲۰۰۹؁ء کے ’’ ترجمان‘‘ (دہلی )میں شائع ہوا ہے ، جس میں وہ ان کے خاندانی اور ذاتی پس منظر کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 
’’ جب سے اردو میں بن پڑھے لکھنے والوں کی بہتات ہوئی ہے ، باذوق قارئین کی جان پر بن آئی ہے اور علم و تحقیق کی مٹی الگ پلید ہو رہی ہے ۔ اس کی ایک مثال تو یہی ہے کہ ان کے نز دیک ہر چھوٹا بڑا عالم وفات کے بعد ’’ معروف علمی خاندان‘‘ کا فرد ہو جاتا ہے ۔ ازہری صاحب ( ڈاکٹر مقتدیٰ حسن) کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ شاید علمی لحاظ سے نابالغ ان قلم کاروں نے یہ مفروضہ قائم کرلیا ہے کہ کوئی بھی عظیم شخصیت عام خاندان میں جنم نہیں لے سکتی، جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔ خود ازہری صاحب مؤ کے ایک عام خاندان کے فرد تھے ۔ نہ کوئی علمی پس منظر ، نہ لوح و قلم سے کوئی رابطہ ۔ وہاں سیف و سنان کی روایت تھی۔ لیکن ننیہال کا ماحول بالکل برعکس تھا ۔ نانا مولانا محمد نعمان میاں صاحب ( حضرت سید نذیر حسین دہلوی) کے متاخرین تلامذہ میں سے تھے اور اردو کے پہلے ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے شاگرد بھی۔ انھوں نے مؤ سے بہت دور عمر آباد (مدراس) میں اپنا علمی آشیانہ بنایا اور خلق کثیر نے ان سے دین کے رموز اور دعوت کے اصول سیکھے۔ 
’’ ڈاکٹر ازہری کے والد ایک جفاکش بُنکر کپڑا بننے والے تھے ، جنھیں جنون کی حد تک اولاد کو تعلیم دلانے کا شوق تھا۔ والدہ ایک وسیع المطالعہ اور دور اندیش خاتون تھیں، جن کو علماء سے عقیدت تھی ۔ والدہ ان کو پیار سے بابو کہا کرتی تھیں ۔ از ہری صاحب ، حافظ ہوئے مولوی، مولانا بنے ۔ قاہرہ گئے اور ڈاکٹر بنے لیکن ماں کے لئے وہی رہے ۔ ’’ مؤ بنکروں (کپڑا بننے والوں ) کی بستی ہے ۔ ازہری صاحب نے بھی سوت اور ساڑی کے درمیان آنکھ کھولی اور عمر کا ایک حصہ اس دشت کی سیاحی میں گزرا۔ کرگھے کی گہرائی سے وہ علم کی اونچائی تک پہونچے ، اور وہاں تک پہونچے جہاں اکثر لوگوں کے پر جلتے ہیں ۔ وہ زمینی آدمی تھے ۔ آسمان دانش تک پہونچنے کے بعد بھی زمین سے ان کا رشتہ بر قرار رہا ۔ انھوں نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ غربت اور افلاس کے جتنے روپ ہو سکتے ہیں ، وہ بہت پہلے ہی ان سے روبرو ہو چکے تھے۔ وسائل کی قلت ، معیشت و معاش کی غیر یقینی صورت حال اکثر پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے، لیکن انھوں نے کانٹوں کے بیچ رہ کر زندگی بسر کرنے کی خو کرلی تھی۔‘‘ 
ان چند سطروں میں ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری کا خاندانی پس منظر خوب صورت الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے اور بتا دیا گیا ہے کہ دوہیال کی طرف سے وہ کس حیثیت کے مالک تھے اور ننہیال کی طرف سے کیا صورتِ حال تھی۔ 
فاضل مضمون نگار جناب اطہر افضال صاحب کا یہ فرمان بالکل صحیح ہے کہ جو اہل علم و فات پا جاتے ہیں ، ہم انھیں ’’ معروف علمی خاندان کافرد‘‘ قرار دینا اپنے آپ پر فرض ٹھہرا لیتے ہیں اور ان کے والد گرامی ہمارے نزدیک ضرور’’ مولانا ‘‘ ہوتے ہیں۔ حالانکہ ان کا اصل اعزاز یہ ہے کہ وہ ایک معمولی خاندان میں پیدا ہوئے اور غربت کی حالت میں پرورش پائی اور علم وعمل کے اعتبار سے بہت بڑے مرتبے پر پہنچے۔ عالم کے بیٹے کا عالم ہونا اتنا بڑا کمال نہیں ، جتنا کہ ان پڑھ کے بیٹے کا علم کی مختلف منزلیں طے کرنا ہے۔ 
ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری نے تعلیم کا آغاز مدرسہ دارالعلوم سے کیا جو مرزا ہادی پورہ کی شاخ ہے ۱۹۵۳؁ء میں وہاں سے حفظ قرآن کی سند لی پھر اسی شہر کے مختلف سلفی مدارس میں تعلیمی مراحل طے کئے۔ جامعہ عالیہ عربیہ سے ۱۹۵۹؁ء اور ۱۹۶۲؁ء کے درمیانی عرصے میں صوبہ یوپی کے سرکاری تعلیمی بورڈ میں ’’مولوی‘‘ مولوی عالم اور مولوی فاضل‘‘ کے امتحانات دئیے اور ان میں کامیاب ہوئے۔
اس کے بعد مصر گئے اور جامعہ ازہر میں داخلہ لیا ، ۱۹۶۶؁ء وہاں کے شعبہ اصول الدین میں ایم اے کی سند حاصل کی ۔ جامعہ ازہر میں حصول تعلیم کے دوران مصری ریڈیو کے اردو شعبے میں اناؤنسر اور مترجم کے فرائض انجام دیتے رہے۔ یہ ایک بڑا منصب تھا، جس پر وہ ایک غیر ملک میں فائز کئے گئے۔
جامعہ ازہر ہی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا ، لیکن اس اثنا میں حالات ایسے پیدا ہوئے کہ اپنے وطن (ہندوستان) واپس آگئے اور سلسلہ تدریس شروع کردیا۔ اسی اثنا میں ان کے دل میں اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کا جذبہ ابھرا تو ۱۹۷۲؁ء میں ایم فل کیا۔ پھر اس سے تین سال بعد ۱۹۷۵؁ء میں علی گڑھ مسلم یونیور سٹی سے’’ادب عربی‘‘ میں پی ایچ ڈی کی سند لی ۔ اس طرح ان کا طویل تعلیمی سفر اختتام کو پہنچا اور انھوں نے ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری کے نام سے شہرت پائی۔ 
اب تاریخ وار ان کے تعلیمی ، تدریسی اور تصنیفی کوائف ملاحظہ فرمائیے۔ 
نام: مقتدیٰ حسن 
والد کا نام : محمد ےٰسین بن محمد سعید 
والدہ کا نام: بلقیس خاتون بنت مولانا محمد نعمان اعظمی شیخ الحدیث(تلمیذ میاں سید نذیر حسین دہلوی ) 
تاریخ پیدائش: ۸؍اگست ۱۹۳۹؁ء مطابق ۲۲ جمادی الاخریٰ ۱۳۵۸؁ھ 
بمقام: محلہ ڈومن پورہ ،مؤ ناتھ بھنجن ، یوپی 
تعلیم :
پرائمری: مدرسہ عالیہ عربیہ ، مؤ ناتھ بھنجن
حفظ قرآن کریم: شاخ دارالعلوم واقع مرزا ہادی پورہ ، مؤ ناتھ بھنجن ۱۹۵۳؁ء
عربی کی ابتدائی تعلیم تا ثانویہ: مدرسہ عالیہ عربیہ ، مؤ ناتھ بھنجن ۱۳۲۷؁ھ مطابق ۱۹۵۴ ؁ءتا ۱۹۵۷؁ء
عا لمیت: جامعہ اسلامیہ فیض عام مؤ ناتھ بھنجن ۱۳۷۷؁ھ تا ۱۳۸۰؁ھ مطابق ۱۹۵۷؁ء تا ۱۹۶۰؁ء
فراغت: جامعہ اثریہ دارالحدیث ، مؤ ناتھ بھنجن ۱۹۶۱؁ء ( ۱۳۸۰ھ) 
عربی و فارسی بورڈ اتر پردیش کی ڈگریاں 
مولوی : ۱۹۵۹؁ء
عالم: ۱۹۶۰؁ء
فاضل : ۱۹۶۲؁ء 
جامعہ ازہر مصر کیلئے روانگی: ۱۹۶۳؁ء
ایم ، اے : جامعہ ازہر مصر ۱۹۶۶؁ء 
ایم ، فل : علی گڑھ مسلم یونیور سٹی ۱۹۷۲؁ء 
ڈاکٹریٹ: (پی ،ایچ ،ڈی ) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ۱۹۷۵؁ء 
مقالے کا عنوان: تخریج احادیث بہجۃ المجالس لابن عبد البر (الجز ثانی) 
زیر نگرانی : پروفیسرمختار الدین آرزو صاحب 
تدریسی مصروفیات: 
(۱)…… جامعہ اسلامیہ فیض عام مؤ ناتھ بھنجن : دوسال 
(۲)…… علی گڑھ مسلم یونیو سٹی ( عربی ادب کی تدریس) ایک سال 
(۳)…… جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم ) بنارس ۱۹۶۸؁ء تا ۲۰۰۹؁ء ۲۴؍سال 
مشہور اساتذہ کرام :
(۱) مولانا عبد المعید بنارسی (۲) مولانا حبیب الرحمن فیضی (۳) مولانا عبداﷲ شائق مؤی (۴) مولانا عظیم اﷲ مؤی(۵) مولانا شمس الحق سلفی (۶) مولانا محمد الاعظمی(۷) مولانا عبد الرحمن بن شیخ الحدیث عبیداﷲ مبارک پوری (۸) ڈاکٹر شوقی ضیف (۹) ڈاکٹر علی عبدالواحد دانی (۱۰) مولانا عبد العلی بن شیخ عبد اﷲ مؤی۔ 
تالیفات و تراجم : 
اردو تصانیف 
(۱)…… تاریخ ادب عربی (۵ حصے) مطبوع
(۲)…… خاتون اسلام مطبوع
(۳)…… مسلم نوجوان اور اسلامی تربیت مطبوع
(۴)…… عصر حاضر میں مسلمانوں کو سائنس و ٹیکنا لوجی کی ضرورت مطبوع
(۵)…… قرآن کریم پر غور و تدبر مذہبی فریضہ ہے مطبوع
(۶) رمضان اور عید الفطر تربیتی نقطہ نظر سے مطبوع
(۷)…… ہندوستان میں تحریک اہل حدیث اور جدید تقاضے مطبوع
(۸)…… شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود اور مملکت توحید سعودی عرب۔ مطبوع
(۹)…… مسلمان اور اسلامی ثقافت غیرمطبوع
(۱۰)…… ہم کیا پڑھیں غیرمطبوع
(۱۱)…… اسلام اور انسانی سماج مطبوع
عربی تالیفات 
(۱۲)…… منصور الفقیہ حیاتہ و شعرہ غیرمطبوع
(۱۳)…… نظرۃ الی مواقف المسلمین من احداث الخلیج مطبوع
(۱۴)…… مشکلۃ المسجد البابری فی ضوء التاریخ والکتابات المعاصرۃ ۔مطبوع
(۱۵)…… حقیقۃ ا لأدب ووظیفتہ مطبوع
(۱۶)…… قراۃ فی کتاب’’ الحالۃ خلیقہ للعالم الاسلامی‘‘ للأستاذ اسرار عالممطبوع
(۱۷)…… القادیا نیہ غیر مطبوع 
اردو اور فارسی سے عربی تراجم
(۱)…… قضایا کتابۃ التاریخ الاسلامی و حلولہا از :ڈاکٹر ےٰسین مظہر صدیقی مطبوع
(۲)……رحمۃ اللعالمین (تین جلد) از :قاضی محمد سلیمان منصور پوری مطبوع
(۳)…… اسلام تشکیل جدید للحضارۃ ۔ از: شیخ محمد تقی الامینی مطبوع
(۴)…… بین الانسان الطبعی والانسان الصناعی۔ از :شیخ محمد تقی الامینی مطبوع
(۵)…… عصر الالحاد، خلیہۃ التاریخیۃ و بدایۃ نہایۃ ۔ از :شیخ تقی الامینی مطبوع 
(۶)…… النظام الالٰہی للرقی والانحطاط(اردو مضمون کا ترجمہ) 
از :مولانا محمد اسماعیل گوجراں والا مطبوع
(۷)……حرکۃ الانطلاق الفکری وجہود الشاہ ولی اﷲ (تحریک آزادیٔ فکر اورشاہ ولی اﷲ کی مساعی جمیلہ ) ۔
از :مولانا محمد اسماعیل سلفی گوجراں والا مطبوع
(۸)…… مسئلۃ حیاۃ النبی ﷺ از: مولانا محمد اسماعیل سلفی گوجراں والا ۔مطبوع
(۹)…… زیارۃ القبور از: مولانا محمد اسماعیل سلفی گوجراں والا مطبوع
(۱۰)…… النصرانیۃ الحاضرۃ فی ضوء التاریخ والبحث العلمی 
از: علامہ مصلح الدین اعظمی مطبوع
(۱۱)…… حجیۃ الحدیث النبوی الشریف 
از :مولانا محمد اسماعیل سلفی گوجراں والا ۔مطبوع
(۱۲)…… قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین از: شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی۔ غیر مطبوع 
(۱۳) …… الاکسیر فی اصول التفسیر از: نواب صدیق حسن خاں قنوجی مطبوع
(۱۴)…… جماعۃ المجاہدین از: مولانا غلا م رسول مہر غیر مطبوع 
عربی سے اردو 
(۱)…… راہِ حق کے تقاضے از :علامہ ابن تیمیہ ترجمہ مختصر اقتضاء الصراط المستقیم 
(۲)…… مختصر زاد المعاد از: محمد بن عبد الوہاب ترجمہ مختصر زاد المعاد فی ھدی خیر العباد 
(۳) …… اصلاح المساجد از:محمدجمال الدین قاسمی ترجمہ اصلاح المساجد من ابدع والعوائد
(۴)…… آپ بیتی از: عباس محمود العقاد ترجمہ 
(۵)…… عظمت رفتہ از: عبد الحلیم عویس ترجمہ سقوط ثلاثین دولۃ 
(۶)…… رسالت کے سائے میں از: عبد الحلیم عویس ترجمہ فی ظلال الرسولﷺ 
(۷)…… خادم حرمین شریفین کا حقیقت افروز بیان ترجمہ کلمات متقاۃ من خادم الحرمین الشریفین ۔
(۸)…… اسلامی شریعت میں اعضا کی پیوند کاری عرب مشائخ کے مقالات کا ترجمہ 
تحقیقات و تعلیقات 
(۱)…… فتح المنان بتسہیل الاتقان علامہ سیوطی کی مشہور کتاب الاتقان کی تلخیص 
(۲) …… حصول المأ مول من علم الأصول یہ نواب صدیق حسن خاں کی کتاب ہے۔ اس پر ازہری صاحب کے تعلیق و حاشیہ ۔
(۳)…… أزمۃ الخلیج فی میزان الشرع والعقل عرب مشائخ کے مقالات کا مجموعہ 
مقالات کی تعداد 
صوت الجامعہ (عربی) و صوت الامۃ میں شائع ہونے والے مقالات کی تعداد ۔ ۳۵۸ عربی مجلہ ’’المنار‘‘ میں شائع ہونے والے مقالات کی تعداد ۲۲ عربی ۔
صوت الجامعہ( اردو ) و محدث میں شائع ہونے والے مقالات کی تعداد ۲۰۰ ۔ اردو 
۱۹۶۳؁ء سے ۱۹۷۲؁ء کے درمیان مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے مقالات و مضامین کی تعداد ۱۵۔ اردو ۔
مجلہ’’ افکار عالیہ ‘‘ جامعہ عالیہ عربیہ مؤ میں شائع ہونے والے مقالات کی تعداد ۱۱۔ اردو 
کانفرنس و سیمینار
ملک و بیرون ملک کانفرنسوں و سمیناروں میں پیش کئے گئے مقالات کی تعداد ۴۰ 
تقدیم و تعارف 
(۱) …… مطبوعات ادارۃالبحوث الاسلامیہ جامعہ سلفیہ بنارس 
اردو مطبوعات پر تقدیم کی تعداد: ۹۰ 
عربی مطبوعات پر تقدیم کی تعداد: ۶۰ 
اس کے علاوہ ہندی اور انگریزی زبان کی کتب پر تقدیم کی تعداد: ۸ 
(۲)…… ملک کے مختلف حصوں کے علمائے کرام کی کتب پر تقدیم وتعارف کی تعداد: ۲۸
(۳)…… تقدیم و تاثرات مطبوعات الفہیم مؤ ناتھ بھنجن کی تعداد: ۱۰
(۴)…… تقدیم و تاثرات بر کتب مولانا عبد المبین منظر تعداد : ۷ 
مختلف اوقات میں اعزازات و مناصب 
(۱)…… رکن علی گڑھ مسلم یونیور سٹی ، علی گڑھ
(۲)…… رکن مسلم پرسنل لا بورڈ (ہند)
(۳)…… رکن مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند 
(۴)…… رکن عالمی رابطہ ادب اسلامی 
(۵)……رکن جمعیۃ المثقفین لتوعیۃ الاسلامیۃ 
(۶)…… رکن رابطۃ العالم الاسلامی مکہ المکرمہ (مساجد بورڈ) 
(۷)…… رکن دینی تعلیمی کونسل اتر پردیش 
(۸) …… وکیل الجامعۃ السلفیہ (مرکزی دارالعلوم ) بنارس ۲۰۰۶؁ءتک 
(۹)…… مدیر ادارۃ البحوث الاسلامیہ بالجامعۃ السلفیہ ۲۰۰۶؁ء تک 
(۱۰)…… صدر جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم ) بنارس
(۱۱)…… سرپرست مجلس ندائے وقت مؤ ناتھ بھنجن 
(۱۲)…… رکن تعلیمی کمیٹی ، جامعہ محمدیہ مالیگاؤں 
(۱۳)…… رکن ادارہ اصلاح المساجد ،بمبئی
چند اہم اسفار 
(۱) سعودی عرب (۲) کویت (۳) متحدہ عرب امارات (۴) قطر (۵) بحرین (۶) قاہرہ (۷) انڈونیشیا (۸) پاکستان (۹) امریکہ (۱۰) لندن 
ایوارڈ ز
(۱)…… صدر جمہوریہ ایوارڈ : ۱۹۹۳؁ء۔ یہ ایوارڈ انھیں عربی کے ماہر عالم کی حیثیت سے دیا گیا 
(۲)…… فریوائی ایوارڈ: ۲۰۰۲؁ء ۔پروفیسر ڈاکٹر عبد الرحمن فریوائی۔ یہ ایوارڈ ہر سال کسی اہل علم کو دیتے ہیں ۔ اسے ڈاکٹر صاحب کے والد مکرم کے نام سے عبد الجبار فریوائی ایوارڈ کہا جاتا ہے ۔یہ معلومات ماہنامہ’’محدث‘‘ (بنارس) نومبر ۲۰۰۹؁ء سے لی گئی ہیں۔
مجموعی طور پر ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری نے مندرجہ ذیل خدمات سر انجام دیں۔ 
٭…… مختلف مدارس میں تدریس 
٭…… اردو تصانیف 
٭…… اردو اور فارسی کی متعدد کتابوں کے عربی زبان میں تراجم 
٭…… عربی کتابوں کے اردو تراجم 
٭…… ہندی ، انگریزی، عربی، اردو زبانوں میں مقالات 
٭…… عربی رسالے صوت الجامعہ اور صوت الامہ کی ادارت 
٭…… اردو رسالہ ’’محدث‘‘ (بنارس) کی ادارت 
٭…… تقریر و خطابت 
تصانیف کی نسبت ڈاکٹر صاحب کا تراجم کا کام زیادہ ہے اور یہ بہت اہم کام ہے ۔ 
ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری نے جن مصنفین کی اردو اور فارسی تصانیف کو عربی میں منتقل کیا ، اصحاب علم میں ان مصنفین کو بے حد اہمیت حاصل ہے اور ان کی ترجمہ شدہ تصانیف بھی بڑی اہم ہیں ۔ وہ جلیل القدر شخصیات ہیں حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی ، حضرت سید نواب صدیق حسن خاں قنوجی ، علامہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری، شیخ محمد تقی امینی، مولانا محمد اسماعیل سلفی ، علامہ مصلح الدین اعظمی ، ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی اور مولانا غلام رسول مہر۔ 
پھر جن حضرات کی عربی تصانیف کا اردو ترجمہ کیا ، علمی دنیا میں ان کامقام بہت بلند ہے ، اور وہ ہیں امام ابن تیمیہ ، شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب ، شیخ محمد جمال الدین قاسمی، عباس محمود العقاد ، عبد الحلیم عویس۔
جامعہ ازہر(قاہرہ) سے واپسی کے بعد ۱۹۶۸؁ء میں ڈاکٹر صاحب جامعہ سلفیہ (بنارس) کی مسند درس پر متمکن ہوئے اور پھراس کی ترقی کے لئے زندگی وقف کردی ۔ تدریسی، تنظیمی، تصنیفی، صحافتی تمام خدمات جامعہ سلفیہ کے سپرد کردیں ۔ ۱۹۶۸؁ء سے ۲۰۰۹؁ء تک یعنی تا دم وفات جامعہ سلفیہ ہی کو انھوں نے خدمت کا مرکزی نقطہ قرار دے رکھا ۔ ۴۲ برس کی یہ طویل مدت ہے جو اس مردِ باہمت نے یہاں گذاری ۔ وہ انیس برس کی جوان عمر میں یہاں آئے۔ ستر برس کے بڑھاپے کو پہونچے تو فرشتۂ اجل نے ان کی درِ حیات پر دستک دی اور وہ نہ صرف جامعہ سے بلکہ دنیا ہی سے رخصت ہو گئے۔ 
وہ بنارس کی جامعہ سلفیہ کے مدرس اور معلم ہی نہ تھے ، اس کے نگران اور منتظم بھی تھے۔ طلبا کو تعلیم سے بہرہ ور کرنے کے ساتھ ساتھ وہ ان کی تربیت کا بھی پورا اہتمام کرتے تھے ان کی نگاہ تیز طلبا کی ہر حرکت کا جائزہ لیتی رہتی تھی۔ طلبا کو نماز پڑھتے ہوئے بھی وہ دیکھتے رہتے کہ وہ کس انداز میں یہ فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ ایک طالب علم پر نگاہ پڑی تو دیکھا کہ وہ حالت نماز میں بار بار اپنی قمیص درست کررہا ہے اور رکوع و سجود میں جاتے ہوئے اس میں جو شکنیں پڑ گئی ہیں ، انھیں ہاتھ سے ختم کرنے کیلئے کوشاں ہے …… فرمایا : مولانا ! نماز میں آئرن (استری) رکھا کریں ، کپڑے میں جہاں شکن پڑی ، اسے فوراً استری سے ٹھیک کر لیا۔ 
ایک مرتبہ نماز میں حاضری کے وقت ایک طالب علم نے کسی کا نام غلط پکاردیا تو مسجد میں بیٹھے سب نمازی ہنسنے لگے ۔ ڈاکٹر صاحب نے کھڑے ہوکر فرمایا : حاضری کے دوران کسی کا نام غلط پکارنا عیب نہیں ۔ لیکن ایک دینی ادارے میں نماز جیسی بنیادی عبادت کے لئے نام پکارنا خود آپ لوگوں کے عیب کا آئینہ دار ہے ۔ مطلب یہ کہ نماز کے لئے آپ لوگوں کا حاضر ہونا مشکوک ہے ۔
وہ طلبا کو اردو اور عربی میں کسی نہ کسی موضوع پر لکھنے کی تاکید کرتے اور کوشش فرماتے کہ وہ مستقبل میں اچھے معلم ہونے کے ساتھ بہت اچھے مصنف اور مقالہ نگار بھی ثابت ہوں۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک مرتبہ اہتمام کیا کہ جامعہ سلفیہ کے طلبا اسلامیات کے ساتھ سیاسیات ، سائنس ، تاریخ ،جدید عربی ادب، علم کلام اور دیگر مختلف موضوعات سے بھی باخبر ہوں ، اس کے لئے انھوں نے مسلم یو نیور سٹی علی گڑھ ، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور بعض دیگر جامعات کے اساتذہ کی خدمات حاصل کیں اور جامعہ سلفیہ میں ان کے لیکچروں کا اہتمام کیا۔ یہ بہت عمدہ منصوبہ تھا ، لیکن جامعہ کے بعض اساتذہ نے اسے پسند نہیں کیا اور کہا کہ ہم اتنی دیر پڑھارہے ہیں، یہ لیکچرار ہم سے زیادہ علم نہیں رکھتے ۔ مجبوراً ڈاکٹر صاحب کو یہ سلسلہ بند کرنا پڑا۔ 
ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری صاحب ہر وقت اپنے آپ کو مشغول رکھتے تھے ۔ تدریس سے فارغ ہوتے تو تحریر کا سلسلہ شروع کر دیتے ۔ کبھی کسی کتاب کا ترجمہ ، کبھی مقالہ نگاری ، کبھی کسی کتاب کا مقدمہ کبھی کسی پر تبصرہ ، شور ہو ہنگامہ ہو سفرہو ، حضر ہو ، وہ ہر حالت میں کسی علمی کام میں مصروف رہتے۔ کتابوں سے تعلق ان کا اصل مشغلہ تھا ۔ آخری بیماری کی حالت میں بھی ان کے مطالعہ کا شغل جاری تھا۔ اور ’’ مولانا ابوالکلام آزاد اور مسلم سماج کی اصلاح‘‘ کتاب ان کے سامانِ سفر میں موجود تھی ۔ غالباً وہ اس کتاب کے متعلق کچھ لکھنا چاہتے تھے ۔ لیکن موت نے انھیں اس کا موقع نہیں دیا۔ 
ان کی تحریری خدمات میں فتویٰ نویسی بھی شامل ہے ۔ اﷲ نے ان کو بہت سی خصوصیات سے نوازاتھا اور ان کے علم و مطالعہ کا دائرہ بہت وسیع تھا ۔ افسوس ہے پاکستان کے لوگ ہندوستان کے اہل علم سے متعلق زیادہ واقفیت نہیں رکھتے ۔ ( میں خود بھی انہی ناواقفوں میں شامل ہوں) اسی طرح ہندوستان کے لوگ پاکستان کے اصحاب علم کی مساعی سے آگاہ نہیں ۔ تقسیم ملک کے بعد بدقسمتی سے علم بھی تقسیم ہوگیا ۔ اُدھر کا علم اُدھر رہ گیا اور اِدھر کا علم اِدھر ! حالانکہ بٹوارہ ملک کا ہوا تھا علم کا نہیں۔ 
ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری کو مختلف اوقات میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی تین کانفرنسوں کی مجلس استقبالیہ کے صدر منتخب کیا گیا۔ ان کانفرنسوں میں انھوں نے تحریری خطباتِ استقبالیہ ارشاد فرمائے۔ وہ کانفرنسیں مندرجہ ذیل ہیں :
٭…… مؤ کانفرنس: منعقدہ ۱۴،۱۵،۱۶؍اپریل ۱۹۹۵؁ء 
٭…… پاکوڑ کانفرنس: منعقدہ ۱۳،۱۴،۱۵؍مارچ ۲۰۰۴؁ء 
٭……دہلی کانفرنس: منعقدہ ۱۸، ۱۹؍اکتوبر ۲۰۰۸؁ء 
وہ مسلمانوں کے نمائندہ کی حیثیت سے غیر مسلموں کے جلسوں میں بھی شرکت کرتے اور اسلام کی حقانیت بیان فرماتے۔ ہندوستان میں وہ مسلمانوں کے مشہور مبلغ اور مقرر تھے۔ اسلام کی تبلیغ ان کی زندگی کا اصل مقصد تھا اور وہ ہمیشہ اس میں مصروف رہے۔ 
ان کے شاگردوں کی تعداد بہت وسیع ہے ، جن میں مولانا صلاح الدین مقبول احمد
 ( کویت) ریاض (سعودی عرب) کی امام محمد بن سعود یو نیور سٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عبد الرحمن فریوائی اور مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے ناظم اعلیٰ اور اخبار’’ ترجمان‘‘ دہلی کے ایڈیٹر مولانا اصغر علی امام مہدی شامل ہیں ۔ یہ وہ حضرات ہیں جو عربی اور اردو کے مشہور مصنف اور مترجم ہیں۔ ان میں سے مولانا صلاح الدین مقبول احمد کے حالات میں اپنی کتاب ’’ دبستان حدیث ‘‘ میں لکھ چکا ہوں۔ ڈاکٹر عبد الرحمن فریوائی اور مولانا اصغر علی امام مہدی کا تذکرہ 
’’ گلستان ِ حدیث‘‘ میں کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری ہندوستان میں اسلام کے سر گرم داعی اور عظیم مبلغ تھے۔ افسوس ہے وہ اچانک داغ مفارقت دے گئے۔ وفات سے ایک ہفتہ قبل انھیں کمر سے پاؤں تک شدید درو ہوا ، اور انھیں دہلی کے ایک بڑے اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اسپتال کے ماہر ڈاکٹروں نے ان کا علاج شروع کیا ، لیکن مرض بڑھتا گیا ۔ ۲۹؍اکتوبر ۲۰۰۹؁ء کو جمعرات کے روز پانچ بجے شام ڈاکٹروں نے جواب دے دیا اور صاف لفظوں میں کہا کہ اب یہ صرف پانچ چھ گھنٹے زندہ رہ سکیں گے۔ اس وقت ان کے چھوٹے صاحب زادے ڈاکٹر فوزان احمد (پروفیسر شعبہ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی) اور دیگر رشتہ دار اسپتال میں موجود تھے۔انھوں نے جلد از جلد انھیں اپنے وطن مؤ ناتھ بھنجن پہنچانے کی کوشش کی چنانچہ وہ ایمبو لنس کے ذریعہ انھیں لے کر گھر کو روانہ ہوئے ۔ کانپور پہنچے تو ان کا انتقال ہوگیا ۔ اس وقت صبح کے پانچ بج کر سولہ منٹ ہوئے تھے۔ جمعہ کا دن تھا اور تاریخ تھی ۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۹؁ء (۱۰؍ذی قعدہ ۱۴۳۰؁ھ ) عیسوی حساب سے انھوں نے ستر سال دو مہینے بائیس دن اور قمری حساب سے بہتر سال چار مہینے آٹھ دن عمر پائی ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون 
ان کی نماز جنازہ بعد نماز ِ مغرب چھ بجے ادا کی گئی۔ جامعہ سلفیہ بنارس کے نائب صدر مولانا شاہد جنید سلفی بنارسی نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں اعظم گڑھ ، مبارک پور ، بنارس، ضلع سدھارتھ نگر ، بستی، گونڈہ ، بلرامپور،نیپال وغیرہ کے لا تعداد لوگوں نے شرکت کی ۔ جنازے کے بعد انھیں اپنے آبائی قبرستان (مؤ ناتھ بھنجن ) دفن کیا گیا ۔ 
اﷲم اغفر لہ وارحمہ و عافہ عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ و ادخلہ جنت الفردوس۔ 
(بشکریہ ماخوذ گلستانِ حدیث از مولانا محمد اسحٰق بھٹی حفظہ اﷲ ) 

٭٭٭

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔