پروفیسر قمر حسین فاروقی رحمہ اﷲ
مسلم یونیورسٹی علی گڈھ کی ایک ممتاز شخصیت
(سال وفات: ۱۹۹۲ء)
سر سید احمد خاں نے مسلمانوں کی عصری تعلیم کے لئے جو ادارہ قائم کیا تھا اور جس کو آج دنیا علی گڈھ مسلم یونیور سٹی علی گڈھ کے نام سے جانتی ہے، اس نے مسلمانوں میں جدید تعلیم کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے بلکہ آج وہی ہندوستانی مسلمانوں کا واحد سہارا ہے جہاں وہ اپنی نئی نسل کو اپنی تہذیبی خصوصیات کے ساتھ عصری تعلیم دلا رہے ہیں ۔ یونیور سٹی کے محترم ذمہ داروں نے ہمیشہ اس کی بھلائی اور ترقی کے لئے جدوجہد کی ہے اور اس کے لئے ہر طرح کی قربانی پیش کی ہے ۔ یہاں تیس پینتیس ہزار طلباء رہتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے والدین اور ملک کا نام روشن کرتے ہیں ۔یونیورسٹی کے تمام اقامتی ہالوں میں مسجدیں موجود ہیں جن میں ائمہ حضرات امامت اور طلبہ کی تربیت پرمامور ہیں ۔ یہ امتیاز دنیا میں صرف علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کو حاصل ہے کہ اس کے کیمپس میں اتنی بڑی تعداد میں مسجدیں پائی جاتی ہیں ۔ جامع مسجد اس کے علاوہ ہے جو سر سید رحمہ اﷲ کی تعمیر کردہ ہے ۔ ایک عرب ملک کے طالب علم دوست نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ رفیق صاحب اتنی مسجدیں عرب ملک کے کسی یونیورسٹی میں بھی نہیں پائی جاتی ہیں ۔وہ نماز کے سلسلہ میں طلبہ کی کوتاہیوں کا تذکرہ کررہے تھے ۔بعض حضرات اپنی ذاتی مفادات کے لئے یونیورسٹی کے ہر شیخ الجامعہ کو مطعو ن کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت واقعہ ہے کہ کوئی بھی وائس چانسلر یہاں چاہے جس ذہن و مزاج کا حامل بن کر آتا ہو لیکن یہاں پہنچ کر وہ اپنی ملت کے بچوں کے ساتھ غداری نہیں کر سکتا۔ یہاں کی فضا ہی کچھ ایسی ہے کہ اس میں سانس لیتے ہی اسلام ، مسلمان، اسلامی تاریخ اور اسلامی تہذیب و ثقافت اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ اس کے سامنے آجاتی ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا جو مسلم امت کے مفادات کو نقصان پہنچانے والا ہو۔ یہاں جو بھی وائس چانسلر آیا ہے،کچھ نہ کچھ یونیورسٹی کو دے کر ہی گیا ہے۔ یہ شاید اس مرد آہن کا خلوص اور دل سوزی ہے جس نے دانہ دانہ جمع کرکے مسلمانوں کی نئی نسل کیلئے عصری تعلیم کا انتظام کیا تھا۔ یونیورسٹی کے کیمپس میں قدم رکھتے ہی سر سید کی قربانیاں اسے اپنا اسیر بنا لیتی ہیں اور وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر حکومت وقت سے تال میل بنا کر حکمت عملی سے اس کے کاموں کو آگے بڑھاتا ہے۔ ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر جب بھی ہم کسی وائس چانسلر کی کار کردگی پر نظر ڈالیں گے تو ہمیں اس کا کردار روشن اور تابناک نظر آئے گا۔ بد قسمتی سے یہاں کے مستقل ملازمین میں بعض ایسی بیماریاں در آئی ہیں جو وقفے وقفے سے اس کی فضا کو مکدر کر دیتی ہیں۔ کاش ہمارا یہ عملہ درست ہو جاتا تو اس کی کارکردگی کو چار چاند لگ جاتے۔
کاروان علی گڈھ کا سلسلہ کافی دراز ہے اور اس میں بہت سے ممتاز نام ہمیں دکھائی دیتے ہیں ذیل کی سطور میں یونیوسٹی سے وابستہ ایک اہم شخصیت کا تذکرہ کیا جارہا ہے اور ان کی ایک استاذ کی حیثیت سے جو خدمات ہیں ، ان کی قدرے تفصیل پیش کی جارہی ہے۔ میری مراد پروفیسر قمر حسین فاروقی رحمہ اﷲ سے ہے جو ہمارے مخلص دوست برادرمحترم انجینئر اشرف حسین فاروقی صاحب کے والد محترم تھے۔
پروفیسر قمر حسین فاروقی ۲۸؍جنوری ۱۹۲۳ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نظیر حسین فاروقی ایک بڑے زمیندار تھے۔ اﷲ نے دولت بھی دی تھی اور عزت سے بھی نوازا تھا ان کی جائدادیں آج بھی لکھنؤ کے راجہ بازار اور بلوچ پورہ میں موجود ہیں۔ پروفیسر قمر حسین فاروقی کی ابتدائی تعلیم لکھنؤ میں ہوئی۔ آگے چل کر انھیں لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ ملا اور وہاں سے انھوں نے ایم کام کی ڈگری حاصل کی ۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے آکسفورڈ یونیورسٹی انگلینڈ میں داخلہ لیا اور وہاں سے معاشیات میں ایم ایس کی سند لے کر واپس لوٹے۔
علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ کامرس میں لکچرار کی حیثیت سے ان کی تقرری عمل میں آئی۔ آگے چل کر شعبے کے صدر اور پھر بعد میں فیکلٹی آف کامرس کے ڈین مقرر کئے گئے۔ بہ حیثیت صدر اور ڈین ان کی خدمات چالیس سال پر محیط ہیں۔ ایک عظیم کارنامہ ان کا یہ ہے کہ انھوں نے کوشش کرکے یونیورسٹی میں ایم بی اے کا شعبہ قائم کروایا، وہ اس کے بانی بھی ہیں اور وہی اس کے اولین صدر بھی۔ اس شعبے میں ان کی کارکردگی کی مدت دس سال ہے ۔ ان کی زندگی میں ایک ایسا موقع بھی آیا جب انھیں مسلم یونیورسٹی علی گڈھ کا وائس چانسلر بننے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ اس بڑے اور باوقار منصب پر وہ چھ ماہ تک فائز رہے اور یونیورسٹی کی خدمت انجام دی۔ یہ بات ۱۹۸۰ء کی ہے۔ اس سے پہلے ۱۹۷۵ء میں انھیں پانچ سالوں کے لئے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کا ڈائرکٹر بنایا گیا اور انھوں نے اپنی ذہانت ، علم اور تجربے سے ملکی معیشت کو فائدہ پہونچایا۔
پروفیسر قمر فاروقی صاحب بنیادی طور پر ایک استاذ تھے اور ایک استاذ پروفیسر بننے اور صدر شعبہ کا منصب سنبھالنے کے بعد خصوصی اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔ وہ اپنے تخصص کے مضامین میں اب دوسروں کی رہنمائی کرسکتا ہے اور اپنے طلبہ کو اعلیٰ سے اعلیٰ مقام تک پہنچا سکتا ہے۔ پروفیسر موصوف نے اپنی کارکردگی کے ماہ و سال میں ۵۸؍ پی ایچ ڈی کرائی اور ان کے نگراں رہے۔ یہ تعداد خود یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ انھوں نے صرف اپنے کیریر پر نگاہ نہیں رکھی بلکہ طلبہ اور اپنے شاگردوں کو بھی بھر پور وقت دیتے رہے اور ان کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔
پروفیسر فاروقی صاحب کا انتقال علی گڈھ میں ۱۹۹۲ء ہوا۔ ان کے صاحبزادے اشرف حسین فاروقی صاحب کی خواہش کے مطابق جنازے کی نماز میں نے پڑھائی ۔ جنازے کی نماز میں نے جہری پڑھائی تھی۔ بعض بکہ اکثریت کو ایک نئی چیز دیکھنے کو ملی۔ چہ می گوئیاں ہونے لگیں ۔ کچھ لوگوں نے اسے پسند کیا بلکہ پروفیسر کبیر احمد جائسی رحمہ اﷲ جن سے میری دعاسلام تھی ،آگے بڑھ کر ملے اور یہ کہا کہ میں نہیں جانتا کہ مسلک میں کیا ہے لیکن آج پہلی بار معلوم ہوا کہ جنازے کی مختلف تکبیروں میں کیا کیا اور کیسے پڑھا جاتا ہے ۔ کتنے لوگوں کو یہی نہیں معلوم کہ ہمیں کیا پڑھنا چاہئے ۔ رفیق صاحب آپٖ نے بہت اچھا کیا ۔ لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھریں، میں نے عرض کیا :بخاری شریف میں سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کی روایت ہے کہ ایک بار انھوں نے نماز جنازہ پڑھائی اور اس میں سورہ فاتحہ بلند آواز سے پڑھائی لوگوں نے جب اس بارے میں ان سے پوچھا تو انھوں نے فرمایا: میں نے اسلئے بلند آواز سے سورہ فاتحہ پڑھی ہے تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ جنازے میں سورہ فاتحہ پڑھنا سنت ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم اور لوگوں کو سکھانے کی غرض سے نماز جنازہ جہر سے بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ میں نے مزید عرض کیا کہ ہندوستان میں فقہ مسلک پر عمل کرنے والے بہت سے مسلمانوں نے جہاں سورہ فاتحہ پڑھنی تھی وہاں سے تو اسے غائب کردیا ہے اور کھانے پر ، مٹھائی پر اور قبروں پر فاتحہ پڑھنے کو اسلام سمجھ لیا ہے جب کہ ایسا کرنا بدعت ہے۔ فقہ حنفی کی دلیل یہ ہے کہ نماز جنازہ دعا ہے اور دعامیں سورہ فاتحہ کی کیا ضرورت ہے اب یہ کیسے سمجھایا جائے کہ سورہ فاتحہ کو ہمارے نبیﷺ نے دعا بتایا ہے۔ تقلید سب سے بڑی بیماری ہے اس میں گرفتا ر ہو کر انسان اپنی سمجھ بوجھ کا سودا کسی دوسرے سے کرلیتا ہے اور پھر زندگی بھر بغیر سوچے سمجھے اس کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے ۔ کاش ہم کتاب و سنت کی طرف لوٹتے اور اپنے دین و عقائد کی بنیاد و قرآن اور حدیث پر رکھتے۔
پروفیسر فاروقی صاحب ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے اور زمین دارانہ پس منظر رکھنے کے باوجود اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ میں مسلمان ہوں اور اس ملک میں مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی، معاشی اور سیاسی حیثیت کیا ہے۔ لکھنؤ میں رہتے ہوئے انھوں نے مسلمانوں کی تہذیب کو دیکھی اور ملک میں ان کا دبدبہ دیکھا تھا اور پھر آزادی کے آس پاس کے سالوں میں جو ذہن بنا اورجس نے ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک دیا، ملک تقسیم ہوا، اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی تباہی و بربادی دیکھی تھی، اشراف کی درگت دیکھی تھی اور اصحاب فضل و کمال کی رسوائی دیکھی تھی۔ ان سارے حالات نے انھیں مجبور کیا کہ اب جدید تعلیم کے ذریعے سہارا دیا جائے ویسے بظاہر وہ سخت تھے لیکن اندر سے ایک نرم دل ، ہمدرد اور غم گسار انسان تھے۔
انھوں نے اپنی ملازمت کے دوران کتنے طلبہ کی فیس اپنی جیب سے ادا کی، انھیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا، آج کتنے انکے طلبہ ہیں جنھوں نے غربت میں رہ کر ان کے سہارے تعلیم حاصل کی اور اب اچھی ملازمتوں سے وابستہ ہیں۔ اسی طرح یونیورسٹی میں شیخ الجامعہ کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد انھوں نے کتنے ہی غیر مستقل ملازمین کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر مستقل کیا اور ان کی مشکلات دور کیں۔ شان حیدر نام کے ایک چپراسی یونین ہال میں گھنٹہ بجانے پر مامور تھے ، انھیں پڑھایا اور پھر لکچرر بنایا بعض چپراسیوں کے بچوں کو بھی اچھی تعلیم دلوائی اور انھیں ملازمتیں دیں، ایک بار ڈاکٹر فوق کریمی صاحب آگرہ کے رہنے والے ایک صاحب کو لے کر آئے ، جن کا نام محمد اسحق تھا ، یہ نو مسلم تھے، ان کا خاندان مسلمان ہو چکا تھا۔ غریب آدمی تھے اور عقیدہ و مسلک کے اعتبار سے اہل حدیث تھے ،ڈاکٹر صاحب نے ان کی ملازمت کیلئے سفارش کی جسے پروفیسر صاحب نے منظورفرمالیا۔ یہ اس قدر نیک اور متقی انسان تھے کہ پروفیسر صاحب ان کے اہل خانہ کیلئے برابر دعا کرتے رہے۔ ان کی خاص دعا یہ تھی کے اے اﷲ اس گھر کو توحید و سنت کا شیدائی بنادے۔ پروفیسر قمر فاروقی صاحب ان کی دینداری اور تقویٰ سے بہت متاثر تھے، اسحق صاحب حج کیلئے گئے اور وہیں ان کا انتقال ہو گیا، بعد کے سالوں میں ان کا پورا گھرانہ جو صحیح عقیدہ و مسلک کا حامل بنا، کون کہہ سکتا ہے کہ اس بزرگ انسان کی دعائیں رائگاں گئیں۔
ان کی اہلیہ محترمہ کا نام حمیدہ قمر تھاجو بدایوں کی رہنے والی تھیں اور ایک بریلوی گھرانے سے ان کا تعلق تھا انھوں نے ایک وفا شعار بیوی کی طرح شوہر کی ذمہ داریوں میں ان کا ہاتھ بٹایا ان کی اور ان کے بچوں کی خدمت میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کی۔ وہ نماز روزے کی پابند تھیں اور قرآن کریم کو ترجمہ کے ساتھ پڑھتی تھیں۔
ان کے چھوٹے بیٹے جناب اشرف حسین فاروقی صاحب بیان کرتے ہیں کہ والدہ محترمہ مجھے بیٹھا کر قرآ ن کا ترجمہ سنا یا کرتی تھیں ، اسی کا فیض تھا کہ میں اوائل عمر سے ہی دینی مزاج رکھتا تھا ۔ پہلے تبلیغی جماعت سے وابستگی ہوئی لیکن جب مطالعہ مزید بڑھا تو مجھے اہل حدیث مسلک اور عقیدہ کے بارے میں واقفیت ہوئی اور میں اہل حدیث ہوگیا۔ یہ دیکھ کر والدہ بہت پریشان ہوئیں اور روئیں لیکن پھر والدہ کو سمجھایا اور اﷲ کا شکر ہے کہ ان کی سمجھ میں بات آگئی اور انھوں نے بھی اہل حدیث مسلک اختیار کرلیا۔
وہ شہر علی گڈھ میں جماعت کی مشہور مسجد موتی مسجد جایا کرتی تھیں اور وہاں وعظ و نصیحت بہت غور سے سنتی تھیں ۔ ان کی خواہش پر کئی اہل حدیث علماء نے ان کے گھر پر عورتوں اور مردوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ ان علماء میں مولانا مختار احمد ندوی، مولانا عبدالحمید رحمانی اور مولانا رضاء اﷲ عبدالکریم مدنی کے نام اہم ہیں ۔ وہ اہل حدیث علماء کا بڑا احترام کرتی تھیں ، ان کی ضروریات کو مقدم رکھتی تھیں اور جن اداروں سے وہ تعاون کیلئے تشریف لاتے تھے، ان کی مدد کرتی تھیں ۔ ان کا انتقال ۱۹۹۰ء میں علی گڈھ میں ہوا ، اور یونیورسٹی کے قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی ۔ بھائی اشرف صاحب کی خواہش پر جنازے کی نماز راقم سطور نے پڑھائی۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ان کی نیکیوں کو قبول کرے اور ان کی اولاد و احفاد کو نیک اور صالح بنائے اور انھیں اپنے دین کی خدمت کرنے اور اپنے والدین کے نیک کاموں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین)
پروفیسر فاروقی رحمہ اﷲ کو اﷲ نے کئی بیٹے اور بیٹیوں سے نوازا تھا۔ ان کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے :
۱۔ ڈاکٹر نجمہ قمر : یہ بچوں کی ڈاکٹر ہیں اور امریکہ میں مقیم ہیں ،اﷲ نے انھیں بڑی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں ۔ غریبوں یتیموں اور بیواؤں کا بہت خیال رکھتی ہیں، طلبہ کو ماہانہ وظائف دیتی ہیں، علماء کے ساتھ بھی ان کا تعاون رہتا ہے ۔ فلسطینی اور افریقی ممالک میں مسلمانوں کی امداد کیا کرتی ہیں، ڈاکٹر ذاکر نائک کے دعوتی کاموں کی تقویت کے لئے ایک بڑی رقم سالانہ دیتی ہیں۔ دہلی میں ایک مسجد انھوں نے اپنی طرف سے اﷲ کی رضا کے لئے تعمیر کرائی ہے۔ علی گڈھ میں ہمدرد نگر کی اہل حدیث مسجد کی آمدنی کے لئے مکانات تعمیر کرائے جن کی آمدنی سے مسجد کی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے۔
۲۔ڈاکٹر نکہت فیروز: یہ علی گڈھ مسلم یونورسٹی کے سوشیا لوجی ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر ہیں۔
۳۔ڈاکٹر جاوید مسعود فاروقی: یہ امریکہ کی ایک یونیوسٹی میں کامرس کے پروفیسر ہیں اور وہیں مقیم ہیں۔
۴۔ مسٹر بدر نظیر فاروقی انجینئر: یہ امریکہ میں مقیم ہیں اور انجینئر ہیں ۔
۵۔ ڈاکٹر نزہت داؤد: یہ دبئی میں ایک کالج میں پروفیسر ہیں اور وہیں رہتی ہیں۔
۶۔ مسٹر اشرف حسین فاروقی: یہ سول انجینئر ہیں اور لکھنؤ میں رہتے ہیں۔
۷۔ نسرین قمر: یہ دہلی میں قیام پذیر ہیں۔
یہ تمام حضرات اپنے والدین کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور دین اسلام سے وہی تعلق رکھتے ہیں جو والدین کا تھا ،ایک صاحب کے علاوہ باقی تمام بچے بحمد اﷲ اہل حدیث ہیں اور ان کے عقیدہ و مسلک کے سدھارنے میں بھائی اشرف صاحب کا کردار بہت اہم رہا ہے ،اﷲ ان سب کو خوش حال اور صحت و عافیت سے رکھے ۔ انھیں اپنے دین کی زیادہ سے زیادہ خدت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پروفیسر قمر حسین فاروقی کے صاحبزادے انجینئر اشرف حسین فاروقی صاحب سے گزشتہ بیس پچیس سالوں سے میرے روابط ہیں ۔ اپنے ذاتی مطالعہ اور تحقیق سے انھوں نے نہ صرف اہل حدیث مسلک قبول کیا بلکہ اس کے ایک مخلص داعی بن کر ابھرے، قرآنی حکم کے مطابق اس کا آغاز انھوں نے اپنے گھر سے کیا اور بڑی محبت اور دل سوزی سے اپنے بھائی بہنوں کا ذہن تبدیل کیا اور انھیں بھی دینی کاموں کی طرف رغبت دلائی۔ اہل حدیث مدارس و مساجد کو تعاون دینے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں اور بھائی بہنوں کو بھی اس طرح کار خیر کے لئے آمادہ کرتے رہتے ہیں اور ان سے تعاون کراتے ہیں ۔ دوست احباب اور اپنے حلقہ متعارفین کو بھی مسلسل کتاب و سنت کی طرف دعوت دیتے رہتے ہیں،کتنے حضرات نے ان کی کوششوں سے راہ حق و سعادت پائی اور بحمد اﷲ اس پر ثابت قدم ہیں۔
علی گڈھ میں حاجی نذیر احمد سلفی سابق امیر جمعیۃ اہل حدیث علی گڈھ اور صدر انتظامیہ موتی مسجد نے جب ہمدرد نگر میں مسجد کے لئے زمین مختص کی تو مولانا مختاراحمد ندوی رحمہ اﷲ نے اپنے ادارہ اصلاح المساجد کی طرف سے اس میں ایک وسیع مسجد تعمیر کرنے کی منظوری دی اور اس کے لئے ہمارے مخلص دوست انجینئر اشرف حسین فاروقی کو مکلف بنایا کہ آپ اپنی نگرانی میں یہ مسجد تعمیر کرائیں۔ اشرف صاحب نے نہ صرف مسجد کی تعمیر مکمل کرائی بلکہ امریکہ میں مقیم اپنی ہمشیرہ صاحبہ سے کہہ کر مسجد کی آمدنی کیلئے کرائے پر اٹھائے جانے کے لئے تین مکانات بھی بنوائے۔ آج یہی مکانات مسجد کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہیں اور مسجد کے اخراجات اسی سے پورے ہوتے ہیں۔
پندرہ سالوں تک میں خود اسی مسجد کے ایک مکان میں رہ چکا ہوں ۔ یہ بھی اشرف صاحب کی عنایت تھی۔ ہمارے بعض بہی خواہوں کو ان کا یہ فیصلہ پسند نہیں آیا تھا لیکن انھوں نے میری ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنا فیصلہ بر قرار رکھا۔ دنیا میں لوگ ایک دوسرے کے خلاف کیا کیا سازشیں کرتے رہتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ اﷲ کے فیصلوں کے آگے کسی کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ عزت اور ذلت اس کے ہاتھوں میں ہے۔ اﷲ کسی کو عزت دینا چاہے تو کوئی اسے رسوا نہیں کرسکتا اور وہ جسے ذلیل کرنا چاہے تو اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا۔ میں اپنے اس دوست کا یہ احسان زندگی بھر بھلا نہں سکتا جس نے مخالفتوں کی پروا نہیں کی اور ان کے دل میں میرے لئے جو محبت ہے اس کا لحاظ رکھا، اﷲ انھیں جزائے خیر دے اور ہمیشہ شاد و آباد رکھے۔ آمین
اب اﷲ نے سر چھپانے کی ایک جگہ کا انتظام علی گڈھ میں کردیا ہے اور میں اپنے بچوں کے ساتھ اپنے مکان میں رہتا ہوں ۔ رب دو جہاں کا یہ احسان عظیم ہے ورنہ کسی غیر مستقل ملازمت سے وابستہ رہ کر اس گرانی کے دور میں زمین خرید کر شہروں میں مکان بنانا آسان کام نہیں ہے۔ اﷲ ہمارے ان مخلص احباب کو بھی خوش رکھے جنھوں نے اپنے تجربات سے فائدہ پہنچایا اور دست تعاون دراز فرماکر میری مشکلات آسان فرمائیں ۔
محترم اشرف صاحب ایک بلند اخلاق کے حامل شخصیت ہیں ، متانت اور سنجیدگی ان کی شناخت ہے شرم وحیا اور کم گوئی ان کی پہچان ہے ۔ علمائے کرام کا احترام کرتے ہیں اور ان سے ملتے وقت ان کی خواہش زیادہ سے زیادہ استفادے کی ہوتی ہے ۔ بعض لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ ذرا سا پڑھ لیا یا الٹی سیدھی معلومات جمع کرلیں تو فتویٰ دینا شروع کر دیا اور علماء کو نصیحتیں فرمانے لگے وہ خود کو علامہ فہامہ اور عقل کل کا مالک سمجھنے لگے۔ دوسروں کی رائے ان کی رائے کے مقابلے میں ہیچ ہوتی ہے اور اپنے فیصلوں کو حرف آخر سمجھنے کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ نے بھائی اشرف صاحب کو ان تمام مہلک بیماریو ں سے دور رکھا ہے۔ کم علمی کے ساتھ جب زہد اور دین داری کا غلبہ ہوتا ہے تو شیطان بہت آسانی کے ساتھ حملہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور ایسے حضرات آسانی کے ساتھ اس کا شکار بن جاتے ہیں علی گڈھ کی تیس سالہ زندگی میں ایسے کتنے نوجوانوں کو بہکتے اور برباد ہوتے دیکھا ہے ان کو اتنا بھی شعور نہیں ہے کہ علمائے کرام کا نا م کتنے احترام کے ساتھ لیا جانا چاہئے ۔دوسرے مکاتب فکر کے علماء کا نام آپ ان کی ز بان سے ایسے سنیں گے جیسے وہ کسی طفل مکتب کے بارے میں گفتگو فرمارہے ہوں، دین داری کا غرور سب سے بڑی خطرناک بیماری میں ہے اس میں گرفتار ہونے کے بعد آدمی اپنوں کیلئے بھی غیر بن جاتا ہے اور وہ تمام حقوق فراموش کر دیتا ہے جو اسلام نے صلہ رحمی کے حوالے سے اس پر عائد کئے ہیں ،ایک نئے اہل حدیث نوجوان نے جب مجھ سے یہ شکایت کی کہ گھر والے بہت پریشان کرتے ہیں، والدین اور بھائی بہن نفرت کرنے لگے ہیں، میں نے جب اس سے یہ پوچھا کہ کیا تم والدین اور بھائی بہنوں کے حقوق جانتے ہو، ان سے پہلے کی طرح پیار و محبت سے بات کرتے ہو تو اس کا جواب تھا کہ وہ شرک و بدعت میں گرفتار ہیں اسے چھوڑنے کیلئے تیار نہیں تو ان سے بات کیا کروں میں نے اس سے کہا: میرے عزیز! اب تمہیں والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری بڑھا دینی چاہئے، بھائی بہنوں سے پہلے سے زیادہ محبت کرنی چاہئے اور گھر کی ذمہ داری کو پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر پوری کرنا چاہئے تاکہ آپ کے والدین بھائی بہنوں اور دوسرے عزیزوں کو لگے کہ ہمارا یہ بچہ یہ بھائی اور یہ عزیز پہلے سے کہیں زیادہ دین دار، بااخلاق اور گھر کے کاموں میں چاق و چوبند ہو گیا ہے۔ اپنے اسی کردار سے آپ اپنے گھر والوں کی اصلاح کرسکتے ہیں۔ آپ ان کے حق میں اﷲ سے دعا کریں ، ان کی ناراضگی کو برداشت کریں اور رشتے ناطوں کو توڑیں نہیں بلکہ اسے جوڑنے کی کوشش کریں ۔ جس اسلام کی محبت سے سر شار ہو کر آپ گھر والوں کے خلاف فتوے صادر کررہے ہیں، اسی اسلام سے محبت کا تقاضا ہے کہ آپ اپنے رویے پر نظر ثانی کریں ۔ اﷲ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے بھائی اشرف صاحب کو ان تمام باتوں کا بخوبی شعور بخشا ہے جبھی تو انھوں نے نہ صرف اپنے بھائی بہنوں کی ذہن سازی کی بلکہ اپنے والد صاحب کو بھی ان کی وفات سے پہلے اہل حدیث عقیدہ و مسلک کا قائل کرلیا اور وہ اس پر ان کے بقول ہر طرح سے مطمئن ہو گئے تھے۔ اﷲ کی ذات سے امید ہے کہ اس نے ایک سعادت مند بیٹے کی دعا اپنے باپ کے حق میں قبول کی ہوگی اور خطاؤں اور لغزشوں سے درگذر فرماتے ہوئے اسے اپنی رحمتوں کا مستحق بنایا ہوگا۔
محترم اشرف صاحب ۱ کو علمی اور دعوتی کاموں سے کافی لگاؤ ہے ۔ دعوت کے میدان میں کام کرنے والے علمائے کرام کے ساتھ ان کا تعاون ہمیشہ جاری رہتا ہے اور وہ دعوتی کاموں کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں ۔ علمی اور تصنیفی کاموں کے تعلق سے ان کے ذوق کا اندازہ اس سے کریں
۱ محترم جناب بھائی اشرف حسین فاروقی حفظہ اﷲ کے والد ماجد پروفیسر قمر حسین فاروقی رحمہ اﷲ علم و مال کی دولت سے مالا مال تھے اﷲ نے جس فراوانی کے ساتھ آپ کو علم ومال کی دولت سے نوازا تھا اس دولت کو راہ خدا میں جس فیاضی و دریادلی سے لٹایا وہ أپ ہی کا حصہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو کئی بیٹوں اور بیٹیوں سے نوازا ہے آپ کی سبھی اولاد ماشاء اﷲ تعلیم یافتہ اور احکام شرع کے پابند ہیں ان میں ڈاکٹر نجمہ قمر اور اشرف حسین فاروقی قابل ذکر ہیں۔ اشرف بھائی سے راقم کے خوشگوار تعلقات ہیں آپ کا اسم گرامی جماعتی وملی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے آپ علم و علماء کے قدر داں مہمان نواز خوش مزاج خوش گفتار شیریں بیاں ،متواضع خلیق اور ملنسار ہیں ان کی عادت اور اخلاق کے بارے میں اس قدر کہنا کافی ہے کہ وہ قدیم شرفاء کے اوصاف حسنہ کا صحیح نمونہ ہیں (بقیہ اگلے صفحہ پر)
کہ انھوں نے علی گڈھ کے ایک سفر میں یہاں قیام کے دوران یاد فرمایا اور اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ سعودی عرب سے شائع اور تقسیم ہونے والی اردو تفسیر بہت جامع ہے لیکن مجھ جیسے کتنے لوگ جن کی بینائی کمزور ہے یا متاثر ہے، اس سے استفادہ نہیں کر پارہے ہیں ۔ اگر ہو سکے تو اس کو بڑا کیجئے
( پچھلے صفحہ کا بقیہ) متانت وضع داری شائستگی اور معاملات کی صفائی ایفائے عہد کی پختگی ان کی زندگی کا طرہ امتیاز ہے آپ کے اندر سب سے خاص بات یہ ہے کہ آپ کے ہر کام میں خلوص کار فرما ہوتا ہے توکل علی اﷲ آپ کا اصلی وصف خشیت وﷲیت حق گوئی میں اپنی مثال آپ ہیں اعلیٰ اخلاق اور پا کیزہ کردار کے لحاظ سے آپ اپنا جواب نہیں رکھتے سادگی ضبط و تحمل خلوص ووفا مسلکی غیرت کتاب و سنت کا ذوق جیسے صفات آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں اشرف بھائی اپنے والد محترم پروفیسر قمر حسین فاروقی کے صحیح جانشین ہیں احکام شرع کے پابند غریبوں حاجتمندوں، یتیموں، بیواؤں، نادار و غریب طالب علموں ،مدارس و جامعات کیلئے آپ کا دروازہ ہمہ وقت کھلا رہتا ہے ۔
الحمد ﷲ آپ کے والد کی وفات کے بعد بھی جود و سخا کا یہ چشمہ رواں ہے فیاضی و سخاوت کا یہ سیل رواں آپ کے صاحبزادگان خصوصاً بہن ڈاکٹر نجمہ قمر اور جناب اشرف حسین فاروقی جاری کئے ہوئے ہیں۔یہ سعادت محض اﷲ کی توفیق کا نتیجہ ہے ذلک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء قرآن و حدیث نے راہ خدا میں خرچ کرنے کی بار بار تاکید کی ہے صدقہ و خیرات کرنے سے مال میں اضافہ ہوتا ہے کوتاہ دستی میں محرومی ہے اﷲ کے نیک بندے صدقہ و خیرات کرکے اپنی نیکیوں میں اضافہ کرتے ہیں اور ایسے ہی لوگ آخرت میں سرخرو کامیاب و کامران ہوں گے۔ صدقہ و خیرات کرنے والوں کو کشادہ روزی اور با فراغت رزق ہمیشہ حاصل ہوتا ہے مال و اولاد میں برکتیں نازل ہوتی ہیں اور عرصہ دراز تک ان کی نسلوں میں یہ اثرات بدستور موجود نظر آتے ہیں حالانکہ یہ ہر شخص کو معلوم ہے کہ موت بر حق ہے جس دن بلاوا آئے گا سب دھرا کا دھرا رہ جائے گا اور آنکھیں بند ہوجائیں گی جب لوگ یہ کہکر رہ جائیں گے کہ فلاں آج وفات پا گیا۔
یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہم سب کچھ جاننے کے باوجود کس قدر غافل ہیں عام طور سے لوگوں کی یہ عادت ہو گئی ہے کہ فرائض وواجبات سے کتراتے ہیں حقوق اﷲ و حقوق العباد صدقہ و خیرات اور(بقیہ اگلے صفحہ پر)
اور اس کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی جدو جہد کیجئے ۔میں اس کے تمام اخراجات برداشت کروں گا اور آپ کو اس کا حق خدمت بھی ادا کروں گا، محترم دوست کی یہ خواہش پوری ہوئی اور جہازی سائز میں یہ تفسیر شائع ہوئی جسے عوام و خواص میں کافی پذیرائی ملا۔ اﷲ اس خدمت کو ان کے اور ان کے متعلقین کے لئے صدقہ جاریہ بنائے اور اپنے دین کی مزید خدمت کرنے کی انھیں توفیق ارزانی فرمائے ۔ (آمین)
ہمدرد نگر علی گڈھ میں اپنی نگرانی میں جو مسجد انھوں نے تعمیر کرائی تھی، اس کی ضرورتوں کا آج بھی خیال رکھتے ہیں ۔ وضو خانہ اور حجرۂ امام کے آس پاس کا حصہ صرف اینٹوں کا بنا ہوا تھا ۔ اپنے ایک سفر میں انھوں نے ایک خاص رقم اپنی ہمشیرہ صاحبہ سے دلائی اور اس حصے کو مسجد کے شایان شان بنوایا گیا۔ مسجد میں کچھ مزید کاموں کے لئے انھوں نے ارادہ ظاہر فرمایا ہے ، اﷲ ان کے حالات درست رکھے تاکہ وہ اپنی خواہش کے مطابق ان کاموں کی تکمیل کراسکیں ۔ مجھے یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ انھیں میری یہ تحریر اچھی نہیں لگے گی ، وہ نہیں چاہتے کہ ان کاموں کا تذکرہ کیا
( پچھلے صفحہ کا بقیہ) زکوٰۃ سے منہ موڑتے ہیں غریبوں اور مسکینوں حاجتمندوں ،مساجد و مدارس کو کچھ دینا ہو تو ان کے یہاں کوئلوں پر مہر لگ جاتی ہیں لیکن جس کام سے عزت اور شہرت ملے سماج اور سوسائٹی کی نگاہ میں جس سے وقعت بڑھے اس کیلئے تجوریوں کے منہ کھل جاتے ہیں فضول خرچی کی دعوتوں اور بڑی بڑی پارٹیوں اور شادی و بیاہ میں روپیہ پانی کی طرح بہا دیتے ہیں جبکہ ان کا رشتہ دار ،پڑوسی، محلہ اور بستی کے لوگ بھوک وافلاس سے روتے بلکتے ہیں اور غریب گھر کی لڑکیاں بلا شادی اپنی عمریں گذار دیتی ہیں ۔
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ پروفیسر قمر حسین فاروقی رحمہ اﷲ کی اولاد کی زندگی میں برکت عطا فرمائے اور ان کے اعمال خیر کے دائرے کو زیادہ سے زیادہ وسعت فرمائے اور دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی سے نوازے تاکہ وہ اپنے والدین کیلئے صدقہ جاریہ بن سکیں ۔آمین یا رب العالمین
(عبدالرؤف خاں ندوی تلسی پور بلرام پور)
جائے لیکن نبیﷺ کا ارشاد گرای ہے جو انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اﷲ کا کیا شکریہ ادا کریگا۔ اس حدیث کی وجہ سے مجھے ان باتوں کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کرنا پڑا۔ مجھے امید ہے کہ وہ ان باتوں کو گوارہ فرمائیں گے۔ بھائی اشرف صاحب کے بارے میں اور بھی بہت سی باتیس میرے حافظے میں محفوظ ہیں لیکن انشاء اﷲ وہ کسی دوسرے موقع پر قارئین ذی احترام کی خدمت میں پیش کی جائیں گی۔
خادم العلم والعلماء
رفیق احمد رئیس سلفی
ادارہ علوم الحدیث علی گڈھ
٭٭٭
چودھری محمد ےٰسین خاں رحمہٗ اﷲ بسنت پور
(تاریخ وفات : ۱۳؍مارچ ۱۹۹۲ء)
چودھری محمد ےٰسین خاں کے والد محترم کا اسم گرامی چودھری عبدالرزاق تھا اور دادا کا نام نبی بخش تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے چودھری عبدالرزاق کو چار لڑکوں سے نوازا ہے ۔ جن کے اسماء گرامی بالترتیب درج ذیل ہیں۔ حاجی محمد عاشق صاحب ،چودھری محمد ےٰسین ،چودھری عبدالرشید،چودھری عبدالعظیم خاں، چودھری محمد عاشق و چودھری محمد ےٰسین اﷲ کو پیارے ہو چکے ہیں، چودھری عبدالرشید اور چودھری عبدالعظیم با حیات ہیں اﷲ تعالیٰ ان دونوں بھائیوں کی عمر دراز فرمائے آمین چودھری عبدالرزاق صاحب حق گو،جری، خلیق ، ملنسار، مہمان نواز،احکام شریعت کے پا بند،شرک و بدعت سے سخت بیزار ، مسلکی غیرت کوٹ کوٹ کر بھری تھی چودھری محمد ےٰسین کو اپنے والد محترم کی ساری خوبیاں ورثہ میں ملی تھیں، آپ کا گھرانہ نیک لوگوں کا گھرانہ تھا آپ کے گھر کے تمام فیملی پر دینداری کا غلبہ تھا چودھری محمد ےٰسین صاحب موضع رمنگرا( کواپور) میں پیدا ہوئے ، پاکیزہ اور دینی ماحول میں پرورش پائی ، ابتدائی تعلیم رمنگرا کے مدرسہ میں حاصل کی پھر مزید تعلیم کواپورتلسی پور میں پائی چونکہ آپ کا ننھیال موضع بسنت پور (متصل دیوی پاٹن) تھا اسلئے ننھیال کے حصہ پر موضع بسنت پور آکر مستقل سکونت اختیار کرلی اور یہیں ہو کر رہ گئے۔
چودھری محمد ےٰسین صاحب پختہ اہل حدیث ، متبع سنت اور قوم پرست تھے علاقہ کے کئی مدارس کے سر پرست اور انجمن محمدیہ تلسی پور کا تا حیات صدر رہے، دینی اداروں کی حتی الامکان تعاون فرماتے تھے ۔ آپ حق گو ، جری ، باہمت دلیر تھے گاؤں اور علاقہ کے لوگ صاحب کے نام سے یاد کرتے تھے کسی سے مرعوب ہونا اور کسی کے سامنے جھکنا ا ن کی خاندانی روایت اور ذاتی فطرت کے خلاف تھا وہ کہا کرتے تھے اہل حدیث اﷲ کے علاوہ کسی کے آگے نہیں جھکتا اگر وہ اﷲ کے علاوہ کسی کے آگے جھکتا ہے تو وہ اہل حدیث نہیں ہے ، وہ وقار سے رہتے تھے اور اپنے مقام و مرتبہ کو ملحوظ رکھتے علم اور علماء کے قدر دان تھے اور علمائے اہل حدیث سے بے حد عقیدت تھی خاص طور سے حکیم مولانا عبدالحق رحمانی تھرولی اور شیخ صلا ح الدین مقبول احمد مدنی حفظہ اﷲ سے سچی عقیدت ومحبت تھی آپ نے نامساعد و ناموافق حالات میں کتاب و سنت کی ترویج واشاعت کا اہتمام کیا آپ بہت ہی غیور تھے ہمیشہ وقار کی زندگی بسر کی اور انتہائی تکریم کے ساتھ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے آپ کا دل خدمت دین و خدمت خلق کے جذبے سے بھر پور تھا یہی آپ کی زندگی کا اصل مقصد تھا آپ کے اندر سب سے خاص بات یہ تھی آپ کے ہر کام میں خلوص کار فرما ہوتا توکل علی اﷲ آپ کا اصلی وصف تھا غریبوں پریشان حال لوگوں ، رشتہ داروں ،پڑوسیوں کے حقوق کی پاسداری کرنا اپنا فریضہ سمجھتے تھے اور ان کیلئے اپنا دروازہ کھلا رکھتے تھے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو مال و دولت کے ساتھ چھ لڑکوں اور سات لڑکیوں سے بھی نوازرکھا ہے۔
انجمن محمد یہ کا قیام: مدرسہ امن عالم کا درس دیتا ہے حقوق نسواں کی پاسبانی اور ماتحتوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے جبر و تشدد کے خلاف علم بغاوت بلند کرتاہے انسانیت کی تعلیم دیتا ہے مدرسہ سب سے بڑی درسگاہ ہے جہاں دین کے داعی اچھے شہری اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں مدرسہ عالم اسلام کا بجلی گھر ہے جہاں سے اسلامی آبادی بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے مدرسہ کا تعلق براہ راست نبوت محمدی ﷺ سے ہے یہ مدارس دین کے مضبوط قلعے ہیں۔
اس آزاد ہندوستان میں انسان دشمن عناصر کی طرف سے ہماری زبان تہذیب و ثقافت ہمارے عقائد و نظریات کو جب دیو مالائی تعلیم کے ذریعہ مسموم کیا جانے لگا اور اسلام پر چومکھی حملہ ہونے لگا تو انھیں مخالف تھپیڑوں نے ہمارے بزرگوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا ہمیں اپنا بھولا ہوا سبق بھی یاد دلایا ۔ قوم نے شہر بہ شہر ،قریہ بہ قریہ ، علم دین کی شمعیں روشن کیں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہمارا تلسی پور اس نیک کام میں پیچھے نہیں رہا ۔ چودھری عظمت اﷲ مرحوم ۱ بنھونی اور محمدصغیر سالار مرحوم ۲ کی تحریک پر علاقہ کے چند روشن دماغ اور بیدار مغز لوگوں نے اﷲ کا نام لیکر ۱۹۵۴ء میں انجمن محمدیہ کی بنیاد رکھی ، عصر حاضر میں ایک دینی و مذہبی ادارہ کی حقیقت کیا ہے کسی بھی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں انھیں پاکیزہ جذبات کی چنگاری ایک مدت سے چودھری عظمت اﷲ ، محمد صیغر سالار اور چودھری محمد ےٰسین صاحب اور ان کے رفقاء میں سلگ رہی تھی اور یہی ہاکیزہ و نیک جذبات انجمن محمدیہ کے قیام کے محرک بنے ، انجمن کے قیام کے بعد انجمن محمدیہ کی
۱ چودھری عظمت اﷲ خاں بنھونی رحمہ اﷲ احکام شرع کے پابند مسلک اہل حدیث کے پُر جوش داعی و عامل تھے علاقہ کی باوقار و معزز و بااثر شخصیت تھی متعدد خوبیوں کے حامل تھے حق گو جری اور دلیر تھے عقل و فہم ، دانشوری سوجھ بوجھ، معاملہ فہمی، دور اندیشی میں ید طولی حاصل تھا انجمن محمدیہ تلسی پور کے بانی اور تاحیات اس کے صدر رہے کئی سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے سر پرست تھے تلسی پور جیسے بدعت گڈھ میں اپنے رفقاء کے تعاون سے توحید کا چراغ روشن کیا ، تلسی پور میں ویسے تو کئی مدارس تھے اور ہمارے بچے ایسے مدارس میں تعلیم حاصل کرتے تھے جو کتاب و سنت کے صاف شفاف عقیدے کی کما حقہ اہتمام نہیں کرتے تھے اس علاقہ کے بزرگوں نے چودھری عظمت اﷲ خاں کی سر پرستی میں کتاب و سنت کی تعلیم اور سلف صالحین کے ٹھوس منہج پر صحیح عقیدہ کی ترویج و اشاعت کیلئے اس ادارہ کی بنیاد رکھی اور اﷲ تعالیٰ نے ان کو یہ توفیق بخشی کہ انھوں نے اس ادارہ کو آگے بڑھانے میں کافی جدوجہد کی جس کا ثمر ہم یہ دیکھتے ہیں ۔
بہار اب جو گلشن میں آئی ہوئی ہے یہ پود انھیں کی لگائی ہوئی ہے
یہ دنیا فانی ہے کل من علیہا فان فرشتہ اجل آپہونچا جون ۱۹۶۴ء میں داعی اجل کو لبیک کہا اور ایک عظیم مجمع کی موجودگی میں موضع بنھونی کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
۲ محمد صغیر سالار مرحوم کا تذکرہ قارئین اسی کتاب میں ملاحظہ فرمائیں گے۔
(عبدالرؤف خاں ندوی تلسی پور )
مجلس شوریٰ و مجلس عاملہ کی تشکیل عمل میں آئی متفقہ طور پر چودھری عظمت اﷲ خاں کو انجمن کا صدر منتخب کیا گیا اور محمد صغیرسالار کو ناظم اعلیٰ چنا گیا اور اسی مجلس میں دیگر عہدیداران کا انتخاب بھی عملمیں آیا ، انجمن محمدیہ ترقی کی طرف گامزن تھا کہ اسی بیچ میں صدر عظمت اﷲ خاں کا انتقال ہوگیا چودھری صاحب کے انتقال کے بعد کمیٹی نے متفقہ طور پر محمد ےٰسین خاں بسنت پور کو انجمن محمدیہ کا صدر چنا اس باوقار منصب پر تا حیات یعنی ۱۳؍مارچ ۱۹۹۲ء تک فائز رہے۔ چودھری محمد ےٰسین کے دور میں اﷲ تعالیٰ نے انجمن محمدیہ (الکلیۃ الاسلامیہ) جروا روڈ کی مالی اقتصادی حالت میں ترقی عطا فرمائی الکلیۃ الاسلامیہ و معہد الزہرا کی دو منزلہ پُر شکوہ بلڈنگ اور عالیشان مسجد چودھری محمد ےٰسین رحمہ اﷲ کے دور کی تعمیر کردہ ہیں آخری لمحات تک اپنے قلب و جگر کا تیل جلا جلا کر ادارہ کے عروج و ارتقاء کیلئے کو شاں رہے چودھری محمد ےٰسین صاحب کے انتقال کے بعد آپ کے لائق و صالح بھانجہ حاجی وحید الحق خاں کو کمیٹی نے متفقہ طور پر صدر منتخب کیا حاجی وحید الحق صاحب نے نئے جوش وولولہ سے اپنے رفقاء کے تعاون سے ( چودھری محمد اقبال نائب صدر حاجی انعام اﷲ خاں سکریٹری حاجی عبدالغفور چین پور) اور مولانا صغیر احمد سراجی مہتمم الکلیۃ الاسلامیہ جروا روڈ وغیرہم کی جد و جہد و مساعی جمیلہ سے ادارہ کیلئے کئی ایکڑ زمین خرید کر ادارہ کو وقف کیا اور کئی کمروں کی عمارت کی تعمیر کرائی الحمد ﷲ تعمیری سلسلہ جاری ہے ۔ الکلیۃ الاسلامیہ اس علاقے کا یک عظیم دینی و تعلیمی سلفی ادارہ ہے مولانا صغیر احمد سراجی اس ادارہ کے روح رواں اور مولانا زبیر احمد مدنی شیخ الجامعہ ہیں۔
الکلیۃ الاسلامیہ جروا روڈ اور اس کے تمام شعبہ جات نے نمایاں کار کردگی کی بنیاد پر حیرت انگیز ترقی کی ہے جہاں پر سینکڑوں طلبہ و طالبات و حفّاظ کے قیام و طعام کا بہتر انتظام کے ساتھ ان کی تعلیم و تربیت اور ذہنوں کی تعمیر دینی و خوشگوار ماحول میں ہو رہی ہے دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس عظیم دینی قلعہ کو ہمیشہ سر سبز و شاداب رکھے اور اس پر کبھی خزاں نہ آئے ۔ آمین
پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
ادارہ کے ذمہ داروں کی یہ بہت بڑی خدمت دین ہے کہ ایک وسیع و عریض بلڈنگ تعمیر کرائی اور متعدد با صلاحیت تجربہ کار اساتذہ کرام و معلمات کی خدمات حاصل کیں نہایت خوش قسمت وہ مقام ہے جہاں قال اﷲ و قال الرسول کی روح پرور صدائیں بلند ہو رہی ہیں انتہائی عالی بخت ہیں یہاں کے لوگ جو اس ادارہ کی جڑیں مضبوط کر رہے ہیں ، بے حد قابلِ ستائش ادارہ کے ذمہ داران ہیں جو اس ادارہ کو آگے بڑھانے کیلئے جد و جہد کر رہے ہیں بدرجہ غایت مستحق ہیں یہاں کے اساتذہ کرام ومعلمات جنھوں نے اس ادارہ کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دے رکھا ہے یہ صدقہ جاریہ ہے جس کا اجر بارگاہ الٰہی سے انھیں ملتا رہے گا ۔
وفات : اس دنیائے فانی میں ہر وقت موت و حیات کا کھیل جاری رہتا ہے اور روزانہ بے شمار لوگ رخت سفر باندھتے ہیں اور بے شمار لوگ اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں چودھری محمد ےٰسین صاحب کا وقت اجل آپہونچا اور ایک طویل علالت کے بعد مورخہ ۱۳؍ مارچ ۱۹۹۲ء کو سفر آخرت پر روانہ ہو گئے ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں آبائی قبرستان بسنت پور میں سپرد خاک کر دئیے گئے اور بزرگ عالم مولانا عبدالحق رحمانی تھرولی کی امامت میں نماز جنازہ پڑھی گئی۔
اﷲم اغفر لہ وارحمہ و عافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور - بلرام پور
حضرت العلام مولانا ابو علی اثری رحمہ ٗ اﷲ
(تاریخ وفات:۳۰؍ جون ۱۹۹۳ء)
والد محترم کا اصل نام عبدالباری تھا لیکن اردو دنیا میں وہ اپنے قلمی نام ابو علی اثری سے مشہور و معروف تھے ان کی پیدائش محلہ آصف گنج باغ میر پیٹو شہر اعظم گڈھ میں ۱۵؍ مارچ ۱۹۰۳ء میں ہوئی ان کے والد کا نام رحیم بخش اور دادا کا نام کریم بخش تھا ۔ ابتدائی تعلیم محلہ کے مدرسہ اسلامیہ میں ہوئی اور آخری تعلیم مدرسۃ الاصلاح سرائے میر ضلع اعظم گڈھ میں ہوئی ، ان کے ابتدائی استادوں میں ورناکپور اکول اعظم گڈھ ریٹائرڈ مدرس خدا بخش صاحب مرحوم صدر مدرس مدرسہ اسلامیہ باغ میر پیٹو تھے جو فارسی زبان وادب کا بہت اچھا ذوق رکھتے تھے ان کا ذریعہ اظہار خیال فارسی تھا لوگوں کو فارسی میں خطوط لکھتے تھے ڈسٹرکٹ بورڈ کی ایک اسامی کیلئے اس دور کے سکریٹری ڈپٹی ابو محمد صاحب کو درخواست فارسی میں لکھ کر پیش کی تھی جس سے وہ اتنا متاثر ہوئے کہ وہ جب تک اعظم گڈھ میں رہے ان کا نیاز حاصل کرنے کیلئے برابر مدرسے میں آتے رہے ، انھیں مولوی خدا بخش سے فارسی نصاب کی کتابیں شیخ سعدی کی گلستاں پڑھی انھوں نے اثری صاحب کو مولانا الطاف حسین حالی کی تصنیف حیات سعدی کے مطالعہ کی ترغیب دی مولوی خدا بخش کے انتقال کے بعد اثری صاحب کے والد نے عربی تعلیم کی تکمیل کیلئے جس کو وہ مدرسہ اسلامیہ باغ میر پیٹو سے شروع کر چکے تھے مدرسۃ الاصلاح سرائے میر ضلع اعظم گڈھ میں شعبۂ انگریزی کے صدر اثری صاحب کے چچا ماسٹر محمد احمد انصاری اور مولانا شبلی کے ایک جلیل القدرشاگرد مولانا شبلی متکلم ندوی مہتمم تھے داخلہ کرایا کچھ ہی دنوں کے بعد مولانا شبلی متکلم ندوی نے اپنے آغوش پروردہ اور عزیز ترین شاگرد مولانا عبدالرحمن نگرامی ندوی کو عربی ادب کی تعلیم کیلئے بلایا انھوں نے خاص طور سے اپنے زیر تربیت جن طلبہ کو لیا ان میں ایک اثری تھے ، مولانا نگرامی اپنے شاگردوں کو علامہ شبلی سے دلچسپی اور گوناگوں کمالات کو بہت اچھے انداز میں بتایا کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اثری صاحب کو علامہ شبلی سے دلچسپی اور عقیدت روز بروز بڑھتی گئی سیرۃ النبی ظہور قدسی والا حصہ اثری صاحب نے بار بار پڑھا اور ان کو زبانی یاد ہو گیا ۱۲؍ ربیع الاول کا جلسہ مولانا شبلی متکلم کے اہتمام میں ہوا تو اس جلسہ میں اثری صاحب نے سیرت پر اپنا مضمون پڑھا جس میں غیر شعوری طور پر مولانا شبلی کے اسلوب نگارش کی تمام ادائیں آگئی تھیں ، اس مضمون کے بارے میں ہر شخص کی زبان سے نکلا اگر ان کے لکھنے کی مشق اسی طرح جاری رہی تو انشاء اﷲ ایک دن یہ مولانا شبلی کا بہترین مقلد ہوگا لیکن افسوس ۹دن میں انفلوئزا کے مرض میں اثری صاحب کے والد کا انتقال ہوگیا ان کی عربی تعلیم جاری نہ رہ سکی مدرسۃ الاصلاح کے تمام لوگوں نے ان کے بارے میں جو خواب دیکھا تھا وہ شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔
اسی درمیان مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اﷲ کو کتب خانہ دارالمصنفین کیلئے ایک آدمی کی ضرورت محسوس ہوئی جس کا ذکر سید صاحب نے حکیم محمد اسحق صاحب سے کیا حکیم صاحب کی نظر انتخاب اثری صاحب پر پڑی ، حکیم صاحب اثری صاحب کو شبلی اکیڈمی لے گئے سید صاحب اور تمام دوسرے حضرات اثری صاحب کو سر سے پاؤں تک بہت غور سے دیکھا اور اسی وقت ۱۵؍ روپیہ ماہوار پر ان کو کتب خانہ کی خدمت کیلئے رکھ لیا اور پوری زندگی دارالمصنفین کی خدمت میں گذاردی۔
مولانا ابوعلی اثری کو تصنیف و تالیف کا موقع تو بہت کم ملا صرف تین کتابیں منظر عام پر آئیں اور عوام و خواص سے داد تحسین وصول کی ، اور ادبی دنیا میں وہ کتابیں شاہکار اور مراجع کی حیثیت رکھتی ہیں آپ نے ہندو پاک کے جرائد روزنامہ، سہ ماہی ، ہفت روزہ ، پندرہ روزہ ، ششماہی اخبارات و رسائل ومجلات کی تعداد پچاس تک پہونچتی ہے مستقل ان رسائل میں لکھتے رہے ۔ آپ نے جو کتابیں لکھیں ان کے نام یہ ہیں۔
(۱) علامہ سید سلیمان ندوی
(۲) چند رجال اہل حدیث
(۳) علامہ شبلی اور مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اﷲ ۔
مولانا ابو علی کی شخصیت کا جوہر ان کی تصانیف ، تراجم، شگفتہ و معلوماتی مضامین سے ہوتا ہے مولانا اثری صاحب کا قلم ششتہ اور پیرایہ شگفتہ ہوتا تھاآپ کے قلم سے لکھے ہوئے الفاظ قارئین کے دل و دماغ میں انمٹ نقوش ثبت کرتے ہیں مولانا اثری صاحب برابر لکھتے رہے اور خوب داد تحسین وصول کی۔
مولانا مجیب اﷲ ندوی بانیٔ جامعۃ الرشاد اعظم گڈھ رحمہ اﷲ مولانا ابو علی اثری صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ مولانا اثری تقریباً ۶۰ برس دارالمصنفین سے وابستہ تھے گو ان کا تعلق شعبۂ تصحیح سے تھا مگر وہ صرف کاپی و پروف کی تصحیح نہیں کرتے بلکہ مضامین کی بھی تصحیح کردیا کرتے تھے وہ خود صاحب ذوق تھے اور علامہ شبلی کے طرز تحریر کے ادا شناس تھے اسی لئے دوسروں کے مضامین پر ناقدانہ اصلاح کرتے تھے یہاں تک کہ وہ مولانا سید سلیمان ندوی کی تحریر کی اصلاح سے نہیں چوکتے تھے اور سید صاحب برا نہیں مانتے تھے راقم الحروف کی بہت سی تحریریں ان کی اصلاح کی رہین منت ہیں‘‘
ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’ لکھنے لکھانے کا چسکا مجھے ہائی اسکول کے زمانہ طالب علمی میں پڑ گیا تھا میری ابتدائی تربیت میرے محترم بزرگ مولوی عبدالباری( قلمی نام ابو علی اثری) کی مرہون منت ہے یہ کون صاحب ہیں اور کس منصب پر فائز ہیں اس کا جواب ان کی شخصیت کیلئے کافی نہیں ویسے تو دارالمصنفین اعظم گڈھ سے وابستہ ہیں اور آستانۂ شبلی و سلیمان کی خاک روئی کو اس پیرانہ سالی میں مایۂ امتیاز سمجھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ان خاصان خواص میں ہیں جو اپنی گمنامی کو ناموری پر ترجیح دیتے ہیں‘‘
بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو
اثری صاحب آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس نوگڈھ منعقدہ ۱۹۶۱ء تین روزہ تاریخی و مثالی کانفرنس میں شیخ الحدیث عبید اﷲ رحمانی مبارکپوری و مولانا نذیر احمد رحمانی کی معیت میں نوگڈھ کے مکمل پروگرام میں شریک رہے ، مولانا ابو علی اثری نے آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس نوگڈھ کے عنوان سے جریدہ ترجمان دہلی میں مضمون لکھا تھا جس کو پڑھنے سے کانفرنس کا پورا نقشہ نظر کے سامنے آجاتا ہے مولانا اثری رقم طراز ہیں:
’’ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے موقع پر شیخین یعنی شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارکپوری اور مولانا نذیر احمد رحمانی املوی کی معیت میں جانا ہوا تو پتہ چلا کہ ان اطراف میں مؤ اور غازی پور سے کہیں زیادہ اہل حدیث ہیں اور ان کے بڑے بڑے مدارس اور دارالعلوم ہیں ، مدرسہ رحمانیہ دہلی کے پڑھے ہوئے بہت سے علماء ہیں جس میں سب سے ممتاز مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈانگری اور مولانا عبدالجلیل صاحب رحمانی ہیں جن سے اس اجلاس کے موقع پر نیاز حاصل ہوا دونوں بحمد اﷲ بڑے اچھے مقرر اور اہل قلم ہیں اور دونوں اپنے ذاتی اثر و رسوخ سے ایک ایک مدرسہ چلا رہے ہیں ، جھنڈانگر کے مدرسہ سے جس کے ناظم مولانا جھنڈانگری ہیں سارا زمانہ واقف ہے جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر نوگڈھ سے تھوڑی دور نیپال میں واقع ہے اور دین کی بڑی خدمت کررہا ہے اس مدرسہ کو دیکھنے کا اشتیاق تھا لیکن افسوس کہ اتنے قریب پہونچ کر اس کی زیارت سے محروم رہ گیا ۔ نوگڈھ آل انڈیا اہل کانفرنس کا غیر معمولی شاندار اجلاس انھیں دونوں بزرگوں اور ان کے رفقاء کی قوت عمل کا مظہر تھا ، کانفرنس کی پوری تاریخ میں شاید اس سے شاندار اجلاس کہیں ہوا ہو، جمعہ کی نماز میں آدمیوں کی تعداد تو الگ رہی صفوف نماز حد نظر تک تھیں جن کو گنا نہیں جا سکتا اس مجمع کو دیکھ کر جو بھی اس میں شریک تھا اس کے چشم تصور کے ساتھ میدان عرفات کا نقشہ پھر گیا تھا اتنا بڑا دینی مجمع جس میں ہندوستان کے ایک ایک گوشہ سے کھنچ کر لوگ آگئے تھے ، شاید چشم فلک نے اس سرزمین پر کبھی دیکھا ہو ، مولانا جھنڈا نگری ، مولانا عبدالجلیل رحمانی اور ان کے رفقاء کی کوشش سے اس جنگل کو منگل بنا دیا تھا مؤ میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا جو اجلاس ۱۹۲۳ء میں ہوا تھا اس کا سوواں حصہ بھی نہیں تھا اگر چہ اہل حدیث کی تاریخ میں اس کی بھی بڑی اہمیت ہے اور اس میں وقت کے بڑے بڑے مشاہیر شریک ہوئے تھے مثلاً مولانا قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری صاحب رحمۃاللعالمین جو صدر جلسہ تھے ، مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی، حافظ الحدیث مولانا عبدالتواب علی گڈھی ، شاعر اسلام مولانا محمد یوسف شمس فیض آبادی ، مولانا داؤد غزنوی ، شیر پنجاب مولانا ثناء اﷲ امرتسری وغیرہ وغیرہ موجود تھے ۔ اب ہماری بد قسمتی سے کوئی زندہ نہیں ہے نوگڈھ کے اجلاس میں بھی اس وقت کے مشاہیر علماء اہل حدیث شریک تھے۔
مولانا عبدالوہاب صاحب آروی جو کانفرنس کے صدر تھے مولانا عبید اﷲ رحمانی صاحب مرعاۃ الفاتیح ، مولانا نذیر احمد رحمانی املوی ، شیخ الحدیث جامعہ رحمانیہ بنارس مولانا عبداﷲ شائق مؤی، مولانا ابو مسعود قمر بنارسی مولانا محمد داؤد راز ، حافظ یحییٰ دہلوی ، حاجی محمد صالح دہلوی، مولانا محمد احمد صاحب ناظم جامعہ فیض عام مؤ ، مولانا محمد حسین میرٹھی امام مسجد اہل حدیث کولوٹولہ کلکتہ ، بہت سے بہار، یوپی، پنجاب، دہلی، مدراس، میسور، کیرالا، اڑیسہ، آسام، نیپال اور کشمیر کے علماء اور اعیان اہل حدیث جن کے نام مجھے اس وقت یاد نہیں سفیر مملکت سعودیہ عربیہ جناب یوسف فوزان نوگڈھ میں اپنے شاہانہ استقبال اور مجمع کی کثرت سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے نسلاً عرب ہیں لیکن وطناً ہندوستانی ہیں اور اردو ہندوستانیوں کی طرح بولتے ہیں ، انھوں نے کانفرنس میں تقریر اردو میں کی تھی۔
خطوط نویسی کا ابو علی اثری کو ایسا چسکا لگ گیا تھا از حد ضعیفی کے عالم میں جیسا کہ ان کی عمر ۹۰ سے تجاوز کر چکی تھی وہ روزانہ کسی نہ کسی کو خط ضرور لکھتے تھے ۳؍جون ۱۹۹۳ء کو وہ خط سپرد ڈاک کرکے اپنے شہر اعظم گڈھ کے چوک پر گئے وہیں اتفاقاً کسی رکشہ یا سائیکل سے ایکسیڈنٹ ہو جانے کی وجہ سے سڑک پر گڑپڑے محلہ کا ایک لڑکا ان کو اٹھاکر مکان پر لے آیا ان کے داہنے کولھے میں اتنی زیادہ تکلیف تھی کہ وہ کروٹ نہیں لے پا رہے تھے پائخانہ و پیشاب کیلئے بھی وہ اٹھ نہیں سکتے تھے وہ بے انتہا کراہ رہے تھے ادھر ایک مہینہ سے گھر کے لوگوں نے تاکید کر دیا تھا کہ اس کمزوری اور ضعیفی کے عالم میں مکان سے باہر نہ جایا کریں کیونکہ اس سے قبل وہ کئی بار رکشہ سے ٹکرا چکے تھے۔ ۴؍جون ۱۹۹۳ء کو ڈاکٹر آفتاب احمد خاں صاحب نے اکسرے لیا تو پتہ چلا کہ کولھے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے شہر کے مشہور و معروف ڈاکٹر جاوید اختر صاحب نے آپریشن کیا آپریشن تو کامیاب رہا لیکن از حد کمزوری کی وجہ سے ان کی خوراک بہت کم ہوتی گئی اور آخر موت و زیست کی کشمکش کے بعد ۳۰؍جون ۱۹۹۳ء بروز چہار شنبہ وقت ۸؍بجے شب ان کی روح قفص عنصری سے پرواز کر گئی ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔
دوسرے دن ان کی نماز جنازہ مولانا حافظ عمیر الصدیق صاحب نے پڑھائی اور ایک عظیم مجمع کی موجودگی میں اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دئیے گئے ۔ اس طرح ہم لوگ ایک ہیرا اور اردو ادب کے ایک قدیم و عظیم خادم سے محروم ہو گئے ۔
ہمارے بعد اندھیرا رہے گا محفل میں ہزار شمع جلاؤ گے روشنی کے لئے
ارشد علی انصاری اعظمی
۱۳؍فروری ۲۰۱۳ء
جہاد زندگی کا ایک اولوالعزم مجاہد
محمد صغیر سالار رحمہ ٗاﷲ تلسی پور
(ولادت ۱۹۲۱ء وفات ۱۱؍نومبر ۱۹۹۳ء)
موزوں و سڈول جسمانی اعضاء و قد و قامت رنگ گندمی ، چہرہ کتابی، بے چین مضطرب و متفکر آنکھیں ، چوڑی پیشانی ، ان سے آنکھیں ملا کر بات کرنے کی ہمت کم ہی لوگ جٹا پاتے تھے ۔ جامہ زیب مگر لباسی اہتمام سے قدرے لا پروا،عموماً کرتا پائجامہ لباس ہوتا تھا، گھر پر تہبند بھی زیب تن کرتے تھے کوئی ملاقاتی اگر تشریف لاتا تو بلا تاخیر اس کے پاس پہونچ جاتے ۔ گفتگو کا انداز ایسا کہ لوگ اس کے سحر میں بندھ جائیں یہ ہے اجمالی حلیہ محمد صغیر سالار کا
نرم دم گفتگو گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز
اعلیٰ کردار ، اور خدمت خلق ان کی زندگی کا محور تھا، تنگ دستی کے باوجود وہ احباب، اعزہ و ضرورت مندوں کا خیال رکھتے تھے۔
سالار صاحب کی شخصیت کا خاص وصف انکا منفرد و دلنشین انداز خطابت تھی۔ کسی بھی اجلاس کا کامیابی کی ضمانت ان کی اس جلسے میں شمولیت تھی ، بلیغ انداز خطابت کا وہ عالم کہ جب وہ بولتے تو بڑے بڑے خود ساختہ مقررین کی بولتی بند ہو جاتی ۔ اور جب وہ خاموش ہوتے تو ھل من مزید کی فرمائش ہوتی۔
محترم مولانا عبدالرؤف خاں صاحب ندوی کی تحریر کا ایک اقتباس جو انھوں نے ایک عظیم المرتبت شخص کے بارے میں لکھا ہے وہ تحریر بالکل ٹھیک ٹھیک محمد صغیر صاحب سالار ؒ پر منطبق ہوتی ہے۔
’’وہ‘‘ خالق کائنات کی طرف سے مضطرب دل اور متحرک وجود لیکر اس دنیا میں آئے تھے ان کا سینہ مسلمانوں کی ہمدردی سے بھر پور تھا اور ان کی روح انسانیت کی محبت میں بے چین رہتی تھی وہ ہر جگہ کے مسلمانوں کے معاون اورر ہر مقام کے بسنے والے مظلوم انسانوں کے حامی تھے‘‘
(ماخوذ کاروان سلف حصہ اول از عبدالرؤف خاں ندوی)
دامن کوہ میں آباد تاریخی اہمیت کا حامل مردم خیز قصبہ تلسی پور جہاں کا وہ پروردہ تھا ۔ جہاں پر جنگ آزادی اور اس کے مابعد بہت سی دینی، علمی، سیاسی شخصیتوں نے جنم لیا اور قابل ذکر کارہائے نمایاں بھی انجام دیئے ، مگر جو بات اپنی ہمہ جہت شخصیت و گوناگوں اوصاف سے متصف محمد صغیر سالار صاحب ؒ کی تھی وہ دوسروں کے حصہ میں نہیں آئی :
ع یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہاں
محمد صغیر صاحب سالار اپنے تفکر ، منفرد انداز خطابت، شعلہ بیانی، درویش و قلندر انہ صفت خوش اخلاق، خوش گفتار ، مہمان نواز ، حاضر جواب ، صبر و تحمل ، فراخ دلی، بہتر نثر نگاری ، اور پُر مغز شاعرانہ صلاحیت جس نے انھیں عوام الناس میں ہر دلعزیز ، محترم اور ممتاز بنا دیا تھا ۔نصف صدی گذارنے کے باوجود محمد صغیر سالار جیسی شخصیت خال خال ہی نظر آتی ہے۔
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہواتارہ مہ کامل نہ بن جائے
ایک طرف جہاں ان کے بے شمار مداح تھے وہیں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو ان کی کردار کشی میں مصروف رہتے تھے، کبھی انھیں جماعت اسلامی کا فرد بتایا گیا اور کبھی حنفی ، جبکہ وہ خود اس بات سے واقف تھے کہ محمد صغیر سالار جیسا شخص جن کے استاد راسخ العقیدہ ، سلفی المسلک جناب رحیم بخش ؒ تھے اور جس نے قرآن اور احادیث نبوی اور اسوۂ سلف سے اکتساب فیض کیا ہو۔ اور جو مولانا ابوالکلام آزادؒ کی فکر کا علمبردار رہا ہو اور ان کی شہرۂ آفاق کتابوں ترجمان القرآن ،غبار خاطر، تذکرہ،اور الہلال، البلاغ وغیرہ کا عمیق نظروں سے مطالعہ کیا ہو وہ مقلد ہو ہی نہیں سکتا ۔
آج بھی چشم بینا کیلئے صرف انجمن محمدیہ کی کار کردگی اور انجمن محمدیہ کے ہزاروں ابنائے قدیم جو ماشاء اﷲ سلفی المسلک ہیں اور انجمن محمدیہ سے آج بھی جڑے ہوئے ہیں کافی ہے۔ ان کی نظرمیں نہ کوئی مسلمان تھا اور نہ ہندو نہ کوئی سنی تھا اور نہ وہابی وہ یہ شعر اکثر پڑھا کرتے تھے
واعظ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہو ں میں
ان کے پاس ہر آدمی کے درد کا درماں تھا شاید یہی وجہ تھی ان کا کٹر مخالف بھی اپنی پریشانیاں لیکر آتا تھا اور مطمئن ہوکر واپس جاتا تھا۔ ان کا قول تھا کہ اگر تمہارے پاس تمہارا مخالف بھی آئے تو اسے صحیح مشورہ دینا چاہئے ، چاہے اس سے تمہاری ذات کو ہی نقصان کیوں نہ پہونچے۔ کیونکہ مشورہ ایک امانت ہے ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انھوں نے نیکی خیر خواہی اور احسان کے جذبے کے تحت آزادی سے پہلے انجمن ہدایت الاسلام کی بنیاد ڈالی اور انہی کے توسط سے مہاراجہ بلرام پور سے انوار العلوم کے بچوں کے کھیل کود کیلئے فیلڈ کی درخواست کی جو منظور ہوئی۔
ڈرل کے واسطے تھوڑی زمیں دان دیجئے
یہ میری جان ہے ہمکو ہماری جان دیجئے
دوسری طرف انھوں نے ۱۹۵۴ء میں اپنے رفقائے کار کے ساتھ ملکر انجمن محمدیہ کی بنیاد ڈالی اور کفر و الحاد ، شرک و بدعت ، اوہام و خرافات کے خلاف جہاد کا آغاز کیا ان کے رفقائے کار میں چودھری عظمت اﷲ خاں صدر، چودھری محمد خلیل خاں ، حاجی منشی رضا ؒ، عبدالغفور ؒ پنچ، محمد حسن و بسم اﷲ پخوری، عبدالرشید پردھان ہر ہٹہ ، رحیم بخش ؒ ، برخوردار محمد بشیر، پہلوان عبدالحمید، عبدالرؤف پنچ اور حاجی عبدالشکور کوئلہ باسہ وغیرہ والد محترم حبیب اﷲ صدیقی جنھوں نے اول روز اس ادارہ کیلئے اپنا ایک مکان وقف کیا بہت سارے مخلصین پیش پیش تھے ۔ ان کا یہ شعر انجمن محمدیہ کی صحیح ترجمانی کرتا ہے کسی سامری نے جنم دیا ہے طلسم دور سیاہ کو
یہ اسی طلسم کا توڑ ہے یہ عصائے موسویٔ شام ہے
ایسے وقت میں جبکہ صحیح العقیدہ مسلمانوں کو سر چھپانا بھی تلسی پور میں مشکل ہو رہا تھا ۔ انھوں نے ان مشکل ترین حالات میں بھی اﷲ کی مدد سے انجمن محمدیہ کی شکل میں سر چھپانے کا انتظام کیا۔
سقوط تحریک خاکسار کے بعد ان کی زندگی میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب ان کی متاع لوح و قلم چھین لی گئی۔ تو انھیں خون دل میں اپنی انگلیاں ڈبوکر اس سے قلم کا کام لیا۔
محمد صغیر سالار نے اپنے گمراہ دینی بھائیوں سے کو ٹکراؤ لینے کے بجائے ۔ افہام و تفہیم کا راستہ اختیا ر کیا ، انھوں نے ہمیشہ اس بات سے احتراز کیا جس سے ملت کا شیرازہ منتشر ہوتا نظر آئے ۔
تلسی پور کی پوری ملی تاریخ میں انجمن محمدیہ رجسٹرڈنے سنگ میل اور مشعل راہ کا کام کیا۔ کدورتیں مٹیں ، غلط فہمیاں دور ہوئیں، لوگوں کو ایک دوسرے کے نزدیک آنے کا موقع ملا اور اس کے بعد انجمن کی تربیت یافتہ نئی نسل کے زمام کا راپنے ہاتھوں میں لے لیا اور نئی پودا کو شرک و بدعت، کفر و الحاد کی مسموم ہواؤں سے محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا ۔ ان کا یہ کارنامہ آنے والا مورخ سنہرے حروف میں لکھے گا۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ محمد صغیر سالار راسخ العقیدہ اور سلفی المسلک مسلمان تھے انھوں نے انجمن محمدیہ کے دستور میں مجلس منتظمہ کے افراد کو اہلحدیث ہونا ضروری قرار دیاتھا۔
آج انجمن محمدیہ سے فیض یافتہ کتنے ہی علماء ، ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، ٹکنیشن اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد میدان عمل میں سر گرم ہیں ۔ محمد صغیر سالار کی ستائش میں لکھی گئی۔ چودھری عظمت اﷲ کی تحریر آج بھی زبان حال سے ان کی عظمت کو بیان کرتی نظر آتی ہے ۔ محمد صغیر سالار کی ہمہ جہت شخصیت کا احاطہ کرنا مجھ جیسے ادنیٰ طالب علم کیلئے محال ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کا کوئی چاہنے والا ان کے حیات اور خدمات کو تحقیق کا موضوع بنائے۔ تاکہ ان کی شخصیت کے وہ پہلو جو اب تک منظر عام پر نہیں آپائے ہیں اجاگر کرے تاکہ آنے والی نسلیں ان سے استفادہ کر سکیں۔
محمد صغیر سالار پر لکھنے کا حق اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ ان کے مربی و روحانی مرکز رحیم بخش کے نام نامی کا ذکر نہ آئے ۔ رحیم بخش جس نے صغیر سالار ؒ جیسے ان گڈھ پتھر کو تراش کر ہیرا بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ رحیم بخش زمیندار خانوادے سے متعلق تھے۔ جن کی لائبریری مختلف موضو عات پر مبنی کتابوں سے پُر تھی۔ اور جن کا کتب خانہ تشنگان علوم کیلئے مرجع تھا۔ رحیم بخش راسخ العقیدہ اور سلفی المسلک مسلمان تھے تلسی پور اسکے مضافات میں توحید و سنت کی شمع روشن کرنے والوں میں ان کا نام سر فہرست تھا ا ن کی شخصیت کو نکھارنے اور سنوارنے میں تحریک خاکسارا ن حق ‘‘ نے اہم رول ادا کیا ۔ جب ہندوستان انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہو نے کیلئے ہاتھ پیر مار رہا تھا ایسے وقت علامہ عنایت اﷲ مشرقیؒ جو ۸ زبانوں کا علم رکھتے تھے تمام ہندوستان کا دورہ کیا اور خاکسار نوجوانوں کی ایک بڑی فوج انگریزوں کے خلاف اکٹھی کی ۔ ان کی کوششوں سے ہندو اور مسلمان ایک ہو کر انگریزی حکومت کے خلاف محاذ آرا ہوئے انھوں نے تین نکاتی پروگرام کا نعرہ دیا ۔ اعلیٰ کردار ، ڈسپلن ، اور خدمت خلق ( فلاحی کام) جس نے خاکسار کے نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔ جس وقت ہندوستان آزاد ہوا اور ملک کی تقسیم کی آواز بلند ہوئی۔ علامہ مشرقی نے زبر دست اس کی مخالفت کی بعض وجوہ کی بنا پر ان کی ایک نہ چلی اور ملک دو حصوں میں بٹ گیا۔
محمد صغیر سالار علامہ کی ذات اور مشن سے بے حد متاثر تھے ۔ انھوں نے خاکسار تحریک میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس وقت ان کی عمر ۲۲ ؍ ۲۳ سال تھی ۔ علامہ کی نظر انتخاب ان پر پڑی اور وہ تحریک کے علاقائی سالار منتخب کئے گئے ۔ سالار صاحب ؒ کو یہ فخر حاصل تھا کہ علامہ انھیں ا ن کے نام سے جانتے تھے ، تحریک کے لوگ کبھی ہندو مسلم میں تفریق روا نہیں رکھتے تھے اور شاید اسی تربیت نے صغیر سالار ؒ کو ہندو مسلم سے پیار کا خو گر بنا دیا۔
صغیر سالار تا عمر قرآن حکیم، احادیث رسول ، اسوۂ اسلاف اور تذکرہ کو اپنے زندگی کا محور بنائے رکھا۔ صغیر سالار کی زندگی کو مختلف عناوین میں منقسم کیا جا سکتا ہے ، ان کی نجی زندگی ان کا کاروبار ، عسکری زندگی، فلاحی ملی و دینی زندگی اور انکی سیاسی زندگی جیسے موضوع سخن بنانا اس وقت ممکن نہیں ، دین سے محبت ، ملت کا درد، قومی یکجہتی، تعلیمی جدو جہد انکی حیات کے روشن ابواب ہیں ۔ تعلیم کو لیکر وہ کتنے حساس اور فکر مند تھے ان کے مضمون سے مندرج ایک اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے ۔
’’ قوموں کے عروج و زوال کا راز ہمیشہ ان کے عمل میں مضمر رہا ہے ، کسی قوم کے اعمال سنورے ہیں ……تو مشاطۂ تعلیم کے ہاتھوں۔ اس کارگاہ مہر و عمل میں جہاں بھی اس عصمت تابہ کے دست حنائی نے جنبش کی وہیں اعمال کے سادہ چہروں میں رنگ و نور بھر گیا۔‘‘ اور آج علم الٰہی اور وسواس الخناس میں مقتدائے الٰہی جنگ جاری ہے اور رہے گی ۔ اس محاربۂ عظمیٰ کی ابتدا۔ ابتدائی تعلیم سے شروع ہوئی ، سب سے پہلے شیطان والدین یا سرپرستوں کے ذہنوں کو بگاڑتا ہے اور بڑی بڑی ڈگریوں کا لالچ دیکر سر پرستوں کو بظاہر لا دینی حکومت میں چلنے والے مدارس میں بچوں کو بھیجنے کی ترغیب دلاتا ہے جہاں یہ بچے داخل ہو کر دیو مالائی تعلیم کے ذریعہ علم الٰہی سے بہت دور کردیئے جاتے ہیں ، اور انتہائی چالاکی سے تیار کئے گئے نصاب کے ذریعہ ان کے ذہنوں کو بدل دیا جاتا ہے ۔ جہاں مکہ کے بجائے ایودھیا اور پیغمبر اسلام ﷺ کے نام کی جگہ رام اور کرشن اور حج کی جگہ تیرتھ اور ایک خدا کے بجائے ہزاروں دیوی دیوتاؤں کا احترام سکھایا جاتا ہے۔ خدائے واحد کا تصور ، خوف آخرت ، جزاوسزا، علم الٰہی سے بغاوت ، رسل علیہ السلام سے لا علمی اور آگے چل کر خلافت ارضی ، جہانگیری و جہاں بینی کے تمام دروازے بند کردیئے جاتے ہیں ۔
ان کے اعلیٰ کردار، دور اندیشی ، حب الوطنی کے کچھ نمونے جس کا ذکر کئے بغیر صغیر سالار صاحب کی ہمہ گیر شخصیت کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔
اعلیٰ کردار: ایک سیاسی الیکشن میں انھوں نے اپنے غیر مسلم دوست کا ساتھ دیا اور وہ خوداپنا الیکشن ہار گئے جبکہ اس دوست کا ساتھ نہ دیکر اپنا الیکشن آسانی سے نکال سکتے تھے ۔ کئے ہوئے وعدے سے مکر کر اپنے کردار کو مجروحح نہ ہونے دیا۔
صبر و تحمل و دور اندیشی: برادران وطن کے ایک تیوہار ہولی کے موقع پر کچھ شر پسند عناصر نے مسجد میں رنگ ڈال دیا ۔ لوگوں نے ان سے رجوع کیا انھوں نے خود جاکر موقع واردات کا معائنہ کیا اور اپنے ساتھ گئے چند معتمد افراد کے ذریعہ رنگ کو اچھی طرح صاف کروادیا۔ جس سے آئی بلا ٹل گئی۔
اتفاق نہ رکھتے ہوئے محرم کے جلوس کی قیادت:
ایک بار ۱۹۸۵ء میں درگا پوجا اور محرم ایک ساتھ پڑا شر پسند عناصر فتنہ و فساد پر آمادہ تھے، سڑک بٹ گئی ان حالات میں انھوں نے محرم کے جلوس کی قیادت کی اور نہایت صبر و تحمل اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلوس کو بحسن و خوبی نکال لے گئے جبکہ شرارت پسند عناصر کے پھینکے گئے پتھر سے زخمی ہو گئے اور اف تک نہ کیا۔
تلسی پور میں ایک دینی مدرسہ اور پٹرول پمپ کے بیچ ایک صاحب سنیما ہال بنانے کا پرمٹ لے آئے اور تناتنی کا ماحول پیدا ہوا۔ لوگ ان کے پاس آئے اس وقت وہ سخت بخار میں مبتلا تھے پھر بھی فوراً SDMبلرام پور جو موقع پر موجود تھے حاضر ہوئے اور اپنی گفتگو سے حاکم وقت کو مطمئن کر دیا اور سنیما ہال کی منظوری کالعدم قرار پائی۔
آج جبکہ ہمارے وطن عزیز کا پورا منظر نامہ بدلا ہوا ہے۔ مخلص اور جانثار قائد ین کا فقدان ہے اور دور دور تک اندھیری سرنگ ہے ۔ جہاں روشنی نظر نہیں آتی آج ضرورت اس بات کی ہے کہ محمد صغیر سالار جیسا کوئی شخص جسے نہ ستائش کی تمنا ہو اور نہ صلے کی پرواہ وہ آگے بڑھکر امن و آشتی، قومی یکجہتی اور فلاح ملت کا ساتواں در کھول دے جہاں پر قوم ملت کے درد کا درماں مدفون ہے۔ وہ عظیم انسان جو تا عمر فلاح انسانیت سے سرخرو ہوئے وطن اور ملت کے درد سے سر شار و پریشان رہا ۔ عمر کے آخری ایام میں عارضہ قلب میں مبتلاہوا۔ حالت زیادہ بگڑی تو میڈیکل کالج لکھنؤلے جایا گیا ۔ جہاں معا لجین نے ان کے دل کی دھڑکن بند ہو جانے کی شہادت دی۔ مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کچھ تجربہ کارڈاکٹروں نے ہمہ وقتی نگہداشت چمبر میں لے جاتے ہوئے ان کی حکمت عملی اور کرم خداوندی کی بدولت انکی دھڑکن واپس آگئی اس کے بعد وہ ایک دہے سے زیادہ ہمارے بیچ نارمل حالت میں رہے ۔
اور بالآخر اﷲ کی طرف سے بلاوا آگیا اور انھوں نے اپنی جان(۱۱؍نومبر ۱۹۹۳ء صبح صادق ساڑھے تین بجے )کو مالک حقیقی کے سپرد کردی، اور اس سے جاملے اس وقت ان کی عمر ۷۲سال کی تھی ۔
خون دل و جگر سے ہے سرمایۂ حیات
فطرت لہو ترنگ ہے غافل!نہ جلترنگ
(علامہ اقبالؒ)
(ڈاکٹر) محمد غالب
تلسی پور - بلرام پور یوپی
مولانا قاری حافظ عبید الرحمن بنارسی رحمہٗ اﷲ
(ولادت: ۱۳۳۶ھ مطابق ۱۹۱۷ء وفات :۱۴۱۴ھ مطابق ۱۹۹۴ء)
نام و نسب: مولانا قاری حافظ عبید الرحمن بن عبدالحمید بن مولانا عبداللطیف بن عبدالغفور بن حاجی ننھو بن شیخ ولی محمد بن پیر محمد فرنگی۔
آپ بنارس کے مشہور محلہ مدن پورہ کے ایک معزز گھرانے میں ۱۹۱۷ء میں پیدا ہوئے اور یہیں نشو و نما ہوئی۔
آپ کا گھرانہ علمی اور مذہبی گھرانہ ہے آپ کے دادا عبداللطیف ؒ (م ۱۹۴۵) عالم دین تھے ،چچا مولانا عبدالمجید حریری صاحب ؒ (م ۱۹۷۲ء) کا شمار ہندوستان کے چوٹی کے علماء میں ہوتا تھا دوسرے چچا عبدالحلیم صاحب ؒ(م ۱۹۸۵ء) حافظ قرآن تھے ، علم و تعلم کا یہ سلسلہ آج بھی آپ کے گھرانے میں جاری ہے۔
تعلیم و تربیت : مولانا کی تعلیم و تربیت کا آغاز جامعہ رحمانیہ میں ہوا ، دس سال کی عمر میں حفظ مکمل کر لیا، آپ کے دادا مولانا عبداللطیف صاحب ( م ۱۹۴۵ء) مسجد نیمیا بازار سدا نند میں نماز تراویح پڑھانے کیلئے گیارہ سال کی عمر میں اپنے ہمراہ لے جاتے تھے۔ آپ نے جملہ علوم و فنون کی تکمیل جامعہ رحمانیہ میں ہی کی، آپ کے اساتذہ میں مولانا محمد منیر خاں(م۱۹۴۵ء)مولانا عبدالغفار حسن رحمانی رحمہ اﷲ (مقیم حال کراچی) قاری احمد سعید (م۱۹۶۴ء) مولاناعبدالرؤف رحمانی جھنڈانگری رحمہ اﷲ، مولانا حبیب اﷲ(م۱۹۴۱ء) مولانا ابوالقاسم صاحبؒ (م۱۹۶۵ء) والد ماجد شیخ الجامعہ حافظ عبدالقدیر صاحب کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں ، دوران تعلیم آپ نے الٰہ آباد عربی،و فارسی بورڈ سے ۱۹۴۰ء میں عالم اور ۱۹۴۲ء میں فاضل کا امتحان پاس کیا۔
حفظ کی تکمیل کے بعد فن تجوید کی تکمیل قاری احمد سعید صاحبؒ (م۱۹۶۴ء) سے کی، آپ نہایت خوش گلو اور خوش الحان قاری تھے ، قاری احمد سعید صاحب ؒ کو اپنے تین شاگردوں پر بڑا ناز تھا، جن میں سے ایک آپ بھی تھے۔
۱۹۵۵ء میں مدراس میں آل انڈیا قرأت کا مقابلہ ہوا ، آپ نے بھی اس مقابلے میں شرکت فرمائی ، اور پہلی پوزیشن حاصل کیا،آپ کو عمدۃ القراء کے خطاب اور مڈل سے نوازا گیا۔
آپ عربی ،اردو ، انگریزی کے اچھے خطاط اور طغرا نویس تھے جہاں بھی ان کے ہاتھ کے لکھے طغرے و سائن بورڈ لگے ہیں وہ ایک دلکش یادگار ہیں۔
تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے آبائی پیشہ تجارت کو اختیار کیا ، کاروباری مصروفیتوں کے باوجود قرآن و حدیث اور دینی کتابوں کا مطالعہ برابر جاری رکھتے تھے علم اور اہل علم کے قدر داں تھے ، کافی عرصہ تک حافظ ظہور والی مسجد کے خطیب رہے اور مسجد اہل حدیث نیمیا میں بھی کبھی کبھار خطبہ دیا کرتے۔ راقم نے دونوں مسجدوں میں آپ کے خطبے سنے ہیں، آپ کی تقریر آیات قرآنیہ و احادیث رسول سے مزین و مرصع ہوا کرتی تھی، زبان بہت صاف اور سلیس استعمال کرتے تھے، لوگ آپ کی تقریر نہایت دلچسپی سے سنتے تھے۔
وعظ و ارشاد اور دعوت و تبلیغ کی محفلوں میں شریک ہوا کرتے تھے، آپ کتاب و سنت کی اشاعت اور سلفیت کی ترویج کے لئے بڑا جذبہ رکھتے تھے۔
بنارس کے دیہی علاقوں نیز بنارس سے باہر بھی آپ تبلیغ کیلئے جایا کرتے تھے ، آپ پُر جوش داعی و مبلغ تھے ، چنانچہ ۱۹۴۷ء کے ہنگامہ خیز انقلاب کے بعد آپ کے استاذ قاری احمد سعید ؒ صاحب(م۱۹۶۴ء) نے جب تبلیغی فرائض انجام دینے کیلئے یوپی اہل حدیث کانفرنس کی بنیاد ڈالی تو تبلیغی مشن میں اپنے استاذ کے ساتھ ساتھ آپ بھی ہوتے تھے، قاری صاحبؒ اکثر بیشتر اپنے ساتھ رکھتے ، اشتہاروں میں آپ کا نام مقررین کی فہرست میں ہوتا، جلسہ گاہ میں تلاوت کلام پاک سے ایک سماں باندھ دیتے اور تقریر سے عوام و خواص کو اپنی طرف متوجہ کر لیتے، مدراس میں چند برسوں تک نماز تراویح میں قرآن پاک سناتے رہے، راقم کو مسجد اہل حدیث نیمیا میں آپ کے پیچھے نماز تراویح پڑھنے کا شرف حاصل ہے، آپ کے قرآن مجید پڑھنے کا انداز نرالا تھا ، تراویح میں جب آپ قرآن مجید پڑھتے تھے تو بڑا بھلا معلوم ہوتا تھا، آج بھی لوگ موصوف کی خوش الحانی کا تذکرہ کرتے ہیں۔
انجمن حفلۃ الخطابہ جامعہ رحمانیہ سے نکلنے والے میگزین ’’ گلدستہ‘‘ کے آپ مدیر تھے۔ اور انجمن حفلۃ الخطابۃ کے ناظم بھی ۔’’ گلدستہ محرم‘‘ میں آپ کا ایک مضمون ’’ ماہ محرم کے احکام وفضائل اور بدعات‘‘ پر موجود ہے جو تقریباً بیس صفحات پر مشتمل ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو لکھنے کا بھی ذوق تھا۔
آپ درمیانہ اور متوسط قد و قامت کے آدمی تھے۔ کشادہ پیشانی، گورا رنگ، دہرا بدن، چہرے پر داڑھی آپ کی شخصیت کو بارونق بنائے رکھتی تھی، آپ با اخلاق، خوش مزاج اور ملنسار تھے، وضع کے بڑے پابند تھے،آپ صحت و تندرستی کا خاص خیال رکھتے تھے اور روزانہ ورزش آپ کا معمول تھا۔
زندگی کے آخری مرحلے میں آپ مختلف عوارض میں مبتلا ہو گئے تھے جس کی وجہ سے لوگوں سے ملنا اور گفتگو کرنا بہت کم کردیا تھا اور گوشہ نشینی اختیار کرلیا تھا، ۳۰ذی الحجہ۱۴۱۴ھ مطابق ۱۱؍جون ۱۹۹۴ء بروز سنیچر ساڑھے آٹھ بجے دن میں اچانک دل کا دورہ پڑا، اور روح قفص عنصری سے پرواز کر گئی۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
کس سادگی سے کاٹ کر اپنی تمام عمر چپ آکے آپ شہر خموشاں میں سو گئے
آپ کی نماز جنازہ مولانا عبدالوحید رحمانی صاحب رحمہ اﷲ شیخ الجامعہ مرکزی دارالعلوم نے پڑھائی، اور اپنے آبائی قبرستان سکرا باغ میں مدفون ہوئے۔ اﷲم اغفرلہ وارحمہ واجعل الجنۃ مثواہ۔ عصر کی نماز کے بعد تجہیز وتکفین عمل میں آئی۔
تاریخ قطعہ ٔ وفات مندرجہ ذیل ہے:
واصل حق ہوئے خاموش انیس الحان حافظ گنج نہاں قاری عبید الرحمن
۱۴۱۴ھ ۱۹۹۴ء
مرحوم کے پسمانگان میں چھ لڑکے اور دولڑکیاں ہیں ۔ لڑکوں کے نام یہ ہیں:
(۱) عزیز الرحمن (۲) ولی الرحمن (۳) نعیم الرحمن
(۴)فضل الرحمن ( ۵)سعید الرحمن ۱ (۶) کلیم الرحمن
ماشاء اﷲسبھی لڑکے با اخلاق اور خوش مزاج ہیں،اور اپنے کاروبار میں مصروف ہیں۔
مولانا محمد یونس مدنی
ماہنامہ محدث بنارس جولائی ۱۹۹۵ء
بحمد اﷲ مولانا قاری حافظ عبید الرحمن بنارسی کے سبھی لڑکے نیک مخلص با ا خلاق اور خوش مزاج ہیں ان سب میں کار خیر کا بڑا جذبہ پایا جاتا ہے خاص طور سے جناب سعید الرحمن اینڈ برادرس دینی سماجی فلاحی علمی کاموں کیلئے جود و سخا کا چشمہ جاری کئے ہوئے ہیں اﷲ تعالیٰ ایسی نیک خوش بخت اولاد کو دین و دنیا کی برکتوں سے نوازے اور حافظ مرحوم کے اولاد کی زندگی میں خیر و برکت عطا فرمائے اور ان کے اعمال خیر کے دائرے کو زیادہ سے زیادہ وسعت فرمائے تاکہ وہ اپنے والدین کیلئے صدقۂ جاریہ بن سکیں۔ (آمین)
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور بلرام پور
حافظ و قاری مولانا عبدالمنان اثریؔ رحمہٗ اﷲ شنکر نگری
ایک مرد درویش
( تاریخ وفات : ۲۲ فروری ۱۹۹۵ء)
داراو سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں اسد اللٰہی (اقبال)
ہمارے گاؤں شنکر نگرکو ضلع بلرام پور، گونڈہ، بستی اور سدھارتھ نگر میں ایک خاص مقام حاصل ہے، یہاں بڑے بڑے علماء اور بزرگوں کا ورود مسعود ہوتا رہا ہے اور ان علماء ربانی کی دعوت و تبلیغ کا ایک خاص اثر گاؤں کے باشندوں پر نمایاں رہا ، دینداری ، دینی شعور وافر مقدار میں پایا جاتا رہا ہے ۔ اور رسم و رواج ، بدعات و خرافات سے لوگ بیزار نظر آتے رہے ہیں ، ان علمائے ربانی کے اسماء گرامی کچھ اس طرح ہیں ۔ حاجی عبداللطیف غازی پوری رحمہ اﷲ(تحریک شہیدین کے تربیت یافتہ) مولانا خلیل الرحمن دہلوی، مولانا عبدالرحمن ڈوکمی( تلمیذ رشید میاں سید نذیر حسین دہلوی) مولانا عبدالرحمن پڑریا چھترپارہ اترولہ ، میا ں محمد اسماعیل ، میاں محمد خلیل ، منشی ماشاء اﷲ، منشی محمد یاسین بنھونی والے، شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارکپوری صاحب مرعاۃ ،حکیم مولانا عبیداﷲ رحمانی رائے بریلوی،مولانا زین اﷲ رحمانی طیب پوری ، صوفی نذیر احمد کاشمیری، مولانا محمد اقبال حسین ریواں، مولانا محمد اقبال رحمانی بونڈیہار،مولانا ابوالعرفان محمد عمر سلفی اسمعیلہ ،مولانا عبدالقیوم رحمانی دودھونیاں ، مولانا عبدالقدوس رحمانی ٹکریا، مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈانگری رحمہم اﷲ وغیرہم۔
ان علمائے ربانی کے علاوہ تین بزرگ اور عالم ایسے ہیں جو خود گاؤں شنکر نگر کے باشندے تھے جن کی دعوت اور عمل کا بھی اچھا اثر گاؤں والوں پر رہا ہے وہ حضرات یہ ہیں ۔
بلند پایہ عامل ، حافظ عبداﷲ عرف مونی بابا، عابد و زاہد نور محمد بن الٰہی بخش عرف مونچھ منڈاا الٰہی، حافظ مولانا ابو الشمس محمد عمر شنکر نگری۔
سطور بالا میں جن عظیم بزرگوں کا تذکرہ ٔ صادقہ کیا گیا ہے انہیں بزرگوں میں ایک نام منشی محمد یاسین رحمہ اﷲ بنہونی والے کا بھی ہے جن سے قاری عبدالمنان صاحب نے ابتدائی تعلیم حاصل کی ، اس کے بعد حافظ عبدالعلیم رحمہ اﷲ پپری والے سے جھنڈا نگر میں حفظ کیا اور تکیل مدرسہ فرقانیہ میں کی، پھر شنکر نگر میں حافظ و قاری عبدالمنان رحمہ اﷲ نابینا کنڈو والے سے بھی فیض کیا، پھر مدرسہ فیض عام مؤ اور اس کے بعد مدرسہ دارالحدیث اثریہ مؤ اور اخیر میں دارلعلوم دیو بند سے فراغت اور دستار فضیلت حاصل کی ۔
فاضل دیوبند ہونے کے بعد مدرسہ سبحانیہ الٰہ آباد گئے اور وہاں سے سبعہ و عشرہ کے قاری بن کر نکلے،۱۹۵۶ء میں جب مدرسہ محمدیہ نصرۃ الاسلام شنکر نگر کا سنگ بنیاد رکھا جارہا تھا، تو اس کے اولین مؤسسین اور بانیوں میں قاری عبدالمنان اثری رحمہ اﷲ کا بھی نام تھا،حالانکہ وہ ان کے طالب علمی کا دور تھا اور عہد جوانی تھی، نیز انہوں نے حافظ و مولانا ابوالشمس محمد عمرشنکر نگری رحمہ اﷲ سے مدرسہ محمدیہ نصرۃ الاسلام کی لائبریری کے لئے نادر کتب حاصل کیا ، یہ روایت چچا حافظ حبیب اﷲ نابینا حفظہ اﷲ کی ہے۔
قاری صاحب کے بچپن، عہد جوانی، زمانہ طالب علمی اور ایام پیری کے حالات وواقعات نہ مرتب ہیں نہ منضبط ، میں جو کچھ بھی قلمبند کررہاہوں وہ میری ذاتی رائے ، ذاتی مشاہدہ اور میری یادداشت کے دھندھلے نقوش ہیں ، اگر میری تحریر میں کوئی خوبی نظر آتی ہے تو وہ میرے قلم کا کمال نہیں بلکہ قاری صاحب کی شخصیت کے پر تو کا عکس حقیقی ہے ۔
قاری صاحب کا سراپا کچھ یو ں تھا۔
لمبا قد، بھاری بھرکم جسم، سانولا رنگ، گول چہرہ، خسخسی داڑھی، چھوٹی چھوٹی آنکھیں ، تھوڑے تھوڑے سر پر بال اور مخملی ٹوپی ، زیب تن کرتا پائجامہ، کبھی کبھی شیروانی چلتے تو رفتار میں تیزی ، خوش طبیعت اور خوش گفتار انداز گفتگو سنجیدہ اور مودبانہ مخاطب چھوٹا ہو یا بڑا ، بات میں وزن اور وقار ، کبھی کبھی گفتگو میں قدرے جلالی، فیاض دل، کھلا ہاتھ، مزاج عارفانہ اور قلندرانہ ، مجسم صبر اور توکل کا پیکر، یہ تھے قاری عبدالمنان عارف اثری رحمہ اﷲ ۔
قاری صاحب رحمہ اﷲ کی شخصیت میں بڑا تنوع تھا سادگی تھی، سنجیدگی تھی ، وقار تھا، نکھار تھا، خودی کا رکھ رکھاؤ تھا لوگوں میں اعتبار تھا اپنے تو اپنے ان کو غیروں سے بھی پیار تھا ، قرآن مجید کا پاکیزہ ذوق تھا، احادیث نبوی سے لگاؤ اور محبت تھی سیرت پاک ﷺ سے انس اور عقیدت تھی ،اردو زبان و ادب کا اچھا ذوق تھا، گاؤں شنکر نگر میں قاری صاحب کا شمار بڑے علماء میں تھا۔
جب میں نے ہوش سنبھالا ، تو قاری صاحب کی علمیت کے خوب خوب چرچے تھے ، عشرہ کے قاری سے مشہور تھے ، سنا گیا ہے کہ قاری صاحب شروع شروع میں بہت ہی عمدہ قرأت کرتے تھے ، ایک بار جب انھوں نے لکھنؤ کا سفر کیا اور وہاں ان کو کسی نے پان کھلا دیا ، اس کے بعد سے ہی ان کے گلے میں خرابی آئی اور تادم موت نہ گئی۔ اس کے باوجود جب بھی قاری صاحب تلاوت کرتے تھے تو بہت ہی پیارا انداز اور دلکش منظر ہوتا تھا، اور یہ خیال آتا تھا کہ ع
جس کی خزاں یہ ہے اس کی بہار مت پوچھ
نقد و نظر ، فکر و بصر اور علم و ادب کے اعتبار سے قاری صاحب کا مقام بہت بلند تھا ، ان کی فکری اساس میں بے پناہ وسعتیں اور ندرتیں تھیں۔
مثل خورشید سحر فکر کی تابانی میں
بات میں سادہ و آزاد، معانی میں دقیق
اس کا انداز نظر اپنے زمانے سے جدا
اس کے احوال سے محروم نہیں پیران طریق (اقبال)
داخلی معاملات ہوں یا خارجی ، دینی مسائل ہوں یا سیاسی امور ، قومی گفتگو ہو یا بین الاقوامی
بات چیت، ملی مسئلہ ہو یا جماعتی، جس موضوع پر بھی گفتگو فرماتے تھے،اس کے مالہ و ما علیہ پر سیر حاصل بحث کرتے تھے، ان کی ہر بات میں اخلاص جھلکتا تھا، قوم وملت کے لئے بڑا درد رکھتے تھے ، قاری صاحب غریب ہونے کے باوجود، غریبوں، یتیموں، بیواؤں، اور دینی طالب علموں کی بقدر استطاعت مدد فرماتے تھے، یہ تعاون وہ کیسے دیتے تھے کچھ معلوم نہیں۔
میری نوائیں الگ، میری دعائیں الگ
میرے لئے آشیاں سب سے جدا چاہئے
ہے یہی عین وفا دل نہ کسی کا دکھا
اپنے بھلے کے لئے سب کا بھلا چاہئے (ناصر کاظمی)
قاری صاحب نے غربت میں آنکھیں کھولیں ، غربت میں جئے اور غربت میں رحلت فرمائی مگر خودداری کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیا ، اسی خو دداری کی بنا پر کسی جگہ نوکری نہ کر سکے ، تعلیمی فراغت کے بعد کچھ دنوں تک مسجد مومن پورہ ممبئی میں امام و خطیب رہے، پھر دارالسلام عمرآباد مدراس چلے گئے اور ایک آدھ سال مدرس رہے اور کچھ دنوں تک مدھو پور ضلع سنتھال پرگنہ بہار کے مدرسہ اسلامیہ میں صدر مدرس اور وہاں کی جامع مسجد اہل حدیث کے امام و خطیب رہے، اور پھر اس کے بعد عمر بھر آزاد رہے ، لال تیل اور عطریات بناتے تھے اور اسی پر ان کا نان و نمک چلتا رہا ، گذر بسر ہوتی رہی اور پوری زندگی کشتم پشتم گذر گئی، بچپن سے جوانی اور جوانی سے بوڑھاپے تک چھپر کے مکان میں زندگی گذاردی، آخری عمر میں نیم پختہ مکان بناسکے اور صحیح و سالم چارپائی نصیب ہوئی، خستگی کا یہ عالم تھا مگر علم کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا اور خودداری کو گلے لگائے رکھا، وہ اکثر کہا کرتے تھے۔
نہیں یہ شانِ خودداری چمن سے توڑ کر مجھ کو
کوئی دستار میں رکھ لے کوئی زیبِ گلو کرلے (اقبال)
میری اپنی رائے ہے کہ وہ خود داری میں انتہا پسندی کے قائل تھے میں اس سے اتفاق نہیں رکھتا ہوں، آدمی خودداری کے ساتھ ساتھ بھی کسی کی ملازمت اختیار کرسکتا ہے اور دلجمعی کے ساتھ کام بھی کر سکتا ہے اور اس سے اس کا قد چھوٹا نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کے کام سے اس کی قدر بڑھ جاتی ہے اور اس کو اس کا جائز مقام بھی مل جاتا ہے، مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ جس علم اور فضل و کمال کے انسان تھے ان کی اسی انتہا پسندانہ خودداری کی بنا پر ان کو وہ مقام نہیں مل سکا جو کہ ملنا چاہئے تھا اور نہ ہی تحریر و تقریر اور میدان تصنیف و تالیف میں کوئی قابل ذکر خدمات ہی انجام دے سکے، ان کی پوری زندگی خستہ حالی میں گذری ،اور ان کی ساری علمی صلاحیت و لیاقت ان کے ساتھ ہی سپرد خاک ہو گئی ، جس پر مجھے ملال ہے اور نہایت دکھ، درد و افسوس کے ساتھ ذوق کی زبان میں کہہ رہا ہوں ۔
یوں پھریں اہل کمال خستہ حال افسوس ہے
اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے (ذوق)
قاری صاحب کی زندگی کا ایک اچھا اور خوشگوار پہلو یہ تھا کہ وہ گاؤں شنکر نگر کی سیاست سے ہمیشہ الگ تھلگ رہے ، وہ بے حد حساس دل و دماغ کے مالک تھے ، گاؤں سے سیاسی اتھل پتھل پر کبھی نگاہ نہیں ڈالی ، خلفشار میں کبھی نہیں پڑے ، انتشار کو کبھی ہوا نہیں دی، اپنی علمیت کا کبھی چرچا نہیں کیا، اپنا سکہ رائج کرنے کی کبھی کو شش نہیں کی، اور دراصل یہی علماء ربانی کی شان ہوتی ہے کہ وہ سیاسی آلودگیوں سے دامن بچائے رکھتے ہیں ، اختلاف کو کبھی ہوا نہیں دیتے ہیں ، بلکہ اصلاح بین المسلمین کے ہمیشہ خواہش مند ہوتے ہیں، یہی اسباب تھے کہ ان کا احترام ہر ایک کے نزدیک واجب التسلیم تھا، ہر کوئی ان کو عزت کی نظر سے دیکھتا تھا ،ان سے ملنے ان کے گھر جایا کرتے تھے ، جب کہ ان کے گھر میں صحیح و سالم چارپائی بھی نصیب نہیں ہوتی تھی، مگر قاری صاحب کا اخلاص تھا کہ لوگ دیوانہ وار ان کی طرف جایا کرتے تھے، اور ان سے مل کر آسودگی محسوس کرتے تھے، ہندوستان کے چوٹی کے علماء سے ان کے روابط بہت گہرے تھے، اور ان کی نظروں میں محبوب و پسندیدہ تھے ، شیخ لحدیث مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری، مولانا عبدالصمد شرف الدین بھیونڈی ، مولانا عبدالقیوم رحمانی بستوی، حکیم و مولانا عبید اﷲ رائے بریلوی و کشمیری، صوفی نذیر احمد کشمیری رحمہم اﷲ و غیرہ کے نز دیک بچوں کی طرح پیارے تھے۔
قاری صاحب کے کارناموں میں تین کام ایسے ہیں جن کو بھلایا نہیں جا سکتا ایک تو مدھوپور سنتھال پرگنہ بہار( موجودہ صوبہ جھار کھنڈ )میں جامعہ رحمانیہ کے نام سے ۱۹۸۷ء شوال ۱۴۰۷ھ میں ادارہ کا قیام ہے ، اور یہ ادارہ اس زمین پر قائم ہے جس کو قاری صاحب نے ۱۹۸۰ء میں خریدا تھا، یہ ادارہ بطرز سلف صالحین کتاب و سنت کی خدمت میں رواں دواں ہے ، اسی طرح دسمبر ۱۹۸۴ء میں اپنے وطن بلرام پور میں بھی ایک ایکڑ زمین خرید کر ’’ الجامعۃ الاسلامیہ السلفیہ‘‘ کے نام کے ساتھ ایک خالص سلفی دینی ادارہ کے قیام کا اعلان کیا، اور شروع میں ایک کرایہ کے مکان میں تعلیم کا باقاعدہ آغاز بھی کر دیا ، پھر ۲۳؍ذی قعدہ ۱۴۱۱ھ مطابق ۷؍جون ۱۹۹۱ء کو بعد نماز جمعہ اس ادارے کا سنگ بنیاد اسی خریدی ہوئی زمین پر رکھ دیا گیا، الحمد ﷲ اب وہاں پر ایک شاندار مسجد اور چند کمرے بنے ہیں اور تعلیم جاری ہے ، قاری صاحب نے اپنی طاقت بھر بہت ہاتھ پیر مارے، مگر اﷲ کو جس قدر منظور تھا اتنی ہی خدمت ہو پائی، اور وہ اﷲ کو پیارے ہوگئے ، ادارہ کے سلسلے میں قاری صاحب کے خواب بہت حسین تھے،اور کماحقہ حاصل نہیں ہو پارہے ہیں مگر جس حال میں بھی ہے لوگ مستفید ہو رہے ہیں اس کے نشیب و فراز کی بھی ایک تاریخ ہے جس کو قید تحریر میں لانے سے قاصر ہوں۔
چمن کو اس لئے مالی نے خون سے سینچا تھا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں (ساحرؔ)
بہر حال یہ دونوں ادارے قاری صاحب کے لئے صدقہ جاریہ ہیں اور توشۂ آخرت، قاری صاحب کا ایک تیسرا کارنامہ وہ ہے جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اوروہ ہے منکرین حدیث سے دو دو ہاتھ۔
قاری صاحب کا علم وسیع اور مطالعہ گہرا تھا ، صوبہ بہار( موجودہ صوبہ جھارکھنڈ) میں منکرین حدیث کے خلاف تو آپ پورا محاذ تنہا سنبھالے ہوئے تھے اور ہر موڑ پر منکرین حدیث کو دھول کی چٹائی ، قبل اس کے کہ قاری صاحب کی مدح و توصیف میں اکابرین جماعت و ملت کے خطوط کے چند اقتباسات کو نقل کروں ، جی چاہتا ہے کہ انکار حدیث کے پس منظر پر نہایت اختصار کے ساتھ تھوڑی سی روشنی ڈال دی جائے تو بہتر ہوگا ۔
انکار حدیث دراصل ذہنی آوارگی اور بے عملی کی پیداوار ہے ، کچھ تعقل پسندی اور نیچریت کی دین ہے اس کا آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا جب بعض احادیث بعض اذہان و قلوب پر گراں گذرنے لگیں اور ان کے خیالی اور تصوراتی دنیا میں آڑ ے آنے لگیں ، تو وہ ان کے انکار کی راہیں تلاش کرنے لگے اور کہنے لگے کہ یہ احادیث ظنی ہیں اور ظن کا تعلق یقین سے نہیں ہے اس لئے عقل ان احادیث کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے اور یوں ایک سلسلہ چل پڑا۔
اچھا ہے پاس رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے (اقبال)
دوسری صدی میں جن حضرات نے انکار حدیث کا بیج بویا وہ حجیت حدیث کے انکار کی جرأت نہ کرسکے ، بس چند احادیث پر اعتراض کیا اور خاموش ہو گئے ، لیکن ان حضرات نے جو انکار حدیث کا بیج بویا تھا وہ بارآور ہوا اور جہمیہ اور معتزلہ کی شکل اختیار کرتا ہوا تیرہویں اور چودہویں صدی تک پہونچتے پہونچتے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا او رپھر اس کے کڑے اور کسیلے پھل کو یورپی تہذیب کے دلدادہ اور اس سے مرعوب زدہ سر سید احمد خاں بالقابہ اور مولوی چراغ علی بازار کے چوراہوں پر ٹھیلے پر رکھ کر بیچنے لگے ،بہتوں نے اس پھل کو خریدا اور بہتوں نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ، لیکن جب مولوی عبداﷲ چکڑالوی، مستری محمد رمضان گوجرانوالہ، مولوی حشمت علی لا ہوری اور مولوی رفیع الدین ملتانی کا دور آیا، تو ان حضرات نے جملہ احادیث کے انکار کا بیڑہ اٹھالیا ، پھر مولوی احمد الدین امرتسری اور مسٹر غلام احمد پرویز کا منحوس دور آیا جس میں قرآن و حدیث اور پورا دین ایک کھیل بن کر رہ گیا ، اور پورے بر صغیر میں انکار حدیث کا زہر اور متعدی بیماری پھیلتی چلی گئی، متحدہ ہندوستان میں صوبہ پنجاب اور صوبہ بہار منکرین حدیث کے نشانہ پر تھے، پنجابی مسلمانوں کے متعلق اقبال نے سچ ہی کہا تھا۔
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کرلے کہیں منزل تو گذرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگادے
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد (اقبال)
سرزمین پنجاب فتنوں کی سرزمین رہی ہے ختم نبوت کی عمارت میں نقب زنی یہیں سے ہوئی ، غلام احمد قادیانی یہیں سے اٹھا ، مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمہ اﷲ پر قاتلانہ حملہ اسی سرزمین پر ہوا ، انگریزوں کے بڑے بڑے حامی اور ملک کے بڑے بڑے غداروں کو اسی سر زمین نے جنم دیا، پنجابی مسلمانوں کا جو نقشہ شورش کاشمیری نے کھینچا ہے نہایت افسوس ناک اور تکلیف دہ ہے، شورش کے الفاظ یہ ہیں:
’’ پنجاب برطانوی حکومت کیلئے ریڑھ کی ہڈی تھا اسے یہاں سے مضبوط اور سستا سپاہی ملتا رہا، جو یورپ کے میدانوں ، افریقہ کے صحراؤں، ترکوں کے دروازوں اور عربوں کے گھروں میں گھس گھس کے ان کیلئے لڑتا رہا، بلکہ مقامات مقدسہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں بھی جھجھکا نہیں، انگریزوں نے اپنے اس قلعہ کو مضبوط تر بنانے کیلئے یہاں مفادات کا ایک طلسم خانہ تیار کیا ، پنجاب کو بڑی بڑی زمین داریوں کا مرکز بنا ڈالا، ہندو مسلم فساد یہیں سے اٹھا ، سکھوں کو مسلمانوں کے مقابلہ میں لاکھڑا کیا ، مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں عقائد کی کشمکش کا ڈول ڈالا، قادیانی نبوت کا پودا سینچا، خانقاہیں پیدا کیں، گدی نشینوں کی کھیپ کو پروان چڑھایا، مخلوق خدا کو ان کے مریدوں کی حیثیت سے لا یعقل کردیا، ملازمتوں کے لئے بعض اضلاع چنے،اور ان اضلاع میں کچھ خاندان معززومتمول بنادئیے تاکہ وہ مسلمانوں کے دماغوں اور ان کی جرأتوں کو شکار کرسکیں، انگریز بھی اپنی سلطنت کے اتنے وفادار نہ ہوں گے یہ لوگ (پنجابی مسلمان) صرف انگریزوں کیلئے جئے اور انگریزوں کیلئے مرے‘‘۔
چنانچہ جس طرح صوبہ پنجاب منکرین حدیث کے گھیرے میں تھا اسی طرح پورے صوبہ بہار و جھارکھنڈ میں بھی انکار حدیث کی مسموم ہوا چل رہی تھی ،جس کی لپٹ میں بڑے بڑے علامہ وقت بھی آگئے تھے مثلاً غلام احمد برق جیلانی، انسپکٹر سیدمقبول احمد، خواجہ عباداﷲ اختر، مولانا اسلم جیراج پوری، نیاز فتح پوری،حافظ عنایت اﷲ اثری، علامہ عنایت اﷲ مشرقی، مولانا ظہیر حسن شوق نیموی، ملا عمر کریم پٹنوی، عبداﷲ پٹنوی، اور علامہ تمنا عمادی وغیرہ وغیرہ۔
تمنا عمادی نے تو پورے بہار میں انکار حدیث کا بیڑا اٹھا رکھا تھا اور اس کو خوب خوب ہوا دی ، چونکہ عربی اور اردو دونوں زبانوں میں مہارت حاصل تھی، اسلئے تحریرو تقریر اور شاعری میں محدثین پر پھبتیاں کسیں اور ان کا مذاق اُڑایا ، ان کا ایک شعر میرے حافظہ میں آج تک محفوظ ہے جس میں محدثین کا خوب مذاق اڑایا گیا ہے اور ان کو دشمن دین قرار دیا گیا ہے ، ملاحظہ کریں۔
کرتا ہے ہر خبر پہ تمنا یقین کیوں
نوید دوست کہیں فریب عدو نہ ہو
یہی حالات اور اسباب تھے جن کی بنا پر قاری عبدالمنان اثریؔ رحمہ اﷲ نے اپنے علمی ترکتازیوں کے لئے صوبہ بہار کا انتخاب کیا تھا ، پھر وہاں ایک دینی ادارہ کی بنیاد بھی ڈالی تھی آج یہ ادارہ جامعہ رحمانیہ کے نام سے پورے آن بان اور شان سے چل رہا ہے اور دینی علوم کے پیاسوں کے لئے ایک منہج صافی بنا ہوا ہے جس کا ذکر سطور بالا میں ہو چکا ہے، قاری صاحب پورے اذعان وایقان اور بصیرت کے ساتھ ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہے، دفاع عن السنۃ کا فریضہ ادا کرتے رہے، اور محدثین کے موقف کی وضاحت اور وکالت کرتے رہے ، محدثین پر کئے گئے اعتراضات کا مسکت و مدلل جواب دیتے رہے ، اور خواجہ الطاف حسین حالی کی زبان میں ببانگ دہل اعلان کرتے رہے
گروہ اک جویا تھا علم نبی کا
لگایا پتہ جس نے ہر مفتری کا
نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذب خفی کا
کیا قافیہ تنگ ہر مدعی کا
کئے جرح و تعدیل کے وضع قانوں
نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسوں
کیا فاش راوی میں جو عیب پایا
مناقب کو چھانا مثالب کو تایا
مشائخ میں جو قبح نکلا جتایا
ائمہ میں جو داغ دیکھا بتایا
طلسم ورع ہر مقدس کا توڑا
نہ ملا کو چھوڑا نہ صوفی کو چھوڑا
رجال اور اسانید کے ہیں جو دفتر
گواہ ان کی آزادگی کے ہیں یکسر
نہ تھا ان کا احساں یہ اک اہل دیں پر
وہ تھے اس میں ہر قوم و ملت کے رہبر
لبرٹی میں جو آج فائق ہیں سب سے
بتائیں کہ لبرل بنے ہیں وہ کب سے
مولاناابوالکلام آزاد ؒ نے سچ کہا ہے:
’’ دنیا میں علم و یقین صرف وحی الٰہی اور علوم و اعمال نبوت ہیں اس کے ماسوا جس قدر بھی ہے قرآن پکار پکار کر کہتا ہے کہ ظن ہے تخمین ہے قیاس ہے اٹکل ہے، تحریص ہے تلعب بالریب ہے‘‘
قاری صاحب بہار میں اسی علوم و اعمال نبوت کے داعی اور پر چارک بنے رہے ، اور اس راہ میں جتنی بھی مشکلات اور مصائب آئے ، ان کو خندہ پیشانی سے جھیلا اور اپنے موقف پر ڈٹے رہے ، فجزاہ اﷲ خیر الجزاء
اور اب یہی کام ان کے دو تربیت یافتہ شاگرد مولانا عبدالعزیز سلفی اور مولانا محمد طیب مدنی حفظہما اﷲ بھی انجام دے رہے ہیں ، اﷲ ان حضرات کی غیب سے نصرت فرمائے آمین۔
آئیے اب ان خطوط و توصیہ جات کے چند اقتباس ملاحظہ فرمائیں جو کہ اکابرین جماعت و ملت نے قاری صاحب کے بارے میں تحریر فرمائے ہیں۔
امام شہیر محدث کبیر ابوالحسن عبید اﷲ الرحمانی مبارک پوری صاحب مرعاۃالمفاتیح رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ ، قاری عبدالمنان صاحب اثری رحمہ اﷲ کے متعلق اپنے ایک تائیدی خط میں یوں تحریر فرماتے ہیں :
’’ میں جناب قاری عبدالمنان اثری کو جو شنکر نگر ضلع گونڈہ یوپی کے باشندے ہیں اچھی طرح جانتا ہوں، وہ ایک عالم و فاضل اور اسلام کے رواں دواں (ہمہ وقتی) داعی اور مبلغ ہیں، سلفی عقیدہ و فکر کے سلسلے میں ان کے اندر بڑی ہی غیرت اور جوش ہے اسلامی میدان میں وہ بڑی محنت ، اخلاص اور شرح صدر کے ساتھ کام کررہے ہیں ، انھوں نے صوبہ بہار کے شہر مدھوپور (ضلع سنتھال پرگنہ) کے دینی ادارہ جامعہ رحمانیہ میں ایک عرصۂ دراز تک کام کیا ہے اور اس مدرسہ اور جماعت کے لئے وہاں کے دیہات اور بستیو ں ں میں عظیم کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں ۔
اس علاقے میں منکرین سنت کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے جہاں وہ سر گرم عمل ہیں ، عبدالمنان اثری صاحب نے منکرین سنت نبویہ کی زبان و قلم سے نہایت سخت اور مدلل و پرزور تردید کی ہے اور سلفی عقائد کا نہایت کامیاب دفاع اور تحفظ کیا ہے‘‘
(عبید اﷲ رحمانی مبارکپوری )
۲۱؍۸؍۱۴۱۳ھ
۲۶؍۲؍۱۹۹۳ء
توحید خالص اور دعوت الی اﷲ کے عظیم علمبردار ،عابد و زاہد شیخ عبدالصمد شرف الدین (بھیونڈی) مقیم جدہ ، اپنے ایک مکتوب میں قاری صاحب کے متعلق یو ں لکھتے ہیں:
’’ جناب مولانا و قاری عبدالمنان صاحب اثری ساکن شنکر نگر ، بلرام پور ضلع گونڈہ یوپی ، جو مدھوپور ضلع سنتھال پرگنہ بہار میں ایک بڑے اور اہم دینی و علمی اور جماعتی و ملی کام میں مصروف تھے اور آج وہی کام اپنے وطن بلرام پور میں انجام دے رہے ہیں ۔
کتاب و سنت کے نہایت واضح دلائل اور ناقابل تردید تاریخی شہادت کی بنیاد پر اثری صاحب کا موقف یہ ہے کہ پورے عالم اسلام کی بدنصیبی اس کے عقیدہ و عمل کے فساد و بگاڑ ، بتدریج اس کے تنزل و انحطاط اور اس کے تمام تر مادی و اخلاقی زوال کا اصل سبب ’’ خلافت راشدہ علی منہاج النبوۃ‘‘ اور ’’ امامت کبریٰ‘‘ کی صحیح اسلامی اور فطری لائن سے ملت کا ہٹ جانا ہے اور اس کا واحد علاج بھی یہی ہے کہ امت مسلمہ پھر ایمان و اسلام کی اسی شاہراہ اور فطری لائن پر آجائے اور بس اسکے سوا امت مسلمہ اور انسانیت عامہ کے درد کا درماں کچھ بھی نہیں ہے۔
عبدالمنان اثری صاحب اپنی بے سرو سامانی اور تمام تر نامساعد حالات میں آج بھی اس مقدس امانت کو بطور عقیدہ اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور اپنی طاقت کے مطابق اس کو عملی شکل دے سکنے کیلئے سخت مضطرب اور سراپا جہد و عمل ہیں۔
وہ میرے نزدیک ذاتی طور پر بالکل بے غرض، دین و ملت اور انسانیت عامہ کیلئے بے حد دردمند و فکر مند، خالص کتاب و سنت کے حامل اور مومن و مخلص داعی الی اﷲ ہیں‘‘
فقط والسلام
عبدالصمد شرف الدین
۱۸؍محرم الحرام ۱۴۰۹ھ یکم ستمبرھ ۱۹۸۸ء
بے نظیر مفسر قرآن اور خطیب شیریں بیان حضرت مولانا عبدالقیوم رحمانی بستوی رحمہ اﷲ اپنے ایک تائیدی خط میں قاری صاحب کے متعلق یوں لکھتے ہیں:
’’ مولانا عبدالمنان صاحب اثری میرے قدیم متعلق اور سفر و حضر میں میرے ساتھ رہے ہیں ، اثری صاحب دین و ملت کے لئے بے حد مخلص ، دردمند و فکر مند ، ایثار پیشہ سخت جدوجہد کرنے والے اور صاحب استقامت شخص ہیں۔
عزیز موصوف نے مدھوپور ، سنتھال پرگنہ بہار میں جو انکار حدیث ، سادھو ازم ، اور مہدویت وغیرہ انواع و اقسام کے ارتدادی فتنوں اور جہالت وجاہلیت کا گڑھ تھا اس کے خلاف سخت محنت و جہاد کیا، اور ان کو توڑا ہے اور کفر و جہالت کی ساری تاریکیوں کو دور کرنے کیلئے خاص شہر مدھوپور میں جامعہ اثریہ مدرسۃ الرشاد کے نام سے دین و علم کا ایک چراغ روشن کیا اور اس کیلئے لب سڑک ایک بڑی زمین کا بیع نامہ کرایا جس پران کے شاگرد اب جامعہ رحمانیہ کے نام سے ایک کامیاب مدرسہ چلا رہے ہیں، اثری صاحب موصوف کا دینی و علمی موقف نہایت مضبوط و مستحکم اور ان کے عزائم و منصوبے بہت بلند رہے ہیں‘‘۔ عبدالقیوم رحمانی
۲۳؍ذی قعدہ ۱۴۱۱ھ ۸؍جون ۱۹۹۱ء
داعی اسلام کے معروف مدرس و استاذ جامعہ دارالسلام عمر آباد مدراس حضرت مولانا ابوالبیان عبدالرحمن حماد عمری صاحب قاری صاحب کے بارے میں یوں لکھتے ہیں :
’’ جناب مولانا قاری عبدالمنان صاحب اثری ان افراد میں سے نہیں ہیں جو اپنی شناخت کے لئے کسی خارجی وسیلہ کے محتاج ہوں، آپ علمی قابلیت و استعداد میں اپنی شناخت خود ہیں، آپ وہ عطر ہیں جو اپنی ذاتی مہک سے جوہر شناس افراد کو متاثر اور گرویدہ کر لیتے ہیں۔
اس پر آشوب دور میں مولانا قاری عبدالمنان اثری صاحب جیسی خال خال شخصیتیں نعمت غیر مترقبہ ہیں، ایسے مثبت و مفید افراد کا سراغ لگانا جہاں سہل نہیں ہے وہیں ایسے بے سروسامان افراد کو خدمت اسلام کیلئے مناسب اور موزوں جگہ پر لگانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔‘‘
عبدالرحمن حماد عمریؔ
۸؍شعبان ۱۴۱۳ھ ۱؍فروری ۱۹۹۳ء
عربی و اردو کے بہترین قلمکار اور بے پناہ مطالعہ کے حامل ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ اور جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ کے فاضل شیخ عزیر شمس حفظہ اﷲ جناب زبیر صاحب حفظہ اﷲ کو ایک خط میں قاری صاحب کے تعلق سے یوں رقمطراز ہیں:
’’ اس بار قاری عبدالمنان اثری صاحب سے مکہ مکرمہ میں ملاقات ہوئی ، وہ جماعت کے معروف عالم بلکہ مجاہد ہیں ان کی پوری زندگی باطل سے مقابلہ میں گزری ہے ایک عرصہ تک انھوں نے مدھو پور بہار میں قیام کیا ہے، اور وہاں جماعت کو منظم کیا، ایک بڑا جامعہ قائم کیا۔
منکرین حدیث سے مباحثے کئے، بمبئی میں ایک عرصہ سے رہ رہے ہیں، وہاں بھی نوجوانوں کی ذہنی و فکری تربیت کا کام کررہے ہیں، وہ صادقپوری تحریک کے بڑے ثنا خواں ہیں اور اس کے احیاء کے لئے دل سے تڑپ رکھتے ہیں ، ملت اسلامیۂ ہند کی شیرازہ بندی کے لئے ان کے پاس بڑے ہی اہم منصوبے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ کام صادقپور سے ہی شروع ہو، امید کہ آپ پٹنے کے سارے احوال سے انہیں صحیح طور پر باخبر کریں گے اور وہاں کی مردہ تحریک کو زندہ کرنے کی تدابیر پر ان سے تبادلہ خیال کریں گے، مولانا عبدالسمیع صاحب کو ان کے صحیح مقام اور ذمہ داریوں سے وہ ان سے ملکر آگاہ کریں گے۔ انشاء اﷲ
اور احیاء و تجدید کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں انہیں دور کرنے کی تدابیر بھی پیش کریں گے آپ ان کا ہر طرح تعاون کریں، اﷲ آپ کو اجر عطا فرمائے گا۔
عزیر
۹؍ اپریل ۱۹۹۴ء ، مکہ مکرمہ
یہ تھی قاری عبدالمنان اثری کے متعلق چند عظیم ہستیوں اور جوہر شناس بزرگوں کے تاثرات کی ایک جھلک ، بخوف طوالت انہی چند خطوط پر اکتفا کیا جارہا ہے، اب ان اقتباسات کی روشنی میں قاری صاحب کی شخصیت نکھر کر سامنے آجاتی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ کبار علماء کے درمیان ان کی کتنی اہمیت تھی نیز ان کی علمی قابلیت ، استعداد اور صلاحیت و صالحیت کا بخوبی پتہ چلتا ہے، وہ جس بے سروسامانی ، فقر و فاقہ اور اپنی فطری سادگی ووقارکے ساتھ خدمت دین حنیف میں لگے ہوئے تھے، اس کی مثال خال خال نظر آئے گی۔ ع
رہا جب تک بھی وہ اسلام کی آواز رہا
قاری صاحب کی نظر قرآن پر بڑی اچھی تھی، قرآن کی تفسیر اس کے اسرار و نکات جب خطبۂ جمعہ یا اپنی تقریر میں بیان کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ علم کا دریا بہا رہے ہیں سورۂ فاتحہ یا الم ذلک الکتاب کی تفسیر میں ہی پورا جمعہ کا وقت ختم ہوجاتا تھااور تشنگی باقی رہ جاتی تھی، دل چاہتا تھا کہ قاری صاحب تقریر کرتے رہیں ، قرآنی نکات بیان کرتے رہیں اور ہم سنتے رہیں ، علوم قرآن پر قاری صاحب کی نظر بہت گہری تھی، قرآن کی حفاظت ، اس کی حقانیت، اس کے معارف و اسرار ، متنوع مضامین، اعجاز الفاظ و تراکیب اور اعجاز اسلوب و نظم پر جب گفتگو فرماتے تھے تو ان کے مطالعہ اور علم کی گہرائی کا اندازہ ہوتا تھا، اے کاش! تصنیف کی شکل میں اپنی کوئی ایک آدھ کتاب یادگار چھوڑ جاتے تو ان کا وہ علم محفوظ ہوجاتا، لوگ اس سے استفادہ کرتے اور دعائیں دیتے۔
علوم قرآن کے ساتھ ساتھ علوم حدیث پر بھی گہری نظر تھی، حجیت حدیث پر ان کے دلائل نہایت ٹھوس اور مضبوط ہوتے تھے، کبھی کبھار اپنے دوست مولانا کتاب اﷲ ہر ہٹوی رحمہ اﷲ سے حجیت حدیث پر گرما گرم بحث کرتے تھے اس وقت قاری صاحب کا جلال دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا، کیوں کہ مولانا کتاب اﷲ استخفاف حدیث کے شکار تھے، اور قاری صاحب منکرین حدیث کی تردید میں نہایت سخت تھے قاری صاحب حدیث کے بارے میں کسی نرمی کے قائل نہ تھے ،یہی وجہ ہے کہ منکرین حدیث کے سامنے ڈٹے رہے اور ان کی ہر موڑ پردھول چٹائی۔ بڑے بڑوں سے مناظرہ اور مباحثہ کیا، اور ان کے دلائل کو تار عنکبوت ثابت کیا اور حدیث کی حقانیت و حجیت کا لوہا منواکر رہے ، اب تقریباً مدھو پور کے علاقے میں انکار حدیث کا فتنہ خود اپنی موت مر کر دفن ہو چکا ہے اور اگر کبھی کبھار منکرین حدیث سر اٹھانے کی کوشش کرتے بھی ہیں تو قاری صاحب کے شاگردان رشیدان کی سر کوبی کیلئے تیار رہتے ہیں، اب مدھوپور کے علاقے میں قرآن و حدیث کا بول بالا ہے ۔ فﷲ الحمد والشکر۔
قاری صاحب منطق و فلسفہ اور علم عروض میں بھی بڑی مہارت رکھتے تھے شعروشاعری سے فطری شغف تھا اردو ادب کے شیدائی تھے، مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کے بے حد عقیدت مند تھے اردو ادب میں ان کو لا ثانی ادیب کہا کرتے تھے ، شاعری میں اپنا تخلص عارف کرتے تھے، میں نے خود ان کے زبان سے کئی نظمیں اور غزلیں سنی ہیں جو بلند پایہ تھیں ، شروع میں ، میں نے بھی اپنی دو غزلوں کی اصلاح انہی سے لی تھی پھر مجھے ہمدردانہ اور مخلصانہ نصیحت فرمائی کہ غزل گوئی کی طرف راغب نہ ہو ، یہ بہت بے ہودہ میدان ہے اور تمہاری فطری لگاؤ بھی اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
چنانچہ میری رغبت غزل گوئی سے یکسر ختم ہو گئی، اور میں مضمون نویسی کی طرف پلٹ آیا،آج مجھ میں جو کچھ بھی لکھنے پڑھنے کی شد بد ہے یہ انہی کی نصیحت کی دین ہے۔
قاری صاحب فطری شاعر تھے مگر شعر گوئی کی طرف زیادہ توجہ نہ دی، کچھ نظمیں اور کچھ غزلیں ضرور کہا ہے ان کے کلام کا کوئی مطبوعہ یا غیر مطبوعہ مجموعہ میرے سامنے نہیں ہے، بس ایک دوست کے ذریعہ ان کی دو نظمیں مل سکی ہیں ، میں ان کے چند اشعار نقل کردینا مناسب سمجھتا ہوں تاکہ ان نظموں سے قاری صاحب کی فی البدیہہ شعر گوئی کا اندازہ لگایا جاسکے، اور ان کے فطری میلان کا بھی پتہ چلے گا۔
یہ دونوں نظمیں تاریخی پس منظر رکھتی ہیں ، اور نہایت ادق ہیں یہ نظمیں قاری صاحب کے پرواز تخیل کی خبردیتی ہیں کہ قاری صاحب کو اپنی تاریخی اور اپنے اسلاف سے ، نیز اسلاف کے کارناموں سے کتنی محبت تھی، شعر کا ایک ایک مصرعہ حتی کہ ایک ایک لفظ تشریح طلب ہے اور تفصیل چاہتا ہے ، ایک نظم شیخ الاسلام مولانا ثناء اﷲ امرتسری ؒ کی وفات پر ہے، جو ان کے طالب علمی زمانہ کی ہے ، اور ۱۹۵۸ء میں دارالعلوم دیو بند میں لکھی گئی تھی جس زمانے میں وہ وہاں پر زیر تعلیم تھے۔ دوسری نظم مولانا حکیم سید عبدالخبیر جعفری رحمہ اﷲ کی وفات پر ہے، ان نظموں میں فن شاعری کو تلاش کیا جائے بلکہ قاری صاحب کے قلبی واردات اور فکری احساسات پر نظر رکھی جائے تو پھر ان نظموں کی بھر پور اہمیت سمجھ میں آجائے گی، نظم کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
بیادگار مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمہ اﷲ :
اے ثناء اﷲ اے دیں کا امیں حق کا وکیل
اے ثناء اﷲ وجہ ارض پر حق کی دلیل
وقت کا رازی غزالی دور کا تو لا کلا م
ابن قیم ابن تیمیہ کا تو وجہ شکیل
شیخ سر ہندی کی صف کا خرد مرد ہوشمند
وقت کا اپنے ولی اﷲ تو بے قال و قیل
اے ثناء اﷲ اے دیں کا امیں حق کا وکیل
اے ثناء اﷲ وجہ ارض پر حق کی دلیل
عبد قادر اور رفیع الدین کا سربستہ راز
حضرت عبدالعزیز ، عبدالغنی کا تو نبیل
نکتہ سید اور اسماعیل کے اسرار کا
ارض بالا کوٹ کے مشہد کا تو زندہ قتیل
اے ثناء اﷲ اے دیں کا امیں حق کا وکیل
اے ثناء اﷲ وجہ ارض پر حق کی دلیل
احمد و محمود کی علمی جلالت کا نشان
شارح وحی الٰہی عبدالرحمن کی زبان
حافظ پنجاب کے چشمہ کا تو آب حیات
مظہر بلوی میاں صاحب کا تو حسن جمیل
اے ثناء اﷲ اے دیں کا امیں حق کا وکیل
اے ثناء اﷲ وجہ ارض پر حق کی دلیل
حضرت مولانا سید عبدالخبیر صاحب رحمہ اﷲ جعفری کی یاد میں چند اشعار :
قافلہ سالار ملت حضرت عبدالخبیر
جاملے مولا سے اپنے آج وہ روشن ضمیر
نازش یحییٰ منیر وارث تاج فقیہ
جس پر رزم و بزم نازاں اس ولایت کے امیر
سید احمد اور اسماعیل کے سر بستہ راز
وہ ولایت اور عنایت کشور دیں کے وزیر
سرزمین پاک صادق پور تیری خاک میں
کتنے پنہاں پاک ظاہر پاک باطن باضمیر
اے عظیم آباد و صادق پور کی پیاری زمیں
آج ملت ہو چکی ہے بے عناں و بے امیر
گھوم کر ہر سمت پہونچی تجھ پہ عارف کی نگاہ
کاش ہو آغوش میں تیرے ولایت سا بصیر
یہ چند اشعار ہی قاری عبدالمنان عارف اثری کی شعر گوئی کی دلیل ہیں۔قاری صاحب قلم و قرطاس کے آدمی تھے مطالعہ گہرا تھا نظر میں وسعت تھی ،زبان پر قدرت تھی، فکر میں ندرت تھی، لیکن زندگی میں ان کے ساتھ مسائل زیادہ تھے وسائل کم، یہی وجہ ہے کہ ان کو لکھنے پڑھنے کی فرصت نہیں مل پائی تھی اور قلم و قرطاس اور فرصت لازم و ملزوم ہیں ، لکھنے پڑھنے کیلئے لازمی شرط فرصت، سکون اور جنون ہے، اور یہی چیزیں قاری صاحب کو میسر نہ تھیں۔
وہ اس کثرت سے سفر کرتے تھے کہ الحفیظ والامان اور زبان و قال سے کہتے تھے۔ ع
کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے
اور اپنی کثرت سیاحت اور اسفار کی بناپر جب کبھی مستی میں ہوتے تو یوں گنگناتے تھے۔
شہرمیں سکوں نہ جنگل میں اماں ملتی ہے
دیکھئے قبر مسافر کو کہاں ملتی ہے
قاری صاحب نثر بھی بہت اچھی لکھتے تھے ان کے ایک مضمون کی چند سطریں پڑھیں اور دادا دیں ، قاری صاحب لکھتے ہیں:
’’ یہود و نصاریٰ ، مجوس، برہمن اور کمیونسٹ وغیرہ سارے ہی باطل پرست اقوام و ملل اور اشخاص و رجال کے باطل فلسفوں باطل عقیدہ و عمل اور باطل افکار و نظریات سے جب تک کسی سوسائٹی اور سماج کی پوری تطہیر عمل میں نہیں آجاتی، اس وقت تک اس سوسائٹی اور سماج میں خالص اور صالح اسلامی معاشرہ کا تصور ہی سرے سے غلط اور بے بنیاد ہے یہی وجہ ہے کہ آج ساری نام نہاد مسلم سوسائٹی خواہ وہ مسلم ممالک میں ہو یا غیر مسلم ملکوں میں اسلام کے نام کا شور و غوغا تو بہت ہے لیکن دلوں سے لیکر سماج اور سوسائٹی ہر جگہ حقیقی اور خالص اسلام بالکل ہی غائب ہے ۔ الا ماشاء اﷲ‘‘
یہ تھی قاری صاحب کی قلمی داستان ،ان کی علمی صحبتیں بیسیوں سال تک میسر رہی ہیں آج ان پر جب کچھ لکھنے بیٹھا تو بہت ساری بھولی بسری باتیں آنے لگیں ، ان کاسراپا اور ہنستا ہوا چہرہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا، ان کے علم کی گہرائی اور وسعت کا دل خود بخود معترف ہو رہا ہے، قرآنی علوم پر ان کی دسترس ، اسلامی تاریخ پر ان کی گہری نظر ، اور عالم اسلام کے مسائل کے الجھاؤ پر ان کی گرفت اور ان کے حل اور سلجھاؤ کی راہیں ، ایک ایک کرکے یاد آنے لگی ہیں ، وہ آفاقی تھے اور ہمیشہ آفاقی باتیں کرتے تھے، وہ ایک زندہ و حساس دل اور بیدار مغز لیکر پیدا ہوئے تھے، عالم اسلام کے مسائل سے ان کو اس قدر دلچسپی اور لگاؤ تھا کہ ہمارے اور ان کے درمیان اکثرو بیشتر عالم اسلام کے سیاسی مسائل زیر بحث ہوتے تھے، بڑی دردمندی اور دل سوزی کے ساتھ اپنی گفتگو کا آغاز کرتے، کبھی کبھی اثنائے گفتگو جذباتی ہو جاتے ، اور آخر میں عالم اسلام کی بے حسی پر روپڑتے۔ ﴿واﷲ علی مانقول وکیل﴾
بیت المقدس اور حرمین شریفین کی محبت سے ان کا دل معمور تھا، انتقال سے چھ ماہ قبل کی بات ہے کہ میں گاؤں شنکر نگر میں ان کے گھر پر ہی بیٹھا تھا کہ ہمارے اور ان کے درمیان عالم اسلام کے مسائل زیر بحث آگئے اور جب فلسطین پر ترکی کے سلطان عبدالحمید ثانی کا ذکر آیا تو بے اختیار ہم دونوں ہی روپڑے اور عالم اسلام کی ناکامی پر ماتم کرنے لگے ، اﷲ ان کی مغفرت کرے ۔ آمین
ہمارے مربی و مرشد قاری عبدالمنان اثری رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ اب ہمارے درمیان نہ رہے ، مکہ مکرمہ میں ۲۲؍فروری ۱۹۹۵ء مطابق ۲۳؍رمضان ۱۴۱۵ھ بروز بدھ شب قدر تقریباً بارہ بج کر تیس منٹ پر اپنے مولائے حقیقی سے جاملے ہیں۔ فانا ﷲ وانا الیہ راجعون
تا مرگ تو لگی ہوئی کوئے بتاں کی تھی
آخر وہیں پہونچ گئی مٹی جہاں کی تھی (شاد)
قاری صاحب اب اس دنیا میں نہ رہے ان کے بہت سارے خواب تھے جو شرمندۂ تعمیر نہ ہوسکے ، وہ اپنے دینی جذبات اور اسلامی حمیت وولولہ اور ہزاروں دینی خواہشیں ساتھ لیکر چلے گئے۔ ع ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے (غالب)
یہ قاری صاحب کی سوانح عمری نہیں ہے یہ ایک خاکہ اور عکس ہے مجھے جتنی معلومات دستیاب ہو سکیں حوالہ قرطاس کردیا ہے کچھ دلی جذبات کی آمیزش ہے کچھ قلبی واردات کی کہانی ہے حالانکہ کچھ دوستوں کے دئیے ہوئے درد کو قلم زد کردیا ہے بخوف فسادِ خلق…… ہاں ان کے کچھ خطوط کچھ یادیں اور کچھ باتیں ابھی بھی سینے میں محفوظ ہیں اگر توفیق ملی تو کسی طویل مضمون میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا ۔ انشاء اﷲ
اب صرف اتنا عرض ہے ۔
قضا کس کو نہیں آتی ہے یوں تو سب ہی مرتے ہیں
پر اس مرحوم کی بوئے کفن کچھ اور کہتی ہے
قاری صاحب کی عمر لگ بھگ ساٹھ سال تھی اور اس حیات میں تین بار حرمین شریفین کی زیارت کا ان کو موقعہ ملا تھا، آخری زیارت کرنے گئے تھے حالت طواف میں گرے، اور پھر جاں برنہ ہوسکے۔
سننے والوں نے عش عش کیا، آخر اس موت پر ، اس مدفن پر رشک کس کو نہ آئے گا لیکن یہ رب کائنات کی دین ہے جسے چاہے دے۔ ع
ہے رشک اک خلق کو جوہرؔ کی موت پر
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگاردے
قاری صاحب کی پوری زندگی آزمائشوں میں گھری اور مشکلوں میں پھنسی رہی اس لئے کوئی مستقل کتاب نہ لکھ سکے، لیکن اتنا کہہ دینا مناسب ہوگا کہ ان کے علمی فیضان صحت اور فکری برکات تربیت کا نتیجہ اور ثمرہ خاکسار راقم الحروف اور چند دوسرے حضرات انسانی وجود میں ان کی تالیفات اور تحریریں ہیں ، قاری صاحب کی پوری زندگی کی سچی تصویر ذیل کے اشعار میں جھلکتی ہی نہیں بولتی نظر آتی ہے۔ ع
وہ اک عظیم شخص تھا اور باکمال تھا
اس کی مثال ہو تو کہاں؟ بے مثال تھا
نقشہ کھنچا ہوا تھا ابوذر کے فقر کا
عشق اویس قرنی و روح بلال تھا
شیخ عبدالرزاق عبدالغفارسلفی
مقیم حال دبئی
مولانا محمد یوسف رحمانی بہرائچی رحمہٗ اﷲ
(تاریخ وفات:۲۶؍جون ۱۹۹۵ء)
نسب: آپ کا نسب نامہ اس طرح ہے، مولانا محمد یوسف بن احد بخش (عرف لنگڑے) بن الٰہی بخش (عرف ڈامر) بن لال محمد ۔ آپ ضلع بہرائچ کے ایک قصبہ جرول میں ۱۰؍فروری ۱۹۱۵ء کو ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جومسلکاً بریلوی تھے ، شرک و بدعت،پیر پرستی اور قبر پرستی کا رواج عام تھا ، جب آپ ۶،۷ برس کے ہوئے تو آپ کے والد محترم نے آپ کو اپنے ہی قصبہ کے ایک مدرسہ’’مدرسہ جلیلیہ فرقانیہ‘‘ میں داخل کردیا ، جس میں آپ نے قاری عبدالحق صاحب سے بسم اﷲ شروع کیا اور تین سال میں ناظرہ کلام پاک پڑھ کر حفظ بھی مکمل کرلیااس کے بعد اسی مدرسہ کے شعبہ عربی میں داخلہ لیا، اور مولانا عبدالجلیل صاحب سے فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھی،پھر اونچی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے ۱۹۲۹ء میں لکھنؤ جاکر مدرسہ عالیہ فرقانیہ میں داخلہ لیا جس پر آپ کے والد صاحب (احدبخش) آپ پر بہت برہم ہوئے اور برا بھلا کہتے ہوئے فرمائے ’’ارے کمبخت کیا تو وہابی بننا چاہتا ہے؟ میں تجھے گھر سے نکال دونگا۔‘‘
آپ والد محترم کی پر واہ کئے بغیر چار سال تک اسی مدرسہ میں تعلیم حاصل کرتے رہے، یہیں آپ نے قاری خلیل احمد صاحب سے فن تجوید بھی سیکھ لی، اس مدرسہ میں جن اہم اساتذہ کرام کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ تہ کیا وہ یہ ہیں:
۱۔ شیخ الحدیث مولانا ظہور احمد صاحب ۲۔ قاری عبدالمالک صاحب
۳۔ قاری نظر احمد صاحب ۴۔قاری خلیل احمد صاحب
لکھنؤ میں پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ بہرائچ چلے آئے اور مدرسہ نور العلوم میں داخل ہوگئے، اس مدرسہ میں مدرس کی کمی تھی جس کی بنا پر وہاں کے انتظامیہ نے نیچے درجات کی دو کتابیں آپ کے حوالہ بھی کر دیں اس طرح آپ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ تدریسی فرائض بھی انجام دیتے رہے، یہاں آپ کے اساتذہ میں مولانا محفوظ الرحمن صاحب نامی،مولانا فہد الدین صاحب قابل ذکر ہیں۔
مدرسہ نورالعلوم بہرائچ سے آپ درمیان سال ہی میں تعلیم چھوڑ کر گھر چلے آئے، جس کا سبب یہ تھا کہ ایک دن آپ درسگاہ میں مشکوٰۃ شریف کا مطالعہ فرما رہے تھے، مولانا محفوظ الرحمن نامی درسگاہ میں تشریف لائے ان کے آتے ہی تمام طلبہ تعظیماً اٹھ کھڑے ہوئے ، لیکن آپ بیٹھے ہی رہے جس کی بنا پر مولانا نامی صاحب آپ پر بہت برہم ہوئے اور بے ادب و کمینہ کہتے ہوئے آپ سے سوال کیا کہ تم نے ایسی گستاخی کیوں کی ؟ آپ نے عرض کیا کہ حضرت ایک جانب حدیث رسول ہے اور ایک جانب آپ کی ذات ۔ اب آپ ہی فرمائیں کہ کس کی تعظیم مقدم ہے ؟ اس جواب پر مولانانامی صاحب کو طیش آگیا، فوراً آپ کو درسگاہ سے باہر نکال دیا ، درسگاہ سے نکلنے کے بعد آپ دارالاقامہ تشریف لائے اور اپنا بوریا بستر باندھا اور گھر چلے آئے۔
جب مولانا نامی صاحب کو یہ بات معلوم ہوئی کہ آپ گھر چلے گئے تو آپ کے والد صاحب کے پاس خط لکھا کہ آپ کے لڑکے کو مدرسے سے نہیں نکالا گیا ہے ، آپ اسے فوراً بھیج دیں ،آپ کے والد صاحب نے مولانا نامی صاحب کا خط دکھا کر کہا تم بہرائچ چلے جاؤ لیکن آپ کسی طرح وہاں دوبارہ جانے کیلئے تیار نہیں ہوئے۔ سال رواں ختم ہونے کے بعد ۱۹۳۴ء میں آپ دہلی تشریف لے گئے اور دارالحدیث رحمانیہ جاکر چوتھی جماعت میں داخل ہوگئے۔ اور پانچ سال وہاں رہ کر ۱۹۳۸ء میں سند فراغت حاصل کی، دہلی کے اساتذہ میں سے شیخ الحدیث مولانا عبیدا ﷲ صاحب رحمانی مبارک پوری اور مولانا نذیر احمد صاحب رحمانی املوی رحمہما اﷲ قابلِ ذکر ہیں ۔
دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے فراغت کے بعد آپ لاہور چلے گئے اور خاندان غزنویہ کے مدرسہ تعلیم الاسلام میں تدریسی منصب پر فائز ہو گئے، اور تین سال تک یہاں رہے ، ادھر ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کا معاملہ پیش آیا جس کی بنا پر آپ دوبارہ لاہور نہ جاسکے اس کے بعد مالیر کوٹلہ پنجاب تشریف لے گئے اور یہاں پر تدریسی فرائض انجام دینے کے ساتھ طب ہو میو پیتھک بھی پڑھتے رہے ،طب کا کور س مکمل کرنے کے بعد آپ نے سند اجازہ حاصل کرلیا اور وہاں سے مستعفی ہوکر گھر چلے آئے اور اخیر عمر تک آپ کا مشغلہ درس و تدریس ہی کا تھا ، بہار و بنگال کے مختلف مدارس میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ، ۱۹۶۰ء میں آپ جامعہ رحمانیہ بنارس تشریف لائے اور تین سال تک اس ادارہ کی خدمت کرتے رہے ، خرابیٔ صحت کی بنا پر نومبر ۱۹۶۳ء میں جامعہ رحمانیہ سے مستعفی ہو کر گھر چلے گئے، ڈیڑھ ماہ گھر رہ کر دارالحدیث یوسفیہ ناگپور بحیثیت صدر مدرس چلے گئے، وہاں کی آب وہوا بھی آپ کو راس نہ آئی ، گھر چلے آئے۔
دعوت و تبلیغ: آپ کا قصبہ اور پورا علاقہ پیر پرستوں اور قبر پرستوں کا مرکز تھا ، ایام تعطیل میں آپ جب کبھی مدرسہ سے گھر تشریف لا تے تو دعوت و تبلیغ میں لگ جاتے لیکن جب آپ نے ملازمت ترک کرکے گھر پر مستقل سکونت اختیار کرلی، تو اپنی خرابیٔ صحت کے باوجود قریہ، قریہ، بستی، بستی کا چکر لگاتے اور لوگوں کو دین کی باتیں بتاتے،عام خطاب کے علاوہ گھر گھر جاکر لوگوں کو سمجھاتے اور نبی ﷺ کی صحیح تعلیمات سے لوگوں کو آگاہ کرتے اور شرک وبدعت سے دور رہنے کی تلقین کرتے ، اس راستے میں آپ کو کافی تکلیفیں اٹھانی پڑیں، بعض دفعہ ایسے مواقع بھی آئے کہ بستی کے اوباش نوجوانوں نے آپ کو پریشان کرنے کے ساتھ زدوکوب بھی کیا، لیکن آپ اس سے کبھی دل برداشتہ نہیں ہوئے بلکہ دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھنے میں اور چست ہوگئے ، جس کا یہ اثر ہوا کہ بہت سے لوگ شرک و بدعت سے تائب ہوکر عاملین قرآن و سنت بن گئے۔
تصانیف: آپ کو تبلیغ سے شغف زیادہ تھا، جہاں کہیں بھی تدریسی فرائض انجام دیتے تھے، جمعہ کو تبلیغ کے لئے باہر نکل جایا کرتے تھے ، تصانیف کی جانب توجہ کم تھی ،آخری عمر میں جب آپ مستقل طور پر گھر رہنے لگے انہیں ایام میں چند کتابیں تصنیف کیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ خداوند عالم کے احسانات اور بندوں کا سلوک
۲۔ فلاح الکونین فی بر الوالدین
۳۔ اسلام کا پانچواں رکن حج
شاگردان: چونکہ آپ ایک مدت تک درس و تدریس میں رہے ، اس لئے آپ کے شاگردوں کی تعداد بکثرت ہے، جن کا شمار کرنا مشکل ہے ان میں سے چند کے اسماء درج ذیل ہیں:
۱۔ مولانا عبدالحمید صاحب رحمانی صدر مرکز ابوالکلام آزاد دہلی
۲۔ مولانا امر اﷲ صاحب رحمانی استاذ جامعہ رحمانیہ بنارس
۳۔ڈاکٹر خالد شفاء اﷲ صاحب رحمانی استاذ جامعہ رحمانیہ بنارس
۴۔ڈاکٹر وصی اﷲ محمد عباس صاحب پروفیسر جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ
۵۔ شیخ عبدالقدوس محمد نذیر صاحب باحث فی وزارۃ العدل ریاض
۶۔ مولانا عبدالسلام صاحب مدنی استاذ جامعہ سلفیہ بنارس
۷۔ مولانا عبدالرحمن صاحب مدنی جامعہ سراج العلوم بونڈیہار گونڈہ
۸۔ خود راقم الحروف۔ (مولانا محمد مستقیم سلفی استاذ جامعہ سلفیہ بنارس)
بیماری اور وفات : آپ چونکہ ٹی ،بی کے مریض تھے بڑھاپے میں یہ بیماری دن بدن بڑھتی گئی اور آپ کمزور ہوتے چلے گئے ، اس بڑھاپے میں آپ ایک ایسے صدمہ سے دو چار ہوئے جو آپ کیلئے جان لیوا ثابت ہوا ، آپ کے ایک ہی لڑکا تھا ، ظاہری طور پر بڑھاپے کاوہی سہارا تھا ،ستمبر ۱۹۹۰ء میں موضع کنجے مؤ ضلع گونڈہ میں ہندو مسلم کا زبر دست فساد ہوا ، ہندؤں نے گاؤں کی مسجد پر یلغار کردیا، اس مسجد کی حفاظت میں تمام گاؤں کے مسلمان سینہ سپر ہو گئے، اس میں آپ کے صاحبزادے پیش پیش تھے، کافروں کے حملے کو یہ لوگ برابر پسپا کر دیتے، ان بلوائیوں میں سے کسی نے مسلمانوں پر گولی چلادی، ایک گولی آپ کے بچے کے سینے میں بھی لگی، اور وہ وہیں موقع ہی پر جاں بحق ہو گئے۔
یہ صدمہ آپ کیلئے اتنا زبر دست تھا کہ آپ کو دوبارہ سنبھلنے کا موقع نہ دیا، چلنے پھرنے سے بھی معذور ہو گئے، اور ۲۶؍جون ۱۹۹۵ء مطابق ۲۶؍محرم ۱۹۱۶ھ کو اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
اﷲ تعالیٰ آپ کو جنت نصیب فرمائے اور دینی خدمات کو شرف قبولیت بخشے۔ آمین ۔
(مولانا) محمد مستقیم سلفیؔ
استاذ جامعہ سلفیہ بنارس
٭٭٭
حضرت العلام مولانا زین اﷲ رحمانی طیب پوری رحمہٗ اﷲ
کچھ یادیں کچھ باتیں
(تاریخ وفات: ۱۹؍جولائی ۱۹۹۶ء)
مولانا زین اﷲ طیب پوری رحمہ اﷲ کو ہمارے علاقے میں ممتاز علمی مقام حاصل تھا آپ محدث کبیر مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارکپوری رحمہ اﷲ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے اتباع سنت ان کا شیوہ صالحیت ان کی پہچان اور قرآن و حدیث سے قلبی تعلق ان کا تعارف تھا مولانا نے درس و تدریس دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ دین کی جس بنیادی خدمت کو آپ نے لازمۂ حیات قرار دے رکھا تھا وہ شرک و بدعت کے خلاف اعلان جنگ تھا ناموافق حالات میں دینی علوم کی ترویج و اشاعت کا اہتمام کیا لوگوں کے دکھ درد میں آپ برابر شریک رہتے تھے آپ کی تحریک پر علاقے میں کئی مدارس کی تعمیر ہوئیں جس میں قابل ذکر جامعہ محمدیہ نصرۃ الاسلام شنکرنگر بلرام پور ہے مولانا سے بڑے دو بھائی تھے سب سے بڑے بھائی کا نام عبداﷲ تھا وہ بھی عالم تھے عین جوانی میں انتقال فرماگئے دوسرے بھائی مولانا حبیب اﷲ رحمانی تھے ان کے کوئی اولاد نہ تھی البتہ مولانا زین اﷲ رحمانی کو اﷲ تعالیٰ نے سات لڑکوں اور دو لڑکیوں سے نوازا ہے جن کے اسماء بالترتیب درج ذیل ہیں : (۱) مولانا محی الدین ندوی مرحوم جن کا تذکرہ آپ اسی کتاب میں ملاحظہ فرمائیں گے (۲) ابوالحسن یہ بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے (۳) حافظ عتیق الرحمن طیبی امیر ضلعی جمعیۃ اہل حدیث لکھنؤ جو تقریباً چالیس سال سے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے مختلف شعبوں سے منسلک ہیں خالی اوقات میں جماعتی مسلکی اور تنظیمی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور مسلک سلف کی آبیاری کیلئے رواں دواں ہیں (۴) حافظ انیس الرحمن ہیڈ ماسٹر نگر پالیکا جونیر ہائی اسکول بلرامپور (۵) ڈاکٹر محفوظ الرحمن (۶) عبید الرحمن پیدائش کے چند دنوں کے بعد فوت ہو گئے (۷) ماسٹر عبید الرحمن کئی سالوں سے سعودیہ عربیہ میں مقیم ہیں (۸) خالدہ خاتون (۹) شاہدہ خاتون
ماشاء اﷲ سبھی بچے بچیاں پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں زیور تعلیم و تربیت سے مزین اور احکام شرع کے پابند ہیں اﷲ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور نیک بنائے تاکہ یہ اپنے والدین کیلئے صدقہ جاریہ بن سکیں۔آمین
مولانا زین اﷲ طیبی رحمہ اﷲ کے مزید حالات کیلئے گرامی قدر محترم مولانا ابوالعاص وحیدی حفظہ اﷲ کا درج ذیل مضمون ملاحظہ فرمائیں ۔
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور ، بلرام پور
اس وقت میری عمر چالیس سے تجاوز کر چکی ہے پانچویں دہے میں زندگی کا قافلہ محو سفر ہے میری عمر کا بیشتر حصہ جامعہ سراج العلوم بونڈھیار ، گونڈہ میں گذرا ۱۹۶۴ء سے ۱۹۶۸ء تک جامنعہ کے آغوش میں رہ کر دور طالب علمی میں گذارا ہے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد ۱۹۷۵ء سے اب تک جامعہ ہی سے وابستہ ہوں اور اپنی بساط بھر طالبان علوم نبوت قوم وملت اور جمعیۃ و جماعت کی خدمت کر رہا ہوں جامعہ میں دور طالب علمی کی بہت ہی خوشگوار یادیں ہیں جنھیں میں فراموش نہیں کر سکتا بعض یادیں اتنی انمٹ اور لافانی ہیں جنھوں نے میرے ذہن و دماغ پر زبردست تعلیمی و تربیتی اثرات چھوڑے ہیں اور میں نے ان سے بڑے فائدے اٹھائے ہیں۔
جامعہ میں میرا دور طالب علمی ہے میرے والد محترم مولانا زین اﷲ ضیغم ۱ متوفی ۱۹۷۸ء مجھ سے ملاقات کیلئے آتے گھر سے کھانے کا سامان وغیرہ لاتے اس دوران میں ایک عجیب و غریب منظر دیکھتا اور دنگ رہ جاتا کہ والد صاحب کبھی کبھی جب آتے تو ایک بوڑھے مولانا صاحب بھی جامعہ کے مہمان ہوتے تو والد صاحب ان کے سر میں تیل لگاتے اور ان کی بڑی خدمت کرتے میں نے ایک بار والد صاحب سے پوچھ ہی لیا کہ یہ بڑے میاں کون ہیں جن کے سر میں آپ تیل لگاتے ہیں تو والد صاحب نے کہا کہ یہ میرے استاذ مولانا زین اﷲ صاحب ہیں جو
۱ مولانا زین اﷲ ضیغم کے حالات کیلئے ملاحظہ ہو میری کتاب کاروان سلف حصہ اول ص ۳۳۹ تا ۳۵۰۔
(عبدالرؤف خاں ندوی)
میرے ہم نام ہیں اور اترولہ کے قریب طیب پور ، ضلع گونڈہ کے رہنے والے ہیں ۔ والد صاحب نے کہا کہ میں نے اپنے اساتذہ کو کبھی ناراض نہیں کیا ہے بلکہ ان کی خدمت کرکے ان کو خوش رکھنے کی کوشش کی ہے پھر والد صاحب نے مجھے مولانا زین اﷲ طیب پوری کے پاس بلایا اور کہا یہ میرا لڑکا ابوالعاص ہے جامعہ میں پڑھ رہا ہے مولانا نے میرے سر پر دست شفقت پھیرا کچھ پوچھا اور دعائیں دیں ۔
یہ میرے دور طالب علمی کی ایک خوشگوار یاد ہے انھیں یادو ں میں سے مولانا زین اﷲ طیب پوری اور والد گرامی کی یاد ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خادم مخدوم کا وہ سہانا منظر نگاہوں کے سامنے ہے اس خوشگوار واقعہ سے مولانا زین اﷲ طیب پوری میری زندگی میں متعارف ہوئے پھر تا وفات ان سے ربط و تعلق کا سلسلہ رہا۔
مولانا کی وفات حسرت آیات بتاریخ ۲؍ربیع الاول ۱۴۱۷ء مطابق ۱۹؍جولائی ۱۹۹۶ء بروز جمعہ تقریباً تین بجے دن میں ہوئی دوسرے روز دوپہر کو تجہیز و تکفین ہوئی افراد خاندان گاؤں کے باشندوں علماء و طلباء اور دوسرے غمگساروں نے طیب پور ہی میں انھیں سپرد خاک کیا افسوس میں ان دنوں جامعہ سلفیہ بنارس میں مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ھند کی دعوت و تعلیمی کمیٹی کی میٹنگ میں شریک تھا اس لئے طیب پور حاضر نہ ہوسکا خبر ملتے ہی میں تھوڑی دیر کیلئے سکتہ کی عالم میں رہا ان کا سراپا نظروں کے سامنے آگیا لمبا قد چھریرہ بدن چہرہ پر ہلکی داڑھی رفتار میں تیزی سراپا حرکت و نشاط عزم و ارادہ کے دھنی معاملہ فہم گفتگو میں علم و فن کی چاشنی سنجیدہ و باوقار اور زندگی کے تجربہ کار یہ ہے مولانا طیب پوری کی شخصیت اور ان کے اوصاف و خصوصیات کی ہلکی تصویر جنھوں نے تقریباً عمر کے سو برس گذارے اخیر عمر میں انتہائی کمزور ہو گئے تھے ہوش و حواس بھی جاتے رہے کبھی لکھنؤ اپنے لڑکے حافظ عتیق الرحمن طیبی منیجر ندوہ پریس کے پاس رہتے کبھی تلسی پور اپنے بڑے لڑکے مولانا محی الدین ندوی کے پاس رہتے اور کبھی مادر وطن طیب پور میں اپنے منجھلے لڑکے ڈاکٹر محفوظ الرحمن کے پاس رہتے بالآخر طیب پور میں جہاں سے خمیر اٹھی تھی وفات پائی اور وہیں سپرد خاک ہوئے۔
جب مولانا کی وفات کے بعد مولانا کی یاد آتی ہے تو ماضی کی بہت سی یادیں میرے سامنے آجاتی ہیں ، چند باتیں ذکر کررہا ہوں جو علماء ، طلبہ اور احباب جماعت کیلئے مفید ہیں اور بعض تحریکات سے وابستہ حضرات کیلئے بھی باعث درس و عبرت ہیں ، بغیر کسی احساس انا و تعلّی اور جذبہ تعصب و تنگ نظری کے اﷲ تعالیٰ ہمیں سچی باتیں لکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد ۱۹۷۵ء میں جب میں جامعہ سراج العلوم بونڈیہار ، گونڈہ کا مدرس ہوا تو اس کے بعد سے اب تک جناب مولانا زین اﷲ طیب پوری سے میرا ربط و تعلق رہا ، مولانا محمد اقبال رحمانی( ؒ ۱۹۱۹ء، ۱۹۸۲ء)کے زمانے میں جب مولانا طیب پوری ؒ بونڈیہار آتے تو انھیں کے پاس ٹھہرتے ۔ میں بھی حتی الامکان ان کی خدمت کرتا مولانا رحمانیؒ کے بعد جب وہ بونڈیہار آتے تو کبھی مولانا محمد خلیل رحمانی استاذ جامعہ کے پاس ٹھرتے اور کبھی میرے پاس قیام فرماتے ، اس وقت ان کی خدمت کے مواقع زیادہ ملتے اور میں اپنی خوش نصیبی پر بہت زیادہ خوش ہوتا کہ مجھے اپنے والد گرامی کے مخدوم کی خدمت کا موقع مل رہا ہے، مولانا مجھ سے بہت خوش ہوتے اور دعاؤں سے نوازتے۔
اس ربط و تعلق کے درمیان مختلف موضوعات پر مولانا سے میری گفتگو ہوتی ، کبھی فقہی موضوعات پر بات چیت ہوتی۔ کبھی دوسرے علمی مسائل زیربحث آتے، کبھی جمعیت و جماعت کے زوال و انحطاط پر تبادلۂ خیالات ہوتا اور کبھی جماعت اسلامی کے افکار و تصورات پر بحث ہوتی، غرضیکہ ہماری اور مولانا کی گفتگو متنوع موضوعات پر ہوتی ، خوشی کی بات ہے کہ مولانا کبھی کبھی کسی بات پر جھنجھلاتے نہیں اور نہ میری کسی گفتگو پر ناراض ہوتے جبکہ طبقہ علماء کا مزاج ہے کہ جب ان کے موقف کے خلاف کوئی بات کہی جائے تو حد درجہ ناراض ہو جاتے ہیں ہاں اگر ان کے سامنے ان کی تعریف کی جائے تو بہت خوش ہوتے ہیں مگر بحمد اﷲ مولانا زین اﷲ طیب پوریؒ کا یہ مزاج نہیں تھا ، وہ موافق و مخالف تمام باتیں بڑی سنجیدگی سے سنتے اور صحیح بات بے تکلف مان لیتے۔
ایک بار ڈومریا گنج میں مولانا عبدالواحد مدنی مدیر مدرسۃ الصفا الاسلامیہ کے گھر مولانا طیب پوریؒ سے میری گفتگو مجلس طلاق پر ہوئی، عام علماء کے تصور کے مطابق مولانا کا بھی خیال تھا کہ طلاق کی بحث میں جو لفظ مجلس بولا جاتا ہے اس سے مراد وہی مجلس ہے جو بیع و شرا کے موقع پر مستعمل ہے ، یعنی چند لوگ بیٹھے ہوئے ہوں جب تک اٹھ نہ جائیں وہ ایک مجلس ہو گئی، اس ایک مجلس کی متعدد طلاقیں ایک طلاق ہو گئی، یہ تھا مولانا کا نقطۂ نظر جس پر وہ اچھی طرح مطمئن تھے تو بڑے ادب سے میں نے مولانا سے کہا کہ مسئلہ طلاق میں مجلس کا مفہوم دوسرا ہے ، وہ یہ ہے کہ عورت کے پورے زمانۂ طہر کو ایک مجلس مانا جائے گا ، اس لئے کہ ایام حیض میں طلاق دینا ممنوع ہے اور ایام طہر میں صرف ایک طلاق دی جاسکتی ہے ، نتیجہ نکلا کہ شرعی طور پر پورا طہر ایک مجلس کے حکم میں ہے لہذا ایک طہر کی دو یا تین یا اس سے زیادہ طلاقیں ایک طلاق کے حکم میں ہوگی، اس پر میں نے فتاویٰ ابن تیمیہ ؒ کے حوالے بھی دئیے اور بھی بعض دلائل ذکر کئے آخرکار مولانامطمئن ہو گئے اور اپنے نقطۂ نظر سے انھوں نے رجوع کرلیا، اس صورت حال سے میں بہت متاثر ہوا ،اس لئے کہ عام طور سے لوگ اپنے خیال و فکر سے رجوع کر نے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں بلکہ دورازکار تاویلات کرتے ہوئے اس پر بڑی ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ جمے رہتے ہیں۔
مولانا زین اﷲ طیب پوری جماعت اسلامی کے رکن بھی تھے ، کبھی کبھی میری اور ان کی گفتگو جماعت اسلامی کے بارے میں بھی ہوتی تھی جماعت اسلامی کے بارے میں میرا جو موقف تھا اور ہے مولانا اس سے اچھی طرح واقف تھے مگر انھوں نے کبھی مجھے اپنی شفقتوں اور دعاؤں سے محروم نہیں رکھا یہ ان کی عالی ظرفی کی بات تھی۔ اس طرح وہ میری کسی بات سے بھی ناراض نہیں ہوئے اور نہ جھنجھلائے یہ ان کی سنجیدگی اور متانت تھی۔
جماعت اسلامی کے بارے میں میرا موقف دور طالب علمی میں اور ابتدائی تدریسی زندگی میں بڑا نرم بلکہ ہمدردانہ و موافقانہ تھا، اس کی وجہ حلقہ دیو بند میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ؒ اور ان کی جماعت کی مظلومیت تھی، دوسری طرف جماعت اسلامی کے بعض گمراہ کن نظریات سے میری نا واقفیت بھی ایک بڑی وجہ تھی، اس لئے میں دیوبند کی زندگی میں جماعت اسلامی کا زبردست دفاع کرتا تھا اور ابتدائی تدریسی زندگی میں بھی جماعت اسلامی کی بڑی حمایت کرتا تھا ، اس دور میں میں نے جناب صوفی نذیر احمد کشمیریؒ سے جماعت کے دفاع میں لمبی لمبی مراسلت کی ، افسوس میں نے اپنے خطوط محفوظ نہیں رکھے البتہ صوفی صاحب کے خطوط محفوظ ہیں ، اس طرح میں نے مولانا سراج الحق سلفی کو بھی جماعت اسلامی کی حمایت میں ایک لمبا مکتوب لکھا تھاجوا ن دنوں جامعہ سلفیہ بنارس کے طالب علم تھے اس خط میں میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ میرا یہ خط تم جامعہ سلفیہ کے طلبہ کو سنا دو، اس کے علاوہ میں اپنی محفلوں میں بھی جماعت اسلامی کا خوب دفاع کرتا تھا، اور مولانا مودودیؒ کی کتابوں کا خود مطالعہ کرتا اور دوسروں کو مطالعہ کی ترغیب دیتا۔
اس کے بعد میری فکری زندگی میں ایک ایسا دور آیا جب جماعت اسلامی کے بارے میں میرا موقف ناقدانہ و مخالفانہ ہو گیا ، یہ دور اس وقت آیا جب میں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ، علامہ اسماعیل ؒ گوجرانوالہ، علامہ محمد ابراہیم میر سیالکوٹیؒ علامہ عطاء اﷲ حنیف بھوجیانیؒ اور جناب حافظ صلاح الدین یوسف وغیرہ کی تصنیفات اور عقائد ، تاریخ اسلام اور تاریخ مذاہب وغیرہ پر دوسرے مستند علماء کی کتابیں پڑھیں ، جماعت اسلامی کے تنقید ی جائزہ سے مجھے محسوس ہوا کہ مولانا مودودیؒ اور ان کے جماعتی لٹریچر میں حسب ذیل فکری خامیاں ہیں، صحیح تصور توحید سے انحراف ، مسئلہ توحید میں توحید الوہیت کی بجائے توحید ربوبیت پر زیادہ زور ، اور توحید اسماء و صفات میں اعتزال و تجسیم سے تاثر، احادیث میں اخبار آحاد کا استخفاف و استحقار، محدثین کی اصطلاح ’’ظن‘‘ سمجھنے کی وجہ سے اور عقل عام کے حوالہ سے بعض احادیث کا انکار اور اصول حدیث کی بعض بنیادی اصطلاحات سے ناواقفیت کی وجہ سے بعض مراسیل صحابہ کا انکار، اسلامی تاریخ نگاری میں شیعی نقطہ نظر سے گہرا تاثر جس کی وجہ سے بعض صحابہ کرام کے بارے میں غلط اور گھناونے خیالات کا اظہار، اور دین کی ایسی سیاسی تشریح کہ اصل کو تقاضا اور تقاضإا کو اصل بنا دیا گیا، حکومت الٰہیہ کے قیام کو امت مسلمہ کا نصب العین قرار دیدیا گیا اور اسلامی عبادات کو ٹریننگ کورس کی حیثیت دیدی گئی ۔وغیرہ وغیرہ
مولانا زین اﷲ طیب پوری ؒ سے ربط و تعلق کے دوران یہ تھا میرا سخت موقف جماعت اسلامی کے بارے میں اور اب بھی میں دلائل کی روشنی میں اس موقف پر قائم ہوں ، اس کے باوجود جب بھی مولاناسے میری ملاقات ہوتی تو بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ ہنستے ، مسکراتے اور شفقت آمیز انداز میں ملتے، آج سے تقریباً چھ سات سال پہلے کی بات ہے ایک بار مولانا جامعہ میں تشریف لائے مجھ سے ملاقات ہوئی ، میرے یہاں قیام فرمایا ، اس روز ان سے میری گفتگو جماعت اسلامی ہی کے بارے میں تھی، میں نے مولانا سے کہا کہ کیا آپ مولانا مودودیؒ کے تمام افکار و خیالات سے اتفاق رکھتے ہیں مولانا خاموش رہے ، شایدمجھ سے واضح انداز میں مولانا مودودیؒ کا کوئی نقطۂ نظر سننا چاہتے تھے ، میں نے کہا احادیث کے بارے میں مولانا مودودیؒ کا نظریہ بڑا خطرناک ہے وہ اخبار آحاد سے بد گمان نظر آتے ہیں عقل عام کی روشنی میں بخاری و مسلم کی احادیث کا انکار کردیتے ہیں اس وقت میرے ہاتھ میں علامہ محمد اسماعیل گوجرانوالہ کی کتاب ’’جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث‘‘ تھی ، میں نے جستہ جستہ اسے پڑھ کر مولانا کو سنایا تو انھوں نے کھل کر مجھ سے کہا کہ حدیث و سنت وغیرہ کے بارے میں مولانا مودودیؒ کے جو نظریات ہیں میں انھیں غلط سمجھتا ہوں اور ان سے بالکل اتفاق نہیں رکھتا، انھوں نے یہ بھی کہا کہ سنت و حدیث کے بارے میں مودودیؒ صاحب کے نظریات مجھے ہمیشہ کھٹکتے رہے ، مجھے یہ بات سن کر بڑی ہی خوشی ہوئی اور اس بات کا اندازہ ہوا کہ جماعت اسلامی سے ربط و تعلق کے باوجود مولانا کا سلفی مزاج بر قرار ہے ورنہ بیشتر اہل حدیث افراد جو جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں ان کی سلفیت و اہل حدیثیت صحیح معنو ں میں بالکل دم توڑ چکی ہے بس وہ لوگ آمین رفع الیدین اور سینہ پر ہاتھ باندھنے وغیرہ کی حد تک اہل حدیث ہیں مگر ظاہر ہے اہل حدیثیت انھیں چیزوں کا نام تو نہیں ہے ، ان کے قائل و عامل تو بعض ائمہ کے مقلدین بھی ہیں۔
یہ تھیں مولانا زین اﷲ طیب پوری ؒ کے بارے میں چند یادیں اور بعض باتیں ، مگر یہ سلسلہ ادھورا ہی رہے گا اگر محدث کبیر علامہ عبید اﷲ رحمانی مبارکپوریؒ سے مولانا طیب پوریؒ کے ربط و تعلق اور ان کی تالیف انیق مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح کی طباعت و اشاعت میں مولانا کی مخلصانہ جد و جہد کا ذکر نہ کیا جائے ، جو ان کی زندگی کا انتہائی اہم گوشہ ہے ، اس لئے اب بہت اختصار سے اس گوشہ پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔
مولانا طیب پوری ؒ دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں شیخ الحدیث مبارکپوریؒ کے شاگرد تھے ، انتہائی مہربان استاذ اور مخلص مربی کی حیثیت سے محدث مبارکپوریؒ سے انھیں بڑی عقیدت و محبت تھی جو وفات تک قائم رہی، حضرت شیخ الحدیث جب کنڈؤ بونڈیہار تشریف لاتے تو وہ ضرور ملاقات کیلئے حاضر ہوتے، اور جب ملاقات پر ایک مدت گذرتی تو وہ بے چین ہو جاتے اور ان سے ملاقات کیلئے خود مبارکپور چلے جاتے، اور جس طرح علاقہ بونڈیہار کے لوگ اپنے مسائل و مشکلات میں حضرت شیخ الحدیث کی طرف رجوع کرتے اس طرح مولانا طیب پوری بھی انھیں کی جانب رجوع کرتے ، میرے پاس ان کے بعض سوالات اور شیخ الحدیث ؒ کے جوابات محفوظ ہیں۔
حضرت شیخ الحدیث ؒ سے مولانا کا ربط و تعلق کتنا مخلصانہ اور گہرا تھا اس کا منظر میں نے اس وقت دیکھا جب شیخ الحدیثؒ کی وفات کے موقع پر ہم لوگ مبارکپور گئے ہوئے تھے، میں نے دیکھا کہ تمام لوگ سوگوار اشکبار اور بے قرار ہیں ، انھیں سو گواروں میں میں نے دیکھا کہ مولانا زین اﷲ طیب پوری انتہائی بے قرار ہیں اور اس طرح رو رہے ہیں کہ مجھے عمر و بن کلثوم ثعلبی کے وہ اشعار یاد آرہے تھے جن میں اس نے اپنے قلبی درد و غم کا اظہار بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے وہ کہتا ہے:
فما وجدت کوجدی أم سقب اضلتہ فرجعت الحنینا
ولا شمطاء لم یترک شقاھا لھا من تسعۃ الاجنینا
ترجمہ : میرے حزن وغم کی طرح وہ اونٹنی غمگین نہیں ہوئی جس نے اپنے بچہ کو گم کردیا ہو اس لئے وہ بار بار آواز لگاتی ہو، اور میری طرح وہ بوڑھی عورت مغموم نہیں ہوئی جس کی بدبختی نے اس کے نو بچوں کو مدفون ہی کرکے چھوڑا ہو۔
مولانا طیب پوری ؒ کو حضرت شیخ الحدیث کے علمی و فکری مشنسے بھی دلچسپی تھی، چنانچہ مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جو محدث مبارک پوری ؒ کا عظیم علمی کارنامہ ہے اس کی طباعت واشاعت میں ان کا بھی بڑا حصہ رہا ہے جس کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ’’ مرعاۃ المفاتیح ‘‘ کی پہلی جلد پاکستان میں المکتبۃ السلفیۃ لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوئی پھر وہ سلسلہ بند ہو گیا تو اس کی دوسری و تیسری جلد خود حضرت شیخ الحدیثؒ نے نامی پریس لکھنؤ سے چھپوائی ۔ یہ دونوں جلدیں پاکستانی نسخہ کی طرح بڑے سائز میں عربی رسم الخط میں شائع ہوئیں بعد میں جامعہ سلفیہ بنارس میں مرعاۃ چھوٹے سائز میں عربی ٹائپ پر تصحیح کے ساتھ سات آٹھ جلدوں میں شائع ہوئی۔
حضرت شیخ الحدیث ؒ نے اپنے اہتمام میں جو دوسری اور تیسری جلد شائع کی اس کی طباعت کے سلسلہ میں تین اشخاص کی خدمات خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ اولؔ جناب مولانا محمد اقبال رحمانی ؒ جو ایک طویل عرصہ تک جامعہ سراج العلوم بونڈیہار کے مدیر رہے ۔ دومؔ مولانا زین اﷲ طیب پوری جو ان دنوں مدرسہ محمدیہ نصرۃ الاسلام شنکر نگر میں تھے سومؔ مولانا عبدالرحمن صاحب برادرخورد حضرت مولانا عبدالرؤف رحمانی ناظم جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال۔ حضرت شیخ الحدیث ؒ کے جو خطوط مولانا محمد اقبال رحمانیؒ کے نام ہیں ان کے مطالعہ سے مرعاۃ کی طباعت میں ان تینوں حضرات کا جو اہم حصہ ہے اس کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے، ان مکتوبات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا محمد اقبالؒ رحمانی اور مولانا عبدالرحمن صاحب نے مرعاۃ کی طباعت کیلئے مادی وسائل فراہم کئے اور مولانا زین اﷲ طیب پوری نے دلچسپی لے کر بھاگ دوڑکرکے جسمانی محنت خوب کی ہے، حضرت شیخ الحدیث کے وہ مکاتیب مجلہ الفلاح بھیکم پور کے علامہ عبید اﷲ رحمانی نمبر میں دیکھے جا سکتے ہیں جو شمارہ جون تا ستمبر ۱۹۹۴ء میں شائع ہوئے ہیں۔
اب میں حضرت شیخ الحدیث کے بعض مکاتیب کے اقتباسات نقل کررہا ہوں جن سے مولانا زین اﷲ طیب پوریؒ کی دلچسپیاں بابت مرعاۃ المفاتیح روز روشن کی طرح واضح نظر آتی ہیں ، جناب شیخ الحدیث ؒ ۱۲؍مئی ۱۹۶۰ءکے مکتوب میں جو مولانا محمد اقبال رحمانیؒ کے نام ہے لکھتے ہیں:
’’………… آج ۱۰؍مئی کو مولوی زین اﷲ صاحب کا لفافہ آیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ ان کے بلانے پر آپ طیب پور پہونچے اور جلد ثالث کے مصارف وغیرہ کے سلسلہ میں باہمی تبادلۂ خیال ہوکر یہ طے پایا کہ یہ کام شروع کرا دیا جائے۔ آپ دونوں باہمی تعاون سے حسب استطاعت اس کام کو انجام دینے کی کوشش کریں گے یہ اطلاع میرے لئے بڑے اطمینان کا باعث ہوئی، اﷲ تعالیٰ آپ لوگوں کی مددفرمائے اور اس سلسلہ کی تمام مساعی مشکور کرے ۔(آمین)
کئی دن ہوئے میرے مفصل خط کے جواب میں کاتب کا کارڈ آیا ملاحظہ کیلئے اس کو بھی مولوی زین اﷲ صاحب کے پاس بھیج دیا ہے اور آپ سے مشورہ کرنے کی ہدایت کردی ہے کاتب نے کھل کر لکھ دیا ہے کہ ایک روپیہ فی صفحہ کا اضافہ کردیا جائے یعنی اجرت چار روپیہ فی صفحہ کے بجائے پانچ روپیہ فی صفحہ کردی جائے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کتاب ۵۰۰ صفحے ہوں تو اجرت میں ۵۰۰ روپئے کا اضافہ ہو جائے گا، میں اس کا یہ مطالبہ دیکھ کر حیران ہوں ، نسخے (عربی) کے اچھے بالخصوص اعلیٰ کاتب ملتے نہیں ہیں، مولانابستوی اورمولانا رازؔ نے قرآن لکھوا کر اس کی اجرت کافی بڑھادی ہے، وہی پرتہ اب مرعاۃ کی کتابت میں بڑھاناچاہتا ہے، دن بھر میں دو صفحے لکھ کر ۱۰ روپئے کھڑے کر لینا چاہتا ہے اس کی بے مروتی کا اندازہ ہو چکا ہے امید نہیں کہ کچھ نیچے اترے۔ ہماری ضرورت اور مجبوری سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے ، تلاش سے شاید عربی کا کوئی اچھا کاتب مل جائے مگر وہ غیر مولوی ہوگا اور میرے قلمی مسودہ سے اس کا لکھنا مشکل ہوگا اور خدا جانے معاملہ کیسا ہوگا؟ اس لئے حیرا ن ہوں کہ کیا کروں! کاتب نے لکھا ہے کہ میرا مطالبہ منظور ہو تو مسودہ اور مسطر کا کاغذ بھیج دو ، میں نے بذریعہ کارڈ اس کو یہ جواب دیا ہے کہ ذمہ دار لوگوں سے مشورہ کرکے آپ کو مطلع کیا جائے گا کہ مطلوبہ اجرت منظور ہے یا نہیں، اس لئے دوسرے خط کا انتظار کیجئے ! غالباً مولوی زین اﷲ صاحب بغرض مشورہ آپ کو پھر بلائیں گے ، امید ہے جلد ہی جواب سے مطلع کریں گے…………‘‘
اس مکتوب میں مرعاۃ کی کتابت کے مسئلہ کا جو ذکر ہے اس کے بعد مولانا زین اﷲ طیب پوری ؒ نے کیا کہا اور کیا پیش رفت ہوئی ، اس کا ذکر حضرت شیخ الحدیثؒ کے ایک دوسرے مکتوب میں ہے، وہ مولانا محمد اقبال رحمانیؒ کو لکھتے ہیں : یہ مکتوب ۱۸؍ مئی ۱۹۶۰ء کا ہے:
‘‘ مولوی زین اﷲ صاحب کا خط آگیا ہے، آپ کو مشورہ کیلئے بلانے میں زحمت سمجھ کر اور آپ پر اعتماد کرکے انھوں نے کاتب کی اجرت میں اضافہ کرکے معاملہ طے کر لینے اور کام شروع کر دینے کی رائے دی ہے کاتب کو ۸ آنے فی صفحہ اضافہ کرنے کی اطلاع دیدی ہے اب اس کے جواب کا انتظار ہے ، خدا کرے منظور کرلے، مسطر کا کاغذ مجازؔصاحب کے ہاتھ دہلی بھیج دیا ہے ، منظوری کی اطلاع آجانے پر مسودہ بذریعہ رجسٹری بھیج دونگا، فی الحال مسودہ کی نظر ثانی کی مشغولیت ہے …………‘‘
مرعاۃ المفاتیح جلد اول جو پاکستان سے طبع ہوئی تھی جب اس کا آنا بند ہوگیا اور ہندوستان میں اس کی مانگ بڑھ گئی تو مولانا زین اﷲ صاحبؒ اس کی طباعت کیلئے بہت فکر مند ہوئے، اس سلسلہ میں انھوں نے شیخ الحدیثؒ سے مبارک پور جا کر ملاقات کی، اس کا بھی تذکرہ شیخ الحدیثؒ نے مولانا محمد اقبال رحمانیؒ کے نام ایک خط میں کیا ہے ملاحظہ ہو! ملحوظ رہے کہ یہ مکتوب ۱۸؍ جولائی ۱۹۷۱ء کا ہے:
’’………… مولوی زین اﷲ صاحب مبارکپور آئے اور جب انھیں معلوم ہوا کہ مرعاۃ اول پاکستان سے آ نہیں رہی ہے اور اس کے نسخے ختم ہو گئے ہیں تو انھوں نے اس کو یہیں چھپوالینے کے انتظام کرنے کا مشورہ دیا، بلکہ اس کیلئے ہر ممکن کوشش پر آمادگی ظاہر کی ، کتابت وغیرہ کی مشکلات سن کر مولوی عبدالخالق سے نمونہ حاصل کرنے اور ان کو اس کام پر آمادہ کرنے کا عزم کرلیا چنانچہ وہ ان کے یہاں افتاں و خیزاں دو مرتبہ پہونچے اور نمونہ حاصل کیا اور بذریعہ رجسٹری یہاں بھیج دیا اس درمیان مجھے کوپا گنج میں ایک کاتب کا علم ہوا، انھوں نے بھی دو مرتبہ کرکے دو نمونے بھیجے ، اب ناظم مرکزی دارلعلوم اس کو بنارس میں ٹائپ پر طبع کرانے کا مشورہ بلکہ پیشکش کر رہے ہیں،……………… بنارس جانے کا خیال ہو رہا ہے وہاں بالمشافہ گفتگو کرنے کے بعد جو طے ہو گا اس سے آپ کو اور مولوی زین اﷲ صاحب کو مطلع کروں گا، آپ کی رائے و مشورہ اور تعاون کے بغیر یہ کام انجام نہیں پا سکتا۔ وفقنا اﷲ و إیاکم مما ہوخیر لنا فی الدنیا والآخرۃ………………‘‘
مولانا محمد اقبال رحمانیؒ کے نام شیخ الحدیث ؒ کے اور بھی بہت سے خطوط ہیں جس میں مولانا زین اﷲ طیب پوریؒ کے تذکرے ہیں ، اس طرح معلوم ہوا ہے کہ مولانا طیب پوریؒ کے نام بھی شیخ الحدیث ؒ نے بہت سے خطوط لکھے تھے مگر افسوس مجھے وہ دستیاب نہیں ہوسکے ورنہ ان سے بھی بہت سی باتیں معلوم ہوتیں ، ان کے لڑکوں میں سے کسی کے پاس بھی اگر وہ خطوط ہوں تو ضروری ہے کہ انھیں منظر عام پر لایا جائے تاکہ اہل علم استفادہ کرسکیں۔
ابوالعاص وحیدی
جامعہ سراج العلوم بونڈھیار
گونڈہ یوپی
٭٭٭
نمونۂ سلف مولانا حافظ نذیر احمد بستوی و قنوجی رحمہ ٗاﷲ
(تاریخ وفات: ۱۰؍اکتوبر ۱۹۹۶ء)
قہاری وغفاری و قدوسی وجبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
نورانی پُر کشش گلاب کی طرح کھلتا ہوا چہرہ خوبصورت حنائی داڑھی ، قد اوسط گداز جسم ، عالمانہ شان مومنانہ وضع رفتار میں گفتار میں کردارمیں اﷲ کی برہان یہ تھے اہل علاقہ اہل تعلقات ،عوام و خواص پر خوشگوار اثر چھوڑنے والے اپنے اخلاق حسنہ اور اوصاف حمیدہ کا گرویدہ بنانے والے عالم با عمل جناب مولانا حافظ نذیر احمد بستوی و قنوجی رحمہ اﷲ
تاریخ پیدائش و خاندانی حالات: آپ ۱۹۱۶ء میں پیدا ہوئے آپ کا خاندان پپرامرغہوا میں زمانہ سے آباد ہے شیخ صدیقی برادری سے تعلق ہے گھرمیں دینداری کا ماحول تھا حافظ صاحب نے رسم زمامہ کے مطابق مکتب میں قرآن کریم ناظرہ دینیات اور اردو کی تعلیم حاصل کی اور عربی کی تعلیم مدرسہ قاسم العلوم ککو گلی نائی کی منڈی آگرہ میں حاصل کی فراغت کے بعد میدان عمل میں قدم رکھا ۔ ممبئی ، مدراس اور کانپور نیز قنوج میں آپ نے درس و تدریس اور امامت و خطابت کا فریضہ انجام دیا ، مدراس میں حاجی عبدالعزیز باؤٹا بیڑی کے یہاں آپ کا قیام رہا ۔ حاجی عبدالعزیز صاحب حافظ صاحب کی بڑی قدرو منزلت کیا کرتے تھے اسی طرح قنوج میں حاجی محمد ایوب صاحب کے یہاں آپ کافی دنوں تک رہے وہاں بھی آپ کی بڑی پذیرائی اور قدرو منزلت تھی۔ قنوج کے مشہور و معروف تاجر عطر جناب جناب الحاج محمد ایوب صاحب کے صاحبزادگان جناب عبدالملک و احسن صاحبان حافظ صاحب کے شاگرد ہیں۔
آخری دنوں یعنی ۱۹۷۰ء سے کچھ قبل ہی آپ جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں بحیثیت مبلغ رہے جہاں آپ نے جامعہ کی طرف سے دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیا اور مالیات کی فراہمی کیلئے ملک کے مختلف گوشوں کا دورہ بھی کرتے رہے پھر شعبۂ حفظ میں آپ مدرس مقرر ہوگئے اور سالہاسال یعنی ۱۹۷۸ء تا ۱۹۸۰ء تک آپ قرآن مجید کی خدمات انجام دیتے رہے ۔
تلامذہ: آپ کے مشہور و معروف تلامذہ میں جناب عبدالملک صاحب تاجر عطر قنوج جناب احسن صاحب مرحوم جناب حافظ اصغر علی بگلہوا جناب غیاث الدین حال مقیم قطرحافظ عبدالقدوس صاحب جھنڈانگر حافظ محمد کامل صاحب دہلی کا نام قابل ذکر ہے۔
اخلاق و عادات: حافظ صاحب بڑے خوش اخلاق ملنسار ، مہمان نواز تھے ملنے والوں سے بڑی خندہ پیشانی سے ملتے تھے اور خوب خاطر مدارات کرتے تھے مہمانوں سے کوئی دن آپ کا گھر خالی نہ رہتا تھا ۔ آپ نہایت نستعلیق اور پاکیزہ ذوق کے مالک تھے لباس صاف ستھرہ زیب تن فرماتے تھے ہمیشہ عطر میں بسے رہتے آپ کے کھانے میں روزانہ گوشت ہوتا تھا جبکہ آمدنی بیحد کم تھی ایک مدرس کی تنخواہ رسم زمانہ کے مطابق آپ بھی پاتے تھے ، مگر اﷲ نے برکت دے رکھی تھی اور عمدہ غذا تناول فرماتے تھے مولانا ابوالبرکات صاحب جھنڈا نگری کہتے تھے کہ اگر حافظ صاحب کی کہیں دعوت ہو جاتی تو گھر گوشت کا ضرور انتظام کرکے جاتے اس خیال سے کہ میں دعوت میں گوشت کھاؤں اور بچے گھر پر روکھا سوکھا کھائیں یہ نامناسب ہے۔
دعوتی خدمات: حافظ صاحب رحمہ اﷲ خوش بیان قادرالکلام اور شعلہ با ر خطیب وواعظ تھے آپ دوران تقریر سامعین کو اپنی طرف متوجہ کر لیتے تھے کیونکہ آواز پُر تاثیر تھی حافظ قرآن ہونے کے سبب آیات کریمہ استحضار رہتا تھا نصوص حدیث بھی موقع بموقع پڑھتے تھے اردو اور فارسی کے اشعار پڑھا کرتے تھے، مبلغ تھے اس تعلق سے ہندوستان کے نامعلوم کن کن خطوں کو آپ نے اپنے وعظ و تذکیر کے ذریعہ زندگی بخشی ۔ لیکن قنوج اور ضلع بریلی کے مختلف شہر و قصبے رچھا، دھنورہ ٹانڈہ، جوکھن پور ، گردھر پور، جعفر پور ، گھاٹم مؤ اور آگرہ ، مدراس وغیرہ یہ سب مقامات آپ کے دعوتی جولا نگاہ تھے مضافات بڑھنی میں سے مہادیوبزرگ، گنیش پور ، گنجہڑا، انتری بازار، شہرت گڈھ اور سرحدی نیپال کے مواضعات کے موحدین آپ کا وعظ سننے کے بڑے گرویدہ رہا کرتے تھے اور آپ کو اپنا پیر ومرشد مانا کرتے تھے بڑھنی اور جھنڈا نگر کے اہل توحید آپ کی تقریر ووعظ کے بڑے شیدا تھے بالخصوص خیاط برادری ،حلوائی برادری اور غوری برادری میں آپ کی دعوت کے بڑے اچھے اثرات تھے اور آج بھی ان کا اثر چلا آرہا ہے۔
آپ جہاں بھی رہے امامت و خطابت کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دیتے رہے قنوج، کانپور ، ممبئی ، مدراس ہر جگہ منبر و محراب آپ کے حوالے رہے ۔ جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر میں دوران مدرس آپ ہی جامع مسجد کے امام و خطیب تھے خطیب الاسلام مولانا جھنڈانگری کی جوہر شناش نگاہوں نے ان کو یہاں کیلئے منتخب کر لیا تھا خطاب کے دوران سامعین کا منظر کان علیٰ رؤسہم الطیر کا ہوتا تھا اس طرح سالہا سال تک آپ نے جھنڈا نگر کی عیدگاہ میں عیدین کی امامت وخطابت کا فریضہ انجام دیا۔
تحریری صلاحیت: آپ کی تحریر بھی بڑی شگفتہ ہوتی تھی بڑی دلپذیر مرصع عبارت تحریر فرماتے تھے اور چونکہ آج سے پچاس سالوں قبل والا تعلیم کے ماحول کا اثر تھا کہ فارسی کے الفاظ بکثرت استعمال کرتے تھے۔
حافظ صاحب جس زمانہ میں شہرت گڈھ کے اندر قیام پذیر تھے جماعت کے مشہور عالم مولانا امر اﷲ صاحب عارف سراجی کے ساتھ مل کر کوئی ماہنامہ بھی نکالا تھا جس کا ذکر انھوں نے مجھ سے ایک ملاقات میں کیا تھا لیکن افسوس کہ اب مجھے اس پرچہ کا نام یاد نہیں رہ گیا شاید ایک ہی دو شمارہ نکل سکا تھا شہرت گڈھ جیسی جگہ سے آج سے پچاس سال قبل کوئی ماہنامہ نکالنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا بہر حال نامساعدت حالات کی وجہ سے قدم آگے نہ بڑھ سکا۔
ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بستی کی صدارت کے زمانہ میں آپ کے قلم سے دو ایک پمفلٹ بھی شائع ہوئے چنانچہ ایک چار ورقی پمفلٹ اہل حدیث کا مذہب شائع کراکے مفت تقسیم کیا تھا جس میں اہل حدیث کی وجہ تسمیہ قدامت اہل حدیث وغیرہ مضامین پر روشنی ڈالی گئی تھی۔
اسی طرح ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بستی کے زیر اہتمام مدرسہ دارالتوحید مینا عیدگاہ میں ۱۹۸۰ء کے کچھ بعد میں ضلعی کانفرنس ہوئی تھی جس کا خطبۂ صدارت جادۂ سنت کے نام سے شائع کراکے مفت تقسیم کیا تھا ۔ طباعت و اشاعت کا کام آپ کے بڑے صاحبزادے بابو الحاج عبدالقدیر صاحب نے کیا تھا ۔جن کے اندر کار خیر کا بڑا جذبہ پایا جاتا ہے۔
ضلعی جمعیۃ بستی کی صدارت: حافظ صاحب ضلعی جمعیۃ بستی کے صدر ۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۵ء تک رہے ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بستی نے ہمیشہ فروغ توحید و سنت میں قابل قدر خدمات انجام دیا تھا یہاں اس کے ذکر کی ضرورت نہیں سمجھتا ہوں البتہ یہ عرض ہے کہ اس کے عہدہ صدارت پر ہمیشہ مقتدر علمی شخصیات فائز رہی ہیں ۔ بطور مثال خطیب الاسلام علامہ جھنڈا نگری رحمہ اﷲ ، مولانا عبدالقدوس ٹکریاوی رحمہ اﷲ ،مولانا عبدالمبین منظر رحمہ اﷲ اسی سلسلہ کی ایک کڑی حافظ نذیر احمد رحمہ اﷲ بھی ہیں جنھوں نے اس عہدہ کو نوے کی دہائی کو زینت بخشا۔ آپ کے صدارت میں بڑے بڑے قابل قدر و قابل ذکر کارنامہ انجام پائے لیکن سب سے بڑھ کر قابل ذکر قصبہ بانسی میں ضلعی کانفرنس کا انعقاد ہے جس میں اس وقت کے امیر مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند و ناظم اعلیٰ جامعہ سلفیہ مرکزی دارالعلوم بنارس مولانا عبدالوحید صاحب سلفی بنارسی ، ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری مولانا عبدالحمید رحمانی پرو فیسر عبیداﷲ رائے بریلوی مولانا محمد رئیس احمد ندوی صاحب جیسی اہم علمی و جماعتی شخصیات شریک تھیں یعنی ضلع کے تمام نامی گرامی علماء و اراکین عاملہ و شوریٰ حاضر تھے اس کی ایک حیثیت سے بڑی اہمیت تھی کہ وہاں غیر جماعتی اثرات بڑھ رہے تھے اور غیر جماعتی شخص جامع مسجد اہل حدیث کے منبر و محراب پر قابض تھا اہل بانسی میں سے ایک متمول شخصیت کو اس نے اپنے دام تزویر میں جکڑ رکھا تھا جس سے بانسی کے اخوان جماعت بڑے کرب میں تھے ۔ اور خود حافظ صاحب اس صورت حال سے بڑی اذیت محسوس کر رہے تھے بہر حال کانفرنس بڑی کامیاب رہی اور آہستہ آہستہ جامع مسجد کے منبر و محراب کی جماعتی حیثیت بحال ہو گئی۔
مدرسہ بحر العلوم کی نظامت:حافظ صاحب مدرسہ بحرالعلوم انتری باارکے ناظم اعلیٰ ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۸ء تک رہے مدرسہ بحرالعلوم انتری بازار ایک قدیم اہل حدیث مدرسہ ہے ضلع بستی میں تین ہی قابل ذکر مدرسے تھے ۔ دارالہدیٰ یو سف پور ، مدرسہ بحرالعلوم انتری بازار اور مدرسہ مفتاح العلوم بھٹ پورہ ان تینوں کی تعلیم و تعلم کے میدان میں بڑی سندی خدمات ہیں ان کے فیض یافتگان نے توحید و سنت کی اشاعت اور رد شرک و بدعت میں نمایاں کر دار ادا کیا ہے ایک وقت آیا کہ مدرسہ بحرالعلوم زوال پذیر ہوگیا ، عربی و فاسی درجات ختم ہوگئے صرف مکتب کی تعلیم رہ گئی جماعت کے معتبر شاعر حیرت بستوی صاحب ساکن انتری بازار نے ترجمان دہلی میں مدرسہ کے تعلق سے اپنے درد دل کا اظہار کرنے کیلئے ایک اعلان نکالا تھا جس کا عنوان تھا ۔
بحرالعلوم سوکھ کے بے آب ہو گیا
ان حالات سے وہاں کے حساس دل علماء و اخوان جماعت بہت فکرمند تھے چنانچہ استاذ گرامی مولانا عبدالحنان صاحب فیضی مولانا محمد عمر سلفی وغیرہ کی کد و کاوش سے مدرسہ مذکورہ کے اصلاح حال کیلئے مدرسے کے اراکین ہمدردان و بہی خواہان کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں کافی غور خوض کے بعد سبھوں نے محترم حافظ صاحب کو ناظم منتخب کیا موصوف نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اور اپنے تعلقات واثر و رسوخ کا استعمال کرکے پھر تعلیمی و تدریسی چہل پہل پیدا کردی مدرسین کی تعداد میں اضافہ ہوا ، مطبخ کا قیام عمل میں آیا ، ہاسٹل میں طلبہ کا داخلہ ہوا ، جماعت رابعہ تک تعلیم ہوتی رہی اور پھر سابقہ بہار نہ صرف پلٹ آئی بلکہ اس میں مزید رونق و نکھار پیدا ہو گئی۔ یہ سلسلہ سالہاسال تک چلتا رہا لیکن افسوس کہ وہاں کے لوگوں کی سرشت میں جیسے اختلاف اور سازش پیوست ہے ۔ حافظ صاحب حالات سے دل برداشتہ ہوکر نظامت سے علیحدہ ہو گئے ۔ دھیرے دھیرے پھر مدرسہ مکتب میں محدود ہو گیا اور اب اسی حال پر قائم ہے اس کے علاوہ المعہد الاسلامی انوار العلوم گنجہڑا کی کئی سال نظامت کے فرائض انجام دیئے اور ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بانسی کی کانفرنس بھی آپ کی صدارت میں ہوئی۔
اتباع سنت : حافظ صاحب پکے موحد و متبع سنت تھے توحید و سنت کے خلاف کوئی بات سننا اور سن کر اس پر خاموش رہنا آپ کو قطعی گوارہ نہ تھااس معاملہ میں کسی بھی مداخلت کو وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے ایک مرتبہ جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کی جامع مسجد میں ایک مودودی فکر کے مولوی صاحب نے تقریر کرتے ہوئے خطبۂ جمعہ میں سورہ ق کی تلاوت کو رسم کہہ دیا ۔ حافظ صاحب اس پر چراغ پا ہوگئے اور خطبہ ختم ہوتے ہی موصوف نے اس کا سخت نوٹس لیا مولوی صاحب بھیگی بلی بن کر رہ گئے اور ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔
خطیب الاسلام علامہ جھنڈانگری کے ساتھ: گذشتہ سطور عرض کیا جاچکا ہے کہ آپ جامعہ سراج العلوم میں مبلغ پھر مدرس رہے خطیب الاسلام آپ کی بڑی قدر کرتے تھے اور آپ کا بڑا لحاظ رکھتے تھے یہ قدر و لحاظ مخافۃ شرّنہیں تھا جیساکہ جھنڈا نگر کے کچھ دیگر افراد کا ان کے سامنے مخافۃ الشر تواضع و انکساری فرماتے تھے بلکہ ان کی قدر دل سے فرماتے تھے وجہ اس کی کیا تھی؟ایک تو خود ان کی پُر وقار شخصیت دوسرے خطیب الاسلام کی مدرسہ کے معاملات میں تائید و حمایت میں ، چنانچہ جھنڈانگر و بڑھنی کے چند لوگوں نے مدرسہ میں گھس پٹ بنانے کیلئے مدرسہ کی باڈی پر قومی و خاندانی کی حیثیت کھڑا کرکے اعتراض کیا اور مدرسہ کے خلاف ایک اشتہار شائع کرایا جس میں ایک خاندان کدربٹوا اور مدرسہ کی شورائی وجماعتی حیثیت کو چیلنج کیا گیا تھا تو اس کے جواب میں دو اشتہارات شائع ہوئے جس میں ایک خاندان کدربٹوا کی طرف سے شائع ہوا جس کا عنوان تھا ۔ ’’قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم ‘‘ بحیثیت ناشر بہی خواہان ملک و ملت ضلع کپل وستو دیا گیا تھا جبکہ دوسرے اشتہار کا عنوان تھا ’’ شرم ان کو مگر نہیں آتی‘‘ اس میں مرتب و ناشر کی حیثیت سے حافظ صاحب کا نام کھلے لفظوں میں تھا اب یہ باتیں قصۂ پارینہ ہو چکی ہیں
آں قدح شکشت و آں ساقی نہ نماند
اس کا ذکر صرف حافظ صاحب کی جرأت حق گوئی بے باکی اور حمایت حق کے تعلق سے آگیا۔
مسلم پرسنل لاء کے حوالہ سے : جب شاہ بانو کے مشہور و بدنام زمانہ مقدمہ میں سپریم کورٹ نے نفقہ مطلقہ کا حکم صادر کیا جس سے پورے ملک میں اضطراب و ہلچل پیدا ہو گئی حافظ صاحب رحمہ اﷲ ضلعی جمعیۃ اہل حدث بستی کے صدر تھے وہ بھلا کہاں خاموش رہ سکتے تھے موصوف کے اشارے پر آپ کے فرزند گرامی الحاج عبدالقدیر صاحب نے اپنے رفقاء کی مدد سے چٹی بازار بڑھنی میں اہل حدیث و سنی متحدہ اجلاس کرایا جس میں محترم حافظ صاحب پروفیسر عبیداﷲ صاحب رائے بریلی مولانا محمد صدیق نوری وغیرہ نے خطاب کیا اور سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی ۔
نکاح واولاد: آپ کا عقد قاضی بگلہوا کے شیخ حفیظ اﷲ صدیقی کی صاحبزادی سے ہوا تھا جو نہایت نیک اچھی رفیقۂ حیات ثابت ہوئیں ان کے بطن سے چار لڑکے (۱) محمد فاروق (جن کا انتقال عنفوان شباب میں ہو گیا تھا ) (۲) الحاج عبدالقدیر (۳) الحاج محمودالحسن(۴) مولانا محمد احمد فیضی قلمی نام آزاد فیضی ہیں اور چار لڑکیاں بھی تولد ہوئیں (۱) مۃ الرحمن (۲) امۃ (۳) ام عطیہ (۴) ام حبیبہ جن میں امۃالرحمن اﷲ کو پیاری ہو چکی ہیں باقی سب حیات ہیں ۔ الحاج عبدالقدیر اپنی شرافت تواضع اور جماعتی و دینی کاموں میں کافی شہرت رکھتے ہیں ، جھنڈانگر میں آپ کی آرامشین چل رہی ہے ۔ الحاج محمود الحسن صاحب بڑھنی بازارمیں کرانہ کی دوکان چلاتے ہیں وہ بھی اہل علم کے بڑے قدر دان ہیں اور بڑھنی بازار میں کافی اثر ورسوخ رکھتے ہیں جبکہ آزاد فیضیؔ صاحب اپنے اس نام کی مناسبت سے آزاد گھوم رہے ہیں یعنی روزنامہ راشٹریہ سہارا گورکھپور کے نامہ نگار ہیں ۔ اس حیثیت سے وہ اپنی الگ شناخت بنائے ہو ئے ہیں ۔
وفات: آپ عمر طبعی کو پہونچ چکے تھے جس کے سبب کچھ عوارض لاحق تھے ، بینائی جا چکی تھی چند ایک سال کہیں آنے جانے سے معذور رہے ۱ بالآخر وقت موعود آپہونچا اور ۱۰؍اکتوبر ۱۹۹۶ء
کو جان جان آفریں کے حولہ کرکے سفر آخرت پر روانہ ہوگئے ۔ اسی روز بعد نماز عشاء جھنڈا نگر کی اہل حدیث قبرستان میں عظیم مجمع کی موجودگی میں آپ کو سپرد خاک کر دیا گیا ۔ اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ
خورشید احمد سلفی
شیخ الجامعہ جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر نیپال
۱ بڑی خوشی اور انتہائی سعادت کی بات ہے کہ حافظ صاحب کے تینوں لڑکوں نے اپنے والد محترم کی خدمت کی اور ان تینوں نے خدمت کا حق ادا کردیا اﷲ تعالیٰ ایسی نیک و خوش بخت اولاد کو دین و دنیا کی برکتوں سے نوازے اورر حافظ صاحب کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کی مغفرت فرماکر انھیں اعلیٰ علیےن میں جگہ دے ۔ آمین
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور-بلرام پور یوپی
حضرت العلام مفتی حبیب الرحمن فیضی رحمہٗ اﷲ
سابق ناظم اعلیٰ جامعہ فیض عام مؤ
(تاریخ وفات: ۳۰؍نومبر ۱۹۹۶ء)
نام و نسب : جناب مفتی مولانا حبیب الرحمن فیضی بن مولوی احسان اﷲ بن مولانا محمد احمد معروف بڑے مولوی صاحب بن حضرت ملا حسام الدین رحمہم اﷲ
تاریخ ولادت: ۱۳۳۵ھ مطابق ۱۹۱۶ء
تعلیم: پوری تعلیم ابتدا تا فراغت و تکمیل جامعہ فیض عام مؤ میں ہوئی۔
اساتذہ کرام: مولانا نور محمد کوٹھا منشی عبدالکریم ، مولانا عبدالرحمن نحوی ، مولانا عبداﷲ شائق، مولانا شفیع اﷲ وغیرہم
فراغت و دستار بندی : ۱۳۵۷ھ مطابق ۱۹۳۸ء دستار بندی بدست مبارک حضرت مولانا ابوالوفاء ثناء اﷲ امرتسری رحمہ اﷲ ۔
درس و تدریس: مادر علمی فیض عام ہی میں پوری زندگی تدریسی خدمات انجام دی ۔ نہ پڑھنے کیلئے کہیں گئے نہ پڑھانے کیلئے یہاں وہاں جانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ بعد فراغت طویل عرصہ تک یعنی ۱۹۳۹ء سے ۱۹۸۲ء تک بحیثیت صدر مدرس و شیخ الحدیث اور مولانا محمد احمد ناظم صاحب کی وفات ۲۴؍فروری ۱۹۸۲ء کے بعد تا حیات بحیثیت ناظم و شیخ الحدیث تدریسی سلسلہ جاری و ساری رہا مولانا موصوف ممتاز عالم دین اور جماعت کے مفتی کامیاب مدرس ، شیخ الحدیث اور جامعہ فیض عام کے جملہ انتظامات و انصرام کے ساتھ تدریسی خدمات کا سلسلہ خاصا طویل ہے جو نصف صدی سے زیادہ کی مدت پر پھیلا ہوا ہے ویسے تو آپ نے ہر فن کی کتابوں کا درس دیا ہے لیکن فن حدیث سے آپ کو اول روز سے زیادہ سے زیادہ مناسبت اور دلچسپی تھی ، جامع ترمذی وغیرہ کتب حدیث کا درس بطور خاص تحقیق اور بسط و تفصیل سے دیتے تھے ۱۹۶۶ء سے جب تک صحت نے ساتھ دیا برابر بخاری و مسلم کی مبارک علمی تقریب کے موقع پر جو جامعہ میں بڑے و قار و احتشام سے منعقد ہوتی ہے آخری حدیث کا درس حسب سابق آپ ہی دیتے تھے اور اس موقع پر حسب روایت سابقہ صحیح بخاری و صحیح مسلم اور کتاب و سنت کی اہمیت و حجیت حدیث امام بخاری اور امام مسلم کے حالات پر مسلسل گھنٹہ دو گھنٹہ ایسی پُر مغز تقریر فرماتے کہ رشک ہوتا تھا۔
اسی طرح ختم بخاری و مسلم کی علمی تقریب کے موقع پر ایک دفعہ مولانا عبداﷲ شائق صاحب بھی شریک ہوئے اور مفتی حبیب الرحمن فیضی صاحب کی تقریر پر بڑی مسرت کا اظہار کیا اور فرمایا مجھے خوشی ہے کہ میری محنت کام آئی اور برجستہ مفتی صاحب کی تعریف میں ایک قطعہ بھی کہا جس کا ایک شعر ہدیہ قارئین ہے
اے گردش زمانہ تو جا اپنی راہ لے
اک شیر ہے حبیب خدا فیض عام میں
آپ کے درس کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ حسب ضرورت تفصیل سے کام لیتے تھے اور اکتاتے نہیں تھے اسی طرح طلبہ کے سوالات سے نہ جھنجھلاتے تھے نہ گھبراتے تھے بہر حال طلبہ کو ہر طرح سے مطمئن کرنے کی کوشش فرماتے تھے متعلقہ شروح و معاون کتابیں نکلوا کر زیر بحث مقامات دکھاتے اور سمجھاتے تھے ۔ ۔
آپ جامع مسجد فیض عام کے خطیب بھی تھے آپ کا خطبہ مختصر مگر جامع ضروری مسائل کے بیان پر مشتمل ہوتا تھا اور بہت پسند کیا جاتا تھا آپ نے اپنی پوری زندگی جامعہ فیض عام کیلئے وقف کررکھی تھی ، جامعہ کیلئے ہر طرح کا سرد و گرم سنتے اور سہتے رہے سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے ہمہ وقت جامعہ ہی کی تعمیر و ترقی کا سودا سر میں سمایا رہتا جامعہ میں بچیوں کی دینی و عصری تعلیم کیلئے شعبۂ نسواں کا قیام تمام تر آپ ہی کی فکر اور جد و جہد کا رہین منت ہے یہ شعبہ دو قسموں پر مشتمل ہے مدرسہ فیض عام (برائے دینی و عربی تعلیم) اور فیض عام گرلس اسکول (برائے عصری تعلیم) دونوں نے بڑی ترقی و نیک نامی حاصل کی ان میں طالبات کی مجموعی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی جس میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔
وفات: مفتی صاحب ناظم مولانا محمد احمد رحمہ اﷲ کے دست راست بنے رہے اور انھیں کی طرح آپ بھی اپنی زندگی جامعہ پر قربان کردی اور ناظم صاحب ہی کی طرح جامعہ کے ایک حجرہ میں جس میں آپ رہتے تھے ۔ ۱۸؍رجب ۱۴۱۷ھ مطابق ۳۰؍نومبر ۱۹۹۶ء بروز شنبہ بوقت فجر جان جان آفریں کے حولہ کردی ۔ رحمہ اﷲ و عفاہ عنہ و اکرم مثواہ
فتاویٰ نویسی: درس و تدریس کے ساتھ آپ شروع ہی سے فتویٰ نویسی کی خدمت بھی انجام دیتے تھے آپ کے تحقیقی فتاوے کے متعدد ضخیم رجسٹر موجود و محفوظ ہیں استفتاء اور مسائل کے استفسار کیلئے پورے ملک سے لوگ آپ کی طرف رجوع کرتے تھے اور آپ کتاب و سنت کی روشنی میں بڑی تحقیق و تدقیق کے ساتھ فتاوے لکھتے اور لوگوں کی رہنمائی فرماتے۔
جامعہ کی رکنیت اور نظامت: ۳۰؍اپریل ۱۹۵۲ء میں جامعہ فیض عام کی مجلس انتظامیہ کے رکن بنائے گئے ۱۷؍مئی ۱۹۵۸ء میں نائب ناظم مقرر ہوئے ، ۲۷؍ فروری ۱۹۸۲ء سے تا حیات جامعہ فیض عام کے ناظم اور مسلم انٹر کالج کے منیجر رہے۔
قابل ذکر تلامذہ: آپ کے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو ملک و بیرون ملک پھیلے ہوئے ہیں ، چند قابل ذکر تلامذہ کے نام درج ذیل ہیں ۔
مولانا عبدالرحمن مبارکپوری، مولانا امان اﷲ فیضی بہاری، ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری، مولانا مظہر احسن ازہری، مولانا صفی الرحمن مبارک پوری ڈاکٹر عبدالعلی ازہری ، مولانا عبدالحمید رحمانی ، مولانا عبدالحنان فیضی جھنڈا نگر، شیخ عبدالباری فتح اﷲ المدنی ، مولانا سید عبدالاول بستی، مولانا جمال الدین فیضی بستوی ، مولانا عزیز الرب مدھو بنی، مولانا قرۃ العین املوی مولانا نورالعین سلفی املوی، مولانا حافظ نصراﷲ فیضی جو نپوری مولانا حافظ نثار فیضی ، مولانا محفوظ الرحمن فیضی، مولانا محمد حنیف چمپارنی ، مولانا قاری نجم الحسن فیضی وغیرہ وغیرہ
مولانا محفوظ الرحمن فیضیؔ
سابق شیخ الجامعہ جامعہ اسلامیہ فیض عام مؤ ناتھ بھنجن
٭٭٭
مولانا صبغۃ اﷲ ندوی رحمہ ٗاﷲ
(تاریخ وفات: ۱۶؍اکتوبر ۱۹۹۷ء )
طوفان اشک چشم ترسے موجزن ہے آج ہرقلب غم شناس مصروف حزن ہے آج
کل تک تھا جس چمن میں بہاروں کا اہتمام باد خزاں کی زد میں وہ سارا چمن ہے آج
مولانا صبغۃ اﷲ ندوی جنھیں لرزتے ہاتھ اور کانپتے قلم سے مرحوم لکھنا پڑ رہا ہے علمی و دینی فضا اس وقت سو گوار ہو گئی ۔ جب بذریعہ فون یہ اندوہناک خبر ملی کہ مولانا صبغۃ اﷲ ندوی سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ انا ﷲ وانا الیہہ راجعون
آہ! وہ خوشنوا عندلیب ایک ہی پرواز سے دار فنا عبور کرکے خلد آشیاں ہو گیا ۔ جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر کے طلباہ و اساتذہ و منتظمین سراپا غم ہو گئے جامعہ کی عظیم الشان پُر شکوہ دو منزلہ جامع مسجد کے منبر و محراب ماتم کناں ہو گئے ۔ پوری جماعت میں صف ماتم بچھ گئی۔
مولانا نے مکتب کی تعلیم گاؤں میں حاصل کی ، اور ابتدائی عربی درجات جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر میں حاصل کی تھی اس کے بعد آپ نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ جاکر علمی پیاس بجھائی اور وہاں کے ماہرین اساتذہ سے کسب فیض کیا ۔
مولانا دارالعلوم ندوۃ العلماء میں ہمارے ہم سبق ساتھی تھے کئی سال ندوہ میں ایک ساتھ رہ کر علمی پیاس بجھائی اور ایک ہی ساتھ داخلہ لیا اور ایک ہی ساتھ تعلیمی فراغت ہوئی مولانا سے بدرجہ غایت مخلصانہ تعلقات تھے اور آخری لمحات تک بحمد اﷲ یہ مخلصانہ تعلقات قائم رہے ندوی صاحب راقم کی مطبوع کتابوں کو بہت پسند کرتے تھے خاص طورسے کتاب ’’خانہ ساز شریعت اور آئینہ کتاب و سنت ‘‘ اسلامی آداب معاشرت ‘‘ مولانا کا سانحہ ارتحال میر ے لئے ذاتی حادثہ ہے آج بھی ان کی یاد پر آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔
مولانا ندوی صبر و عزیمت کے پہاڑ علم و عمل کا پیکر خلوص و ﷲیت کا مظہر اور ریا و نمود سے کوسوں دور ، مولانا علوم دینیہ کے تمام پہلوؤں پر عمیق نگاہ رکھتے تھے تفسیر حدیث ، اصول فقہ ، عربی ادبیات صرف و نحو منطق و فلسفہ ، تاریخ و سیرت کی درسی کتابو ں پر انھیں عبور حاصل تھا درسیات میں ماہر تھے مسائل کی تحقیق و تدقیق کا اچھا ذوق رکھتے تھے ایک ماہر کامیاب مدرس کی طرح بھر پور مطالعہ اور شروحات وغیرہ سے پوری تیاری کے ساتھ درس میں آتے تھے علم کے علاوہ عمل کی نعمت سے بھی اﷲ تعالیٰ نے انھیں خوب نوازا تھا جس شخص میں علم اور عمل کی خصو صیات جمع ہو جائیں وہ دنیا میں بھی کامیاب اور آخرت میں بھی فوز و فلاح کا مستحق قرار پائے گا مولانا عالم باعمل ، عابد و زاہد ، شب زندہ دار، حق گو تھے احقاق حق و ابطال باطل کے معاملہ میں کسی سے نہ خوفزدہ ہوتے اور نہ کسی کی رعایت کرتے صاحب اقتدار کے پاس جانے سے احتراز کرتے ۔
مولانا موصوف کا آبائی تعلق موضع دودھونیاں سے تھا لیکن ان کے والد ماجد برکت اﷲ صاحب مرحوم نے خانگی بٹوارے کے تحت موضع دودھونیاں سے جانب مشرق تین کلو میٹر دورموضع ٹیسم میں سکونت اختیار کرلی ، مولانا کے والد صاحب نیک صالح ، خدا ترس عابد، زاہد متقی انسان تھے ، اسی وجہ سے قرب و جوار کے لوگ انھیں میاں صاحب کے نام سے یاد کرتے تھے موصوف توکل علی اﷲ گھورئی ندی کے لب ساحل پر سب سے الگ تھلگ گھر بنا لیا تھا جہاں مولانا کی پرورش و پر داخت ہوئی آپ کی تاریخ ولادت ۲۵؍ دسمبر ۱۹۴۷ء ہے آپ نے بعمر ۵۰ سال اس دار فانی سے کوچ کیا ۔
تعلیمی فراغت کے کچھ دنوں تک گھر پر اپنے آبائی پیشہ کھیتی باڑی سے منسلک رہے چنانچہ مولانا ندوی کو علمی مشاغل جاری رکھنے کا خیال دامن گیر ہوا اور مدرسہ بحرالعلوم انتری بازار میں مدرس ہو گئے جہاں بحسن و خوبی اپنا فریضہ انجام دیا ستمبر ۱۹۷۸ء میں خطیب الاسلام مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگری نے اپنے جامعہ میں بلا لیا اور تا وفات مولانا جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر ہی سے منسلک رہے اور جامعہ میں تدریس کے ساتھ ساتھ مستقل طور پر امامت و خطابت کا فریضہ انجام دیتے رہے آپ کا خطبہ جمعہ موقع ومحل کی مناسب ہوا کرتا تھا یعنی عربی مہینہ کے اعتبار سے جن مسائل و موضوعات پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہوتی تھی اس کو منتخب کرتے آپ کے وعظ و تقریر کی خاص خوبی یہ تھی کہ موضوع سے متعلق آیات اور احادیث کثرت سے سناتے تھے یہی وجہ تھی کہ آپ کی تقریر شوق و دلچسپی سے سنی جاتی تھی اور سامعین پر اس کا اثر ہوتا تھا آپ کے بہترین انداز خطابت اور پُر اثر وعظ سے دور دراز سے اجلاس میں بلائے جاتے ، خطابت کے ساتھ ساتھ پنجوقتہ نمازوں کی امامت بڑی پا بندی کے ساتھ کرتے تھے ۔ عام طور سے لوگ انھیں امام صاحب کہتے تھے جامعہ سراج العلوم کی مسجد میں انیس سال تک امامت و خطابت کا اہم فریضہ خالصۃً لوجہ اﷲ اور خدمت دین کے جذبہ سے انجام دی کبھی کسی معاوضہ کے طالب نہیں ہوئے جو بڑا ہی قابل تحسین امر ہے جمعہ کو اپنے گاؤں سے آتے تھے اور بعد نمازجمعہ واپس چلے جاتے تھے مولانا کی پاکیزہ زندگی ہم سب کیلئے عبرت و نصیحت اور بہترین اسوہ ہے۔
آپ کے اندر سب سے خاص بات یہ تھی کہ آپ کے ہر کام میں خلوص کار فرما ہوتا قناعت و استغناء آپ کی فطرت ثانیہ تھی توکل علی اﷲ آپ کا اصلی وصف تھا عابد ، شب زندہ دار، خشیت و ﷲیت ، راست بازی، میں اپنی مثال آپ تھے اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ کردار کے لحاظ سے آپ اپنا جواب نہیں رکھتے تھے سادگی ،ضبط و تحمل خلوص ووفا ، مسلکی غیرت جیسے صفات آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے آپ کی ذات مجسم صبر وشکیب تھی۔
وفات: مولانا بلڈ پریشر کے مریض تھے جامعہ میں یکایک بے ہوش ہوکر گرپڑے ، ڈاکٹر آئے بتایا کہ ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے برین ہیمرج ہوگیا ہے ایمبولنس کے ذریعہ گورکھپور لیجائے گئے ڈاکٹروں کے ہزارتدبیروں کے باوجود مولانا مورخہ ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۹۷ء شام سوا پانچ بجے یہ گوہر نایاب ہم لوگوں سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گیا رہ گئیں تو صرف ان کی یادیں ۔
۱۷؍اکتوبر ۱۹۹۷ء بعد نماز عصر جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر کے مفتی مولانا عبدالحنان صاحب فیضی کی امامت میں نماز جنازہ پڑھی گئی اور علم و فضل کے اس گوہر آبدار کو سپرد خاک کر دیا گیا ۔ اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ
عبدالرؤف خاں ندویؔ
تلسی پور- بلرام پور یوپی
۱۵؍ نومبر ۱۹۹۷ء
٭٭٭
مناظر اسلام حضرت العلام مولانا عبدالشکور دور صدیقی رحمہٗ اﷲ
(تاریخ وفات: یکم جولائی ۱۹۹۸ء)
تاریخ پیدائش: خادم عبدالشکور صدیقی یکم جون ۱۹۲۴ء کو موضع بیت نار ضلع بستی میں پیدا ہوا والد محترم منشی سعادت علی کی ولادت یکم اگست ۱۹۰۰ء وفات ۹؍فروری ۱۹۷۰ء ہے میرے دادا شیخ محمد سلیمان مرحوم مشہور پہلوان سینکڑوں پہلوانوں کے استاد تھے۔
والدہ ماجدہ کا انتقال: عہد طفولیت میں والدہ صاحبہ وفات پا گئیں ۔ تینوں بھائی یتیم ہو گئے ، ہم تینوں بھائیوں کی پرورش ننھیال میں ہوئی ۔ میں قیام ننہال کے زمانہ میں کبھی بڈھی کے مکتب میں کبھی پرائمری اسکول میں اور گھر پر رہتے ہوئے ابا جان سے گاؤں کے مکتب میں ابتدائی تعلیم پاتا رہا ، بہر حال سلسلہ تعلیم جاری رہا جس میں اکثر و بیشتر بلکہ کل کا کل محض ابو جان مرحوم کی تعلیم و تربیت آپ ہی کے زیر سایہ ہوتی رہی ۔آہستہ آہستہ میں نے درجہ پنجم مکتب اسلامیہ بیت نار سے پاس کیا۔
پرائمری مکتب بلوا دریاؤ بخش میں داخلہ: میں مدرسہ اسلامیہ بیت نار درجہ پنجم پاس کرتے ہوئے اپنے چند ساتھیوں کو موضع میں چھوڑ کر مدرسہ بلوا دریاؤبخش سرکاری درجہ تین میں داخل ہوا ، میرے موضع بیت نار کے ساتھیوں میں محمد زماں انصاری ، عبدالجلیل سانوت، ابوالحسن ، محمد خلیل عرف وکاہے، تعلقدار انصاری ، عبدالقیوم انصاری وغیرہ وغیرہ تھے ۔
مدرسہ سراج العلوم کنڈؤبونڈھیار میں داخلہ : بونڈھیار ہمارے موضع سے مشرق اور جنوب گوشہ پر ضلع گونڈہ میں پانچ میل کے فاصلے پر راپتی دریا پر واقع ہے ۔ جہاں دینی تعلیم و تربیت گاہ ایک عرصہ سے قائم ہے اس میں اس وقت مشہور استاذ فن فارسی داں حضرت مولانا حکیم محمد ےٰسین صاحب تھے ۔
موصوف کی تدریسی مہارت کا اس وقت ہمارے علاقہ میں بڑا شہرہ اور چرچا تھا میرے والد مرحوم فارسی زبان سے بہت شغف رکھتے تھے ۔ اس لئے ہم کو بھی فارسی میں ماہر دیکھنا چاہتے تھے اور اس وقت فارسی زبان دینی تعلیم کیلئے ذریعہ تعلیم تھی اس لئے بھی اس کا حصول لازمی تھا ۔ خدا کی شان ہم دونوں بھائیوں کو لیکر والد صاحب برائے داخلہ مدرسہ سراج العلوم بومڈھیار پہونچے اور مولانا حکیم محمد ےٰسین صاحب سے ملاقات کرکے ہم دونوں کے داخلے کے سلسلے میں بات کی ۔ مگر ہم دونوں کی بد قسمتی کہ جو نظم وہاں پر داخلے کا تھا اس میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔
ایک خضر صورت انسان کا احسان : اچانک ایک بوڑھے معمولی بدن ناٹے قد، کھدر کے سفید اور صاف کپڑے میں ملبوس ، کرتا سیدھا سادہ جس میں کھنڈی لگی مگر کھلی ہوئی ، عربی کاٹ پاجامہ جو گھٹنے سے ذرا نیچے تھا، ایک آنکھ دبا کر دیکھتے ہوئے تیزی سے سامنے سے مولانا حکیم محمد ےٰسین مرحوم کے آگے آکھڑے ہوئے۔ اور سلام کرنے کے ساتھ بولنے لگے۔
اس سال ہم کو تم نے طلبہ کیوں نہیں دیا؟اکیلے جنت میں جانا چاہتے ہو ؟ پورے خاندان کیلئے جنت ہے اور میرے لئے ہی جنت میں جگہ نہیں ہے سن لو! اے مولانا ےٰسین! میں قیامت میں تمہارا دامن پکڑوں گا اور خدا کے حضور پیش کروں گا ۔ باپ رے باپ ، پورا خاندان جنت کمائے اور مجھے اکیلا چھوڑ دے ، یہ تم نے اچھا نہیں کیا ، ارے کیا ہوا ! اگر میرا گھر جل گیا ، میرا کھلیان جل گیا ، تو میرا ایمان تو نہیں جل گیا۔ ہائے میں ایسا بد نصیب بنا دیا گیا کہ طلبا سب کے گھر کھائیں اور ایک میں ہی ایسا محتاج ہوں کہ خود کھا سکتا ہوں اور ایک طلبہ نہیں کھلا سکتا ۔ اچھا مولوی ےٰسین! تم نے ایسا کیوں کیا؟ کہ سب نیکی کمائیں اور ایک میرا گھر نیکی سے محروم رہے۔
یہ سن کر مولانا حکیم محمد ےٰسین مرحوم بولے : سنئے! سنئے! میرا دامن قیامت میں آپ نہ پکڑیں آپ کو طلبا کی ضرورت ہے تو میرا دامن چھوڑ دیجئے اور دہ دو طالب علم بیٹھے ہیں ان میں سے ایک کو اپنے ہاں لیجائیے! آپ ناراض نہ ہوں ، یہ سنتے ہی میں نمبر دار بابا کے ساتھ لگ گیا۔
نمبر دار بابا نے میرا ہاتھ پکڑکر مجھ کو اپنے سے چمٹا کر گلے لگا کر بڑی محبت سے بولے ، چلو میرے ساتھ گھر چلو ، سنو بھئی ، میرا گھر جل گیا ہے لیکن جو کھاؤں گا وہ کھلاؤں گا ساتھ تمہارے کھاؤں گا ، اگر پڑھنے آئے ہو تو اﷲ واسطے پڑھو اور میرے گھر نمک روٹی جو ملے وہ کھاؤ ۔ مجھ کو دعائیں دو ، میں تمہارے ساتھ ہی کھاؤں گا۔
میں یہ سن کر بابا کے ساتھ چل پڑا چند قدم چلا تھا کہ عصر کی اذان ہو گئی بابا رک گئے۔ اور عصر پڑھنے کی تیاری میں لگ گئے۔ کہ اچانک سامنے سے ایک دوسرے بزرگ آتے نظر پڑے جن کے سر پر زلف تھی گورے چٹے بزرگ ، پہلوانی بدن لئے ہوئے بڑے جسم بڑی بڑی آنکھیں ، لمبی داڑھی آتے ہی سلام کرتے ہیں کہ مولانا حکیم محمد ےٰسین نے کہا ہے کہ ملنگ جی نمبر دار بابا ایک طالب علم لے جارہے ہیں آپ کا خاندان باقی ہے تو بھئی میرا دامن آپ لوگ بھی نہ پکڑیں شوق سے وہ ایک طالب علم بیٹھا ہے آپ بھی لے جائیے چنانچہ بھائی محمد حنیف صاحب کو ملنگ جی نے اپنے ساتھ لیا اور بعد نماز عصر ہم دونوں اپنی جاگیریں دیکھنے چلے گئے ابا جی گھر کو رخصت ہو گئے۔
مولانا حکیم محمد ےٰسین کی تعلیم و تربیت: حضرت مولانا حکیم محمد ےٰسین صاحب مرحوم و مغفور کی علمی صلاحیتوں کا شہرہ دور دور تک تھا کہ علاقہ کے اکثر مواضعات کے علم کے پیاسے بہر قیمت حضرت والا کے دامن سے وابستہ رہنے کو اپنی زندگی کا حاصل تصور کرکے ہفتوں مدرسہ سراج العلوم بونڈھیار میں مقیم رہتے۔ سن رسیدہ لوگوں کی اچھی خاصی تعداد میرے زمانہ میں مرحوم موصوف کے زیر تعلیم و تربیت تھی ۔ اسی زمانہ میں مولانا زین اﷲ صاحب فاضل دارالعلوم دیو بند کنڈؤ بھی فارغ ہوکر تشریف لائے اور معلم ہو گئے ، ہم دونوں بھائیوں کی خوش قسمتی تھی اتنے اہل علم کے جمگھٹے سے ہماری درسگاہ اتنی مزین دلچسپ اور پُر رونق ہو گئی تھی کہ ہمارے لئے ہر خورد و نوش کی پریشانی نگاہوں سے اوجھل تھی اور ہر دم نگاہوں میں علمی مباحث اور مجالس کے مناظر رہتے جس سے ہم دونوں بھائی کا ذوق مطالعہ مزید بڑھتا گیا ۔ نصابی حیثیت سے فارسی کتب میں گلستاں، بوستاں، یوسف زلیحا، دیوان غنی سکندر نامہ ، انشائے خلیفہ اخلاق محسنی اخلاق جلالی مصدر فیوض ، احسن القواعد جیسی کتابیں سبقاً سبقاً زیر درس تھیں ۔ تیسرے سال ہم دونوں نے بھی درس کی اونچی کتابیں سبقاً سبقاً پڑھیں جس سے تعلیم فارسی کے ساتھ اردو کی بھی ہوئی۔
دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں داخلہ کیلئے تگ و دو: تین سالہ تعلیمی زمانہ مدرسہ سراج العلوم بونڈھیار کا ختم ہوا تو ایک سفرمیں ابا کے ساتھ اپنے ننھیال موضع بڈھی کیلئے جاتے ہوئے بسکوہر بازار پہنچا تو جمعہ کی نمازپڑھنے کیلئے شمالی مسجد میں جناب مولانا عبدالغفور صاحب ملا فاضل بسکوہری کے دولت خانے سے متصل پہنچے۔ خطبہ مولانا موصوف نے دیا بعد نماز جمعہ ابا جی نے مولانا سے خصوصی ملاقات کی سامنے مولوی عبدالشکور شاکر بسکوہری بھی تھے دوران گفتگو میری تعلیمی جانچ شروع ہوئی بر وقت سکندر نامہ منگا کر مولوی صاحب نے مجھے جانچا تو فیصلہ دیا کہ ضرور رحمانیہ میں داخل ہوسکتے ہیں بہت بہتر خیال ہے آپ ضرور ان کو بھیج دو ابا جی نے کہا کہ آپ کب جائیں گے ؟ فرمایا کہ میرا پتہ نہیں میں کب جاؤں گا اسلئے آپ انکو کسی اور کے ساتھ بھیج دیجئے، میرا کوئی سہارا نہیں ہے الغرض ابا جی مایوس ہوکر بڈھی کی راہ لینے کیلئے مجبور ہوئے پھر واپس گھرموضع بیت نار آگئے ۔
دارالحدیث رحمانیہ کا خواب پریشاں: اتنے بڑے استاذ الاساتذہ اور شیخ الجامعہ کی خدمت میں دونوں بھائی نہایت حوصلہ مندانہ جذبات سے خوش فہمی کا مجسمہ بن کر اپنے اپنے اعمال نامے کو لیکر حاضر ہوئے تو بجائے ان کاغذات کو ہاتھ لگانے کے بعد سلام و جواب پہلا سوال شیخ الجامعہ کا تھا بیٹے کہاں رہتے ہو ؟ ضلع بستی رات کو کہاں تھے ؟ دارالسلام صدر بازار کس کے ساتھ آئے ہو ؟ حبیب اﷲ دارالسلام مدرسہ کے ایک طالب علم کے ساتھ تو جاؤ اسی کے پاس پاس تم یہاں کیوں چلے آئے ؟ وہی تمہیں داخل کرائے گا ہم دونوں بھائی حیرا ن و پریشان کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے ’’ ہم ہیں مشتاق اور وہ ہیں بیزار‘‘ مگر کون بتائے ہم دونوں دیہاتی نووارد کبھی گھر سے باہر نہیں رہے اچانک دہلی جیسے دو ردراز شہر میں مسافرانہ بے یارو مددگار ایک مفلوک الحال طالب علم قسمت آزما کے زیر سایہ چند گھنٹے گذارنے کے گنہگار اور سزا اتنی شدید کہ اﷲ کی پناہ!
مدرسہ فیاضیہ میں داخلہ : تب تک مدرسہ فیاضیہ کچا باغ کلاتھ مل کے متصل واقع مسجد میں جگہ مل گئی جس میں مولانا حافظ محمد بشیر صاحب فرخ آبادی صدر مدرس تھے اور آپ کے ساتھ ایک قاری صاحب چھوٹے بچوں کو قرآن مجید ناظرہ پڑھاتے تھے مولانا حبیب اﷲ شہیم کے استاذ تھے جناب حاجی فیاض الدین صاحب حافظ حمیداﷲ فنا نشل سکریٹری آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے حقیقی برادر معظم اس مدرسہ فیاضیہ کے مہتمم تھے محترم مولانا حافظ محمد بشیرصاحب نے ہم دونوں کو فوراً بخوشی داخل فرمالیا اور ہر طالب علم کو تین روپئے ماہانہ نقد و ظیفہ ملتا تھا ہم دونوں کو بھی ملنے لگا۔
مدرسہ فیاضیہ میں تین سال تک بہت ہی کسمپرسی کے عالم میں دونوں بھائیوں نے تعلیم حاصل کی مگر اﷲ کا یہ کرم تھا کہ بفحوائے’’ تونگری بدل است نے بمال‘‘ دل کے ہم دونو بھائی الحمد ﷲ غنی تھے کبھی کسی کے آگے دست سوال دراز کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ بقول میر تقی
آگے کسو کے کیا کریں دست طمع دراز وہ ہاتھ سو گیا ہے سرھانے دھرے دھرے
دست طمع اﷲ نے عطا نہیں کیا تھا اس لئے ہر دریوزہ گری سے محفوظ رہے ۔
مدرسہ عالیہ فتح پوری دہلی میں داخلہ: مدرسہ فتح پوری میں دوران تعلیم دیگر اساتذہ کے مقابلے میں مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی کا طریق درس بہت دلچسپ اور حوصلہ مندانہ تھا ہدایہ اور مختصر المعانی پڑھاتے ہوئے بہت جوش میں آجاتے اور خاص کر محض اختلافی مسائل پر بحث و تنقید کرتے ہوئے آستین چڑھا تے ہوئے فرماتے ۔
ابوحنیفہ یہ کہتا ہے شافعی یہ کہتا ہے مگر اس مسئلہ میں اشفاق یہ کہتا ہے اور طلبہ کی جانب نہایت فاتحانہ انداز سے نگاہ ڈالتے ہوئے جب میری طرف نظر ڈالتے تو فرماتے ’’ کیوں غیر مقلد کچھ سمجھ رہا ہے ‘‘ تو غیر مقلد ہی رہے گا اگر تو میرے پاس ترمذی شریف پڑھ لے تو تجھے حنفی نہ بنادوں تو اشفاق میرا نام نہیں ‘‘ میں مسکرا کر رہ جاتا ،درس میں مجھے دیکھتے ہی محترم میں جذبہ تحقیق و تجسس اور تلقین کا ایسا مخلصانہ جوش پیدا ہوجاتا جو کسی دوسرے شفیق استاذ میں کم ہی نظر آیا ہے۔ چونکہ میں بلوغ المرام فیاضیہ میں پڑھ کر گیا تھا اسلئے مجھے حدیث نبوی سے ضرور کچھ درک تھا ، والد محترم کا خاندانی وصف گفتگو ہر وقت بولنے کی عادت ، بات معلوم کرنے کا شوق اور قابل اعتراض بات پر چپ نہ رہنے کی صفت مجھ میں بدرجہ اتم تھی اسلئے حضرت مولانا جیسے ہی مجھے چھیڑتے میں بھی ابل پڑتا اور پھر بحث کا لامتناہی سلسلہ چل پڑتا کہ پورا پیریڈ اسی کی نذر ہو جاتا، اور دوسرے طلبا اس قماش کے تھے نہیں ، اسلئے وہ مجھ سے لڑتے جو تعداد میں تقریباً ۱۰ سے ۴۵ تک ہوتے سب کے سب بیک زبان مجھ پر برس پڑتے یہاں تک کہ عبید اﷲ نامی سرحدی طالب علم جو تین خون کرکے گھر سے بھاگ کر دہلی میں پناہ گزین بنکر فتحپوری کا طالب علم بن گیا تھا اور اچھی خاصی عمر والا تھا مجھ کو چاقو دکھلاتا کہ تو وقت ہمارا برباد کرتا ہے ہم چاقو ماردے گا ۔ میں بھی اس سے الجھ پڑ تا اور نہایت دلیری سے مقابلہ پر آ جاتا بلکہ ایک چاقو بڑے پھل والا میں نے بھی خریدا اور عبید اﷲ سرحدی کو دھمکانے پر آمادہ ہو گیا ، آخر پھر اس کی اور میری بہت گہری دوستی ہو گئی جس سے معلوم ہوا کہ بہت بڑا بندوق کا نشانہ باز ہے بلکہ میں نے دیکھا کہ نشانہ بازی سے اس کی ایک انگلی بھی کچھ اُڑ گئی تھی اور تقریباً آدھی انگلی رہ گئی تھی۔
رفع الیدین پر بحث: یاد آیا کہ ایک بار رفع الیدین کی بحث آگئی، ہدایہ کے درس میں مولانا نے آگاہ کیا کہ کل مطالعہ اور گہرا مطالعہ کرکے غیر مقلد آنا، حضرت مولانائے محترم مجھے ’’غیر مقلد‘‘ سے ہی خطاب فرماتے تھے جو میرے لئے نہایت مقام فخر تھا، اور آج بھی اس مشفقانہ خطاب کے اثرات سے خود کو مستفیض پاتا ہوں ، میں نے بھی علم حاصل کرنے میں بڑی جانفشانی کی تھی ، مولانائے محترم کی للکار پر مجھے بھی حوصلہ ہوا اور میں نے جلاء العینین فی اثبات رفع الیدین‘‘ رسالہ جو ایک اہل حدیث عالم دین کا لکھا ہوا تھا اور دوسرا رسالہ ’’ نورالعینین فی نسخ رفع الیدین‘‘ بھی زیر مطالعہ رہا یہ دونوں رسالے ایک دوسرے کا جواب تھے اور دونوں میری تحویل میں تھے بغور مطالعہ کیا، درس میں پہونچا ، مولانائے موصوف جیسے بے چینی سے منتظر ہوں، درس گاہ میں پہونچتے ہی فرمایا ’’آگیا غیر مقلد‘‘ میں مسکرا کر بیٹھ گیا ، فرمایا اچھا ہاں ، کتاب کھول، عبارت پڑھ، پڑھنے والے نے عبارت پڑھی اور پھر ترجمہ اور اس کے مالہ وما علیہ کے سلسلہ کے بعد فرمایا کہ اس مسئلہ میں یہ دلائل ہیں تجھے ان پر کچھ کہنا ہے؟دیکھ رفع الیدین اس حدیث کی روشنی میں پہلے تھا مگر اس حدیث کی روشنی میں منسوخ ہوگیا، شارع علیہ السلام نے صاف صاف منع فرمادیا غور کر’’ لا ترفعو ا ایدیکم کاذناب الشمس‘‘ میں نے عرض کیا کہ حضرت ! شارحین اور دیگر ائمہ کا کہنا ہے کہ ایک سجدہ سے اٹھ کر لوگ دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے جیسا کہ ابو داؤد میں ہے تب آپ نے یہ منع فرمایا ہے، اس کو سنتے ہی مولانا نے ابو داؤد شریف کھول کر اس کے نسخہ کا حوالہ تلاش کرنا شروع کیا مجھے اچھی طرح وہ نقشہ آنکھوں سے دکھائی دے رہا ہے ، جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں کہ مولانا ئے موصوف جوش میں کانپ رہے ہیں ، میری جانب نہایت محبت سے دیکھ رہے ہیں، طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ابوداؤد میں اس کا نسخ موجود ہے ۔ میں کیا عرض کروں! بہت تلاش بسیار پر بھی مولانا کو وہ حوالہ نہ ملا اور آخر گھنٹی لگ گئی جس سے وہ بحث ادھوری رہ گئی اور پھر دوسرے دن سبق آگے بڑھ گیا۔ ادھر طلبہ میں مولانا کی اس محنت وکاوش پر ایک طرح سے غصہ اور شدید غصہ تھا کہ وقت ضائع جاتا ہے اسباق کے اوراق کم ہوتے ہیں جس کا احساس مولانائے محترم کو زیادہ تھا، بہر حال وہ بحث ناتمام ہی رہ گئی اور میرا اپنا مطالعہ میرے ہی لئے رہ گیا، اور دیگر طلباء مولانا سے ناراض رہے، کہ اس تحقیق اور تنقید سے کیا فائدہ جب مقلد ہی رہنا ہے ، مولانائے محترم مجھے غیر مقلد کہتے اور جب تحقیق کے آخری سرے پر پہنچ کر فرماتے ’’ یہ ابو حنیفہ کہتا ہے ، یہ محمد کہتا ہے یہ ابو یوسف کہتا ہے ، یہ زفر کہتا ہے اور یہ اشفاق الرحمن کہتا ہے ۔ تو جی میں آتا کہ حضرت میں ہی غیر مقلد تھا اب تو آپ بھی غیر مقلد ہو گئے مگر فوراً یہ احساس ہوتا کہ مولانا مجھے اعزازً غیر مقلد فرماتے ہیں کہ طنزاً، بس خاموش ہو کر مسکراتا رہتا، اور دوسرے طلبہ بھی مجھ سے بہت مرعوب رہتے تھے۔ مدرسہ فیاضیہ کے بعد جب چوتھے سال کسی صورت سے مدرسہ عالیہ فتح پوری دہلی میں داخلہ لیا تو اس وقت شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام بستوی صدر مدرس حاجی علی جان واقع کو چہ خانچند کے زیر اہتمام نئی سڑک پر واقع چھوٹی مسجد میں میں مسجد کا نگراں بنا دیا گیا اس مسجد کے زیر سایہ چار کمرے مختلف زاوئیے میں تھے ان کا ذمہ دار مسجد کی صفائی پانی گرم رکھنے کی فکر ،بیت الخلاء وغیرہ کی دیکھ ریکھ کرنے والا پنج وقتہ اذان اور نماز کی امامت جس کے صلے میں مبلغ پانچ روپیہ ماہانہ ملتا تھا مدرسہ عالیہ فتحپوری سے مبلغ آٹھ روپیہ ماہانہ وظیفہ ملتا تھا ، بمشکل تمام جماعت ثالثہ میں داخلہ ہوا کم سنی جملہ امورمیں مندرجہ بالاکی ذمہ داری نئی سڑک سے مدرسہ عالیہ فتح پوری تک روزانہ آمدورفت اچھی خاصی ورزش اور چوکسی تھی ، مگر بفضلہ بڑی عزت اور اہتمام سے میں نے پانچ سال تک اس مقام پر بسر کئے۔ دونوں بھائی ساتھ تھے ، البتہ چونکہ بھائی محمد حنیف ہاتف اپنے پیر کے سانحہ کے باعث مدرسہ علی جان میں حضرت الاستاذ مولانا سے شرف تلمذحاصل کرنے پر مجبور ہوگئے اور بحمد ﷲ جملہ فنون کی کتابیں مولانامحترم سے پڑھتے رہے لیکن میں تو عالیہ فتح پوری میں فیضیاب ہونے لگا اس زمانہ کے حالات جہاں میرے لئے سوہان روح ہیں وہیں میرے لئے حوصلہ افزا اور جرأت آزما بھی ہیں ۔
مدرسہ عالیہ فتح پوری کے اساتذہ : میرے اساتذہ کرام مدرسہ عالیہ فتح پوری میں حسب ذیل اہم ہستیاں تھیں۔
۱۔ مولانا شریف اﷲ صاحب سرحدی جو منطق ، فلسفہ، علم کلام، اصول فقہ کے استاذ تھے۔
۲۔ مولانا اشفاق الرحمن صاحب کاندھلوی طیب الشذی شرح ترمذی ، فقہ اصول فقہ ،
علم معانی و بیان، احادیث، اصول حدیث کے استاذ تھے۔
۳۔ مولانا ولایت احمد صاحب سنبھلی فقہ، اصول فقہ ، نحو، صرف، ابتدائی منطق کے استاذ تھے۔
۴۔ مولانا عبدالرحمن صاحب پشاوری جو حدیث ،فقہ ، اصول فقہ، منطق کے استاذ تھے۔
۵۔ مولانا فخر الحسن صاحب مراد آبادی جو اصول فقہ، نحو، صرف، منطق کے استاذ تھے۔
۶۔ مولانا قاضی سجاد حسین صاحب جو صرف ، نحو، ادب، علم معانی وبیان کے استاذ تھے۔
۷۔ مولانا عبدالقادر صاحب دہلوی جو علم فرائض، اصول فقہ کے استاذ تھے۔
۸۔ مولانا اخلاق حسین صاحب دہلوی جو فن کتابت کے خاص استاذ تھے۔
۹۔ مولانا قاری حامد حسین دہلوی جو علم تجوید و قرأت کے استاذ خاص تھے۔
مدرسہ سعیدیہ دارا نگر بنار س میں داخلہ: والد صاحب نے ہم دونوں کو مدرسہ سعیدیہ دارا نگر بنارس حضرت العلام مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی محدث کی خدمت میں صحاح ستہ کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیج دیا اور بحمد اﷲ دو ڈھائی سال وہاں رہ کر صحاح ستہ کی تعلیم پا کر اپنے آپ کو علم حدیث سے ممتاز طریقہ سے آراستہ کرنے میں کامیاب رہے ، پھر واپس دہلی پہونچے تو مولانا محترم کاندھلوی استاذ مکرم سے ملنے گئے تو فرمایا اتنے دنوں غیر مقلد کہاں تھا؟ میں نے کہا ،حضرت صحاح ستہ پڑھنے کیلئے مولانا سیف بنارسی کی خدمت میں تھا، بخدا برجستہ فرمایا اوہ شیر کے منہ میں چلا گیا تھا میں نے کہا تھا کہ ترمذی مجھ سے پڑھ لے تجھے حنفی اور مقلد نہ بنادوں تو اشفاق میرا نام نہیں ، اس سے تو ڈر گیا ، خیر! کوئی بات نہیں ہے بہت اچھا ہوا مگر سچ ہے کہ تو بڑا چالاک، اﷲ اکبر! تعصب اور ہٹ دھرمی کا نام و نشان نہیں، اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ
مدرسہ سراج العلوم میں تدریس کی بسم اﷲ: مدرسہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں الحمدﷲ جماعت خامسہ تک کی تعلیم ہو رہی تھی سنن اربعہ شرح وقایہ ، قدوری، نورالانوار، متنبی ، حماسہ جیسی کتابیں زیر درس و تدریس رہیں طلباء مشتاق احمد سو ہانس علاقہ نوگڈھ عبداﷲ ہرہٹہ، جیش اﷲ بیت نار، ابو بکر بہاری ، عبدالکریم ششہنیاں ، عبیداﷲ نوگڈھ ، محمد ابراہیم یوسف پور وغیرہ وغیرہ تھے جسمانی ورزش کا عادی تھا مولوی احمد صاحب ندوی گجراتی مجھ سے پہلے معلم ادب تھے جنھیں مولانا جھنڈا نگری بہت اصرار سے مولانا علی میاں ندوی سے مانگ لائے تھے۔
زمانۂ قیام جھنڈا نگر کا ایک اہم واقعہ: واقعہ یہ ہوا کہ میں ایک دن بڑھنی اسٹیشن پر حسب معمول شام کو ٹہل رہا تھا کہ اچانک اسٹیشن کا جمعدار جو جھاڑو لگاتا تھا اکثر جھنڈا نگر جمعہ کی نماز پڑھنے کیلئے آتا تھا اور مجھ سے قدرے متعارف تھا اسٹیشن کے جنوب کی جانب آریوں کا ایک منڈپ ہے اس میں ایک مسلمان لڑکی کو میں نے قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے آج صبح دیکھا ہے ۔ میں یہ سن کر متحیر ہوا اور اس کو بھیج کر معلوم کیا کہ اب ہے یا نہیں ؟ پتہ چلا کہ موجود ہے۔ چے پوروا موضع میں جو نیپال میں رئیسوں کا ایک موضع ہے اور وہاں کے جملہ رؤسا ء مثلاً حکیم عبدالمجید خاں صاحب ، سادے خاں صاحب ، عبدالحمید خاں صاحب وغیرہ سے بہت زیادہ میرا یارانہ تھا، ان سے مل کر میں نے واقعہ بتایا کہ اس لڑکی کے بارے میں معلوم کرنا ضروری ہے۔ حکیم عبدالمجید صاحب بہت بہادر ، جری، نڈر پکے مسلمان تھے، میں نے ملاقات کرکے حکیم صاحب کو بتلایا ، سنتے
ہی وہ بیتاب ہو گئے اور فوراً تین عورتوں کو اس منڈپ میں بھیج کر صحیح حالات کا پتہ لیا تو معلوم ہوا کہ میرے موضع کے اس پار دوبولی ضلع گونڈہ موضع کی وہ لڑکی ہے پارسا نام ہے ، باپ کا نام میاں وزیر علی ہے اور وہ میاں صاحب حکیم بھی ہیں ، میں نے یہ روداد سنی تو یاد آیا کہ میاں حکیم وزیر علی صاحب میرے والد صاحب کے دوست ہیں اکثر میرے گھر آتے ہیں انھیں کی لڑکی آریوں کے منڈپ میں قرآن پڑھتی ہے، بڑا افسوس ہوا اور میں نے میاں محمد زکریا صاحب ساکن بیت نار مدرس مدرسہ جھنڈا نگر سے مشورہ کیا مولانا جھنڈا نگری نے اجازت دی مجھے گھر بیت نار بھیجا گیا۔ بیت نار پہونچکر والد مرحوم سے سارا قصہ بیان کرکے میاں وزیر علی صاحب کو موضع دوبولی متصل بڑھنی طیب پور سے بلوایا گیا، پوری داستان بتائی گئی۔ تب میاں حکیم وزیر علی صاحب کو ساتھ لے کے میں پچپڑوا تک پیدل چل کر گاڑی سے بڑھنی اسٹیشن پہنچا اور جھنڈا نگر مدرسہ پر میاں صاحب کو پہنچایا پھر پوری پارٹی جس میں نمایاں حسب ذیل حضرات نے حصہ لیا۔ جناب حکیم عبدالحمید صاحب چے پوروا ،جناب حکیم مقبول احمد صاحب بیورا، جناب میاں محمدزکریا صاحب جھنڈا نگر ، جناب مولانا عبدالقیوم صاحب رحمانی دودھونیاں اور مجھ خاکسار نے بھر پور حصہ لے کر لڑکی کو وزیر علی میاں صاحب سے ملاقات کرائی۔ اور اس کو اس منڈپ سے بڑی جرأت و ہمت کرکے برآمد کرکے جھنڈا نگر لا کر تین دن رات کی مشقت شاقہ کرکے بڑی حکمت عملی سے میاں صاحب کے ہمراہ پوری ہمدرد پارٹی کے مصارف سے گاڑی پر بٹھا کر پچپڑوا تک پہنچا کر کسی صورت سے دبولی گاؤں میں ان کے گھر تک پہنچا کر دم لیا۔ اس لڑکی نے مختصر داستان یہ بتائی کہ میرا پڑوسی کائستھ کا ایک لڑکا انٹر پاس ہوا اور میں گھر پر تعلیم پاتی رہی ، میں پانچ درجہ پڑھ کر ابو جان کی غریبی ، پریشانی جان کر خاموش جی رہی تھی ، مگر مجھ پر کائستھ نے محبت کے جال ڈالے اور میں اس جال میں اس شرط پر پھنس گئی کہ وہ تعلیم یافتہ ہونے کے باعث دین اسلام کی خوبیاں جانتا ہے اور مسلمان ہونے کو تیار ہے خاص کر میرا ساتھ ہو جائے تو بخوشی اسلام قبول کر لے گا ۔ اسے اس بارے میں ذرا عار نہ ہوگا۔ میں نے اسی لالچ میں ابا جان کی غریبی کی مصیبت دیکھ کر اس سے اپنی رضادیدی اس نے کافی سرمایہ لیکر مجھے کسی شہر میں لے جانے پر آمادہ ہوا میں اس کے ساتھ نکل پڑی مگر اپنے ساتھ قرآن مجید حمائل اس لئے لے لی کہ اس کے اسلام لانے پر مجھے یہ کلام مجید باعث برکت و خیر رہے گا۔ لیکن اس نے مجھے لا کر بڑھنی اسٹیشن کے بغل میں ایک آریہ منڈپ میں بٹھا کر پتہ نہیں کہاں چلا گیا ۔ جو لوگ اس منڈپ میں تھے وہ مجھ سے کوئی تعرض نہیں کرتے تھے بلکہ مجھے آرام سے کھانا دیا اور مجھے نماز پڑھنے سے نہیں روکا ۔ چونکہ میرے والد صاحب نمازی اور پکے مسلمان موحد ہیں اور مجھے نمازی بچپن سے بنا چکے تھے اور مجھ کو قرآن مجید کی تعلیم بہت محنت سے دے چکے تھے، میں نماز کی پا بند اور بعد نماز فجر قرآن کی تلاوت کی عادی تھی اس لئے اس منڈپ میں بھی نماز اور قرآن پڑھتی رہی اور اس کائستھ کا انتظار کرتی رہی کہ کب وہ آئے گا اور کہیں چل کر ایمان قبول کرلے پھر میرا اس کا رشتہ لگ جائے ۔ میں اور وہ پوری دلجمعی سے اس کے لئے تیار تھے۔میں اس منڈپ میں تھی کہ اچانک میرے قرآن کی تلاوت کسی جمعدار اسٹیشن کے مسلمان کو خبر ہو گئی اور پھر اس نے جو کچھ کیا یا اب تک میرے ساتھ جو کچھ ہوا اس کو میں بالکل نہیں جانتی، البتہ جب میرے والد صاحب میرے سامنے آئے اور مجھ سے ان کی ملاقات ہوئی اور مجھے بتایا گیا کہ مجھے وہ کائستھ آریہ منڈپ میں بٹھا کر خود گورکھپور آریہ مشن جاکر ان سے مشورہ کرکے مجھے وہ ظالم ہندو بنانے کی فکر میں تھا ۔ مگر میرے مسلم بھائیوں نے مجھے اس کفر کے نرغے سے نکال کر میرے باپ کی آغوش میں پہنچا دیا ۔ جس سے میرا قرآن بچ گیا اور میرا ایمان بچ گیا، اور یہ سب کچھ پندرہ دن میں ہوا ، اب میں اپنے باپ کے پاس دبولی میں ہوں ۔ بہر حال یہ ایک نادر اور عجیب و غریب واقعہ میرے سامنے آیا جس میں بحمد اﷲ میں نے پوری ذہانت اور محنت شاقہ کا مظاہرہ کرکے اس لڑکی کو کفر کے دلدل سے نکال کر اسلام کے مضبوط ترین قلعے میں پہونچا دیا۔ خدا کی قسم اس طرح بہت سے غریب مسلمان ہیں جو اپنی بیٹی کی شادی نہ کر سکنے کے جرم میں اپنی بیٹیوں سے دنیا اور آخرت میں بھی محروم ہونے کی سزا پاتے ہیں اور کتنی خدا کی بندیاں کفر کے حوالے ہو کر رہتی ہیں۔
دارالعلوم ششہنیاں سے وابستگی: میرے ساتھ جھنڈا نگر میں ملازمت کے دوران بارہا مولانا عبدالجلیل صاحب رحمانی جو ان دنوں دارالعلوم ششہنیاں کے ناظم تھے ملاقات کے موقع پر میرے نظم و نسق اور طریق تعلیم و تعلم نیز تربیت کے اہتمام کو دیکھ کر مجھ سے متمنی تھے کہ دارلعلوم کی صدر مدرسی میں قبول کروں۔ میں بہر حال سنتا رہا ، لیکن خدا کی مرضی کہ سالانہ امتحان کے بعد مولانا جھنڈا نگری میں کچھ اس قسم کا رجحان میں نے محسوس کیا کہ دونوں بھائیوں کی یکجائی کو وہ پسند نہیں فرماتے ہیں اسلئے میں نے تہیہ کر لیا کہ مولانا عبدالجلیل صاحب رحمانی کے دارلعلوم کو بھی عروج پر پہنچانے میں مجھے اپنی صلاحیتوں سے بھرپور تعاون کرنا چاہئے۔ چنانچہ میں نے مولانا کے ایما پر بلکہ اصرار پر ۱۹۴۹ء میں بعد رمضان شریف خود کو دارلعلوم کی نذر کردیا اور الحمد ﷲ مولانا جھنڈا نگری سے زیادہ با اصول، مردم شناس، حق پرست، علم دوست،کتاب وسنت کو ترجیح …… نہ صرف دیکھنے میں بلکہ عملی صورت میں اس کی ہم نوائی کیلئے مکمل جدوجہد کے لئے ہمہ وقت مستعد اور تیار پایا، جس سے میری طبیعت بہت مطمئن ہوئی اور الحمدﷲ مکمل تین سال میں نہایت عرق ریزی اور محنت شاقہ سے اس کے جملہ قواعد و ضوابط کے پا بند رہتے ہوئے اس کے جملہ نظم ونسق کو عملی صورت میں اس کے نظام تعلیم ، نصاب تعلیم اور مقامی وبیرونی طلبہ کی تعلیم و تربیت ہمہ وجوہ وہمہ وقت انجام دینے کی سعی بلیغ کرتا رہا، جس سے وہ مدرسہ پورے علاقہ کا مرکزی دارالعلوم بن گیا، جبکہ اس کے مشرقی جانب مدرسہ دارالہدیٰ یوسف پور مدتوں کا قائم شدہ ادارہ جو مجاہدین سرحد کے جانشینوں کی یادگار اور علاقہ کے لئے چراغ ہدایت تھا، بڑی آن بان سے جاری ہوتے ہوئے دارالعلوم کے جملہ امور کا مقلد نظرآنے لگا ، چنانچہ الٰہ آباد بورڈ کے عربی، فارسی اردو امتحانات کا سلسلہ بھی دارالعلوم کے درجات عالیہ کے طلباء کیلئے ابتدائی منزل میں تھا اس کی ہر طرح کی تیاری میں پوری جدوجہد سے اس کو انتہائی عروج پر پہنچانے میں میں نے انتھک کوشش کی، درس نظامیہ کے رابعہ کورس تک اور اس کے بعد عالم، منشی، اور فاضل کورس کی مکمل تیاری میں شب و روز انہماک نے مجھے حوصلہ مند رکھا اور طلباء عزیز کی عمر عزیز کسی انتہا پر پہنچ کر خود کو خوش بخت، نیک بخت سمجھ کر مسرور تھے اور میں ان کی معاونت اور حمایت سے شاد کام ۔ اس طرح تقریباً ۴ سال تک میں نے دارالعلوم کی علمی و تربیتی دینی و سماجی تجربات بھی حاصل کئے۔
مدرسہ فیض محمدی بسکوہر بازار میں تقرری: گھر پر میری تلاش میں میاں توکل شاہ بسکوہر کے شاہ صاحبان میں سے جو ابّا کے دوست تھے تشریف لائے اور مجھے ابا جان سے اپنے اسکول فیض محمدی کیلئے دوستانہ میں طلب کرلیا۔ یہ کہہ کر کہ آپ کا لڑکا میرا لڑکا ہے مجھے بھی حق ہے کہ میں اس سے خدمت دینی لوں ۔ چونکہ میرے مدرسہ فیض محمدی کی آمدنی معمولی ہے اس لئے محض ۳۰؍روپیہ مشاہرہ اور کھانا دے سکتا ہوں، ابا جان نے مجھے میاں صاحب مرحوم کے حوالے ۳۰؍روپیہ مہینہ پر کردیا اور کہا کہ تم کو مشاہرہ کی پروا نہیں کرنی ہے ۔ چنانچہ میں فیض محمدی آیا تو ایک کمرہ کھپریل کا رہنے کیلئے اور ایک لمبا دالان نما پورب پچھم مدرسہ کھپریل کا تھا ۔ الحمد ﷲ میرے آتے ہی جماعت ثانیہ کا قیام ہو گیا ، فارسی درجات کے ساتھ ابتدائی عربی کا شعبہ قائم ہوا ، میاں صاحب کے ایک بھائی کا پوتا عبدالعزیز نام کا جو نابینا تھا جس کی خاطر عرفان گنج محلہ کی چھوٹی سی مسجد میں حافظ محمد بشیر انتری بازار کی نگرانی میں قائم ہوا اور پھر آہستہ آہستہ مدرسہ کی شکل اختیار کر گیا ، اور پھر مولوی عبداﷲ صاحب اور میں بلایاگیا، میں صدر مدرس ہوا اور اطراف میں اپنی تگ ودو سے مدرسہ کے ممبران شوریٰ سے منتظمہ کا قیام عمل میں آیا، میاں صاحب مرحوم با اثر تھے پورے اطراف میں موصوف کی ہر دلعزیزی اور کوئلہ باس والوں سے مراسم پختہ تھے ، نوسو روپیہ سالانہ حاجی محمد حنیف صاحب جو میاں صاحب کے شاگرد رشید تھے اورمیاں صاحب کے بڑے وفادار تھے برابر سالانہ سرمایہ فراہم کرتے اس سے پورا اعتماد تھا ۔ منتظمہ کے صدر جن میں چودھری محمد سعید صاحب موضع پڑکھڑی تھے ، نائب صدر جناب عظمت اﷲ خاں صاحب تھے، ناظم اعلیٰ مولانا محمد اسحق رحمانی چیونٹہوا تھے، نائب ناظم بذات خود میاں توکل شاہ تھے ، خازن جناب محمد یوسف ڈنگہر صرافہ و تمباکو مرچنٹ، محاسب جناب ولی محمد جیتا پور ، نائب خزانچی جناب شمس اﷲ صاحب عرف گوگے، ان سب کی تنظیم خیر و برکت نے میرے حوصلوں کو بڑھایا اور الحمد ﷲ میں نے ۱۹۵۲ء ۱۹۵۳ء ۱۹۵۴ء تک مدرسہ فیض محمدی اور اس کے اطراف و اکناف میں توحید و سنت کے اجرا واشاعت کی ایسی کامیاب کوشش کی کہ اس کے بعد کے ایام میں بھی اس کے اثرات نہ صرف چند برسوں تک قائم رہے، بلکہ آج تک اس کے اثرات جاری وساری ہیں۔
علم الفرائض کا منظوم ترجمہ: حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب بجواوی ؒ جو علم فرائض میں سند مانے جاتے تھے اور جو مولانا عبدالرؤف صاحب رحمانی جھنڈا نگری کے اساتذہ کرام میں سے ایک تھے ، عموماً اکرہرا تشریف لاتے ان سے میرے اچھے مراسم تھے اور مجھ پر موصوف کی بزرگانہ شفقتیں تھیں۔ مولانا ذکر اﷲ صاحب ذاکر ندوی کے خسر تھے اس طرح مولانا عبدالغفور صاحب بسکوہری ملا فاضل کے سمدھی تھے۔ مجھ سے متمنی ہوئے کہ علم الفرائض میں ایک قلمی رسالہ ہے اس کو منظوم کردو، میری آرزو اور دلی خواہش کے ساتھ مجھ سے اس کے منظوم کرنے پر مصر ہوئے تو میں اس زمانہ مصروفیت میں صبح و شام ایک کرکے حضرت فرید الدین عطار کی مثنوی کے بحر پر اس کو منظوم کیا اور اس کا نام میں نے تاریخی طور پر ’’ محور الفرائض‘‘ رکھا تھا اور مولانائے موصوف نے اپنی نظر ثانی کے بعد ۱۹۶۷ء میں اپنے سرمایۂ خاص سے اسے شائع فرمایا تھا اور جس کے چند نسخے اب بھی گھر کے ذخیرہ ٔ کتب میں موجود ہیں ۔ فالحمدﷲ علیٰ ذلک
مولانائے موصوف کی دعائیں میرے ساتھ ہمیشہ مشفقانہ رہیں اور میں نے مرحوم کا ہمیشہ احترام ملحوظ رکھا۔
چالیس سالہ تدریسی و تنظیمی خدمات ایک نظر میں
۱۔ ۱۹۴۷ء تا ۱۹۴۸ء میں بحیثیت صدرمدرس مدرسہ سراج العلوم جھنڈا نگر نیپال
۲۔ ۱۹۴۹ء تا ۱۹۵۰ء میں بحیثیت صدر مدرس دارالعلوم ششہنیاں الیدہ پور ،الٰہ آباد یونیورسٹی کا عربی مولوی عالم فاضل کورس تکمیل۔
۳۔ ۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۲ءبحیثیت صدر مدرس مدرسہ جمنہیا گڈرہیا گونڈہ و قصبہ اترولہ بحیثیت اتالیق طلباء ہائی اسکول اترولہ۔
۴۔ ۱۹۵۲ءتا ۱۹۵۳ء مدرسہ فیض محمدی بسکوہر بازار صدر مدرس رہا۔
۵۔ ۱۹۵۴ء تا ۱۹۵۸ء مدرسہ اسلامیہ اکرہرا صدر مدرس تا جماعت رابعہ رہا۔
۶۔ ۱۹۵۸ء تا ۱۹۶۲ء دوبارہ مدرسہ سراج العلوم جھنڈا نگر صدر مدرس رہا تا خامسہ تعلیم دی
۷۔ ۱۹۶۳ء تا ۱۹۶۷ء جماعت اسلامی حلقہ مشرقی یوپی اضلاع بستی،گونڈہ وبہرائچ کے ساڑھے چار سو مکاتب اور مدارس اسلامیہ کا آرگنائزر ہمہ وقتی رہا۔
۸۔ ۱۹۶۸ء تا ۱۹۷۰ء دوبارہ مدرسہ اسلامیہ اکرہرا میں صدر مدرس رہا۔
۹۔ ۱۹۷۱ء تا ۱۹۷۴ء جماعت اسلامی کے حلقہ مشرقی یوپی کا ہمہ وقتی نائب ناظم ڈویزن گورکھپور رہا۔
۱۰۔ ۱۹۷۴ء تا ۱۹۷۷ء سہ بارہ مدرسہ اسلامیہ اکرہرا میں صدر مدرس رہا اسی زمانہ ۱۹۷۵ء میں جولائی ۱۹۷۵ء تا اکتوبر ۱۹۷۵ء تقریباً ۴ ماہ جیل بستی بھی رہا۔
۱۱۔ ۱۹۷۸ء تا ۱۹۷۹ء مدرسہ اسلامیہ اکرہرا چوتھی بار صدر مدرس رہا۔
۱۲۔ ۱۹۸۰ء تا ۱۹۸۱ء مدرسہ اتحاد قوم مینا ں میں صدر مدرس رہا۔
۱۳۔ ۱۹۸۱ء تا ۱۹۸۲ء مدرسہ دارالقرآن والحدیث محمد نگر صدر مدرس رہا ۔
۱۴۔ ۱۹۸۲ء تا ۱۹۸۳ء مدرسہ جامعۃ البنات الصالحات تلسی پور کا نگراں وصدر مدرس رہا۔
۱۵۔ ۱۹۸۳ء تا ۱۹۸۶ء مدرسہ فیض محمدی میں دوبارہ صدر مدرس رہا۔
۱۶۔ ۱۹۸۶ء مدرسہ ضیاء العلوم جھکہیا میں صدر مدرس رہا ۔
فالحمد ﷲ علی ذلک۔ ذلک اﷲ یو تیہ من یشاء وہو علی کل شئی قدیر
بقلم عبدالشکوردور صدیقی
۲۱؍مارچ ۱۹۹۳ء
٭٭٭
مولانا عبدالمعبود فیضی ابن محمد زماں صاحب کنڈؤ
(تاریخ وفات: ۱۲؍اگست ۱۹۹۸ء)
ولادت: برادر محترم جناب مولانا عبدالمعبود فیضی رحمہ اﷲ کا زاد بوم موضع کنڈؤہے۔ مرحوم کی تاریخ پیدائش کا ذکر کہیں نہیں مل سکا کیونکہ ماحول جس ناخواندگی کا شکار تھا اس کا یہی تقاضا تھا ۔ افسوس کی بات یہ پیش آئی کہ کسی بھی سند میں اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا ہے اور نہ ہی اس دور میں سند فضیلت کے ساتھ تاریخ المیلاد وغیرہ کا اہتمام ہوتا تھا ، البتہ قیاس آرائی کرکے یہاں تک سمجھا کہ بھائی صاحب کی ولادت ۱۹۴۱ء یا ۱۹۴۲ء میں ہوئی ہوگی ،بہر کیف جو بھی ہو موضع کنڈؤ کے ایک معمولی گھرانے میں پیدا ہوئے جہاں ہر طرح کے وسائل محدود تھے صرف تنہا والد کے دوش ناتواں پر گھر کے مسائل کے بار گراں رہتے تھے۔
برادر گرامی یوں تو بہت سنجیدہ مزاج تھے مگر طبیعت میں بہت حساسیت پائی جاتی تھی، گردوپیش کے ماحول پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ مستقبل پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے اس احساس اور افتاد طبیعت نے آں موصوف کو حصول تعلیم پر آمادہ کیا جس کے ذریعہ انسان کو ایک با عزت زندگی گذارنے کا موقع مل سکتا ہے۔
برادر محترم علم دین کی طرف پوری طرح راغب ہوئے اور علمی تشنگی بجھانے کے لئے اس دور کی دینی وجماعتی درسگاہ جامعہ فیض عام مؤ سے وابستہ ہوگئے ۔ ان کے تعلیم کا پس منظر کچھ ذکر کئے بغیر چارہ نہیں کہ بھائی صاحب اور دیگر ان کے ہم عمر ساتھی جب دینی تعلیم سے لگاؤ پیدا کئے تو حضرت العلام مولانا شبیر احمد صدیقی صاحب کے نیک مشوروں نے مہمیز کاکام کیا ان کی اس تحریض پر بہت سے لوگ رخت سفر باندھے اور کسی نہ کسی ادارہ سے وابستہ ہوگئے اﷲ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے معمور فرمائے ان کی حسنات کو شرف قبولیت سے نوازے اور ان کی اولاد واحفاد کو مولانا مرحوم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے آمین۔
جامعہ فیض عام کا علمی دور: حالات و ظروف سے پتہ چلتا ہے کہ جامعہ فیض عام مؤ میں ۱۹۵۶ء کے آس پاس داخلہ لیا اور تادم فراغت ۱۹۶۲ء تک جامعہ سے تعلیمی سلسلے سے منسلک رہے۔ اس دور کے نابغہ اسا تذہ جن کو ہر فن میں مہارت تامہ حاصل تھی جنہوں نے علوم و فنون کے چشمے جاری کئے حضرت العلام مولانا محمد احمد مؤی صاحبؒ اور شیخ الحدیث مولانا شمس الحق صاحبؒ تھے اور دیگر اساتذہ کرام جن کی غیر معمولی کاوشوں سے کتنے لوگوں نے اپنے اپنے دامن کو علم کی موتیوں سے بھرا اور علمی تشنگی بجھائی، اﷲ رب العزت انھیں اپنی رحمتوں سے نوازے اور ان کی حسنات کو ذخیرۂ آخرت بنائے ۔ آمین
سن فراغت: برادر گرامی کی سند سے یہ یقینی طور سے معلوم ہوا کہ آپ نے جنوری ۱۹۶۲ء میں سند فراغت حاصل کی ہے۔
تدریسی دور: اس سلسلے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ کوئی بھی آدمی مشکل سے اس کا التزام کرتا ہوگا کہ وہ کب سے کب تک اور کہاں کہاں مدرس کے فرائض انجام دئیے کیونکہ ایسی باتوں کے متعلق کوئی ظاہری فائدہ نظر نہیں آتا بس کام کرتا گیا اور بتقدیر الٰہی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہا ، یہی کچھ معاملہ بھائی صاحب کے بارے میں بھی ہے البتہ کچھ اپنی یادداشت کے مطابق اور ایک آدھ لوگوں کے تعاون سے بعض جگہوں کے سن تدریس معلوم ہوگئے ہیں جسے زیر تحریر لایا ہوں اور کچھ جگہوں کی خدمات کو مجموعی انداز میں حوالۂ قلم کردیا ہوں جنوری ۱۹۶۲ء میں فراغت کے بعد موضع نبی نگر شیر گنج گرانٹ کے مدرسہ تعلیم القرآن میں تقریباً ۱۱؍سال کی مدت تک تعلیم دیتے رہے بعدہٗ وہاں سے مستعفی ہو کر مدرسہ تعلیم الاسلام طیب پور میں وہاں سے الگ ہو کر مدرسہ نصرۃ الاسلام شنکر نگر میں ۱۹۷۴ء سے۱۹۷۷ء تک رہے بعد ازاں وہاں سے الگ ہو کر یکم ستمبر ۱۹۷۹ء میں ریاض الاسلام بھیکم پور میں بحیثیت مدرس منسلک ہوئے اور ۱۱؍ ۵؍ ۱۹۸۷ء تک تدریسی کام انجام دئیے اس کے بعد تقریباً ۱۹۸۸ء میں مدرسہ اسلامیہ اونرہوا میں، بعد ازاں ضیاء الاسلام سکھوئیا ۲؍سال رہ کر یعنی ۸۹ ءسے ۹۰ء تک اور ایک سال ۱۹۹۱ء میں جامعہ سراج العلوم بونڈیہار اور ایک سال ۱۹۹۲ء میں مدرسہ مصباح العلوم کنڈؤ میں تدریسی کام انجام دئیے اسی طرح جامعہ اسلامیہ نہر بالا گنج بلرام پور اور جامعہ اسلامیہ گونڈہ کے بعد پھر دوبارہ مدرسہ ضیاء الاسلام سکھوئیا میں تقرری عمل میں آئی ۔
وفات: تقریباً ۳ سال کی مدت گذری ہوگی کہ شوگر کے مرض میں مبتلا ہوگئے ،مرضی مولیٰ پشت پر کچھ پھنسیاں نکلیں جو دیکھنے میں کچھ مضر نہیں لگ رہی تھیں مگرشوگر کے اثرات سے اندر ہی اندر گھاؤ بن گیا ، علاج کیلئے لکھنؤ ڈاکٹر کار کے پاس لے گئے چچیرے بھائی سمیع اﷲ کے یہاں قیام کیا چار پانچ دن تک دوا چلی ہی تھی کہ شوگر ڈاؤن ہوگیا اور بے ہوش ہوگئے ساتھ میں ان کے لڑکے تھے گھبراکر گھر لے آئے پورے خاندان میں بے چینی تھی ایک طرف امید صحت تو دوسری طرف جان لیوا بیماری اور بے ہوشی اس اضطراب کے عالم میں ڈاکٹر مشرا کو بیواں اسپتال میں دکھایا گیا مگر انھوں نے پھر ڈاکٹر کار کے پاس ریفر کردیا وہاں پہونچنے پر ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ اب واپس گھر لے جاؤ کوئی چارہ کار نہیں ہے چنانچہ موت و حیات کی کشمکش میں تقریباً ۱۵؍۲۰ دن مبتلا رہ کر ۱۲؍اگست۱۹۹۸ء کو داعی اجل کو لبیک کہا اور ہمیشہ کیلئے راحت کی ابدی نیندکے حوالے ہو گئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون باوجودیکہ موسم باراں تھی اور زبردست بارش بھی ہو رہی تھی مگرمولانا کی شخصیت کا اثر تھا کہ قرب وجوار کے لوگ کافی تعداد میں شریک جنازہ ہوئے نماز جنازہ خود میں نے ( شوکت علی قاسمی) پڑھائی اﷲ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور حسنات کو ذخیرۂ آخرت فرمائے ۔ آمین
حیات مستعار اور کچھ یادوں میں یہ ذکر کرچکا ہوں کہ طبعاً سنجیدہ مزاج تھے الحمد ﷲ لغو اور فحش باتوں سے بہت دور رہتے ،تنہائی پسند تھے اہل علم کی محفل ہوتی تو دلچسپی سے بیٹھتے اور علمی باتیں ہوتیں اگر اس کے بر خلافباتیں ہوتیں تو اٹھ کر چل دیتے، کتب بینی کا بہت شوق تھا بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے ہمیشہ کوشاں رہتے مگر چار اولادوں میں سے صرف ایک صاحبزادے مولوی مقصود احمد فیضی علم دین سے ہم آغوش ہو سکے۔ مرحوم کے صرف چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے نیز تادم تحریر بھائی صاحب کی اہلیہ بقید حیات ہیں اپنی اولاد احفاد میں بحسن و خوبی زندگی گذاررہی ہیں اﷲ تعالیٰ ان کے تعلق سے جملہ پسماندگان کو دین و دنیا کی خوبیوں سے نوازے اور سب کو ایک ساتھ مل جل کر رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین
برادر محترم کی دلجوئی و حوصلہ افزائی: برادر گرامی میری تعلیم کے بارے میں بہت حساس تھے ایک طرف والد صاحب کی ذہنیت کہ یہ کچھ سیکھ کر ہمارا ہاتھ بٹائیں تو دوسری طرف مرحوم بھائی اس کے لئے کوشاں تھے کہ کسی اور کام کی طرف توجہ دینے کے بجائے اپنا تعلق صرف تعلیم سے جوڑیں الحمد ﷲ میرا بھی دل پڑھائی میں خوب لگتا تھااسلئے تعلیم سے دلچسپی بڑھتی گئی ادھر بھائی صاحب کی ہمت افزائی سونے پر سہاگہ کا کام کر رہی تھی یہاں تک کہ بفضل الٰہی ۱۹۷۳ء میں ایشیا کی دوسری دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کی میں جہاں اپنے لئے اور اپنے والدین کیلئے اسی طرح اپنی اولاد کیلئے دعائے خیر کرتا ہوں وہیں مرحوم بھائیوں اور بہنوں اور خاندان کے جملہ متوفیان کو دعاؤں میں تہہ دل سے یاد کرتا ہوں نیز اساتذۂ کرام کے حق میں دنیا وآخرت کی عافیت کا اﷲ سے سوال کرتا ہوں ۔دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمام لوگوں کو دامن عفو میں جگہ عطا فرمائے ۔ آمین شوکت علی قاسمی
خطیب مسجد اہل حدیث اترولہ
۲۰؍مارچ ۲۰۱۳ء
جانے والا گیا داستاں رہ گئی
حضرت العلام مولانا عبدا لصبور رحمانی رحمہٗ اﷲ
(تاریخ وفات: ۳۱؍جنوری ۱۹۹۹ء)
مولانا عبدا لصبور رحمانی رحمہ اﷲ کے والد ماجد کا اسم گرامی مولانا عبدالعظیم تھا وہ اپنے عہد کے جلیل القدر عالم تھے زہد وتقویٰ اتباع سنت دعوت الی اﷲ امر بالمعروف والنہی عن المنکر میں اپنی مثال آپ تھے مولانا رحمانی آپ کے دوسرے لڑکے تھے ضلع سدھارتھ نگر کے ایک مشہور گاؤں اکرہرا میں آپ کی ولادت ہوئی ، یہ گاؤں اس نواح میں اہل علم کا مرکز اور اصحاب خیر و صلاح کا مسکن ہے اس گاؤں کے لوگ خوشحال اور مالی اعتبار سے آسودہ حال ہیں ، اور الحمد ﷲ وہ سب مسلک اہل حدیث سے تعلق رکھتے ہیں مولانا عبدا لصبور رحمانی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اوراعلیٰ تعلیم کیلئے والد صاحب نے ملک کی مشہور عربی یونیورسٹی بنام دارالحدیث رحمانیہ دہلی بھیج دیا، آپ نے وہاں مایہ ناز جلیل القدر اساتذہ سے علمی پیاس بجھائی ، تعلیمی فراغت کے بعد چند سالوں تک درس و تدریس سے جڑے رہے پھر اس کے بعد ذریعہ معاش کیلئے تجارت کی راہ اپنانی پڑی ۔ مولانا رحمانی بلا کے ذہین تھے ان کے حافظہ اور کثرت مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ سینکڑوں نسب و تواریخ وفیات ان کے ذہن میں محفوظ تھے اس سلسلہ میں کتابوں کی طرف مراجعت کی انھیں بحمدﷲ ضرورت نہیں پڑتی تھی، آپ کی علمی قابلیت علمی ذوق تحریری مہارت اور تقریر کا ملکہ تقریباً ہر صاحب بصیرت پر واضح ہے سیاسی معلومات کا گنجینہ موجودہ وقت کی جملہ سیاسی مذہبی تمدنی تحریکوں کو سمجھنے والا ان جیسا دوسرا نظر نہیں آتا۔
مولانا عبدا لصبور صاحب رحمانی نہ کسی ملک کے بادشاہ تھے نہ کسی قلعہ کے فاتح ، نہ کوئی دولت رکھتے تھے ایک چھوٹے سے گاؤں کے باشندے تھے تاہم وہ عظیم انسان تھے یہی عظمت آج ہمیں ان کے تذکرے پر مجبور کرتی ہے ۔
مولانا رحمانی جنھیں آج لرزتے ہاتھ اور کانپتے قلم سے مرحوم لکھنا پڑ رہا ہے ۔ عالی قدر اور بلند مرتبت باپ کا زہد و تقویٰ اور فضل و کمال ان کی ذات میں سمٹ آیا تھا اور اس اعتبار سے وہ اپنے والد محترم کے جانشین ووارث تھے ۔ ایں خانہ ہمہ آفتاب است
گاؤں کی مسجد میں اکثر و بیشتر خطبۂ جمعہ بھی دیتے اور عیدین کی امامت ۱ بھی آپ ہی کرتے تھے دھواں دھار تقریر کرنے کے عادی نہ تھے پیار کے لہجے میں میٹھی میٹھی باتیں کرتے تھے جو انتہائی مؤثر ہوتیں اور قلب وروح کیی گہرائیوں میں اتر تی جاتی تھیں عالم اسلام اور ملت اسلامیہ کے سلگتے مسائل کا ذکر پُر تاثیر الفاظ میں کرتے قرآن کی آیات و احادیث پڑھ کر دوزخ سے ڈراتے اور جنت میں جانے کیلئے جن اعمال اور جس کردار کی ضرورت ہے اس کا تفصیل سے ذکر فرماتے۔ آپ کا صاحب مرعاٖۃ المفاتیح شیخ الحدیث عبید اﷲ رحمانی مبارکپوری کے ارشد تلامذہ میں شمار ہوتا تھا اور آخری لمحہ تک استاد و شاگرد کے تعلقات قائم رہے دونوں میں برابر خطوط کا سلسلہ بھی رہا ۔
پورا قد گورا رنگ دبلے پتلے نورانی چہرہ سفید کرتا علی گڈھی پائجامہ سر پر ہمیشہ ٹوپی تیکھے نقش و نگار ان کا ظاہربھی پُر کشش تھا اور باطن بھی۔
مولانا رحمانی صاحب سے ہمارے مخلصانہ و خوشگوار تعلقات تھے سفر و حضر میں بارہا ساتھ
رہنے کا اتفاق ہوا، ان سے بہت کچھ سیکھا ،مولانا خوش مزاج ،خوش گفتار، خوش اخلاق، خوش لباس تھے تواضع انکساری رفتار میں تمکنت اور گفتار میں متانت بلند اخلاق راست بازی جیسے اوصاف سے متصف تھے وہ نہایت غیور باحمیت عالم دین تھے انھوں نے اپنی عزت ووقار کے تقاضوں کو
۱ مولانا عبدالصبور رحمانی کے انتقال کے بعد تعطیل میں اکرہرا میں جمعہ و جماعت میں امامت و خطابت اور صلاۃ العیدین کے فرائض مولانا عبدالمجیدمدنی رحمہ اﷲ انجام دیتے تھے۔(عبدالرؤف خاں ندوی )
کبھی مجروح نہیں ہونے دیا ، خودداری ، قناعت اور توکل علی اﷲ ان کا اصلی وصف تھا افسوس کہ دنیا ان سے بالکل بے خبر رہی اور جماعت اس متبحر عالم سے کوئی قابل ذکر فائدہ نہ اٹھا سکی۔
دارالحدیث رحمانیہ دہلی کے ممتاز نمایاں اور ذہین طلبہ میں سے تھے وہ اپنے تمام معاصرین میں ممتاز تھے معاملہ فہمی دور اندیشی اور فکر و نظر کی گہرائی میں نمایاں مقام رکھتے تھے ہم جیسوں کی آزمائشی حالات میں رہنمائی فرماتے تھے ۔
مولانا عبدا لصبور رحمانی رحمہ اﷲ کے بارے میں حضرت مولانا عبد الحمید رحمانی رحمہ اﷲ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ:
’’ افسوس کہ جماعت کی ناقدری کا وہ شکار ہو گئے اور علمی زندگی کے بجائے انھیں تجارت کی راہ اپنانی پڑی ورنہ وہ اس وقت بر صغیر ہندو پاک کے ایک جامع عالم اور اچھے مفکر ہو تے‘‘
پسماندگان میں لڑکیوں کے علاوہ تین لڑکے مولانا عبدالرشید مدنی ، مولانا سعید اختر مدنی، اور مسعود احمد خاں عرف مسّو ہیں ، تینوں ماشاء اﷲ لائق بیٹے ہیں اﷲ تعالیٰ بلند مرتبت باپ و دادا کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور مولانا کی اولاد کی زندگی دراز فرمائے اور انھیں کتاب و سنت کی خدمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آئیں اور مولانا رحمانی کی اولاد اور احفاد کو کتاب و سنت پر قائم و دائم رکھے۔ آمین
موت بر حق ہے کل نفس ذائقۃ الموت افسوس علم و دانش کا یہ چراغ مورخہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو ہمیشہ کیلئے بُجھ گیا۔ تغمدہ اﷲ برحماتہ اور عوام و خواص ، طلبہ و علماء کی ایک عظیم مجمع کی موجودگی میں اکرہرا کے قبرستان میں سپر د خاک کر دئیے گئے۔ اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ و اکرم نزلہ ووسع مدخلہ
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور - بلرام پور یوپی
جناب حافظ محمد عباس بنارسی رحمہٗ اﷲ
(تاریخ وفات: یکم فروری ۱۹۹۹ء)
آپ کا شمار مدن پورہ بنارس کے معزز اور معروف بزرگوں میں ہوتا ہے، ۱۹۱۲ء میں مدن پورہ بنارس میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد قرآن پاک حفظ کیا، بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں جامعہ رحمانیہ بنارس مشہور علماء کرام کا مرکز تھا، مولانا محمد منیر خاںؒ، قاری احمد سعیدؒ، مولانا عبدالغفار حسن حفظہ اﷲ، مولانا عبیدا ﷲ عنبر پیغمبر پوری، مولانا ابوالخیر فاروقیؒاور بعدمیں مولانا نذیر احمد املویؒ جامعہ رحمانیہ میں تدریسی فرائض انجام دیتے تھے، حافظ صاحب علماء کی صحبت کے دلدادہ تھے، مذکورہ علماء سے خاص تعلق تھا، قاری صاحب مرحوم ، مولانا ابوالخیر فاروقی مولانا عنبرؒ سے خصوصی اور دوستانہ تعلقات تھے، حافظ صاحب کا معمول تھا کہ عشاء بعد کم از کم ایک گھنٹہ جامعہ رحمانیہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ گذارتے تھے، ان ذی علم دوستوں کی صحبت نے آپ کے دل کی دنیا بدل دی ، غیر شرعی طور طریق سے سخت متنفر ہو گئے۔
جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم ) قائم ہوا تو آپ نے اپنی تمام خدمات جامعہ کیلئے وقف کردیں۔ حافظ صاحبؒ جامعہ رحمانیہ اور جامعہ سلفیہ(مرکزی دارلعلوم) بنارس کے مخلص اور بے لوث خادم تھے ، آپ نہ صرف جامعہ کے بانیوں میں سے تھے بلکہ اس کے ایک رکن اور تعمیر کے ذمہ دار بھی تھے، اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی خدمت جامعہ کے لئے ہمہ جہت تھی تو مبالغہ نہ ہوگا۔
جامعہ سلفیہ(مرکزی دارلعلوم) بنارس جیسے مرکزی ادارہ کو پروان چڑھانے میں اﷲ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے بعد ہمارے اسلاف اور بزرگان دین کی کاوشوں کا دخل رہا ہے اور اس میں ملک اور بیرون ملک کے بہت سے کرم فرماؤں اورر مخلصین کی خدمات رہی ہیں، جن میں کچھ لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے، ان ہی چند مخصوص افراد میں حافظ محمد عباس بھی تھے، جامعہ کے لئے جن کی خدمت و خلوص کا اثر محسوس کیا جارہا ہے، موصوف نے اپنی خدمات کو جامعہ کے لئے اس وقت وقف کردیا جبکہ جامعہ کی تعمیر کے بارے میں تصور ذہنوں میں ابھر رہا تھا لیکن ظاہر میں معرض وجوہ میں نہ تھا ، پھر سنگ بنیاد سے لے کر تقریباً پینتیس سال کی مدت تک وہ اس عظیم مرکزی ادارے کی بے لوث خدمت کرتے رہے۔
حافظ صاحب سابق ناظم اعلیٰ مولانا عبدالوحید سلفی ؒ کے قریبی اور گہرے دوست اور خاص مشیروں میں سے تھے ، آپ جامعہ رحمانیہ اور جامعہ سلفیہ کے تا حیات ممبر رہے۔
سماج و سوسائٹی میں آپ کا تعلق ہر طبقہ کے لوگوں سے تھا، یہی وجہ ہے کہ سب ہی لوگ آپ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اور ہر چھوٹے بڑے کے نزدیک ہر دلعزیز اور مقبول تھے ، صاحب الرائے اور دور رس ایسے تھے کہ خاندان کے لوگوں کے علاوہ مختلف طبقہ کے لوگ مشورے کے لئے دور دراز سے آتے اور قلبی مراد بر آنے پر خوش وخرم واپس ہو جاتے تھے۔
حافظ صاحب بڑے پختہ اہل حدیث اور متبع سنت تھے، سلفیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، دیندار، متقی اور پرہیز گار تھے، دینی اور مذہبی امور میں بڑی دلچسپی رکھتے اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، اپنی آخری زندگی تک باگڑ بلی مسجدمیں مختلف نمازوں میں امامت کا فریضہ انجام دیتے رہے اور آپ کی قرأت کا ایک خاص انداز تھا جو بہت پسندیدہ تھا۔
عوام و خواص سے تعلق کے ساتھ ساتھ علماء کرام سے نہ صرف گہرا ربط تھا بلکہ آپ کا دولت کدہ علماء کا گہوارہ بھی تھا، جناب مولانا امرتسریؒ، جناب مولانا ابوالقاسم سیف بنارسیؒ، جناب حافظ الحدیث مولانا عبدالتواب علی گڈھیؒ، جناب مولانا محمد یوسف فیضیؒ، جناب شیخ الحدیث عبیداﷲ رحمانی مبارکپوریؒ، جناب مولانا عبدالوحید رحمانی ؒ، جناب محمد ادریس رحمانی جیسے اجلہ علماء کرام سے آپ کا بڑا گہرا ربط اور دوستانہ تھا اور کچھ حضرات آپ کے یہاں قیام کر تے تھے۔
شیخ الحدیث مولانا عبیداﷲ رحمانی مبارکپوریؒ سے بے حد عقیدت رکھتے تھے ، حافظ صاحب کے ہر دکھ سکھ میں شیخ صاحب بنفس نفیس تشریف لا تے تھے، شیخ صاحب کے پورے خاندان سے خصوصی روابط تھے جو آج بھی برقرار ہیں ۔
حافظ محمد عباس صاحب مختصر سی علالت کے بعد یکم فروری ۱۹۹۹ء تین بجے شب میں خالق حقیقی سے جاملے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
آپ کے جنازہ میں بڑا ہجوم تھا ، ہر مکتب فکر کے ہزاروں افراد موجود تھے، مدن پورہ روڈ پر آپ کی نماز جنازہ پڑھی گئی، نماز جنازہ جامعہ سلفیہ(مرکزی دارلعلوم) بنارس کے شیخ الجامعہ مولانا احسن جمیل صاحب مدنی نے پڑھائی اور ۲؍بجے دن میں اپنے آبائی قبرستان باگڑ بلی میں مدفون ہوئے۔ خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
مرحوم نے اپنے پیچھے بھرا پرا خاندان چھوڑا ہے، مشہور و معروف شاعر جناب ابوالقاسم شاد عباسی صاحب آپ ہی کے صاحبزادے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اور اولاد و احفاد کو کتاب و سنت پر قائم و دائم رکھے۔ آمین
محمد یونس مدنی
استاذ جامعہ سلفیہ بنارس
ماہنامہ محدث بنارس اپریل ۱۹۹۹ء
حضرت العلام مولانا محمد امین اثری مبارکپوری رحمہٗ اﷲ
(تاریخ وفات: ۲۴؍اپریل ۲۰۰۰ء)
حضرت العلام مولانا محمد امین اثری رحمہ اﷲ کا تعلق صاحب تحفۃ الاحوذی محدث کبیر علامہ محمد عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اﷲ کے علمی خانوادہ سے تھا مولانا محمد امین اثری رحمہ اﷲ نے درس نظامیہ سے فراغت کے بعد ہندوستان کے مختلف مقامات میں دعوت وتدریس کا فریضہ انجام دیا ۔ مالیر کوٹلہ پنجاب میں بھی طویل عرصہ تک دعوت و تدریس ، امامت و خطابت کے فرائض بحسن و خوبی انجام دئیے ،آخرمیں علی گڈھ جیسی علمی سرزمین کو اپنی سرگرمیوں کی جولا نگاہ بنایا اور لمبی مدت تک علی گڈھ میں دعوتی و تدریسی فریضہ انجام دیا ، مولانا اثری صاحب کی تقریر و تحریر دل کو چھو جانے والی ہوتی آپ قرآن و حدیث کے حوالوں سے شرک و بدعت اور غلط رسم و رواج کا سخت الفاظ میں رد فرماتے مولانا عالی کردار بلند اخلاق حلیم الطبع حق گو اور متواضع عالم تھے ۔ بہت اچھے مدرس ، بہت اچھے خطیب، بہت اچھے مصنف ،خوش اخلاق، خوش مزاج، اور خوش گفتار تھے وسیع النظر اور مستند عالم دین تھے قرآن و حدیث کی تفسیر و تعبیر میں مہارت تھی ورع و تقویٰ میں امتیازی حیثیت کے مالک تھے ، ناچیز کے خوشگوار تعلقات تھے شرک و بدعت کے رد میں ناچیز نے ایک ضخیم کتاب بنام خانہ ساز شریعت اور آئینۂ کتاب و سنت لکھی تھی میری درخواست پر آپ نے ایک وقیع مقدمہ تحریر فرمایا اور مفید مشوروں سے نوزا، مولانا کے اندر ایک خاص وصف حسن اخلاق تھا موجودہ دور میں عوام و خواص میں بد خلقی عام مرض ہے جبکہ قرآن و حدیث نے حسن اخلاق سے پیش آنے کی سخت تاکیدکی ہے سچ ہے
اب کسی پیڑ میں لگتے نہیں اخلاق کے پھل زندگی تھک گئی اس بیج کو بوتے بوتے
دعوت و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی آپ نے گرانقدر خدمات انجام دیں اور کئی تحقیقی کتابیں تصنیف کیں احادیث کے انتخاب کا ایک مجموعہ تیار کرکے اس کا ترجمہ کیا اور آسان زبان میں اس کی تشریح کی۔
صاحب مرعاۃ المفاتیح علامہ عبید اﷲ رحمانی مبارکپوری رحمہ اﷲ سے مولانا کا نیاز مندانہ تعلق تھا شیخ الحدیث کے خطوط کاجو مجموعہ ’’مکاتیب رحمانی ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے وہ سارے خطوط مولانا محمد امین اثری ہی کے نام ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عملی زندگی کے آغاز میں مولانا اثری رحمہ اﷲ کافی حد تک شیخ الحدیث رحمہ اﷲ سے رہنمائی حاصل کی ہے۔
آپ کے صاحبزادوں میں محترم مولانا غازی عزیر صاحب حفظہ اﷲ علمی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں سلفی جرائد ، رسائل و مجلات میں آپ کے تحقیقی مقالات بکثرت شائع ہوتے ہیں ۔ برادرم غازی عزیر صاحب حبیل سعودی عرب میں پانی صاف کرنے والی ایک کمپنی کے شعبۂ پروجیکٹ کے سر براہ ہیں۔
مولانا کی وفات علمی و دعوتی میدان میں ایک زبردست خسارہ ہے ۔ آئیے ہم سب مل کر مولانا کے لئے بارگاہ الٰہی میں مغفرت کی دعا کریں۔ اﷲ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب عطا فرمائے اور ان کو اپنے مقام رحمت و رضا میں جگہ دے۔ آمین
اﷲم اغفر لہ وارحمہ واجعل لہ الجنۃ ماویٰ
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور - بلرام پور یوپی
جناب محمد طالب رحمہٗ اﷲ تلسی پور
(تاریخ وفات: ۵؍اگست ۲۰۰۰ء)
محمد طالب صاحب کے والد محترم کا اسم گرامی محمد موسیٰ تھا اور دادا کا نام شیخ رحیم بخش تھامحمد طالب کے دادا شیخ رحیم بخش کی محمود نگر ہرّیاسے متصل موضع فتح نگرا میں زمینداری تھی شیخ رحیم بخش ایک اچھے انسان تھے با اثر اور اہل حدیث تھے ، شرک و بدعت سے سخت بیزار رہتے ، انگریز دور حکومت میں اپنے علاقہ کے چودھری تھے بھرپور اسلامی معلومات کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر مذاہب کے متعلق بھی اچھی خاصی جانکاری تھی دروازے پر چوپال لگا کرتی تھی اور اس میں اہم فیصلے سنائے جاتے تھے شیخ رحیم بخش میں دیگر خوبیوں کے علاوہ سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ایک غیرت مند و خود دار انسان تھے جس کی ایک ادنیٰ مثال یہ ہے کہ اسٹیٹ بلرام پور کے دور میں لگان کے ایک تنازعہ میں اپنی فتح نگرا کی زمینداری چھوڑدی اور قصبہ تلسی پور پرانی بازار میں آکر مع بال بچوں کے مستقلاً آباد ہوگئے اور یہیں ہو کر رہ گئے والد صاحب کی ولادت پرانی بازار تلسی پور میں ۱۹۴۱ء میں ہوئی۔
والد صاحب بچپن ہی سے بلاکے ذہین تھے ابتدائی تعلیم قاری رحمت اﷲ کے زیر نگرانی ہوئی بچپن ہی سے آپ کی ذہانت اور حاضر جوابی کے لوگ قائل تھے مگر افسوس تعلیم کا سلسلہ زیادہ دنوں قائم نہ رہ سکا ۔ کیونکہ والد صاحب ابھی دس سال ہی کے تھے کہ ان کی والدہ ماجدہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور ان کے والد صاحب مستقل بیمار رہتے تھے ، والد صاحب چھ بہنوں میں اکیلا بھائی ہونے کی وجہ سے سارا بار آپ کے دوش ناتواں پر آگیا ۔ اﷲ نے کرم فرمایا چند سالوں کے بعد حالات معمول پر آگئے اور دادا جان کی طبیعت بھی ٹھیک ہو گئی تو والد محترم نے دوکان کی طرف توجہ دی ۔ بحمدﷲ چند سالوں میں دوکان سے کافی نفع ہو نے لگا ۔ والد صاحب متحرک آدمی تھے اﷲ کے یہاں سے درد مند دل لیکر آئے تھے جب گھر سے یکسوئی ہوئی تو رفاہی سماجی ، سیاسی اور دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے اور چند سالوں میں اپنا اچھا خاصا مقام بنا لیا ۔ والد صاحب انتہائی محنتی، جفاکش تھے آج کاکام کل پر نہ ٹالنے کے اصول پر عامل تھے ان میں سستی ،کاہلی، لا پرواہی، غفلت نام کی کوئی چیز نہ تھی وہ اپنے مفوضہ فرائض کی انجام دہی بڑی مستعدی سے انجام دیتے تھے ، وقت کی بڑی قدر کرتے ان کی مثال ان سست مسافروں کی طرح نہیں تھی کہ سست مسافر پلیٹ فارم پر کھڑا رہ جائے اور ٹرین کوسوں دور نکل جائے، والد صاحب ہر کام اپنے وقت پر کر تے تھے۔
والد صاحب علم پر زیادہ زور دیتے تھے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ قوموں کی ترقی و عروج میں تعلیم کا بڑا دخل ہے جو قوم جتنا زیادہ تعلیم یافتہ ہو گی وہ قوم اتنا ہی زیادہ ترقی یافتہ ہوگی اور وہ برابرآگے بڑھتی ترقی کرتی اور جدید تحقیقات وایجادات کے باب میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتی جائے گی اور اقوام عالم میں معزز بنکر رہے گی اور جو قوم جس قدر جاہل ان پڑھ اور علم سے نابلد ہوگی وہ قوم اسی قدر تنزلی و انحطاط اور ذلت خواری کا شکار ہوگی۔
تعلیم صرف ایک معزز اور فضیلت والا عمل ہی نہیں بلکہ ایک اہم دینی فریضہ ہے ۔ اس سے دین کا قیام اور علم کی بقا ہے علم نہ ہونے کی وجہ سے ہر طرف جہالت کا دور دورہ ہوگا لوگ اپنے دین اخلاق اور تہذیب و تمدن سے نابلد اور دور ہو جائیں گے۔
اﷲ کے نبی ﷺ کا ارشاد ہے : طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم (الحدیث) یعنی علم کا طلب کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے اس حدیث سے مراد مرد اور عورت ہے ۔ ہمارے علاقہ میں لڑکوں کے مقابلہ میں لڑکیوں کی تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی تھی صرف مکتب کی تعلیم دلا کر گھر میں بٹھا دی جاتی تھیں۔
قوم کے چند حساس لوگوں کو لڑکیوں کی تعلیم کی عرصہ سے فکر تھی جناب والد محترم صاحب نے حکیم محمد ادریس اعظمی حاجی عبدالغفور تلسی پور حبیب اﷲ صدیقی و دیگر رفقاء کو ساتھ لے کر اﷲ کا نام لیکر لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے ایک ادارہ بنام جامعۃ البنات الصالحات جروا روڈ پر قائم کیا۔ تلسی پور میں اس سے پہلے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کا کوئی ادارہ نہیں تھا بعد میں لڑ کیوں کے کئی ادارے وجود میں آئے ۔ حکیم صاحب والد محترم و دیگر رفقاء کی شب و روز کی محنت رنگ لائی اور چند سالوں میں ایک معیاری نسواں اسکول کے نام پر جانا گیا جس نے نہ صرف تلسی پور بلکہ کواپور، مہراج گنج، محمود نگر ، بالا پور، کوئلہ باسہ، بلرام پور ، بڑھنی، پچپڑوا، گینسڑی، اور اس کے مضافات کی لڑ کیاں علمی پیاس بجھا رہی ہیں اور اعلیٰ تعلیم و تربیت سے مزین ہو کر عالمہ فاضلہ کی ڈگریاں حاصل کر رہی ہیں۔
اﷲ تعالیٰ بانیان جامعہ و دیگر معاونین کو اجر عظیم سے نوازے ۔ میں ان بزرگوں کی خدمت میں زبردست خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اے اﷲ ان خادمان دین و ملت کی خدمت کو شرف قبولیت سے نوازے،اﷲ تعالیٰ اس علمی چمن کو سر سبز و شاداب رکھے اور اس پر کبھی خزاں نہ آئے(آمین)
والد محترم اس دینی و علمی خدمت کے ساتھ ساتھ لگ بھگ درجن بھر مدارس و تعلیمی اداروں کے باوقار منصب پر فائز رہے تلسی پور کے واحد فیصل ڈگری کالج کے بھی باوقار منصب پر فائز تھے کئی سماجی ، فلاحی اداروں کے بھی روح رواں تھے۔ لکھنے پڑھنے کا صاف ستھرا ذوق تھا اپنے مضامین کے ذریعہ ملک کے اخبارات و رسائل خاص طور سے مسلم مسائل پر کھل کر لکھتے تھے مسلمانوں کے مظالم کے خلاف ہرجگہ اپنی آواز بلند کرتے رہے اردو ، ہندی ، عربی، فارسی کے علاوہ سنسکرت سے بھی واقف تھے۔ وید کا اچھا خاصہ مطالعہ تھا جس کی بنا پر برادارن وطن میں مذہب اسلام کی تبلیغ بہت خوبصورت ڈھنگ سے کرتے تھے اور علاقہ کے ہندو عالم آپ کی بڑی عزت کرتے تھے آپ ایک اچھے خطیب ، ایک اچھے صحافی کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر بھی تھے آپ کی شاعری قوم و ملت کے درد کو اجاگر کرتی تھی اور مذہب اسلام کی ترجمانی بھی والد صاحب کی پوری زندگی قوم وملت کی خدمت میں گذری ۔ آخری لمحات میں صراط مستقیم کے نام ایک ضخیم کتاب مرتب کی تھی اس کی اشاعت کا منصوبہ تھا لیکن موت نے اس کا موقع نہ دیا افسوس والد صاحب اس کتاب کے منظر عام پر آنے سے پہلے ہی آخرت کے سفر پر روانہ ہو گئے، والد صاحب ۵؍ اگست ۲۰۰۰ء رات پونے بارہ بجے دل کا دورہ پڑنے سے انتقال فرما گئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
مورخہ ۶؍اگست ۲۰۰۰ءبعد نماز ظہرلوگوں کی موجودگی میں بقیۃ السلف حضرت العلام مولانا ابوالعرفان محمد عمر سلفی کی امامت میں نماز جنازہ پڑھی گئی اور تلسی پور جروا روڈ کے آبائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ۔ ایک سچا رہنما اور قوم و ملت کا مخلص خادم ہمارے بیچ نہ رہا اور اس کی گرجدار آواز ہمیش ہمیش کیلئے بند ہو گئی ۔
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ والد محترم کی لغزشوں کو درگذر فرمائے اور ان کی دینی خدمت کو شرف قبولیت سے نوازے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
غمزدہ
سراج طالب
تلسی پور-بلرام پور( یوپی)
مولانا عبدالرزاق صدیقی رحمہٗ اﷲ بیت نار
(تاریخ وفات: ۱۸؍ اگست ۲۰۰۰ء بروز جمعہ )
نام ونسب: عبدالرزاق بن الٰہی بخش بن غلام حسین بن حسام الدین
ولادت: ۱۹۱۶ء
خاندان: خاندان میں موجودہ شجرۂ نسب کے مطابق آپ کا سلسلۂ نسب سید نا ابو بکر رضی اﷲ عنہ سے بائیسویں پشت پر مل جاتا ہے، اس خاندان کے ملا عبداﷲ مکی رحمہ اﷲ متوفی ۶۲۷ھ ترک وطن کرکے ۶۰۲ھ میں لا ہور آئے اور ۶۱۰ھ میں وہاں کی بھی سکونت ترک کرکے آج کے مغربی یوپی کے مشہور قصبہ بدایوں آبسے بعد ازاں اس خاندان کے بعض لوگوں نے بارہویں صدی ہجری میں ضلع بستی کے ایک معروف گاؤں ’’بتھرنہوا‘‘ کو اپنا مسکن بنا لیا اور اپنے ساتھ لائی ہوئی رقم سے کافی زمینیں خرید لیں، کچھ عرصہ بعد ایک حادثہ ایسا ہوا کہ اس خاندان کے ایک فرد جناب حسام الدین نے اپنے ایک ہلواہ کی کسی غلطی پر اسے اتنا زدو کوب کیا کہ اس کی موت ہو گئی اور مجبوراً انھیں نقل مکانی کر نی پڑی اور اس طرح وہ ساحل راپتی پر آباد ایک دور افتادہ گاؤں ’’بیت نار‘‘ آگئے اس گاؤں کے موجودہ خاندان کے جد امجد وہی ہیں ۔
گھریلو ماحول اور تعلیم : یوں تو آپ کے آباء اور اجداد میں علما ء و حفاظ کی ایک لمبی فہرست
ہے لیکن ہجرت در ہجرت کی وجہ سے درمیان میں یہ سلسلہ تقریباً منقطع سا ہوگیا آپ نے بریلویت زدہ ماحول میں آنکھیں کھولیں ، گاؤں و اطراف میں بدعت و جہل کا دور دورہ تھا، آپ کے والدین کے یہاں یکے بعد دیگرے جب کئی بچیوں کی ولادت ہوئی تو انھوں نے نذر مانی کہ اگر ہمارے یہاں بیٹا ہوا تو ’’ ہلور‘‘ کے بابا کے مزار پر دو مرغ چڑھائیں گے ایک مرغ بچے کی ولادت کے بعد والدین چڑھائیں گے اور دوسرا مرغ بچہ بڑا ہو کر خود اپنے ہاتھوں سے چڑھائے گا ، دادا محترم رحمہ اﷲ فرماتے تھے ایک مرغ تو والدین نے میرے بچپن میں چڑھایا تھا لیکن اب میں کہتا ہوں کہ دوسرا مرغ غیر اﷲ کے نام پر چڑھانے کو کون کہے اگر پہلا مرغ بابا مجھے واپس کردیں تو اسے بھی لے لوں گا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ آپ کا خاندان کھیتی، کسانی سے اس طرح چمٹا ہوا تھا کہ زمین سے اٹھنا اس کا محال لگ رہا تھا لیکن ایسے ماحول میں بتوفیق الٰہی آپ کے والد گرامی ’’جناب الٰہی بخش ‘‘ نے آپ کو خاندان کی ہزاروں مخالفتوں کے باوجود تعلیم کے راستے پر گامزن کر دیا اور اس طرح ’’مدرسہ اسلامیہ‘‘ اﷲ نگر ’’ جامعہ سراج العلوم‘‘ جھنڈا نگر ’’جامعہ سراج العلوم‘‘ بونڈھیار وغیرہ میں آپ نے اس وقت کے اساطین علم و فن سے کسب فیض کیا، اور دوران تعلیم ہی مسلک اہل حدیث قبول کر لیا ۔ فالحمدﷲ علیٰ ذلک۔
شیوخ واساتذہ: یہ آپ کی خوش نصیبی تھی کہ اس وقت کی عبقری شخصیت محدث کبیر علامہ عبدالرحمن مبارک پوری صاحب تحفۃ الاحوذی رحمہ اﷲ کی خدمت اور ان سے استفادہ کا سنہری موقع اﷲ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا، محدث شہیر کے علاوہ جن اساطین علم و فن کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ تہہ فرمایا ان میں جناب مولانا تفضل حسین ، مولانا محمد ےٰسین، مولانا محمد یونس (بونڈھیار) حضرت مولانامحمد زماں سابق صدر مدرس جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر نیپال رحمہم اﷲ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
تدریسی خدمات : اپنے آپ کو دعوت و تبلیغ کے لئے وقف کرنے سے پہلے آپ نے کچھ عرصہ تک بعض مدارس میں تدریسی فریضہ بھی انجام دیا ، محدث شہیر حضرت علامہ عبدالرحمن مبارک پوری صاحب تحفۃ الاحوذی رحمہ اﷲ نے ۱۹۰۵ء میں اپنے دست مبارک سے موضع اﷲ نگر ضلع گونڈہ(بلرام پور) میں ایک مدرسہ (مدرسہ اسلامیہ) کی داغ بیل ڈالی تھی جب وہ مدرسہ بعد میں حوادث کی نذر ہوکر بند ہو گیا تو اس کی نشاۃ ثانیہ ۱۹۷۰ء میں جد محترم مولانا عبدالرزاق صاحب اور ایک متبحر و بالغ نظر ممتاز عالم دین مولانا زین اﷲ صاحب طیب پوری رحمہما اﷲ کے ہاتھوں ہوئی وہاں آپ تدریسی فریضہ کی انجام دہی کے ساتھ وسیع پیمانہ پر دعوت توحید کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے،اسی طرح اس علاقہ کے موضع’’ اجگری‘‘ میں بھی آٖ پ کئی سال تک درس و تدریس سے وابستہ رہے بعد ازاں گھریلو حالات سے مجبور ہوکر آپ نے کانپور میں ’’نیو وکٹوریہ مل‘‘ میں ملازمت اختیار کر لی لیکن عملاً دعوت وتبلیغ سے آپ کا رشتہ ہمیشہ برقرار رہا، ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ آپ نے جامعہ فیض العلوم اﷲ نگر میں قدم رنجہ فرمایا اور اپنے فرزند ارجمند ممتاز عالم دین مولانا جمال الدین فیضی حفظہ اﷲ کے ساتھ فریضہ تدریس و تبلیغ کی انجام دہی میں منہمک ہو گئے۔
اسلوب دعوت: آپ کی دعوت کا اسلوب دلوں کو اپیل کرنے والا ہوتا تھا اگر کسی شخص کو خلاف سنت کام کرتے ہوئے دیکھتے تو سب سے پہلے اس سے سوال کرتے کہ یہ عمل آپ نے کہاں سے سیکھا اگر وہ کہتا فلاں عالم و مولانا نے ہم سے اسی طرح کرنے کو کہا ہے تو آپ کہتے ذرا ان سے ہماری ملاقات کرادیجئے ہم بھی اپنی اصلاح کرلیں اورپھرجب وہ عالم سامنے آتے تو ایک عام آدمی کی طرح ان سے استفسار کرتے ہوئے کہتے کہ حضرت! یہ عمل جو آپ کر رہے ہیں اس کی اگر کوئی دلیل ہو تو برائے مہر بانی بتا دیں تاکہ ہم بھی عمل کرسکیں اگر وہ کسی بڑے عالم یا امام کا حوالہ دیتے تو آپ کہتے کہ جناب میرے پاس اماموں کے امام بلکہ نبیوں کے امام جناب محمد رسول اﷲﷺ کی ایک حدیث ہے جو حدیث کی فلاں فلاں کتاب میں موجود ہے پھر حدیث رسول ﷺ سناتے اور پوچھتے اب بتائیے یہ امام الانبیاء کا فرمان ہے اور آپ کہہ رہے ہیں وہ آپ ﷺ کی امت میں سے ایک امام یا عالم کا قول ہے بات کس کی مانی جائے؟ بعض ضدی قسم کے لوگ آپ کی اس بات پر جُز بُز ہوتے تو بعض خوش نصیب سر تسلیم خم کردیتے کہ آپ کی بات واقعی معقول ہے صحیح وہی ہے جو امام اعظم رسول اکرمﷺ سے ثابت ہے۔
مسلکی حمیت اور دعوت کتاب وسنت: آپ کے اندر مسلکی حمیت بدرجۂ اتم موجود تھی، کتاب و سنت کے خلاف کسی بڑی سی بڑی شخصیت کے قول و عمل کو آپ نے کبھی در خوداعتنانہیں سمجھا مسلک حق قبول کرنے کے بعد کتاب و سنت کی دعوت اور دفاع حق کو آپ نے تادم واپسیں اپنا مشن بنائے رکھا ، یہی وجہ ہے کہ اﷲ کے فضل کے بعد آپ کی جہد مسلسل اور کاوش پیہم سے سینکڑوں افراد نے مسلک اہل حدیث قبول کرلیا بلکہ بعض مواضعات ایسے بھی ہیں جہاں کے تمام لوگوں نے آپ کی مدلل تبلیغ و ارشاد سے متاثر ہو کر مسلک اہل حدیث کو حرز جاں بنا لیا۔
سلسلۂ تبلیغ کے بعض واقعات: یوں تو دعوت توحید کے راستے میں آپ کے ساتھ بے شمار واقعات پیش آئے لیکن بخوف طوالت قارئین کی ضیافت طبع کے لئے دو واقعات پیش خدمت ہیں۔
۱۔ ایک مرتبہ بمبئی سے واپسی کے سفر میں ایک حنفی مقلد سے ٹرین میں آپ کی ملاقات ہوئی باتو ں باتوں میں آپ نے اس سے کہا اسلام سولہ آنا تھا آپ مقلدوں نے اس کو چار حصوں میں تقسیم کردیا کوئی حنفی بن گیا کوئی مالکی کوئی شافعی وحنبلی آپ مجھے یہ بتائیے ان میں حق پر کون ہے؟ اس شخص نے کہا چاروں حق پر ہیں آپ نے کہا یہ کیسے ممکن ہے بہت سے مسائل میں آپ لوگوں کے درمیان زبردست اختلاف ہے عقائد میں بھی اور اعمال میں بھی ، مثلاً نماز میں آپ کے یہاں مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنے کی اجازت نہیں لیکن شافعی کہتے ہیں بغیر سورہ فاتحہ کے نماز نہیں ہوگی اور ان کی بات مدلل بھی ہے تو پھر بتائیے شافعیوں کے حساب سے آپ کی نماز ہی نہیں ہوئی، اور آپ کے یہاں بعض کہتے ہیں جو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھے گا اس کے منہ میں انگارے ڈالے جائیں گے ، اتنے زبر دست اختلاف کے باوجود دونوں حق پر کیسے ہوئے؟ وعلیٰ ھذا القیاس
آپ نے کچھ اور مسائل اس کے سامنے بیان کئے پھر آپ نے اسے سمجھایا کہ مسلک اہل حدیث ہی وہ واحد مسلک ہے جو مکمل اسلام کی پاسداری کرتا ہے اس شخص نے جب آپ کی دل لگتی باتیں سنیں تو بے ساختہ پکار اٹھا مولانا! آپ اپنا ہاتھ پھیلائیے آج میں آپ کے ہاتھ پر تقلید شخصی سے تائب ہو کر مسلک اہل حدیث قبول کرتا ہوں اور کل قیامت کے دن آپ کو اس بات کی گواہی دینی ہوگی ، چند منٹوں کی اس ملاقات نے اس کے دل کی دنیا بدل دی۔
۲۔ دادا محترم کا خود بیان ہے کہ‘‘ضلع بلرام پور ‘‘ میں تحصیل ’’اترولہ‘‘ کے قریب ایک بستی’’ محمد پور‘‘ کے نام سے موسوم ہے ایک زمانہ تھا کہ وہ بستی بدعات و خرافات کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی صرف ایک گھر ایسا تھا جو عقیدۂ تو حید کا حامل تھا اسی گھر میں میری آمد و رفت تھی، ایک مرتبہ میں اس گاؤں میں پہونچا اور صاحب خانہ کے اصرار پر قیام کی غرض سے رک گیا، جن صاحب کے یہاں میرا قیام تھا ان کے پڑوسی کے یہاں تین پیر نما فقیر بطور مہمان قیام پذیر تھے، صبح نماز پڑھنے کے بعد ٹہلتے ہوئے پڑوسی کی خیریت معلوم کرنے اس کے گھر پہونچا تو ان مہمانوں سے بھی ملاقات ہو گئی ان میں سے ایک صاحب لوٹا اٹھائے ہوئے قضائے حاجت کیلئے تشریف لے جانے والے تھے، میں جب قریب پہونچ کر سلام کیا تو وہ صاحب بھی بول و بزار کا ارادہ ترک کرکے تھوڑی دیر کیلئے رک گئے ، میں نے خیریت دریافت کرنے کے بعد ان سے پوچھا آپ لوگ کب تشریف لائے ؟ کہنے لگے ہمیں تو یہاں آئے کئی روز ہو گئے ، میں نے عرض کیا لیکن آپ حضرات مسجد کے اندر کسی نماز میں نظر نہیں آئے ، میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ حضرات آپے سے باہر ہوگئے، لگے بے نقط سنانے کہ تم ظاہری ہو ظاہری! ریا کارہو ریا کار! دکھاوے کی نمازیں پڑھتے ہو! دکھاوے کے روزے رکھتے ہو ! ہم فنافی اﷲ ہیں ہمیں دکھا وے کی عبادت نہیں کرنی، ہم باطنی ہیں دل میں نمازیں پڑھ لیتے ہیں ، میں نے عرض کیا اچھا! تو آپ لوگ تمام ظاہری کام دل میں کر لیتے ہیں ؟ فرمایا بے شک دریں چہ شک، میں نے ان حضرت سے مخاطب ہوکر جو قضائے حاجت کیلئے جارہے تھے پوچھا حضرت! آپ لوٹا اٹھائے ہوئے کہاں جا رہے تھے؟ فرمایا پائخانہ کرنے کیلئے، میں نے عرض کیا حضرت! یہ ظاہری کام ہے اسے بھی دل میں کر لیجئے باہر جانے کی کیا ضرورت ہے؟ اور ان کے مرید سے پوچھا بھئی! آپ ان حضرات کو کھانا وغیرہ کھلاتے ہیں کہ نہیں؟ اس بے چارے نے کہا مولوی صاحب! میں ان لوگوں کی اپنی وسعت سے زیادہ خدمت کرتا ہوں اور اچھے اچھے کھانے کھلاتا ہوں ، میں نے کہا تمہیں اس کی ضرورت کیا ہے؟ یہ بے چارے تو باطنی لوگ ہیں، نماز دل میں پڑھ لیتے ہیں تو کھانا بھی دل میں کھا لیتے ہوں گے آپ ناحق زحمت کرتے ہیں۔
میری اس بات کا ان بے نمازی صوفیا اور پیروں پر اثر ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ، البتہ ان کے مرید پر ضرور اثر ہوا کہنے لگے مولوی صاحب ! میں آپ کی بات سمجھ گیا ، پھر جعلی پیروں سے اس نے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ لوگ کان کھول کر سن لیں ! ایک مدت سے آپ لوگ میرے گھر تشریف لاتے ہیں اور میں اپنی بساط سے زیادہ آپ کی خدمت کرتا رہا لیکن آپ لوگ آج ابھی اور اسی وقت اپنا بوریا بستر سمیٹئے اور براہ مہربانی اس طرف کا رخ نہ کیجئے گا، اگر یہ بات نہ ہوتی کہ آپ حضرات مہمان کی حیثیت سے ہیں تو میں دھکے دے کر اپنے گھر سے نکال دیتا۔
حاضر جوابی و بحث ومناظرہ: آپ کے حلقہ اثر میں آپ کی حاضر جوابی ضرب المثل تھی اس میدان میں آپ ید طولیٰ رکھتے تھے بحث و مناظرہ میں بڑے سے بڑے مقلد(عالم) کی پیش نہ چلتی تھی مذکورہ بالا واقعات سے یہ حقیقت بخوبی واضح ہو رہی ہے ۔
اولاد واحفاد: آپ کو رب العزت نے اولاد واحفاد کی دولت بھی عطا فرمائی جن میں اکثر عالم دین اور زیور علم سے آراستہ ہیں ، اولاد واحفاد کی تفصیل اس طرح ہے۔
اولاد: والد گرامی جناب جلال الدین، عم محترم مولانا جمال الدین فیضی، مولوی صلاح الدین، زینت النساء، مرأۃالنساء۔
أحفاد: راقم الحروف شہاب الدین مدنی، سراج الدین سراجی، رفیع الدین، رضی الدین، نورالدین مدنی، نجم الدین، ظفرالدین، ریاض الدین فیضی، ضیاء الدین ، حسام الدین فیضی ، عماد الدین فیضی، ناصر الدین سلفی، ظہیر الدین۔
ابنائے احفاد: وحید الدین سلفی، فرید الدین فیضی، حمید الدین فیضی، تقی الدین فیضی، رشید الدین فیضی یہ وہ ابنائے احفاد ہیں جو عالم و فاضل ہیں ، ان کے علاوہ کئی ایک زیور علم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔
وفات: آپ نے عمر کی ۸۶ بہاریں دیکھنے کے بعد جمعۃ المبارک کے دن ۱۸؍ اگست۲۰۰۰ء کو وفات پائی اس عالم ربانی کے صلب سے آج ایک درجن علماء موجود ہیں اور یہ سلسلۂ تعلیم تا ہنوز جاری ہے ان شاء اﷲ یہ آپ کی حسنات میں اضافہ کا سبب بنیں گے اور علم کا جو چمن آپ نے آباد کیا ہے وہ ضرور بار آور ہو گا، اﷲ رب العزت آپ کی بال بال مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں جگہ دے اور آپ کے علمی خاندان کو تعلیم و تبلیغ دین کی مزید توفیق بخشے۔ آمین
والسلام
شہاب الدین جلال الدین بن عبدالرزاق المدنی
امیر جماعت صوبائی جمعیۃ اہل حدیث
مشرقی یوپی لکھنؤ
حضرت العلام مولانا قطب اﷲ ندوی رحمانی رحمہ ٗاﷲ
(تاریخ وفات: ۲۰؍مئی ۲۰۰۱ء)
مولانا قطب اﷲ ندوی صاحب علمی اور دینی گھرانے میں آنکھیں کھولیں اور ۱۹۳۵ء میں موضع ملگہیا میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کی ، اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے جامعہ رحمانیہ بنارس تشریف لے گئے مزید عربی ادب میں مہارت حاصل کرنے کے لئے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا رخ کیا، آپ نے جامعہ رحمانیہ بنارس اور دارلعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے سند فراغت حاصل کی اسلئے آپ کو رحمانی اور ندوی کہا اور لکھا جاتا ہے۔
مولانا قطب اﷲ ندوی با صلاحیت عالم تھے اور کہنہ مشق مدرس تھے آپ نے پوری زندگی تعلیم و تدریس میں گذاری۔
جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر، دارالعلوم ششہنیاں، جامعہ نصرۃ الاسلام شنکر نگر اور کلیۃ عائشہ صدیقہ منصورہ مالیگاؤں، مدرسہ ریاض العلوم دہلی سمیت ہندو نیپال کے کئی معروف تعلیمی اداروں میں تدریسی فریضہ انجام دیتے رہے پھر صحت کی خرابی کے باعث تقریباً چھ سات سال تک اپنے گاؤں ملگہیا سے قریب مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ جھنڈا نگر سے وابستہ رہے اور اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک اس ادارہ سے منسلک رہ کر اپنا فرض منصبی انجام دیتے رہے ۔ اس طرح مولانا ندوی صاحب کی تدریسی زندگی کم و بیش پچاس برس پر مشتمل ہوگی، جس میں ہزاروں طلبہ و طالبات کو آپ کی ذات سے فیض پہونچا مولانا ندوی خوش مزاج ، خوش گفتار اور اخلاق کے اعلیٰ نمونہ تھے، طلبہ و طالبات پر بڑی شفقت فرماتے تھے اور بڑی پابندی کے ساتھ اپنی ذمہ داری انجام دیتے تھے تفسیر ، حدیث ،فقہ اور عربی ادب کے اسباق پوری تیاری کے ساتھ اس طرح دیتے تھے کہ موضوع کا کوئی گوشہ تشنہ نہ رہتا تھا۔
مولانا ندوی صاحب ہمیشہ اطمینان قلب کی حالت سے بہرہ ور رہے اگر کوئی تکلیف پہنچی تو صبر و ضبط سے کام لیا اور ہر حال میں صابر و شاکر رہے اور اﷲ نے جس حالت میں رکھا اس پر اطمینان کا اظہار کیا ، قناعت ان کا شیوہ ، اطمینان قلب ان کے لئے اﷲ کا عطیہ تھا اگر کسی نے ان کے ساتھ زیادتی بھی کی تو خاموشی سے کام لیا سختی کا بدلہ سختی سے کبھی نہیں لیا۔
موصوف بلڈ پریشر اور تنفس کے مریض تھے ۲۰؍مئی ۲۰۰۱ء کی شام کو بیت الخلاء سے واپس آتے ہوئے گر پڑے پھر طبیعت خراب ہو تی گئی اور ۲۰؍مئی ۲۰۰۱ء کو ساڑھے بارہ بجے شب میں ملگہیا انتقال ہو گیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
اگلے دن ۲۱؍مئی ۲۰۰۱ء کو بعد نماز ظہر آپ کو آپ کے گاؤں کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مولانا کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ۔ ان کی لغزشوں کو مغفرت سے بدل دے ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ و اکرم نزلہ ووسع مدخلہ
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور - بلرام پور یوپی
٭٭٭
مولانا صلاح الدین نوری رحمہٗ اﷲ
(تاریخ وفات: ۲۸؍جون ۲۰۰۱ء)
سال پیدائش : مولانا صلاح الدین صاحب نوری کی ولادت بہرائچ کے محلہ گڈری چھایا کنواں میں ۱۹۲۲ء میں ہوئی۔
والد محترم و دادا کا نام: آپ کے والدمحترم کا اسم گرامی مولیٰ بخش تھا دادا کا نام چودھری گھیٹے اور پر دادا کا نام فقیرے تھا انگریز حکومت میں مولانا کے دادا کو حکومت نے اس علاقے کا چودھری مقرر کیا ۔ مولیٰ بخش کو اﷲ تعالیٰ نے چھ بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا تھا۔ انھیں میں ایک مولانا صلاح الدین صاحب نوری تھے ، اﷲ تعالیٰ نے آپ کو علم کی دولت کے ساتھ ساتھ پانچ بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا ہے ،لڑکوں کے نام : ڈاکٹر شمس الدین۔ قمر الدین ۔ بدرالدین۔ ناصرالدین۔ نظام الدین ہیں، بیٹیوں کے نام: مریم خاتون۔ فاطمہ خاتون۔ حاضرہ خاتون ہیں۔
عرصۂ دراز سے مولانا کا خاندان بریلوی مکتب فکر سے وابستہ شرک و بدعت میں سر سے پیر تک ڈوبا ہوا تھا ، مولانا نے بھی اسی ماحول میں پرورش پائی اسی لئے آپ کے والد محترم نے آپ کا نام سلار بخش رکھا تھا آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم شہر بہرائچ کے چھوئی تکیہ سے شروع کی جو اس علاقہ میں بریلوی مکتب فکر کا ایک مشہور و معروف مدرسہ ہے لیکن مولانا وہاں کے طور طریقہ ، ماحول اور تعلیم سے قطعاً مطمئن نہ ہوسکے کیونکہ آپ کو بچپن ہی سے مروجہ رسم و رواج شرک و بدعت سے بڑی کوفت و گھٹن محسوس ہوتی تھی جس کا ذکر وہ اکثر اپنے دوست جناب صفی صاحب سے کیا کرتے تھے وہ چونکہ دیوبندی حنفی تھے اور ان کا پورا خاندان محلہ قاضی پورہ میں آباد تھا جو دیو بندی حنفی تھا لہذا صفی صاحب اور ان کے خاندان کی پوری کوشش رہی کہ میرا مسلک قبول کرلیں اور بریلوی مسلک کوخیر باد کہہ دیں، چنانچہ ان لوگوں کے رغبت دلانے پر بریلوی مدرسہ چھوڑ کر جامعہ نور العلوم بہرائچ میں بغرض حصول تعلیم داخلہ لے لیا اور اپنے بچپن کا نام سالار بخش بدل کر صلا ح الدین رکھ لیا کئی سال جامعہ نور العلوم میں اپنے اساتذہ کرام سے علم کی پیاس بجھاتے رہے بالآخراسی مدرسہ سے اچھے نمبرات سے سند عا لمیت حاصل کی ۔
اسی سال مدرسہ کے اساتذہ کرام اور مجلس منتظمہ نے درس و تدریس کے فرائض انجام دینے کے لئے خصوصاً مولانا سلامت اﷲ صاحب قاسمی نے آپ کی صلاحیت و لیاقت کو دیکھ کر اپنے مدرسہ میں بحیثیت مدرس تقرری کرلی مدرسہ میں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ عالم شہید والی مسجد متصل گھنٹہ گھر بہرائچ میں امامت و خطابت کے فرائض بھی انجام دینے لگے ۔ آپ کی صلاحیت و قابلیت کے پیش نظر آپ کے اثر و رسوخ میں دن بدن اضافہ ہوتا رہا اور آپ کے اثر و رسوخ کچھ ایسے لوگوں سے ہوگئے جن کی کوششوں سے ۱۹۴۲ء میں گورنمنٹ انٹر کالج بہرائچ میں بحیثیت ٹیچر عربی و فارسی آپ کی تقرری عمل میں آئی۔ مولانا نوری صاحب اس کالج میں تین سال تک اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دیتے رہے کہ اسی درمیان آپ کا دوسرے ضلع کیلئے ٹرانسفر آرڈر آگیا آپ کے سامنے بہت بڑا مسئلہ یہ پیش تھا کہ تنہا والد محترم کو چھوڑ کر کس طرح جائیں وہ ایک حادثہ میں اپنی آنکھ کھو بیٹھے تھے ، ان کو سہارا کی ضرورت تھی دوسری بات یہ کہ والدہ محترمہ جن کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے وہ بچپن ہی میں فوت ہوگئی تھیں ۔ ان کی خدمت سے محروم ہو گئے اب اگر معذور والد کو چھوڑ کر گھر سے دور چلے جاتے تو والد محترم پر ظلم ہوتا اور خدمت کرنے سے بھی محروم رہ جاتے ۔ اسلئے والد محترم مولانا صلاح الدین نوری نے اس اہم مسئلہ کو اپنے پڑوسی ماسٹر کریم ادریسی صاحب کے سامنے رکھا ، ماسٹر کریم صاحب نے کہا میرے کالج کو عربی فارسی ایک ٹیچر کی اشد ضرورت ہے میں آج ہی بات کرکے شام کو مطلع کروں گا مجھے آپ کی صلاحیت ، قابلیت ، سنجیدگی اور اعتدال پسندی کا اعتراف ہے ، چنانچہ ماسٹر کریم ادریسی صاحب نے ذمہ داران سعادت انٹر کالج نانپارہ سے بات کی آپ کی ماہانہ پینتالیس روپیہ پر تقرری ہو گئی والد صاحب کو کالج کی طرف سے بلاکرایہ ایک مکان بھی مل گیا جبکہ بہرائچ انٹر کالج میں صرف چالیس روپیہ ماہانہ ملتا تھا ۔ آپ مرد مجاہد و محقق آدمی تھے براہ راست کتاب و سنت کا مطالعہ کیا ایک ایک مسئلہ کی چھان بین کی ، آپ پر اﷲ کا کرم ہوا اور پختہ سلفی المسلک ہو گئے ، اہل حدیث نہیں بلکہ اہل حدیث گر بن گئے۔
دعوت و تبلیغ کے میدان میں : آپ نے سعادت انٹر کالج نانپارہ میں ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ دعوت و تبلیغ کا سلسلہ بھی جاری کردیا کیونکہ اس وقت قصبہ نانپارہ بدعت کا گڈھ تھا ، جہاں پر رسم و رواج شرک وبدعت ،خرافات و منکرات، شخصیت پرستی، پیر پرستی، آستانہ پرستی، مزار پرستی،قبر پرستی اور نفس پرستی کا بول بالا تھااور ان تمام خرافات ہی کو اصل اسلام سمجھا جاتا تھا۔ والد محترم نے کتاب و سنت کی روشنی میں ان سب کاموں کا جو ثواب سمجھ کر انجام دیئے جارہے تھے ، شرعی پو سٹ مارٹم کرتے تھے کتاب و سنت کی باتیں پیش کرنے پر آپ کے مخالفوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ لوگ آپ کے جانی دشمن ہو گئے ۔ نانپارہ کامشہور بریلوی عالم رجب علی نے کئی بار آپ پر اپنے غنڈوں کے ذریعہ جان لیوا حملہ کروایا ، اﷲ تعالیٰ نے ہر دفعہ آپ کی حفاظت فرمائی اور آپ نے کسی کی پرواہ نہ کی مستقل کتاب و سنت کے مشن کو جاری رکھا قاتلانہ حملہ کے وقت آپ نے یہ شعر کہا تھا
اس واسطے دشمن ہوا ہے آسی زمانہ ترا سودائے جہالت جو ترے سر میں نہیں ہے
تصنیفی خدمات: والدمحترم نے کئی کتابیں لکھیں سب سے پہلے توآپ نے حالات محرم ۔ ڈھول کا پول۔ طلسمات سامری۔ مسلمان اسلام کے آئینہ میں اردو ہندی ایڈیشن۔ بیمار و گندہ سماج اور اس کا علاج۔ حقوق والدین۔ قبروں کے پجاری ۔لاجواب لعل۔ قبر پرستی۔ نعت رحمۃللعالمین ۔ یادگار حسین۔ طریقہ نماز ۔ تیجہ۔ دسواں ششماہی۔ چالیسواں ۔ قبروں کے حالات۔ میلاد انور۔ یہ ساری کتابیں نثر میں ہیں۔ آپ اچھے شاعر بھی تھے آسی تخلص تھا صاف ستھراذوق رکھتے تھے بہت اچھا اور برمحل اشعار کہتے تھے آپ کی ساری تصنیفات جوپچاس کے قریب ہیں سب رد شرک و بدعت پر مشتمل ہیں ۔
آپ اپنی مذکورہ کتابیں اپنے جیب خاص سے طباعت کرائی شروع میں آپ کی کتابیں حافظ عبدالغفار صاحب نابینا ملک کے اکثر علاقوں میں گھوم پھر کر فروخت کرتے تھے اور جوآمدنی ہوتی وہ ساری آمدنی مع نفع حافظ عبدالغفار کو ہدیہ کردیتے تھے حالانکہ تنخواہ کا کافی حصہ کتابوں کی طباعت میں صرف ہو جایا کرتا تھا والد محترم کا آخری وقت تک یہی مشغلہ رہا۔ قصبہ نانپارہ میں جب آپ کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا اکثریت جب آپ کے جان کے لالے پڑگئی ، کئی بار آپ پر قاتلانہ حملہ کروایا گیا آپ پر زمین تنگ کردی گئی تو والد محترم نانپارہ سے ہجرت کرکے نواب گنج چلے گئے وہاں بھی زیادہ دنوں تک نہ رہ سکے وہاں پر بھی اہل قبور نے رہنا دوبھر کردیا جب حالات زیادہ خراب ہو گئے تو نانپارہ کے اپنے مخلص احباب کے مشورہ پر پھر نانپارہ واپس آگئے اور اپنا سلفی مشن جاری رکھا ۔ نانپارہ میں ایک مدرسہ خیر العلوم کے نام سے کھولا لیکن مخالفین نے اس کو بند کرادیا پھر نانپارہ ہی میں والد محترم صاحب نے کالونی والی مسجد میں بھی ایک مدرسہ قائم کیا ، یہاں بھی وہی حشر ہوا کیونکہ آپ تحریک اہل حدیث کے علمبردار مسلک اہل حدیث کے سپاہی کتاب و سنت کے شیدائی و فدائی سید المرسلین خاتم النبیےن امام الانبیاء کے علاوہ کسی دوسرے بدعتی و مقلد کی بات کو کیسے قبول کرلیتے قال اﷲ قال الرسول کی صدا بلند کرنے اور شرک و بدعت کے رد میں گالیاں بھی کھائیں گھر سے بے گھر ہوئے زمین آپ پر تنگ ہو گئی ، ہجرت بھی کرنی پڑی کئی بار آپ پر قاتلانہ حملہ بھی کرایا گیا مگر مخالفین ہر موڑ پر ناکام ہوئے اور ہر جگہ ان کو شکشت فاش ہوئی سچ ہے ۔ ع پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
جب ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بہرائچ جناب حاجی منصور احمد خاں انجینئرکی قیادت میں تشکیل عمل میں آئی تو آپ نے فوراً لبیک کہا اور اپنی جماعت کی ہر طرح دامے درمے قدمے سخنے قلمے مدد فرمائی اسکا رد عمل یہ ہوا کہ مخالفین کی تعدادمیں مزید اضافہ ہوگیا انکی یہ مخالفت مولانا نوری صاحب کی اولاد کو بھی جھیلنی پڑی اور آج تک جھیل رہے ہیں ، ہم بھائیوں کا اﷲ ہی ناصر و محافظ ہے اﷲ تعالیٰ ہم لوگوں کو صراط مستقیم پر چلائے اور صبر و استقامت کی توفیق دے ۔ آمین
آخری لمحات: ضلعی جمعیۃ میں آنے کے بعد آپ کی تصنیفات کی اشاعت کا کام جناب احتشام الحسن عرف علی رضا صاحب نے شروع کر رکھا ہے اور یہ مفید کا م تا ہنوز جاری ہے اﷲ ان کو جزائے خیر دے ، محلہ امام گنج بہرائچ میں مولانا کی کوششوں سے ایک مسجد قائم ہوئی اس مسجد کی تعمیر کرانے میں درج ذیل حضرات نے خصوصی توجہ فرمائی : جناب حاجی منصور احمد خاں صاحب انجینئر امیر جماعت مبارک علی صاحب راقم الحروف (ڈاکٹر) شمس الدین شاہد علی صاحب ساجد صاحب وغیرہ اﷲ تعالیٰ ان سبھوں کو جنھوں نے اس نیک کام میں حصہ لیا اور لے رہے ہیں اجر عظیم سے نوازے۔ آمین
انتقال سے ایک ہفتہ قبل دعوت و تبلیغ کا کام بہت ہی تیز کردیا تھا نانپارہ کے کچھ لوگوں کا بیان ہے کہ مولانا کے انداز خطابت سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ ان کی آخری تقریر ہے اہل حدیث ہونے کے بعد مختلف موقعوں پر آپ نے مخالفین سے بحث و مباحثہ کیا اور سب میں کامیاب رہے۔
اکثر ہوئی ہے منکر سنت سے گفتگو لیکن کسی جگہ میں نہ ہارا محمدی
وفات: ’’کل نفس ذائقۃ الموت ‘‘ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے آج ہماری تو کل تمہاری باری ہے
مورخہ ۲۸؍جون ۲۰۰۱ء بعد نماز عشاء جمعیۃ اہل حدیث نانپارہ کی مسجد میں توحید کے عنوان پر مصلیوں سے خطاب کیا یہ تقریر انتہائی جامع اور دلوں میں اتر جانے والی تھی سبھی لوگ بہت متاثر ہوئے آپ تقریر و تحریر دونوں میدان میں یکتا تھے آپ کی سحر بیانی سے معلوم نہیں کتنے لوگ آبائی مذہب چھوڑ کر اہل حدیث ہو گئے اورکئی غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا۔ وﷲ الحمد
وقت اجل آپہونچا تقریر کے بعد کچھ دیر کیلئے مسجد میں ٹھہر گئے مسئلہ مسائل کا دور چل رہا تھا کہ اسی مسجد اہل حدیث نانپارہ میں ۱۱؍ بجکر دس منٹ شب میں اس جہانی فانی سے یہ نےّر تاباں سفر آخرت پر روانہ ہوگیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
آپ کے انتقال کے وقت والدہ محترمہ بڑی ہمشیرہ صاحبہ کے گھر نواب گنج علی آباد تھیں والدہ اور بہن کی خواہش و اصرار پر آپ کی تجہیز و تکفین نواب گنج علی آباد میں ہوئی اور علی گنج کی مٹی نے آپ کو بدرجہ غایت احترام اپنی آغوش میں لے لیا اﷲ تعالیٰ والد محترم کی دینی خدمات کو قبول فرمائے ، لغزشوں کو درگذر فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ آمین
حیات جس کی امانت تھی اس کو لوٹا دی
اب آج چین سے سوتا ہوں پاؤں پھیلاکر
اﷲم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ
(ڈاکٹر) شمس الدین
بہرائچ
مولانا امر اﷲ عارف سراجی رحمہٗ اﷲ
(تاریخ وفات: ۳۱؍جولائی ۲۰۰۱ء)
مولانا عارف سراجی رحمہ اﷲ کی ذات گرامی محتاج تعارف نہیں، آپ جماعت اہلحدیث کے ایک مشہور مقرر اور شعلۂ بیان خطیب اور متعدد دینی و اصلاحی کتابوں کے مصنف اور مولف تھے۔
سلسلۂ نسب: آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے۔ امر اﷲ عارف سراجی بن علاقیدار خاں بن جان اﷲ خاں بن گھرہو خاں بن سعداﷲ بن سبزھو خاں بن مجاہد خاں۔
ولادت: آپ ۴؍ جنوری ۱۹۲۹ء کو موضع کونڈرا گرانٹ ضلع سدھارتھ نگر (یوپی) میں پیدا ہوئے یہ موضع ۲۲ ڈیہہ پر مشتمل ہے اور اکثریت مسلمانوں کی ہے اور سب کے سب اہل حدیث ہیں یہ بستی ضلع سدھارتھ نگر سے پچھم اور اتر کی جانب لگ بھگ آٹھ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔
تعلیم: جب آپ کی عمر چھ سال کی ہوئی تو آپ کے والد ماجد نے گاؤں کے پرائمری اسکول میں داخل کردیا، جس میں آپ نے تین سال تک تعلیم حاصل کی، یہاں کے اساتذہ میں سے مولانا عابد علی صاحب ندوی اور ماسٹر شیخ زین الدین صاحب مرحوم قابل ذکر ہیں۔
پھر ۱۹۳۶ء میں آپ نے جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر نیپال کا رخ کیا، اور مسلسل پانچ سال تک وہاں کے مخلص اور شفیق اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا، اس جامعہ کے اساتذہ میں سے الحاج میاں محمد زکریا صاحب، مولانا عبدالغفورصاحب بسکوہری، مولانا محمد زماں صاحب رحمانی، مولانا زین اﷲ صاحب طیب پوری ، مولانا محمد خاں سمراوی، خطیب الاسلام مولانا عبدالرؤف صاحب رحمانی جھنڈا نگری رحمہم اﷲ ہیں۔
۱۹۴۱ء میں اعلیٰ تعلیم کیلئے آپ نے دارالحدیث رحمانیہ دہلی کا سفر کیا، اس سلسلہ میں مولانا خود نوشت حالات زندگی میں لکھتے ہیں کہ:
’’۱۹۴۱ء میں حضرت الاستاذ مولانا عبدالجلیل صاحب رحمانی رحمہ اﷲ کے ساتھ دہلی کا سفر کیا اور مدرسہ دارالحدیث رحمانیہ میں داخلہ لیا، یہاں مدت تعلیم ۱۹۴۱ء سے ۱۹۴۵ء تک ہے‘‘
مولانا نے اس ادارہ میں رہ کر جن علماء کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ میرا دور طالب علمی دارالحدیث رحمانیہ کا قریب قریب دور آخر ہے ، اس وقت ملک کے اکابر علم و فضل دارالحدیث رحمانیہ میں موجود تھے ، گویا جماعت کا دماغ وہاں اکٹھا ہو گیا تھا ، بحث وتحقیق کے امام ، حدیث و ائمہ حدیث اور اسماء الرجال پر تحقیقی نظررکھنے والے شیخ الحدیث مولانا نذیر احمد رحمانی املوی ، صاحب فکرو نظر محقق عصر مولانا عبدالجلیل صاحب رحمانی، مولانا حکیم محمد بشیر صاحب رحمانی مبارک پوری، مولانا عبدالحلیم صاحب پشاوری، مولانا اصحاب الدین صاحب کمبل پوری، مولانا عبید الرحمن صاحب طالب رحمانی مبارک پوری، مولانا رستم علی رحمانی بنگالی وغیرہم جیسے اساطین فضل و کمال زینت دارالحدیث رحمانیہ اور رونق مسند درس و تدریس تھے، میرے اساتذہ کی فہرست بڑی طویل نہیں ہے مگر جو تھے وہ ’’ در مرغوب‘‘ ہی تھے، مذکور الصدرارباب فضل و کمال سے میں نے استفادہ کیا ہے ۔یہ سب کے سب میرے لائق صد احترام اساتذہ ہیں‘‘۔
سن فراغت : آپ نے ۱۹۴۶ء میں دارالحدیث رحمانیہ کو چھوڑ کر مدرسہ حاجی علی جان دہلی میں جاکر داخلہ لیا، اور یہیں سے ۱۹؍جون ۱۹۴۷ء مطابق ۲۹؍رجب ۱۳۶۶ھ یوم جمعرات کو سند فراغت حاصل کی، یہاں کے اساتذہ میں آپ کے استاذ صرف شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالسلام صاحب بستوی ثم دہلوی رحمہ اﷲ ہیں۔
نسبت: عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے جو شخص جہاں سے اپنے علم کی تکمیل کرتا ہے اپنی نسبت اسی جانب کرتا ہے، لیکن مولانا ممدوح عارف سراجی نے اپنی نسبت مدرسہ حاجی علی جان کی جانب کرنے کے بجائے مدرسہ سراج العلوم جھنڈا نگر نیپال کی جانب کی، حالانکہ آپ اس مدرسہ سے فارغ نہیں تھے ، اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ مولانا کا تعلق اس مدرسہ سے بڑا گہرا اور مضبوط تھا، اس کے ذرہ ذرہ سے انہیں بے پناہ عقیدت و محبت تھی، مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگری سے قلبی لگاؤ اور تعلق تھا اور خود مولانا جھنڈا نگری کا ان کے اوپر دستِ شفقت ومحبت تھا، مولانا ممدوح نے مولانا جھنڈا نگری کی وفات پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ آج سے پچاس سال قبل جب میں نے ایک بے نو اور بے مایہ طالب علم کی حیثیت سے اس معہد علم و عرفان میں قدم رکھا تو مجھے خطیب الاسلام جیسے مہربان استاذ کی شفقتوں کا سہارا ملا، انھوں نے میرا علمی، قلمی و تقریری حوصلہ بڑھایا اور اس قدر شعور و زندگی بخشا کہ میں رفتہ رفتہ انہیں کے قالب میں ڈھل گیا …… بعض لوگ مجھ سے دریافت کرتے ہیں ۔ آپ کس مدرسہ سے فارغ ہیں ، آپ اپنے آپ کو سراجی کیوں کہتے ہو، ان سب کو میرا جواب یہ ہے کہ مجھ کو جو کچھ ملا مدرسہ سراج العلوم جھنڈا نگر سے ملا، مولانا رحمانی جھنڈا نگری سے ملا ، اس لئے ان سے نسبت کرکے سراجی لکھتا ہوں اور مجھے اس انتساب پر ہزارہا ہزار مسرت اور فرحت ہے
اے گل بتو فرستدم تو بوئے کہ داری
یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں
شمس و قمر سے فائدہ گر ہو کسی کو ہم کو کیا مجھ کو تو تو ہی بھا گیا اپنی نظر کو کیا کروں
(السراج خطیب الاسلام نمبر ص: ۵۰۲)
فراغت کے بعد چند سال آپ نے درس و تدریس کا کام کیا ، لیکن چونکہ اﷲ نے آپ کو علم کے ساتھ طاقت لسانی اور شان خطابت سے بھی نوازا تھا ، اس لئے اکثر و بیشتر حصہ آپ کا انجمنوں اور دینی جلسوں میں گزرتا تھا ، اور بچوں کا تعلیمی نقصان زیادہ تھا ، اس لئے تدریس سے الگ ہو کر مستقل طور پر دعوت و تبلیغ میں لگ گئے اور ایک زمانہ تک اکابر علمائے جماعت کے ساتھ پورے ملک ہندوستان کی بڑی بڑی کانفرنسوں اور اہم دینی جلسوں میں گھنٹوں خطاب فرماتے اور اپنے زور بیان سے لوگوں کو مسحور کردیتے۔
جماعتی دورے: تقسیم ہند کے بعد جماعت اہلحدیث کا شیرازہ قریب قریب بکھر چکا تھا اکابر جماعت کو اس کا صدمہ زبردست تھا ، جب ہندوستان میں امن ہوا تو دوبارہ اس کو منظم کیا گیا، مقامی،ضلعی اور صوبائی جمعیتیں قائم کی گئیں ۔ ۷؍ نومبر ۱۹۵۷ء کو قصبہ بانسی (سدھارتھ نگر) میں ایک میٹنگ بلائی گئی جس میں ضلعی جمعیۃ اہل حدیث گونڈہ و بستی کا قیام ہوا، اور متفقہ طور پر اس کے صدر مولانا امر اﷲ صاحب عارف سراجی کو مقرر کیا گیا، انتخاب کے بعد ضلع گونڈہ کے دورے کا فیصلہ ہوا ،یہ دورہ ایک ماہ کا تھا اور کل تین اشخاص( مولانا عبدالرؤف صاحب رحمانی، مولانا عبدالرحمن صاحب بجواوی، مولانا ممدوح عارف سراجی) پر مشتمل تھا، مولانا عارف سراجی مرحوم اس دورہ کی کیفیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ تنظیم جدید کے بعد ۷؍نومبر ۱۹۵۷ء کی میٹنگ میں قصبہ بانسی میں حضرۃ الاستاذ رحمہ اﷲ ضلع جمعیت اہل حدیث بستی گونڈہ صدر اور خاکسار جنرل سکریٹری مقررہوا تھا، چنانچہ انتخاب کے بعد فوراً ضلع گونڈہ کے دورے کا فیصلہ ہوا۔ یہ دورہ ایک ماہ کا تھا یہ تین نفر پر مشتمل تھا (۱) حضرۃالاستاذ صدر محترم (۲) حضرۃ العلام مولانا عبدالرحمن بجواوی(۳) خاکسار راقم الحروف، یہ تین نفری کارواں روانہ ہوا ۔ سگرام پور، دامن ہمالیہ میں آباد’’ کوئلہ باسہ‘‘ گینسڑی تلسی پور، ہر ہٹہ ، جے نگرا، کوّاپور، لکھوری، بنھونی، شنکر نگر بلرام پور،طیب پور ، بیت نار، اور کنڈؤ بونڈھیار جاکر ختم ہوگیا۔ مگر میں نے اس ایک ماہ دورے میں حیرت و مسرت یہ دیکھی کہ یہ مختصر تنظیمی میٹنگیں صرف اور صرف حضرت’’ خطیب الاسلام‘‘ کی شہرۂ آفاق پرکشش شخصیت کی وجہ سے ایک جلسہ عام کی شکل اختیار کر لیتی تھیں، اور ہر مقام پر یک شبی جلسہ عام منعقد ہو جاتا تھا‘‘۔
(السراج خطیب الاسلام نمبر ص: ۵۰۶)
آپ تین سال تک اس عہدہ پر رہ کر دینی و جماعتی خدمات انجام دیتے رہے، مولانا اپنی خود نوشت سوانح حیات میں لکھتے ہیں:
’’ میں نے ۷؍نومبر ۱۹۵۷ء اجلاس عام بانسی میں جمعیۃ اہلحدیث کا جنرل سکریٹری مقرر ہوا ، اور ۱۴؍اپریل ۱۹۶۰ء کو اجلاس عام پھریندہ میں علا حدہ ہو گیا اور میری جگہ پر مولانا عبدالمبین صاحب منظر آئے‘‘۔
آزادی ہند کے بعد آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے پہلے اجلاس کے موقع پر آپ نے اکابر جماعت کے ساتھ خوب دورے کئے اور اس کانفرنس کو کامیاب بنانے میں پوری کوشش صرف کردی، مولانا ممدوح اس سلسلہ میں لکھتے ہیں ۔
کانفرنس نوگڈھ اور مولانا سراجی کے مساعی: ’’آزادی ہند کے بعد آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا پہلا تاریخ سازسالانہ جلسہ ۱۶،۱۷،۱۸،نومبر ۱۹۶۱ء کی تاریخوں میں سر زمین نوگڈھ (سدھارتھ نگر یوپی) پر منعقد ہوا تھا، جس نے تین کروڑ افراد اہل حدیث کو نئی زندگی اور بیداری کا پیغام دیا۔
اس عظیم تاریخی جلسۂ عام کے صدر استقبالیہ خطیب الاسلام مرحوم تھے، مفکر ملت مولانا عبدالجلیل رحمانی ناظم استقبالیہ اور خاکسار نائب ناظم تھے،’’ نوگڈھ کانفرنس‘‘ کو کامیاب بنانے کی غرض سے صدر استقبالیہ کی قیادت مولانا عبدالجلیل رحمانی، مولانا عبدالمبین منظر ، مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجم اور خاکسار پر مشتمل کاروان فکر و عمل نوگڈھ ، مہدیا ، بسالت پور، دارالہدیٰ یوسف پور اور حاجی جوت سے گزرتا ہوا لمبنی گارڈن راج نیپال میں داخل ہوا اور پڑریا ابھراؤں سے گذرتا ہوا دامن ہمالیہ میں بسا’’ پتریا‘‘ پہونچ کر جناب الحاج بابو محمد یونس خاں رئیس پتریا راج نیپال کے دردولت پر قیام پذیر ہوا ، علاقہ مٹکا و راج نیپال کے بھولے بھالے نیک دل صاحب خیر رؤسائے کرام نے جس خلوص بے پایاں سے قافلہ کا خیر مقدم کیا اور نگاہ و دل کو فرش راہ بنا دیا وہ قلب و جگر سے کبھی نہ نکلنے والی حقیقت ثابتہ بن گئی ہے ‘‘۔( السراج خطیب الاسلام نمبر ص: ۵۰۶)
یہ کانفرنس کس حد تک کامیاب رہی اس کو آپ مولاناممدوح ہی کے الفاظ میں پڑھئے مولانا لکھتے ہیں :
’’ اس آل انڈیا کانفرنس کا نظارہ دل بد ذوق بھلانا بھی چاہے تو ممکن نہ ہوگا، ۱۹۴۷ء میں ملک دو منطقوں میں تقسیم ہو گیا تھا اس کے پورے چودہ برس کے بعد یہ آل انڈیا جلسہ عام ایک مختصر بستی میں منعقد ہو رہا تھا، بستی و گونڈہ و سدھارتھ نگر نے عزم و اعتماد کے کوہ آتش فشاں پر چڑھ کر پوری جماعت کو دعوت انقلاب دیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے کشمیر سے لے کر آسام کی پہاڑیوں اور ساحل مدراس و بمبئی سے لے کر ہمالیہ کی چوٹیوں تک کے افراد جماعت دیوانہ وار اس آواز کی طرف بڑھے چلے گئے جو نوگڈھ سدھارتھ نگر کی فضا سے براڈ کاسٹ ہوئی تھی اور صدائے خلیل کی طرح ارض ہند میں گونج گئی تھی ، علماء بستی و بلرام پور کی دعوت خلوص پر جب مشرق و مغرب کے رنگ برنگی قافلے چاروں طرف سے امڈ کر نوگڈھ پہونچنے لگے تو ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا آسمان سے جبرئیل و میکائیل نورانی فرشتوں کے قافلے لئے چلے آرہے ہیں۔
چند دنوں کے لئے یہ دور افتادہ و دیہاتی علاقہ رشک گلزار جنت بن گیا تھا۔ یوپی، بنگال ، و آسام ، بہار و آندھرا پردیش، مدراس و مہاراشٹر، راجستھان و گجرات اور کشمیر تک کے مختلف رنگ و روپ اور مختلف وضع و قطع کے لوگ یہاں آکر ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے اور محبت کے آنسو کدورتوں کے گردو غبار دھورہے تھے حاضرین کا اندازہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد کا تھا جماعت کی تاریخ میں اتنا عظیم الشان اجلاس نہ اس سے پہلے ہوا اور نہ اب آئندہ اس کی امید کی جا سکتی ہے۔ الاان ماشاء اﷲ ۔ کیونکہ بقول اکبر الٰہ آبادی
ترے بعد اکبر کہاں ایسی نظمیں وہ دل ہی نہ ہوں گے کہ یہ آہ نکلے
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی کشش کہئے گا کہ مملکت سعودیہ عربیہ نے اپنے سفیر متعینہ ہند علامہ یوسف فوزان کو مملکت کے نمائندے کی حیثیت سے نوگڈھ بھیجا ورنہ بقول مولانا ذاکر ندوی
ورنہ کہاں نوگڈھ کہاں کی شبستاں (السراج خطیب الاسلام نمبرص: ۵۰۷)
مرکزی جمعیت کی مبلغی: جون ۱۹۶۷ء کوآپ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے مبلغ اور آرگنائزر مقرر کئے گئے، موصوف نے اس وقت منصوبہ بند طریقے سے پورے ہندوستان کا دورہ کیا اور مشرق سے لے کر مغرب تک شمال سے لے کر جنوب تک جماعت کی اکثر بستیوں میں پہونچ کر دعوتی و تنظیمی فریضہ انجام دیا اور اعلائے کلمۃ اﷲ کے لئے سفر کی صعوبتیں برداشت کی، جس کی رپورٹیں اخبارات اہل حدیث و ترجمان دہلی میں بڑے اہتمام کے ساتھ شائع ہوئی ہیں۔
مولانا ممدوح کا حافظہ بڑا قوی تھا، میرے دور طالب علمی میں جامعہ رحمانیہ و جامعہ سلفیہ بنارس میں آپ کئی مرتبہ تشریف لائے اور ہم طلباء جامعہ کو اپنے سحر آفریں تقریروں اور پرسوز نغموں سے مسحور بھی کیا ، دوران تقریر ہندوستان میں اپنے تبلیغی دوروں کا بھی ذکر کبھی کبھار کرتے اور پچاسوں بستیوں اور اسٹیشنوں کے نام بالترتیب بلاجھجک گناتے چلے جاتے، جسے سن کر ہم لوگ حیرت میں پڑ جاتے، کچھ طالب علم بعد نماز مغرب یا عشاء آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور دوبارہ ان بستیوں اور اسٹیشنوں کا نام اور اشعار سننے کی درخواست کرتے اور آپ بلا تکلف لڑکوں کی خواہش پوری کرتے اورطلباء جامعہ کو اپنے اسلاف کی کتابوں کے مطالعہ کی ترغیب بھی دلاتے۔
مرکزی جمعیت سے علاحدگی: مسلسل چھ سال تک آپ مرکزی جمعیت کے مبلغ اور آرگنائزر رہ کر اس سے علاحدہ ہوگئے مولانا لکھتے ہیں:
’’ میں جون ۱۹۶۷ء کو مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کا آرگنائزر منتخب ہوا ، اس کی کارکردگی چھ سال ہے، میں ۹؍مئی ۱۹۷۲ء کو اس ذمہ داری سے سبکدوش ہوگیا۔‘‘
اس طرح ۷؍نومبر ۱۹۵۷ ء سے لے کر ۹؍مئی ۱۹۷۲ء یعنی میری زندگی کا کم و بیش پندرہ سالہ دور جماعتی و ملی خدمات میں گذراہے،اس دوران میری حیات مستعار کارواں دواں قافلہ کس قدر نشیب و فراز اور کیسے مد وجزر کی منزلوں سے گذرا ہے، اسے عرض کرنے کیلئے ایک دفتر عظیم چاہئے ۔ مگر نہ قلم کو داستان طویل قلم بند کرنے کا یارا ہے اور نہ آپ کو سننے کی فرصت بقول شاعر
تھی داستاں دراز بھی اور دل گداز بھی لیکن کہاں یہ دل کہ دیا جائے اس کو طول
گاؤں کے مدرسہ کی ذمہ داری اور ادارہ دعوت دین کا قیام:
مرکزی جمعیت سے سبکدوشی کے بعد آپ نے اپنے گاؤں کے مدرسہ ’’ جامعہ اسلامیہ‘‘ کی ذمہ داری اپنے سر لے کر گھر ہی پر قیام فرمایا، اور مکمل ۹ سال تک اس مدرسہ کی خدمت کی، اور اس دوران مختلف موضوع پر مضامین لکھ کر جماعتی اخبارات و رسائل میں شائع کئے، پھر ۱۹۸۲ء میں مدرسہ کی نظامت سے بر طرف ہو کر ’’ ادارہ دعوت دین ‘‘ قائم کیا اور مکمل طور پر قلمی خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہو گئے اور بہت سی دینی و تبلیغی کتابوں کی تالیف و تصنیف کی، اور اپنے ادارہ دعوت دین سے شائع کیا، مولانا لکھتے ہیں:
’’ جمعیت و جماعت کی مرکزی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کر ۱۹۷۳ء سے لے کر ۱۹۸۱ء یعنی پورے نو سال ’’ جامعہ اسلامیہ ‘‘ کا ناظم رہا، عہد طفولیت سے میری طبیعت کا میلان تقریر و تحریر اور قلمی کدو کاوش کی طرف تھا، اس لئے جماعتی خدمات و تجربات کے بعد ۱۹۸۲ء میں عروج اسلام، فروغ دین متین اور اشاعت کتاب وسنت کی غرض سے میں نے ’’ ادارہ دعوت دین‘‘ قائم کیا ، اس کے تحت بحد ممکن قلمی خدمات انجام پذیر ہیں ، بحمد ہ تعالیٰ ادارہ ہذا عروج وارتقا کی طرف گامزن ہے۔ اب تک ادارہ درج ذیل کتابیں شائع کرکے ملک و بیرون ملک پہونچایا ہے ۔
(۱) متفقہ فتویٰ (۲) منتخبات
(۳) احساسات (۴) گلہائے رنگارنگ
(۵) نظر انتخاب (۶) آہ قائد راجستھان
(۷) دس سوالات (۸) قیاس نامہ
(۹) حرم سے قبلۂ اولیٰ تک
بیماری اور وفات: مولانا نے اپنے معمول کے مطابق ۲۷؍ جولائی ۲۰۰۱ء بروز جمعہ اپنے آفس میں بیٹھ کر کچھ تصنیف و تالیف کا کام کیا اور جب جمعہ کا وقت ہوا تو مسجد تشریف لے گئے سنتیں پڑھیں اور خطبہ دینے کیلئے منبر پر بیٹھے اذان ہوئی خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوئے دوران خطبہ اچانک پیٹ میں شدید درو ہوا فوراً منبر پر بیٹھ گئے لوگوں کو احساس ہوا کہ مولانا کو تکلیف زیادہ ہے فوراً اٹھا کر گھر لائے اور جمعہ کی نماز کے بعد اسپتال لے گئے لیکن مرض بڑھتا گیا اور ۳۱؍جولائی ۲۰۰۱ءْ بروز منگل روح قفص عنصری سے پرواز کر گئی۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
(مولانا) محمد مستقیم سلفی استاذ جامعہ سلفیہ بنارس
ماہنامہ محدث بنارس ستمبر ۲۰۰۲ء
مجاہد ملت حکیم ابوالحسن عبید اﷲ رحمانی رائے بریلوی رحمہٗ اﷲ
(تاریخ وفات: ۲۴؍جنوری ۲۰۰۴ء)
سرخ و سفید رنگ اچھا خاصہ تن و توش قد لمبا ورزشی بدن متشرع داڑھی کشادہ پیشانی جسم پر شیروانی نما گرم اور کوٹ سر پر اونچی دیوار کی ٹوپی، ایک عدد عینک لازمہ کے ساتھ پاٹ دار آواز اور منجھی ہوئی بامحاورہ اردو یہ تھے جماعت اہل حدیث کے مرد مجاہد مشہور جید عالم حکیم پروفیسر عبیداﷲ رحمانی رائے بریلوی ، کشمیری جو اپنی انقلاب انگیز شخصیت اور طاغوتی حکومت پر تیکھے تبصروں کی وجہ سے سنت یوسفی بھی ادا کرچکے تھے اور جیل میں بھی آپ نے اپنی مخصوص وضع قائم رکھی تھی اور بڑی شان سے وقت کے حکمرانوں سے آنکھوں میں آنکھ ڈال کر دو ٹوک بات کرتے تھے
ہزار طوق و سلاسل ہوں لاکھ دارورسن جنوں کو حوصلہ کار آہی جاتا ہے
آپ کے والد محترم کا اسم گرامی جناب مولانا ابوالنعمان عبدالرحمن خاں ڈوکمی تھا آپ اچھے مدرس اچھے خطیب اچھے مصنف اچھے مناظر جلیل القدر عالم اور میاں محمد نذیر حسین محدث دہلوی و شیخ حسین بن محسن یمنی کے شاگردرشید تھے مولانا عبدالرحمن ڈوکمی کے مکمل حالات قارئین کرام اسی کتاب میں پڑھیں گے ، مولانا عبدالرحمن ڈوکمی کو اﷲ تعالیٰ نے تین لڑکوں سے نوازا ہے بڑے پروفیسرعبید اﷲ رائے بریلوی دوسرے حکیم عبید الرحمن تیسرے محمد تھے جو ۱۹۴۷ءمیں پاکستان ہجرت کرگئے تھے اور وہیں جاکر آباد ہو گئے ، حکیم عبیدالرحمن صاحب کا تعلق زندگی بھر علم و حکمت سے تھا مسکن موضع دودھونیاں تھا اورپریکٹس بڑھنی بازار میں کرتے تھے آپ کے پاس دور دراز سے مریض آتے اور آپ کی دست شفا سے فیض یاب ہو کر جاتے روزانہ سینکڑوں مریضوں کو
دیکھتے اور مرض کی تشخیص کر کے اس کے مطابق دوا دیتے ، اﷲ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں بڑی شفا عطا فرمائی تھی وقت نکال کر دعوت و تبلیغ بھی کرتے دودھونیاں بزرگ میں ۱۷؍اکتوبر ۱۹۹۶ء میں وفات پائی اورعظیم مجمع کی موجودگی میں دودھونیاں کے قبرستان میں سپردخاک ہوئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون پروفیسر عبیداﷲ صاحب رائے بریلوی اپنے والد محترم کی طرح جید عالم تھے بہت ہی ذہین و فطین حاضر جواب مناظر تھے زندگی کا ہر لمحہ اعلائے کلمۃ اﷲ و احیائے سنت رسول اﷲ اور ہدایت خلق اﷲ میں گذارا نہایت جری بے باک اور شجاع تھے وعظ و تقریر میں منفرد تھے واضح اور مدلل گفتگو کرتے اﷲ کے سوا کسی کا ڈر خوف ان کے دل میں نہ تھا ،عزیمت استقامت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے سادہ مزاج تھے کھانے پینے اور لباس میں کسی قسم کا تکلف نہ تھا خلیق ، ملنسار ، بلند کردار اور قوم کے سچے ہمدرد تھے ہر اعتراض کا دندان شکن جواب دیتے، اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ایک لڑکا اور چار لڑکیوں سے نوازا ہے آپ کے بیٹے کا اسم گرامی حکیم مولانا عبدالحمید صاحب ہے آپ اپنے والد محترم کے صحیح جانشین ووارث ہیں۔ رائے بریلی میں مطب کرتے ہیں ساتھ ہی میں دعوت و تبلیغ کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں ، میں حکیم مولانا عبدالحمید صاحب کا تہہ دل سے شکر گذار ہوں کہ انھوں نے پروفیسر صاحب کے حالات سے آگاہ کیا۔
پروفیسر صاحب پر فالج کا اٹیک ہوا کچھ دن علیل رہے وقت موعود آپہونچا اور یہ مرد مجاہد مورخہ ۲۴؍جنوری ۲۰۰۴ء کو سفر آخرت پر روانہ ہو گیا اور اس مرد مجاہد کی گرج دار آواز ہمیشہ کیلئے بند ہو گئی رائے بریلی کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
ہمارے بعد اندھیرا رہے گا محفل میں
ہزار شمع جلاؤگے روشنی کیلئے
الہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ
(عبد الرؤف خاں ندوی تلسی پور بلرام پور)
دادا کا نام: مولانا ابو انعمان عبدالرحمن خاں ڈوکمیؒ
شاگرد سید نذیرمحمد حسین صاحب محدث دہلویؒ و شیخ حسین بن محسن یمنیؒ
مولانا عبدالرحمن صاحب نے سیدمحمد نذیر حسین صاحب محدث دہلویؒ کے حکم پر ڈوکم سے رائے بریلی سکونت اختیار کی۔
والد محترم جناب مولانا حکیم ابوالحسن عبیداﷲ رحمانی رائے بریلوی کی سن ولادت ۱۹۳۲ء ۱
مقام پیدائش : رائے بریلی
ددھیال: محمد نگر ، ڈوکم، تحصیل بانسی ، ضلع بستی (یو۔پی)
ننھیال : رائے بریلی (یو۔پی)
تعلیم: ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم مولانا عبدالرحمن صاحب سے گھر پر حاصل کی اس کے بعد جامعہ رحمانیہ دہلی میں داخلہ لیا ۔فراغت حاصل ہونے سے قبل ہی مدرسہ رحمانیہ تقسیم ہند و پاک کے بلووں کی ندر ہوگیا لہذا اس کے بعد تکمیل کے لئے مدرسہ سعیدیہ بنارس میں مولانا ابوالقاسم سیف
۱ پروفیسر عبیداﷲ رحمانی رائے بریلوی ماہنامہ محدث بنارس مارچ۱۹۸۴ء کے اپنے ایک انٹر ویو میں فرماتے ہیں کہ میری پیدائش ۱۹۲۰ء یا ۱۹۲۱ء میں موضع دودھونیاں متصل بڑھنی بازار ضلع سدھارتھ نگر میں ہوئی، ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم مولانا عبدالرحمن ڈوکمی سے حاصل کی اس کے بعد دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں تیسری جماعت میں داخلہ لیا اور شیخ عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری و مولانا نذیر احمد رحمانی املوی سے کسب فیض کیا اسی درمیان ملک کی آزادی کا انقلاب برپا ہوا اور رحمانیہ مرحوم ہوگیا ، دونوں بزرگوں نے چھٹی جماعت کی سند دی ، یہاں سے مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی رحمہ اﷲ کی خدمت میں بنارس چلا آیا اور یہیں سے تکمیل کی ، استاذمحترم مولانا سیف بنارسی فرمایا کرتے تھے کہ ۴۵ سال سے میں بخاری و مسلم پڑھا رہا ہوں لیکن وہ بات پیدا نہیں ہوئی جو عبید اﷲ نے کردی اگر میں یہ کہوں کہ عبیداﷲ نے میرے اندر جوانی کی روح پھونک دی تو غلط نہ ہوگا۔
بنارسی ؒ سے تکمیل کی اور دوران تعلیم اور بعد فراغت بھی دادا جان مولانا عبدالرحمن ڈوکمی سے برابر استفسادہ کرتے رہے۔
اس کے بعد تقریباً تین سال تک مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڈھ میں شیخ الحدیث والفقہ کے منصب پر فائز رہے۔ ۱
بعد ازاں دین کوپیشہ نہ بنانے کے خیال کے تحت آپ نے لکھنؤ طبیہ کالج ۲ سے علم طب کی تکمیل کی اور اسی دوران مشہور اطباء لکھنؤ(حکیم عبدالحلیم صاحب حکیم خواجہ شمس الدین احمد، حکیم عبدالمعید صاحب، حکیم شکیل احمد صاحب وغیرہ)سے طبی استفادہ کرتے رہے اور طب یونانی میں مہارت حاصل کرلی ، طبیہ کالج سے فراغت کے بعد پانچ سال لکھنؤ طبیہ کالج میں لکچرار کی حیثیت سے کام کرتے رہے ، اس کے بعد ۱۹۶۱ء میں طبیہ کالج سرسار میں پروفیسر آف انا ٹوی اینڈ سرجری کی حیثیت سے آپ کا تقرر ہوا اور تین سال یہ خدمت انجام دی۔
اسی دوران کشمیری مسلمانوں کی ایک عوامی تحریک میں سر گرم حصہ لینے اور حکومت ہند کی ظالمانہ اور غیر منصفانہ رویے پر سخت تنقید کے جرم میں سروس سے برخواست کردئیے گئے ساتھ ہی حکومت کی طرف سے بحالی کی یہ شرط بھی رکھی گئی کہ دوبارہ آپ حکومت ہند کے خلاف اپنی زبان بند رکھیں لیکن والد صاحب نے حکومت کی یہ پیشکش ٹھکرادی ۔ اس کے بعد اسی جرم میں ۱۹۷۱ء میں سات ماہ جیل کی ہوا بھی کھائی ۳ جیل کے اندر بھی نماز ، جمعہ درس قرآن و حدیث خصوصاً جہاد فی
۱ تکمیل کے بعد مولانا عبید اﷲ رحمانی اپنے استاذ مولانا سیف بنارسی کے حکم پر مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں شیخ الحدیث کے منصب پر ۱۹۴۸ء سے تا ۱۹۵۱ء فائز رہے ۔(عبدالرؤف خاں ندوی)
۲ ۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۵ء تک طبیہ کالج لکھنؤ میں علم طب کی تکمیل فرمائی۔(عبدالرؤف خاں ندوی)
۳یہ ۱۹۷۱ء کی بات ہے جو مولانا کی زندگی کا حیرت انگیز اور عبرتناک واقعہ مولانا کی جیل یاترا ہے یہ ۱۹۷۱ء کی بات ہے کہ ہندوستان کے ممبران پارلیمنٹ نے وزیر اعظم اندرا گاندھی پر زور دیا کہ بنگلہ دیش (بقیہ اگلے صفحہ پر)
سبیل اﷲ پر اور ساتھ ہی حکومت پر نکتہ چینی برابر جاری رہی ابتدا میں حکومت نے عمر قید اور تہاڑ جیل منتقلی کی دھمکی بھی دی لیکن جب یہ حربہ نا کام رہا تو حکام نے غیر مشروط طور پر رہا کردیا اور ساتھ ہی رہائی کی وجہ بھی بتلادی کہ جیل قیدیوں کو سدھارنے کے لئے ہوتا ہے نہ کہ بگاڑنے کے لئے ۔ لہذا جیل کا ماحول نہ خراب کریں جو کرنا ہے باہر جا کر کریں ، اس کے بعد بھی اندرا گاندھی کے دور میں جب ایمر جنسی لاگو تھی اس وقت بھی ہندوستان میں متعدد مقام پر بڑے بڑے جلسوں کو خطاب کیا اور حکومت کی غلط پالیسیوں کو سختی سے نشانہ بنایا لیکن اﷲ نے ہر مصیبت اور آزمائش سے محفوظ رکھا۔
سروس ختم ہونے کے بعد گذر بسر صرف اپنی پرائیویٹ پرکٹس رہی ۱۹۸۷ء میں مولانا مختار احمدندویؒ کے مالیگاؤں طبیہ کالج میں تین سال ان کی خواہش پر محمدیہ طبیہ کالج اینڈ سابر ہاسپٹل میں طبیب کی حیثیت سے خدمت انجام دی اس کے بعد آخری وقت تک رائے بریلی ہی میں مقیم
(پچھلے حاشیہ کا بقیہ )کے حالات کو دیکھتے ہوئے وہاں مداخلت ضروری ہے مولانا عبید اﷲ رحمانی صاحب کو یہ بات سوجھی کہ یہ مسلمانوں کو ایک طرح کا طعنہ دیا جارہا ہے کہ انھیں ملک وقوم سے کوئی لگاؤ نہیں ہے مولانا نے کہا کہ یہ تمام مشورے غلط ہیں کوئی مشورے خیر اندیشی پر مبنی نہیں سب میں جذباتیت کی آمیزش ہے اور مولانانے بحیثیت ایک مسلمان ہندوستان کی اپنی تقریروں میں کہنا شروع کردیا کہ اندرا جی آپ کا الزام بالکل غلط ہے اور پارلیمنٹ کے فاضل ممبران نے جتنے مشورے دئیے ہیں ان میں سے کوئی صحیح نہیں ہے میرا مشورہ محفوظ رکھیں کہ ہندوستان بنگلہ دیش میں مداخلت کرکے چین سے نہیں رہ سکتا اور بنگلہ دیش ہمیشہ ہندوستان کے ہاتھ میں نہیں رہ سکے گا اور ایسا ہی ہوا بھی واقعات نے اس کی تصدیق کی کہ ۱۹۷۵ء میں بنگلہ دیش مجیب کے قتل کے ساتھ ہی ہندوستان کے ہاتھوں سے نکل گیا غرض اتنی سی بات تھی اور یہی جرم بے گناہی تھا جس کی بناپر مجھے ۱۳؍جولائی ۱۹۷۱ء کو قومی سلامتی ایکٹ کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ (مولانا عبید اﷲ رحمانی رائے بریلوی کے ایک انٹرویو سے ماخوذ ماہنامہ محدث بنارس مارچ ۱۹۸۴ء) عبدالرؤف خاں ندوی
رہے انتقال سے سات سال قبل فالج کا زبر دست حملہ ہوا ،اور پھر انتقال تک صاحب فراش ہی رہے ۔ اور بالآخر ۲۴؍جنوری ۲۰۰۴ء میں اسی مرض میں وفات پائی۔
قوت مناظرہ بھی اﷲ نے زبردست دی تھی پہلا مناظرہ ۱۹ سال کی عمر میں تنہا مولانا رفاقت حسین اور اس کے پانچ معاون علماء کے ساتھ کیا۔ موضوع علم غیب تھا۔ بریلوی مناظرین کو شرمناک شکست ہوئی، اور بہت سے لوگوں نے اس باطل عقیدے سے توبہ کرلی ، یہ مناظرہ کریمن پور پرتاب گڈھ میں ہوا تھا۔ ایک مناظرہ جودھپور میں منکرین حدیث سے ہوا ،اور فریق مقابل نے شکست کھائی اس کے علاوہ کچھ اور بھی مناظرے ہوئے جن کی تفصیلات مجھے یاد نہیں ہیں ۔
ایران کے بڑے شیعہ علماء سے مسئلہ خلافت پر بھی ایک سال برابر تحریری مناظرہ چلتا رہا اور بالآخر بہت سے حقائق کا انھوں نے اعتراف بھی کیا۔
والد صاحب تقریباً بیس سال تک جماعت اسلامی کی(انکی فعالیت کی بنا پر) بے لوث تائید اور حمایت کرتے رہے ، ان کے زیر اثر بہت سے اہل حدیث حضرات نے جماعت اہل حدیث سے تعطل اور بے عملی کی وجہ سے جماعت اسلامی سے ناطہ جوڑ لیا۔ لیکن بعد میں جب جماعت اسلامی کی سیاسی (الیکشن) بے راہ روی دیکھنے کا موقع ملا اور ان کے قول و فعل کا تضاد عیاں ہوا اور قیام پاکستان کے وقت سے اس جماعت کا جو نعرہ اور منشور رہا ہے اب سیاست کے گندے نالے میں کودنے کے بعد اس کو بھی بالائے طاق رکھ دیا گیا اور جس طاغوت سے جماعت اسلامی عوام الناس کو آج تک ڈراتی اور خوف دلاتی رہی وہی طاغوت ان کا ہم پیالہ ہم نوالہ بن گیا ہے۔ اور اس جماعت کا واحد مقصد دین کو آڑبناکر طاغوتی اور باطل حکومتوں میں حصہ داری ہے۔
اور ان کے اکابرین کے سر پر ایساسیاسی بھوت سوار ہے کہ کسی طرح اصلاح قبول کرنے کے موڈ ہی میں نہیں ہیں بلکہ اپنی ضلالت پر مصر ہیں۔
اور سیاسی مفادات کیلئے ہر باطل اور اسلام دشمن طبقے خواہ وہ شیعہ ہوں یا بریلوی ہوں قارورے سے قارورہ ملانے کو تیا رہیں تو ان کو اپنی غلطی اور فریب خوری کا احساس ہوا اور پھر جماعت اسلامی سے مکمل اظہار برأت کرتے ہوئے﴿ تعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان﴾ اور من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ (الخ) کے اصول کے تحت) ایک کتاب’’ اسلامی سیاست یا سیاسی اسلام‘‘ لکھی جو الحمدﷲ کافی مقبول بھی ہوئی اور عوام کو جماعت اسلامی کے موقف سے مکمل آگاہی ہوئی ۔ اور ساتھ ہی ساتھ اپنی تقاریر کے ذریعہ بھی یہ پیغام پہونچانے کی کوشش کی۔ تقبل اﷲ مساعیہم
(ڈاکٹر) عبدالحمید خاں ولد حکیم عبیداﷲ رحمانی
رائے بریلی
۲۷؍مئی ۲۰۱۳ء
٭٭٭
مولانا عبدالرحمن رحمانی رحمہٗ اﷲ تھارو بھوجپور( گینسڑی)
(سال وفات: ۲۰۰۴ء)
دنیا میں جو آیا ہے وہ جانے کیلئے ہی آیا ہے یہ ایک ایسا اٹل قانون قدرت ہے جس میں تبدیلی ممکن نہیں ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے دنیا میں بے شمار ذی روح حضرات بود و باش اختیار کئے ہوئے ہیں حضرت انسان کی حیثیت ان میں اشرف المخلوقات کی ہے اور صاحب ایمان کا درجہ تو انسانوں میں سب سے افضل و برتر ہے اور صاحب ایمان لوگوں میں ایسا صاحب ایمان جو علوم ربانی یعنی شریعت اسلامیہ کے علوم کا حامل ہو اور اس کا عامل بھی ہو درجہ کے اعتبار سے اپنے عام لوگوں پر فضیلت رکھتا ہے ایسے ہی لوگوں میں ہمارے علاقے کے بزرگ عالم دین جناب مولانا عبدالرحمن رحمانی تھے۔
تاریخ پیدائش و ابتدائی تعلیم: مولانا رحمانی بسکوہر بازار میں تقریباً ۱۹۲۰ء میں ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے اور یہیں پر ابتدائی تعلیم کی تکمیل فرمائی اعلیٰ تعلیم کیلئے دارلحدیث ۱ رحمانیہ دہلی کا رخ کیا وہاں کئی سال رہ کر ماہر اساتذہ سے علم کی پیاس بجھائی ۔
بسکوہر بازار ایک قدیم تاریخی اور تجارتی منڈی ہے یہ قصبہ ہمیشہ سے بڑا مردم خیزرہا ہے یہاں بہت سے علماء فضلاء صلحاء پیدا ہوئے بحمد اﷲ ہر دور میں علماء کی تعداد زیادہ ہی رہی ہے
۱ دارلحدیث رحمانیہ دہلی کے بانیان شیخ عبدالرحمن و شیخ عطاء الرحمن تھے ان دونوں بھائیوں نے شوال ۱۳۳۹ھ مطابق ۱۹۲۱ء میں دہلی باڑہ ہندو راؤمیں دارالحدیث رحمانیہ قائم کیا تھا یہ درسگاہ پورے ملک میں تحریک اہل حدیث اور احیائے کتاب و سنت کا ایک مضبوط مرکز بن گیا اس نے علم دین کی حفاظت واشاعت کیلئے جلیل القدر علماء پیدا کئے جن کی بدولت تحریک اہل حدیث ایک نئے دور میں داخل ہوکر مزید اہمیت کی حامل ہو گئی اس درسگاہ نے مختصر مدت میں اتنے مفسر ، محدث، محقق، مفتی، مناظر ،مورخ خطیب ، صحافی ، ادیب اور شیخ الحدیث پیدا کئے جس کی مثال ملنا مشکل ہے سچ ہے
اسلئے ایک محلہ مولوی گنج کے نام سے جانا جاتا ہے اسی محلہ کے قبرستان میں علامہ اﷲ بخش بسکوہری رحمہ اﷲ کی آخری آرام گاہ بھی ہے اس قصبہ کی خصوصیت یہ ہے کہ مسلک اہل حدیث کے علاوہ کسی دوسرے مکتب فکر کا وجود نہیں ہے ہندوستان میں علامہ اﷲ بخش بسکوہری و علامہ عبدالغفور بسکوہری اور حفیظ ثانی مولانا ذکر اﷲ ذاکر ندوی کی علمی جلالت سے بسکوہر بازار کا بہت شہرہ ہوا درحقیقت بسکوہر کی شہرت توحید و سنت کی مرکزیت علم و حکمت اور ادب و ثقافت کے ذخائر کی وجہ سے ہے ۔
علامہ اﷲ بخش بسکوہرکی بر گزیدہ ہستی اس خطے کی ہدایت کا ذریعہ ہوئی۔ آپ کا میاں محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے ارشد تلامذہ میں شمار ہوتا ہے تعلیمی فراغت کے بعد بسکوہر بازارتشریف لائے اور یہیں سے درس و تدریس دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا تقریباً پچاس برس تک اپنے فیوض سے اہل علاقہ کو فائدہ پہونچاتے رہے اور ہزاروں گھروں کو مشرکانہ عقائد سے تائب کراکے
(بقیہ پچھلے صفحہ کا)راقم نے اپنی کتاب کاروان سلف حصہ اول میں دارالحدیث رحمانیہ دہلی کے کئی فیض یافتگان کی حیات و خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اس کتاب کے حصہ دوم میں بھی کئی جلیل القدر علمائے کرام کے اسماء گرامی شامل اشاعت ہیں دارالحدیث رحمانیہ مرحوم کا رقبہ نو سو گز تھا ایک وسیع اور شاندار بلڈنگ اور طلبہ کی رہائش کیلئے ۳۵ کشادہ اور ہوا دار کمرے تھے درس و تدریس کے لئے آٹھ وسیع کمرے تھے جس میں بجلی پانی کا معقول انتظام تھا مدرسہ کے جنوبی حصہ میں ایک بڑا ہال تھا جس میں سالانہ امتحان و دیگر خاص جلسے منعقد کئے جاتے تھے ایک وسیع مطبخ بھی علےٰحدہ تھا عمارت کے بالائی حصہ میں ایک شاندار مثالی کتب خانہ کی عمارت تھی جس میں عربی ، فارسی اور اردو و دیگر عناوین پر ہزاروں کتابیں موجود تھیں مدرسہ کے مغربی جانب ایک شاندار وسیع خوبصورت مسجد تھی مسجد اور درسگاہ کے درمیان طلبہ کے ورزش کیلئے ایک سبزہ زار بنا ہوا تھا جس کے چاروں طرف پختہ دیوار تھی اور یہ تمام تعمیری اور دیگر اخراجات دہلی کے دو تاجر فراخ حوصلہ دریا دل بھائیوں شیخ عبدالرحمن متوفی ۱۹۲۳ء و شیخ عطاء الرحمن متوفی ۱۹۹۱ء نے برداشت کئے واضح رہے کہ شیخ عبدالرحمن درسگاہ کے قیام کے دوسال بعد انتقال فرماگئے ان کے صاحبزادے اور شیخ عطاء الرحمن مکمل اخراجات ۱۹۴۷ء تک برداشت کرتے رہے اﷲ تعالیٰ ان کے اعمال حسنہ کو شرف قبولیت بخشے اور رحمت کی بارش برسائے اور جنت میں ان کا کشادہ مسکن ہو ۔ (آمین یا رب العالمین)(عبدالرؤف خاں ندوی)
توحید و سنت کا پابند کیا ۔
علامہ عبدالغفور بسکوہری رحمہ اﷲ ۱ کا اپنے وقت کے اجلہ علماء میں شمار ہوتا تھا انھیں استاذ الاساتذہ کا خطاب ملا ان کے علم و فضل علمی وجاہت کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی کہ انھوں نے ملک کے کئی مشہور ادارے خصوصاًً دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں علمی مسند سجائی اور سینکڑوں طلبہ کو علم سے سیراب کیا عظیم ادیب عربی فارسی اور اردو پر پوری قدرت تھی بسکوہر بازار نے کئی رحمانی عالم دین دیئے اور وہ ملک کے مختلف خطے میں جاکر آباد ہوئے اور وہاں پر توحید و سنت کا چراغ جلایا اور لوگوں کو اسلام کو سیدھی راہ پر گامزن کیا ۔
مولانا محمد صدیق رحمانی رحمہ اﷲ کا آبائی گھر بسکوہر تھا تعلیمی فراغت کے بعد وساکھا پٹنم آندھرا پردیش مع اہل و عیال جاکر آباد ہو گئے کئی برسوں سرکاری ادارہ سے منسلک رہنے کے ساتھ ساتھ دعوت و تبلیغ سے ایک لمحہ بھی غافل نہ رہے پوری زندگی درس و تدریس ، دعوت و تبلیغ، امامت و خطابت میں صرف کردی پندرہ سال تک صوبائی جمعیۃ اہل حدیث آندھرا پردیش کے امیر جماعت رہے اسی طرح مولانا محمد صدیق رحمانی کے چھوٹے بھائی حکیم مولانا عبدالحق رحمانی مع اہل و عیال جاکر تھرولی (گینسڑی) آباد ہو گئے حکمت کے ساتھ دعوت و تبلیغ آپ کا خالص مشن تھاعلاقے میں معلوم نہیں کتنی مسجدیں اور مدارس قائم کئے جہاں پر قال اﷲ وقال الرسول کی صدائیں گونجتی ہیں اسی طرح مولانا عبدالشکور شاکررحمانی مع اہل و عیال جاکر اترولہ میں آباد ہو گئے زبردست صلاحیت تھی
۱ علامہ اﷲ بخش بسکوہری ، رعلامہ محمد اظہر بہاری ،علامہ عبدالغفور بسکوہری ، مولانا ذکراﷲ ذاکر ندوی مولانا عبدالحق رحمانی ، مولانا محمد صدیق رحمانی مولانا عبدالجبار رحمانی ، مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگری ، حکیم مولانا محمد اسحق رحمانی ، مولانا محمد زماں رحمانی مولانا عبدالجلیل رحمانی شیخ الحدیث عبید اﷲ رحمانی ،مولانا نذیر احمد رحمانی ،مفسر قرآن مولانا عبدالقیوم رحمانی ، مولانا محمد اقبال رحمانی مولانا ابوالعرفان محمد عمر سلفی، امام الفرائض مولانا عبدالرحمن بجوائی رحمہم اﷲ کے حالات کیلئے راقم کی کتاب کاروان سلف حصہ اول ملاحظہ فرمائیں۔(عبدالرؤف خاں ندوی)
محمد یوسف انٹر کالج عثمانی اترولہ سے ریٹائر ہونے کے بعد کئی عظیم دینی اداروں میں درس و تدریس دعوت و تبلیغ میں پوری زندگی صرف کردی اترولہ ہی میں فوت ہوئے اور وہیں آپ کی آخری آرام گاہ ہے۔ تغمدہ اﷲ برحماتہ
اسی طرح ہمارے مولانا عبد الرحمن رحمانی رحمہ اﷲ کا آبائی وطن بسکوہر تھا دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے تعلیمی فراغت کے بعد مع اہل و عیال گینسڑی بازار سے شمال و پورب جانب موضع تھارو بھوجپور آکر آباد ہوگئے اور یہاں پہونچ کر گاؤں والوں کی مدد سے ایک مدرسہ قائم کیا زندگی بھر اس کی آبیاری کرتے رہے بعد کے ادوار میں مدرسین کی پوری تنخواہ مولانا کے لڑکے سیٹھ محفوظ الرحمن صاحب اپنے جیب خاص سے ادا کرتے تھے مولانا انتہائی نیک صالح خلیق،وملنسار تھے سادہ زندگی بسر کرتے اور عوام میں گھل مل کر رہتے مولانا ایک عالم باعمل متقی پرہیز گار تھے زہدوقناعت کے پیکر احکام شرع کے پابند علم اور علماء کے قدر دان تھے آپ خلاف شرع کے کاموں کو نہ تو پسند کرتے بلکہ کرنے والوں کو فوراً سخت نکیر کرتے تھے مولانا عبدالرحمن رحمانی نے ناموافق حالات میں دینی علوم کی ترویج و اشاعت کا اہتمام کیا مولانا مشہور سلفی المسلک عالم تھے مسلکی غیرت کوٹ کوٹ کر بھری تھی اتباع سنت ان کا شیوہ، صالحیت ان کی پہچان اور قرآن و حدیث سے قلبی تعلق ان کا تعارف تھا ان بزرگوں کی دینی و ملی وجماعتی جدو جہد ،ایثار و قربانی کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا اﷲ تعالیٰ ان بزرگوں کی خدمات کو قبول فرماکر اس کا بھر پور صلہ مرحمت فرمائے۔(آمین)
اولاد: مولانا مرحوم نے دو شادیاں کی تھیں پہلی بیوی سے دو لڑکے ہیں ، فضل الرحمن اور حبیب الرحمن ۔ حبیب الرحمن عین جوانی میں انتقال کر گئے سیٹھ فضل الرحمن خاں با حیات ہیں اور دوسری بیوی سے اﷲ نے تین لڑکوں اور دو لڑکیوں سے نوازا ہے ۔ لڑکوں کے نام سیٹھ محفوظ الرحمن خاں وسیم احمد خاں اور جاوید احمد خاں ہیں مولانا کے سبھی اولاد کی پرورش و پرداخت تعلیم و تربیت دینی ماحول میں ہوئی ہے اور ان کے گھر کے تمام فیملی پر دینی ماحول کاغلبہ ہے سبھی اخلاق کے اعلیٰ نمونہ احکام شرع کے پابند ہیں، اور سیٹھ محفوظ الرحمن سلمہ اﷲ غریبوں، یتیموں، معذوروں،حاجت مندوں کے مسیحا ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ نے جس طرح مال و دولت سے نوازرکھا ہے اسی طرح دریا دلی کا ثبوت بھی دے رہے ہیں مولانا کے سبھی لڑکے سعادت مند اور خوشحال ہیں یہ مولانا کی نیکیوں کا ہی ثمرہ ہے۔
وفات: مولانا عرصہ سے بیمار چل رہے تھے وقت اجل آپہونچا افسوس علم و فضل کا وہ نےّر تاباں جو افق سرزمین بسکوہر سے طلوع ہوا تھا وہ پاٹیشری نگر کواپور میں ۲۰۰۴ء ہمیشہ ہمیش کیلئے غروب ہو گیا ، انا ﷲ وانا الیہ راجعون
مولانا مرحوم کی وصیت کے مطابق مولانا عبدالحق رحمانی کے بڑے لڑکے مولانا شمیم احمدسلفی تھرولی کی امامت میں ہزاروں سو گواروں نے نماز جنازہ ادا کی اور پا ٹیشری نگر کواپور کے قبرستان میں مولانا عبدالجبار رحمانی کے پہلو میں تدفیق عمل میں آئی۔ اﷲ تعالیٰ مولانا کی دینی و ملی خدمات کا صلہ عطا فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین)
اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور، بلرام پور
(یوپی )
یکم دسمبر ۲۰۱۳ء
مولاناعزیز احمد ندوی رحمہٗ اﷲ
(تاریخ وفات: ۲۷؍اپریل ۲۰۰۵ء)
کل من علیہا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام (الرحمن: ۲۶۔۲۷)
زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی۔
مولانا عزیز احمد ندوی رحمہ اﷲ خاندان کنڈؤ بونڈھیار کے چشم و چراغ تھے بونڈھیار کے قریب موضع علی گنج تحصیل اترولہ ضلع بلرام پور کے رہنے والے تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ سراج العلوم بونڈھیار میں پائی اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا رخ کیا وہاں پر کئی سال تک علم کی پیاس بجھا تے رہے اور ممتاز نمبرات سے عا لمیت و فضیلت کی سند حاصل کی۔
تعلیمی فراغت کے بعد ایک لمبی مدت تک جامعہ رحمانیہ بنارس کے صدر مدرس کے عہدے پر فائز رہے ، آپ ایک کامیاب مدرس تھے اسماء الرجال پر آپ کی گہری نظر تھی فن نحو و صرف وادب میں آپ کو بڑی مہارت تھی ۔
سب سے بڑی بات یہ تھی کہ آپ کے ہر کام میں خلوص کار فرما ہوتا ،قناعت و استغنا آپ کی فطرت ثانیہ تھی، زہد و ورع خشیت و ﷲیت اور تقویٰ و راست باڑی و حق گوئی میں اپنی مثال آپ تھے درس و تدریس کا صحیح معنوں میں حق ادا کرتے تھے تفسیر حدیث اور فقہ میں درّ یکتا تھے تو منطق و فلسفہ اور دیگر علوم عقلیہ میں ہم عصر علماء پر برتری حاصل تھی دوران درس میں ایسے ایسے نکات بیان کرتے کہ طلبہ ان کے گرویدہ ہو جاتے ، اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ کردار کے لحاظ سے آپ اپنا جواب نہیں رکھتے تھے سادگی ضبط و تحمل خلوص ووفا جیسے صفات آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے آپ کی ذات مجسمہ صبر و شکیب تھی۔
ندوی صاحب ہر دلعزیز اور مرنجان مرنج اور جاذب شخصیت کے مالک تھے سب کو فائدہ پہونچانے کی کوشش کرتے موصوف نہ صرف اپنے گاؤں ،خاندان اپنے احباب ورفقاء میں ہر دلعزیز اور محبوب تھے بلکہ جس ادارہ میں کام کئے وہاں کے ذمہ داران کی نظر میں بھی بہت مقبول تھے۔ آپ کی تندہی جانفشانی ، جفاکشی اور امانت داری سے بھی متاثر تھے اور اپنی ان خوبیوں کی بنیاد پر آپ نے سب کے دل میں اپنا مقام پیدا کر لیا تھا ، ندوی صاحب نے اپنے پیچھے سینکڑوں کی تعداد میں شاگرد چھوڑے ہیں ، جنھوں نے ان سے قرآن و حدیث کا درس لیا اور وہ اب مختلف مقامات میں یا تو درس و تدریس میں مصروف ہیں یا دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ، ندوی صاحب کیلئے یہ مستقل صدقہ جاریہ ہے۔
جامعہ رحمانیہ بنارس سے ریٹائر ہو نے کے بعد آپ ڈومریا گنج کے ایک معروف ادارہ جامعہ اسلامیہ خیر العلوم میں کئی سال تک بحیثیت صدر مدرس تدریسی فریضہ انجام دیتے رہے ۔ جب آپ کی صحت خراب ہو گئی تو آپ جامعہ کے تدریسی فرائض سے سبکدوش ہو کر اپنے گھر پر سکونت پذیر ہو گئے کچھ دنوں کے بعد آپ پر فالج کا حملہ ہوا آپ اسی بیماری کے سبب مورخہ ۲۷؍اپریل ۲۰۰۵ء بروز بدھ جاں بحق ہو گئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
اور اسی دن بعد نماز ظہر ایک عظیم مجمع کی موجودگی میں آپ کو آپ کے آبائی قبرستان علی گنج بونڈھیار میں سپرد خاک کردیا گیا۔ سچ ہے
موت سے کس کو رستگاری ہے آج ان کی تو کل تمہاری باری ہے
اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ و اکرم نزلہ ووسع مدخلہ
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور - بلرام پور یوپی
حضرت العلام مولانا شکر اﷲ فیضی رحمہٗ اﷲ
(تاریخ وفات: ۳۰؍اگست ۲۰۰۵ء)
تقلید شخصی اسلامی روح کے منافی ہے مگر شخصیت فراموشی اور بڑوں کا احترام و اکرام نہ ہونا بھی اسلامی اقدار کی پامالی ہے۔ اسلئے علمائے دین و صلحائے امت کا تذکرہ ضروری ہے تاکہ ان کے علم و عمل اور سیرت و کردار سے عبرت حاصل کرکے ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق حاصل ہو اور ہم بھی ملک و معاشرے میں لوگوں میں رشد و ہدایت کاکام کرسکیں ۔ اسی جذبے نے احقر کو مہمیز کیا کہ اپنے بزرگ استاذ کی حیات وخدمات کو حیطۂ تحریر لاکر ’’اذکرو محاسن موتاکم‘‘ کا مصداق بنے۔
میرے قابل قدر اساتذہ میں حضرت العلام مولانا شکراﷲ فیضی صاحب سر فہرست ہیں۔ سچ تویہ ہے کہ آپ ہی کی دعاؤں ،شفقتوں اور رہنمائیوں نے خاکسار کے اندر علوم دینیہ کے حصول کی راہ ہموار کی جس سے خاکسار کے اندر دینی، علمی شد بد ہوئی ورنہ :
کہاں میں اور کہا ں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ
مولد و مسکن: موضع ٹکریا ضلع سدھارتھ نگر کے تحصیل ڈومریا گنج سے تقریباً آٹھ کلو میٹر پورب ایک مردم خیز گاؤں ہے اس گاؤں میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب تقریباً نوے فیصد ہے اسی گاؤں میں آپ ۱۹۲۱ء میں پیدا ہوئے اور نشو نما ہوئی۔ آپ کا شجرۂ نسب یہ ہے :
شکر اﷲ بن حشم اﷲ بن محمد فاضل بن سعدی رحمہم اﷲ ۔
تعلیم و تربیت: مولانا کے والدین نیک طینت و نیک سیرت تھے والد گرامی اگر دین کے شیدائی تھے تو والدہ محترمہ بیشتر اوقات تسبیح و تہلیل میں گذارتی تھیں ۔ اسی لئے انھوں نے آپ کو دینی تعلیم دلوانے کی ٹھان لی اور اس کے لئے چھ سال کی عمر میں ہی دو ایسے بزرگ اساتذہ کی تربیت میں دیا جو ضلع میں اپنا ایک دینی و علمی مقام رکھتے تھے اور حامی سنت و قامع بدعت و ضلالت تھے ایک سید الطائفہ مولانا سید ممتاز علی ندوی نور اﷲ مرقدہٗ اور دوسرے ان کے چھوٹے بھائی حکیم حاذق، سید اقبال حسین رحمہ اﷲ تھے۔ ان بزرگوں سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دو سال مدرسہ سراج العلوم بونڈھیار میں تعلیم حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے مدرسہ فیض عام مؤ ناتھ بھنجن تشریف لے گئے یہاں جماعت ثانیہ سے لے کر جماعت ثامنہ تک تعلیم حاصل کی، بیچ میں ایک سال کیلئے مدرسہ دارالقرآن والحدیث حاجی علی جان دہلی چلے گئے پھر وہاں سے لوٹ کر مدرسہ فیض عام مؤ تشریف لائے اور یہیں سے ۱۹۳۸ء میں فراغت حاصل کی۔ آپ کی فراغت کے سال مدرسہ فیض عام مؤ کا ایک بڑا دینی اجلاس ہوا جس میں میدان مناظرہ کے شہسوار، فاتح قادیان علامہ ثناء اﷲ صاحب امرتسری رحمہ اﷲ اور حضرت مولانا حافظ محمد ابراہیم سیالکوٹی رحمہ اﷲ جیسی قدآور ہستیاں شریک تھیں انہیں بزرگوں کے ہاتھوں آپ کی دستاربندی عمل میں آئی۔ مولانا نے اپنی خود نوشت مختصر سوانح میں تحریر فرمایا ہے ’’ مدرسہ فیض عام مؤ کا تذکرہ بڑے والہانہ انداز میں کرتے اور ناظم مولانا محمد احمد صاحب رحمہ اﷲ کی نظامت ، دیانت داری ، مدرسہ کی تعمیر و ترقی میں لگن کے واقعات سے آنکھوں کو پُر نم بنا دیتے اور خود بھی آبدیدہ ہو جاتے۔
آپ نے مولوی، عالم، فاضل الٰہ آباد کے امتحانات بھی اچھے ڈویزن سے پاس کیا نیز اعلیٰ قابلیت اردو کا معیاری امتحان دے کر ڈگری حاصل کی۔
اساتذہ : آپ نے جن اساتذہ سے کسب فیض کیا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: حضرت العلام سید الطائفہ مولانا ممتاز علی ندوی نوراﷲ مرقدہٗ ،حکیم حاذق مولانا سید اقبال حسین رحمہ اﷲ ، مولانا سلیمان رحمہ اﷲ ، مولانا محمد ےٰسین ، مولانا عبدالعلی، قاری عبدالسبحان، امام النحو مولانا عبدالرحمن، فاضل و ادیب مولانا عبداﷲ شائق، مولانا احمد بن ملا حسام الدین (بڑے مولوی صاحب) اور مولانا عبدالسلام رحمہم اﷲ ۔
ان اساتذہ میں اکثر جامعہ فیض عام مؤ کے اساتذہ ہیں۔ مرحوم مولانا عبداﷲ شائق شاعر اردو، فارسی و عربی، میاں صاحب شیخ الکل فی الکل کے شاگرد رشید حضرت مولانا احمد بن ملا حسام الدین اور مولانا عبدالرحمن نحوی کے بڑے مداح تھے۔
جامعہ فیض عام میں تدریسی خدمات پر مامور ہونے کے بعد خاکسار جب گھر جاتا اور مولانا سے ملتا تو ان اساتذہ کی خوبیوں اور صلاحیتوں کو ایسے موثر اور بلیغ انداز میں ذکر فرماتے لگتا تھا کہ وہ مرحومین ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھردے آمین۔
اولاد: مولانا نے کل پانچ شادیاں کیں کل ملا کر آپ کے چھ لڑکے مولانا محمد احمد اثری پرنسپل جامعہ اثریہ دارالحدیث، مولانا جمیل احمد استاذ مدرسہ مفتاح العلوم، ڈاکٹر مختار احمد ، انوار احمد، مولانا فضل اﷲ ندوی واحمد اﷲ اور ام کلثوم، انیسہ خاتون ، نسیمہ خاتون اور نفیسہ خاتون ہیں۔
تلامذہ: مولانا سے فیض حاصل کرنے والوں کی تعداد تو کافی ہے مگر خاص خاص یہ ہیں:
مولانا عبدالوہاب حجازی صاحب ایڈیٹر محدث جامعہ سلفیہ بنارس، مولانا محمد احمد اثری صاحب پرنسپل جامعہ اثریہ دارالحدیث مؤ، مولانا عزیز الرحمن صاحب سلفی استاذ جامعہ سلفیہ بنارس، مولانا امر اﷲ صاحب استاذ جامعہ رحمانیہ بنارس، مولانا عبدالحمید فیضی استاذ جاعہ اسلامیہ فیض عام مؤ، مولانا عبدالواحد مدنی مدیر صفا شریعت کالج ڈومریا گنج، مولانا سید عبدالاول صاحب ناظم جامعہ قاسم العلوم ریواں، مولانا عبدالکریم مدرس المعہد الاسلامی دہلی، مولانا عبدالواحد مدنی استاذ ریاض العلوم دہلی، مولانا عبدالشکور صاحب ٹکریاوی مدرس مدرسہ سرواڑراجستھان ، مولانا محمد شفیع صاحب وہڈھن ایم پی وغیرہم۔
میدان عمل : مولانا نے جامعہ فیض عام مؤ سے فراغت کے بعد میدان عمل کی تلاش میں دہلی کا سفر کیا اور حضرت مولانا احمد اﷲ صاحب شیخ الحدیث (جو مولانا پر بڑے مہربان تھے) سے ملے۔ انہوں نے حاجی محمد سلیم دہلوی کی معیت میں کولو ٹولہ کلکتہ جامع مسجد کا امام بناکر بھیج دیا تقریباً چھ سات مہینہ گذرا تھا کہ جاپانیوں نے کلکتہ پر حملہ کردیا بہت سے لوگ کلکتہ چھوڑنے لگے مولانا بھی چھٹی لے کر اپنے وطن آگئے پھر مولانا ابوالقاسم خالد العربی متوطن موضع بونت ضلع بالیسر (اڑیسہ ) کی دعوت پر ان کے یہاں پہونچ کر جیت گڈھ ضلع سنگھ بھوم مدرسۃ الاصلاح میں معلم ہوئے۔ اور ۱۹۴۲ء تا ۱۹۴۷ء مدرسہ مذکور میں معلمی کے فرائض بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔ چونکہ والدہ محترمہ کی وفات ہو گئی تھی اسلئے والد محترم نے مولانا کو گھر بلا لیا ۔ ۱۹۴۹ء میں مولانا کے والدمحترم نے مولانا اقبال حسین صاحب کے ساتھ حج بیت اﷲ کیلئے سفر کیا انھوں نے خانۂ کعبہ ہی میں والد محترم کو اس بات پر راضی کرلیا کہ آپ کے صاحب زادے اور میرے شاگرد خاص قاسم العلوم ریواں میں تدریسی خدمات انجام دیں چنانچہ حج سے واپسی کے بعد مولانا کو قاسم العلوم ریواں کی خدمت کے لئے متعین کردیا ۔ سال پورا ہونے کے بعد مولانا جعفر علی نقوی مجھوا میر بستی (میرمنشی تحریک شہیدین) کے قائم کردہ مدرسہ مظہر العلوم اوسان کوئیاں کی نشأۃ ثانیہ کیلئے ( جو تقریباً ناپید ہوگیا تھا) مولانا عبدالقدوس صاحب کی نظامت میں متعین کیا گیا۔ مدرسہ عروج پر پہونچااچانک اپنی بیماری کے علاج کے لئے بمبیٔ تشریف لے گئے ۔ آپ کی جگہ پر دوسرے مدرس متعین ہوئے واپسی پر گاؤں کے لوگوں نے باصرار گاؤں کے مدرسہ مفتاح العلوم کی خدمت کا بار مولانا کے کندھوں پر ڈال دیا۔ مدرسہ مفتاح العلوم ٹکریا میں شیخین کے زیر تربیت مولانا نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔اس وقت یہ مدرسہ بہت کمزور حالت میں بہت پہلے سے چل رہا تھا میاں عبدالغفور پنجابی صاحب وغیرہ یہاں مدرس رہ کر خدمت دین و اشاعت توحید و سنت پہلے سے کررہے تھے ۔
۱۹۵۶ء میں مولانا بحیثیت ناظم مقرر ہوئے تو مدرسہ جاگ اٹھا اور ترقی کی راہ ہموار ہوئی دیکھتے دیکھتے مدرسہ میں پندرہ سولہ مدرسین و خادمین کا اسٹاف ہو گیا۔ اور باقاعدہ فضیلت تک تعلیم ہونے لگی اور دور دراز سے طلبہ یہاں اپنی علمی تشنگی بجھانے کیلئے آنے لگے۔ مولانا نے مسلسل پچیس سال مدرسہ کی خدمت اور ترقی سے ہمکنار کیا۔ راقم نے اپنی آنکھوں سے وہ سماں دیکھا ہے کہ مولانا کی موجودگی ہی میں نہیں بلکہ غیر موجودگی میں بھی طلبہ واساتذہ درس و تدریس میں یکسوئی سے لگے رہتے تھے اور معیاری تعلیم ہوتی تھی ۔ آپ ایک مخلص اور دور اندیش عالم تھے وقت کی نبض پر آپ کا ہاتھ ہوتا تھا آپ نے سرکاری طور پر بیسک سکچھا پریشد سے مدرسہ کو ملحق کرکے بہت پہلے ہی طلباء و طالبات کو آگے تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا پھر آپ کی انتھک جد و جہد سے ۱۹۷۹ء میں مدرسہ عربی و فارسی بورڈ الٰہ آباد سے ایڈڈ ہو گیا مدرسین کی مشکلات کم ہوئیں اور آپ کو مدرسہ کو مزید آگے لے جانے میں سہولت ہوئی۔آپ اسی مدرسہ سے ۱۹۸۱ء میں ریٹائرہوئے۔ آپ کی خدمات کو دیکھتے ہوئے تا حیات سرپرست ہونا چاہئے تھا مگر افسوس
مہاجرو! یہی تاریخ ہے مکانوں کی بنانے والا ہمیشہ برآمدوں میں رہا
یہاں سے ریٹائر ہونے کے بعدبھی آپ نے مدرسہ ریاض العلوم دہلی ، مدرسہ شاہ عبدالعزیز علی جان دہلی ، مدرسہ اصلاح المسلمین پنڈار پیکولیا بستی ، المعہد الاسلامی بحر العلوم انتری بازار سدھارتھ نگر ، مدرسہ عربیہ کنزالعلوم پرسا حسین، اور جامعہ خدیجۃ الکبریٰ سدھارتھ نگر میں تدریسی خدمات انجام دیئے یہ آپ کی علمی شغف کی واضح دلیل ہے اﷲ تعالیٰ آپ کے مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین۔
تنظیمی سرگرمیاں: تقسیم ملک کے بعد ۱۹۵۳ء میں جب اہلحدیث کانفرنس کا نشاۃ ثانیہ بدست حضرت مولانا عبدالوہاب صاحب آروی ہوئی تو اس کی باقاعدہ مقامی،ضلعی، صوبائی اور مرکزی ممبرسازی ہوئی تو مولانا ایک خادم کی حیثیت سے بروز اول شریک ہوئے۔ ہر چھوٹی بڑی میٹنگوں میں شریک رہے اور حسب توفیق بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ ضلعی کانفرنسوں میں بھی برابر شریک ہوتے رہے۔ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس منعقدہ ۱۹۶۱ء کی کامیابی کیلئے تو مہینوں گھر سے واسطہ نہ رہا صرف کانفرنس کی کامیابی پر آپ کی نگاہیں مرکوز تھیں چنانچہ اس کامیاب کانفرنس میں جامعہ سلفیہ بنارس کو مرکزبنانے کی تجویز پاس ہوئی جو جماعت کے افراد میں بالکل معروف و مشہور ہے۔
تلسی پور (بلرام پور )کی چار روزہ صوبائی کانفرنس کے اشتہار وغیرہ میں حصہ لینے کیلئے خصوصی طور پر مولانا کو مدعو کیا گیا اسی طرح کانفرنس سراج العلوم بونڈیہار جس میں شیخ الاسلام علامہ ثناء اﷲ صاحب امرتسری ؒ تشریف لائے تھے مولانا بھی مدعو تھے آپ نے بھی پر مغز تقریر فرمائی۔ اس طرح آپ نے جماعت اہلحدیث کو بیدار کرنے کیلئے اطراف کے مواضعات میں کافی جدوجہدفرمائی۔ اﷲ قبول کرے۔
دعوت و تبلیغ : آپ نے درس و تدریس اور تنظیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ دعوت و تبلیغ میں بھی اہم رول ادا کیا۔ چنانچہ اطراف کے مواضعات کے جلسوں میں برابر شریک رہتے اور قال اﷲ قال الرسول کی آواز بلند کرتے۔ گاؤں کے لوگوں نے آپ کو متفقہ امام متعین کردیا تھا جسے آپ نے تقریباً پچاس سال ذمہ داری سے حسبۃ اﷲ نبھایا۔ موقع ملتا تو جمعہ کے دن اطراف کے دوسرے مواضعات میں تشریف لے جاکر خطبۂ جمعہ بڑے موثر انداز میں فرماتے۔ شرکاء جمعہ آپ کے بیان کو بڑی توجہ اور دلجمعی سے سنتے۔ آپ اسلاف کے جاں نثاری کے واقعات بیان کرتے تو خود بھی روتے اور سامعین کو بھی لاتے۔ کلکتہ میں امامت اور اڑیسہ میں معلمی کے دوران آپ مختلف جلسوں میں شریک ہوئے اور اپنے پُراثر بیان سے لوگوں کے دلوں کو جیت لیا۔ عام لوگوں کے علاوہ بڑے بڑے رؤسا آپ کو بلا کر آپ کی تقریریں سنتے۔ مولانا نے اپنی خود نوشت سرگزشت میں قدرے تفصیل سے لکھا ہے جسے ان شاء اﷲ مولانا کے مفصل تذکرے میں ذکر کیا جائے گا۔
سیاست: مولانا کے اندر سیاسی سوجھ بوجھ بدرجہ اتم موجود تھی اس لئے آپ نے سر گرم سیاست میں بھی حصہ لیا ۔ قاضی عدیل عباسی مرحوم کے شانہ بشانہ چل کر آپ نے گاؤں گاؤں آزادیٔ وطن کیلئے تقریریں کیں اور لوگوں کے دلوں میں آ زادی کی صور پھونکی ۱۹۴۲ء تا ۱۹۴۷ء برابر آپ حریت پسندوں اور ہمنواؤں کے ساتھ شریک کار رہے۔
۱۹۵۳ء میں پہلی بار سر پنچی کا الیکشن عمل میں آیا آپ نے بھی اس انتخاب میں حصہ لیا۔ پانچ گاؤں آٖ پ کے حلقۂ انتخاب میں شامل تھے۔ ان گاؤں کے تمام باشندگان نے آپ کو بالاتفاق سرپنچ چن لیا اور آپ نے عدل و انصاف کی مثال قائم کی۔ فالحمدﷲ۔
وفات: مولانا تقریباً دو ماہ تک بستر علالت پر رہنے کے بعد ۲۹ اور ۳۰؍اگست ۲۰۰۵ء کی درمیانی شب بوقت ۱۰۰؍بجے وفات پا گئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
وفات کی خبر اطراف و جوانب میں جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی صبح ہوتے ہوتے لوگوں کی بڑی بھیڑ جمع ہو گئی بعد نماز ظہر عوام و خواص علماء طلبہ کی عظیم مجمع کی موجودگی میں مولانا محمداحمد اثری صاحب کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں علم و عمل کے اس پیکر کو آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا اور لوگ بزبان حال یہ کہتے رہے۔
مٹی میں کیا سمجھ کے دباتے ہیں ان کو لوگ
گنجینۂ علوم ہے گنجینۂ زر نہیں
عبدالحمید فیضیؔ
استاذ جامعہ اسلامیہ فیض عام مؤ ناتھ بھنجن یو پی
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا
الحاج اشفاق احمد وزیری ایڈوکیٹ بھدوہی
(تاریخ وفات: ۲۶؍اپریل ۲۰۰۶ء)
محترم الحاج اشفاق احمد وزیری رحمہ اﷲ کے والد محترم کا اسم گرامی الحاج عبدالمجید انصاری تھا وہ نیک صالح خلیق ملنسار خوش مزاج خوش گفتار کتاب و سنت پر شیدا اور تحریک اہل حدیث کے علمبردار تھے الحاج مشتاق احمد انصاری نے بتایا کہ الحاج عبدالمجید انصاری کی وفات سے یہ بنگلہ ہمیشہ کیلئے سونا ہوگیا ورنہ یہ بنگلہ ہر وقت بلبل کی طرح چہچہایا کرتا تھا ہر وقت ایک کچہری لگی رہتی تھی ایک جاتے تو دس واپس آجاتے تھے حاجی صاحب میں بہت خوبیاں تھیں جن کو گنایا نہیں جا سکتا آپ کی پوری زندگی غریبوں محتاجوں مجبوروں اور حاجت مندوں کیلئے وقف تھی اور ہمیشہ قوم وملت کی سربلندی میں لگے رہتے تھے احکام شریعت کے پا بند تھے بے حد شیریں زبان جب بولتے تو یہ معلوم ہوتا کہ ان کے منہ سے پھول چھڑ رہے ہیں انھیں صاحب نے بتایا کہ الحاج عبدالمجید صاحب انصاری کا بدل اس وقت خاندان میں کوئی نہیں ہے انھوں نے ہم لوگوں کو بہت بڑی ذمہ داری سے سبکدوش کر رکھا تھا سارا کام خود ہی کرتے ہم لوگ بہت خوش رہتے تھے لیکن اﷲ کی مشیت میں کیا چارہ اس نے انھیں اپنے پاس بلا لیا وہ ہم لوگوں کو سوگوار چھوڑ گئے اﷲ ان کی مغفرت فرمائے۔ تغمدہ اﷲ برحماتہ
اﷲ تعالیٰ نے الحاج عبدالمجید صاحب انصاری کو دولڑکوں سے نوازاہے بڑے حاجی اشفاق احمد وزیری ایڈوکیٹ تھے دوسرے الحاج شرافت حسین وزیری حفظہ اﷲ ہیں ۔ الحاج اشفاق احمد وزیری ۱۹۳۶ء میں بھدوہی میں پیداہوئے وزیری صاحب اور ان کے بھائی شرافت حسین وزیری کو ساری خوبیاں اپنے باپ سے ورثہ میں ملی تھیں وزیری صاحب نیک صالح خلیق ملنسار غریبوں بیواؤں یتیموں پریشا ں حال لوگوں کے مسیحا اہل علم و علماء کے قدر داں احکام شریعت کے پابند کتاب و سنت پر عامل و شیفتہ جماعت و جمعیۃ کے فروغ و ترقی کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہے پکے سچے موحد مسلمان تھے شرک و بدعت و خرافات منکرات رسم و رواج کو سخت ناپسند کرتے تھے ذہن کے صاف گو اور دل کے غنی تھے شیریں بیان شریف الطبع اور پیکر اخلاق تھے تواضع و انکساری کے خوگر تھے حلم اور بُرد باری حمیت و غیرت کوٹ کوٹ کر بھری تھی عفو ودرگذر آپ کا شیوہ تھا اہل علم کی بہت ہی تکریم کرتے تھے اپنے بنگلہ سے کسی بھکاری و ضرورت مند کو خالی ہاتھ واپس نہیں جانے دیتے تھے وزیری صاحب میں کتاب و سنت کی نشرواشاعت کا جذبہ تھا مذہبی کتابیں اپنے خرچ پر چھپوا کر مفت تقسیم کرواتے تھے آپ نے عمر کی تقریباً ستر بہاریں دیکھی تھیں وزیری صاحب کے اندر بہت سی خوبیاں تھیں کس کس خوبی کا شمار کیا جائے ۔ ع جانے والا گیا داستاں رہ گئی
وزیری صاحب جامعہ سلفیہ بنارس اور مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند کے معززرکن عاملہ تھے قالین کے معروف صنعت کار تاجر تھے اکثر و بیشتر حکومت کے تجارتی ڈیلی گیشن کی نمائندگی فرماتے آپ بینک آف بڑودہ کے ڈائرکٹر بھی تھے ایل ایل بی کرنے کے بعد مختصر وقت تک وکالت بھی کی جلد ہی اس شوق کی تکمیل کے بعد اپنے آبائی کاروبار سے وابستہ ہوگئے مرحوم کے یہاں کارپیٹ کا کاروبار تقریباً دس پشتوں سے چلا آرہا ہے اسلئے وہ اس کاروبار سے بہت مطمئن تھے جماعتی کاموں میں بھرپور حصہ لیتے ان کی محنت شاقہ پر رشک آتا تھا بھدوہی میں وزیری صاحب اور وزیری صاحب کے خاندان سے ملک کے دینی اداروں کو بہت تقویت ملتی ہے۔
وفات:۔ آخری لمحہ تک صحت مند اور تندرست تھے وفات سے دس منٹ قبل کمزوری بڑھنا شروع ہوئی تو بڑھتی چلی گئی اور بالآخر کلمۂ توحید کے اوراد وظائف کے ساتھ مورخہ ۲۶؍اپریل ۲۰۰۶ء کی تقریباً نصف شب میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون وزیری صاحب کے اچانک انتقال سے جماعی اور جماعتی اداروں کے علاوہ بہت سے لوگوں کو ذاتی طور پر دکھ ہوا اور سب اس فرقت غم سے رنجور ہیں ۔
اﷲ تعالیٰ مرحوم کے حسنات کو شرف قبولیت بخشے اور جنت الفردوس میں کشادہ مسکن بنائے۔ (آمین)
دعا ہے کہ وزیری صاحب کی اولاد قیصر پرویز وزیری عبداﷲ وزیری اور وزیری صاحب کے بھائی شرافت حسین وزیری اور ان کے لڑکوں ارشد جمال وزیری فرحت وزیری انجم السحر وزیری عشرت وزیری انتخاب وزیری فیروز وزیریی فضل وزیری انیس وزیری اور الحاج محمد اقبال انصاری مرحوم کے دونوں لڑکے محمد طارق انصاری و محمد وافق انصاری کی عمروں میں برکت عطا فرمائے اور ان سبھو ں کو اﷲ تعالیٰ ہمیشہ خوش و خرم رکھے اور خدمت دین میں ہمیشہ مشغول رہیں ۔ آمین یا رب العالمین۔
والسلام
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور ۔ بلرام پور یو پی
٭٭٭
مولانا محی الدین خاں ندوی رحمہٗ اﷲ
(تاریخ وفات:۲۰؍اگست ۲۰۰۷ء)
مولانا محی الدین خاں ندوی رحمہ اﷲ علم و عمل کی دنیا میں آنکھیں کھولیں اور اس کا اثرآپ کی زندگی میں ہمیشہ قدم قدم پر محسوس ہوا ۱۹۶۵ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فراغت کے بعد تلسی پور آگئے اور انجمن محمدیہ سےے منسلک ہو گئے چند سال کے بعد مولانا کے عزم و حوصلہ لگن اور محنت کو دیکھ کر ارباب انجمن نے مدرسہ کی مکمل ذمہ داری آٖ پ کے سپرد کردی مولانا کی جد و جہد بارآور ہوئی اور اﷲ کے فضل وکرم سے چند سالوں میں وہ انجمن کو علاقہ کے بھر پور تعاون سے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں کامیاب ہو گئے اور جہاں صرف مکتب کی تعلیم ہوتی تھی وہاں عربی و حفظ کا شعبہ کھل گیا باصلاحیت تجربے کار محنتی اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئیں مطبخ کا قیام عمل میں آیا بیرونی طلبہ داخل کئے گئے اساتذہ و طلبہ کیلئے لائبریری کا قیام عمل میں آیا مدرسہ میں چہل پہل اور رونق آگئی قال اﷲ و قال الرسول کی صدائے دلنواز گونجنے لگی مولانا دھن کے پکے جفاکش محنتی مخلص حق گو جری بے باک خلیق ملنسار مہمان نواز عالم باعمل تھے۔
انجمن محمدیہ کو آگے بڑھانے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں مولانا کا کردار بہت اہم ہے اگر مولانا محی الدین خاں ندوی رحمہ اﷲ کا اسم گرامی انجمن محمدیہ رجسٹرڈ کی خدمات سے نکال دیا جائے تو یقیناً اس ادارہ کی تاریخ ادھوری رہے گی مولانا کی وصیت کے مطابق آپ کے برادر خورد حافظ عتیق الرحمن طیبی حفظہ اﷲ نے آپ کی صلاۃ جنازہ پڑھائی اور جروا روڈ تلسی پور کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی نماز جنازہ میں عوام و خواص کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔مولانا کے مزید حالات کیلئے محترم مولانا شہاب الدین المدنی حفظہ اﷲکا درج ذیل مضمون ملاحظہ فرمائیں ۔
اﷲم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور ،بلرام پوریوپی
ولادت و تربیت : ضلع بلرام پور میں اترولہ سے پورب دریائے راپتی کے ساحل پر ایک چھوٹا مگر مردم خیز اور مشہور و معروف گاؤں طیب پور ہے، مسلم آبادی پر مشتمل یہ گاؤں اپنی دینداری، مسلک سلف صالحین سے وابستگی کے لئے ہمیشہ مشہور رہا ہے، اسی مردم خیز سر زمین میں استاذ محترم مولانا محی الدین خاں ندویؒ کی ولادت ۸؍جنوری ۱۹۴۴ء کو ایک مشہور علمی خانوادہ میں ہوئی آپ کے والد گرامی حضرت مولانا زین اﷲ رحمانیؒ درسگاہ رحمانیہ کے خوشہ چیں ایک متبحر عالم دین تھے آپ کی اصابت رائے ، قوتِ فکر و عمل ، تبلیغ دین میں جہد مسلسل کے سبھی قائل تھے، اس طرح ہمارے ممدوح مولانا محی لدین خاں ندویؒ نے علم و عمل کی دنیا میں آنکھیں کھولیں اور اس کا اثر آپ کی زندگی میں ہمیشہ قدم قدم پر محسوس ہوا۔
تعلیم : چونکہ آپ کا گھرانہ ایک علمی گھرانہ تھا اس لئے ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی بعد ازاں آپ کی مکتبی و پرائمری تعلیم طیب پور کے قریب ایک گاؤں دبولی میں ہوئی وہاں سے آپ کنگ جارج انٹر کالج اترولہ میں داخل ہوئے اور وہاں انٹر تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۶۱ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا رخت سفر باندھا اور وہاں خصوصی درجات میں داخلہ لے کر ۱۹۶۵ء میں فراغت حاصل کی ، واضح ہو کہ ندوۃ العلماء کی تاسیس میں علمائے اہل حدیث بھی پیش پیش تھے اس لئے اس وقت ندوۃ العلماء سلفیان ہند کا بھی مرکز توجہ تھا اور اہل حدیث طلباء وہاں جوق درجوق وارد ہوتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے۔
مشہوراساتذہ : آپ کے مشہور اساتذہ میں مولانا عبدالشکور رحمانی بسکوہریؒ، مولانا محمداویس نگرامیؒ، مولانا محمد اسحق سندیلوی ندویؒ، مولانا ابوالعرفان ندویؒ ، مولانا عبدالماجد ندویؒ، مولانا سید محمد رابع ندوی حفظہ اﷲ ، مولانا محمد اجتباء ندویؒ، اور مولانا ڈاکٹر سعیدالرحمن ندوی حفظہ اﷲ قابل ذکر ہیں، موخر الذکر سے تا دم واپسیں آپ کا خاص تعلق خاطر رہا۔ اورآپ سے خصوصی تعلقات کی وجہ سے آپ کے برادر خورد جناب حافظ عتیق الرحمن طیبی امیر ضلعی جمعیت اہل حدیث لکھنؤ کو محترم ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی حفظہ اﷲ کی شفقت و محبت ہمیشہ حاصل رہی ، جناب حافظ عتیق الرحمن طیبی بن جناب مولانا زین اﷲ رحمانی جو مسلسل ۴۹ سال سے ندوۃ العلماء کے مختلف شعبہ جات سے وابستہ ہیں اپنے برادر بزرگ جناب مولانا محی الدین خاں ندویؒ کے ارشادات پر عمل پیرا ہوکر لکھنؤ میں مسلک سلف کی آبیاری کے لئے حکمت و مواعظہ حسنہ کے ساتھ ہر آن رواں دواں ہیں اور اس دینی ، دعوتی میراث کی حفاظت کے لئے ہمیشہ کمر بستہ رہتے ہیں ۔ فجزاہ اﷲ خیرا۔
تلسی پور میں ورود: دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فراغت کے معاً بعد مولانا رحمہ اﷲ تلسی پور تشریف لائے اور انجمن محمدیہ رجسٹرڈ میں درس و تدریس کے ساتھ نظامت تعلیم کا بھی فریضہ انجام دینے لگے، اس وقت انجمن محمدیہ کی شکل ایک مکتب کی تھی لیکن مولانا رحمہ اﷲ نے اپنی سعی پیہم، جہد مسلسل اور شبانہ روز کوششوں سے مدرسہ دارالقرآن والحدیث کوجامعہ کی شکل دے دی اور بعدازاں مسلم بچیوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لئے مدرسہ نسواں کا قیام بھی کیا۔
مربی و معلم: مولانا رحمہ اﷲ جہاں ایک طرف ایک کہنہ مشق با صلاحیت استاذ تھے وہاں دوسری جانب ایک بہترین مربی بھی تھے، شریر سے شریر بچے آپ کی تربیت میں آکر اﷲ کے فضل سے بہترین اخلاق و کردار کے مالک بن جاتے اور آپ کی موجودگی میں کسی ادنیٰ شرارت کی جرأت بھی نہ ہوتی ، حتی کہ گلیوں میں کنچوں سے کھیلتے ہوئے بچے آپ کی جھلک دیکھ کر ہی راہ فرار اختیار کرلیتے ،طلبہ کے علاوہ عوام میں بھی آپ کا حددرجہ احترام تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں ۱۹۷۴ء میں اپنے خالو محترم جناب منشی عابد علی رحمہ اﷲ کے ساتھ پہلی دفعہ انجمن محمدیہ تلسی پور میں حصول علم کے لئے پہونچا اور اول وہلہ میں آپ سے ملاقات کا جب شرف حاصل ہوا تو میں اس صغر سنی میں بھی آپ کے رعب ایمانی کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکا اور یہ مشاہدہ تو بارہا ہوا کہ مولانا رحمہ اﷲ کا کسی گلی یا روڈ سے گذر ہوتا اور کوئی دوکاندار ریڈیو وغیرہ سے گانا بجا رہا ہوتا تو آپ کو دیکھ کر فوراً بند کردیتا، یقینا عوام الناس میں یہ احترام و مقبولیت بہت کم لوگوں کو ملتی ہے۔
ادارہ کیلئے آپ کی جاں سپاری: مولانا رحمہ اﷲ نے جس ادارہ دارالقرآن والحدیث کی آبیاری کا بیڑا اٹھایا اور جس کے آپ تا حیات ناظم تعلیمات رہے، اس ادارہ کی ترقی وعروج کیلئے ہمیشہ کوشاں رہے، جاڑے کے ٹھٹھرتے دن ہوں یا موسم گرما کی چلچلاتی دھوپ، موسم برسات میں امنڈتے بادل ہوں یاموسم سرما کی یخ بستہ راتیں ، قرب و جوار میں بذریعہ سائیکل یا پیدل چل چل کر آپ لوگوں سے رابطہ کرتے، ان سے ادارے کیلئے تعاون حاصل کرتے اور ساتھ ہی حکمت و مواعظہ حسنہ کے ساتھ آپ کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ بھی چلتا رہتا، تلسی پور اور اس کے مضافات اس وقت بدعات و خرافات کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے اور مولانا محترم لوگوں میں تعلیمی بیداری لا کر انھیں جہالت کے عمیق غار سے نکالنے کی کوشش کرتے، میری نظر میں کتنے ایسے طلباء اور گھرانے ہیں کہ ماضی میں جو جہل و بدعات کے زیر اثر تھے لیکن مولانا رحمہ اﷲ کی کاوشوں سے جب وہ ان کے ادارہ سے وابستہ ہوئے تو ان کے دل و دماغ سے بدعت و جہل کی تاریکیاں چھٹ گئیں اور وہ مسلک کتاب و سنت پر گامزن ہو گئے درحقیقت قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں جو دعوت حکمت کے ساتھ دی جاتی ہے وہ انتہائی موثر و پائدار ہوتی ہے اور یہی اسلوب دعوت ہمارے ممدوح رحمہ اﷲ کا طرۂ امتیاز تھا، اکثر جب آپ لکھنؤ تشریف لاتے تو ضلعی جمعیت اہل حدیث لکھنؤ کے ماہانہ پرو گراموں میں شرکت فرماکر لوگوں کو مواعظ حسنہ سے مستفید فرماتے نیز مسجد شیخ سخاوت حسین چوک میں خطبات جمعہ بھی ارشاد فرماتے۔
انسانی زندگی میں نشیب و فراز بھی آتے ہیں اور ایک انسان کو ابتلاء و آزمائش کے دور سے بھی گذرنا پڑتاہے ۔ آپ کو بھی اپنے ادارے کی آبیاری کے لئے اس دور سے گذرنا پڑا اور اس سلسلے میں کافی دشواریاں سامنے آئیں۔ بحمد اﷲ مولانا رحمہ اﷲ نے ان کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا اور سرخرو ہوئے بالآخر آپ کا وقت رحیل آپہونچا اور عارضۂ قلب سے نبرد آزما ہوتے ہوئے آپ مورخہ ۲۰؍اگست ۲۰۰۷ء بروز دوشنبہ کو داعی اجل کو لبیک کہا۔
اﷲم اغفر لہ وارحمہ واعفہ أعف عنہ ۔ آمین
شہاب الدین جلال الدین المدنی
امیر صوبائی جمعیۃ اہل حدیث مشرقی یوپی
٭٭٭
مولانا محمد عمر سلفی انتری بازار
(تاریخ وفات: ۱۷؍مارچ ۲۰۰۸ء)
مولانا محمد عر سلفی رحمہ اﷲ نے تعلیمی فراغت کے بعد اپنی تدریسی زندگی کا آغاز موضع الگا کپل وستو نیپال میں واقع ایک مکتب سے کیا جہاں کچھ دنوں تک موصوف بچوں کو تعلیم دیتے رہے پھر کچھ سالوں کے بعد مدرسہ عربیہ قاسم العلوم گلرہا بلرام پور تشریف لائے مدرسہ عربیہ قاسم العلوم کا قیام ۱۹۵۸ء میں ہوا اس کو ایک محنتی مستعد مدرس کی تلاش تھی گاؤں والوں خصوصاً بانیٔ مدرسہ عربیہ قاسم العلوم گلرہا و صدر مدرسہ جناب حکیم محمد سلیمان رحمہ اﷲ ۱ عبدالغفار خاں ناظم وغیرہ نے مولانا محمد عمر سلفی کو رکھ لیا اور مولانا نے تدریس کی ذمہ داری سنبھالی مولانا کے عزم و حوصلہ کو دیکھ کر ارباب مدرسہ نے مدرسہ کی مکمل ذمہ داری ان کے سپرد کردی مولانا مرحوم نے مدرسہ کی ترقی کیلئے کافی جد و جہد کی اور ریٹائر ہونے تک یہیں ہوکر رہ گئے۔
مولانا محمد عمر سلفی رحمہ اﷲ کی جد و جہد بار آور ہوئی اور اﷲ کے فضل و کرم سے چند سالوں میں وہ مدرسہ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں کامیاب ہو گئے اور مدرسہ عربیہ قاسم العلوم جہاں صرف مکتب کی تعلیم ہوتی تھی وہاں عربی کا شعبہ بھی قائم ہو گیا باصلاحیت اور تجربہ کار اساتذہ کی خدمات حاصل ہوئیں مطبخ کا قیام عمل میں آیا بیرونی طلبہ داخل کئے گئے مدرسہ میں چہل پہل اور رونق آگئی قال اﷲ و قال الرسول کی صدائے دلنواز گونجنے لگی۔
۱۹۸۰ء میں مولانا محمد عمر سلفی و ماسٹر عبدالستار قدسی کواپوری کی جد وجہد دوڑ بھاگ اور کوششوں سے مدرسہ عربیہ قاسم العلوم کا الحاق عربی فارسی بورڈ حکومت اترپردیش سے ہوگیا اس
۱ حکیم محمد سلیمان مرحوم کے مفصل حالات کیلئے راقم کی کتاب کاروان سلف حصہ اول ملاحظہ فرمائیں (عبدالرؤف خاں ندوی)
سلسلہ میں قدسی صاحب کا کردار بہت اہم ہے اگر ماسٹر عبدالستار قدسی مرحوم کا اسم گرامی مدرسہ عربیہ قاسم العلوم گلرہا کی خدمات سے نکال دیا جائے تو اس ادارہ کی تاریخ ادھوری رہے گی عربی فارسی بورڈ سے الحاق کے نتیجہ میں جب مدرسہ کی اساتذہ کی تنخواہیں حکومت سے جاری ہو گئیں اور ادارہ تنخواہ کی فکر سے آزاد ہوگیا تو مولانا سلفی اور مجلس منتظمہ نے ادارہ کی تعمیر کی جانب توجہ فرمائی ۱۹۸۲ء ۱۹۸۱ء میں مدرسہ سے متصل دو بیگہہ زمین اساتذہ کرام اور مدرسہ کے تعاون سے خرید نے میں کامیاب ہو گئے اور ایک سال بعد ۱۹۸۳ء میں مدرسہ کے عظیم الشان دوروزہ اجلاس عام کے موقع پر جماعت کے اکابر و مشاہیر علماء کے ہاتھوں اس زمین پر سنگ بنیاد رکھا گیا اس سلسلہ میں مولانا سلفی و اساتذہ کرام نے مدرسہ کی تعمیر کیلئے اپنا خون جلایا اور مدرسہ کے مخلص ارکان و اساتذہ نے دردرکی ٹھوکریں کھائیں پورے علاقے اور بیرون ضلع کے مختلف مقامات پر پہونچ کر ادارہ کیلئے کام کیا چنانچہ چند برسوں کے اندر شاندار عمارت تعمیر ہو گئی پھر دوسری منزل پر پانچ کمرے تعمیر ہو گئے اور مغربی جانب بھی ایک عمارت کھڑی ہو گئی ۱۹۸۹ء میں مولانا محمد عمر سلفی نے علاقہ اور بعض اہل خیر کے تعاون سے ایک شاندار خوبصورت جامع مسجد کھڑی کردی۔
یہ حقیقت ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی توفیق اور مولاناسلفی کی رہنمائی و جد و جہد مجلس منتظمہ اساتذہ کرام اور علاقہ کے مخیر حضرات کے عزم صادق اور ان کی پُرخلوص محنت ہی کا ثمرہ ہے کہ اس کو ردہ خطہ میں مدرسہ عربیہ قاسم العلوم جیسا عظیم الشان ادارہ قائم ہو سکا اور ترقی کی طرف گامزن ہے ۔
مولانا محمد عمر سلفی کے انتقال کے بعد جماعت کی مشہور و معروف شخصیت سابق امیر جماعت مشرقی یوپی مولانا ابوالعاص وحیدی صاحب حفظہ اﷲ ۲۰۰۱ء میں بحیثیت پرنسپل تشریف لائے مولانا وحیدی کی رہنمائی و توجہ سے ادارہ ترقی کی طرف گامزن ہے مدرسہ میں شعبۂ افتاء و قضا کا قیام ہوا وحیدی صاحب کے آنے کے بعد مدرسہ کی جنوبی عمارت کی بالائی منزل پر باقیماندہ پانچ کمرے تعمیر ہوئے عمارت آفس کے بغل میں دو کمروں کی تعمیر ہوئی اور ۲۰۰۷ء میں شعبۂ نسواں بنام کلیۃ حفصہ للبنات قائم کیا گیا جس کے لئے مدرسہ کی جانب سے ایک گاڑی خریدی گئی دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس علمی چمن کو سرسبز و شاداب رکھے اور کبھی اس پر خزاں نہ آئے۔ (آمین)
مولانا محمد عمر سلفی کو کئی سالوں سے شوگر کی شکایت تھی انتقال سے دوماہ قبل شوگر کے سبب دونوں گردے ناکارہ ہو گئے تھے مولانا سلفی کے لڑکوں خاص طور سے مولانا عطا الرحمن ندوی مدرس جامعہ عربیہ قاسم العلوم گلرہا نے علاج و معالجہ اور خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی وقت اجل آپہونچا اور ۱۷؍مارچ ۲۰۰۸ء صبح ۷؍بجے آپ کی روح گھر انتری بازار قفص عنصری سے پرواز کر گئی کثیر تعداد نے نماز جنازہ میں شرکت کی ، نماز جنازہ شیخ عبدالرشید مدنی حفظہ اﷲ نائب شیخ الجامعہ جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نے پڑھائی اور انتری بازار کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے ۔
اﷲ تعالیٰ مولانا سلفی کی بال بال مغفرت فرمائے ان کے اعمال حسنہ کو قبول فرماکر انھیں رفع درجات کا ذریعہ بنائے اور ان کی لغزشوں کو درگذر فرمائے۔(آمین)
اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور، بلرام پور
(یوپی )
٭٭٭
نمونۂ سلف حضرت العلام مولانا محمد خلیل ایمن رحمانی رحمہٗ اﷲ
(تاریخ وفات: ۱۰؍نومبر ۲۰۰۸ء)
نام و نسب : والد محترم جناب مولانا محمد خلیل ایمن رحمانی بن تعلقدار بن دانیال بن وزیر بن چھانگر
جائے پیدائش: پندرہ مارچ ۱۹۲۰ء آبائی گاؤں ٹکریا، ڈومریا گنج ضلع سدھارتھ نگر یو پی
تعلیم : حروف شناسی گھر ہی پر اپنے والد ماجد ؒ سے کی اس کے بعد قرآن پاک ناظرہ پڑھنے کیلئے کسمہی مولانا سلامت اﷲ صاحب مرحوم کے پاس جایا کرتے تھے درجہ اول پرائمری اسکول بدل پور میں پڑھا پھر جامعہ سراج العلومم کنڈؤبونڈھیار چلے گئے وہاں سات آٹھ سال تعلیم حاصل کرکے ایک سال کیلئے جامعہ فیض عام مؤ گئے وہیں سے دارالحدیث رحمانیہ دہلی تشریف لے گئے ۱۹۴۶ء میں فراغت حاصل کی ۔ والد صاحب مرحوم ایک بار بیان کر رہے تھے کہ میں چھٹی میں گھر آیا تھا چھٹی پوری ہو گئی اسکول جانے کا وقت آگیا اور مجھے شدید بخار کا عارضہ لاحق ہو گیا والدہ محترمہ مرحومہ اور بہنوں کا خیال تھا کہ صحت بحال ہونے تک گھر رہیں مگر ابا مرحوم کا تعلیم کے سلسلے میں ایسا شوق و جذبہ تھا کہ مصر تھے کہ جاؤ ۔ گھر سے نکل پڑا بذریعہ بس لکھنؤ پہونچا وہاں ٹرین میں بیٹھ گیا پھر بخار کی شدت بڑھ گئی میں بیہوش ہوگیا ، بیہوشی ہی کی حالت میں ٹرین دہلی پہونچکر خالی بھی ہو چکی ، ٹرین صفائی کے عملہ میں سے کسی نے دیکھا کہ ایک آدمی برتھ پر بیہوش پڑا ہے ۔ جگانے کی کوشش کی کچھ ہوش آیا میری زبان پر دارالحدیث رحمانیہ کا نام آیا وہ آدمی سمجھ گیا کہ یہ لڑکا مدرسہ کا طالب علم ہے۔ اس نے سہارا دے کر باہر رکشے پر بٹھا دیا اور رکشے وان سے کہا کہ فلاں مدرسہ میں چھوڑنا ہے ، اس طرح دارالحدیث رحمانیہ پہونچ گیا اور مرض سے افاقہ بھی ہوگیا ۔
ہمارے دادا مرحوم بھی صوم و صلوٰۃ کے پابند ، علم دوست اور زہد و تقویٰ کے حامل تھے ایک بار تحریک اسلامی کے دعوتی اجتماع میں والد محترم مرحوم کو شریک ہونا تھا بارش مانع ہو رہی تھی لیکن دادا جان نے کہا کہ یہ اﷲ کا کام ہے جاؤ پھر کیا تھا چھتری لی اور شدید بارش کی حالت میں نکل پڑے اور شریک اجتماع ہوئے۔
اساتذہ: (جامعہ سراج العلوم کنڈؤ بونڈھیار کے اساتذہ )
۱۔ مولانا محمد عباس صاحب مرحوم
۲۔ مولانا محمد یونس صاحب مرحوم
۳۔مولانا حکیم محمد یاسین صاحب مرحوم وغیرہ
دارالحدیث رحمانیہ دھلی کے اساتذہ :
۱۔ شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ مبارکپوری رحمہ اﷲ
۲۔ شیخ الحدیث مولانا احمد اﷲ صاحب پرتاب گڈھی رحمہ اﷲ
۳۔ مولانا نذیر احمد املوی رحمانی رحمہ اﷲ
۴۔ مولانا عبدالغفور صاحب بسکوہری رحمہ اﷲ
۵۔ مولانا عبدالجلیل رحمانی رحمہ اﷲ ششہنیاں
والد محترم مرحوم ایک بار بتا رہے تھے کہ دارالحدیث رحمانیہ دھلی میں امتحان کا دور چل رہا تھا اتفاقاً ڈاکٹر علامہ اقبال ؒ کی آمد ہوئی تو انھوں نے میرا فلسفہ کا امتحان لیا تھا مجھ سے بہت خوش ہوئے بڑی تعریف کی، اور ڈھیر سی دعائیں دیں۔
تلامذہ: ۱۔ مولانا عبدالعلیم ماہر قاسمی سمراوی ۲۔ مولانا تبارک حسین قاسمی کنڈؤبونڈھیار
۳۔ قاری ابوالقاسم صاحب ٹکریا ۴۔ مولانا محمد ایوب ندوی بونڈھیار
۵۔ مولانا ابوالبرکات اصلاحی بونڈھیار ۶۔مولانا محمد معروف سراجی بدل پور بلرام پور
۷۔ مولانا محمد ابراہیم مدنی اٹوا ۸۔مولانا عبدالاحدمدنی ڈومریا گنج
۹۔مولانا عبدالغفار مدنی پینڑی ۱۰۔ مولانا محمد حنیف رحمانی موہن کولہ
۱۱۔ مولانا عبدالسلام رحمانی کنڈؤ ۱۲۔مولانا محمد علی سلفی لہرسن بازار
ان کے علاوہ ایک کثیر تعداد نے والد محترم مرحوم سے شاگردی کا شرف حاصل کیا ۔
اجازت حدیث کیلئے ہندوستانی علماء کے علاوہ بعض عرب شیوخ بھی شامل ہیں جن میں صرف ایک شیخ کا نام یاد ہے وہ ہیں شیخ عبداﷲ بن محمد عامر الاحمری المکی ۔ ایک بار شیخ عبدالقدوس مدنی کے توسط سے ایک عرب شیخ والد محترم مرحوم سے اجازت حدیث کا شرف حاصل کرنا چاہتے تھے مگر چونکہ اس وقت یادداشت جواب دے چکی تھی اس لئے وہ عرب شیخ فیضیاب ہونے سے قاصر رہے۔
والد محترم نے درس و تدریس کا آغاز جامعہ سراج العلوم بونڈھیار بلرام پور سے کیا یہاں کئی سال تک رہے ایک سال جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کام کیا پھر مظہر العلوم اوسان کوئیاں تشریف لے گئے یہاں تقریباً چار سال رہے پھر تدریسی لائن سے علےٰحدہ ہوکر جماعت اسلامی ہند مشرقی یوپی الہ آباد اور گورکھپور ڈویزن کے ناظم کے منصب پر فائز رہے چند سال یہ اہم ذمہ داری نبھائی اسی بیچ صحت خراب ہوگئی مستعفی ہوکر گھر چلے آئے بحالیٔ صحت تک گھر پر رہے کچھ دنوں کے بعد مولانا محمد اقبال رحمانی صاحب کی خواہش و اصرار پر جامعہ سراج العلوم کنڈؤ بونڈھیارتشریف لے گئے ۱۹۷۵ء میں اندارا گاندھی نے پورے ملک میں ایمر جنسی نافذ کردی جامعہ سراج العلوم بونڈھیار ہی سے گرفتار کرلئے گئے گونڈہ جیل میں تقریباً نو مہینے سرکاری مہمان رہے۔جیل میں بھی دعوت و تبلیغ کا کام جاری تھا کئی پیشہ ور مجرم سدھر گئے اور کئی غیر مسلم آپ کی سیرت و کردار سے بہت متاثر ہوئے گونڈہ جیل سے رہا ہونے کے بعد ایک سال کیلئے دارالسلام عمرآباد مدراس چلے گئے پھر سہ بارہ مولانا محمد اقبال رحمانی کے اصرار پر جامعہ سراج العلوم بونڈھیار آگئے اور آخر تک اس ادارہ میں تدریسی فرائض بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔
تدریسی خدمات: آپ نے درس و تدریس کا آغاز جامعہ سراج العلوم کنڈؤ بونڈھیار بلرام پور سے کیا یہاں کئی سال تک رہے جس ادارہ میں بھی رہے اونچی کتابیں مسلم شریف ترمذی شریف ابوداؤد شریف ، مؤطا امام مالک، مشکوٰۃشریف، تفسیر بیضاوی، سراجی جلالین منطق اصول حدیث نحو و صرف فارسی وغیرہ آپ ہی کے ذمہ ہوتی تھیں مولانا کے درس کا انداز دلنشین و دلپذیر ہوتا تھا ایک مرتبہ ایک صاحب نے مزاح کے طور پر کہا کہ مولانا رحمانی کو جب نظر نہیں آتا تو پڑھاتے کیسے ہیں یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ کی بینائی ختم ہوچکی تھی تو طلبہ نے بر جستہ کہا کہ آنکھ والے اساتذہ سے اچھا پڑھاتے ہیں ۔
مولانا کے شاگرد صغیر احمد صغیر راوی ہیں کہ مولانا انھیں بلوغ المرام پڑھارہے تھے رفع الیدین والی حدیث تھی حذومنکبیہ شحمۃ اذنیۃ) ان دونوں حدیثوں میں اس طرح تطبیق دی کہ دونوں حدیثوں پر بیک وقت عمل ہو سکے فرمایا کہ ہاتھ کو ایسے اٹھایا جائے کہ انگوٹھا کندھے اور انگلیاں کان کی لو کے مقابل ہو جائے اس طرح بیک وقت دونوں حدیثوں پر عمل ہو جائے گا۔
مولانا رحمانی کا طریق درس حدیث: مولانا جب درس حدیث دیتے تو ان کے خلوص و ادب کا یہ عالم ہوتا تھا کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کی مجلس میں بیٹھے ہیں اور رسول اﷲﷺ کی احادیث اپنے طلبہ کو منتقل کر رہے ہیں والد محترم کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ والد محترم مدرسہ مظہر العلوم اوسان کوئیاں میں طلبہ کو درس حدیث دے رہے تھے اسی اثناء ہاتھی پر سوار تحصیل دار آئے سارے اساتذہ گھنٹیاں چھوڑ کر اس کے ارد گرد جمع ہو گئے والد محترم نے درس جاری رکھا ایک صاحب جومدرسہ کے ذمہ داروں میں سے تھے کہا آپ مغرور ہیں اتنا بڑا تحصیلدار آیا ہے اور آپ کلاس میں بیٹھے در س دے رہے ہیں والد محترم نے جواب دیا کہ میں رسول اﷲ ﷺ کی مجلس میں تھا اس سے بڑی مبارک مجلس اور کون ہو سکتی ہے اور اگر مجھے شریک ہی کرنا تھا تو مجھے پہلے ہی اطلاع دیدیتے کہ تحصیل دار صاحب آنے والے ہیں تو میں درس حدیث شروع ہی نہ کرتا ۔
اولاد: والد محترم مرحوم کی پہلی شادی ۱۹۴۵ء ٹکرا گاؤں میں ہوئی اس وقت آپ طالب علم ہی تھے ۱۹۴۹ء میں بڑی بہن کی ولادت ہوئی گھروالوں نے اتفاق رائے سے آمنہ خاتون نام کا انتخاب کیا۔ آمنہ خاتون ابھی تین ہی سال کی تھیں کہ والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا ۔ دوسری شادی ۱۹۵۴ء ایک گاؤں اہل حدیث بیدولی(رودھولی کے پاس) میں ہوئی ۔ جن سے ہم پانچ بھائی اور دو بہنیں ہیں اس طرح ہم کل پانچ بھائی اور تین بہنیں ہیں ۔ بھائیوں کے نام یہ ہیں:
۱۔مولانا صغیر احمد صغیر رحمانی جامعہ سلفیہ بنارس سے فراغت کے بعد جامعۃ الملک ریاض سعودیہ سے معہد اللغۃ اور تدریب المعلمین کرکے ریاض ہی میں الندوۃ العالمیۃ للشباب الاسلامی کے قسم الاعلام میں موظف ہیں ۔
۲۔ ظہیر احمد رحمانی راقم الحروف مدرسہ عربیہ مفتاح العلوم ٹکریا کا مدرس ہے۔
۳۔ شبیر احمد غازی دہلی میں مقیم ہیں ۔
۴۔ شکیل احمد ناجی ممبئی میں رہتے ہیں۔
۵۔ اسامہ خلیل بھی ممبئی میں سکونت پذیر ہیں ۔
بہنوں کے نام یہ ہیں : ۱۔ آمنہ خاتون یہ شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام مدنی صاحب ؍حفظہ اﷲ کے رشتہ ازدواج میں ہیں ، مولانا عبدالسلام مدنی کی بھی تعلیم و تربیت میں والد محترم مرحوم کااچھا خاصا عمل دخل رہا ہے والد محترم کے بھانجے بھی ہیں اور داماد بھی ہیں اس طرح شیخ عبدالسلام مدنی صاحب سے دو رشتوں کا شرف حاصل ہے ایک تو ہمارے پھوپھی زاد بھائی ہونے کا اور دوسرے بہنوئی کا ۔
۲۔ ذاکرہ خاتون : یہ جناب عبدالباری بن مولانا عبدالقدوس مرحوم ٹکریا سے منسوب ہیں ۔
۳۔ عزیزہ افروغ: یہ مولانا محمد اقبال فلاحی بلہسہ سے منسوب ہیں۔
تصنیف و تالیف : مولانا کی پوری عمر درس و تدریس دعوت و تبلیغ میں گذری اسلئے کوئی اہم کتاب لکھنے کا موقع نہ ملا آخری وقت میں مجموعہ کلام وادی ایمن منظر عام پر آیا جو قابل ذکر ہے ۔ یہ مجموعہ ۲۰۰۶ء میں اس وقت شائع ہوا جب تک والد محترم مرحوم کی بینائی ختم ہو چکی تھی اس مجموعہ کے چند اشعار ہدیہ قارئین ہیں ۔
ساقیا رند پلا نوش کو اب تاب نہیں جو بھی مل جائے وہی دوڑ کے لا اچھی ہے
چاہتے سب ہیں کہ اسلام ہو غالب ایمن ہاں مگر اس کے لئے کوشش پیہم تو نہیں
جو ترے ذکر سے خالی ہو گفتگو کیا ہے ملے جو غیر کے در سے وہ آبرو کیا ہے
کسی کی یاد میں کھویا گیا دل ناداں اسے خبر نہیں دنیائے رنگ و بو کیا ہے
ہجوم غم سے جو فرصت ملے کبھی ایمن میں ان کی بزم میں دیکھوں کہ ہاو ہو کیا ہے
سناہے حکم چکبندی کا ہوگا ہند میں جاری سِلائیں جیب لمبی لمبی قانون گو و پٹواری
سمجھتی ہی نہیں ہندی حکومت بھولی بے چاری ادھر راشن کی پابندی ادھر ہے چور بازاری
سیرت و کردار: والد ماجد مرحوم بلند اخلاق کے حامل تھے سنجیدگی سے گفتگو کرتے جو بھی آپ سے ملتا ضرور متاثر ہوتا دوران گفتگو ہونٹوں پہ مسکراہٹ ہوتی ، چہرے سے سنجیدگی و متانت مترشح ہوتی، سلام کرنے میں پہل کرتے جو بھی مسلمان نظر آتا اسے ضرور سلام کرتے کھیلتے ہوئے بچوں کو بھی سلام کرتے اکثر دیکھا گیا ہے کہ بچے دور سے دیکھ کر سلام کرنے کیلئے اکٹھا ہوجاتے اور ہر بچہ ہاتھ ملانے کا شوق رکھتا، بچوں سے نہایت شفقت و محبت سے پیش آتے اہل حدیث کے اجلاس میں آپ کے نام کے ساتھ اکثر پیکر اخلاق لکھا جاتا عفو و درگذر، صبر و شکرآپ کاشیوہ تھا، ہر کام خلوص کے ساتھ کرتے چال ڈھال دیکھ کر ہر کوئی کہتا کہ یہ سنت نبوی کا متوالا ہے کھاتے پیتے اٹھتے بیٹھتے کہا کرتے کہ اﷲ کے رسولﷺ ایسے کرتے تھے۔
سادہ کھانا پسند فرماتے ، کم کھاتے، چائے کا شوق بہت زیادہ تھا، اسباب چائے اپنے پاس رکھتے ، سفر میں ہوتے تو مجاہد کی طرح سامان ساتھ رکھتے لوٹا، منجن، مسواک،صابن، تولیہ خلال یہاں تک کہ سوئی دھاگہ بھی رکھتے، ایک چھوٹا سا قرآن مجید مع جزدان کُرتے کے نیچے کندھے سے لٹکائے رہتے ایسا لگتا کہ اندر بندوق رکھے ہوئے ہیں۔
سفید لباس پسند کرتے ،کپڑوں میں اکثر پیوند لگا ہوادیکھا گیا چمڑے یا پلاسٹک کے جوتوں میں بھی نفاست و نظافت پسند تھے ہر سامان سلیقے سے رکھتے سفید چادر بچھانے کیلئے رکھتے ، بستر پر شکن پسند نہ فرماتے۔
قدوقامت: قد چھوٹا، رنگ گورا، نورانی چہرہ، پیشانی کشادہ ،سر پر زلف ،آنکھوں میں سرمہ سنت کے مطابق لگاتے۔
مہمان نوازی: مہمان نواز تھے، گاؤں (ٹکریا ) کی مسجد میں کوئی مسافر آتا تو اس سے پوچھ تاچھ کرکے ضرور کھانے اور بستر کا انتظام کرتے۔
ایک بار ایک بوڑھے مہمان آئے شام کو کھا پی کر سوئے رات کو مہمان کا پیٹ خراب ہو گیا جاڑے کا زمانہ تھا بستر،لحاف سب خراب ہو گئے فجر کے وقت والد محترم مرحوم مہمان کے بستر کے پاس گئے تو بدبو آرہی تھی اور بستر خالی…… سات آٹھ کلو میٹر دور کے مہمان تھے رات ہی میں شرم کی وجہ سے چلے گئے، فجر کی نماز سے فارغ ہوکر والد محترم مرحوم نے اپنی ہمشیرہ (شیخ عبدالسلام مدنی صاحب کی ماں) کو بلایا مل کر سب صاف کیا۔
ایک بار والد محترم مرحوم گھر سے ڈومریا گنج ہوتے ہوئے کہیں جارہے تھے ڈومریا گنج ایک ہو ٹل کے سامنے لوگوں کی بھیڑ دیکھا رکشہ وان سے کہا روکو اترے جائزہ لیا معلوم ہوا کہ ایک مسلمان چائے والے کا پیسہ باقی ہے وہ اپنا پیسہ مانگتا ہے مسلمان آدمی انکار کرتا ہے آنے جانے والے لوگ اکٹھا ہوتے گئے ، مسلمان مسلمان کی حمایت اور ہندو ہندو چائے والے کی حمایت کررہے ہیں ، ایسا لگ رہا تھا کہ ہندو مسلم فساد ہو جائے گا ، والد محترم مرحوم نے مسلمانوں کو ڈانٹاکہ تم لوگوں کو شرم نہیں آتی ،اگر تم لوگ آٹھ آٹھ آنے دیدیتے تو پانچ روپئے پورے ہوجاتے چائے والے کو دیدیتے جھگڑا ختم ہوجاتا پھر والد محترم مرحوم نے جیب سے پانچ روپئے نکالے چائے والے کو دینے لگے چائے والا روپیہ لینے سے انکار کرنے لگا کہنے لگا مولانا صاحب میں پیسہ معاف کرتا ہوں آپ سے نہیں لوں گا۔والد محترم کے اصرار پر چائے والے نے پیسہ لے لیا اس طرح مسئلہ حل ہوگیا۔
دنیا سے بے رغبتی: ۱۹۵۰ء میں پہلی بار چکبندی شروع ہوئی رشوت کا بازار گرم ہو گیا قانون گو کے پاس لوگ آتے جاتے رہے مگر والد مرحوم کنارہ کش رہے قانون گو بارباربلاتا مگر جانے سے باز رہے۔ایک بار قانون گو نے دھمکی دیکر ایک آدمی کو بھیجا کہ مولانا اگر نہیں آئیں گے تو گاؤں کا سب سے خراب چک دیدونگا چلے آئیں والد مرحوم گئے ، قانون گو نے کہا صرف دوہی روپئے دیدو چک اچھا دیدونگا والد محترم نے انکار کردیا ، قانون گو کہنے لگا مولانا صاحب ایسا چک دیدونگاکہ کچھ پیدا نہ ہوگا بچے بھوکے مرجائیں گے ، والد محترم مرحوم نے کہا ایک پیسہ بھی رشوت نہ دونگا روزی دینا تمہارا کام نہیں ، یہ تو اﷲ تعالیٰ کا کام ہے، قانون گو نے ناراض ہوکر گاؤں کا سب سے خراب چک دیدیا جوکہ ایک بیوہ کا تھا بالکل بنجر زمین ۔ ایک چک گاؤں سے متصل پچھم جانب (جسمیں آج ہم تمام بھائیوں کے مکانات ہیں) اور دو چک گاؤں سے دوردیا ۔ کچھ دنوں کے بعد قانون گو کے گھر ڈاکہ پڑا سب لوٹ لے گئے اس کی نوکری کے کاغذات بھی ضائع ہوگئے ، قانون گو کو احساس ہوا کہ مولانا کی بددعا لگ گئی ہے اس لئے یہ سب کچھ ہواہے قانون گو ٹکریا معافی مانگنے کیلئے آیا ، والد محترم مرحوم کو دیکھ کر پاؤں پر گرپڑا زارو قطار رونے لگا اور کہنے لگا آپ کی بددعا لگ گئی میرا گھر لٹ گیا میری نوکری بھی چلی گئی، آپ دعا کردیجئے میری نوکری بحال ہوجائے والد محترم مرحوم نے کہا میں نے بددعا نہیں کی ہے مگر وہ اصرار کرتا رہا آخر کار والد محترم مرحوم نے کہا جاؤ انشاء اﷲ نوکری بحال ہو جائے گی تب جاکر قانون گو مطمئن ہوا اور اپنے گھرکو روانہ ہوا (قانون گو گورکھپور کا تھا) کچھ دنوں کے بعد پھر مٹھائی لیکر ٹکریا والد محترم مرحوم کے پاس آیا کہنے لگا آپ کی دعا لگ گئی میری نوکری بحال ہو گئی آپ کیلئے مٹھائی لا یا ہوں والد محترم مرحوم نے کہا مٹھائی لے جاؤ اپنے بچوں کو دیدینا،قانون گو کافی دیر تک رہا پھر واپس گیا۔
مذکورہ واقعہ ہمارے علاقے میں کافی دور دور تک مشہور تھا ، پھر جب ۱۹۸۰ء میں دوباہ چکبندی شروع ہوئی تو جو عملۂ چکبندی آیا تھا ان لوگوں نے بھی علاقے کے لوگوں سے مذکورہ واقعہ سنا تو کافی متاثر ہوئے قانون گو بار بار بلاتا رہا کہ مولانا اپنا درشن تو کرادیں مگر والد محترم مرحوم جانے کیلئے تیار نہ ہوئے ایک بار جمعرات کو جامعہ سراج العلوم بونڈھیار سے گھر آرہے تھے اونرا تال بس سے اترے ، قانون گو کو پتہ چلا کہ مولانا ابھی بس سے اترے ہیں ایک موٹر سائیکل سوار کو بھیجا کہ مولانا کو بٹھالاؤ ، والد محترم گئے قانون گو والد مرحوم دیکھ کر کرسی چھوڑ کر آگے بڑھا ، ہاتھ ملایا اپنی کرسی پر بٹھایا لوگوں کو دور ہٹاکر کہنے لگا کہ مولانا صاحب آپ کو یہ یہ چک دیدوں یہ زمینیں بہت زرخیز ہیں والد محترم نے کہا میرا چک جہاں ہے وہیں رہنے دو دوسروں کو تکلیف دیکر فائدہ اٹھاؤں میرے بس کی نہیں ، قانون گو اصرار کرتا رہا مگر والد محترم مرحوم انکار کرتے رہے آخرکار پرانا چک ہی برقرار رکھا بعد میں قانون گو لوگوں سے کہنے لگا کہ اس دنیا میں ایسے بھلے آدمی کا ہونا بڑا مشکل ہے۔
دنیا سے بے رغبتی کا یہ عالم تھا کہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد مدرسہ فیض عام مؤ میں اچھی تنخواہ کو چھوڑ کر مدرسہ سراج العلوم بونڈھیار میں کم تنخواہ پر تدریس کا کام شروع کیا ۔ کوئی ضرورت مند اگر آپ سے کوئی چیز طلب کرتا تو فوراً حاضر کرتے نہ ہونے پر دوسرے سے لیکر اس کی ضرورت پوری کردیتے کئی بار ایسا ہوا کہ دوسر سے قرض لیکر حاجت مند کو دیا اور آخر میں وہ قرض اپنی جیب سے ادا کیا۔
حاضر جوابی: آپ بڑے حاضرجواب تھے ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ کسی مجلس میں ایک استاذ نے ایک شاگرد سے پوچھا کہ ’’خف‘‘ کون سا مشتق ہے اچانک طالب علم سوال سے گھبرا گیا والد محترم نے طالب علم سے کہا ’’لاتخف‘‘ اور مجلس قہقہ زار ہوگئی۔
ایک بار ایک صاحب والد محترم سے ملاقات کیلئے تشریف لائے علیک سلیک کے بعد مہمان نے کہا یہی آپ کا گھر ہے تو والد صاحب نے فرمایا ہا ں یہی پھوس کی کٹی ہے مہمان نے کہا کہ مولانا یہ افسر کی چھونپڑی ہے اس گفتگو سے لوگ بہت محظوظ ہوئے۔
جرأت و ہمت : والد محترم مرحوم بہت بہادر و جری تھے اﷲ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے ایک بار بانسی سے گھر (ٹکریا) تشریف لا رہے تھے ،اس وقت لوگ پیدل ہی چلتے تھے سواریاں دستیاب نہیں تھیں آتے ہوئے رات ہو گئی راستے میں کچھ ڈاکو ملے ، والد محترم کے سامنے لاٹھیاں رکھ کر کہا جو کچھ ہے سب نکال دو، والد محترم نے ایک پر اپنی برچھی ماری (اس وقت برچھی لگی چھڑی رکھتے تھے ) لاٹھی دور جاکر گری اور گرجتے لہجے میں کہا کہ میرے پاس اتنے پیسے ہیں جس کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا ہو آگے بڑھے ، یہ رعب دار آواز سن کر ڈاکو ڈر گئے اور آپ کے راستے سے دور ہوگئے اور والد محترم مرحوم پیچھے دیکھتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔
خطابت: والد ماجد مرحوم خطابت کے میدان میں بھی ایک خاص مقام رکھتے تھے خطابت اس انداز کا ہوتا تھا کہ سامع ہمہ تن گوش رہتے تھے تقریر اثر پذیر ہوتی کبھی تو ایسا ہوا ہے کہ ایک ہی موضوع پر پوری رات تقریر کرتے رہے ۔ والد ماجد نے کئی بار یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک بار ششہنیاں ضلع سدھارتھ نگر میں مولانا عبدالجلیل رحمانی مرحوم نے دو شبی پروگرام رکھا جس میں مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگری مرحوم ۔ مولانا عبدالمبین منظر سمراوی مرحوم وغیرہم شریک تھے، اس دور میں عموماً عوام پہلی شب میں کم حاضر ہوتے تھے اسلئے خطیب بھی پہلی شب میں معذرت ہی کردیا کرتے تھے ، مولانا عبدالجلیل رحمانی مرحوم نے والد محترم مرحوم سے کہا آپ پہلے تقریر شروع کیجئے ، بعد نماز عشاء والد ماجد مرحوم نے ’’ إن الدین عنداﷲ الاسلام‘‘ پر تقریر شروع کی ، دھیرے دھیرے مجمع اکٹھا ہوتا گیا آپ تقریر کرتے رہے دو گھنٹے بعد مولانا عبدالجلیل رحمانی مرحوم نے رقعہ دیا کہ تقریر جاری رکھیں اس طرح آپ خطاب کرتے رہے اور مجمع پرسکون سنتا رہا یہاں تک کہ فجر کی اذان کا وقت ہوگیا۔
ایک ہی موضوع پراتنی دیر تقریر کرنا موضوع سے نہ ہٹنا یہ بھی آپ کے خطابت کی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی تھی، بعد میں مولانا عبدالجلیل رحمانی مرحوم نے کہا آپ نے تو لاج رکھ لی میرا جلسہ کامیاب ہو گیا۔
اولاد کی تربیت : والد ماجد مرحوم نے ہم لوگوں کی تربیت بڑے اچھے انداز سے کی تھی والدہ ماجدہ کا بھی اچھا خاصا دخل تھا (والدہ ماجدہ ویسے تو پڑھی لکھی نہیں تھیں مگردیندار تھیں قرآن و حدیث کی باتیں سن سن کر کافی جانکار ہوگئی تھیں گاؤں کی عورتوں کو غلط کاموں پر برجستہ ٹوکتیں ، والدہ ماجدہ ابھی با حیات ہیں) ایک بار مجھے (صغیر احمد صغیر رحمانی) جبکہ میں ابھی کمسن ہی تھا مچھلی کا شکار کرکے لایا والد محترم نے پوچھا کہ نماز پڑھی ہے میں نے کہا نہیں ، والد ماجد مرحوم نے وہ مچھلی نہیں کھائی ۔
ایک اور واقعہ ہے کہ میں (صغیر احمد صغیر رحمانی)درجہ دوم کا طالب علم تھا مدرسہ سے آتے ہوئے راستے میں ایک صاحب کے امرود کا درخت تھا وہاں گرے پڑے امرودوں کو میں نے اٹھایا اور لیکر گھر آیا (گھر اس انداز سے بنا ہوا تھا کہ پہلے چھپر کا کمرہ تھا جہاں آپ رہناپسند فرماتے تھے اس کے پیچھے کھپڑیل تھا) والد ماجد کی نگاہ پڑی ہاتھ میں امرود دیکھا پوچھا کہاں سے لائے ہو میں نے بتایا فلاں جگہ سے ، والد ماجد مرحوم نے کہا جہاں سے لائے ہو وہیں رکھ آؤ یہ تمہارا نہیں ہے ، میں روتے ہوئے واپس گیا امرود وہیں رکھ کر واپس آیا۔
وفات: جامعہ سراج العلوم بونڈھیار میں ہی ۲۰۰۱ء میں فالج کا شدید حملہ ہوا ٹکریا گھر لے آیا گیا علاج کا سلسلہ تقریباً آٹھ سال تک چلتا رہا ،بالآخر ۱۰؍نومبر۲۰۰۸ء بروز دو شنبہ بوقت دو بجے اسّی سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا اور یہ پیکر اخلاق آفتاب علم و فضل ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا پوری زندگی قال اﷲ قال الرسول کی صدا بلند کرنے میں گذاردی ۱۰؍نومبر ۲۰۰۸ء ہی کو عوام و خواص علماء تلامذہ اور معتقدین کی عظیم مجمع کی موجودگی میں آبائی قبرستان ٹکریا میں سپرد خاک کردیئے گئے ۔
اﷲم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ
ظہیر رحمانی
ٹکریا سدھارتھ نگر یوپی
شمع رو شن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے
استاذ الاساتذہ فیض الحسن فضا ابن فیضیؔ رحمہ اﷲ
(تاریخ وفات: ۱۷؍ جنوری ۲۰۰۹ء)
فیض الحسن فضا ابن فیضی یکم جولائی ۱۹۲۳ء میں مؤ ناتھ بھنجن کے محلہ جمال پورہ میں پیدا ہوئے ۔ یہ قصبہ قدیم زمانے سے پارچہ بانی کی صنعت میں مشہور ہے ۔
فضا کے جد امجد مولانا ابوالمعالی محمد علی فیضی اپنے دور کے معروف عالم تھے حدیث اور تفسیر پر ان کی گہری نظر تھی علامہ فیضی صاحب تصنیف و تالیف اور علم و تحقیق میں مرجع علماء تھے ، مولانا خطاطی میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے خصوصاً طغرا کے ماہر تھے ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے بعض خوبصورت طغرے آج بھی فضا کے خاندان میں محفوظ ہیں۔ علامہ فیضی شعر وادب کے بھی استاذ تھے اردو عربی اور فارسی تینوں زبانوں میں شعر کہتے تھے ، فضا نے اپنے جد امجد ہی سے یہ معنوی وراثت پائی ہے ۔افاضہ اور استفادہ کا یہ تعلق اتنا گہرا تھا کہ عرب شعراء کی طرح فضا بھی والد کے بجائے دادا کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں اور خود کو فضا ابن فیضی لکھتے تھے ۔
فضا کے والد مولانا منظور حسن صاحب بھی علوم دینیہ کے فارغ التحصیل ہیں انھوں نے درس و تدریس کے بجائے تجارت کو اپنا شعار بنایا۔ خاندان کی روایات کے مطابق فضا ابن فیضی نے عربی، فارسی، دینی تعلیم حاصل کی انھوں نے مدرسہ عالیہ اور مدرسہ فیض عام میں مولانا محمد ، مولانا عبداﷲ شائق، مولانا عبدالرحمن جیسے مشہور علماء سے فقہ، اصول، تفسیر ، حدیث،بلاغت اور عروض وغیرہ کی معیاری کتابیں پڑھیں اور موخر الذکر مدرسہ سے فراغت حاصل کی ۔
فضا مؤ کے مشہور فارسی عالم مولانا فیض الحسن فیضی سے مشورۂ سخن شروع کی اور مولانا کی وفات تک تلمذ کا سلسلہ باقی رکھا۔
تعلیم کے بعد فضا ابن فیضی نے تجارت میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانا شروع کیا تجارت کی سود مندی کا شعور جس قدر پختہ ہوتا گیا اس سے کہیں زیادہ ادب کا شعور دخیل ہوتا گیا۔
فضا ابن فیضی کم و بیش چالیس سال سے چمن شعر کی لالہ کاری کررہے تھے انہوں نے اپنے خون جگر سے اردو شاعری کو جو رعنائی اور توانائی بخشی ہے ہندو پاک کے ہر صاحب نظر نقاد کو اس کا اعتراف ہے ، ایک بار راقم الحروف نے فضا ابن فیضی سے ان کی شاعری کے تدریجی ارتقا کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے لکھا:
’’ شاعری کی ابتداء جب میں مدرسہ عالیہ میں زیر تعلیم تھا۔ ابتدائی جماعتوں میں ہوچکی تھی پہلی تخلیق جو غزل کے فارم میں تھی میری شاعری کا سنگ بنیاد کہی جاسکتی ہے گو اس کا مواد نظم سے قریب تھا ۔ ابتدائی دور کا جہاں تک تعلق ہے طبیعت کا رجحان زیادہ دور تک غزل گوئی کا ساتھ نہ دے سکا اور آہستہ آہستہ فکر کی رو نظم نگاری کی طرف مڑگئی۔ پھر میں اسی کے غمزۂ جاں ستاں کا قتیل ہو کر رہ گیا۔ اس کے باوجود غزل کی طرف سے مکمل انقطاع کی صورت حال کبھی نہیں رہی۔ اس دوران بھی غزلیں گاہے گاہے کہتا رہا لیکن اس دور کا غزلیہ کلام ادھر ادھر ہوتا رہا اور میرے متعلقین ہی اس سے فیض اٹھاتے رہے۔ اتفاق سے مجھ سے مشورہ کرنے والوں کی غالب اکثریت غزل گوئی کے دائرے میں تقریباً محدود تھی۔ اس تعلق سے کبھی غزل کی طرف سے پوری روگردانی ممکن نہ تھی۔ گویا اوائل ہی سے میں دونوں اصناف سخن سے ذہنی طور پر وابستہ رہا۔ نظم سے زیادہ اور غزل سے کم ۔ اس اعتبار سے بقول نیاز فتحپوری میں ذوالریاستین شاعر ہوں۔ لیکن ایک موڑ آیا کہ میں ایک طویل عرصہ تک نظم نگاری کے تپتے ہوئے ریگستان میں جھلسنے رہنے کے بعد سنجیدگی سے غزل کے نخلستان کی طرف مڑ گیا۔ ممکن ہے غیر شعوری طور پر میں بھی اس ذہنی و فکری واضح تبدیلی کی رو سے متاثر ہوا ہوں۔ جو ۱۹۵۰ء کے بعد ہماری شاعری اور ادب میں ابھری یعنی نظم سے غزل کی طرف مراجعت ۔ یہ مراجعت شاید ان رویوں اور لاحقوں کا رد عمل تھا جو ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں غزل کی طرف سے عام بیزاری اور بے توجہی کی شکل میں ظاہر ہوئی تھی ۔ بہر حال میں نہیں کہہ سکتا کہ اس مراجعت ذہنی میں اور کون سے عوامل کی کارفرمائی تھی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ادھر میں نے غزلیں زیادہ کہی ہیں اور نظمیں بہت کم ‘‘۔
عربی اور فارسی کے عمیق مطالعے نے فضا کی زبان اور فکر کو ایک خاص کلاسیکی وقار عطا کیا ہے ۔ ان کے کلام میں معلقات کی شوکت لفظی، متنبی کی معنی آفرینی اور معری کی انا ہے۔ ان کی شاعری میں مشرقی شعراء اور مفکرین کا پرتو ضرورہے لیکن انھوں نے مغرب کے شعراء کی خوشہ چینی نہیں کی، فضاکی شاعری کا جو بھی سرمایہ ہے وہ خالص ان کا اپنا ہے۔
فضا کے کلام کے مجموعے : سر شاخ طوبیٰ ،(حمد و نعت و منظومات ۱۹۹۰ء) سفینۂ زرگل(غزلیات و رباعیات ۱۹۷۳ء) پس دیوار حرف (غزلیات ۱۹۹۱ء) شعلۂ نیم وسوز (منظومات۱۹۷۸ء) دریقہ سیم و سمن (غزلیات ۱۹۸۹ء) سبزۂ معنی بیگانہ(غزلیات۱۹۹۴ء) غزال مشک گزیدہ(رباعیات) لوح آشوب آگہی(منظومات) آئینہ نقش صدا(غزلیات) ان کے علاوہ فضا ابن فیضی کے غیر مرتب کلام کی تعداد زیادہ ہے۔
تلامذہ : فضا ابن فیضی کے تلامذہ کی تعداد زیادہ ہے لیکن جن لوگوں نے شاعری میں کمال حاصل کیا ان میں سے ضیا انصاری، مبتلا غازی پوری، جنید حزیں لاری( صاحب دیوان حرف ونوا) رئیس صاحب دیوان ،‘‘ آسماں چراں‘‘، آفاق احمد ، غنی احمد غنی، مشتاق شبنم، سردار شفیق صاحب دیوان’’تازہ ہوا‘‘ ماہر انصاری، ناصر انصاری، وکیل اشہر،فیض الحسن بسمل، ادریسی، ناز قادر صاحب دیوان’’ لمحوں کی صدا ‘‘ قابل ذکر ہیں۔
۲؍اپریل ۱۹۸۱ء کو فضا کے دوستوں اور ہو نہار شاگردوں نے ’’ دانش کدہ‘ ‘لائبریری (جس کے بانیوں میں خود فضا بھی ہیں) کی طرف سے ان کا جشن منایا۔ آل انڈیا مشاعرہ کیا اور’’پیکر دانش‘‘ کے نام سے ایک طلائی طمغہ اور سند دے کر ان کی شعری و ادبی خدمات کا اعتراف کیا۔
مشہور شاعر اور مکتبہ دین وادب کے مالک جناب والی آسی نے ۲۸؍مارچ ۱۹۷۵ء کو روندالیہ لکھنؤ میں’’ فضاابن فیضی کے ساتھ ایک شام‘‘ کا اہتمام کیا اور اسی موقع پر انھوں نے ایک یادگاری سوینیر شائع کیا تھا جس میں فضا ابن فیضی کی شاعری پر مختلف اہل قلم کے مضامین اور تاثرات شامل تھے ہند مشاعرہ بھی اس تقریب کا ایک جز تھا۔
سر اقبال پبلک لائبریری اسکول مؤ کی جانب سے ۱۸؍مارچ ۲۰۰۱ء کو جشن فضا ابن فیضی منایا گیا اس تقریب میں سمینار اور مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں فضا ابن فیضی کو علامہ اقبال ایوارڈ ( پندرہ ہزار روپئے نقد، تمغہ اور سند سے نوازا گیا۔ عبدالجبار فریوائی ایوارڈ سے بھی نوازے گئے۔
رسالہ ’’ توازن‘‘ مالیگاؤں کے مدیر جناب عتیق احمد عتیق نے فضا ابن فیضی نمبر (حصہ اول) شائع کیا، پہلا حصہ ۱۹۹۰ء میں شائع ہو چکا ہے جو تین سوصفحات پرمشتمل ہے ۔ دوسرا حصہ زیرِ اشاعت ہے۔
اس مقالے کے بعد جناب ڈاکٹر حدیث انصاری بلیاوی نے فضا ابن فیضی پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اس کے علاوہ ایک صاحب بھی اس موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تیار کرنے میں سر گرم عمل ہیں ان حوالوں کے علاوہ فضا ابن فیضی پر نہ جانے کتنے لوگ روانی قلم کو مہمیز کرتے رہیں گے ۔ ان کے نتائج منظر عام پر آنے کے بعد ہی ان کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔
فضا ابن فیضی کی شخصیت اطراف ادب کی ایک جامع اور ہمہ گیر شخصیت ہے وہ شروع ہی سے اردو شعر وادب کی خدمت پوری دلجمعی سے کررہے ہیں ان کی حیات اور شخصیت ایک زندہ دل اور احساس انسان اور شخصیت کی آئینہہ ہوا کرتی ہے۔ (جریدہ ترجمان دہلی ۱۵؍فروری ۲۰۰۹ء)
آیئے درج ذیل سطور میں فضا ابن فیضی رحمہ اﷲ کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ان اشعار کی شان ورود جامعہ سلفیہ بنارس کا پہلا جلسۂ تقسیم اسناد منعقدہ ۱۹۶۹ء ہے جس میں سعودی عرب کی وزارت تعلیم کے مندوب شیخ عبدالوہاب البناء رحمہ اﷲ نے شرکت فرمائی تھی اس موقع پر فضا ابن فیضی نے درج ذیل اشعار پڑھے تھے جو ہدیہ قارئین ہے:
اے حریم علم و دانش ، مرکزی دارلعلوم !
اے چراغ آگہی، اے شمعِ فرمانِ رسولؐ
خوشبوئے پیراہنِ جبریل ہے تیرا نفس
تو ہے سر سے پاؤں تک گلزار دامان رسولؐ
تیرے ہونٹوں کی لطافت ، شعلۂ نطقِ کلیم
تیرے پہلو کی امانت، سوزِ ایمانِ رسولؐ
تیرے پرتو سے فروزاں محفلِ قرآنِ پاک
لمس سے تیرے تروتازہ گلستانِ رسولؐ
کس صنم خانے میں ڈالی تونے ’’ بنیاد خلیل‘‘
ارضِ کاشی کی فضا بھی ہے نو اخوان رسولؐ
یہ ترے ماحول کا نکھرا ہوا علمی وقار
میرے ہاتھوں میں’’ عبیداﷲ‘‘ کا دامن ہے تو
تھی نصاب علم و فن میں پہلے کب یہ پختگی
اس نصاب علم و فن کو معتبر تونے کیا
تو مبلغ ہے ثناء اﷲ کے کردار کا
وقت کو پیمانۂ ذوق ہنر تو نے کیا
جلسۂ تقسیم اسناد اور یہ شام حسیں
ذرے ذرے کو چراغ رہگزر تونے کیا
شاد ہے روح ابوالقاسم کہ اس کے شہر میں
اہتمام دعوت فکرونظر تو نے کیا
جانتا ہوں اے طلسمِ شوخیٔ عبدالوحید
کس کے خوابوں اور تمناؤں کا سرمایہ ہے تو
’’ناصرالدین‘‘ ہیں ترے گل زارِ معنی کی بہار
چہرۂ ’’یوسف انس‘‘ کا احمریں غازا ہے تو
تیرا نقشِ دلبری دامن کشِ ’’ عبدالوہاب‘‘
جس پہ نازاں ہے صدف وہ گوہرِ یکتا ہے تو
اے حریم علم و فن ، اے مرکزی دارلعلوم!
خود ہوا تیرے چراغوں کی نگہداری کرے
راس آئے تجھ کو یہ تقریب، یہ شام و سحر
تو اسی صورت اندھیروں میں ضیا باری کرے (فضا ابن فیضی)
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور ، بلرام پور
زندگی وقف تھی مولا کی رضا کی خاطر
اس نے جو کچھ بھی کیا دار بقا کی خاطر
الحاج مشتاق احمد انصاری رحمہ ٗاﷲبھدوہی
(تاریخ وفات: ۲۰؍مئی ۲۰۰۹ء)
قصبہ بھدوہی اعلیٰ قالین سازی کا بہت بڑا مرکز ہے،نئی بازار بھدوہی میں چار بنگلہ ہے جو چار بھائیوں کے نام سے موسوم ہے الحاج محمد عباس انصاری رحمہ اﷲ ۔ الحاج محمد ادریس انصاری رحمہ اﷲ ۔ الحاج عبدالمجید انصاری رحمہ اﷲ (الحاج عبدالقدوس الحاج محمد اقبال الحاج محمد اصغر انصاری رحمہم اﷲ) یہ چاروں بھائی ایک ایک بنگلہ مع اپنے متعلقین کے ساتھ رہتے ہیں ، یہ بنگلہ ایک وسیع قطعہ آراضی میں جو کئی ایکڑ میں پھیلا ہوا ہے چہار دیواری کے اندر ایک ہی قسم کے مزیک کے چار عظیم الشان بنگلے بنے ہوئے ہیں ۔ بیچ میں سبزہ وسیع دالان ہے جن سے ان عمارتوں کا حسن دوبالا ہو گیا ہے یہ چار بنگلے نہایت شاندار و پُرشکوہ جن کو اپنے حسن و جمال اور خوبصورتی کی وجہ سے عجائبات عالم میں شمار کیا جاتا ہے اسی میں یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے تاجروں اور بیوپاریوں کے قیام کیلئے مہمان خانہ ہے یہ بنگلے بہت قیمتی فرنیچر سے آراستہ و پیراستہ ہیں جو صرف دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ بحمداﷲ چار بنگلہ سے متصل جامع مسجد اہل حدیث اور بھدوہی کے دیگر مساجد میں قالینوں کے سفید دبیز کپڑوں کا صاف شفاف فرش بچھا رہتا ہے۔
میں بنگلہ کے قریب گیا تو ان بنگلوں میں سے ایک بنگلہ کے معزّز مکین الحاج مشتاق احمد انصاری سے نیاز حاصل ہوا لمبا قد،سرخی مائل رنگ روشن آنکھیں کشادہ پیشانی پُررونق چہرہ اور وجیہ خوش کلام خوش اخلاق سادہ اور صاف ستھرا لباس یہ تھے ہمارے ممدوح الحاج مشتاق احمد انصاری رحمہ اﷲ ایک نیک خاندان کے نیک نام رکن الحاج محمد ادریس صاحب انصاری کے صالح فرزند ۔ اﷲ تعالیٰ نے الحاج محمد ادریس انصاری کو دولڑکوں سے نوازا ہے ایک تو الحاج مشتاق احمد انصاری دوسرے عبدالسمیع انصاری (شمیم احمد) ہیں دونوں صاحبان اپنے والد محترم کے جانشین ہیں تھوڑی دیر کے بعد حاجی صاحب اپنے کارخانہ پر لے گئے وہاں وسیع کشادہ کارخانہ کا مشاہدہ کیا لگ بھگ کارخانہ میں دو گھنٹہ رہا ، مذہبی علمی اور سیاسی گفتگو ہوتی رہی، الحمدﷲ حاجی صاحب میری کتابوں سے کافی متاثر تھے ہر کتاب کی اشاعت پر مسرت کا اظہار فرماتے حوصلہ افزائی اور دعاؤں سے نوازتے، حتی الوسع کتابوں کی اشاعت کیلئے تعاون فرماتے الحمد ﷲ حاجی صاحب کے دونوں صاحبزدگان محمد واصف انصاری و محمد شارق انصاری اس صدقہ جاریہ کو جاری رکھے ہیں اﷲ تعالیٰ اجر عظیم سے نوازے۔
بنگلہ والوں کا قالین سازی کا کارخانہ بھدوہی کا سب سے بڑا کارخانہ ہے جس میں سینکڑوں آدمی روزانہ کام کرتے ہیں لاکھوں اور کروڑوں کا مال سالانہ تیار ہوتا ہے یورپ امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ کی منڈیوں میں جاتا ہے۔
میں نے الحاج مشتاق احمد انصاری صاحب سے دریافت کیا آپ اور آپ کے خاندان اور قصبہ کے لوگ کب سے عامل بالحدیث ہیں فرمایا تقریباً نوے سال سے ، شروع شروع میں حافظ الحدیث علامہ مولانا عبدالتواب ۱ غزنوی علی گڈھی رحمہ اﷲ بھدوہی اکثر تشریف لاتے تھے اور
۱ بر صغیر کے جن حضرات نے احادیث رسول ﷺ کی حفظ و صیانت کو اپنا مقصد حیات قراردیا ان میں ایک عالم دین مولانا عبدالتواب غزنوی تھے انھیں علی گڈھ کی نسبت سے بھی پکارا جاتا ہے اسلئے کہ انھوں نے علی گڈھ کو اپنا مسکن قرار دے لیا تھا ان کے والد گرامی کا اسم گرامی عبدالوہاب تھا کلمۂ توحید بلند کرنے کے نتیجے میں حضرت سید عبداﷲ غزنوی اور ان کے اہل و عیال کو افغانستان حکومت نے شدید سزائیں دینے کے بعد اپنے ملک سے نکال دیا تو عبد الوہاب بھی انہی کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوئے عبدالتواب کی(بقیہ اگلے صفحہ پر)
والد محترم کے مہمان ہوتے تھے ہم سب ان کے پُر اثر وعظ اور حفظ حدیث سے بہت متاثرہوئے
اور ان کے اثر سے اس مسلک کا اس قصبہ میں بڑا فروغ حاصل ہوا اور بحمداﷲ بچہ بچہ اہل حدیث ہو گیا ، میں نے حاجی صاحب کی زبان سے مسلک اہل حدیث کے فروغ کی داستان دلچسپی سے سنی دعا ہے کہ یہاں کے مسلمانوں میں خالص اسلام جو روزانہ پھیل رہا ہے اس مسلک حق کے پھیلاؤ میں دن بدن اضافہ ہواور پوری دنیا اس مسلک پر عامل ہو جائے۔
(پچھلے صفحہ کا بقیہ)ولادت ۱۸۷۱ء میں ہوئی غزنی (یعنی افغانستان سے ہجرت کے وقت ان کی عمر دس سال کی تھی غزنی سے امرتسر آئے تو حصول علم کی ابتدا حضرت الامام سید عبدالجبار غزنوی) سے کی ان سے قرآن مجید پڑھا اور فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں پھر قرآن مجید حفظ کرنا شروع کیا تو دس گیارہ برس کی عمر میں صرف ایک مہینہ میں قرآن مجید حفظ کرلیالیکن لوگ یہ ماننے کیلئے تیار نہ تھے اس کا یقین انھیں اس وقت ہوا جب چند روز بعد رمضان المبارک کا مہینہ آیا اور عبدالتواب صاحب نے نماز تراویح میں پورا قرآن مجید سنا دیا اس کے بعد تحصیل علم کیلئے امرتسر سے باہر نکلے ، مولانا حمیداﷲ میرٹھی سے حدیث پڑھی اور سند و اجازہ مولانا رشید احمد گنگوہی مولانا محمد بشیر سہسوانی شیخ حسین یمنی اور شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی سے حاصل کیا۔
نواب صدیق حسن خاں نے اعلان فرمایا کہ جو شخص کتب حدیث حفظ کرے گا اسے انعام دیا جائے گا صحیح بخاری کے حفظ پر انھوں نے ایک ہزار روپئے کاانعام مقرر کیا اس اعلان کے بعد مولانا عبدالتواب علی گڈھی نہ صحیح بخاری حفظ کرنا شروع کردی تین پارے حفظ ہوگئے تو نواب صاحب کو اطلاع دی نواب صاحب نے تا اختتام بخاری تیس روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کردیا لیکن افسوس کہ اعلان کے پندرہ روز بعد نواب صاحب وفات پاگئے تاہم مولانا عبدالتواب علی گڈھی نے اپنا کام جاری رکھا اور بے شمار حدیثیں انھیں حفظ ہو گئیں وعظ فرماتے تو حدیثیں سنانے کا طویل سلسلہ شروع ہو جاتا۔
وہ اہل حدیث کی مختلف مساجد و مدارس میں مدرس اور خطیب رہے گنور ضلع بدایوں میں دس سال داناپور پٹنہ میں دس سال اور علی گڈھ میں بیس سال خدمت درس و خطابت سر انجام دی انھوں نے علی گڈھ کو مستقل طور سے اپنا وطن بنا لیا تھا مولانا عبدالتواب صاحب کا حلیہ یوں تھا قدرے لمبا درمیانہ جسم نہ موٹے نہ زیادہ پتلے گورا رنگ چہرے کے نقوش خوبصورت سر پر عمامہ اکثر شیروانی پہنتے تھے ۔ ۱۹۵۰ء میں انتقال فرمایا اﷲ تعالیٰ اس جلیل القدر عالم ممتاز خطیب و مقرر و حافظ حدیث کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔آمین یا رب العالمین (عبدالرؤف خاں ندوی ) بحوالہ گلستان حدیث از علامہ محمد اسحاق بھٹی ص: ۱۷۱)
میں نے غور کیا کہ مسلک اہل حدیث کے پھیلنے کی اصل وجہ ہمارے اسلاف کرام کی دعوت و تبلیغ و تصنیفات ہیں عصر حاضر میں علامہ محمد اسحاق بھٹی صاحب حفظہ اﷲ نے علمائے اہل حدیث اور مسلک اہل حدیث کے بارے میں جتنا کچھ لکھا ہے اس کا موازنہ علامہ ثناء اﷲ امرتسری ، نواب صدیق حسن خاں اور علامہ محمد جونا گڈھی جیسے علمائے سلف کی قلمی خدمات ہی سے کیا جا سکتا ہے ان ہی کاوشوں کا نتیجہ یہ ہے کہ آج سلفیت جو ماضی قریب میں وہابیت کے نام سے شجر ممنوعہ تھی اور بر صغیر معاند علماء ’’اخراج الوہابین عن المساجد‘‘ جیسے رسالے لکھ کر سلفیوں کو مسجدوں میں داخل نہیں ہونے دیتے تھے آج ان کی نا مسعود کوششوں کے باوجود توحید خالص کا عرفان عام ہورہا ہے بر صغیر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اب مسلمانوں خصوصاً نوجوان نسل کا رجحان سلفیت یعنی خالص اسلام کی طرف ہو رہا ہے علامہ ابن احمد نقوی رحمہ اﷲ سے ڈاکٹر محمد مجیب الرحمن سابق پروفیسر راج شاہی یونیورسٹی بنگلہ دیش مقیم حال نیو یارک نے ایک گفتگو میں بتایا کہ نیویارک جس علاقہ میں ہم مقیم ہیں اس کے قریب ہی ہیمنٹ میں ایک مسجد ہے وہاں سارے نمازی اہل حدیث ہیں اور جس وقت وہ آمین بالجہر کہتے ہیں تو پوری مسجد گونج اٹھتی ہے ۱ دیکھئے روشنی کس طرح اور کس تیزی سے پھیل رہی ہے کیا بیسویں صدی کے آغاز میں کوئی یہ سوچ بھی سکتا تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ مغرب کی وادیوں میں آمین کی آواز گونجے گی ۔ سچ ہے روشنی کا سیل رواں کسی کے روکنے سے بہت دیر تک نہیں رک سکتا ایک وقت وہ تھا کہ بڑے بڑے علماء کو آمین بالجہر اور رفع یدین کا حوصلہ نہ ہوتا تھا سر سید رحمہ اﷲ نے لکھا ہے کہ حضرت میاں محمد نذیر حسین محدث دہلوی فساد خلق کے اندیشہ سے آمین بالجہر اور رفع یدین پر عمل نہیں کرتے تھے ایک دن جب حضرت میاں محدث دہلوی سے سر سید ملنے گئے تو انھوں نے عرض کیا حضرت آپ تو اہل حدیثوں کے امام ہیں
۱ جریدہ ترجمان دہلی ۱۵؍مئی ۲۰۰۷ء
اگر آپ ہی سنت پر عمل نہ کریں گے تو عوام الناس کو کیسے ترغیب ملے گی ۔ سر سید کی بات حضرت میاں صاحب کے دل میں بیٹھ گئی اور اسی دن سے انھوں نے علی الاعلان ان سنتوں پر عمل شروع کردیا ۔ ۱
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آج نہ سلفیت(وہابیت) شجر ممنوعہ ہے اور نہ اہل حدیث اچھوت سمجھے جاتے ہیں اور یہ سب ثمرہ ہے ہمارے ان عظیم علمائے کرام اور اہل قلم واعظین مبلغین اور مناظرین کا جنھوں نے مسلک دین خالص کو عام کرنے کیلئے بے مثال قربانیاں دیں اﷲ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرمائے اور جو حیات ہیں اور راہ حق میں سرگرم عمل ہیں ان کی حیات مبارکہ میں اور سرگرمیوں میں برکت عطا فرمائے تاکہ روشنی کا یہ سفر جاری رہے۔
مسلک اہل حدیث تیزی سے پھیلنے کی اصل وجہ یہ بھی ہے کہ کتاب اﷲ اور سنت رسول ﷺ ہدایت کی کنجی اور کامیابی کی کلید ہے مسلمانوں کی عزت اور سربلندی کا راز صرف اور صرف قرآن وحدیث سے وابستگی میں مضمر ہے خالص اسلام ( مسلک اہل حدیث) ہی مسلمانوں کے جملہمسائل و مشکلات کے حل کی واحد پناہ گاہ اور کتاب و سنت کا اور اتحاد امت کی واحد مستحکم بنیاد ہے تمام مسلمان قرآن و حدیث کی تعلیمات و ہدایات کے پابند ہیں ، عقائد و اعمال میں تمام بگاڑ کتاب وسنت کو نظر انداز کرنے سے پیدا ہوتا ہے ، ہمیں کسی بھی حالت میں اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات اور پیغامات نظر انداز نہیں کرنا چائیے کیونکہ عقیدہ توحید کی کمزوری اور سنت رسول سے بیزاری امت کی تباہی کا سبب ہے۔
گفتگو طویل ہو گئی بات چل رہی تھی الحاج مشتاق احمد انصاری رحمہ اﷲ کی ، حاجی صاحب کے اندر سب سے خاص بات یہ تھی کہ آپ کے ہر کام میں خلوص کار فرما ہوتا فیاضی و سخاوت آپ کی
۱ الحیاۃ بعد المماۃ
فطرت ثانیہ تھی توکل علی اﷲ آپ کا اصلی وصف تھا شرک و بدعت ، رسم و رواج، خرافات و منکرات سے سخت بیزاری تھی عابدزاہد شب زندہ دار ، تقویٰ خشیت و ﷲیت راست بازی میں اپنی مثال آپ تھے اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ کردار کے لحاظ سے آپ اپنا جواب نہیں رکھتے تھے،حاجی صاحب میں کار خیر کا بڑا جذبہ پایا جاتا تھا۔
سادگی ضبط و تحمل ، خلوص ووفا ، مسلکی غیرت و حمیت جیسے صفات آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے آپ کی ذات مجسم صبر و شکیب تھی ہمسایوں اور رشتہ داروں اور خاندان کے حقوق کی پاسداری کرنا اپنا فریضہ سمجھتے تھے اور ان کے لئے اپنا دروازہ کھلا رکھتے تھے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو مال و دولت کے ساتھ ساتھ دولڑکوں محمد واصف انصاری و محمد شارق انصاری اور تین لڑکیوں سے بھی نوازرکھا ہے حاجی صاحب کے گھر کے تمام ارکان پر دینی غلبہ ہے سبھی اخلاق کے اعلیٰ نمونہ احکام شریعت کے پابند غریبوں یتیموں معذوروں ،ضرورت مندوں کے مسیحا ہیں محمد واصف و محمدشارق اپنے والد محترم کے جانشین ہیں حاجی صاحب رحمہ اﷲ کی وفات کے بعد بحمد اﷲ جود و سخا کا یہ چشمہ رواں ہے فیاضی و سخاوت کا سیل رواں آپ کے دونوں لڑکے عزیزان محمد واصف انصاری و محمد شارق انصاری جاری کئے ہوئے ہیں ۔ حاجی صاحب کی وفات سے جماعت اور دینی اداروں کے علاوہ بہت سے لوگوں کو ذاتی طور پر دکھ ہوا ہے اور سب اس فرقت غم میں رنجیدہ ہیں حاجی صاحب سے راقم الحروف کے تعلقات بدرجہ غایت مخلصانہ تھے حاجی صاحب کو عمر کے تقاضا کی وجہ سے شوگر اور ہارنیا کی شکایت بھی ہو گئی تھی آخری مرتبہ ہارنیا کے آپریشن کیلئے دہلی لیجائے گئے مگر آپریشن کامیاب نہ ہوسکا اور مورخہ ۲۰؍مئی۲۰۰۹ء کو سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون آپ کی میت کو آپ کے آبائی وطن بھدوہی لایا گیا جہاں دوسرے دن ۲۱؍مئی ۲۰۰۹ء کو نماز مغرب کے بعد ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں آپ اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دئیے گئے ۔ نماز جنازہ جامعہ سلفیہ بنارس کے استاذ مولانا محمد مستقیم صاحب سلفی حفظہ اﷲ نے پڑھائی۔
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ حاجی صاحب کی اولاد کی زندگی میں خیر و برکت عطا فرمائے اور انھیں کتاب و سنت کی خدمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آئیں اور حاجی صاحب کے پوتوں پوتیوں نواسوں اور نواسیوں کو بھی اﷲ تعالیٰ ہمیشہ خوش و خرم رکھے اور خدمت دین میں ہمیشہ مشغول رہیں ، اﷲ تعالیٰ عزیزان محمد واصف انصاری و محمد شارق انصاری کو اپنے بلند مرتبت باپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے۔(آمین)
اﷲم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور۔ بلرام پور
٭٭٭
ماسٹر مقصود احمد تنہا انقلابی رحمہٗ اﷲ دیالی پور
( تاریخ وفات: ۴؍ستمبر ۲۰۱۰ء )
ماسٹر تنہا انقلابی کے والد محترم کا اسم گرامی حاجی برکت اﷲ تھا اور دادا کا نام حاجی محمد یوسف تھا اﷲ تعالیٰ نے حاجی محمد یوسف کو دولڑکوں سے نوازا تھا ، حاجی برکت اﷲ خاں اور محمد ےٰسین خاں ۔ حاجی برکت اﷲ نیک صالح موحد سلفی المسلک تھے آپ کو اﷲ تعالیٰ نے پانچ لڑکوں اور ایک لڑکی سے نوازا ہے ۔ (۱) محمود خاں (۲) ماسٹر مقصود احمد تنہا انقلابی (۳) مسعود احمد خاں (۴) حاجی منصور احمد خاں انجینئر (۵) منظور احمد اور لڑکی کا نام قمر النساء ہے۔
تنہا انقلابی کے علاوہ سبھی بھائی بہن حیات ہیں ۔
تنہا صاحب اپنے آبائی گاؤں دیالی پور میں ۳۰؍اپریل ۱۹۳۹ء کو پیدا ہوئے دینی ماحول میں آپ نے آنکھیں کھولی آپ کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں ہوئی تعلیمی اسناد کے مطابق جونیر ہائی اسکول سوتنر بھارت انٹرکالج تلسی پورسے کیا ہائی اسکول اترولہ انٹر کالج سے ۱۹۵۷ء میں کیا انٹر میڈیٹ بھی اترولہ انٹر کالج سے ۱۹۵۹ء میں کیا بی اے ۱۹۷۲ء میں علی گڈھ مسلم یونیورسٹی سے انگریزی اور اردو سے کیا ادیب کامل جامعہ اردو علی گڈھ سے۱۹۷۲ء میں کیا ایم اے ۱۹۸۱ء میں کیا۔
۱۹۵۷ء سے سرکاری سروس پرائمری سے آغاز کیا پھر پرموشن سے جونیر ہائی اسکول میں کئی سال تک تدریسی فرائض انجام دئیے پھر ماڈل اسکول بلرام پور میں کام کیا اس کے بعد گورنمنٹ انٹرکالج فیض آباد میں کئی سال تک تدریسی فرائض انجام دیتے رہے پھر گینسڑی بازار گورنمنٹ ہائی اسکول کیلئے ٹرانسفر ہوا یہاں پر بھی کئی سال تدریسی فرائض انجام دیئے اور مورخہ ۳۰؍جون۱۹۹۷ء کینسڑی گورنمنٹ ہائی اسکول سے ریٹائر ہوئے ۱۹۹۹ء آپ کو مع اہلیہ حج بیت اﷲ کی سعادت نصیب ہوئی۔
اﷲ تعالیٰ نے تنہا کو چھ لڑکوں اور ایک لڑکی سے نوازا ہے۔
(۱) کمال احمد (۲) جمال احمد مرحوم (۳) نہال احمد پردھان (۴) مہ روزخاں (۵)فیروزاحمد (۶) پرویز احمد اور ایک لڑکی پروین بانو ہے ، جمال احمد کے علاوہ بحمدﷲ سبھی لڑکے حیات ہیں ۔
تنہا صاحب ماہر مدرس کے ساتھ ساتھ لکھنے پڑھنے کا صاف ستھرا ذوق رکھتے تھے اردو زبان سے کافی لگاؤ تھا چنانچہ ۱۹۸۷ء میں تنہا صاحب نے ایک پندرہ روزہ اخبار ’’ شاہراہ حقیقت‘‘ نکالا اس اخبار کے آپ مدیر مسؤل تھے ایک سال پابندی سے نکالا لیکن نامساعد حالات کی وجہ سے بند کردینا پڑا سماج اور معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی ابتدا اپنے خاندان سے کیا اور ایک کمیٹی خاندانی مجلس اصلاح کمیٹی بنائی اس کمیٹی کے آپ صدر تھے۔
تنہا صاحب میں جماعتی و مسلکی غیرت کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔ تنہا صاحب وضع دار رکھ رکھاؤ اور بااصول انسان تھے اچھے معلم اچھے مضمون نگار شاعر حق گو جرأت مند بے باک خوش مزاج خوش اخلاق تھے ان کی زندگی کا ہر پہلو اجلا اور ہر گوشہ لائق اعتنا تھا ناچیز کے ساتھ مرحوم کے تعلقات بدرجہ غایت مخلصانہ تھے ۔ تنہا صاحب علم دوست تھے اہل علم سے گہری محبت رکھتے تھے اکابر علماء دانشور طبقہ سے ان کے گہرے مراسم و روابط تھے احقاق حق اور ابطال باطل کے معاملہ میں کسی سے نہ خوف زدہ ہوتے اور نہ کسی کی رعایت کرتے ، تنہا صاحب کے سینے میں دردمند دل تھا ملک میں فرقہ واریت ذات پات اونچ نیچ بھید بھاؤ سماجی ظلم ناانصافی نابرابری مذہبی تنگ نظری اور فرقہ وارانہ فساد ات اور مسلمانوں پر ظلم و بربریت سے بہت دکھی رہتے تھے اور پوری زندگی اس کے خلاف لڑتے رہے۔
تنہا صاحب کتاب و سنت کو منبع ہدایت سمجھتے تھے خلوت میں اﷲ کے حضور گڑگڑاتے روتے اور حمدو ثنا میں اپنا وقت صرف کرتے جلوت میں تلقین حق کا فریضہ سر انجام دیتے فریضۂ حج کی ادائیگی کی واپسی کے بعد گوشہ نشین ہو گئے میل ملاپ کا سلسلہ محدود کرلیا تھا ان کی سر گرمیوں کا دائرہ صرف قرآن مجید کی تلاوت و تفسیر و احادیث کا مطالعہ پنج وقتہ باجماعت نماز کی ادائیگی ذکرو اذکار تک سمٹا ہوا تھا ۔
تنہا صاحب کچھ دنوں سے بیمار چل رہے تھے وقت اجل آپہونچا اور مورخہ ۴؍ستمبر ۲۰۱۰ء سفر آخرت پر روانہ ہوگئے ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون آپ کی اہلیہ محترمہ کا آپ سے ایک ہفتہ قبل ۲۹؍اگست ۲۰۱۰ء انتقال ہوا تنہا صاحب اور آپ کی اہلیہ محترمہ کا نماز جنازہ تنہا صاحب کے بھتیجہ مولوی فصیح الدین خاں نے پڑھائی تنہا صاحب میں بہت سی خوبیاں تھیں کن کن خوبیوں کا شمار کیا جائے ۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کیلئے
مورخہ ۴؍ستمبر ۲۰۱۰ء کو ایک عظیم مجمع کی موجودگی میں پُر نم آنکھوں سے اس مرد مجاہد کو ان کے آبائی قبرستان دیالی پور میں سپرد خاک کردیاگیا۔
اﷲم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور۔ بلرام پور ۔یوپی
مولانا سید تجمل حسین منگل پوری رحمہٗ اﷲ
(تاریخ وفات: ۳؍دسمبر ۲۰۱۰ء)
نام و نسب: آپ کا نام تجمل حسین باپ کا نام رحمت علی دادا کا نام امیر علی تھا خاندانی لقب سید اور وطنی نسبت منگل پوری تھا اور آپ میاں تجمل حسین منگل پوری سے مشہور و معروف تھے آپ کے دادا سید امیر علی اصلاً بستی کے ایک گاؤں مجھوا میر کے باشندہ تھے جو سید جعفر علی نقوی رکن تحریک شہیدین کا مسکن تھا سید امیر علی دعوت و تبلیغ کے مقصد سے ضلع مہراج گنج کے ایک گاؤں شکار گڈھ میں آکر آباد ہوگئے اور جب اپنے مقصد میں نا کام رہے تو وہاں سے ہجرت کرکے قصبہ کولہوئی بازار سے پچھم دو کلو میٹر ببھنی خورد میں فرو کش ہوگئے۔
تاریخ پیدائش: موضع ببھنی خورد میں ۱۹۳۱ء میں مولانا سید تجمل حسین کی پیدائش ہوئی مگر تین سال کی عمر میں شفقت پدری سے محروم ہو گئے ۔
تعلیم و تربیت: پدر بزرگوار کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد آپ کی پرورش و پر داخت آپ کے بڑے بھائی اور مولانا عبدالمالک اثری کے والد محترم سید عبدالرزاق نے کی آپ ببھنی خورد سے اپنے بڑے چچا مولانا عبدالجبار رحمانی رحمہ اﷲ کے پاس کاشت کھیرا چلے گئے، جو اس وقت سنپیری گاؤں کے ایک مشہور زمین دار بھگت چودھری کی عطا کردہ زمین میں مکان بناکر رہتے تھے اور انھیں کی بنوائی ہوئی مسجد میں بچوں کو تعلیم دیتے تھے وہاں پہونچکر آپ نے اپنے چچا مرحوم سے کچھ دنوں تک تعلیم حاصل کی اور ذہن و دماغ کو اسلامی تعلیم و تربیت سے منور کیا ۔ اس وقت قرب و جوار میں کوئی مدرسہ نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ آپ کی تعلیم باقاعدہ نہیں ہو سکی اور اسی بیچ میں آپ کے خسر محترم حاجی سیف اﷲ مرحوم اور مولانا عبدالحق اسکاویؒ نے آپ کو درس و تدریس کے لئے نیپال کے ایک گاؤں اماری بھیج دیا، جو اس وقت شرک و بدعات اور ہندوانہ رسم ورواج کا مرکز تھا لوگ صحیح طریقہ سے کلمہ تک پڑھنا نہیں جانتے تھے مسلم عورتیں غیر مسلم عورتوں کے ساتھ ایک سادھو کی قیادت میں شانہ بشانہ چل کر لوٹے میں پانی لیکر دیوی دیوتا کو خوش کرنے کیلئے پانی کی دھار چڑھاتی تھیں اور لوگ بیماریوں کو دیوی دیوتا کا نام دیتے تھے۔ اس وقت وہاں ہیضہ اور کالرا کی بیماری بھی پھیلی ہوئی تھی، جس سے بہت سے لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر دوسری جگہ پناہ لئے ہوئے تھے کچھ لوگوں نے آپ کو بھی وہاں سے بھاگنے کا مشورہ دیا مگر آپ نے مالک حقیقی پر توکل کرتے ہوئے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور تقریباً کل نو مہینے تک وہاں دین کی خدمت کرتے رہے۔
آپ کی دعوت و تبلیغ اور درس و تدریس کا یہ نتیجہ نکلا کہ اکثر و بیشتر لوگ شرک و بدعات سے تائب ہو کر پکے اور سچے موحد بن گئے۔ اور آپ کے معتقد بن کر مستفدین کی ایک اچھی خاصی تعداد تیار ہو گئی۔ جن میں مولانا عبدالمبین صاحب منظر نیپالی بطور خاص قابل ذکر ہیں جو فی الحال نیپال ہی کے ایک گاؤں پڑریا میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پھر ۱۹۴۷ء میں مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے سید صاحب نے مدرسہ دارالہدیٰ یوسف پور میں داخلہ لیا۔ جہاں آپ نے مولانا عبدالاحد کانپوری رحمہ اﷲ اور مولانا عبدالرحیم رحمانی وغیرہم سے عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی اور پھر اپنی مختلف مجبوریوں کی وجہ سے حصول تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا جس سے آپ مستند عالم نہ ہو سکے۔
درس و تدریس: یوں تو آپ کی تدریسی زندگی کا آغاز طالب علمی ہی کے زمانہ سے نیپال کے موضع اماری سے ہوگیا تھا، مگر ۱۹۴۸ء میں جب مولانا عبدالحق صاحب اسکاویؒ ببھنی خورد میں دوبارہ بحیثیت مدرس تشریف لائے تو اپنی معیت میں درس و تدریس کے لئے بطور معاون مدرس آپ کو بھی رکھ لیا اور ۱۶ روپیہ ماہانہ مشاہرہ پر آپ نے کام کرنا شروع کردیا۔ پر اس کھانڈ میں مقیم موضع سپہی نیپال کے شکل سے مکتب کے لئے زمین کی درخواست کی جس کو بخوشی قبول کرتے ہوئے انھوں نے ایک قطعہ زمین دیدیا۔ اور چھپر ڈال کر مستقل تعلیم شروع کردی ، مولانا اسکاوی مرحوم اور آپ کی محنت شاقہ سے کئی مہینے کی دوڑ دھوپ کے بعد اس پر کھپریل کی عمارت تیار ہوئی اور تعلیم کو آگے بڑھانے کیلئے کہڑولی کے مولانا عابد علی مرحوم کی تقرری کی گئی اور تقریباً دو سال رہ کر جب مولانا موصوف نے اپنا استعفیٰ داخل کردیا تو مولانا محمد حنیف صاحب فیضی حفظہ اﷲ کو رکھا گیا ، جو فی الحال ضلع کی مرکزی درسگاہ کلیہ امام ابن القیم(مدرسہ الدارالسلفیہ) کولہوئی بازار کے عمید اور صدر مدرس ہیں ۔آپ نے مدرسہ کو پروان چڑھایا اور اس کا نام تعلیم القرآن والحدیث رکھا، ۱۹۵۱ء میں سید صاحب مرحوم وہاں سے منگل پور آگئے، جہاں آپ نے میاں ذاکر علی مرحوم کے یہاں قیام کیا اس وقت وہاں نہ مسجد تھی نہ مدرسہ۔ انھیں کے یہاں آپ نے فی طالب علم ایک روپیہ ماہانہ کے حساب سے پڑھائی شروع کردی پھر چھپر کی مسجد بنا کر اس میں مستقل تعلیم دینے لگے، ابھی یہاں تدریسی میدان میں آپ کا قدم جمنے بھی نہیں پایا تھا کہ کاشت کھیرا کے ایک بزرگ عالم دین مولانا رحمت اﷲ مظاہری ؒ نے آپ کو منگل پور سے کھیرا بلا لیا، آپ اپنے یہاں سے تقریباً ۱۸؍۲۰ بچوں کو لے کر چلے گئے، اور مولانا مظاہری کی رفاقت میں معاون مدرس کی حیثیت سے تعلیم دینے لگے ، دوپہر کا کھانا کبھی مولانا عبدالواجد صاحب فیضی حفظہ اﷲ صدر مجلس الدعوۃ الاسلامیہ دہلی اور منیجر اقراء انٹرمیڈیٹ اسکول ببھنی کے والد محترم جناب حبیب اﷲ عرف بزرگ مرحوم کے یہاں کھاتے اور کبھی مولانا نیاز احمد سلفی مدیر جمعیۃ الفلاح الخیریہ چندن پور کے جد محترم عبدالجبار مرحوم کے یہاں کھاتے اور شام کو اپنے گاؤں کے بچوں کے ساتھ گھر چلے آتے۔ لیکن جب کبھی رات میں آپ کا قیام وہاں ہوتا تو آپ کی تقریر ضرور ہوتی، اور بلا امتیاز مسلک و مذہب لوگ شریک ہوتے، کیونکہ آپ کی تقریر لوگوں کو بہت پسند آتی تھی، اس طرح تقریباً نو مہینے تک آپ نے مولانا مظاہری کے ساتھ درس و تدریس کا کام انجام دیا، اور گلستاں ، بوستاں، میزان منشعب، ترجمہ قرآن، میزان الصرف وغیرہ کتابیں بھی پڑھیں۔پھر آپسی اختلاف کی بنا پر وہاں سے مستعفی ہوکر اپنے گاؤں منگل پور چلے آئے اور مولانا مظاہری مرحوم بستی کے ایک گاؤں بھنیسہوا چلے گئے اور وہیں اﷲ کو پیارے ہو گئے۔
سید صاحب مرحوم نے ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۱ء کی ابتدا ء تک تقریباً ڈھائی سال مولانا محمد صدیق لدوائی بستوی کے قائم کردہ مدرسہ مفتاح العلوم کنہولی نیپال میں بھی تعلیم دی، یہاں جن حضرات کو آپ سے شرف تلمذ حاصل ہوا اور جن کی زندگی پر آپ کی تعلیم و تربیت کے نمایاں اثرات مرتب ہوئے ان میں مولانا جلال الدین مرحوم نیپالی، استاذ محترم مولانا خیر اﷲ اثری نیپالی مرحوم تھے، ان کے علاوہ مولانا محمد ادریس صاحب نیپالی، اور مولانا شمیم الرحمن صاحب اثری نیپالی ہیں جو جمعیۃ السلام للاعمال الانسانیۃ بھیرہوا نیپال کے مدیر کی حیثیت سے دعوتی و تبلیغی اور رفاہی خدمات انجام دے رہے ہیں، اﷲ ان سب کی خدمات کو قبول فرمائے۔
لبدہا میں مدرسہ کا قیام: ۱۹۶۱ء میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس نوگڈھ کے بعد ایک مرتبہ سید صاحب مرحوم اپنے گاؤں منگل پور سے عصر کی نماز پڑھنے کے بعد لبدہا ٹہلنے گئے۔ اسی موقع پر گاؤں کے چند با اثر لوگوں کے ساتھ حاجی حیات اﷲ صاحب مرحوم نے آپ کو وہاں روک لیا اور رات میں آپ کا تقریری پروگرام رکھ دیا جس میں آپ نے دینی تعلیم کی فضیلت پر روشنی ڈالی اور لوگوں کو حصول علم پر ابھارا۔ چنانچہ اسی رات میں تقریر ختم ہونے کے بعد لوگوں نے مدرسہ کے قیام پر اتفاق کر لیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے آپ کی تحریک پر ساڑھے تین سو روپئے اکٹھا کرلئے۔ اور آپ کی تقرری کا معاملہ طے ہو گیا ، صبح کنہولی مدرسہ مفتا ح العلوم پر پہونچنے کے بعد دن بھر آپ نے تعلیم دی پھر شام کو مستعفی ہو کر گھر چلے آئے، دوسرے دن صبح حاجی حیات اﷲ مرحوم انصاری کے مکان میں عارضی طور سے تعلیم شروع کردی اور لوگ اپنے بچوں و بچیوں کو حصول تعلیم کے لئے بھیجنے لگے۔ دو تین سال تک آپ حاجی حیات اﷲؒ کے مکان ہی میں تعلیم دیتے رہے پھر جب مدرسہ کے لئے موقوفہ زمین مل گئی تو آپ نے اس پر چھپر ڈال کر باقاعدہ پڑھائی شروع کی اور مدرسہ کا نام احیاء العلوم رکھا۔ لبدہا اور منگل پور کے بچے جوق در جوق حصول علم کیلئے آنے لگے، مستقل سولہ سال تک آپ نے یہاں تعلیم دی اور دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا جس سے یہاں کے اکثر و بیشتر لوگ پکے اور سچے موحد اور اہل حدیث ہو گئے، جبکہ یہاں کی دینی حالت انتہائی نا گفتہ بہ تھی لوگ تعزیہ پرست اور ہندوانہ رسم و رواج کے پابند تھے، جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے
شورش عندلیب نے روح چمن میں پھونک دی
ورنہ یہاں کی کلی کلی مست تھی خواب ناز میں
سید صاحب مرحوم ہی کے کوششوں اور تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا کہ یہاں کئی علماء و مدرسین بھی پیدا ہوئے، جن میں بالخصوص لبدہا کے ماسٹر محمد ادریس مرحوم ،مولانا ساجد اﷲ سلفی مولانا تبارک اﷲ صاحب عالاوی، ماسٹر ماشاء اﷲ ، مولوی شاہ محمد سراجی مرحوم، صدر الحق، محمد مرتضیٰ، قمرالدین، علی رضا۔ اور منگل پور کے ڈاکٹر عبدالمبین مرحوم، مولانا سمیع اﷲ صاحب قاسمی، مولانا اسعد اﷲ صاحب قاسمی، راقم الحروف عبداﷲ عباس السلفی ، مولانا عبدالرب رحیمی، مولانا عبدالحق صاحب، مولانا محمد عمر صاحب فیضی، محمد حنیف، عبدالسلام وغیرہم کے اسماء قابل ذکر ہیں۔ جن کی زندگی پر آپ کی تعلیم و تربیت کے نمایاں اثرات مرتب ہوئے۔
ان کے علاوہ آپ کے خصوصی معتقدین اور مستفدین میں منگل پور ہی کے ہمارے والد محترم عباس علی مرحوم اور ڈاکٹر عبدالمبین مرحوم کے والدمحترم شہرت علی خلیفہ بھی تھے جو آپ ہی کی تعلیم و تربیت سے متاثر ہو کر اہلحدیث ہوئے تھے اور تا حیات اسی مسلک حقہ پر قائم رہے۔ سید صاحب مرحوم کے درس و تدریس کا اندا ز بالکل نرالا تھا جو کچھ پڑھا تے دل پر نقش ہو جاتا ۔ کتابوں میں مشکل الفاظ کو خط کشیدہ کر دیتے اور ان کے معانی و مفاہیم کو کاپیوں پر لکھوادیتے تاکہ طلبہ پڑھتے وقت اس پر دھیان رکھیں اور الفاظ کے معانی کو زبانی یاد کرلیں۔ نقل و املا کم از کم درجہ سوم تک کے طلباء کو تختی پر لکھواکر عملی مشق کراتے اور ہر روز بڑی مستعدی سے ان کو چک کرتے۔ روزانہ چھٹی کے آخری اوقات میں عموماً اور ہرجمعرات کوایک ٹائم خصوصاً گنتی پہاڑہ اسلامی دعائیں، تقاریر اور عم پارہ کی کچھ سورتیں ضرور سنتے جس سے طلباء کو ساری اسلامی دعائیں اور عم پارہ کی ساری سورتیں درجہ پنجم تک پہونچتے پہونچتے از بر ہو جاتی تھیں۔
آپ کے شاگرد خاص ماسٹر محمد ادریس مرحوم جنھوں نے عربی تعلیم مولانا عبداﷲ شائق مؤی اور چند دیگر اساتذہ کی خدمت میں رہ کر جماعت ثالثہ تک مؤ میں حاصل کی تھی اپنی کچھ خاص مجبوریوں کی وجہ سے اگر چہ تعلیم مکمل نہ کر سکے تھے مگر علاقہ میں سیاسی و سماجی نمائندگی کرنے کے ساتھ ساتھ دینی و ملی خدمات میں بھی پیش پیش رہتے تھے آپ سیاست میں کانگریسی ہونے کے باوجود سچے موحد اور مسلک اہل حدیث کے مبلغ تھے اور بالغ نظر سیاست دانوں کے زمرے میں رہنے کے باوجود مسلکی غیرت و حمیت کو باقی رکھے ہوئے تھے اور سید صاحب مرحوم کے سچے معتقد اور اطاعت گذار شاگرد تھے، کلیۃ امام ابن القیم کولہوئی بازار کے اساسی رکن اور تعلیمی و تعمیری امور میں مشیر کار تھے، آپ علاقہ میں کہیں بھی رہے جمعہ کی نماز کلیہ کی جامع مسجد اہلحدیث میں ضرور پڑھتے اور اپنے استاذ مولانا سید مرحوم کے خطبۂ جمعہ سے مستفید ہوتے۔
سید صاحب کے اندر مسلکی غیرت و حمیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی یہی وجہ ہے کہ اپنی کم علمی و بے مائگی کے باوجود قرب و جوار کے لوگوں بالخصوص لبدہا ، منگل پور کے مسلمانوں کی اصلاح کی بڑی فکر رکھتے تھے۔
چنانچہ مشہور ہے کہ سید صاحب منگل پور کے اپنے دو شاگرد مولانا سمیع اﷲ صاحب قاسمی اور مولانااسعد اﷲ صاحب قاسمی کو مکتب کی تعلیم دینے کے بعد مسلک اہل حدیث کے مبلغ اور علمبردار بنانے کی بڑی کوشش کی، اور انھیں مدرسہ دارالہدیٰ یوسف پور میں داخلہ کرانے کی غرض سے لے بھی گئے۔ ذمہ داران مدرسہ سے بہت منت و سماجت بھی کی ،منگل پور گاؤں کے مسلکی اور دینی حالت سے واقف بھی کرایا مگر شومیٔ قسمت کہ داخلہ نہ ہوسکا اور آپ کف افسوس ملتے ہوئے گھر واپس آگئے، جس کا افسوس آپ کو تا حیات رہا اور جماعتی حلقوں میں اس کا تذکرہ برابر کرتے رہے۔
بعد میں ان دونوں کو مولانا حسین احمد مدنیؒ کے کسی ایک مرید نے اپنے ذاتی خرچ پر دارالعلوم دیوبند پہونچادیا، جہاں علمی فراغت حاصل کرکے دونوں حضرات قاسمی عالم ہو گئے، اور فراغت کے بعد ہی سے مسلکی و علمی اختلاف و انتشار کرتے رہے جس سے سید صاحب موصوف کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہاں مسلک اہلحدیث کی کما حقہ ترویج واشاعت نہ ہو سکی اور سید صاحب مرحوم اور میرے اپنے گھرانے کے علاوہ مستقل کوئی اور گھرانہ اہلحدیث نہ ہوسکا البتہ کچھ افراد کھل کر اہلحدیث ضرور ہوئے۔
ہاں آپ کے خوابوں کی تعبیر پوری کرنے کیلئے میں آپ کے لائق فرزند مولوی عبدالحق سلمہ کے ذریعہ اس دعوتی و تبلیغی مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہوں ،اور باد سموم کے مختلف جھونکوں سے ٹکرانے کے باوجود اﷲ کی رحمت سے مایوں نہیں ہوں ۔
میں مطمئن ہوں اگرچہ خراب ہے ماحول خزاں کے بعد کا موسم بہار ہوتاہے
یہ کہہ کے دل نے میرے حوصلے بڑھائے ہیں غموں کی دھوپ کے آگے خوشی کے سائے ہیں
لبدہا اور منگل پور کی اصلاح کے لئے ابھی مولانا سید صاحب مرحوم کی دعوتی و تبلیغی کوششیں جاری ہی تھیں کہ ببھنی خورد میں مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث کا وہ ثمر آوار اسلامی درخت جس کا پودا آپ نے ہی لگایا تھا گاؤں کے آپسی اختلاف کا شکار ہوکر سوکھنے کے قریب ہو گیا، اور جہاں کئے مدرسین جماعت ثالثہ تک کی عربی تعلیم دے رہے تھے وہاں استاذ محترم مولانا محمد ایوب صاحب عالیاوی اور مولانا عبد الکریم صاحب فیضی کے علاوہ کوئی اور مدرس نہیں رہ گیا، جس سے گاؤں والوں نے اس بجھتے ہوئے ٹمٹماتے چراغ کو روشن کرنے کیلئے پھر سید صاحب مرحوم کو بلوایا اور آپ اہل لبدہا کی اجازت سے وہاں چلے گئے ، اب ادیب شہیر مولانا و ڈاکٹر حامد الانصاری صاحب انجم رحمہ اﷲ کی قیادت میں پانچ مدرسین تدریسی خدمات انجام دینے لگے، جماعت ثالثہ تک تعلیم ہونے لگی اور ہندونپال کے طلباء جوق در جوق اپنی علمی تشنگی بجھانے کے لئے آنے لگے ، نتیجتاً رفتہ رفتہ ترقی ہوتی رہی یہاں تک کہ جب ۱۹۸۶ء سے ۱۹۸۹ء تک یہاں مجھے بحیثیت مدرس تدریسی خدمات انجام دینے کا موقع ملا تو تعلیم جماعت رابعہ تک ہو گئی۔ اور عربی و فارسی بورڈ یوپی الہٰ آباد کا دوبار امتحان بھی ہوا، مگر جب مدرسہ کو گرانٹ لینے کا وقت آیا تو آپسی اختلاف کی بنا پر عربی تعلیم ختم ہو گئی اور میں مستعفی ہو کر مدرسہ قاسم العلوم گلرہا ضلع بلرام پور چلا آیا۔
قسمت کی بات دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا
غرضیکہ سید صاحب نے پھر یہاں تقریباً سات سال تک تعلیم دی اس کے بعد ۱۹۸۳ء میں جب آپ کے شاگرد رشید مولانا عرفان اﷲ ریاضی مرحوم کی کوششوں سے مڑلا نیپال میں مدرسہ دارالسلام السلفیہ کا قیام عمل میں آیا۔ تو آپ قیام کے تین سال بعد ببھنی خورد سے مستعفی ہوکر یہاں تشریف لے آئے اور بحیثیت مدرس و مبلغ دس سال تک اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دیتے رہے یہاں تک اس کی علمی و تعمیری حیثیت نمایاں ہو گئی، اور اس چشمہ صافی کے آپ زلال سے داخلی و بیرونی طلباء سیراب ہو نے لگے۔
منگل پور میں مدرسہ عبداﷲ ابن عباس السلفیہ کا قیام:
۱۹۹۶ء کی بات ہے ایک مرتبہ ہم سید صاحب کے ساتھ مدرسہ دارالسلام مڑلا نیپال سے بچوں کا سالانہ امتحان لے کر گھر واپس آرہے تھے کہ میں نے راستہ میں آپ سے مدرسہ کے قیام کی بات کی اور مولانا مرحوم کو بحیثیت مدرس رہنے کیلئے آمادہ کیا، استاذ محترم بلا کسی قیل و قال کے رضا مند ہو گئے جس سے ہم کو حوصلہ ملا اور شام ہی کو گاؤں میں میٹنگ کرکے باتفاق آراء ہم نے مدرسے کے قیام کا فیصلہ کرلیا، اور پانچ سو روپئے ماہانہ مشاہرہ پر مولانا موصوف کی تقرری کرلی، آپ نے مکتب کی سرکاری و عوامی زمین پر چھپر تلے دوسال تک تدریسی خدمات انجام دی، پھر اراکین مدرسہ کے مشورہ سے گاؤں کے پورب مکتب کے لئے ۱۶؍ڈسمل زمین خریدی گئی، اور ۱۹۹۸ء میں آپ ہی کے دست مبارک سے تاسیس کی پہلی اینٹ رکھی گئی، جو آج مدرسہ کی مستقل بلڈنگ کی شکل میں موجود ہے اور جہاں شعبہ ٔپرائمری کے ساتھ ساتھ عربی متوسطہ تک کی تعلیم ہو رہی ہے، اور بلا تفریق مسلک ومشرب گاؤں کے سبھی بچے اور بچیاں اس چشمہ ٔ صافی سے اپنی علمی تشنگی بجھا رہے ہیں مدرسہ کے گراؤنڈ میں ایک مسجد بھی تعمیر ہو چکی ہے، مولانا سید صاحب مرحوم اس مدرسہ میں زمانۂ قیام ہی سے تا حین حیات اپنی تعلیمی و تدریسی اور دعوتی و تبلیغی خدمات انجام دیتے رہے۔
سید صاحب رحمہ اﷲ کے اولین شاگردوں میں سے ایک خاص شاگرد جناب ماسٹر عبداﷲ خاں ہیں جو کسی عربی مدرسہ سے فارغ التحصیل تو نہیں ہیں لیکن اپنی ذاتی محنت و مشقت اورکثرت مطالعہ سے دینی بصیرت کافی رکھتے ہیں اور قرآن و حدیث کی آپ کو اچھی خاصی معلومات ہے یہی وجہ ہے کہ آپ بقول محترم مولانا عزیز عمر صاحب سلفی ایڈیٹر ماہنامہ نوائے اسلام دہلی، اگر کہیں ماسٹر تو کہیں مولوی کے نام سے جانے و پہچانے جاتے ہیں ، بمبئی، بھیونڈی، تلولی، اور اس کے مضافات اسی طرح لکھنؤ، بارہ بنکی اور اس کے مضا فات کے ضلع کے بیشتر گاؤ ں میں آپ کی دعوتی و تبلیغی سر گرمیوں کے اثرات آج بھی محسوس کئے جا رہے ہیں ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ اپنی علمی بساط سے کہیں زیادہ آگے بڑھ کر دعوتی و تبلیغی سر گرمیوں میں مصروف ہیں ، اور علماء
آپ کی خدمات کے معترف ہیں ، آپ نے مولانا محمد حنیف صاحب فیضی حفظہ اﷲ کی معیت میں مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث ببھنی خورد کی تعلیمی و تعمیری ترقیات کے لئے بھی کام کیا ہے ۔
دعوتی و تبلیغی سر گرمیاں اور ان کے اثرات:
جیسا کہ تدریسی خدمات کے ضمن میں لکھا جا چکا ہے کہ مولانا سید صاحب مرحوم نے جہاں کہیں بھی درس و تدریس کا کام کیا وہاں دعوت و تبلیغ بھی کرتے رہے بلکہ دعوت و ارشاد میں آپ تدریس سے بھی آگے رہے آپ کہنہ مشق مدرس و معلم تھے اس طرح ایک شعلہ بیان مقرر و داعی بھی تھے آپ کی تقریر کا انداز بالکل جدا گانہ تھا جو کچھ کہتے اور بولتے کتاب و سنت کی روشنی میں ٹھوس اور مدلل بولتے اور دو دو گھنٹہ مسلسل خطاب کرتے رہتے تھے دوران تقریر شاہنامہ اسلام اور دیوان گلشن کے اشعار ضرور پڑھتے تھے جس کی وجہ سے تقریر میں مزید چاشنی پیدا ہو جاتی تھی تقریر بڑی موثر اور دلپذیر ہوتی تھی جس سے ہرمکتب فکر کے افراد آپ کو بہترین مقرر سمجھتے آپ عوام و خواص میں یکساں طور پر مقبول تھے دعوت و تبلیغ کے میدان کسی لومۃ لائم کی پرواہ نہیں کرتے تھے بلکہ جہاں کہیں بھی کوئی بھی منکر اور خلاف شرع کام دیکھتے بر محل ٹوک دیتے۔
چنانچہ بعدکے ان کے ایک شاگرد جناب صدرالحق صاحب کا بیان ہے کہ ہمارے گھر کے سامنے تعزیہ رکھنے کا ایک چبوترہ تھا جہاں لوگ زمانے سے تعزیہ رکھتے تھے اور اس کی پرستش کرتے تھے، ایک مرتبہ آپ نے ہمارے یہاں تعزیہ کی تردید اور اس کی مذمت میں تقریر کی اور حکم دیا کہ اس کو اپنے ہاتھ سے کھود کر پھینک دو، میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسی وقت اس چبوترہ کو کھود کر پھینک دیا، تب سے آج تک ہمارے یہاں تعزیہ پرستی اور تعزیہ سازی نہیں ہوئی۔
سید صاحب مرحوم نے اپنے ایک معتقد جناب منشی نصر اﷲ مرحوم کی خصوصی زمین پرکولہوئی بازار میں جمعہ کی نماز بھی قائم کی تھی اور وہاں برابر خطبہ بھی دیتے تھے، اسی طرح اپنی زندگی کے آخری چند سالوں سے کلیہ اما م ابن القیم کولہوئی بازار کی جامع مسجد اہلحدیث کے مستقل خطیب بھی رہے۔ آپ کی خطابت لوگوں میں اس قدر مقبول اور موثر تھی کہ بلا تفریق مسلک ہر مکتب فکر کے لوگ آپ کا خطبہ سنتے اور مستفید ہوتے ، آپ کی وعظ و نصیحت کا لوگوں کے دلوں پر گہرا اثر ہوتا تھا اور لوگ بہت پسند کرتے تھے۔
چنانچہ ایک اجلاس عام میں جب مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجم رحمہ اﷲ آپ کو مولانا کا خطاب عطا کیا تو خطیب الاسلام مولانا عبدالرؤف رحمانی رحمہ اﷲ نے خطیب گورکھپور کا لقب عطا فرمایا۔
ہمارے گاؤں منگل پور جب آپ تشریف لائے اور دعوت و تبلیغ کرنے لگے تو آپ کی تقریر اور دعوت و ارشاد کا سب سے زیادہ اثر شہرت علی خلیفہ مرحوم اور والدمحترم عباس علی رحمہ اﷲ پر پڑا اور دونوں کھل کر اہل حدیث ہو گئے۔ جبکہ بعض اہل علم اور کچھ حساس لوگوں نے ان دونوں کو بعد میں اس سے بر گشتہ کرنے کی بھی کوشش کی اور خود میری تعلیم کے بارے میں بھی دخیل ہوئے کہ اس کو بنارس نہ بھیجو ہم دیو بند داخلہ کرادیں گے مگر والد محترم اپنے عقیدہ اور صحیح مشن پر ڈٹے رہے اور مولانا مرحوم کے دامن کو تا حیات نہیں چھوڑا جبکہ دینی علم بہت کم تھا۔ خود میری زندگی پر آپ کی تعلیم و تربیت کے جو اثرات مرتب ہوئے وہ کسی استاذ کے نہیں ہوئے، اور اگر بقول علامہ اقبالؒ میں یہ کہدوں تو بیجا نہ ہوگا کہ:
تربیت سے میں تری انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر میرے اجداد کا سرمایہ عزت ہوا
غرضیکہ ضلع مہراج گنج و گورکھپور میں دعوتی و تبلیغی اور اصلاحی خدمات انجام دینے والوں کی فہرست پر اگر نظر ڈالی جائے تو سید صاحب مرحوم جیسے لوگ سر فہرست نظر آئیں گے، اور آپ کی خدمات سب سے زیادہ ہوں گی۔
علاقہ میں ببھنی خورد، پراس کھانڈ، کاشت کھیرا، بڑواں، ببھنی ڈیہہ، پھول پور، سمرہنی، بہدوری بازار، لبدہا، منگل پور، اور ان کے آس پاس مواضعات کے علاوہ نیپال، سدھارتھ نگر، دیوریا، کشی نگر، گورکھپور، اور مہراج گنج کے بہت سے گاؤں میں آپ کے دعوتی خدمات اور تعلیمی تحریک کے مضبوط اثرات پائے جاتے ہیں۔
آپ دعوتی و تدریسی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ جماعتی خدمات بھی انجام دیتے تھے ،چنانچہ آپ ضلع گورکھپور اور مہراج گنج کی جماعت کے اساسی رکن تھے اور جب ۱۹۷۹ء میں منظم طور سے ضلعی جمعیۃ اہل حدیث گورکھپور کی تشکیل ہوئی تو آپ اس کے صدر اور امیر بنائے گئے اور جب ضلع گورکھپور سے الگ ضلعی جمعیۃ مہراج گنج مستقل طور پر قائم ہوئی تب بھی امارت کے عہدے پر قائم رہے اور تا حیات امیر کی حیثیت سے کا م کرتے رہے، آپ کلیہ امام ابن القیم کولہوئی بازار کے صدر ، اقراء انٹرمیڈیٹ اسکول کے رکن تھے، خالد ملی اسکول پرتاول اور حرا پبلک اسکول نچلول کی تاسیسی اینٹ آپ ہی کے دست مبارک سے رکھی گئی تھی مدرسہ ریاض العلوم ترکلوا سے بھی آپ کو کافی لگاؤ تھا ، اور اس کے ہر تبلیغی پروگرام میں شرکت کو اپنا دعوتی فریضہ سمجھتے تھے ،مدرسہ کے مؤسس و بانی مولانا اقبال احمد سلفی مرحوم کی خدمات سے بے حد متاثر تھے اور ان کی صحبت کو بزرگوں کی صحبت سمجھتے تھے ۔
اسی طرح بہت سے مدارس ومساجد کی تاسیسی اینٹ آپ ہی کی دست مقدس سے رکھی گئی تھی جن میں مدرسہ مریم للبنات بھٹ پرا، سدھارتھ نگر بھی شامل ہے جس کے آپ نائب صدر بھی تھے۔
اخلاق و کردار: یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان دنیا میں اپنے اخلاق و کردار ہی سے پہچاناجاتا ہے اور حسن اخلاق او رعمدہ خصلت کسی کو بھی دوسروں کے درمیان ممتاز کرنے کا ایک بہترین پیمانہ ہوتا ہے لیکن اسلام کی نظر میں اچھے اخلاق و کردار کا حامل وہی انسان ہوتا ہے جس کے اوصاف حمیدہ اور عادات و خصائل کی تحسین اسلامی شریعت کرتی ہو، اور جس کے حسن و کردار اور گفتار کی گواہی عام لوگ دیتے ہوں، جیسا کہ اﷲ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’ وہ مسلمان سب سے بہتر ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں‘‘
چنانچہ آپ کے بارے میں علاقہ و گاؤں کے مسلم و غیر مسلم حضرات کی شہادت ہے کہ آپ انتہائی سنجیدہ اور شریف تھے سب سے خندہ پیشانی سے ملتے اور سلام و دعا کے وقت آپ کے لب پر مسکراہٹ ضرور ہوتی، اپنے ذاتی معاملات میں کبھی کسی سے نہیں الجھتے اور نہ سب و ستم کرتے، یہی وجہ ہے کہ ہندو و مسلمان آپ کی بڑی عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے، آپ کتب بینی اور مطالعہ کے کافی شوقین تھے، چاہے رات ہو یا دن سونے سے پہلے کسی نہ کسی کتاب کا مطالعہ ضرور کرتے اور آپ کی کتب بینی اور مطالعہ کے شوق ہی نے آپ کو ٹھوس معلومات کی بناء پر مستند عالم کا درجہ دیدیا تھا ، اور اہل علم میاں صاحب کی بجائے مولانا صاحب کہتے تھے صوم و صلوٰۃ اور قیام اللیل کے بڑے پا بند تھے۔ غیبت اور چغلی سے بہت دور رہتے تھے بلکہ اگر آپ کے سانے کوئی کسی کی برائی کرتا تو اس کو ہنس کر ٹال دیتے، علماء کی بڑی قدر کرتے اور کوئی مہمان آتا تو اس کی ضیافت خود اپنے ہاتھ سے کرتے، زہد و تقویٰ اور قناعت میں بے مثال تھے۔ غرضیکہ آپ انتہائی خوش اخلاق، خوش طبع، خوش وضع، صاف دل اور نیک خصلت انسان تھے، تواضع و خاکساری ، لباس میں سادگی ،تصنع و تکلف سے پرہیز آپ کا امتیازی وصف تھا البتہ دینی معاملات اور بچوں کی تعلیم و تربیت میں بڑے سخت تھے، یہی وجہ ہے کہ جس راستے سے آپ گذرتے بچے ڈر کی وجہ سے راستہ چھوڑ دیتے اور جہاں کہیں بھی پہونچتے عزت واحترام کرتے ہوئے لوگ جگہ خالی کردیتے تھے۔
حج اور سفر آخرت: ۲۰۰۳ء میں آپ کو حج بیت اﷲ کی سعادت نصیب ہوئی اور تمام ارکان حج کو بحسن و خوبی ادا کرکے بخیر و عافیت وطن لوٹ آئے حج سے واپسی کے بعد تقریباً چار سال تک جب تک چلنے پھرنے کے لائق رہے اور ذہن و دماغ نے ساتھ دیا گاؤں کے مدرسہ میں تدریسی خدمات سے جڑے رہے اور طلبہ کو تعلیم و تربیت دینے کے ساتھ ساتھ اپنی دعوت و تبلیغ سے لوگوں کے اذہان و قلوب کو منور کرتے رہے، لیکن انتقال سے تقریباً تین سال قبل جب آپ پر معمولی فالج کا حملہ ہوا جس نے ذہن و دماغ اور زبان کو متاثر کیا تو مدرسہ سے مستعفی ہو کر گھر آرام کرنے لگے، رفتہ رفتہ مزید صحت خراب ہوتی گئی یہاں تک کہ مکمل صاحب فراش ہو گئے اور تقریباً ڈھائی سال تک بستر پر پڑے رہے، آپ جسمانی اعتبار سے پہلے ہی سے کمزور نحیف تھے ، بڑھاپے کے عوارض اور طبعی علالت نے آپ کو مزید کمزور بنا دیا، بیماری کے ان طویل ایام میں علاج و معالجہ کا سلسلہ جاری رہا اور آپ کی اہلیہ محترمہ اور سبھی اولاد و احفاد بالخصوص آپ کے چھوٹے صاحبزادے مولوی عبدالحق اور ان کی اہلیہ نے آپ کی خدمت ایسی سلیقہ مندی اور اخلاص سے کی جس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔
چنانچہ آپ کے متعلقین ومعتقدین و مستفدین کا دائرہ بہت وسیع تھا اسلئے بغرض عیادت لوگ برابر آتے رہتے تھے اور آپ کو اپنے تلامذہ و مستفدین کو دیکھ کر بڑا اطمینان و سکون ہوتا تھا۔ آپ اپنی عیادت کرنے والوں سے کبھی کوئی شکوہ نہیں کرتے بلکہ اﷲ کا شکر بجالاتے اور الحمد ﷲ علی کل حال زبان سے ادا کرتے ،آخر کار آپ کی صحت دن بدن خراب ہوتی گئی اور ڈھائی سال کی لمبی علالت کے بعد ۲۶؍ رمضان المبارک ۱۴۳۱ھ مطابق ۳؍ستمبر ۲۰۱۰ء کی شب اس دارفانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرگئے اور اپنی اہلیہ، اولاد واحفاد کو سوگوار چھوڑ گئے۔
دوسرے دن بعد نماز ظہر ایک جم غفیر کی موجودگی میں آپ کے صاحبزادے مولوی عبدالحق صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور منگل پور کی قبرستان میں سپرد خاک کئے گئے۔ اﷲم اغفر لہ وارحمہ۔
آپ کی نرینہ اولاد میں مولانا عبدالرب صاحب رحیمی اور مولوی عبدالحق صاحب منگل پوری ہیں جو خلف الرشید کی حیثیت سے اپنے اپنے میدان میں درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کا کام بحسن خوبی انجام دے رہے ہیں ، مولانا مرحوم کی صاحبزادیوں میں سے ایک بڑی صاحبزادی اسماء خاتون ہیں ، جو آپ کے بڑے بھتیجے محترم عبدالقادر ببھنی خورد سے منسوب ہیں جو ایک دینی مزاج کے حامل انسان ہیں اور صوم و صلوٰۃ کی پابندی کرنے کے ساتھ ساتھ دینی امور میں کافی دلچسپی رکھتے ہیں، دوسری صاحبزادی شمس النساء ہیں جو مولانا عبدالسلام صاحب نیپالی کالیدہ سے منسوب ہیں جو اپنے گاؤں کالیدہ سے قریب کسی دوسرے گاؤں میں تدریسی خدمات میں لگے ہوئے ہیں۔
عبداﷲ عباس السلفی
استاذ جامعہ قاسم العلوم گلرہا بلرام پور( یوپی)
مولانا سلیم الدین مدنی رحمہ ٗاﷲ محمد نگر سدھارتھ نگر
جانے والا گیا داستاں رہ گئی
(تاریخ وفات: یکم جون ۲۰۱۱ء)
یکم جون ۲۰۱۱ء مطابق ۳۰؍جمادی الآخری بدھ و جمعرات کی درمیانی شب سارھے نو بجے جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر نیپال کے ماہر علوم و فنون، کہنہ مشق اور تجربہ کار استاذ و مربی اور ہمارے رفیق درس حضرت مولانا سلیم الدین مدنی ۱ اﷲ کو پیارے ہو گئے، انا ﷲ وانا الیہ راجعون، ان کی وفات سے اعزہ اقرباء اور نہ صرف حلقۂ احباب بلکہ تعلیم و تدریس ، دعوت وارشاد کی دنیا میں صف ماتم بچھ گئیں۔
موصوف کی جدائی غیر متوقع و اچانک نہیں تھی ، بلکہ ہفتوں سے اعزہ و اقرباء دوست واحباب ان کی گرتی صحت کی وجہ سے بڑے فکر مند تھے ، دل لگا رہتا تھا کہ نہ معلوم کب خبر آجائے، در اصل وہ تقریباً ایک سال سے پیٹ میں سرطان جیسے مہلک و موذی مرض میں مبتلا تھے، گورکھپور، لکھنؤ اور ممبئی کے مختلف ہسپتالوں میں علاج ہوتا رہا ، اس دوران تین بار آپریشن بھی ہوا لیکن
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ، کے مصداق وہ فیصلہ غالب آیا جو اﷲ کے یہاں ہو چکا تھا ، وفات کی خبر کا اعلان بڑھنی، جھنڈانگر کے نوجوانوں کے ذریعہ منعقدہ عظمت مصطفی کانفرنس
۱ راقم کی کتاب کاروان سلف حصہ اول جب چھپ کر آئی تو میرے مخلص دوست فضیلۃ الشیخ عبدالمجید مدنیؒ نے انتہائی مسرت کا اظہار فرمایا اور ڈھیر ساری دعائیں دیں اس کے ساتھ یہ شکایت بھی کی کہ میرے دوست مولانا سلیم الدین مدنی مرحوم کا نام اس کتاب میں شامل نہیں ہے میں نے عرض کیا محترم اس کتاب کے حصہ دوم میں ضرور شامل ہوگا انشاء اﷲ ۔ آہ کسے معلوم تھا کہ اس کتاب میں مولانا سلیم الدین مدنی کے ساتھ مولانا عبدالمجید مدنی رحمہ اﷲ کا نام بھی شامل کرنا پڑے گا ۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان دونوں کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین (عبدالرؤف خاں ندوی)
بمقام کلیہ عائشہ صدیقہ میں اختتام پروگرام پر کیا گیا جہاں سے لوگ ان کی میت کے دیدار کے لئے جوق در جوق روانہ ہونے لگے ، صبح ۶؍بجے ان کے جسد خاکی کو ان کے مکان واقع بڑھنی بس
اسٹاپ چوراہا سے ان کے آبائی گاؤں محمد نگر کٹھیلا لے جایا گیا، جہاں ناظم اعلیٰ جامعہ سراج العلوم السلفیہ، جھنڈا نگر محترم مولانا شمیم احمد خاں ندوی حفظہ اﷲ کی امامت میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے نماز جنازہ پڑھ کر دفن کردیا۔
مولانا نے ابھی زندگی کی کل چھپن بہاریں دیکھی تھیں کہ جام حیات لبریز ہو گیا، انسان کی زندگی اور دنیائے فانی اور اس کی بے ثباتی پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
کیا دور بچپنے کا پیری ہو یا جوانی پانی کا بلبلہ ہے انساں کی زندگانی
کسی عربی شاعر نے کہا ہے
نزلنا ہہنا ثم ارتحلنا کذاالدنیا نزول وارتحال
یعنی تھوڑی دیر کے لئے یہاں ہم نے نزول کیا پھر کوچ کیا، پس دنیا ایسے ہی نزول و کوچ کا نام ہے۔
پیدائش تعلیم و تربیت: آپ کی ولادت ضلع سدھارتھ نگر کے مشہور علاقہ کٹھیلا کے ایک چھوٹے سے گاؤں محمد نگر میں (اندراج سند کے مطابق) ۲؍فروری ۱۹۵۶ء میں ہوئی تھی آپ کے والد محترم ایک سیدھے سادے آدمی تھے ، جو چھوٹی سی کھیتی کے ذریعہ اپنی اور اپنے بچوں کی گذراوقات کرتے تھے ،مولانا کی ابتدائی تعلیم مدرسہ شمس العلوم سمرا اور ابتدائی عربی درجات کی تعلیم المعہد الاسلامی اکرہرا و کھجوریہ میں ہوئی تھی۔ ۱۹۷۳ء میں حصول تعلیم کی غرض سے آپ جامعہ سلفیہ بنارس گئے جہاں آپ کا داخلہ عالم سال اول میں ہوا، مسلسل چھ سالوں تک رہ کر وہاں کے نامور و کامل فن اساتذہ سے کسب فیض کرتے رہے حتی کہ ۱۹۷۸ء میں وہاں سے فراغت پائی ، جامعہ میں طالب علمی کے دوران ان کو طلبہ کی انجمن ندوۃ الطلبہ کا صدر بھی بنایا گیا، اور طلبہ و اساتذہ کے درمیان مقبولیت کی وجہ سے آپ کو ’’ مولانا’’ کہا جاتا تھا، جب یہ لفظ مطلق بولا جاتا تو اس سے آپ ہی مراد ہوتے تھے۔
مسند تدریس: فراغت کے بعد جامعہ اتحاد ملت اٹوا میں ان کی تقرری بحیثیت استاذ ہو گئی جہاں جماعت رابعہ تک تعلیم ہوتی تھی ، جامعہ اتحاد ملت کے سر براہ اور بزرگ مولانا زین العابدین صاحب مولانا کی بڑی قدر کرتے تھے۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں: ۱۹۷۸ء کا سنہ جامعہ سلفیہ بنارس کی تعلیمی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جب وہاں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے وائس چانسلر فضیلۃ الشیخ عبدالمحسن بن حمد العباد اپنے پورے ایک وفد کے ساتھھ دورے پر آئے جہاں وہ اس کی معیاری تعلیم و تربیت و حسن انتظام و انصرام سے بیحد متاثر و خوش ہوئے اور جامعہ سلفیہ کے طلبہ کے داخلہ کے کوٹہ میں اضافہ کردیا، چنانچہ ۱۹۷۹ء میں پورے دس طلبہ کی منظوری آئی جس میں ایک ہمارے دوست مولانا سلیم الدین مدنی رحمہ اﷲ بھی تھے ، بہر حال جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ رہ کر پورے چار سالوں تک وہاں کی روح پرور ، ایمان افروز ، علمی و دینی فضا سے لطف اندوز ہوتے رہے اور وہاں کے ماہر علم و فن و چوٹی کے اساتذہ سے کسب فیض کرتے رہے حتی کہ ۱۹۸۳ء میں لیسانس(بی۔اے) کی ڈگری لے کر ہندوستان واپس آئے۔
جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں : موصوف جامعہ اسلامیہ سے فراغت کے بعد سعودی
عرب کے مشہور و معروف دعوتی ادارے ادارۃ البحوث العلمیہ دارلافتاء والدعوہ والارشاد کے شعبۂ دعوت سے اپنا تعاقد جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر کیلئے کراکے آئے، خطیب الاسلام حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب رحمانی رحمہ اﷲ نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا ان کی پذیرائی اور قدر دانی فرماتے ہوئے جامعہ میں انھیں ہر طرح کی ممکنہ سہولت بہم پہونچائی اورطلبہ کی تدریس و تربیت کی خدمت ان کے حوالہ فرمایا، کئی سالوں تک موصوف کا قیام جامعہ میں ہی رہا بعد میں جب بڑھنی میں اپنا ذاتی مکان بنا لیا تو اس میں منتقل ہو گئے۔
موصوف بڑے باصلاحیت اور لائق فائق مدرس تھے، اﷲ تعالیٰ نے افہام و تفہیم کی دولت سے انھیں نوازا تھا جامعہ میں بڑی بڑی اور اونچی اونچی کتابیں ان کے زیر درس رہیں مثلاً صحیح مسلم ج۲، سنن ابی داؤد، شرح العقیدہ الطحاویۃ، مختصر سیرت ابن ہشام، تفسیر جلالین، البلاغۃ الواضحۃ، شرح شذور الذہب جیسی اہم درسی کتابیں پڑھاتے رہے اور پوری لگن و دلچسپی و احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دیتے رہے، جامعہ کے اندر ڈیوٹی کی پابندی میں وہ ایک عمدہ نمونہ تھے ، علالت کے دوران بھی برابر کلاس لیتے رہے، آخر ایام میں جب تکلیف بڑھ گئی تو ماہ اپریل میں ڈھیلے پڑ گئے اور پھر جامعہ آنا بند کردیا۔
آٖ پ کے اساتذہ: مولانا عبدالحمید صاحب شفیقی، حضرت مولانا عبدالوحید صاحب رحمانی، حضرت مولانا شمس الحق صاحب سلفی، حضرت مولانا محمد ادریس صاحب آزاد رحمانی، حضرت مولانا محمد رئیس صاحب ندوی ، حضرت مولانا عبدالحنان صاحب فیضی، حضرت مولانا عبدالمعید صاحب بنارسی ،حضرت مولانا عبدالسلام صاحب مدنی،حضرت مولانا عابد حسن صاحب رحمانی وغیرہم۔
آپ کے مشہور تلامذہ : ڈاکٹر الطاف الرحمن مدنی، مولانا شفیع اﷲ مدنی، مولانا نیاز احمد سراجی، مولانا انیس الرحمن مدنی ، مولانا ابرار احمد مدنی، مولانا محمد نسیم مدنی ، مولانا وصی اﷲ مدنی اور قمر اعظم سراجی وغیرہم۔
دعوت و ارشاد: موصوف کے اندر دعوت و ارشاد کا بڑا جذبہ پایا جاتا تھا اور خطابت کا ملکہ بھی ان میں موجود تھا، چنانچہ علاقہ و جوار کے جلسوں کی زینت ہو ا کرتے اور حاضرین کو پند وعظ سے نوازتے تھے، چونکہ وہ دارالافتاء کے داعی و مبعوث تھے بنا بریں نیپال کے مختلف مواضعات مثلاً سکھرام پور، جوابھاری ، لہرولہ وغیرہ مواضعات میں جاکر جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے، بس اسٹاپ چوراہا بڑھنی کی جامع مسجد اہل حدیث میں باری کے مطابق پا بندی سے خطبہ دیتے رہے اسی طرح جامعہ کی جامع مسجدمیں بحیثیت نائب خطیب جب موقع ملتا تھا تو اپنی دلپذیر خطابت سے حاضرین جمعہ کو فائدہ پہونچاتے تھے۔
عام اوصاف واخلاق: مولانا خوش اخلاق و خو ش مزاج تھے، مجالس کی رونق ہوتے باہم دلچسپی کے مسائل و موضوعات پر گفتگو فرماتے، وہ دل کے صاف اور جرأت گفتار کے آدمی تھے اس لئے کبھی کبھی خوب کھری کھری سناتے، قابل گرفت باتوں پر دوٹوک انداز میں کہہ جاتے، کبھی کبھی لہجہ سخت ہوتا لیکن ایک تو یہ کہ یہاں اکثر اساتذہ ہم عمر اور رفیق یا رفیق جامعہ تھے دوسرے یہ کہ صاف گوئی ان کی طبیعت میں تھی اس لئے ہم لوگ ان کی باتوں کا کوئی نوٹس نہ لیتے اور اس کو ایک ناصح دوست کی نصیحت کی حیثیت سے لیتے تھے، کسی کو ان کے لہجہ کی تندی سے شاید ہی تکلیف ہوتی رہی ہو، حتی کہ وہ ناظم جامعہ خطیب الاسلام علامہ جھنڈانگری کے سامنے بھی نہیں چوکتے اور اپنے انداز میں کہہ جاتے۔
معاون مربی انجمن: ایک مدت سے مولانا طلبہ کی انجمن کے معاون مشرف رہے اور مربی انجمن مولانامختار احمد صاحب مدنی کی بھر پور معاونت فرماتے رہے۔
نظامت مدرسہ: آپ اپنے موضع محمد نگر کے مدرسہ اصلاحیہ کے ناظم رہے، آپ کے دور نظامت میں مدرسہ نے کافی ترقی کی، أپ کے ذریعہ طلبہ و اساتذہ کی رہائش اور کلاس روم کیلئے ایک شاندار بلڈنگ تعمیر ہوئی، مدرسہ کی باؤنڈری کاا کام ہوا اور ایک شاندار مسجد بھی بنائی گئی ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مکتب کو ترقی دے کر آپ نے اسے عربی درسگاہ بنا دیا جس میں جماعت ثالثہ اور رابعہ تک تعلیم ہو رہی ہے، مطبخ اور اقامتی بچے بھی رہتے ہیں،مدرسہ کو آپ نے اردو فارسی بورڈ لکھنؤ سے ملحق بھی کرایا اب وہاں اساتذہ کی ایک اچھی ٹیم موجود ہے بورڈ سے اچھی تنخواہ مل رہی ہے اﷲ کی رحمت سے امید ہے کہ مدرسہ پھلتا پھولتا رہے گا جس کا اجر و ثواب مولانا کو ملتا رہے گا۔ انشا ء اﷲ
جمعیت کی نظامت: دعوتی کام کو تیز کرنے کے لئے جب جمعیۃ اہل حدیث بستی کے تحت حلقہ بڑھنی کے نام سے ایک حلقہ داری جمعیۃ( مقامی جمعیت) بنائی گئی تو استاذ محترم حضرت مولانا عبدالحنان صاحب فیضی حفظہ اﷲ کو صدر اورر مجھ ناچیز کو ناظم بنایا گیا، ایک میقات کے بعد میں نے نظامت قبول کرنے سے معذرت کیا تو خود میں نے اور دیگر ارکان جمعیۃ نے مولانا کا نام نظامت کے لئے منتخب کیا، وہ انکار کرتے رہے لیکن ہم سب کا اصرار ان کے انکار پر غالب آیا، بہر حال آپ نے پورے پندرہ بیس سالوں تک نظامت کی ذمہ داری نبھائی،آپ کے دور نظامت میں حلقہ کے مواضعات میں اسلاحی و تبلیغی کام ہوتا رہا، مکاتب کے بچوں کا تعلیمی مظاہرہ ہوا، ملک میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں مظلومین اور آفات زدہ لوگوں کی امداد کیلئے رفاہی کام بھی ہوتا رہا۔
خدمت حجاج: مولانا کی خدمات کے متعدد گوشے ہیں انھیں میں سے ایک گوشہ خدمت حجاج کرام کا بھی ہے، مولانا پوری دلچسپی کے ساتھ حج کا فارم حاصل کرتے حاجیوں کا فارم پرُ کرتے، اسے حولہ ڈاک کرتے، بینک جاکر ڈرافٹ بنواتے، ظاہر ہے کہ لوگ مختلف اوقات میں آدھمکتے، کبھی تو دوران درس آجاتے کبھی آرام کے دوران آجاتے کبھی اور کسی مصروفیت کے وقت آجاتے لیکن ہنسی خوشی ﷲ فی اﷲ ان کاکام کراتے تھے۔
جودوسخا: موصوف کی طبیعت میں جود و سخا کا قابل قدر جوہر تھا، نہ معلوم وہ کس کس کی کس انداز میں مدد فرماتے تھے، البتہ میں دیکھتا تھا کہ جامعہ میں آنے والے حاجت مندوں و سائلوں کی مدد میں وہ پیش پیش رہتے، جمعیت و جماعتت اور کانفرنسوں کی امداد کے معاملہ میں بھی وہ نمایاں رہتے تھے۔
مولانابعد نماز فجر ٹہلتے ہوئے سورج لال چائے والے کی دوکان پر آجاتے، ان کے سہارے اور بھی بہت سے لوگ بیٹھ جاتے سب کی چائے کا بل وہ ادا کرتے، مجھ کو بھی کبھی کبھار مولانا محمد اسلم صاحب مدنی کے ساتھ جانے کی عادت لگ گئی، چونکہ میری عادت کچھ کھا کر ہی چائے نوشی کی ہے اسلئے میں ایک عدد توش بھی لے لیا کرتا تھا، اب وہ سب کو ایک ایک توش دلوانے لگے اور خوشی بخوشی چار چھ آٹھ آدمیوں کے چائے و توش کا پیسہ ادا کرتے۔
عام خدمت خلق: وہ عام انداز کی خدمت خلق بھی بڑے شوق سے کیا کرتے تھے مثلاً جامعہ اسلامیہ سنابل دہلی میں زیر تعلیم اپنے دونوں فرزندوں عزیزان اسامہ وسالم کے اخراجات کے لئے روپیہ بھیجنے کی ضرورت ہوتی تو میں مولانا سے کہہ دیتا وہ وہاں انتظام کرادیتے تھے اور میں ان کو یہاں رقم دیدیا کرتا تھا، کسی کو دہلی ،ممبئی کا ٹکٹ درکار ہوتا تو موصوف اس کا بھی کام کرادیتے، بینک میں کسی کا کوئی معاملہ ہوتا تو بینک جاکر اس کو حل کرادیتے ، ایسے نہ معلوم کتنے کام تھے جنھیں وہ انجام دیا کرتے تھے ، جس کا لیٹر پیڈ چھپوانا ہو کتاب یا ہینڈبل چھپوانا ہو تو دہلی میں اپنے تعلقات کے ذریعہ سب کچھ کرادیتے اور صاحب معاملہ کلفت سے بچ جاتا، علالت کے دوران جب کہ وہ جامعہ آرہے تھے مجھے اپنی لڑکی کوثر کو رخصت کرنا تھا کٹھیلا میں ایک خاص قسم کا کھاجا بنتا ہے میں نے ان سے ذکر کیا توکہاٹھیک ہے فوراً وہاں فون کرکے آرڈر دلوایا اور جب کھاجا بن کر ان کے گھر آگیا تو کہا کہ اٹھوا لیجئے اس کے بعد مجھ سے پیسہ لیا۔
تعمیر مساجد: آپ کے نمایاں کاموں میں سے ایک کام تعمیر مساجد کا بھی ہے بعض تنظیمات سے اور تعمیر مساجد کے میدان میں بعض اہم شخصیات سے آپ کے تعلقات تھے اس کا فائدہ اٹھا کر انھوں نے اضلاع سدھارتھ نگر ،بلرام پورو نیپال میں چھوٹی بڑی بہت سی مسجدیں تعمیرکرائیں جن سے مسلمانوں کو بڑی سہولت حاصل ہوئی۔
جامع مسجد اہل حدیث شہرت گڈھ کی تولیت: بحیثیت ناظم حلقہ آٖپ شہرت گڈھ میں جامع مسجد اہل حدیث کی تولیت فرماتے رہے ، کبھی خود اور اکثر جمعہ کے لئے خطباء کا انتظام کرتے رہے بجلی پانی صفائی کا پورا اہتمام فرماتے رہے، مسجد کا مقدمہ بھی پوری پابندی سے لڑکر عدالتی فتح حاصل کیا۔
غرضیکہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور بڑی خوبیوں و کمالات کے آدمی تھے ان کی جدائی سے جامعہ سراج العلوم السلفیہ ایک ماہر استاذ اور جماعت اہل حدیث ایک عالم باعمل، داعی،خطیب اور خادم خلق سے محروم ہوگئی، میں نے بذات خود ایک اچھے ساتھی سچے ہمدرد اور بہی خواہ دوست و رفیق درس اور بہترین معاون مدرس کو کھو دیا ہے اب اس کو کہاں ڈھونڈوں ، کون ان کی جگہ پُر کرے گا ان کی یادیں بہت دنوں تک دوستوں ، رفیقوں، شاگردوں، عزیزوں کو ستاتی رہیں گی ابھی محترم مولانا خیراﷲ اثری رحمہ اﷲ کی جدائی کا داغ مٹا نہیں تھا کہ دوسرا داغ ہمارے مولانا دے گئے، ایک ایک کرکے لوگ اٹھتے جارہے ہیں بزم سونی ہوتی جارہی ہے آہ
زندگی انساں کی ہے مانند مرغ خوشنوا ڈال پر بیٹھا کوئی دم چہچہایا اڑ گیا
اﷲ رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ان کی بال بال مغفرت فرمائے اور بشری لغزشوں سے درگذر فرما کر جنت الفردوس میں انھیں جگہ بخشے،ان کی بیوہ اور دونوں بیٹوں عزیزان عطاء الرحمن و ضیاء الرحمن اور دونوں بیٹیوں فاطمہ و طاہرہ نیز بھائیوں و جملہ پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے۔(آمین) مولانا خورشید احمد سلفی
شیخ الجامعہ جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال
ڈاکٹر محمد یونس ارشد بلرام پوری رحمہٗ اﷲ
(تاریخ وفات: ۱۱؍مارچ ۲۰۱۲ء)
ڈاکٹر صاحب کی ذات گرامی جماعتی اور ملی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں ہے آپ بیک وقت حافظ و قاری بھی تھے عالم و فاضل ،شاعر محقق و نقاد ڈاکٹرا ور طبیب بھی تھے آپ نے اپنی زبان و قلم سے گمراہ فرقوں سے آخری لمحہ تک ڈٹ کر مقابلہ کیا آپ توحید خالص کے داعی اور صحیح عقیدہ کے ناشر کتاب وسنت کا ذوق اور اس کے ہمہ وقتی مبلغ تھے ہر شخص ان کی جدائی سے غمگین ورنجیدہ ہے موت کے علاوہ اور کوئی مصیبت ہوتی تو اس کا گلہ اور چارہ سازی بھی ہوتی موت پر کیا گلہ۔ کل من علیہا فان
ڈاکٹر صاحب نے تصنیف و تالیف بحث و تحقیق اور ردوابطال کے تعلق سے بہت سی تحریریں بطور یادگار چھوڑی ہیں جن کے مطالعہ سے قلم میں ان کی گرفت موضوع کی وضاحت معلومات کا خزینہ قوت انشاء پردازی کا پتہ چلتا ہے کہ موصوف کا قلم کیسا معجزرقم تھا علم و دانش کا وہ نےّر تاباں جو افق سرزمین بلرام پور سے طلوع ہوا تھا مورخہ ۱۱؍ مارچ ۲۰۱۲ء کو مالیر کوٹلہ پنجاب میں ہمیشہ ہمیش کیلئے غروب ہو گیا۔ تغمدہ اﷲ برحماتہ
ڈاکٹر صاحب خلیق ملنسار خوش مزاج خوش گفتار ،مہمان نواز حق گو علم اور علماء کے قدر داں ان کا دل خدمت خلق و خدمت دین کے جذبہ سے بھر پور تھایہی ان کی زندگی کا مقصد تھا ڈاکٹر صاحب سے راقم کے تعلقات بدرجہ غایت مخلصانہ تھے یہ سانحہ عظیم میرے لئے ذاتی حادثہ ہے ۔ اﷲ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو در گذر فرمائے اور کشادہ جنت ان کا مسکن بنائے اور آپ کے والد محترم حاجی عبدالحمیدوبڑے بھائی حاجی محمد ادریس صاحب انجینئر و ماسٹر محمد خلیل و محمد قاسم اور آپ کی بیوہ و اولاد وغیرہم کو صبر جمیل کی توفیق عنایت فرمائے ۔ (آمین)
ڈاکٹر صاحب کے مزید حالات کیلئے ڈاکٹر عبدالدیان انصاری حفظہ اﷲ کا درج ذیل مضمون ملاحظہ فرمائیں۔ عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور ، بلرام پور
(یو پی)
نام و نسب: آپ کا نام و نسب اس طرح ہے۔ محمد یونس ابن الحاج عبدالحمید بن الحاج محمد اسماعیل بن الحاج جہانگیر۔ سرکاری کاغذات کے مطابق آپ کی پیدائش ۲۱؍اگست ۱۹۴۸ء ہے آپ کی جائے پیدائش و آبائی مسکن موضع و ڈاکخانہ بھچکہیا، بلہا ضلع بلرام پور یوپی ہے۔ لیکن سرکاری سروس کے آخری ایام میں آٖ پ نے مالیر کوٹلہ پنجاب میں اپنا ذاتی مکان بناکر مستقل رہائش اختیار کرلی تھی۔
ابتدائی تعلیم: تعلیم کی ابتدا گاؤں ہی کے مکتب سے ہوئی لیکن آپ کے والد محترم کو وہاں کا طریقۂ تعلیم پسند نہ آیا اور قاعدہ بغدادی پڑھنے کے بعد ہی میرے آبائی گاؤں پوروہ شنکر نگر کے مدرسہ میں داخلہ کرا دیا جہاں میاں عین اﷲ صاحب صحیح تلفظ اور مخارج حروف کی ادائیگی کے ساتھ قرآن پڑھاتے تھے۔ میاں صاحب نے آپ کا امتحان لیا تو آپ نے اپنی خداداد ذہانت کے پیش نظر پارۂ عم سے بھی پوچھی گئی آیات پڑھ کر سنا دیں۔ میاں صاحب نے ناظرہ پڑھانے کی ضرورت نہیں سمجھی اور حفظ شروع کرادیا۔ چند ماہ کے بعد میرے گھر چچا حافظ حبیب اﷲ صاحب کے پاس حفظ قرآن کا سلسلہ آگے بڑھایا، اور جب میرے گاؤں کے تینوں مدارس محدث عصر علامہ عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری رحمہ اﷲ صاحب مرعاۃ کے ہاتھوں مدرسہ محمدیہ نصرۃ الاسلام کے نام سے یکجا ہوگئے تو آپ شنکر نگر آگئے لیکن چونکہ اس زمانے میں حفظ کی تعلیم نہیں تھی اور ادارہ میں کوئی حافظ بھی نہیں تھا نیز بلہا میں حافظ مسیح ا لدین صاحب مدرس بن کر آگئے تھے اس لئے اپنے گاؤں ہی میں پڑھنے لگے ۔ ابھی چودہ پارے ہی مکمل ہوئے تھے کہ سر سام(Maningitis) کی بیماری لاحق ہو گئی اور مسلسل تین ماہ اس بیماری میں مبتلا رہے ۔ طبیعت سنبھلنے کے بعد مدرسہ فرقانیہ گونڈہ میں داخلہ لیا وہاں حافظ عبدالمجید صاحب کے پاس حفظ مکمل کیا اور قاری عبدالرزاق صاحب سے تجوید سیکھی۔
مدرسہ فرقانیہ گونڈہ: ۱۹۶۱ء میں مدرسہ فرقانیہ گونڈہ میں درجات عربی و فارسی میں داخلہ لیا اور اس دوران آپ نے جامعہ اردو علی گڈھ سے ادیب ، ادیب ماہر اور ادیب کامل کے امتحانات دئیے۔ عربی و فارسی کے درجات میں فقہ میں ہدایہ، ادب میں ازہار العرب، صرف ونحومیں بالترتیب فصول اکبری اور کافیہ و شرح جامی تک تعلیم حاصل کی، فارسی میں گلستاں و بوستاں تک پڑھا،
جامعہ فیض عام مؤ: ۱۹۶۲ء مدرسہ فیض عام مؤ میں داخلہ لیا اور چونکہ اب تک حدیث کی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی اس لئے جماعت ثانیہ میں داخلہ ہوا، جس کے نصاب میں حدیث کی پہلی کتاب بلوغ المرام شامل ہے۔
مدرسہ فیض عام مؤ میں آپ نے دو سال گذارے اس درمیان آپ نے قاری خلیل الرحمن سے دوبارہ فن تجوید سیکھا اور اس فن کی کتابیں پڑھیں۔اس طرح تجوید کی سند مدرسہ فیض عام مؤ سے حاصل کی۔
جامعہ سلفیہ بنارس: مرکزی دارلعلوم بنارس میں تعلیمی افتتاح ہو چکا تھا مختلف فنون کے ماہر تجربہ کار اساتذہ دارلعلوم میں آچکے تھے سارے ہندوستان سے ذہین و فطین اور ممتاز طلباء کشاں کشاں بنارس آرہے تھے آپ نے منتہی علوم مرکزی دارالعلوم جامعہ سلفیہ بنارس سے حاصل کئے ۔ ۱۹۶۹ء میں دہلی آکر یہ محسوس کیا کہ امراء علماء کا استحصال کررہے ہیں اور عوام میں ان کی کوئی خاص وقعت نہیں ہے اس لئے دینی علوم کی تکمیل کے بعد آپ نے فن طب کی طرف توجہ کی اور جامعہ طبیہ دہلی میں داخلہ لیا ۔ ادھر مدرسہ ریاض العلوم دہلی میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالسلام بستوی سلفی رحمہ اﷲ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور صحیحین کے درس میں شرکت کی ۔اور ایک سال اس ادارہ میں جامع ترمذی کا اعزازی درس دیا۔ ۱۹۷۴ء میں آپ نے بی ۔ آئی۔ ایم۔ ایس کی ڈگری حاصل کی۔
قابل ذکر اساتذہ: مدرسہ فرقانیہ گونڈہ میں مولانا محمد افضال الحق قاسمی مہتمم خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔ مدرسہ فیض عام مؤ کے اساتذہ میں مولانا مفتی حبیب الرحمن مؤی ، مولانا محمد احمد صاحب ناظم، قاری خلیل الرحمن صاحب اور شیخ الحدیث مولانا شمس الحق صاحب رحمہم اﷲ خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔ جامعہ سلفیہ بنارس کے اساتذہ میں مولانا عبدالمعید صاحب بنارسی ، مولانا عبدالوحید صاحب رحمانی، مولانا محمد ادریس صاحب آزاد رحمانی، شیخ الحدیث مولانا احمد اﷲ صاحب رحمہم اﷲ اور ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اﷲ خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔ مولانا آزادرحمانی نے ڈاکٹر صاحب کے فن مضمون نگاری اور شاعری کی نوک پلک کو سدھارا اور آپ کی طبیعت میں پوشیدہ صلاحیتوں کو ابھارا اور نکھارا، قیام بنارس کے دوران آپ کی مقبول کتاب چہل حدیث منظوم کتابی شکل میں شائع ہوئی جس کی ادبی اور دینی حلقوں میں کافی پذیرائی ہوئی ۔ ندوۃالطلبہ جامعہ سلفیہ بنارس کا پہلا میگزین المنار ڈاکٹر ارشد صاحب، اور مولانا نورالعین کی ادارت میں شائع ہوا۔
زمانۂ طالب علمی میں ہر ادارہ میں بالعموم اور اپنی جماعت میں بالخصوص سب سے زیادہ نمبر لے کر کامیاب ہوتے رہے جامعہ سلفیہ بنارس میں عا لمیت کے دوسرے سال میں مجموعی طور پر تمام طلباء میں سب سے زیادہ نمبر تھے۔
میدان عمل: ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد آپ نے چند ماہ میجر چوراہا بلرام پور میں کلینک کی لیکن خاطر خواہ کامیابی نہ ملنے پر کٹرا چلے گئے۔ اور وہاں کافی عرصہ تک کامیابی کے ساتھ کلینک کی اسی دوران وہاں بدعتیوں کے پیر اور بریلوی فرقہ کے متعصب علماء کے ساتھ مناظرے کی نوبت آئی لیکن ڈاکٹر صاحب کے دلائل کے سامنے وہ ٹک نہ سکے جس کی وجہ سے انھوں نے کلینک اور گھر میں نقب لگاکر چوری کرادی دولت دین میں گفتگو کرکے منہ کی کھائی تو دولت دنیا پر ہاتھ صاف کردیا اس لئے وہاں سے بد دل ہوکر آپ نے سرکاری سروس کے لئے درخواست دی اور مارچ ۱۹۷۸ء میں بطور میڈیکل افسر پنجاب میں سرکاری سروس مل گئی۔
پنجاب میں آپ نے موگا، ہوشیار پور، لدھیانہ اور سنگرور میں اپنی سروس کے ایام گذارے اور طبی خدمات انجام دیں۔ اس دوران دینی خدمات سے بھی آپ کا تعلق برقرار رہا مختلف جرائد و رسائل میں مضامین لکھتے رہے ، ہو شیار پور میں آپ نے اصلاح المسلمین کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور ہر ہفتہ دین کے تعلق سے لوگوں کو دعوت و تبلیغ کرتے رہے ۱۹۹۱ء میں جب پنجاب میں صوبائی سطح پر جمعیت اہل حدیث کا قیام عمل میں آیا تو آپ اس کے نائب صدر منتخب کئے گئے ۱۹۹۵ء میں ناظم اعلیٰ بنائے گئے اور اکتوبر ۲۰۰۵ء میں جمعیت کے خزانچی مقرر کئے گئے۔ اسی دوران آپ کا ٹرانسفر مالیر کوٹلہ ہو گیا آپ نے موقع کو غنیمت جان کر مختلف مساجد میں درس قرآن و حدیث کا سلسلہ جاری کیا اور کبھی کبھی خطابت کا فریضہ بھی انجام دیا۔ ۳۱؍اگست ۲۰۰۶ء میں آپ سرکاری سروس سے ریٹائرڈ ہوگئے اور مالیر کوٹلہ میں ذاتی مکان بناکر یہیں مستقل رہائش پذیر ہوگئے۔
آٖپ کافی عرصہ سے مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے اور مرکزی جمعیت کی طرف سے کل ہند مقابلہ حفظ و تجوید و تفسیر میں کئی بار جج بن کر شرکت کی تھی۔
میدان صحافت میں: یوں تو مدرسہ فرقانیہ گونڈہ میں ادبی ذہن بن چکا تھا اور مدرسہ فیض عام مؤ میں شاعری شروع کردی تھی لیکن جامعہ سلفیہ بنارس میں مولانا آزاد رحمانی مرحوم کی زیر تربیت جہاں ایک طرف مضمون نگاری و صحافت میں پختگی پیدا ہوئی وہیں دوسری طرف ایک قادرالکلام شاعر بن گئے اور آپ کے تنقیدی مضامین میں مولانا آزاد رحمانی ہی کا رنگ جھلکتا ہے۔
قیام دہلی کے دوران کچھ عرصہ پندرہ روزہ ترجمان کی ادارت سنبھالی اور ماہنامہ الاسلام دہلی کے نائب مدیر رہے اب تک آپ کی تین کتابیں منظر عام پر آکر قبول عام حاصل کرچکی ہیں:
(۱) چہل حدیث منظوم
(۲) تقلید کے برگ وبار
(۳) عقیدۂ علم غیب حقائق کے آئینے میں
ان کتابوں کے علاوہ مزید دو کتابیں مکمل ہیں ۔
(۱) اطاعت رسول کی شرعی حیثیت
(۲) احکام اسلام اور میڈیکل سائنس
ڈاکٹرعبدالدیان انصاری
جنرل سکریٹری ریاستی جمعیۃ اہل حدیث پنجاب
٭٭٭
ماسٹر محمد اسماعیل انصاری رحمہٗ اﷲ
(تاریخ وفات: ۱۸؍اپریل ۲۰۱۲ء)
ولادت: والد محترم جناب ماسٹر محمد اسماعیل انصاری بن محمد اسحاق کی ولادت شہر بلرام پور سے پچھم جانب بہرائچ روڈ پر سات کلو میٹر کی دوری پر ہری ہر گنج بازار جنوب میں موضع شیکھر پور میں ۱۹۲۲ء میں ہوئی۔
تعلیم و ملازمت: آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مکتب میں پھر سرکاری پرائمری پاٹھ شالہ میں حاصل کی اس کے بعد بلرام پور کے ایم پی پی انٹر کالج سے ہائی اسکول کیا پرائیویٹ طور پر اعلیٰ قابلیت کے امتحان میں کامیابی حاصل کی حالات کی ستم ظریفی کہ آپ مزید تعلیم حاصل نہ کرسکے لیکن اﷲ کا کرم کہ آپ کو جلد ہی پرائمری اسکول میں ملازمت مل گئی چند سال بعد جونیر ہائی اسکول میں پرموشن پاکر معاون استاد کی حیثیت سے کام کرنے لگے پھر پرموشن پاکر جونیر ہائی اسکول ہری ہر گنج بحیثیت ہیڈ ماسٹر کئی سال تک تدریسی فرائض انجام دیتے رہے اور ۱۹۸۳ء میں ہری ہر گنج ہی سے ریٹائر ہو گئے۔
دوران ملازمت ڈیوٹی کی پابندی مفوضہ امور کی ادائیگی نیز طلبہ کو تعلیم و تربیت دینے کے سلسلہ میں بہت مشہور تھے اس سلسلہ میں مثال کے طور پر آپ کا نام پیش کیا جاتا ہے آپ کے شاگردوں میں کافی تعداد ایسی ہے جو اپنی ترقی میں ماسٹر صاحب کی توجہ محنت خیر خواہی اور صحیح رہنمائی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اسلئے بعض شاگرد صرف ملاقات کی غرض سے آپ کی خدمت میں حاضری دیتے تھے۔
سلفیت کی قبولیت و دینی خدمات: ہمارا شیکھر پور ،پورا گاؤں مسلکاً دیوبندی حنفی تھا چونکہ والد محترم کو اﷲ تعالیٰ نے حق کی تلاش جستجو و تحقیق کا جذبہ وافر عطا فرمایا تھا اس لئے تعلیمی فراغت کے بعد وہ مسلک حق کی تلاش میں لگ گئے کتاب وسنت کا مطالعہ کیا اور مختلف مسالک اور جماعت کے اکابر علماء کی کتابوں کو کھنگالا اور غیر جانب دار ہو کر یکسوئی سے کتابوں کا مطالعہ کیا جس کی وجہ سے مسلک دیوبندیت کو خیرآباد کہا اور مسلک اہل حدیث کو قبول کیا کچھ دنوں تک کیلئے اتحاد ملت اقامت دین اور حکومت الہیہ کے قیام وغیرہ کے سبز باغ کو دیکھ کر جماعت اسلامی(مودودی ازم) کے جال میں پھنس گئے مگر چونکہ والد محترم میں راہ حق کیلئے جذبۂ تحقیق اور طلب صادق تھی اسلئے بہت جلد ’’مودودی ازم‘‘ سے بیزار ہوگئے اور کتاب و سنت کے شیدا عامل اور منہج سلف کے علمبردار اور داعی بن گئے اور کاروان سلف میں پورے شرح صدر کے ساتھ شامل ہو گئے۔
اکابر علمائے اہل حدیث سے آپ کے گہرے و مخلصانہ و مضبوط تعلقات تھے والد محترم جب اپنے ذاتی مکان نو شہرہ بلرام پور میں قیام پذیر تھے تو جناب صوفی نذیر احمد کاشمیری مولانا سید ابوالخیر برق حسنی لکھنوی مفسر قرآن مولانا عبدالقوم رحمانی مولانا ابوالعرفان محمد عمر سلفی قاری عبدالمنان اثری شنکر نگری اکثر میرے غریب خانہ پر مہمان ہوا کرتے تھے والد محترم کو ان علماء حق کی خدمت کرتے بڑی خوشی ہوتی تھی شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارک پوریؒ سے برابر خط و کتابت رہی میری والدہ محترمہ جو والد محترم سے کئی سال پہلے وفات پا چکی تھیں انتہائی نیک عابدہ زاہدہ شاکرہ صابرہ اور مہمان نواز خاتون تھیں والد محترم کی طرح وہ بھی علم اور علماء کی بڑی قدر داں تھیں۔
والد محترم شروع ہی سے دینی مزاج کے حامل تھے ان کے گھر کے تمام ارکان پر دینداری کا غلبہ تھا دوران قیام سیکھرپور پابندی سے آس پاس کے مواضعات میں جمعہ اور عیدین کی نماز پڑھانے کیلئے جایا کرتے تھے جماعت کے اکابرین کے مشورے پر راقم عبدالرشید سلفی کو دینی علوم کے حصول کیلئے جامعہ سلفیہ بنارس بھیجا بحمدﷲ وہاں سے سند فراغت حاصل کی دوران قیام بلرام پور اور شنکر نگر والد محترم حسب ضرورتعارف باﷲ مخدوم پنچ ھرھٹہ کی محلہ چکنی مسجد اہل حدیث بلرام پور اور شنکر نگر کی جامع مسجد میں خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے ۔ الحمد ﷲ آپ کی دعوت و تبلیغ اور مساعی جمیلہ سے کئی لوگوں نے مسلک اہل حدیث قبول کیا۔
جامعہ محمد یہ نصرۃ الاسلام شنکر نگر سے وابستگی: والد محترم درس و تدریس کے لائن کے آدمی تھے برسوں کا تجربہ تھا اسی لئے شیخ الحدیث مولانا عبیداﷲ رحمانی مبارک پوریؒ اپنے خطوط میں والد محترم کو ہدایت فرمایا کرتے تھے کہ آپپ وقت نکال کر جامعہ محمدیہ نصرۃ الاسلام شنکر نگر جایا کریں اور تعلیمی جائزہ لے کر کمیٹی کو اپنے مفید مشوروں سے نوازا کریں ۔چنانچہ شیخ الحدیث مبارک پوری کی حسب ہدایت اس ذمہ داری کو اچھی طرح نبھایا اسی وقت جامعہ کا دستور العمل بھی مرتب کیا جو آج بھی مطبوعہ شکل میں موجود ہے اسی دستور کی روشنی میں آج بھی جامعہ کے سارے امور انجام پارہے ہیں ۔
جامعہ سلفیہ بلرام پور اور والد محترم: شیخ الحدیث مبارک پوریؒ اور دیگراکابر علماء اہل حدیث کی عرصہ سے خواہش و تمنا تھی کہ بلرام پور میں ایک سلفی ادارہ قائم کیا جائے ایک روز محترم قاری عبدالمنان اثری رحمہ اﷲ اپنے بعض احباب کے ساتھ میرے غریب خانہ پر تشریف لائے اور دینی ادارہ کے قیام کی غرض سے والد محترم سے صلاح و مشورہ کیا والد محترم نے کہا اگر آپ لوگ شہر بلرام پور میں سلفی دینی ادارہ قائم کریں تو میں اپنی پیرانہ سالی کے باوجود آپ کا ہر ممکن تعاون کروں گا انشاء اﷲ قاری عبدالمنان صاحب اثری رحمہ اﷲ نے ترجیحی طور پر والد محترم کے قیمتی مشورہ پر بلرامپور میں ایک سلفی ادارہ کے قیام کی پُر زور تائید فرمائی چند دنوں کے بعد کمیٹی عمل میں آئی چنانچہ قاری عبدالمنان اثری رحمہ اﷲ اس ادارہ کے بانی و ناظم اول قرار پائے اور والد محترم محرک اول و خازن قرار پائے شروع میں میرا گھر نو شہرہ جامعہ اسلامیہ سلفیہ نہر بالا گنج بلرام پور کا آفس تھا جامعہ کے سارے کام میرے گھر سے انجام پاتے تھے وہ مبارک ساعت آئی کہ نہر بالا گنج بلرامپور میں ایک قطعہ آراضی جامعہ سلفیہ کیلئے خریدی گئی والد محترم سے جتنا ہو سکا ہر قسم کا تعاون فرمایا جب کمزوری زیادہ بڑھ گئی تو آپ نے خازن کے عہدہ سے سبکدوشی حاصل کرلی۔
مومنانہ کردار: آنجہانی اندار گاندھی کی ایمرجنسی کا وہ ظالمانہ دور سبھی کو یاد ہوگا معلوم نہیں کتنے بے قصور لوگ جیل کے اندر سلاخوں کے پیچھے ڈال دئیے گئے تھے یہ ایمر جنسی سب کیلئے عذاب تھی اس میں کوئی نہ بچ سکا یہاں تک کہ سرکاری ٹیچر بھی نہیں بچ پائے ان پر سختی سے نس بندی کا حکم نافذ ہوا بہت سے مسلم ٹیچروں نے حکومت کو اپنا رازق سمجھ کر نس بندی کرالی اور بہت سے مسلم ٹیچراپنی جگہ دوسرے کو قربانی کا بکرا بنایا اور کچھ ایسے مرد مجاہد مسلم ٹیچر تھے جو اپنا رزاق اﷲ تعالیٰ کو سمجھتے تھے انھوں نے نس بندی کرانے سے انکار کردیا اور ایک چٹان کی طرح اپنی بات پر اڑے رہے افسران سے کہا یہ غیر شرعی کام ہرگز نہ کروں گا والد محترم ماسٹر محمد اسماعیل انصاری راسخ العقیدہ موحد مسلمان ٹیچر تھے اس غیر شرعی حکم کو ماننے سے صاف انکار کردیا نہ خود نس بندی کرائی اور نہ ہی اپنی جگہ پر کسی دوسرے کو پیش کیا اس حکم عدولی پر کئی ماہ کی تنخواہ روک دی گئی کافی مقروض ہو گئے اس کے ساتھ ساتھ نوکری سے برخاستگی کی بھی دھمکی ملتی رہی لیکن اس دھمکی کے باوجود والد محترم کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی جبکہ بہت سے مسلم ٹیچروں نے نس بندی کرالی یا پھر اپنی جگہ پر دوسرے کو اس کام کیلئے پیش کردیا ۔
والد محترم کے اس مومنانہ کردار کا پورے علاقہ میں عرصہ دراز تک چرچا رہا دیندار حلقوں میں انھیں مزید پذیرائی حاصل ہوئی اور بڑی عزت ووقار کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے۔
طبی خدمات: آپ باضابطہ سند یافتہ حکیم نہیں تھے البتہ طب نبوی بیاض کبیر شرح اسباب طب اکبر مخزن المفردات حاذق جیسی چھوٹی بڑی متعدد کتابوں کے مطالعہ کے نتیجہ میں آپ کو کافی معلومات ہوگئی تھی مریض آپ سے ملتے آپ ان کو حسب معلومات نسخہ لکھتے بحمد اﷲ آپ کے نسخے سے فائدہ ہوتا آپ کو اس فن سے کافی دلچسپی تھی اور مفت لوگوں کی خدمت کردیا کرتے تھے ۔قرب و جوار کے مستفدین آج بھی والد محترم کو یاد کرتے اور دعائیں دیتے ہیں والد محترم نے قدیم اطباء کے نسخہ جات و تجربات کا مسودہ تیار کیا تھا آپ کی خواہش تھی کہ اس کو کتابی شکل میں شائع کیا جائے تاکہ خلق خدا اس سے فائدہ اٹھائے۔
اولاد: اﷲ تعالیٰ نے والد محترم کو تین لڑکوں اور دولڑکیوں سے نوزا ہے جن کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں :(۱) ابو سعید فضل المعید جونیر ہائی اسکول میں ہیڈ ماسٹر ہیں ۔(۲) عبدالوحید یہ محکمہ آبپاشی میں ملازم ہیں ۔(۳) عبدالرشید سلفی(راقم الحروف) اﷲ تعالیٰ نے مجھے چار لڑکوں اور دولڑکیوں اور ایک پوتا حسان فیصل سے نوازا ہے ۔ جامعہ سلفیہ نہر بالاگنج میں تدریسی خدمات انجام دیتا ہوں اور پارٹ ٹائم میں پرنیاں تالاب بلرام یونانی دواخانہ پر بیٹھتا ہوں ۔
وفات: والد محترم کچھ دنوں سے علیل تھے وقت اجل آپہونچا بتاریخ ۱۸؍اپریل ۲۰۱۲ء صبح ۶؍بجے داعی اجل کو لبیک کہا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون اسی روز قبل نماز عصر ایک مجمع کی موجودگی میں شنکر نگر کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا نماز جنازہ راقم الحروف عبدالرشید سلفی نے پڑھائی۔ اﷲ تعالیٰ والد محترم کی لغزشوں کو درگذر فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی دینی خدمات کو قبول فرمائے۔ (آمین)
(ڈاکٹر) عبدالرشید سلفی شنکر نگر
۴؍جون ۲۰۱۳ء
وہ اک عظیم شخص تھا اور با کمال تھا اس کی مثال ہو تو کہاں بے مثال تھا
حاجی شفیع اﷲ خاں رحمہٗ اﷲ کٹیا بھاری
(تاریخ وفات: ۲۳؍مئی ۲۰۱۲ء)
قلم حیران ہے کہ حاجی شفیع اﷲ رحمہ اﷲ کو کس چیز سے تشبیہ دی جائے آپ کے دینی خدمات کی تصویر کشی کیسے کرے آپ کو چمکتے ستارے سے تشبیہ دی جائے یا آپ کو گھنا سایہ دار درخت قرار دیا جائے آپ کے اندر خلوص ﷲیت خشیت اور تقویٰ کی چمک تھی آپ کی گفتگو و اخلاق میں پھول کی خوشبو تھی آپ کی سیرت و کردار میں گھنے درخت کا سایہ بھی جہاں مسافر آرام کرتے ہیں اور شیریں آواز کی نغمہ سرائی بھی جس سے لوگوں کے کان لذت آشنا ہوتے ہیں۔
آئینہ دیکھ کر سبھی حیران رہ گئے ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
حاجی صاحب ایک دیندار و زمیندار گھرانے میں ۱۹۳۴ء میں بمقام کٹیا بھاری ضلع بلرامپور میں پیدا ہوئے آپ کے والدمحترم کا اسم گرامی حاجی محمد رضا خاں تھا حاجی محمد رضا خاں صاحب اور ان کے گھرانہ کے سبھی ارکان پر دینداری کا غلبہ تھا حاجی صاحب نے اسی ماحول میں آنکھیں کھولیں گاؤں کے مدرسہ میں ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا مکتب کی تعلیم پوری کرنے کے بعد باہر جاکر تعلیم کی تکمیل فرمائی۔
اﷲ تعالیٰ نے حاجی محمد زماں خاں کو پانچ لڑکوں اور ایک لڑکی سے نوازا ہے حاجی صاحب نے ساری اولاد کو دل کھول کر دینی و عصری تعلیم دلائی کسی کو ڈاکٹر بنایا تو کسی کو انجینئر نگ کی تعلیم دلائی تو کسی کو ورسیر بنایا حاجی محمد رضا خاں کے لڑکوں کے اسماء گرامی بالترتیب درج ذیل ہیں:
(۱) عبدالمغنی خاں(۲) علیم الحق خاں(۳) حاجی شفیع اﷲ خاں (۴) ڈاکٹر نظام الدین خاں (۵) ڈاکٹر محمد مصطفی خاں ڈاکٹر نظام خاں کئی سال مختلف مقامات پر میڈیکل افسر کے باوقار منصب پر فائز رہے دوران سروس مستعفی ہو گئے اور پچپڑوا میں پرائیویٹ پریکٹس شروع کی جو اپنی تشخیص و تجربہ سے بڑی شہرت پائی ۔ ڈاکٹر محمد مصطفی خاں بھی کئی مقامات پر میڈیکل افسر کے عہدہ پر فائز رہے کہ دوران سروس عین جوانی میں انتقال کرگئے بڑے بھائی عبدالمغنی کئی سال قبل وفات پا چکے ہیں افسوس کہ اب حاجی شفیع اﷲ بھی ہمارے بیچ نہ رہے۔
حاجی شفیع اﷲ صاحب حاجی محمد رضا خاں کے تیسرے لڑکے تھے جو دینداری دانشوری میں اپنے تمام بھائیوں سے فائق تھے آپ کے والد محترم فرمایا کرتے تھے کہ تم با صلاحیت منتظم اور زراعت کے گُر سے واقف ہو لہذا تعلیم کی تکمیل کے بعد زمینداری تم کو سنبھالنی ہو گی حالانکہ کھیتی کا نظام سنبھالنا بڑی محنت و مشقت کا کام ہے لیکن والد صاحب کے حسب ارشاد حاجی شفیع اﷲ صاحب کھیتی کی دیکھ ریکھ آخری لمحات تک کرتے رہے
ذرہ ذرہ سے لگاوٹ کی ضرورت ہے یہاں
عافیت چاہے گر انساں تو زمیندار نہ ہو
حاجی صاحب نے نامساعد و نا موافق حالات میں دینی علوم کی ترویج و اشاعت کا اہتمام کیا لوگوں کے دکھ درد میں آپ برابر شریک رہے ۔ علاقہ کے عوام و خواص آپ کی بڑی عزت کرتے تھے حاجی صاحب نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور عوام میں گھل مل کر رہتے کسی سے کسی قسم کی کدورت نہیں رکھتے تھے ان کا آئینہ قلب بُغض و عداوت کے داغ دھبوں سے پاک تھا اس مرد درویش نے ہمیشہ وقار کی زندگی بسر کی اور انتہائی تکریم کے ساتھ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔
حاجی صاحب جس دور میں اپنے گاؤں کے مدرسہ کے صدر تھے جب کسی طالب علم کے باپ یا گھر کے افراد میں کوئی آپ کے پاس شکایت لیکر آتا کہ فلاں مولوی صاحب یا فلاں ماسٹر صاحب نے میرے لڑکے کی پٹائی کی ہے تو آپ اس شخص کو بیٹھا کر شیخ سعدی رحمہ اﷲ کے اس شعر کا مفہوم سمجھاتے :
برآں طفل کہ جور آموز گار
نہ بیند جفا بیند از روزگار
یعنی جو بچہ استاد کی سختی مارپیٹ برداشت نہ کرے گا تو آگے چل کر اس کو زمانہ کے مظالم سہنا پڑیں گے ۔
حاجی صاحب ہمیشہ اچھی باتوں کی تلقین کرتے آپ کے یہ الفاظ آج بھی کانوں میں گونج رہے ہیں نیکی کر دریا میں ڈال کبّو نہ چھوڑ و نیکی کے بان
حاجی صاحب نے ہمیشہ نفرت کا جواب محبت سے تضحیک کا جواب سنجیدگی سے غصہ کا جواب مسکراہٹ سے دیا۔
حاجی شفیع اﷲ صاحب کی پہلی شادی موضع جے بھاری میں ہوئی تھی ان کا انتقال ہو گیا ان سے کوئی اولاد بھی نہ تھی دوسری شادی جماعت اسلامی کے سر گرم رکن جناب فخرالحسن خاں کھجوریہ اکرہرا سدھارتھ نگر کی ہمشیرہ صاحبہ سے ہوئی اﷲ تعالیٰ نے ان سے آپ کو دولڑکوں اور چار لڑکیوں سے نوازا۔ لڑکوں کے نام بالترتیب یہ ہیں۔ ڈاکٹر رفیع احمد خاں ، ڈاکٹر محمد اعظم خاں، یہ دونوں بھائی تعلیمی فراغت کے بعد جودھپور ہی میں پریکٹس شروع کردی اور اپنی تشخیص اور تجربہ کی وجہ سے بڑی شہرت پائی دونوں بھائی جودھپور میں ذاتی مکان بناکر یہیں مستقل رہائش پذیر ہو گئے ہیں ۔
ڈاکٹر رفیع احمد خاں و ڈاکٹر محمد اعظم خاں کی تعمیر و ترقی میں علمی و دینی گھرانے کی خوارچی بسی ہے اور فکر و نظر میں سلفیت کی روح کار فرما ہے ڈاکٹر رفیع احمد صاحب ایک بہترین انسان ہیں ملت اسلامیہ کے سچے اور مخلص ہمدرد ہیں نام و نمود ریا کاری اور شہرت طلبی سے دوراور خاموش کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں توحید خالص ، اتباع سنت اور ایمان و یقین کی حلاوت نے ڈاکٹر صاحب کے دل کو پاک و صاف اور عمدہ سیرت و کردار کی وجہ سے ممتاز مقام حاصل ہے اور رفاہی اور فلاحی و دینی اور سماجی خدمات میں ان کی انکساری بے نفسی ایثار وقربانی و خدمت خلق کے جذبۂ صادق نے لوگوں کے دلوں میں ان کے لئے احترام و محبت اور خلوص کے جذبات پیدا کر دئیے ہیں جس کی وجہ سے ان کی شخصیت میں نکھار آ گیا ہے جو اسلامی اخلاق کا طبعی اور منطقی نتیجہ ہے الحمد ﷲ نا چیز کا ڈاکٹر صاحب سے خوشگوار تعلقات ہیں اکثر و بیشتر اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں اﷲ تعالیٰ ان دونوں بھائیوں کی زندگیوں میں برکت عطا فرمائے۔ (آمین)
حاجی صاحب ہی کی طرح ڈاکٹر صاحب علم و علماء کے قدر داں حق گو مہمان نواز خلیق اور ملنسار ہیں سنجیدگی وضع داری شائشتگی اور معاملات کی صفائی ایفائے عہد کی پختگی ڈاکٹر رفیع احمد کی زندگی کا طرّہ امتیاز ہے۔
حاجی شفیع اﷲ صاحب اپنی والدہ محترمہ کے ہمراہ ۱۹۶۵ء میں فریضہ حج کی سعادت سے فارغ ہو چکے تھے حاجی صاحب با اخلاق نہایت مخلص و علم دوست تھے علم اور علماء کی قدر کرتے تھے قرآن مجید کا ترجمہ مولانا محمد جونا گڈھی و مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمہما اﷲ اور کتب احادیث کے ترجمے اور مذہبی کتابوں کا مطالعہ ان کا مشغلہ تھا گاؤں اور علاقہ کے لوگ آپ کو مہتو اور چودھری کے نام سے یاد کرتے تھے گاؤں سبھا کے پردھان کے انتخاب پر یا گاؤں کے دیگر معاملات میں آپ کے مشورے کا دخل ہوتا تھا حاجی صاحب اپنے ماتحت افراد کی خبر گیری کرتے اور ان کا حوصلہ بڑھاتے قوم کے بچوں اور بچیوں کی دینی اور عصری تعلیم کیلئے ہمیشہ فکر مند رہتے کئی سالوں ضلعی جمعیۃ بلرام پور کے نائب صدر اور اپنے گاؤں کٹیا بھاری مدرسہ کے صدر اور بیت المال کے خازن بھی رہے حاجی صاحب اﷲ کے یہاں سے درد مند دل لیکر آئے تھے ملت کے مسائل سے واقفیت عصری مسائل سے باخبر عالم اسلام کے حالات سے فکر مند قوم و ملت سے ہمدردی اسلام کے فروغ و نشر و اشاعت کا مخلصانہ جذبہ منہج سلف پر عامل صحیح العقیدہ مسلمان اہل حدیث ہی نہیں بلکہ اہل حدیث گر تھے پوری زندگی کتاب و سنت کی اشاعت میں کوشاں اور شرک و بدعت سے بر سر پیکار رہے غریبوں اور یتیموں کے غمگسار ،مہمان نواز پڑوسیوں، رشتہ داروں کے حقوق کے نگہبان غرضیکہ ہر وہ اوصاف و کمالات حسنہ کے جامع ایسی شخصیت کی جدائی پر علاقہ کے ہر فرد کا سوگوار ہونا فطری امر ہے ۔
آج لیکن ہمنوا سارا چمن ماتم میں ہے
شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے
حاجی صاحب سے ناچیز کے خوشگوار اور دیرینہ تعلقات تھے میں حاجی صاحب سے عمر میں چھوٹا ہوں مگر حاجی صاحب ایسے ڈھب سے ملتے جیسے ہم عمر ہوں حاجی صاحب نے ہمیشہ ناچیز کو ایک چھوٹے بھائی کی حیثیت دی،یہ سانحہ میرے لئے ذاتی حادثہ ہے۔
حاجی صاحب کچھ دنوں سے علیل تھے جب بیماری میں اضافہ ہوا تو آپ کے صاحبزادے محترم جناب ڈاکٹر رفیع احمد خاں اپنے پاس جودھپور لیکر چلے گئے ،ڈاکٹر صاحب نے دوا علاج اور خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی بڑی خوشی اور انتہائی سعادت کی بات ہے کہ حاجی صاحب کے دونوں لڑکے اپنے والد محترم کی خوب خوب خدمت کی ۔ اﷲ تعالیٰ ایسی نیک و خوش بخت اولاد کو دین و دنیا کی برکتوں سے نوازے۔ (آمین)
وفات: دنیا کا سلسلہ اسی طرح چل رہا ہے کوئی آیا کوئی گیا یہ دنیا فانی ہے اس میں کسی کو قرار نہیں ہے تمام سلسلے عارضی اور وقتی ہیں موت کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا جب فرشتۂ اجل آتا ہے سب اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں قرآن مجید نے بالکل صحیح کہا ہے﴿کل من علیہا فان ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام ﴾
اقربا اولاد کو بس صبر کی تلقین دے یا خدا مرحوم کے احباب کو تسکین دے
یہ نےّر تاباں افق کٹیا بھاری سے طلوع ہوکر مورخہ ۲۳؍مئی ۲۰۱۲ء سرزمین جودھپور میں ہمیشہ ہمیش کیلئے غروب ہو گیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
سرزمین جودھپور نے ان کے جسد خاکی کو بدرجہ غایت مسرت کے ساتھ اپنی آغوش میں لے لیا۔ اﷲ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کی مغفرت فرماکر اعلی علیےن میں جگہ عنایت فرمائے۔ اور ڈاکٹر رفیع احمد خاں و ڈاکٹر محمد اعظم خاں و دیگر پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عنایت فرمائے اور ان کی اولاد و احفاد کو نیک اور صالح بنائے انھیں اپنے دین کی خدمت اور اپنے والد محترم کے نیک کاموں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ
غمزدہ
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور، بلرام پور
(یوپی )
٭٭٭
ڈاکٹر مولانا حامد الانصاری انجم رحمہٗ اﷲ
(تاریخ وفات:۱۷؍فروری ۲۰۱۳ء)
تاریخ پیدائش اور ابتدائی تعلیم: آپ کا پیدائشی نام عبدالحمید تھا ۔ بعد میں آپ حامدالانصاری انجم اور انجم جمال اثری سے معروف ہوئے۔ رفتہ رفتہ اول الذکر نام آپ کی شناخت بن گیا۔ تعلیمی اسناد کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش ۱۵؍مئی ۱۹۳۲ء ہے ،اور جائے پیدائش موضع کرن جوت بازار ضلع بستی ہے۔ یہ ضلع اب تین اضلاع میں تقسیم ہوکر بستی،سدھارتھ نگر اور سنت کبیر نگر میں تبدیل ہو گیا ہے ۔ کرن جوت بازار سنت کبیر نگر میں آگیا ہے ۔ آپ کے والد کا نام میاں جان محمد انصاری تھا۔ دس سال کی عمر میں آپ کے والد کا انتقال ہوگیا اور آپ کے چچا نواب بخش نے آپ کو بیٹے کی طرح پالا ۔ آپ کے والد ذی علم اور تقویٰ شعار بزرگ تھے اور درس و تدریس کا کام کرتے تھے ۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا عالم دین بنے اور وہی ہوا۔ آپ عالم دین بنے اور حکیم و ڈاکٹر بھی اور دوسرے میدانوں میں بھی آپ نے اپنی شخصیت کی بھر پور چھاپ چھوڑی ۔ والد کے انتقال کے بعد علاقے کے ایک دینی تعلیمی ادارے میں جو کہ موضع فتح پور میں واقع تھا ،آپٖ کا داخلہ ہوا ۔آپ کے استاد کانام مولانا شمس الحق شمس بشیری تھا جو کہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے رفقاء میں سے تھے۔ بعد میں انھوں نے ہند نیپال سرحد پر واقع مدرسہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر میں داخلہ لیا اور اس کے بعد مظاہر العلوم سہارنپور چلے گئے ۔ پھر دہلی کے مدرسہ ریاض العلوم میں داخلہ لیا اور وہیں سے سند فراغت حاصل کی۔ اس ادارے نے ان کی شخصیت سازی میں اہم کردار اداکیا۔ ۱۹۵۱ء میں وہاں سے فراغت کے بعد جامعہ طبیہ کالج قرول باغ دہلی میں داخل ہوئے اور ۱۹۵۵ء میں وہاں سے تکمیل الطب کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے طبابت کو بطور پیشہ اختیار کیا اور اسے بہت کامیابی کے عروج پر پہونچایا ۔ لیکن طبیعت میں دینی مزاج تھا لہذا طبابت سے دل اچاٹ ہو گیا اور پھر انھوں نے تعلیمی اداروں کی راہ لی۔ اس شعبے میں انھوں نے منتظم اور مدرس کی حیثیت سے قابل ذکر خدمات انجام دیں ۔
مقصد زندگی: آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ نئی نسل کو عصری علوم کے ساتھ ساتھ اسلای تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے اور اسلامی شاعری،خطابت،صحافت اور وعظ و نصیحت کی مدد سے عوام الناس میں پھیلی ہوئی گمراہیوں کی تاریکی کو دور کرنے میں گذارا۔ صاحب طرز ادیب و صحافی اور شاعر جناب اطہر نقوی کے مطابق جوکہ دہلی میں آپ کے خاص رفقاء میں رہے ہیں ، حامد الانصاری نے پیشہ طبابت کو اس لئے خیر باد کہہ دیا کہ ان کے نزدیک جسمانی سے زیادہ روحانی علاج ضروری تھا۔ لہذا انھوں نے پیشہ طبابت کو خیر باد کہہ کر سماج میں پھیلے ہوئے غلط قسم کے رسوم و رواج کے اندھیرے کو دور کرنے اور ضلالت و گمراہی کے تاروپود کو متشر کرنے کیلئے میدانِ عمل میں بے خطر کود پڑنے کو ترجیح دی۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ پیشۂ طبابت میں کامیاب نہیں تھے ۔ دور دراز سے لوگ آتے اور ان کی دست شفا سے فیضیاب ہو کر جاتے۔ لیکن طبیعت میں ایک بانکپن تھا جو ان کو مستقل مزاجی سے ڈاکٹری کرنے سے روکتا تھا اور بالآخر انھوں نے اس پیشے سے علاحدگی اختیار کرلی، لیکن اس انداز سے کہ زندگی کے کسی بھی موڑپر انھیں اس ترک تعلق پر ندامت و پشیمانی نہیں ہوئی۔
انھوں نے اپنا میدان عمل ہند و نیپال کے سرحد پر ترائی کے علاقے کو بنایا اور نوگڈھ ، برڈ پور ، ککرہوا ،ٹھوٹھری اور پھر سرزمین نیپال میں ہرنام پور ، تینہوا ،اور دوسرے مواضعات میں سر گرم ہو گئے، ( لمبنی بودھ مت کا ایک عالمی مرکز ہے) ایک جگہ تعلیمی ادارہ قائم کرتے ،عوام میں تعلیمی بیداری پیدا کرتے لوگوں میں بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے تعلیمی اداروں میں بھیجنے کا ذوق و شوق پروان چڑھاتے اور پھر آگے بڑھ جاتے۔ آگے بڑھنے کا یہ سلسلہ جاری رہا ، انھوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا البتہ انھوں نے کہیں زیادہ عرصہ گزارا اور کہیں کم۔ اس درمیان ان کے اندر خطابت کا ذوق پیدا ہوا ۔شاعرانہ مزاج نے اس ذوق کو مہمیز لگائی اور پھر تو تین چار گھنٹے تک بیک نشست تقریر کرنا ان کیلئے عام بات تھی اور زبان میں اتنے شیرینی تھی وحلاوت کہ مجال کیا کہ مجمع سے ایک بھی شخص اٹھ جائے ان تقریروں میں بلند آہنگ خطابت کا بھی اندازہوتا تھا اور ترنم آمیز وعظ و نصیحت کا بھی۔ سینکڑوں اشعار نوک زبان پر رہتے اور بوقت ضرورت ان کو استعمال بھی کرتے۔ توحید و رسالت کے موضوع پر بھی اپنی تقریروں میں غزل کے اشعار اس انداز سے استعمال کرتے کہ ایسا لگتاکہ شاعر نے اسی موقع کے لئے یہ شعر کہا ہے۔
آپ صرف خطابت ہی نہیں کرتے بلکہ حمد اور بالخصوص نعت بھی پڑھتے ۔ آپ بہت خوش الحان تھے اور مترنم آواز میں نعت پڑھنے کا انداز لاثانی تھا۔ بھاری بھرکم مگر انتہائی میٹھی آواز اور مردانہ آہنگ کے ساتھ جب نعت پڑھتے تو پورا مجمع جھوم اٹھتا۔ حب رسول میں ڈوبی ہوئی ان کی نعتیں سامعین پر ایک عجیب و غریب کیفیت طاری کردیتیں اور لوگ ان کی آواز و انداز کے سحر میں ڈوب جاتے ، آپ کی نعتیں ایسے اشعار سے پوری طرح پاک ہیں جن میں غلو کرکے اﷲ کے رسول کا درجہ بڑھا دیا جاتا ہے اور اشعار سے شرک کی بو آنے لگتی ہے۔ آپ فلمی گانوں کی دھن پر نعت پڑھنے کے انتہائی سخت خلا ف تھے اور اگر کسی مذہبی جلسہ میں کوئی شخص فلمی طرز پر نعت پڑھتا تو اسے سختی سے روک دیتے کہ یہ رسول خدا کی شان میں گستاخی ہے۔ نعت پڑھنے کا آپ کا انداز اتنا مقبول ہوا کہ بہت سے انجم ثانی پیدا ہوگئے جو صرف انہی کی نعت اور خالص انہی کے انداز میں پڑھنے اور اپنے نام کے ساتھ انجمی کی نسبت لگاتے۔ آپ کی شاعری خالص اسلامی شاعری ہے، سینکڑوں کی تعداد میں آپ نے نعتیں کہی ہیں اور متعدد نعتیہ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ آپ نے اسلامی نظمیں بھی بڑی تعداد میں کہی ہیں اور بچوں کی نظموں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے، جو صرف اور صرف اسلامی رنگ و آہنگ میں ہیں۔
آپ کے سیاسی نظریات کی اساس عوامی فلاح و بہبود پر تھی اور اس میں وہ کسی مذہب یا فرقہ کی کوئی تخصیص نہیں کرتے تھے ، ان کے نزدیک عوام کا مفہوم بحیثیت مجموعی عوام سے ہے نہ کہ کسی خاص فرقہ، طبقہ یا مذہب کے لوگوں سے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی مخصوص سیاسی پارٹی کے حامی یا وکیل نہیں رہے۔ بلکہ فلاحی اور عوامی کاموں کی بنیاد پر سیاست دانوں کی حمایت کا فیصلہ کرتے وہ عوامی نمائندوں سے یہ توقع رکھتے تھے اور انھیں اس کی تلقین بھی کرتے تھے کہ ان کا فرض عوام کی خدمت کرنا ہے اپنے مفادات کی تکمیل کرنا نہیں ۔ وہ سیاست دانوں سے کہا کرتے تھے کہ اگر انھیں اپنے مفادات عزیز ہیں اور وہ عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی رکھنا نہیں چاہتے تو ان سے تعلق نہ رکھیں اور ان سے کسی حمایت کی امید بھی نہ رکھیں ۔ لیکن اسی کے ساتھ انھوں نے کبھی بھی فاسشٹ طاقتوں کی حمایت نہیں کی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ طاقتیں خواہ کتنی ہی ہمدردی کا مظاہرہ کیوں نہ کریں ان سے کسی خیر کی امید کرنا ایسے ہی ہے جیسے کہ آگ سے پانی نکلنے کی امید کرنا ۔ اسی لئے وہ ایسے عناصر سے دور دور رہا کرتے تھے حالانکہ اس قسم کی سیاست داں بھی ان سے قریب ہونے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے لیکن ہر بار ان کے حصے میں مایوسی آتی ۔ ان کے سیاسی نظریات میں ایک اہم نظریہ وطنیت کا بھی ہے۔ وہ حب الوطنی کے زبردست مبلغ اور طرفدار ہیں اور کیسے بھی حالات کیوں نہ ہو انھوں نے کبھی بھی ہندوستان کے مفادات کے مقابلے میں دوسرے ملکوں کے مفادات کی حمایت نہیں کی۔ وہ علامہ اقبال کے اس نظریے کے قائل رہے ہیں کہ ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا۔
بنکر تحریک بھی آپ کی زندگی کا ایک اہم موڑرہا ہے۔ ۷۰ کی دہائی میں اتر پردیش میں آندھی طوفان کے مانند اٹھنے والی اس تحریک کے جو چند بنیادی کردار تھے، آپ ان میں سے ایک تھے ۔ آپ نہ صرف اپنے زور خطابت سے بنکروں کے مسائل اٹھاتے اور انھیں ایوان سیاست میں پہونچاتے بلکہ اپنی نظموں سے بنکربرادری میں زبردست جوش خروش اور حدت و حرارت بھی پیدا کرتے ۔ بنکروں کے لہو کو گرمانے میں آپ کی معرکۃ الآرا نظمیں زبردست رول ادا کرتیں اور اپنے حقوق کیلئے لڑنے اور سڑکوں پر اتر کر ارباب اقتدار سے ٹکر لینے کا حوصلہ اور ولولہ پیدا کرتیں۔ اس تحریک نے سرکاری ایوانوں میں زلزلہ پیدا کردیا تھا اور ذمہ داران حکومت کو بنکروں کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔ لیکن انھوں نے اس کامیاب تحریک سے بھی کوئی مادی فائدہ نہیں اٹھایا۔
بحیثیت نعت گو : مولانا حامد الانصاری انجم کی شاعرانہ صفات اور فنی صلاحیتوں کا مرکز ومحور صرف اور صرف نعت رسول محترم ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ آپ نے دیگر اصناف میں طبع آزمائی نہ کی ہو آپ نے غزل نظم مخمں مسدس قطعہ رباعی وغیرہ میں بھی اپنے جوہر دکھائے ہیں لیکن ایک عرصہ سے آپ نے نعت کہنے اور اسلامی نظمیں لکھنے تک اپنی صلاحیتوں کو محدود کرلیا ہے اور نعت گوئی کو اپنے لئے سرمایۂ نجات تصور کرکے اپنی تمام تر قلمی و شاعرانہ قوتوں کو اسی کے لئے وقف کردیا ہے۔مولانا حامد الانصاری انجم کی شاعری حب رسول کا جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ ان میں شاعرانہ خوبیاں اور ادب کی جھلکیاں حسن کا رانہ انداز میں موجود ہیں وہ واردات قلبی کا اتنے مؤثر اور پر کیف انداز میں اظہار کرتے ہیں کہ طبیعت عش عش کرنے لگتی ہے۔ سلاست روانی اور فصاحت و بلاغت کے ساتھ نغمگی بھی ان کی نعتوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ آپ کے اکثر نعتیہ مجموعوں میں حرم اور دیار حرم کی تکرار ملتی ہے ۔ آپ کی نعتوں کو پڑھتے وقت ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم خود شہر محمد ﷺ کی گلیوں میں پہنچ گئے ہیں اور ان کی رنگینیوں اور تابناکیوں کو اپنے دامن میں سمیٹ رہے ہیں۔ انتہائی سیدھے سادے اور مؤثر اندازمیں کہے گئے آپ کے نعتیہ اشعار سیدھے سیدھے دل میں اتر جاتے ہیں ۔ سادگی و پرکاری کا ایسا شاندار امتزاج دوسرے شاعروں کے یہاں بہت کم نظر آتا ہے۔ اکثر جگہوں پر شمع حرم، چراغ حرم، حرمین، کعبہ شریف، مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ اور سید حرمین کی جلوہ سامانیاں موجود ہیں۔
آپ کی نعتیہ شاعری میں دو صفات بہت کثرت سے ملتی ہیں۔ ایک رسول مکرم و محترم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وبارک وسلم سے عقیدت و محبت اور دوسرے دیارِ حرم سے وابستگی اور لگاؤ۔ یہ دونوں اوصاف آپ کی شاعری میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں لیکن مجال کیا کہ کہیں تکرار ہو یا الفاظ کا کثرت استعمال ذہن و دماغ پر گراں گذرجائے۔ اگر کہیں تکرار بھی ہے تو وہ اتنے خوبصورت اور دلفریب انداز میں کہ وہ شاعرانہ خوبی بن گئی ہے۔ رسول اکرم ﷺ کی تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ کفر اور باطل کے درمیان تصادم بھی نظر آتا ہے اور ظاہر ہے ان پر حبِ رسول ﷺ غالب آجاتی ہے۔ خیرالبشر ،خیرالوریٰ،شفیع الامم، ساقیٔ کوثر، مدینے کی گلیاں اور بہارِ مدینہ جیسے الفاظ جگہ جگہ اپنی جلوہ سامانیاں بکھیرتے نظر آتے ہیں۔
جب آپ حب رسول میں ڈوب کر نعتیہ اشعار کہتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ربِّ کائنات نے آپ کے قلم کو نعت گوئی کیلئے ہی پیدا کیا ہے۔ مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
آستان حبیب خدا مل گیا
مل گیا خلد کا راستہ مل گیا
احمد ِ مصطفی کیا ملے ہمنشیں
خالق دو جہاں کا پتہ مل گیا
حبیب ِ خدا یعنی امت کے والی
ادائیں ہیں ان کی نرالی نرالی
ہمیں یاد جس وقت بھی آئی ان کی
تو بے ساختہ ہم نے گردن جھکالی
وقت کی پکار : ’’ وقت کی پکار‘‘ ڈاکٹر مولانا حامد الانصاری انجم کی یہ ایک پرجوش اور ولولہ انگیز نظم ہے ۔ یہ تیس بند پر مشتمل ہے اور اس میں ملک کے نوجوانوں سے خطاب کیا گیا ہے۔ انھیں خواب غفلت سے بیدار ہونے اور میدان عمل میں سر گرم ہونے کی تلقین کی گئی ہے ۔ انھیں بتایا گیا ہے کہ وہ اگر اسی طرح سوتے رہے تو ان کی زندگی رائیگاں چلی جائے گی اور انہیں جس کا م کیلئے دنیا میں بھیجا گیا ہے وہ پورا نہیں ہوگا۔ نوجوانوں کو عزم و ہمت کے ساتھ اور کمر کس کر میدان زیست کے نشیب و فراز کو عبور کرتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے للکارا گیا ہے۔ یہ یاد دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ انھیں زندگی اس لئے نہیں ملی ہے کہ وہ اسے کھیل کود میں گذاردیں یا بے مقصد ختم کردیں بلکہ ان کی زندگی کا ایک نصب العین ہے اور انہیں اس کو کسی بھی قیمت پر حاصل کرنا ہے۔ نوجوانوں کو حرکت و عمل کیلئے مہمیز لگاتے ہوئے ان کو ان کے فرائض کی یاد دہانی کرائی گئی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دنیا کی کوئی شے بیکار نہیں ہے اور نہ ہی انجماد کی شکار ہے۔ بلکہ ہر چیز حرکت و عمل میں مصروف ہے اور اپنے مقصد کی جانب گامزن ہے۔
اگر ہم اس نظم کو مجموعی طور پر پڑھیں اور اس کے پیغام کو ذہن میں رکھیں تو پائیں گے کہ ڈاکٹر انجم انصاری نے بہت ہی مشاقی کے ساتھ اپنے افکار و خیالات کو منظوم کیا ہے اور کہیں بھی ایسا موڑ نہیں آنے دیا ہے جو تخریبی رجحان پیدا کرے یا منفی سوچ کی پرورش کرے۔ مثال کے طور پر ان اشعار کو ملاحظہ فرمائیں:
تمہارا ولولہ جو اں تمہارا عزم نوجواں
تمہاری ہے زمین بھی تمہارا ہے یہ آسماں
تم ہی ہو نائب خدا تمہارا ہے یہ کل جہاں
بلا رہی ہیں منزلیں تمہارا انتظار ہے
قدم بڑھاؤ ساتھیو یہ وقت کی پکار ہے
تمہارے مسکرانے سے زمانہ مسکرائے گا
جو شمع تم جلاؤ گے جہاں بھی جگمگائے گا
تمہی جو جاگ جاؤ گے تو کون سونے پائے گا
بلا رہی ہیں منزلیں تمہار ا انتظار ہے
قدم بڑھاؤ ساتھیو یہ وقت کی پکار ہے
تمہیں کو ڈ ھونڈتے ہیں اب اندھیرے بھی اجالے بھی
تمہاری جستجو میں مسجدیں بھی ہیں شوالے بھی
تمہاری ہی تلاش میں ہیں ذرے بھی ہمالے بھی
بلا رہی ہیں منزلیں تمہارا انتظار ہے
قدم بڑھاؤ ساتھیو یہ وقت کی پکار ہے
صحافتی خدمات: ڈاکٹر حامد الانصاری انجم صحافت میں مولانا ابوالکلام آزاد کے قلم اور فکر کے شیدائی ہیں اسی لئے جب اپنا پہلا جریدہ شروع کیا تو اس کا نام مولانا آزاد کے پہلے اخبار’’الہلال‘‘ کے نام پر رکھا یہ الگ بات ہے کہ وہ زیادہ دنوں تک نہیں چل سکا مولانا آزاد کا الہلال جہاں انگریزوں کے ظلم و جبر کی وجہ سے بند ہو گیا وہیں ڈاکٹر انجم کا الہلال اقتصادی مسائل اور مالی دشواریوں کو برداشت نہیں کرسکا اور بالآخر اس نے بھی جلد ہی اپنی آخری سانس پوری کرلی اس کے بعد انھوں نے دو ماہی خبر نامہ جاری کیا وہ بھی چند سال نکلنے کے بعد بند ہو گیا ۔ ایک تیسرا رسالہ بھی جاری کیا گیا جس کا نام المؤتمر تھا مگر وہ بھی اس جہاں رنگ و بو میں زیادہ دنوں تک اپنی خوشبو نہیں بکھیر سکا اور اسے بھی الہلال اور خبرنامہ کے حشر سے دو چار ہونا پڑا۔
تصنیف و تالیف: ڈاکٹرحامد الانصاری انجم صاحب نے درج کتب لکھیں اور عوام و خواص میں بڑی مقبول ہوئیں:
۱۔ چراغ حرم ۲۔ منار حرم
۳۔ وقت کی پکار ۴۔ بچوں کے نغمے
۵۔ نغمہ زار انجم ۶۔ نعت کے پھول
۷۔ لا ہوتی نغمے ۸۔ اسلامی ترانے
۹۔ بربط انجم ۱۰۔ مدح صحابہ
۱۱۔ آئینہ بدعت
سہیل انجم
ذاکر نگر جامعہ نگر نئی دہلی
ٔٔٔ٭٭٭
مولانا عابد علی مدنی رحمہٗ اﷲ
(تاریخ وفات: ۷؍مارچ ۲۰۱۳ء)
مولانا عابد علی بن عبداﷲ سمرہن خورد، پوسٹ مجہنی ضلع بلرام پور یوپی کے رہنے والے تھے وہ اپنے والدین کے اکلوتے لڑکے تھے ، ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ زینت العلوم سمرہن کلاں اور مدرسہ عربیہ قاسم العلوم گلرہا میں ہوئی اعدادیہ و متوسطہ(عربی چہارم تک) کی تعلیم جامعہ سراج العلوم بونڈیہار میں حاصل کی ۔ پھرجامعہ سلفیہ بنارس میں داخلہ لیا جہاں انھوں نے عالمیت و فضیلت کی تکمیل کی، اس کے بعد ان کا داخلہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ہو گیا، وہاں انھوں نے کلیۃ الحدیث میں کئی سال تعلیم حاصل کی، اس کے بعد ہندوستان آگئے۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ مولانا عابد علی مدنی کی تعلیم و تربیت میں جناب عبدالغفار رحمہ اﷲ ساکن گلرہا کا بڑا دخل رہا ہے، مولانا کو تا حیات اس کا احساس رہا ،یہی وجہ ہے کہ جناب عبدالغفار رحمہ اﷲ سے ان کے گھر یلو تعلقات رہے۔ ان کے لڑکے جناب عبدالرحمن صاحب ہیرو ہانڈا ایجنسی والے بھی تا حیات ان کا خیال رکھتے رہے۔ فجزاہما اﷲ احسن الجزاء
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت کے بعد مولانا کا تعاقد علیٰ حساب الشیخ سعودیہ عربیہ سے ہو گیا، ہندوستان میں مولانا ایک مدت تک جامعہ عربیہ قاسم العلوم گلرہا میں عقیدہ و حدیث کا درس دیتے رہے اور علاقہ میں دعوت و تبلیغ کے فرائض بھی انجام دیتے رہے، اس دوران مولانا اپنے آبائی وطن سمرہن خورد سے منتقل ہو کر کواپور بازار میں آباد ہو گئے جہاں انھوں نے ایک مکان تعمیر کیا۔
بعد میں تعاقد علی حساب الشیخ ختم ہو گیا، مولانا معاشی پریشانی میں پڑ گئے، پھر اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے کلیۃ الطیبات ڈومریا گنج ، سدھارتھ نگر میں مدرس ہو گئے، اور تقریباً آٹھ سال تک وہاں عقیدہ و حدیث کا درس دیتے رہے، کلیۃ الطیبات سے مولانا تادم حیات وابستہ رہے…… کلیۃ الطیبات ڈومریا گنج سے قبل ایک سال یا دو سال مولانا نے جامعہ سراج العلوم بونڈیہار میں بھی تدریس کے فرائض انجام دئیے، جہاں وہ ایک اچھے مدرس کی حیثیت سے جانے جاتے رہے۔
مولانا عابد علی مدنی رحمہ اﷲ جب کلیۃ الطیبات ڈومریا گنج میں مدرس ہوئے تو ادارہ کے ناظم جناب ڈاکٹر عبدالباری خاں صاحب نے ان کی بڑی قدر کی، اور ان کو بہترین فیملی کواٹرس دئیے، جہاں وہ اہل و عیال کے ساتھ تا دم حیات آباد رہے، ان کے اہل و عیال کے ساتھ بھی ڈاکٹر صاحب بڑی خیر سگالی کرتے رہے، فجزاہ اﷲ احسن الجزاء
مولانا ایک طویل عرصہ سے شوگر کے مریض رہے، آخر میں اس موذی مرض نے انھیں لاغرکردیا، ہمیشہ علاج کراتے رہے، جب حالت زیادہ خراب ہو گئی، تو ان کے اعزہ واقارب میں جناب عبدالحئی صاحب(رکن ضلع پریشدبلرام پور) اور عبدالہادی وغیرہ انھیں لکھنؤ میڈیکل کالج لے گئے، مگر ایڈمٹ ہونے سے پہلے ہی بتاریخ ۷؍ مارچ ۲۰۱۳ء وفات پا گئے، دوسرے روز بعد نماز جمعہ ان کی نماز جنازہ جناب مولانا محمد مصطفی قاسمی صاحب جے نگرا کی امامت میں ہوئی کئی ہزار لوگوں نے جنازہ میں شرکت کی، اور کواپور بازار کے قبرستان میں مدفون ہوئے، سقی اﷲ ثراہ وجعل الجنۃ مثواہ۔
وفات کے وقت مولانا عابد علی مدنی رحمہ اﷲ کی عمر تقریباً ۵۵ سال تھی وہ راقم الحروف(ابوالعاص وحیدی) سے سات سال چھوٹے تھے ، ان سے میرے اچھے تعلقات تھے، وہ بڑے متواضع ، ملنسار،خوش اخلاق اور مہمان نواز تھے، اہل علم میں ہر دلعزیز اور معتبر تھے ، عقیدہ و عمل اور وضع و قطع میں متبع سنت اور جادۂ سلف کے شیدائی تھے انھوں نے تا دم حیات عقیدہ و حدیث کے مدرس اور مخلص داعی کے فرائض انجام دئیے، اس طرح یقیناً وہ کاروان سلف کے اہم فرد تھے ، اﷲ تعالیٰ ان کی لغزشیں معاف کرے، ان کی نیکیاں قبول فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔(آمین)
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
ابوالعاص وحیدی
استاذ جامعہ اسلامیہ دریا آباد
سنت کبیر نگر یوپی
۱۰؍۱؍ ۲۰۱۴ء
٭٭٭
حاجی عبدالرشید (حاجی ظہیرخاں) بجوا کلاں
(تاریخ وفات: ۲۸؍جولائی ۲۰۱۳ء)
ع مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے
حاجی عبدالرشید صاحب بجوا کلاں پچپڑوا بلرام پور یوپی مورخہ ۲۸؍جولائی ۲۰۱۳ء صبح سوا آٹھ بجے آئی کون جانکی پورم اسپتال لکھنؤ میں وفات پا گئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون
یہ خبر بجلی بن کر گری تھوڑی دیر کیلئے سکتہ کے عالم میں رہا ان کا سراپا نظروں کے سامنے آگیا لمبا قد اوسط بدن چہرے پر داڑھی رفتار میں تیزی سراپا حرکت و نشاط عزم و ارادہ کے دھنی معاملہ فہم باوقار گفتگو میں دینی چاشنی سنجیدہ باوقار اور زندگی کے تجربہ کار یہ ہے حاجی ظہیر خاں کی شخصیت اور ان کے اوصاف و خصوصیات کی ہلکی تصویر جنھوں نے عمر کے ۶۵ برس گذارے۔اﷲ کی مشیت کہ اس نے اپنی امانت واپس لے لی تو کسی کو کیا شکوہ و گلہ یہ قانون قدرت ہے موت برحق ہے اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ اذا جاء اجلہم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون ﴾ (القرآن) یعنی جب موت کا وقت آجاتا ہے نہ ہی ایک ساعت پیچھے ہوتا ہے اور نہ ہی ایک ساعت آگے۔
انسان خواہ کیسا ہی نادان ہو اور بے وقوف کیوں نہ ہو لیکن موت کا یقین اس سے علےٰحدہ نہیں ہو سکتا موت کا سیاہ بادل جو اس پر آنے والا ہے اس کے فاصلے کے حساب اور میعاد نزول میں خواہ وہ غلطی کرے مگر اس کو یقین کامل ہے کہ وہ میرے سر پر ضرور آئے گا خواہ کیسا ہی زبردست پہلوان طات و قوت والا اور جوان عمر ہو مگر موت کے پنجے میں ضرور گرفتار ہوگا قضاء و قدر نے جو موت کا فتویٰ دیدیا وہ کسی طرح نہیں ٹل سکتا لوگ موت کی یہ شکایت ناحق کرتے ہیں کہ اچانک ناگہانی دفعۃً ہمارے پاس آجاتی ہے حالانکہ موت سب جگہ موجود ہے وہ تو ہمیشہ اپنے آنے کی خبر دیتی رہتی ہے ہر شخص جانتا ہے کہ میں مروں گا ہم روزانہ بلکہ ہر وقت اپنی آنکھوں سے امیر و غریب بادشاہ و رعایا ، مالک و غلام ، مرد و عورت ، بچے اور بوڑھے ، تندرست و بیماروں کو مرتے دیکھتے ہیں لیکن پھر بھی غفلت اس قدر اور اعمال ایسے ہیں کہ گویا ہم موت کو بھول بیٹھے ہیں یہ حقیقت ہے کہ اﷲ کی ذات کے علاوہ ہر ذی نفس مخلوق کو موت کا مزہ چکھنا ہے نبی، رسول، ولی، رشی، منی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں جو آیا ہے اسے ایک دن واپس اپنے خالق حقیقی کے پاس لوٹ کر جانا ہے مگر وہ لوگ ہمیشہ یاد آئیں گے جو خوف خدا، فکر آخرت ،خلق خدا کی خدمت ، حق کی تبلیغ اور صحت مندانہ معاشرہ کیلئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں موت و حیات کی یاد رکھنے والے دوسروں کیلئے مثال اور نمونہ بن جاتے ہیں ہر انسان کو اپنی موت اور قبر کی زندگی ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے جہاں اولاد اعزہ اقرباء کی ہمدردی و غم خواری ساتھ نہیں دے سکتی اور اس گوشۂ تنہائی میں رفاقت و انسیت کیلئے اعمال صالحہ کی فکر ہونی چائیے ۔ سچ ہے اولاد احباب و رفقاء زبان حال سے یہ کہکر واپس ہو جائیں گے۔
لحد تک آپ کی تعظیم کردی
اب آگے آپ کے اعمال جانیں
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو قبر کی اچھی زندگی کی تیاری کی توفیق مرحمت فرما آمین ۔
حاجی ظہیر صاحب کے والدمحترم کا اسم گرامی حاجی عبدالمنان اور دادا کا نام حاجی محمداسحق تھا آپ کا گھرانہ دیندار ،معزز اور بااثر گھرانہ ہے حاجی ظہیر صاحب اپنے والد محترم اور دادا کے صحیح جانشین تھے حاجی صاحب کےے گھر کے افراد وخاندان احکام شریعت کے پابند غریبوں یتیموں ،معذوروں کے مسیحا ہیں حاجی عبدالمنان کو جس طرح اﷲ تعالیٰ نے مال و دولت سے نواز رکھا تھا دینی،ملی،جماعتی،سماجی کاموں میں دل کھول کر حصہ لیتے تھے اﷲ تعالیٰ نے حاجی عبدالمنان صاحب کو پانچ لڑکوں سے نوازا ہے پہلی محل سے حاجی عبدالرحمن صاحب اور ماسٹر عبدالمعبود خاں تھے دوسری محل سے ہمارے حاجی ظہیر خاں تھے یہ تینوں بھائی اﷲ کو پیارے ہو چکے ہیں تیسری محل سے محمد عمر عرف لالہ پردھان اور شکیل احمد خاں ایڈیشنل ایس پی ہیں جو اس وقت امروہہ میں تعینات ہیں یہ دونوں بھائی حیات ہیں اﷲ تعالیٰ ان دونوں بھائیوں کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور دینی خدمت کی توفیق سے نوازتا رہے آمین۔
حاجی عبدالمنان صاحب کے بڑے لڑکے حاجی عبدالرحمن صاحب نیک صالح دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے حاجی عبدالرحمن صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ریلوے اسٹیشن ترلوک پور سے متصل دکھن اور پچھم جانب بڑھنی اور پچپڑوا مین روڈ پر لب سڑک ایک قطعہ زمین خرید کر ایک مسجد کی اپنے ہاتھوں بنیاد رکھی اور اس مسجد کی تعمیر کی تکمیل ۱۹۷۵ء میں کرائی ماشاء اﷲ اس وقت سے مسجد میں پنجوقتہ باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کا اہتمام ہے مسجد کے آس پاس لوگوں اور مسافروں کیلئے بڑی سہولت ہو گئی ہے حاجی عبدالرحمن صاحب نے یہ کار خیر انجام دے کر جنت میں اپنے گھر کا انتظام کرلیا ہے مساجد کی تعمیر اﷲ کی رضا مندی اور جنت کے ان محلات کو پانے کا ایک بہت ذریعہ ہے چنانچہ حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے :
’’ من بنیٰ مسجداً ﷲ تعالیٰ ینبغی بہ وجہ اﷲ بنیٰ اﷲ لہ بیتاً فی الجنۃ ‘‘ (بخاری ۴۵۰ مسلم ۵۴۴) یعنی جو شخص اﷲ کی خوشنودی کی خاطر ایک مسجد کی تعمیر کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس شخص کیلئے جنت میں ایک گھر بناتا ہے ۔
حاجی عبدالرحمن صاحب ایک طویل علالت کے بعد ۲۰۰۳ء میں وفات پا گئے اور بجوا کلاں کے اپنے آبائی قبرستان میں مدفون ہیں۔
حاجی عبد المنان صاحب کے دوسرے لڑکے ماسٹر عبدالمعبود صاحب تھے لکھنؤ میں ذاتی مکان بنا کر یہیں مستقل رہائش پذیر ہو گئے تھے۲۰۰۶ء میں لکھنؤ میں وفات پائی اوریہیں مدفون ہیں ۔
حاجی عبدالمنان صاحب کے تیسرے لڑکے حاجی عبدالرشید صاحب تھے جنکا اس مضمون میں ذکر خیر مقصد ہے حاجی عبدالرشید کا سانحہ میرا ذاتی حادثہ ہے نا چیز کے دیرینہ مخلصانہ اور خوشگوار تعلقات تھے اکثرو بیشتر دینی مسائل دریافت کرتے تھے اور برابر موبائل کے ذریعہ خیریت کا تبادلہ ہوا کرتا تھا یکم رمضان المبارک ۱۴۳۳ھ کو جب میری کتاب ’’کاروان سلف حصہ اول‘‘ نظر سے گذری تو فون پر مسرت کا اظہار کیا اور مبارک باددی اور اس کتاب کے دوسرے حصہ کیلئے مفید مشوروں سے نوازا۔ آہ! کسے معلوم تھا کہ جس حصہ کیلئے مشورہ سے نوازا جارہا ہے اس میں میرا بھی ذکر خیر آئے گا۔ یہ سطریں لکھتے وقت آنکھیں اشکبار دل مغموم ،قلم کانپ رہا ہے کہ دین کا سپاہی ہمارے بیچ نہ رہا ’’ ان العین تدمع والقلب یحزن ولانقول الا مایرضٰی ربنا بفراقک لمحزونون‘‘
اﷲ نے حاجی ظہیر خاں کو چار لڑکوں اور چھ لڑکیوں سے نوازا ہے ہارون رشید۔ مامون رشید۔ ارسلان رشید ۔ عدنان رشید (واضح رہے حاجی ظہیر خاں مفسر قرآن مولانا عبدالقیوم رحمانی رحمہ اﷲ کے داماد تھے اور سب سے زیادہ عزیز تھے) عزیزم ہارون رشید سلمہ اپنے والد محترم کے صحیح جانشین ہیں۔
یہ چاروں لڑکے سنجیدہ با اخلاق نیک تعلیم یافتہ ہیں اﷲ تعالیٰ ان یتیم بچوں کو صبر و استقامت عطا فرما۔ انکی نگہبانی فرما اور ان کو نیک بنا اور ان کی عمر میں برکت عطا فرما۔ آمین
حاجی عبدالمنان صاحب کے چوتھے لڑکے محمد عمر عرف لالہ کو اﷲ تعالیٰ نے پانچ لڑکوں اور تین لڑکیوں سے نوازا ہے حاجی صاحب کے پانچویں لڑکے شکیل احمد ایڈیشنل ایس پی کو اﷲ تعالیٰ نے دو لڑکوں سے نوازا ہے کچھ بچوں کا تعلیمی سفر جاری ہے اور کچھ تعلیم سے فارغ ہو چکے ہیں ۔
اﷲ تعالیٰ کی اس خاندان پر ہمیشہ برکت و رحمت رہی ہے نیک گھرانے کے نیک لوگ ہیں ان لوگوں نے ہمیشہ دنیا کے مقابلہ میں دینداری کو ترجیح دی ہے صحیح العقیدہ مسلمان ہیں منہج سلف پر تمسک اور مسلک اہل حدیث پر استقلال ان کا بڑا نمایاں وصف ہے۔
الحاج ظہیر خاں سید ھے سادھے انسان تھے غریبوں ، مجبوروں کا خیال رکھتے تھے مریضوں کی عیادت کرتے تکلیف پر صبر کی تلقین کرتے خدا ترس ،خلیق ملنسار مہمان نواز تھے کسی سے مرعوب ہونا اور کسی کے سامنے جھکنا ان کی خاندانی روایت اور ذاتی فطرت کے خلاف تھا وہ وقار سے رہتے تھے اور اپنے مقام و مرتبے کو ملحوظ رکھتے تھے علم اور علماء کے قدر دان اخلاق کے اعلیٰ نمونہ تھے ان کا دل خدمت دین کے جذبہ سے بھر پور تھا یہی ان کی زندگی کا مقصد تھا۔
حاجی عبدالرشید (حاجی ظہیر) کے اندر سب سے خاص بات یہ تھی کہ آپ کے ہر کام میں خلوص کار فرما ہوتا توکل علی اﷲ آپ کا اصلی وصف تھا احکام شریعت کے پابند ﷲیت و خشیت راست بازی میں اپنی مثال آپ تھے اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ کردار کے لحاظ سے آپ اپنا جواب نہیں رکھتے تھے سادگی تواضع انکساری ضبط و تحمل خلوص ووفا اسلامی و مسلکی غیرت جیسے صفات آپکے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ ہمسایوں پڑوسیوں رشتہ داروں گھر کے باہمی افراد کے حقوق کی پاسداری کرنا اپنا فریضہ سمجھتے تھے۔
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس دنیائے فانی میں فلسفۂ حیات سے واقف ہیں اور اپنی حیات مستعار کے ایک ایک لمحہ کی قدر و حفاظت کرتے ہیں نیکی اور اخلاص اور صوابدید پر معاملات کی رفع دفع کرتے ہیں سماجی برائیوں کے خلاف سخت رویہ اپناتے ہیں حاجی صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے خوب نوازا تھا انھوں نے اپنے پیچھے خوش حال کنبہ چھوڑا ہے اﷲ تعالیٰ آپ کے لڑکے لڑکیوں پوتوں پوتیوں نواسی نواسیوں کو نیک بنائے تاکہ وہ اپنے والدین کیلئے صدقۂ جاریہ بن سکیں۔
وفات: یوں تو روزانہ بلکہ ہر لمحہ موت کا سلسلہ جاری ہے حاجی صاحب کا وقت اجل آپہونچا اور مورخہ ۲۸؍ جولائی ۲۰۱۳ء صبح سوا آٹھ بجے سفر آخرت پر روانہ ہو گئے ۔ حاجی صاحب سے اخوان جماعت کو اس قدر محبت و عقیدت تھی کہ پورا علاقہ نماز جنازہ میں شرکت کیلئے امنڈ پڑا غیر مسلم بھی اچھی خاصی تعداد میں شریک تھے ایک اندازہ کے مطابق کئی ہزار کا مجمع جنازہ میں شریک تھا ۲۹؍ جولائی ۲۰۱۳ء صبح سوا آٹھ بجے فضیلۃ الشیخ مختار احمد مدنی حفظہ اﷲ استاذ جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی اس تھکا ماندہ مسافر نے ۶۵ سال کی عمر میں جہاں فانی کو خیر آباد کہا اور عالم جاودانی کو راہ لی اور ۲۹؍جولائی ۲۰۱۳ء کو سر زمین بجوا کلاں نے آپ کے جسد خاکی کو بدرجہ غایت و مسرت کے ساتھ اپنی آغوش میں لے لیا ۔ اﷲ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے۔ آمین
اﷲ تعالیٰ ان کی اولاد و احفاد کو نیک اور صالح بنائے اپنے دین کی خدمت اور اپنے والد محترم کے نیک کاموں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اﷲم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ
غمزدہ
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور ۔ بلرام پور یوپی
یکم اگست ۲۰۱۳ء
ترجمان سلفیان ہند اب خاموش ہے
علامہ عبد الحمید رحمانی رحمہٗ اﷲ
(تاریخ وفات: ۲۰؍اگست ۲۰۱۳ء)
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدور پیدا
افسوس کہ رحمانی صاحب چلے گئے ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون علامہ عبدالحمید رحمانی بن عبدالجبار موضع تندوا میں اپریل۱۹۴۳ء ضلع سدھارتھ نگر یوپی میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ بحرالعلوم انتری بازار اور شمس العلوم سمرا سدھارتھ نگر اور جامعہ سراج العلوم بونڈھیار ضلع بلرام پور یوپی جامعہ فیض عام مؤ وغیرہ حاصل کی عربی کی اعلیٰ تعلیم کیلئے جامعہ رحمانیہ بنارس میں داخلہ لیا ممتاز نمبرات سے سند فراغت حاصل کی ہندوستان کے اساتذہ میں جامع معقول و منقول علامہ نذیر احمد رحمانی رحمہ اﷲ ،مولانا محمد احمد ناظم ، مولانا آزاد رحمانی ، مولانا محمد زماں رحمانی ، مولانا محمد اقبال رحمانی مولانا عبدالمبین منظر ، مولانا عبدالمعید بنارسی ، مولانا محمد یوسف رحمانی ، مولانا عزیز احمد ندوی ، مولانا عبدالوحید رحمانی شیخ الجامعہ اور مولانا محمد بشیر رحمانی کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے شیوخ میں فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی، فضیلۃ الشیخ عبدالمحسن العباد، فضیلۃ الشیخ عبدالغفار حسن رحمانی ،فضیلۃ الشیخ عبدالرؤف البدی، فضیلۃ الشیخ نور الدین عتر الشامی، فضیلۃ الشیخ ممدوح فخری، فضیلۃ الشیخ حماد الانصاری اور فضیلۃ الشیخ رمضان مصری کے اسماء قابل ذکر ہیں ۔
آپ جامعہ رحمانیہ بنارس میں ۱۹۶۱ء جماعت سابعہ میں داخل ہوئے اور جنوری ۱۹۶۳ء میں سند فراغت حاصل کی جامعہ رحمانیہ بنارس سے فراغت کے بعد اپنے مادر علمی جامعہ رحمانیہ ہی سے تدریس کا آغاز فرمایا اور چار سال تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ۱۹۶۶ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے اور بی اے کا چار سالہ کورس کلیۃ الدعوۃ سے ۱۹۷۰ء میں مکمل کیا وطن واپس آنے کے بعد جامعہ سلفیہ بنارس میں ۱۹۷۱ء میں تدریس کا آغاز کیا دو سال تک تدریسی خدمات انجام دئیے ۱۹۷۱ء سے ۱۹۱۷۲ء تک بنارس میں تدریسی خدمت کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند کی نظامت اور مرکزی جمعیۃ کے آرگن ترجمان کی ادارت بھی سنبھالتے رہے پھر مستقل طور پر دہلی منتقل ہو گئے۔ ۱۹۷۱ء تا ۱۹۷۴ء آپ مرکزی جمعیۃ کے ناظم اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے اپنے دور نظامت میں دعوت وتبلیغ کو عام کرنے اور افراد جماعت کو باہم منظم اور مربوط کرنے کیلئے ملک گیر پیمانے پر طوفانی دورے کئے ترجمان کے علمی تحقیقی اور صحافتی معیار کو چار چاند لگا دئیے اس دوران بے شمار علمی و تحقیقی مقالے لکھے اور مسلم پرسنل لاء نمبرحج نمبر نکالا جس کو اہل علم نے کافی سراہا۔
مرکزی جمعیۃ کی نظامت سے مستعفی ہو نے کے بعد رمضان المبارک ۱۴۰۰ھ میں دہلی کے اندر اوکھلا میں ابوالکلام آزاد اسلامک اویکنگ سنٹر کی بنیاد رکھی جس کے زیر نگرانی تعلیمی ادارہ معہد التعلیم الاسلامی بہت مشہور ہوا مرکزنے بہت ہی قلیل مدت میں ترقی کی منازل طے کیں اور وسیع و عریض آراضی پر عالیشان پرشکوہ عمارتیں تعمیر کرائی پھر یہ قافلہ دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کی منزل کی جانب رواں دواں ہو گیا اور درجنوں دعوتی و تعلیمی ادارے یکے بعد دیگرے قائم ہوتے چلے گئے چنانچہ بچیوں کی تعلیم کیلئے کلیۃ عائشہ برائے دینی تعلیم اور خدیجۃ الکبریٰ برائے عصری تعلیم طلبہ کیلئے جامعہ اسلامیہ سنابل تصنیف وتالیف کیلئے ادارۃ البحوث الاسلامیہ مطالعہ کیلئے ایک شایان شان لائبریری اور حفظ و تجوید قرآن کیلئے معہد عثمان بن عفان جیسے درجنوں ادارے نہ صرف دہلی میں بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں معرض وجود میں آکر حرکت و نشاط کی مثال بن گئے رحمانی صاحب مختلف اوقات میں ملک اور بیرون ملک کے تنظیمی و تعلیمی کئی اداروں کے باوقار منصب پر فائز رہے غرض یہ کہ ہمہ گیر اوصاف کی حامل شخصیت تھی ملک کے مشہور صحافی اور عظیم شاعر علامہ عبدالقدوس اطہر نقوی حفظہ اﷲ نے کتنی سچی ترجمانی کی ہے
تھی وہ کیسی سموم طوفانی بُجھ گیا اک چراغ ربّانی
پیکر دلنواز علم و عمل شیخ عبدالحمید رحمانی
یہ سنابل ہے یادگار اس کی ہے وراثت یہ اس کی لا ثانی
اس کے جانے سے چھا گئی ہرسو باغ دانش میں کیسی ویرانی
ہے یقین اس کی روح شاداں ہے
زیر دامانی ظل رحمانی
اﷲ تعالیٰ نے علامہ رحمانی کو جو صلاحیتیں ودیعت کی تھیں اور جن کا ان کوخود بھی احساس تھا اور مختلف مواقع پر اپنے زبان و قلم سے اظہار بھی کیا ہے اگر ان کو فرصت ملتی تو علم و ادب کے خزانہ میں معلوم نہیں کتنا اضافہ ہوگیا ہوتا لیکن اس کے باوجود جو کچھ بھی موجود ہے ان کی علمی تاریخی تحقیقی عظمت کیلئے کافی ہے جریدہ ترجمان دہلی کی جلدیں مسلم پرسنل لاء نمبر ان کے علمی تاریخی تحقیقی مسلکی خطبات اور ان کے مختلف مواقع پر لکھے گئے مضامین جو ماہنامہ التوعیہ اور ماہنامہ التبیان وغیرہ میں شائع ہوئے ہیں اور بعض اردو و عربی کتابوں پر ان کے مقدمات وغیرہ کو دنیا کیسے فراموش کر سکتی ہے ۔ رحمانی صاحب کی وسعت علم، وسعت نظر ، وسعت معلومات، اورکمال تحقیق اور انکی حاضر جوابی ، حاضر دماغی ، بذلہ سنجی، نکتہ آفرینی، ذہانت ، استحضار علم پر سبھی حیران و ششدر تھے ذہانت کا یہ عالم کہ متکلم کے لب ابھی ہلے تک نہیں کہ بات کی تہہ تک پہونچ گئے جس مجلس میں پہونچے چھا گئے جس شخص سے مخاطب ہوئے مرعوب کردیا ۔
رحمانی صاحب توحید خالص کے داعی اور صحیح عقیدہ کے ناشر اور کتاب و سنت کے ہمہ وقتی مبلغ تھے رحمانی صاحب ایک نام نہیں بلکہ ایک ادارہ تھے وہ محی السنۃ و قامع البدعۃ تھے شرک وبدعت کے خلاف ایک طوفان بلا خیز تھے ایک آندھی تھے ایک زلزلہ تھے آپ نوجوانان امت مسلمہ کی منہج سلف صالح کی طرف رہنمائی کرتے تھے رحمانی صاحب دریا کے موج کی طرح متحرک سکون و قرار سے ناآشنا ہر وقت مصروف عمل ہمہ وقت رواں دواں آپ کی موت تنہا ایک آدمی کی موت نہیں ہے پوری قوم کی موت ہے ہر شخص ان کی جدائی سے مغموم و رنجیدہ ہے موت کے علاوہ اور کوئی مصیبت ہوتی تو اس کا گلہ اور چارہ سازی بھی ہوتی موت پر کیا گلہ کل من علیہا فان
ع شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے
رحمانی صاحب محقق دانشور صاحب علم و فضل اور متبحر عالم دین تھے آپ کی تحریروں میں طنز و مزاح کا بڑا حسین امتزاج پایا جاتا ہے ان کے طنز میں شوخی بھی ہے اور سنجیدگی بھی ہے مفکرانہ بصیرت بھی ہے اور گہری تنقید بھی ہے ان کی تحریر یں سنجیدگی اور متانت سے ایک لمحہ کیلئے بھی دامن کش نہیں ہوتیں ان کے طرز تحریر میں ہر جگہ ان کا عالمانہ وقار قائم ہے جماعتی و مسلکی غیرت بدرجہ اتم موجود ہے ۔ کتاب و سنت اور منہج سلف کے خلاف اگر کوئی مضمون شائع ہوتا تو اس کا کتاب وسنت کی روشنی میں دندان شکن جواب دیتے یہی وجہ ہے کہ آپ نے زبان و قلم سے خالص دین کے دفاع اور اسلام کے دشمنوں کا تعاقب کرتے رہے اپنی تحریر اور خطابت سے اسلام کے دشمنوں کے دانت کھٹے کردیئے سناتن دھرمیوں اور آریہ سماجیوں ، قادیانیوں ، شیعوں اور بدعتیوں کے بخئے اکھیڑ دئیے منکرین حدیث اور اباحیت پسندوں ملحدین اور زندیقوں سے پنجہ آزمائی کرتے رہے۔
ناچیز کے رحمانی صاحب سے دیرینہ اور مضبوط تعلقات تھے مرکز ابوالکلام آزاد کے قیام کے وقت جب مشرقی یوپی کے مخصوص اضلاع کے دورے کا پروگرام بنا تو رحمانی صاحب کے ساتھ پچیس دن لگ بھگ دورے پر رہا ،وہ اضلاع یہ ہیں : بلرام پور ، گونڈہ، سدھارتھ نگر ،بستی، گورکھپور بیماری کی حالت میں بھی موبائل پر گفتگو ہوتی رہتی تھی خاکسار نے جب مشرقی یوپی کے ممتاز علمائے اہل حدیث کی حیات و خدمات پر کتاب لکھنے کا اردادہ کیا اور اس منصوبہ سے آگاہ کیا تو آپ نے مسرت کا اظہا فرمایا اور حوصلہ افزا کلمات مفید مشوروں اور دعاؤں سے نوازا ۔ کاروان سلف حصہ اول منظر عام پر آچکا ہے اور دوسرا حصہ زیر طبع ہے ، علامہ رحمانی کا جامع معقول و منقول مولانا نذیر احمد رحمانی رحمہ اﷲ کی حیات و خدمات پر ایک جامع و معلوماتی مضمون جو ماہنامہ التوعیہ دہلی شمارہ اپریل ۱۹۹۵ءمیں شائع ہوا ہے علامہ کی نشاندہی پر ناچیز کی کتاب کاروان سلف حصہ اول میں شامل اشاعت ہے۔
رحمانی صاحب کی صحبت کی حسین یادیں اور ان کی علمی مجالس کی خوشبو ان کے طوفانی کام سفر و حضر کے مجاہدانہ معمولات و سرگرمیاں اساتذہ و طلبہ وملازمین کے ساتھ عنایات کریمانہ و برتاؤ اور کبھی کبھی انداز قاہرانہ کے جلوے انکا اخلاق ان کی تعلیم و تربیت ان کا نظم و انصرام ادارت و قیادت ، دانش و بینش انکا علم و فضل ان کا ورع و تقویٰ ان کی شرافت و نجابت معاملہ فہمی دور اندیشی حق گوئی و بے باکی اور انکی حق کی غیرت و حمیت ان کی اردو عربی میں خطابت کے جلوے یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ رہ رہ کر کسی نہ کسی تعلق سے ان کی یادیں ذہن میں تازہ ہوتی رہیں گی ، ان کی دلاویز شخصیت ان کا مسکراتا نورانی چہرہ نگاہوں کے سامنے اپنے سراپا کے ساتھ ایسا جلوہ گر ہوتا رہے گا گویا وہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔
رحمانی صاحب علمی خوبیوں کے ساتھ نہایت محبوب شخصیت رکھتے تھے جن سے ایک مرتبہ ملے اسے ہمیشہ کیلئے گرویدہ بنا لیا آخری دفعہ رحمانی صاحب سے موضع دودھونیاں مفسر قرآن مولانا عبدالقیوم رحمانی صاحب کی نماز جنازہ کے موقع پر ملاقات ہوئی تھی (آپ ہی کی امامت میں نماز جنازہ بھی پڑھی گئی تھی) کتنا خلوص کتنی اپنائیت اور کس درجہ تواضع وانکساری کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ اﷲ اﷲ اب یہ مواقع کہاں ملیں گے، رحمانی صاحب کی زندگی کا ہر پہلو تابناک ہر گوشہ نیر تاباں مگر اپنوں کی اپنائیت کیا کہئے کہ عظمت کے اس پیکر کے اس مجسم کو چین سے بیٹھنے نہ دیا حوالات میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں تاہم انھوں نے صبر و حوصلہ کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیا ، مولانا رحمانی کی وفات کسی ملت و جماعت کا نہیں بلکہ عالم اسلام کا عظیم خسارہ ہے پوری ملت اسلامیہ اس غم میں برابر شریک ہے یہ ایک ایسا خلاء ہے جس کی بھر پائی کی راہیں بظاہر نظر نہیں آتیں ۔ شاعر نے کیا ہی سچ کہا ہے ۔
قیس سا پھر نہ اٹھا کوئی بنی عامر میں فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص
آپ کی صلاۃ جنازہ دو جگہ ادا کی گئی جامع مسجد ابو بکر صدیق جوگا بائی جامع مسجد عمر بن الخطاب سنابل دونوں جگہوں پر آپ کی صلاۃ جنازہ کی امامت آپ کے صاحبزادے گرامی مولانا محمد رحمانی سنابلی حفظہ اﷲ تعالیٰ نے کی صلاۃ جنازہ کے بعد ۲۰؍اگست ۲۰۱۳ء بعد نماز عصر مشہور قبرستان بٹلہ ہاؤس جامعہ نگر نئی دہلی میں آپ کی تدفین عمل میں آئی ۔ تغمدہ اﷲ برحماتہ
رحمانی صاحب کی محبوب شخصیت کی شہادت اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ رحمانی صاحب کے جنازہ میں اتنا بڑا ہجوم تھا کہ شاید کسی بڑے دنیا دار کو نصیب نہ ہوگا حد نگاہ تک ہر چہار طرف آدمی آدمی نظر آتے تھے ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دہلی کی پوری آبادی کھینچ کر آگئی ہے یہ شاعری نہیں بلکہ واقعہ ہے۔ ممبئی، علی گڈھ،بنارس، لکھنؤ، وغیرممالک کے شیوخ (جہاں فلائٹ کی سہولت ہے) کے عقیدت مند ہوائی جہاز وں سے روتے اور بلکتے ہوئے علم و فضل کا ماتم کرتے ہوئے دہلی پہونچ گئے تھے۔ رحمانی صاحب کا یہ جنازہ دیکھنے کیلئے جو ہجوم دہلی کی سڑکوں پر ابل پڑا تھا اس میں تماشائی بھی تھے اور دانشور اور اہل نظر بھی تھے یہ ہجوم بذات خود ایک شاندار و باوقار زندگی کی تکمیل ایک پُر شکوہ تتمہ داستان کا ایک المیہ کا وہ آخری سین تھا دہلی کی سرزمین نے بہت سے جنازوں کا منظر بھی دیکھا ہے مگر ملک کی آزادی کے بعد امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کے جنازہ کے علاوہ ایسا ماتمی جلوس شاید اس نے کبھی دیکھا ہو۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ کا ارشاد کس قدر صحیح ہے ۔ الفرق بیننا و بینہم یوم الصلٰوۃ ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے درمیان جو فرق ہے اس کا پتہ جنازے کی نماز میں شرکت کی تعداد ہے ۔
علامہ رحمانی نے علم و تحقیق، تعلیم و تربیت کا جو درخت لگایا ہے اﷲ تعالیٰ اس کو ہمیشہ ہمیش قائم و دائم رکھے۔ مرکز اور اس کے تمام اداروں کو روز افزوں ترقی دے۔ آمین
پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
افسوس وہ مرد مجاہد اپنے دور کی تمام حریف طاقتوں سے عمر بھر پنجہ آزما رہا کبھی کسی کے سامنے مات نہ کھائی اور کسی کے سامنے ایک لمحہ کیلئے سرنگوں نہ ہوا لیکن حضرت عزرائیل کے مقابلہ میں سکشت کھا گیا اور فرشتہ اجل نے موت کا پیغام دیا تو سر جھکا دیا اس عالی مرتبت شخص کی کتاب حیات کا آخری ورق بتاریخ ۲۰؍اگست ۲۰۱۳ء بروز منگل ختم ہو گیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
اﷲ تعالیٰ اسلامی دعوت کے اس زبر دست مجاہد اور علم دین کے اس عظیم عالم پر رحمت کی بارش برسائے، ان کی لغزشوں کو در گذر فرمائے اور کشادہ جنت ان کا مسکن بنائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین
اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ و اکرم نزلہ ووسع مدخلہ
عبدالرؤف خاں ندویؔ
تلسی پور- بلرام پور
۱۴؍اکتوبر ۲۰۱۳ء
شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے
مولانا عبدالمجید مدنی رحمہٗ اﷲ اکرہرا
(تاریخ وفات: ۲۷؍نومبر ۲۰۱۳)
۲۷؍نومبر ۲۰۱۳ء بروز چہار شنبہ صبح ۹؍بجے جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر نیپال کا پورا ماحول اس وقت سوگوار ہو گیاجب یہ اندوہ ناک خبر کانوں سے ٹکرائی کہ حضرت مولانا عبدالمجیدصاحب مدنی نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون، آہ
زندگی انساں کی ہے مانند مرغ خوشنوا شاخ پر بیٹھا کوئی دم چہچہایا اڑ گیا
آہ! کیا آئے ریاض دہر میں ہم کیا گئے زندگی کی شاخ سے پھوٹے ، کھلے، مرجھا گئے
موت ہر شاہ و گدا کے خواب کی تعبیر ہے اس ستمگر کا ستم انصاف کی تصویر ہے
اس خبر وحشت اثر سے فوراً تعلیم بند کردی گئی، اساتذہ ،طلبہ ان کے گھر واقع بڑھنی کی طرف حیران و پریشان روانہ ہو گئے، میں بھی فوراً مولانا عبدالشکور صاحب مدنی کے ہمراہ ان کے گھر پہونچا جہاں کہرام مچا تھا اہل و عیال اشکوں کا سمندر بہا رہے تھے میں نے چادر ہٹا کر دیدار کیا، دل بے قابو ہوگیا آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے، ان کے اعضاء کو درست کرایا پھر خبر عام ہو گئی دیکھتے دیکھتے دیدار کرنے والوں کا ہجوم لگ گیا۔
موصوف کے متعلق یہ کھٹکا بھی دل میں نہ گذرا تھا کہ اس قدر جلد ہم لوگوں سے جدا ہو جائیں گے تندرست و توانا تھے، تعلیم دعوت،وعظ و خطابت اور خانگی امور کی انجام دہی حسب معمول جاری تھا، یکایک طبیعت بگڑی بر وقت علاج ہوا پھر مقامی ڈاکٹروں کے مشورے سے سہارا ہاسپٹل لکھنؤ جیسے معیاری و گراں اسپتال میں ایڈمٹ کرایا گیا، بعد تشخیص ڈاکٹروں نے بتلایا کہ گردے سے کریٹنی نامی مادہ نکل کر خون میں مل رہا ہے جس سے خون میں انفکشن ہو گیا، پورا ایک ہفتہ علاج جاری رہا لیکن
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
بالآخر وقت موعود آپہونچا اور بات کرتے یکایک روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ان کی نعش کو ان کے آبائی گاؤں اکرہرا لے جایا گیا جو بڑھنی سے ۸؍کلو میٹر دور جنوب میں واقع ہے، ان کی مقبولیت اور دلوں میں محبت ہی تھی کہ عوام و خواص کا ایک سیلاب امنڈ آیا، کہا جاتا ہے کہ پورے علاقہ میں ایسی بھیڑ کسی جنازے میں نہیں دیکھی گئی تھی، قرب و جوار کے تمام علماء کرام تو تھے نیپال کے مدارس مثلاً جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر کے تمام طلبہ و اساتذہ مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کرشنا نگر، کلیہ عائشہ صدیقہ جھنڈا نگر، مدرسہ ضیاء العلوم چنروٹہ، مدرسہ اصلاح المسلمین مہراج گنج، مرکز السنۃ ایکلا، جامعۃ التوحید بجوا، جامعہ فرقانیہ بھیسکنڈہ، مدرسہ مطلع العلوم ڈومرا،جامعہ محمدیہ بھیرہوا وغیرہ کے اساتذہ و ذمہ داران شریک جنازہ رہے اسی طرح ندوۃ السنۃ اٹوا، اتحاد ملت اٹوا، مدرسۃ التوحید مینا عیدگاہ، جامعہ خیرالعلوم ڈومریا گنج، کلیۃ الصفا ڈومریا گنج،ضلعی جمعیۃ بلرام پور (تلسی پور) و انجمن محمدیہ جروا روڈ تلسی پور،جامعہ سراج العلوم بونڈیہار، جامعہ اصلاحیہ کٹھیلا کے اساتذہ و ذمہ داراروں کی جزوی شرکت رہی۔
حسب اعلان شام چار بجے ناظم اعلیٰ جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر مولانا شمیم احمد ندوی؍حفظہ اﷲ کی امامت میں نماز جنازہ پڑھ کر آغوش لحد میں انھیں دفن کردیا گیا، اس طرح پورے ۳۵؍سال علم کا نور بکھیرنے والا کتاب وسنت کی تعلیم دینے والا، نئی نسل کی تربیت کرنے والا، توحید کا دلدادہ، سنت رسول کا سچا شیدائی اور مسلک سلف کا خادم اپنی تابانیوں کے ساتھ روپوش ہوگیا، مشام جاں کو معطر کرنے والا گلاب سوکھ گیا۔
مولانا عبدالمجید صاحب مدنی رحمہ اﷲ ایک صاحب بصیرت، بالغ نظر عالم تھے، علوم اسلامیہ میں سے تفسیر ،حدیث،اصول حدیث، فقہ،اصول فقہ،فرائض،ادب،بلاغت،نحو،صرف ودیگر فنون میں ید طولیٰ رکھتے تھے، وہ مرنجان مرنج شخصیت کے مالک باغ و بہار طبیعت والے ،باوقار،خوددار، غیرت مند انسان تھے، دین داری،فرض شناشی،خوش اخلاقی، ملنساری جیسے اوصاف میں وہ ممتاز تھے، میرے خیرخواہ ہمدرد اور مخلص دوست تھے میرے ساتھ تکریم و محبت کا برتاؤ دل کھول کر کرتے تھے، ان کے سیرت و کردار کی پاکیزگی و حسن اخلاق کی خوشبو سے مرا دل لبریز ہے، بہت ساری یادیں ہیں جنھیں سوانح نگاری کے اصول کے تحت آئینہ تحریر میں لانا مشکل ہے۔
خاندان و پیدائش: آپ کا تعلق ایک محنت کش گھرانے سے تھا، والد محترم صاحب زاد رحمہ اﷲ ایک نادار آدمی تھے، برائے نام کھیتی تھی اس لئے کھیتی اور اپنے آبائی پیشہ روغن سرسو کی کشید کاکام کرکے گذر بسر کررہے تھے ، رہنےے کیلئے ایک نہایت چھوٹا سا مکان تھا، اسی گھر میں اگست ۱۹۵۴ء میں پیدا ہوئے (جب کہ سند فراغت میں ۱۹۵۵ء درج ہے)
تعلیم و تربیت: تنگی و عسرت کے ماحول میں پرورش پائی، جب ذرا بڑے ہوئے تو گاؤں کے مدرسہ المعہد الاسلامی میں تعلیم کا آغاز ہوا، مکتب نیز فارسی وابتدائی عربی کی تعلیم اسی مدرسہ میں ہوئی،پھر جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگرر میں داخلہ لیکر جماعت ثالثہ و رابعہ کا درس لیا، یہا ں سے نکل کر مشرقی یوپی کی مشہور درسگاہ جامعہ اثریہ دارالحدیث مؤ میں داخلہ لیا، اس وقت یہ ادارہ جامعہ فیض عام کے دوش بہ دوش چل رہا تھا، بلکہ بعض ناحیوں سے اس سے فائق تھا ، اساتذہ کی ٹیم میں چوٹی کے علماء کبار تھے مثلاً مفتی عبد العزیز عمری مولانا عظیم اﷲ صاحب شیخ الحدیث، مولانا فیض الرحمن صاحب فیض، مولانا محمد احمد صاحب اثری ، وغیرہم ، ادارہ ہذا میں آپ نے جماعت خامسہ کی تعلیم حاصل کی اور جلالین، مشکوٰۃ ، سراجی، شرح وقایہ، دیوان متنبی کا درس وہاں کے کاملین فن اساتذہ کرام سے لیا۔
جامعہ سلفیہ مرکزی دارالعلوم بنارس کی مرکزیت اس کی عظمت اور ہر ناحیہ سے اس کی شہرت کا غلغلہ سن کر ان کے دل میں بھی وہاں جانے کا شوق پیدا ہوا ، چنانچہ ۱۹۷۳ء میں وہاں داخلہ لے کر پورے چھ سال عا لمیت و فضیلت کا کورس مکمل کیا، یقیناً اس زمانے پھر مابعد کے سالوں میں جامعہ کا معیار تعلیم بڑا بلند تھا، نصاب بڑا معتدل اور قدیم و جدید کا جامع تھا، اس کا مطلب عصری تعلیم نہیں بلکہ متقدمین و متاخرین کی تالیفات شامل نصاب تھیں اور عربی زبان وادب کے ساتھ ساتھ انگلش پر بھرپور توجہ مرکوز تھی جب کہ دیوبندیوں اور خود جماعت کے دیگر اداروں میں انگریزی شجرۂ ممنوعہ تھی لیکن جامعہ سلفیہ کے بالغ نظر و ماہر تعلیم نصاب کمیٹی نے اول یوم سے اس پر توجہ دی تھی وہاں انجمن کے پروگراموں کو مکمل اہمیت حاصل تھی، لائبریری و دارالاخبار کا بہترین نظم تھا ،اساتذہ کرام مکمل فرض سناشی و ذمہ داری کے ساتھ متعلقہ کتابوں کا درس دیتے تھے عربی، اردو میں تقریروں کا مشق و مزاولت ہوتی تھی طلبہ سالانہ میگزین کے ذریعہ انشا ء پرداڑی و صحافت کی تمرین کے مواقع تھے ، غرضیکہ اس گلشن علمی میں بھرپور چہل پہل تھی بلبلان چمن شب و روز چہکتے رہتے تھے اور ایسا رنگ چڑھتا تھا کہ وہاں سے نکلنے کے بعد ممتاز و منفرد حیثیت کے مالک ہوتے تھے، ہمارے رفیق محترم جب وہاں زیر تعلیم تھے تو مجھے بھی وہاں حصول تعلیم کی سعادت حاصل تھی میں ان سے ایک جماعت نیچے تھا پورے جامعہ میں ان کی جماعت تمام جماعتوں سے ممتاز تھی اس جماعت کے طلبہ کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور تمام اساتذہ وطلبہ ان لوگوں کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، غرضیکہ موصوف اس کے ممتاز ترین طلبہ میں شمار ہوتے تھے، یہ انجمن ندوۃ الطلبہ کے شعبے خطابت کے معتمد بھی تھے ، اس لئے ہر ہفتہ طلبہ کے روبرو ہوتے تھے اور نظامت کاکام انجام دیتے تھے، اس طرح ۱۹۷۶ء میں آپ وہاں سے
عا لمیت و فضیلت کی سند لے کر نکلے۔
مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کی انگڑائیاں دل میں کروٹیں لے رہی تھیں چونکہ آپ کے نمبرات اچھے تھے اسلئے جامعہ سلفیہ بنارس نے آپ کے نام کی ترشیح جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں کیا قسمت نے یاوری کی اور داخلہ منظور ہو گیا پھر کیا تھا دل کی کلیاں کھل گئیں، آپ نے پورے چار سال وہاں تعلیم حاصل کی، وہاں کے ماہرین فن اساتذہ سے اکتساب فیض کیا اور تفسیر و حدیث فقہ و دیگر علوم کے ساتھ ساتھ عربی زبان و ادب میں مہارت حاصل ہوئی، وہ زمانہ مشہور سلفی عالم شیخ عبدالمحسن العباد کی وائس چانسلری کا تھا ماحول میں سلفیت کا رنگ تھا ہر طرح کی علمی رونق تھی، جس سے آپ نے بھر پور استفادہ کیا اور آپ کی شخصیت میں چار چاند لگ گیا۔
آپ کے ساتذہ: اکرہرا میں مولانا عبدالحمید شفیقی، مولانا عبدالشکوردور صدیقی وغیرہ
جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں: مولانا عبدالحنان صاحب فیضی ،مولانا ڈاکٹر محفوظ الرحمن مدنی، مولانا قطب اﷲ ندوی رحمانی۔
دارالحدیث مؤمیں: مولانا عظیم اﷲ صاحب مؤی مفتی عبدالعزیز صاحب مؤی، مولانا فیض الرحمن صاحب فیض۔
جامعہ سلفیہ بنارس میں: شیخ الجامعہ مولانا عبدالوحید صاحب رحمانی، مولانا شمس الحق صاحب سلفی، مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی، مولانا محمد رئیس ندوی، مولانا عابد حسن رحمانی، مولانا عبدالمعید بنارسی، مولانا عبدالسلام صاحب مدنی( رحمہم اﷲ اجمعین)
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں آپ کے رفقاء درس: شیخ صلاح الدین مقبول احمد کویت، مولانا رفیع احمد آسٹریلیا، ڈاکٹر عزیر شمس مکہ مکرمہ، ڈاکٹر بدرالزماں نیپالی، شیخ شہاب اﷲ قطر، مولانا عبدالمعید سلفی الفاروق ہائی اسکول اٹوا وغیرہ۔
تلامذہ: تلامذہ کی تعداد سیکڑوں بلکہ ہزاروں میں ہوگی چند شاگردوں کا نام درج کیا جارہا ہے ،ڈاکٹر الطاف الرحمن مدینہ منورہ، مولانا نیاز احمد سراجی مدرسہ اصلاحیہ کٹھیلا، مولانا انیس الرحمن مدنی، مولانا شفیع اﷲ مدنی، مولانا وصی اﷲ مدنی ، مولانامحمد نسیم مدنی، مولانا سلیم ساجد مدنی، قمراعظم سراجی وغیرہم۔
میدان عمل: تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے تعلیم و تدریس کے پیشہ کا انتخاب کیا چنانچہ جامعہ سلفیہ بنارس سے نکلنے کے بعد خطیب الاسلام علامہ عبدالرؤف رحمانی رحمہ اﷲ سابق ناظم جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر نے آپ کو اپنے ادارہ میں آنے کی پیشکش کی جسے آپ نے بسرو چشم قبول کیا، ابھی دوسال ہی یہاں خدمات انجام دیا تھا کہ خوبی قسمت سے آپ کا داخلہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں منظور ہو گیا اور علمی تشنگی بجھانے کیلئے آپ نے مدینہ طیبہ کا سفر کیا جہاں پورے چار سال رہ کر لیسانس(بی۔اے) کا کورس مکمل کیا، پھر آپ پر اﷲ کا فضل ہوا کہ دارالافتاء ریاض کی طرف سے آپ کا ابتعاث منظور ہوگیا، لیکن اب ملک و جگہ کے انتخاب کا مسئلہ تھاضرورت تھی کسی ادارے کی جانب سے ترشیح کی جائے ، چنانچہ دولوگ اس وقت جامعہ سراج العلوم کیلئے لائن میں تھے جن میں سے ایک ہمارے یہ محترم دوست بھی تھے،میں نے محترم خطیب الاسلام رحمہ اﷲ کو مشورہ دیا کہ مولانا عبدالمجید صاحب آپ کے مدرسہ کے طالب علم اور مدرس بھی رہ چکے ہیں پڑوسی بھی ہیں ان کے اخلاق اور صلاحیت سے ہم لوگ واقف بھی ہیں اور غریب گھر کے بیٹے ہیں ہر طرح سے آپ کے اور جامعہ کے وفادار ثابت ہوں گے، لہذا ان کے نام کی ترشیح کردی جائے، چنانچہ علامہ رحمہ اﷲ کی موافقت کے بعد میں نے خط کا مضمون تیار کیا، اور خود اپنے قلم سے لکھا کہ اس زمانہ میں جامعہ میں ٹائپ رائٹریا کمپیوٹر کا انتظام نہیں تھا، پھر دارالافتاء سے سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اﷲ کی منظوری حاصل ہوگئی اور ۱۴۰۱ء میں موصوف نے بحیثیت داعی و مدرس جامعہ میں آکر کام شروع کردیا اور آخر دم تک اسی شہرہ آفاق ادارے سے منسلک رہے ارباب جامعہ ان کی کارکردگی سے خوش و مطمئن تھے۔
وکیل الجامعہ: ۱۹۹۶ء میں جب تعلیمی نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کے مقصد سے محترم خطیب الاسلام جھنڈا نگری رحمہ اﷲ نے اساتذہ کی مجلس منعقد کی تو معمولی بحث و مباحثہ کے بعد میرے نہ چاہتے ہوئے بھی انھوں نے صدارت (شیخ الجامعہ) کا بارگراں میرے ناتواں کندھوں پر ڈال دیا، میرے بار بار انکار کے باوجود ان کا حکم میرے اوپر غالب آیا اسی طرح وکیل الجامعہ کی حیثیت سے علامہ موصوف نے مولانا عبدالمجید صاحب مدنی کو نامزد کیا ایک عرصہ تک موصوف اس منصب پر مفوضہ ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔
درس و تدریس: موصوف ایک ماہر تجربہ کار مدرس کی حیثیت سے درس و تدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے، اس طویل عرصہ میں متعدد مضامین و اہم کتابیں آپ سے متعلق رہیں مثلاً تفسیر جلالین، سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، ہدایۃ المجتہد، السراجی،شرح شذور الذہب، شرح قطر الندیٰ، شرح العقیدہ الطحاویۃ وغیرہ پھر عرصہ تک صحیح مسلم جلد اول کا درس آپ سے متعلق رہا، اور امسال صحیح مسلم جلد دوم کادرس ان کے ذمہ تھا، جامعہ کے ساتھ ساتھ مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کرشنا نگر میں بھی دو گھنٹیاں سالہاسال پڑھاتے رہے وہاں بھی ’’ السراجی‘‘ وغیرہ کا درس آپ سے متعلق تھا۔
آپ ایک کامیاب مدرس تھے جو اوصاف ایک کامیاب مدرس کے ہوتے ہیں وہ سب آپ کے اندر موجود تھیں ، مدارس اسلامیہ کے نصاب تعلیم میں متداول علوم و فنون میں آپ کو دستگاہ حاصل تھی ہی ساتھ ہی آپ روزانہ کے اسباق کی تیاری کرتے، شرح و حواشی کا مطالعہ کرتے ، عبارت اور مضمون کو اچھی طرح حل کرتے، پھر کلاس میں اطمینان و سکون کے ساتھ سمجھاتے، وقت ضرورت مکرر سہ کرر سمجھاتے، طلبہ کو متنبہ کرتے رہتے،وقت ضرورت نوٹ بھی لکھاتے بعض بعض مضامین مثلاً نحو کو سمجھانے کا آپ کے اندر ایسا ملکہ تھا کہ ساری باتیں کلاس کے اندر ہی طلبہ کے ذہن نشین ہو جاتیں، ایسا طلبہ نے مجھ سے کئی مرتبہ بیان کیا، اسی طرح فرائض کی مشہور کتاب السراجی کو پڑھانے میں بھی آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی، محترم ناظم جامعہ حضرت مولانا شمیم احمد ندوی ؍ حفظہ اﷲ نے موصوف کے جنازہ کے موقعہ پر ان کے محاسن کا ذکر کرتے ہوئے بجا طور پر فرمایا تھا کہ ’’ اس خطہ میں ان سے بہتر فرائض پڑھانے والا شاید ہی کوئی رہا ہو‘‘۔
درس میں بڑی عرق ریزی کرتے تھے چنانچہ پوری گھنٹی بڑی پابندی اور مستعدی کے ساتھ پڑھاتے کسی استاذ کی گھنٹی ان کی گھنٹی سے متصل خالی رہتی تو اس سے فائدہاٹھاتے ہوئے سبق جاری رکھتے تاکہ کتاب زیادہ سے زیادہ ہوجائے اور طلبہ کا فائدہ ہو ، کبھی کبھی کلاس سے نکل کر آتے مجھ سے کہتے چار گھنٹیاں مسلسل پڑھا کر آرہا ہوں ، بہر حال وہ ایک کامیاب مدرس اور طلبہ کے خیر خواہ تھے۔
خطابت: محترم کے اندر خطابت کا بھی جوہر تھا لیکن آپ صرف منبر کے خطیب تھے اسٹیج کے خطیب نہ تھے ، متانت سنجیدگی، ٹھہراؤ اور دلنشین گفتگو کا انداز تھا، شور و ہنگامہ اتار چڑھاؤ اور رنگیں بیانی سے خالی تھے، اسلئے اسٹیج کے خطباء کی صف میں آپ کا شمار نہ ہوسکا ، حالانکہ سنجیدہ گفتاری کے باوصف متعدد دینی جلسوں میں آپ کا نام مشتہر ہوا آپ نے اس میں خطاب بھی کیا۔
شاہ جامع مسجد جھنڈا نگر کے آپ عرصہ آٹھ دس سال خطیب رہے ، پوری پابندی کے ساتھ خطبہ دیتے رہے ، موسم اور احوال و ظروف کے مطابق موضوع کا انتخاب کرتے، نصوص کتاب و سنت اور اقوال صحابہ وواقعات سلف سے اسے اچھی طرح ثابت اور مدلل کرتے تھے۔
اسی طرح حضرت مولانا عبد ا لصبور صاحب رحمانی رحمہ اﷲ کی وفات کے بعد آپ اپنے موضع اکرہرا کی عیدین کے امام بھی تھے، جہاں اکرہرا، کھجوریہ، پرسا وغیرہ مواضعات سے بڑی تعداد میں لوگ اکٹھا ہو کر عیدین کی نماز پڑھتے ہیں۔
تحریر: مولانا محترم کی توجہ تحریر و انشاء پردازی کی طرف نہ ہوسکی ان کا لکھا ہوا صرف ایک مضمون (میری معلومات کی حد تک) ’’تقلید‘‘ کے موضوع پر ماہنامہ ’’السراج‘‘ کے کسی شمارہ میں شائع ہوا ہے۔
مباحثہ: آپ کو اﷲ نے مناظرہ و مباحثہ کی بھی صلاحیت عطا کی تھی مد مقابل کے دعوے کا کاٹ اور اپنے موقف کو مدلل پیش کرنے کا سلیقہ آپ کو تھا اس سلسلہ کے چار واقعات میرے حافظہ میں محفوظ ہیں۔
۱۔ چند سالوں قبل نیپال کے ضلع کپل وستو و ضلع دانگ میں انکار حدیث کے جراثیم ظاہر ہونے لگے چنانچہ ضلع دانگ کا صدر مقام گھوڑاہی جو ضلع کا صدر مقام ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین پہاڑی بازار ہے وہاں مدھیشی نسل کے لوگ تجارتی کاروبار کے ذریعہ زندگی گذار رہے ہیں اس جگہ فتنۂ انکار حدیث نے پر پرزے نکالنا شروع کیا تو حساس مسلمانوں کو فکر لاحق ہوئی، چنانچہ انھوں نے جھنڈا نگر سے رابطہ قائم کرکے دو ایک علماء کو بلا یا جس میں مولانا موصوف بھی تھے وہاں ایک شخص سامنے آیا، اور دیر تک بحث کیا، موصوف نے اس کے تمام شبہات کو ہباء منثورا کردیاجس سے اسے حدیث کی تشریعی حیثیت کا قائل ہونا پڑا، بالآخر اس شخص نے مجمع عام میں توبہ کیا۔
۱۔ ضلع پرسا کے صدر مقام بیر گنج سے اطلاع آئی کہ وہاں کوئی قادیانی بڑی خرافات پیدا کئے ہوئے ہے اس کی سر کوبی کے لئے جھنڈا نگر سے علماء بھیجے جائیں یہاں کے علماء کرام نے میرا اور موصوف کا نام تجویز کیا ، چنانچہ دونوں بروز جمعہ بعد نماز عصر روانہ ہوئے ابھی ہم لوگ چنروٹہ تک پہونچے تھے کہ پھر بذریعہ فون اطلاع ملی کہ قادیانی بھاگ گیا ہے آپ لوگ واپس لوٹ جائیں ، قادیانی میدان خالی سمجھ کر ڈینگیں مار رہا تھا لیکن اس کو خود اس کے ذرائع سے ہم لوگوں کے عازم سفر ہونے کی اطلاع ملی تو اس نے راہ فرار اختیار کرلیا۔
۳۔ گونڈہ سے درخواست آئی کہ وہاں مقلدین اہل حدیث کو چیلنج کررہے ہیں مباحثہ میں چند مشاق علماء کو یہاں بھیج دیا جائے آخر کار جماعت کے مشہور عالم مولانا ابوالعاص صاحب وحیدی، اور مولانا عبدالمجید صاحب مدنی وہاں پہونچے مد مقابل وحیدی صاحب کا دارلعلوم دیو بند کا ساتھی نکلا، دونوں نے آپسی گفتگو سے مناظرے اور چیلنج کے ماحول کو ختم کردیا۔
۴۔ جھنڈا نگر سے ۲۰؍کلو میٹر شمال میں جنگل سے قریب جامعہ کی ایک شاخ مدرسہ ضیا ء العلوم برگدی کی شکل میں چل رہی ہے، وہاں کے اس وقت کے مدرس مولانا رفعت اﷲ سراجی نے قریبی موضع برگدوا میں تبلیغی پرو گرام رکھا جہاں کی غالب آبادی بریلویوں کی ہے، اس میں مولانا کے ساتھ جامعہ کے ایک استاذ مولانا شفیع اﷲ مدنی بھی تھے تقریری پرو گرام چل رہا تھا کہ وہاں کے بدعتی مدرس اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کچھ کتابیں لے کر آئے اور مباحثہ کی دعوت دی ، بلا کسی پیشگی اطلاع کے بحث شروع ہو گئی مولانا نے فاتحہ میلاد وغیرہ کے خلاف پُر زور دلائل سے ایسی مدلل گفتگو کی کہ حریف چارو ں شانے چت ہو گیا اور اسی مجلس میں سامعین کے سامنے اپنے موقف کی کمزوری کا اقرار کیا۔
رفیقہ حیات و اولاد: آپ کا نکاح آپ کے خاندان اور گاؤں ہی میں محترم حوصلدار صاحب کی دختر نیک اختر شافعہ خاتون سے ہوا تھا جنھوں نے مولانا کے ساتھ ایک اچھی اور نیک بیوی کی حیثیت سے زندگی گذاری، ان کے بطن سے تینن لڑکے (۱) سعود(۲) عبیداﷲ(۳) انس ہیں اول الذکر یعنی سعود جامعہ اسلامیہ سنابل سے فراغت کے بعد جامعہ ہمدرد دہلی میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کررہے ہیں ، عبیداﷲ کسب معاش کیلئے قطر میں رہ رہے ہیں، جب کہ سب سے چھوٹے انس سلمہ جامعہ عالیہ مؤ میں زیر تعلیم ہیں، اور چار لڑکیاں بھی پیدا ہوئیں جن میں تین شادی شدہ ہیں اور پر مسرت ازدواجی زندگی گذاررہی ہیں جبکہ چھوٹی بچی ابھی کنواری ہے۔
اخلاق و عادات: موصوف بڑے سنجیدہ، سادہ طبیعت اور خیر پسند تھے ، فتنے فساد، ریشہ دوانی،
تنازعات سے کوسوں دور رہتے تھے،مزاج میں شیفتگی تھی، خندہ پیشانی سے ملتے، حسب حال ضیافت کرتے اور اپنی بے تکلف گفتگو کے ذریعہ خوشی بانٹتے تھے گویا باغ و بہار تھے، بہار طبیعت میں فیاضی تھی چنانچہ طلبہ اور اہل حاجت کی بقدر استطاعت امداد فرماتے تھے، میرے پاس ضرورت مند اور اہل حاجات آتے تھے تو میں ان کیلئے اساتذہ کے نام اپیل لکھ کر یہ سمجھا دیتا کہ پہلے مولانا سلیم الدین صاحب مدنی اور مولانا عبدالمجید صاحب مدنی سے ملو، کیونکہ یہ لوگ بہتر امداد کریں گے، چنانچہ اکثر اوقات یہ دونوں حضرات امدادی کارخیر میں دیگروں سے آگے نظر آتے ، اسی طرح موسم کی مناسبت سے تفریحی گفتگو میں مولانا مٹھائی یا پھلوں سے اساتذہ کی تکریم کرتے تھے ۔
قوت فیصلہ: قوت فیصلہ بھی آپ کی بہت اچھی تھی اساتذہ کرام کی مجلس شوریٰ میں آپ کی آراء بڑی وزن رکھتی تھیں کئی ایک مواقع پر آپ ہی کی رائے پر تمام اساتذہ کرام نے صاد کیا، اور بعد میں معلوم ہوا کہ اسی میں خیر تھا۔
ایسے کہاں ملیں گے تمہیں نیک طبع لوگ افسوس تم کو میر ؔسے صحبت نہیں رہی
کچھ اور یادیں: جامعہ میں آنے کے بعد ہمارے ان کے درمیان ذہنی ہم آہنگی کی وجہ سے زیادہ قربت رہی اسی لئے سفروں میں وہ میری رفاقت اور میں ان کی رفاقت کو ترجیح دیتا تھا، چنانچہ ہم لوگوں نے پہاڑی مقامات میں کئی ایک دعوتی سفر ایک ساتھ کیا مثلاً بھالو بانگ ، دیوی کوٹ، گڑھوا، باگر، اموا،کاٹھمانڈو،تنہو،سرہاوغیرہ ہمارے ان سفروں میں عزیزم مولانا انیس الرحمن مدنی، محترم شیخ فضل حس مبارک پوری، شیخ اسلم مدنی شریک رہے، اسی طرح ان کے گھر تقاریب نکاح و عقیقہ کے علاوہ جب چھوٹے موٹے پروگرام ہوتے مثلاً رخصتی کروانا تو مجھ سے مہینوں پہلے فرمائش کرتے کہ مجلس نکاح میں موجودگی لازمی ہے مزید یہ کہ اس موقع سے ممکن ہے اس طرح کا سلوک اوروں کے ساتھ بھی رہا ہو، رشتہ وغیرہ طے کرنا ہوتا تو اس میں مجھ کو شریک رکھتے، ابھی گذشتہ ماہ جون ۲۰۱۳ء میں جب اپنے منجھلے فرزند عزیزم عبیداﷲ کے نکاح و رخصتی کی تاریخ طے کیا تو مہینوں پہلے مجھ سے درخواست کیا کہ نکاح میں آپ کی شرکت لازمی ہے، اس موقع سے میری خصوصی تکریم کیا، فجزاہ اﷲ خیراً۔
یاد ایام کے طور پر دیوی کوٹ کے سفر سے متعلق نہایت مختصر انداز میں یہ لکھ دوں کہ پہاڑ کی پیدل چڑھائی تھی ہم لوگ تھک کر بالکل چور ہو چکے تھے، پہاڑ کی چوٹی پر ایک درخت کے نیچے مولانا دراز ہو گئے اور کہا کہ آج رات یہیں گذارلیں آگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہے، میں نے کہا میں امیر کارواں ہوں میں اس سے بالکل متفق نہیں ہوں ، جنگل و پہاڑ اور سنسان جگہ ہے رات میں اگر کوئی درندہ آگیا تو کیا ہوگا ، سفر جاری رکھا جائے اور آگے چل کر جہاں کہیں کوئی مسلم یا غیر مسلم آبادی ملے گی وہیں قیام کرلیا جائے، چنانچہ انھوں نے ہمت کی اور آگے بڑھے۔
اسی طرح یاد ایام کے طور پر یہاں یہ ذکر کرنا بھی دلچسپ معلوم ہوتا ہے کہ دیوی کوٹ کے دوسرے سال کے سفر میں ہم لوگوں کا نزول غازی میاں کے یہاں ہوا ، قیام تو مسجد میں تھا البتہ کھانے کا نظم انھیں کے یہاں تھا، اسی بستی کا ایک شخص جو ان کا مخالف تھا، تھانہ میں غلط مخبری کیا کہ غازی میاں منشیات کا کاروبار کرتا ہے ، اس کے یہاں انڈیا سے منشیات کے بیوپاری آئے ہوئے ہیں آپ لوگ رنگے ہاتھوں پکڑ سکتے ہیں ، پولیس نے چھاپا ڈالا اور گانجہ ان کے گھر مل گیا، پولیس انھیں پکڑ کر تھانہ لے گئی گھر والے بیحد پریشان ہوئے، مولانا نے از راہ ہمدردی ہم ارکان وفد کے ساتھ تجویز رکھی کہ ہم لوگوں کی وجہ سے اس پر مصیبت آگئی ہے، لہذا ہم لوگ مبلغ ایک ہزار روپیہ تعاون دیدیں تاکہ وہ چھوٹ جائے ، ہم لوگوں نے ان کی تجویز پر عمل کیا مزید یہ کہ بعض پہاڑی نیتاؤں کی مدد سے وہ رہا ہوئے، واضح رہے کہ پہاڑی علاقوں میں گانجہ نوشی کا عام رواج ہے اور کم و بیش ہر گھر میں گانجہ موجود رہتا ہے۔
خاتمہ کلام: موصوف نے اپنی حیات مستعار کی ۵۹؍ بہاریں مدت پوری کرکے چلے گئے لیکن جاتے جاتے اپنے پاکیزہ اثرات اس طرح چھوڑ گئے کہ بقول
موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس یوں تو دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کیلئے
افسوس کہ ان کی وفات سے ان کا چھوٹا سا کنبہ اور چند اعزہ و اقرباء ہی نہیں محروم ہوئے بلکہ ہمارا جامعہ ایک باوقار تجربہ کار، ماہر درسیات استاذ سے محروم ہو گیا، جماعت اہل حدیث اکرہرا، کھجوریہ بالخصوص وجماعت اہل حدیث بالعموم ایک قابل باصلاحیت غیور و خوددار عالم دین سے محروم ہوگئی جو ایک انمول ہیرا تھا ۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرما کر پسمانگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے۔ (آمین)
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پہ شبنم افسانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
مولانا خورشید احمد سلفی
شیخ الجامعہ جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال
حضرت العلام مولانا عبدالسلام رحمانی رحمہ ٗاﷲ
(تاریخ وفات: ۲۹؍دسمبر ۲۰۱۳ء)
تمام عمر دل و روح کو رلائے گا
یہ داغ رحلت عبدالسلام رحمانی
جماعت اہل حدیث کی نامور اور قد آور شخصیت مولانا عبدالسلام رحمانی کنڈؤ بونڈھیارکا بتاریخ ۲۹؍دسمبر ۲۰۱۳ء کی صبح ایک طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
رحمانی صاحب توحید حالص کے داعی اور صحیح عقیدہ کے ناشر کتاب و سنت کا ذوق اور اس کے ہمہ وقت مبلغ تھے ہر شخص ان کی جدائی سے غمگین و رنجیدہ ہے موت کے علاوہ اور کوئی مصیبت ہوتی تو اس کا گلہ اور چارہ سازی بھی ہوتی موت پر کیا گلہ کل من علیہا فان۔
مولانا رحمانی بہت سی خوبیوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھے وہ جہاں بہت اچھے مربی و مدرس تھے وہاں بہت اچھے اہل قلم بھی تھے مولانا سترہ کتابوں کے مصنف تھے اور یہ ساری کتابیں مولانا کی زندگی ہی میں شائع ہو چکی ہیں اور ان میں اکثر کتابوں کے کئی کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں جن سے ان کی علمی تحقیقی کتابوں کی افادیت اور مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے مولانا اپنے اسلوب نگارش کی نفاست سلاست اور شیفتگی کیلئے مشہور تھے مولانا نے بہت سی علمی و تحقیقی کتابیں بطور یادگار چھوڑی ہیں جن میں آپ کی شہرۂ آفاق کتاب دیار غیر ہے آپ کی کتابوں کے مطالعہ سے قلم میں ان کی گرفت موضوع کی وضاحت معلومات کا خزینہ قوت انشاء پردازی کا پتہ چلتا ہے کہ مولانا رحمانی کا قلم کیسا معجز رقم تھا، مولانا مخلص خوش مزاج،خوش اخلاق، منکسرالمزاج ، حلیم الطبع اور عمل و کردار میں اپنے اسلاف کی درخشاں روایات کے امین تھے مولانا کی شخصیت میں جو دلاویزی جماعتی و مسلکی ذوق اور عملی سیرت و کردار کے جو نقوش دکھائی دیتے ہیں ان کے باعث ان کے علمی کارنامے و دعوتی و تبلیغی سر گرمیاں مدتوں یاد رکھی جائیں گی۔
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا
پچھلے چند سالوں پر جب ہم ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے کہ علمائے سلفیت کے کتنے نےّر تاباں دعوت و تبلیغ تصنیف و تالیف ، امامت و خطابت ، درس و تدریس وغیرہ میدانوں میں اپنی مثالی کارکردگی کا جلوہ دکھا کر دنیا سے روپوش ہو گئے ایسے ہی موقع پر مولانا حالی رحمہ اﷲ نے فرمایا تھا ۔
غالب ہے نہ شیفتہ نہ میر باقی وحشت ہے نہ سالک نہ انور باقی
حالی اب انھیں کو بزم یاراں سمجھو یاروں کے جو کچھ داغ ہیں دل پر باقی
افسوس تو اس بات کا ہے جو علماء چلے گئے کوئی دوسرا ان کی جگہ کو پُر کرنے والا نظر نہیں آتا ۔
ہمارا فرض ہے کہ ہم نئی نسل کو ایسی تربیت دیں کہ وہ اپنے ان اکابر کی خالی جگہوں کو پُر کر سکیں یہی امت کی تاریخ ہے اور اسی سے امتیں اور ملتیں زندہ رہتی ہیں افراد آتے ہیں کام کرتے ہیں اپنی جد وجہد اور قربانیوں سے اپنی ملت کو سر بلندی عطا کرتے ہیں پھر رخصت ہو جاتے ہیں مگر اپنے پیچھے اپنی خدمات کی جو مشعل فروزاں چھوڑ جاتے ہیں اسی کی روشنی میں باطل سے لڑنے کا ان کے ا خلاف کو جو حوصلہ ملتا ہے ان کی قربانیاں انھیں زندہ رکھتی ہیں ، ہاں جب خالی جگہوں کو پُر کرنے کا عزم اور ملت کے سر فروشی کا جذبہ معدوم ہو جائے تو ملتیں بھی مر جاتی ہیں اور امتیں برباد ہو جاتی ہیں ۔
مولانا کے سینکڑوں شاگرد عرب و عجم میں دعوت و تبلیغ درس و تدریس، تصنیف وتالیف میں مصروف ہیں اﷲ تعالیٰ ان کے تمام شاگردوں کو ان کے حق میں صدقہ جاریہ بنائے۔ (آمین)
مولانا کی رحلت کو اہل علم حضرات نے زبر دست علمی خسارہ قرار دیا ہے ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بلرام پور نے ایک تعزیتی قرارداد میں مولانا مرحوم کیلئے دعائے مغفرت کی اور ان کی تعلیمی تدریسی ، تبلیغی اور علمی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا۔
مولانا رحمانی نہایت شگفتہ مزاج عالم دین تھے نخوت و خود پسندی ذرا بھی نہ تھی دوسروں کی پذیرائی نہایت بشاشت سے فرماتے میری جب بھی ان سے ملاقات ہوتی ایسے ملتے جیسے برسوں کی بے تکلفی ہو بحمد اﷲ مواقع ملاقات زیادہ ہی رہے رحمانی صاحب راقم کی کتابوں پر اپنی پسندیدگی کا اظہار فرماتے خاص طور سے راقم کی کتاب خانہ ساز شریعت اور آئینہ کتاب و سنت کے بہت مداح تھے اس کتاب پر آپ نے ایک وقیع جامع مقدمہ بھی تحریر فرمایا تھا ،غرض یہ کہ مولانا رحمانی کی شفقت و محبت ہمیشہ حاصل رہی اﷲ تعالیٰ مرحوم کو غریق رحمت فرمائے۔(آمین)
وفات : علم و دانش کا وہ چراغ جو کئی برسوں سے ضُعف مرض کے جھونکوں سے بُجھ بُجھ کر سنبھل جاتا تھا آخر کار بتاریخ ۲۹؍ دسمبر ۲۰۱۳ء کی صبح کو ہمیشہ ہمیش کیلئے بُجھ گیا ، اسی دن بعد نماز عصر جامعہ سراج العلوم بونڈھیار کے وسیع احاطہ میں مولانا ثناء اﷲ سلفی شیخ الجامعہ جامعہ سراج العلوم کی امامت میں صلاۃ جنازہ ادا کی گئی اور بونڈھیار کے قبرستان میں مدفون ہوئے آپ کی نماز جنازہ اور تدفین میں بلرام پور ،گونڈہ، سدھارتھ نگر ، بستی اور پڑوسی ملک نیپال کے علماء طلبہ ،عوام و خواص اور معززین کثیر تعداد میں شریک رہے ۔ مولانا عبدالسلام رحمانی کے خود نوشت حالات کی تلخیص اگلے صفحات میں ملاحظہ فرمائیں۔
مولانا رحمانی کے پسماندگان میں آپ کی بیوہ تین بیٹے عبداﷲ ، محمد ، احمد اور تین بیٹیاں ہیں اﷲ تعالیٰ ان سب کو صبر جمیل کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمین)
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مولانا رحمانی کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین)
اﷲم نوّر قبرہ ووسع مدخلہ وادخلہ الجنۃ الفردوس
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور ۔بلرام پور
۱۵؍ جنوری ۲۰۱۴ء
نام و نسب: عبدالسلام رحمانی بن محمد عباس بن حبیب اﷲ بن جمائی بن کریم بن بخش خان بن لطیفی خان بن قائم خان بن جین خان۔
نسبت: آپ نے اپنی نسبت اپنی مادری علمی جامعہ رحمانیہ بنارس کی طرف کی جہاں سے اپنی عربی اور شرعی علوم کی تکمیل کرکے سند فراغت حاصل کی۔
مقام پیدائش: اہل حدیثوں کی مشہور و معروف مردم خیز بستی کنڈؤ ، ضلع بلرام پوریوپی (سابق ضلع گونڈہ) تحصیل اترولہ ہے۔
تاریخ پیدائش: آپ کی تاریخ پیدائش کاغذات میں یکم مارچ ۱۹۳۷ء اور حقیقت میں اگست ۱۹۳۸ء مطابق جمادی الاخریٰ ۱۳۵۷ھ ہے۔
تعلیم و تربیت: آپ نے ابتدائی تعلیم اور پرائمری کی تعلیم اپنے گاؤں کے مدرسہ سراج العلوم میں حاصل کی۔ اس کے بعد عربی کی تعلیم کیلئے اس وقت سلفیوں کی سب سے اہم معتبر دانش گاہ دارالحدث رحمانیہ دہلی میں تشریف لے گئے۔ یہ شوال ۱۳۶۶ھ مطابق ستمبر ۱۹۴۷ء کا زمانہ تھا وہاں مولانا کا داخلہ جماعت ادنیٰ میں ہو گیا، داخلہ کی کاروائی مکمل ہو گئی ، مگر انہیں دنوں تقسیم ہند و پاک کے نتیجہ میں ۱۹۴۷ء کا غدر کا حادثہ پیش آگیا اور دہلی اور اس کے اطراف کے حالات خصوصاً مسلمانوں کے لئے اتنے خراب اور نا گفتہ بہ ہو گئے کہ لوگوں کی جانوں کے لالے پڑ گئے، کافی مشکلات اور مصائب کے بعد مولانا وطن واپس آگئے اور جماعت ثانیہ جامعہ سراج العلوم بونڈھیار میں تعلیم حاصل کی، اس کے آگے کی تعلیم کیلئے جامعہ رحمانیہ بنارس تشریف لے گئے اور مطلوبہ جماعت ثالثہ میں داخلہ کے مستحق قرار پائے مگراس سال رحمانیہ میں جماعت ثالثہ کی تعلیم نہیں تھی اس لئے مولانا نے وہاں ثانیہ سے تعلیم کا آغاز کیا اور ثامنہ یعنی فراغت تک کی تعلیم علامہ نذیر احمد رحمانی املوی (م ۱۹۶۵ء مطابق ۱۳۸۵ھ) رحمہ اﷲ کے زیر تربیت رہ کر مکمل کی ، اس طرح مارچ ۱۹۵۸ء مطابق شعبان ۱۳۷۷ھ میں جامعہ رحمانیہ بنارس سے سند فضیلت حاصل کرکے ’’ رحمانی‘‘ بن گئے۔
جامعہ رحمانیہ بنارس میں حصول تعلیم کے دوران آپ نے عربی و فارسی بورڈ الٰہ آباد اترپردیش کے درج ذیل امتحانات پاس کئے:
۱۔ مولوی فروری ۱۹۵۵ء
۲۔ عالم فروری ۱۹۵۶ء
۳۔ فاضل دینیات: فروری ۱۹۵۸ء
اساتذہ و شیوخ
جامعہ سراج العلوم کنڈؤ بونڈھیار:
۱۔ مولانا محمداقبال رحمانی (م ۱۹۸۲ء)رحمہ اﷲ
۲۔ مولانا محمد خلیل رحمانی رحمہ اﷲ
۳۔ مولانا عبدالسلام طیبی(طیب پوری) رحمہ اﷲ
جامعہ رحمانیہ بنارس:
۱۔ مولانا نذیر احمد رحمانی املوی(م ۱۹۶۵ء مطابق ۱۳۸۵ھ)رحمہ اﷲ
۲۔ مولانا مفتی عبدالعزیز اعظمی عمری مؤی(م جولائی ۲۰۰۵ء) رحمہ اﷲ
۳۔ مولانا فضل الرحمن عمری مؤی (م جون ۱۹۹۸ء) رحمہ اﷲ
تدریسی خدمات: جامعہ رحمانیہ بنارس سے فراغت کے بعد پہلے سال تین ماہ اسٹیٹ (مدھیہ پردیش) حاجی نذیر احمد صاحب کی مسجد میں امامت و خطابت کے ساتھ ان کے مکتب میں تدریس کا کام کیا۔ پھر مسجد اہل حدیث مراد آباد یوپی میں امامت و خطابت کا فریضہ انجام دیا، انہیں دنوں گنور، بدایوں، علی گڈھ،اور آگرہ وغیرہ میں تبلیغی اور دعوتی پرو گراموں میں بھی شریک ہوئے۔
پھر فراغت کے دوسرے سال مدرسہ اسلامیہ اکرہرا سدھارتھ نگر، یوپی میں تدریسی خدمات انجام دیں ، پھر شوال ۱۳۸۰ھ تا شعبان ۱۳۸۳ھ مطابق اپریل ۱۹۶۰ء تا دسمبر ۱۹۶۳ء چار سال جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر نیپال میں سادسہ تک کے طلبہ کو عربی کی کتابیں پڑھائیں۔ پھر تقریباً دو سال ۹؍شوال ۱۹۸۳ء مطابق ۲۴؍فروری ۱۹۶۴ء تا ۲۵؍ذی قعدہ ۱۳۸۵ھ مطابق مارچ ۱۹۶۶ء الدارالقیمۃ ،بھیونڈی، مہاراشٹر میں مولانا عبدالصمد شرف الدین کے ساتھ ’’ تحفۃ الأشراف بمعرفۃ الاطراف للمزی‘‘ کی تحقیق،تعلیق اور طباعت نیز ’’ المعجم المفہرس لألفاظ الحدیث النبوی‘‘کی طباعت میں جو الدارالقیمۃ سے چھپ رہی تھی۔ مولانا عبدالصمد صاحب کی معاونت میں گذارا،اس عرصہ میں تحفۃ الاشراف کی پہلی جلد چھپ گئی اور دوسری جلد کی تحقیق و تعلیق کا کام بھی تقریباً مکمل ہو گیا تھا۔
پھر مارچ ۱۹۶۶ء میں مرکزی دارالعلوم(جامعہ سلفیہ) بنارس میں تعلیمی افتتاح کے موقع پر الدارالقیمۃ سے مستعفی ہو کر بنارس تشریف لائے اور ۲۳؍ ذی الحجہ ۱۳۸۵ھ مطابق ۱۵؍اپریل ۱۹۶۶ء تا ۱۵؍شعبان ۱۳۹۲ھ مطابق ۲۴؍ستمبر ۱۹۷۲ء تقریباً سات سال اپنی مادر علمی جامعہ رحمانیہ بنارس میں شعبۂ عربی میں تدریسی خدمات انجام دیں۔
مارچ ۱۹۸۵ء میں فیجی سے واپس آنے کے بعد آپ جامعہ سراج العلوم بونڈیہار میں تدریس و تربیت کے ساتھ وکیل الجامعہ کے فرائض انجام دینے لگے اور یہ دونوں ذمہ داریاں پوری امانت و دیانت اور پورے جوش و جذبہ کے ساتھ نبھاتے رہے۔ آخری عمر میں جب آٖ پ کی بیماریاں بڑھ گئیں اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں پریشانی محسوس ہونے لگی تو مئی ۲۰۱۱ء کے بعد تدریس سے الگ ہو گئے اور وکیل الجامعہ کی ذمہ داریاں تو باستثناء چند ماہ زندگی بھر پوری کیں۔ اﷲ انہیں شرف قبولیت بخشے۔(آمین)
جماعتی اور تنظیمی خدمات: ۳۰؍اگست ۱۹۷۱ء کو مدنپورہ بنارس میں جمعیۃ اہل حدیث ہند کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا اور اس میں ایک ’’ایڈ ہاک کمیٹی‘‘ بنی جس میں جماعت کے بزرگ عالم دین اور خطیب مولانا محمد داؤد راز (م ۱۹۸۱ء مطابق ۱۴۰۲ھ) رحمہ اﷲ صدر اور جماعت کے نوجوان عالم و خطیب، مدرس و محقق مولانا عبدالحمید رحمانی رحمہ اﷲ(م ۲۰؍اگست ۲۰۱۳ء ) ناظم اعلیٰ منتخب کئے گئے تھے۔ (پندرہ روزہ ترجمان دہلی مجریہ ۱۵؍ستمبر ۱۹۷۱ء)
اس ایڈ ہاک کمیٹی کی مدت کار کردگی ایک سال تھی، سال بھر کے اندر’’ ایڈ ہاک کمیٹی‘‘ کو ساری کاروائیاں مکمل کرکے جمعیۃ اہل حدیث ہند کی مجلس شوریٰ کا انتخابی اجلاس بلا کر با ضابطہ انتخاب کرانا تھا۔ چنانچہ مولانا عبدالحمید رحمانی نے ۱۰؍۱۱؍ستمبر ۱۹۷۲ء مطابق ۱؍۲؍شعبان ۱۳۹۲ھ کو مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند کی مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کیا، جو حسب پروگرام مسجد میاں صاحب ، پھاٹک حبش خاں دہلی میں منعقد ہوا۔
چونکہ ذمہ داران جماعت و جمعیۃ اور وابستگان جماعت اور افراد ملت ایک سالہ ’’ ایڈہاک کمیٹی‘‘ خصوصاً مولانا رحمانی رحمہ اﷲ کی سر گرمیاں دیکھ چکے تھے اور پورا ملک ان سے واقف ہو چکا تھا اس لئے ارباب جماعت و جمعیۃ نے اس انتخابی اجلاس میں پورے جوش و خروش اور قلب جذبۂ صادق کے ساتھ حصہ لیا اور درج ذیل عمائدین جماعت کا انتخاب عمل میں آیا جن میں مولانا عبدالسلام رحمانی رحمہ اﷲ بھی تھے ، تفصیل حسب ذیل ہے:
۱۔ڈاکٹرسید عبدالحفیظ سلفی صدر
۲۔ حافظ محمد یحییٰ صاحب نائب صدر
۳۔ مولانا عبدالوحید سلفی نائب صدر
۴۔ مولانا عبدالحمید رحمانی ناظم عمومی
۵۔ مولانا عبدالسلام رحمانی نائب ناظم
۶۔ جناب عبدالقدوس بن مولانا سید تقریظ احمد نائب ناظم
۷۔ حافظ نور الٰہی خازن
(پندرہ روزہ ترجمان دہلی اجلاس شوریٰ نمبریکم اکتوبر۲ ۱۹۷ء)
پھر ۲۷؍جولائی ۱۹۷۵ء مطابق ۱۶؍رجب ۱۳۹۵ھ کو مولانا عبدالحمید رحمانی رحمہ اﷲ کی مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند سے علیحدگی کے بعد ناظم عمومی کے جدید انتخاب تک مولانا عبدالسلام رحمانی کو ناظم اعلیٰ کے جملہ اختیارات تفویض کئے گئے، پھر ۱۱؍مئی ۱۹۸۵ء کو ایک اجلاس برائے انتخاب عہدیداران بنگلور(کرناٹک) میں ہوا تو اس میں مولانا کو دوبارہ مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند کا جنرل سکریٹری بنا دیا گیا اور مولانا جامعہ سراج العلوم بونڈیہار کی تدریسی اور انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ مرکزی جمعیۃ کی نظامت علیا کی ذمہ داریاں بھی نبھانے لگے، لیکن چونکہ بیک وقت دو کشتیوں پر سوار ہونا مشکل ہوتا ہے اس لئے مولانا بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتے تھے،تدریس چھوڑ کر جمعیۃ کی نظامت اور اس کے متعلق دیگر امور کی دیکھ ریکھ کیلئے بار بار دہلی آنا مولانا کیلئے پریشان کن تھا ، اسلئے یکم مارچ ۱۹۸۷ء کے اجلاس شوریٰ میں مولانا مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند کی نظامت علیا سے مستعفی ہوگئے۔
پھر ۲۷؍مئی ۱۹۹۰ء کو مرکزی جمعیۃ کا نیا انتخاب ہوا اور مولانا مختار احمد ندوی(م ۹ستمبر ۲۰۰۷ء مطابق ۲۵؍شعبان ۱۴۲۸ھ) رحمہ اﷲ امیر منتخب ہوئے تو انھوں نے اپنے کئی نائبین مقرر کئے ان میں مولانا رحمہ اﷲ کو بھی نامزد کیا۔
پھر ۲۰؍جولائی۱۹۹۷ء مطابق ۱۴؍ربیع الاول ۱۴۱۸ھ کو مجلس شوریٰ مرکزی جمعیۃ اہل حدیث کے اجلاس میں مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اﷲ نے مرکزی جمعیۃ کی امارت سے استعفیٰ دے دیا اور حافظ محمد یحییٰ صاحب قائم مقام امیر مقرر کئے گئے تو انہوں نے بھی مولانا رحمہ اﷲ کو نائب امیر مقرر کیا جب کہ مولانا رحمہ اﷲ شوریٰ کے اس اجلاس میں شریک بھی نہیں تھے۔
پھر جب ۱۹؍ جولائی ۱۹۹۸ء کو مولانا صفی الرحمن مبارکپوری(م یکم دسمبر ۲۰۰۶ء) رحمہ اﷲ امیر مقرر کئے گئے تو انھوں نے بھی مولانا کو نائب امیر کے عہدے پر باقی رکھا۔
دیگر اداروں اور تنظیموں سے مولانا کی وابستگی:
مولانا جامعہ سلفیہ بنارس کی مجلس منتظمہ ، جامعہ ابن تیمیہ چمپارن بہار اور جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں کی مجلس شوریٰ نیز آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور آل انڈیا ملی کونسل کے رکن رہے اور ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بلرام پور کے تا حیات امیر جماعت تھے۔
مولانا جزائر فیجی میں: مولانا رحمہ اﷲ جون ۱۹۷۸ء میں مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند سے مستعفی ہو کر’’ فیجی انجمن اہل حدیث‘‘ کی دعوت پر فیجی تشریف لے گئے اور ۲۴؍ جون ۱۹۷۸ء مطابق ۱۷؍رجب ۱۳۹۸ھ سے ۱۰؍مارچ ۱۹۸۵ء مطابق ۱۷جمادی الاخریٰ ۱۴۰۵ھ تک تقریباً سات سال فیجی میں درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کے کاموں میں مشغول رہے۔
فیجی ۳۲۰ جزیروں پر مشتمل ہے اور ان کا مجموعی رقبہ ۷۲۰۰ مربع میٹر ہے۔ اس وقت فیجی کی تعلیمی اور دینی حالت کیا تھی؟ اس کے بارے میں مولانا رحمانی رحمہ اﷲ نے خود تحریر فرمایاہے:
’’ فیجی میں پہلے دینی رجحان بہت کم تھا ، صلاۃ و صوم ، حج و زکوٰۃ کی ادئیگی کا رجحان درجۂ صفر تھا ، میں ۲۴؍جون ۱۹۷۸ء مطابق ۱۷؍رجب ۱۳۹۸ھ کو فیجی پہونچا ہوں تب تک ہماری جماعت کے پاس ایک بھی مسجد نہ تھی ، نہ کوئی اسلامک سنٹر تھا ، نہ کسی نے اس وقت تک حج کیا تھا، نہ صلاۃ و صو م کی پابندی پائی جاتی تھی حتی کہ ہماری جماعت’’ فیجی انجمن اہل حدیث‘‘ کے اس وقت کے صدر ممبئی سے قوالوں کو فیجی بلاتے تھے اور وہاں جگہ جگہ قوالی کراتے تھے، وہاں ان کے مقابلے میں کوئی قوال نہ تھا، لیکن الحمد ﷲ ہمارے وہاں جانے کے بعد ان حضرات نے اس سے توبہ کرلی نماز روزہ کی پابندی کا اہتمام پیدا ہوا، تین مسجدیں تعمیر ہوئیں تین اسلامک سنٹر کا وجود ہوا فیجی کے تیرہ افراد نے میرے ساتھ ۱۹۸۰ء میں حج کیا اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا مسلک اہل حدیث کی بابت غلط فہمیاں بہت زیادہ تھیں ان میں بہت کمی آئی اور بہت سے لوگ جماعت اہل حدیث میں داخل ہوئے اور کچھ موافق و ہمنوا ہوئے۔(دیار غیر میں مولانا عبدالسلام رحمانی ص ۲۹۷)
چونکہ مولانا مرحوم کا ذہن دعوتی اور تبلیغی تھا اور آپ امت مسلمہ کو کتاب و سنت کا شیدائی اور عامل دیکھنا چاہتے تھے اسلئے آپ نے دس مرتبہ سعودیہ عربیہ کا اور چھ مرتبہ متحدہ عرب امارات کا اور پانچ مرتبہ کویت کا اور دو مرتبہ پاکستان کا اور ایک مرتبہ بحرین کا سفر کیا اسی طرح فیجی میں قیام کے دوران مولانا مرحوم نے بہت سے ممالک کا سفر کیا دارالافتاء کی طرف سے تین ماہ تک پورے نیوزی لینڈ کا دورہ کیا دوبار امریکہ ایک ایک بار کناڈا، برطانیہ، ہانگ کانگ ، انڈونیشیاوملائشیا و تھائی لینڈ اور ٹوکیو(جاپان) و سنگا پور ، سڈنی تو بہت بار جانا ہوا اسلئے یہ تینوں مقامات مولانا کے راستے میں پڑتے تھے ۔
صحافتی اور تصنیفی و تحقیقی خدمات: مولانا مرحو م نومبر ۱۹۷۲ء سے جون ۱۹۷۸ء تک مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند کے آرگن ترجمان دہلی کے معاون مدیر پھر مدیر رہے اور مرکزی جمعیۃ کی نظامت کے دوسرے دور میں ترجمان کے مدیر مسؤل رہے۔
ترجمان کی ادارت کے دور میں خواہ آپ معاون مدیر رہے ہوں یا مدیر مسؤل آپ نے بہت سے اداریے دعوتی و اصلاحی اور تحقیقی مضامین اور مقالات لکھے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو تدریس و دعوت ،تصنیف و تالیف اور تحقیق کا اچھا ذوق اور عمدہ ملکہ عطا فرمایا تھا۔
آپ نے ’’ تحفۃ الاشراف بمعرفۃ الاطراف للزی ‘‘ کی جلد اول و دوم پر تحقیق و تعلیق اور کتاب ’’الصلوۃ لاحمد بن حنبل‘‘کے ترجمہ اور تعلیقات کے علاوہ درج ذیل کتابیں تالیف فرمائیں جو طبع ہو کر مقبول خاص و عام ہوئیں ۔
۱۔ اسلامی کہانیاں اول ،دوم،سوم،
۲۔ حسن بصری رحمہ اﷲ حالات وملفوظات
۳۔المنکرات فی العقائد والاعمال والعادات
۴۔ محرم الحرام و مسئلہ حسین و یزید
۵۔ ماہ ربیع الاول اور حب رسول کے مظاہرے
۶۔تزئین مساجد کی شرعی حیثیت
۷۔خضاب کی شرعی حیثیت
۸۔ تزین و تجمل کی شرعی حیثیت
۹۔فریضہ امر بالمعروف والنہی عن المنکر
۱۰۔اتباع سنت کا مفہوم کتاب وسنت و اقوال سلف کی روشنی میں
۱۱۔ ضعیف و موضوع روایات اس کا دوسرا ایڈیشن راقم عبدالرؤف خاں ندوی نے شائع کیا
۱۲۔ دیار غیر میں
۱۳۔ بڑے بڑے گناہ
۱۴۔ مکاتیب شیخ الحدیث مبارک پوری بنام مولانا عبدالسلام رحمانی
۱۵۔ ساعتے با اہل دل
۱۶۔ جنوبی ہند کا ایک سفر ۱۹۷۷ء
۱۷۔ تراشے
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور۔ بلرا م پور(یوپی)
بابوفصیح الدین خاں رحمہٗ اﷲ گینسڑی بازار
(تاریخ وفات: ۲۵؍جنوری ۲۰۱۴ء)
کلبۂ افلاس میں دولت کے کاشانے میں موت دشت و در میں ، شہر میں، گلشن میں ویرانے میں موت
موت ہے ہنگامہ آراء قلزم خاموش میں ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں
نے مجال شکوہ ہے نے طاقت گفتار ہے زندگانی کیا ہے اک طوق گلو افشار میں
جناب فصیح الدین خاں مؤسس و بانی صدر مدرسہ خدیجۃ الکبری گینسڑی بازار و سر پرست ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بلرام پور و سابق ناظم اعلیٰ ضلعی جمعیۃ اہل حدیث گونڈہ(بلرام پور) و رکن عاملہ صوبائی جمعیۃ اہل حدیث مشرقی یوپی و رکن مجلس عاملہ ابوالکلام آزاد اسلامک اویکنگ سنٹر نئی دہلی و سابق پردھان گینسڑی اور کئی ایک سرکاری ادارے کے رکن پربندھک اور چیرمین بتاریخ ۲۵؍۲۶؍جنوری ۲۰۱۴ء کی درمیانی شب بوقت پونے ۱۲؍بجے برین ہیمرج کے سبب داعی اجل کو لبیک کہا۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون
یہ خبر ملتے ہی تھوڑی دیر کیلئے سکتہ کے عالم میں رہا ان کا سراپا نظروں کے سامنے آگیا لمبا قد دوہرا بدن گورا رنگ کشادہ پیشانی بڑی بڑی آنکھیں چہرہ پر مکمل داڑھی آواز بلند اور پاٹ دار رفتار میں تیزی سراپا حرکت و نشاط ، عزم وارادہ کے دھنی، معاملہ فہم دور اندیش گفتگو میں علم و فن کی چاشنی سنجیدہ باوقار تجربہ کار یہ فصیح الدین خاں کی شخصیت اور ان کے اوصاف و خصوصیات کی ہلکی تصویر ہے جنھوں نے عمر کے اٹھاسی برس گزارے۔
فصیح الدین خاں کے والد محترم محمد شفیع خاں پنچ کو اﷲ تعالیٰ نے تین لڑکوں سے نوازا تھا جن کے نام بالترتیب درج ذیل ہیں۔
۱۔ رفیع الدین خاں پردھان ۲۔ فصیح الدین خاں پردھان ۳۔ مسیح الدین خاں ایڈوکیٹ بلرام پور
مسیح الدین صاحب کو چھوڑ کر رفیع الدین و فصیح الدین اﷲ کو پیارے ہو چکے ہیں اﷲ تعالیٰ مسیح الدین ایڈوکیٹ بلرام پور کی عمر میں خیروبرکت عطا فرمائے۔ (آمین)
آپ کا نام و نسب یہ ہے فصیح الدین خاں بن محمد شفیع خاں پنچ بن محمد اسحق خاں پنچ بن مخدوم ۱پنچ بن کلو خاں…… بابو فصیح الدین خاں کا آبائی وطن اہل حدیثوں کی مشہور و معروف مردم خیز بستی ہرہٹہ ہے آپ کے پر دادا بابا مخدوم پنچ نہایت نیک مخلص خدا ترس متقی تھے علماء ، بیواؤں ،یتیموں اور تحریک اہل حدیث کے فروغ میں اپنی تجوری کھلا رکھتے تھے آپ کی دعوت و تبلیغ اور کوشش سے شرک و بدعت کا قلع قمع ہواپورے علاقے میں دینداری پھیلی آپ کا نام دور دراز مقامات پر بھی روشن ہو گیا سنت کی سختی سے پا بندی کرتے مجال نہ تھی کہ چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی خلاف سنت کوئی کام کرسکتا جود و سخا میں یکتائے زمانہ تھے۔
آپ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ شہر بلرام پور کے بدعت گڈھ محلہ چکنی میں ایک سلفی مسجد کی اپنے دست مبارک سے بنیاد ڈالی اور اپنے جیب خاص سے مسجد کی تعمیر کراکے اﷲ کے یہاں جنت میں اپنے لئے گھر کا انتظام کرلیا سلفی علماء بہت دنوں تک اس مسجد سے سلفی مشن کو چلاتے رہے اور یہ مبارک سلسلہ تا ہنوز جاری ہے علامہ محمد عبدالرحمن محدث مبارک پوری ۲ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب تحفۃ الاحوذی کا ایک بڑا حصہ اسی مسجد بلرام پور میں مرتب کیا۔
فصیح الدین خاں کی ولادت موضع ہرہٹہ میں ایک زمیندار گھرانے میں ۱۹۲۵ء میں ہوئی آپ کے گھر میں دینی ماحول تھا ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے
۱ مخدوم پنچ ہرہٹہ کے حالات کیلئے راقم کی کتاب کاروان سلف حصہ اول ملاحظہ فرمائیں ۔
۲ علامہ محمد عبدالرحمن محدث مبارکپوریؒ شیخ الحدیث عبید اﷲ مبارکپوری وغیرہم کے حالات راقم کی کتاب کاروان سلف حصہ اول میں ملاحظہ فرمائیں۔(عبدالرؤف خاں ندوی)
تلسی پور ،اترولہ ،بلرام پور ،لکھنؤ کے کالجز س میں تعلیم مکمل کی اپنی ذہانت علمی ذکاوت طبع اور خصوصیات موروثی سے ملکہ تام حاصل کیا موت جب آتی ہے تو اپنے دامن میں غموں اور دکھوں کا طوفان لیکر آتی ہے بعض موتیں ایسی ہوتی ہیں جب اس کا وار کسی ایسے شخص پر پڑتا ہے جو اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں میں بے مثال ہو اور خاص کر جب یہ سانحہ کسی ایسی قوم اور سماج پر بیتے جو پہلے ہی سے قحط الرجال کا مارا ہوا ہو تو ایسی موت قیامت بن جاتی ہے حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں اور محسوس ہونے لگتا ہے کہ زندگی نے ہمیں ٹھگ لیا ہے۔
سال ۲۰۱۳ء ہماری جماعت کے لئے نہایت المناک و غم انگیز سال رہا ابھی چند ماہ پہلے علامہ عبدالحمید رحمانی ۱ چل بسے اس کے بعد علامہ عبدالسلام رحمانی ،مولانا محمد حنیف رحمانی ڈاکٹر حامد الانصاری انجم ،الشیخ عبدالمجید مدنی اکرہرا رحلت فرماگئے یہ ایسی عظیم ہستیاں تھیں جو پوری زندگی دعوت و تبلیغ درس و تدریس تصنیف و تالیف میں گذری یہ علوم اسلامیہ کے پہاڑ تھے ایسی عظیم ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں ایک ایک کرکے رخصت ہو گئے جس کی بنا پر ہماری مجلس سونی ہو گئی :
ع جانے والا گیا داستاں رہ گئی
فصیح الدین خاں کی موت نے حوصلوں کو پست کردیا ہے ہم لوگ ان کی مہربانیوں اور شفیق سایوں سے محروم ہوگئے یہ سطریں لکھتے وقت آنکھیں اشکبار دل مغموم قلم لرزاں ہے ان العین تدمع والقلب یحزن ولا نقول الا ما یرضی ربنا بغراقک لمحزونون
ہر شخص آپ کی جدائی سے مغموم و رنجیدہ ہے موت کے علاوہ اور کوئی مصیبت ہوتی تو اس
۱ علامہ عبدالحمیدرحمانی علامہ عبدالسلام رحمانی ڈاکٹر حامد الانصاری انجم الشیخ عبدالمجید مدنی وغیرہم کے حالات راقم کی کتاب کاروان سلف حصہ دوم میں ملاحظہ فرمائیں (عبدالرؤف خاں ندوی)
کا گلہ اور چارہ سازی بھی ہوتی موت پر کیا گلہ کل من علیہا فان
ان کی وفات سے اس علاقہ کے عوام و خواص اور اہل حدیثوں کو گہرا صدمہ پہونچا ہے ان کے اخلاق کے گرویدہ اور ان کی دینی معلومات اور علم کے قدر دان تھے وہ ایک ذہین و فطین اور حاضر جواب شخص تھے ان کی بیدار مغزی دینی و سیاسی بصیرت اور ملکی حمیت ضرب المثل تھی ان میں کتاب و سنت اور دینی تعلیم و اشاعت کا گہرا جذبہ تھا وہ انتہائی زیرک و معاملہ فہم دانا بینا بے حد دور اندیش مضبوط قوت ارادی اور قوت فیصلہ کے مالک تھے علاقے کے لوگ اپنے معاملات و مسائل کے تصفیہ کیلئے اور اپنے تنازعات کے حل کیلئے ان کے پاس آیا کرتے تھے
بابو فصیح الدین خاں سے راقم کے دیرینہ و مخلصانہ تعلقات تھے یہ سانحہ میر لئے ذاتی حادثہ ہے ان کی حسین یادیں انکی علمی مجالس کی خوشبو، سفر و حضر کے معمولات و سر گرمیاں ،عوام و خواص کے ساتھ عنا یات کریمانہ و برتاؤ اہل علم و علماء کے قدر داں، ان کا اخلاق ۱ ان کی مہمان نوازی ۲
ان کی تعمیری سوچ، ان کی شرافت و نجابت ، معاملہ فہمی، دور اندیشی، صبر و شکر، اور ان کی غیرت و حمیت، ان کی خودداری یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ رہ رہ کر کسی نہ کسی تعلق سے ان کی یادیں ذہن میں تازہ ہوتی رہیں گی ان کی دلاویز شخصیت نگاہوں کے سامنے اپنے سراپا کے ساتھ جلوہ گر ہوتا رہے گا گویا وہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔
۱ فصیح الدین خاں اعلیٰ اخلاق کے حامل تھے اسلام مذہب ہمیں اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اکثر اپنی مجلسوں میں فرماتے تھے کہ اسلام اخلاق سے پھیلا ہے اسلئے ہمیں اپنوں کے علاوہ برادران وطن کے ساتھ بھی حسن اخلاق کا حکم دیاا گیا ہے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ملکی ضمیر کے دروازہ پر اپنے اعلیٰ اخلاق سے دستک دیں اپنی شیریں گفتاری فیاضانہ سلوک ، نرمی ہمدردی، محبت ،رحمدلی اور مزاج پُرسی کے ذریعہ ان کا دل جیتیں ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش نہ آنا بڑی ناانصافی ہے مسلمانوں کے مثبت طرز عمل اور اعلیٰ اخلاق کے ذریعہ عظیم انقلاب لایا جا سکتا ہے اور دعوت کا عظیم کا م انجام دیا جاسکتا ہے۔(بقیہ اگلے صفحہ پر)
داخلی معلومات ہوں یا خارجی، دینی مسائل ہوں یا سیاسی امور، قومی گفتگوہو یا بین الاقوامی بات چیت، ملی مسئلہ ہو یا جماعتی مسئلہ جس موضوع پر گفتگو فرماتے اس کے مالہ و ما علیہ پر سیر حاصل بحث کرتے تھے ان کی ہر بات میں اخلاص جھلکتا قوم و ملت کیلئے بڑا درد رکھتے تھے۔
تعلیم یافتہ ہونے اور زمیندار انہ پس منظر رکھنے کے باوجود اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ میں مسلمان ہوں اور اس ملک میں مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی، معاشی اور سیاسی حیثیت کیا ہے؟ آزادی کے بعد مسلمانوں کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے بارے میں انھیں بڑی فکر دامن گیر تھی اکثر کہا کرتے کہ موجودہ نظام تعلیم سے ہماری زبان تہذیب اور ثقافت ہمارے عقائد و نظریات کو دیو مالائی تعلیم کے ذریعہ مسموم کیا جارہا ہے ۱۸۵۷ء اور اس کے بعد کا ہندوستان مسلمانوں کیلئے بڑا سخت زمانہ تھا جبکہ دہلی اور لکھنؤکے کنوئیں مسلمانوں کی لاشوں سے پٹ گئے تھے مگر آزادی کے بعد اس ملک کے مسلمان جس صورت حال سے دوچار ہیں وہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے کیونکہ غدر کے انقلاب نے صرف انکی جانیں لی تھیں اور آزادی کا انقلاب ان کے دین و
(پچھلے صفحہ کا بقیہ)۲ فصیح الدین خاں کو اﷲ تعالیٰ نے اعلیٰ اخلاق کے ساتھ ساتھ مہمان نواز ی جیسی خوبی سے بھی نوازا تھا آپ کی مہمان نوازی پر ہر ملنے والا رطب اللسان ہے خاص بات یہ ہے کہ آپ کو یہ تمام اوصاف اپنے بزرگوں سے ورثہ میں ملا تھا میں نے بارہا آپ کی زبردست مہمان نوازی کو دیکھا ہے میں نے وہ وقت بھی دیکھا ہے کہ جماعت و جمعیۃ کے تعلق سے علماء کرام اکثر و بیشتر آپ کے در دولت پر تشریف لاتے آپ خندہ پیشانی سے ملتے معانقہ کرتے اور ان مہمانوں کی مہمان نوازی و تواضع کرتے اور ہر طرح مہمانوں کے کھانے پینے سونے کا خاص خیال فرماتے آپ کے یہاں عرصہ سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ رات کا کھانا دیر میں کھاتے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ رات میں آنے والا مسافر یا مہمان بھوکا نہ رہ جائے اسلئے آپ کا معمول تھا کہ رات کی جب دونوں ٹرینیں یعنی گونڈہ سے گورکھپور اور گورکھپور سے گونڈہ والی ٹرینیں آکر چلی جاتیں اس کے کچھ دیر بعد ہی پورا گھر کھانا کھاتا تاکہ آنے والا کوئی مہمان یا مسافر بھوکا نہ رہ جائے۔ (عبدالرؤف خاں ندوی تلسی پور)
ایمان کو چھین رہا ہے ایسی حالت میں ـضلعی جمعیۃ گونڈہ کے پلیٹ فارم سے گاؤں گاؤں میں علم دین کی شمعیں روشن کی گئیں مکاتب و مدارس کا قیام عمل میں آیا ضلعی جمعیۃ نے اس کیلئے دستور العمل و نصاب تعلیم دیا اور پورے ضلع میں مکاتب و مدارس کا جال بچھا دیا معیاری تعلیم کیلئے ضلعی جمعیۃ کی طرف سے آرگنائزر کی تقرری عمل میں آئی انھوں نے کتنی دینی و عصری طلبہ کی فیس اپنی جیب سے ادا کی انھیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا آج کتنے طلبہ ہیں جنھوں نے غربت میں رہ کر ان کے سہارے تعلیم حاصل کی اور اپنا دین و ایمان بھی بچایا اور باوقار منصب پر فائز رہ کر اپنے فرائض بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں یہ ان کیلئے صدقہ جاریہ ہے۔
تقسیم ملک کے بعد ۱۹۵۳ء میں جب آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کی نشاۃ ثانیہ ہوئی اور قائد ملت مولانا عبدالوہاب صاحب آروی و مفکر ملت مولانا عبدالجلیل صاحب رحمانی کی قیادت میں آل انڈیا پیمانہ پر مردم سازی کے بعد جب ملکی پیمانہ پر مقامی ،ضلعی، صوبائی جمعیتوں کی تشکیل عمل میں آئی تو ضلعی جمعیۃ گونڈہ نے باتفاق رائے صدر مولانا محمد اقبال رحمانی اور ناظم اعلیٰ بابو فصیح الدین کو منتخب کیا ، ضلعی جمعیۃ گونڈہ نے افراد جماعت کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور جماعت کے عروج و ارتقاء کیلئے بھر پور جد و جہد کی ہر چھوٹی بڑی میٹنگوں میں شرکت کی آپ کے دور نظامت میں کئی ایک ضلعی کانفرنسیں منعقد ہوئیں ۔ جب نوگڈہ میں تین روزہ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس منعقدہ بابتہ ۱۹۶۱ء میں ہوئی تو نوگڈہ کانفرنس کی کامیابی کیلئے ضلعی جمعیۃ گونڈہ کے اراکین عہدیداران مع صدر و ناظم اعلیٰ کا کئی ہفتوں گھر سے واسطہ نہ رہا۔ الحمد ﷲ نوگڈھ کی یہ کانفرنس تاریخی ومثالی ثابت ہوئی میدان عرفات کا نقشہ پھر گیا تھا ملک کے ایک ایک گوشے گوشے سے لوگ کھینچ کر آگئے تھے شاید چشم فلک نے اس سرزمین پر کبھی ایسا دیکھا ہو آل انڈیا اہل حدیث نوگڈھ کانفرنس کی تاریخی و مثالی عظیم الشان کانفرنس ضلعی جمعیۃ گونڈہ و بستی کی قوت عمل کا مظہر تھا۔
فضیلۃ الشیخ مولانا ابوالعاص وحیدی حفظہ اﷲ کے والد محترم مولانا زین اﷲ ضیغم ۱ نے اس موقع پر ایک لمبی نظم لکھی تھی جس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
ہو مبارک تجھ کو اے نوگڈھ کہ یہ روز سعید تری قسمت میں لکھا کلک ازل نے روز عید
آیا بابر کا زمانہ آیا قطب الدین بھی شیر شاہ سوری بھی گذرا آیا عالمگیر بھی
میری نظروں نے نہیں دیکھا کبھی ایسا سماں مثل نوگڈھ ہند میں یہ سلفیوں کا کارواں
نوگڈھ کانفرنس میں شیخ الاسلام علامہ ثناء اﷲ امرتسریؒ موجود نہیں تھے پہلے ہی ان کی وفات ہو چکی تھی اسی کا اظہار مقطع میں کیا گیا:
دین کے تارے اکٹھے ہیں قمر رخصت ہوا آہ ضیغم! ضیغم پنجاب ہم میں نہ رہا
ضلعی جمعیۃ اہل حدیث گونڈہ کے زیر اہتمام زیر صدارت مفکر ملت مولانا عبدالجلیل رحمانی صوبائی کانفرنس بمقام تلسی پور منعقدہ مارچ ۱۹۶۸ء میں ہوئی جو نظم و نسق ، شرکت علماء و فضلاء نیز سامعین کے اجتماع کثیر کے اعتبار سے نوگڈھ کی آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کی تاریخی و مثالی کانفرنس کے بعد دوسرے نمبر پر تھی اور اس کانفرنس کے بعد ملک گیر پیمانے پر جماعت کی کوئی دوسری کانفرنس آج تک دیکھنے میں نہ آئی ،ضلعی جمعیۃ کی جدوجہد سے ملک کی جماعت کو حرکت و عمل کا پیغام ملا آپ کے دور نظامت میں ضلعی بلرام پور نے تاریخی و مثالی کام کئے جو تاریخ کی محفوظ امانت ہیں آپ ہی کے دور نظامت میں ضلعی جمعیۃ کی عالیشان جامع مسجد پوروہ تلسی پور و آفس ضلعی جمعیۃ و مدرسہ ریاض الاسلام پوروہ تلسی پور (زیر نگرانی ضلعی جمعیۃ بلرامپور) کی عمارت تعمیر ہوئی آپ ضلعی جمعیۃ بلرام پور کے ۴۵ سال ناظم اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے آپ سیاسی بصیرت سے مالا مال تھے اور سیاست میں بھر پور حصہ لیتے تھے ملکی پیمانہ پر مشہور تھے آپ ہر حلقہ میں ہر دلعزیز
۱ مولانا زین اﷲ ضیغم کے حالات راقم کی کتاب کاروان سلف حصہ اول میں ملاحظہ فرمائیں(عبدالرؤف خاں ندوی)
اور محبوب تھے آپ کا شمار علم و دانش حلقوں میں ہوتا تھا سیاست میں مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کے نظریہ کے پُر زور حامی تھے آپ گرام سبھا گینسڑی کے چالیس سال تک پردھان رہے اور کئی سرکاری اداروں کے پر بندھک اور چیر مین تھے۔
آپ کے اندر خاص بات یہ تھی کہ آپ نے کبھی بھی فسطائی پارٹیوں کی حمایت نہ کی بلکہ ہر محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کیا آپ فرمایا کرتے تھے کہ یہ فسطائی پارٹیاں خواہ کتنی ہی ہمدردی کا مظاہرہ کیوں نہ کریں ان سے کسی چیز کی امید نہیں کرنی چاہئے اسلئے وہ ایسے عناصر سے دور رہا کرتے تھے اور ان کے سیاسی نظریات میں ایک اہم نظریہ حب الوطنی کا بھی ہے وہ حب الوطنی کے زبردست مبلغ تھے۔
وہ سیاست میں اقلیت کے کارندہ تھے
اور صف اول میں ملت کے نمائندہ تھے
آپ میں مسلکی غیر ت وحمیت بدرجۂ اتم موجود تھی کتاب و سنت کے خلاف بڑی سی بڑی شخصیت کے قول وعمل کو آپ نے کبھی در خود اعتنا نہیں سمجھا کتاب و سنت کو آپ نے آخری سانس تک اپنا مشن بنائے رکھا یہی وجہ ہے کہ اﷲ کی توفیق اور آپ کی جہد مسلسل اور کاوش پیہم سے کئی لوگوں نے مسلک حق قبول کیا آپ کی اصابت رائے قوت فکر و عمل تبلیغ دین میں جہد مسلسل کا پورا علاقہ قائل و معترف تھا ۔
آپ نے علم و عمل کی دنیا میں آنکھیں کھولیں اور اس کا اثر آپ کی زندگی میں ہمیشہ قدم قدم پر محسوس ہوا ۔ آپ میں سب سے خاص بات یہ تھی کہ آپ ہر کام میں خلوص کار فرما ہوتا ۱۹۹۹ء میں آپ مع اہلیہ محترمہ حج بیت اﷲ کی سعادت نصیب ہوئی ، اﷲ تعالیٰ نے آپ کو علم و مال کی دولت کے ساتھ تین لڑکوں اور ایک لڑکی سے نوازا ہے ۔ بڑے صاحبزادے کا نام شاہد خاں دوسرے صاحبزادے کا نام ڈاکٹر رضی الدین خاں تیسرے صاحبزادے کا نام صلاح الدین خاں اور لڑکی کا نام پروین ہے۔ اﷲ تعالیٰ ان بچوں کو نیک بنائے اور احکام شرع پر چلنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین)
آپ نے ہمیشہ وقار کی زندگی بسر کی اور انتہائی تکریم کے ساتھ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے کسی سے مرعوب ہونا اور کسی کے سامنے جھکنا ان کی خاندانی روایت اور ذاتی فطرت کے خلاف تھا وہ وقار سے رہتے تھے اور اپنے مقام و مرتبہ کو ملحوظ رکھتے تھے ۔
ورق تمام ہوا مدح ابھی باقی ہے
سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کیلئے
وفات: آپ کئی سال سے صاحب فراش تھے دنیا کا سلسلہ اسی طرح چل رہا ہے قانون قدرت یہی ہے جو روز ازل سے چلا آرہا ہے کوئی آیا کوئی گیا یہ دنیا فانی ہے اس میں کسی کو قرار نہیں ہے تمام سلسلے عارضی اور وقتی ہیں موت کے سامنے کسی کابس نہیں چلتا جب فرشتہ اجل آتا ہے سب اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں ،آپ نہایت محبوب شخصیت رکھتے تھے جن سے ایک مرتبہ ملے اسے ہمیشہ کیلئے گرویدہ بنا لیا آپ کی محبوب شخصیت کی شہادت اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ آپ کی صلاۃ جنازہ میں موسم خراب ہونے اور شدید ٹھنڈک کے باوجود کثیر تعداد نے شرکت کی ہر مسلمان جس کا ان کی ذات سے تھوڑا سا بھی تعلق تھا سوئے گینسڑی بازار روانہ ہو گیا اور جنازہ میں ایک جم غفیر امنڈ پڑا لیکن اس جنازہ کی خاص بات یہ تھی کہ ان میں عوامی بھیڑ کے ساتھ علماء خواص اور معززین اور دیندار طبقہ کی اکثریت تھی آپ کی صلاۃ جنازہ فضیلۃ الشیخ ابوالعاص وحیدی حفظہ اﷲ نے بتاریخ ۲۶؍جنوری ۲۰۱۴ء بعد نماز عصر پڑھائی۔ علم و دانش کا وہ نےّر تاباں جو افق ہرہٹہ سے طلوع ہوا تھا وہ سر زمین گینسڑی میں ہمیشہ ہمیش کیلئے غروب ہو گیا بعد نماز عصر سر زمین گینسڑی نے ان کے جسد خاکی کو اپنے آغوش میں لے لیا۔ تغمدہ اﷲ برحماتہ
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مرحوم کی لغزشوں سے درگذر فرمائے اور اپنی رحمت بے پایاں سے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔اور ان کی اولاد و احفاد کو نیک اور صالح بنائے انھیں اپنے دین کی خدمت اور اپنے والد محترم کے نیک کاموں کو جاری رکھنے کیح توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
وہ اک عظیم شخص تھا اور باکمال تھا
اس کی مثال ہو تو کہاں؟ بے مثال تھا
اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ
غمزدہ
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور۔ بلرام پور (یوپی)
۳۱؍جنوری ۲۰۱۴ء
٭٭٭
ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بہرائچ
ایک مختصر تعارف
نگہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے
مدرسہ احمدیہ آرہ بہار کے ۲۲؍۲۳؍ دسمبر ۱۹۰۶ء کے سالانہ مذاکرہ علمیہ کے اجتماع میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کی تاسیس عمل میں آئی اس کانفرنس کے پہلے صدر استاذ العلماء جناب حافظ مولانا عبداﷲ غازی پوری ۱ اور ناظم اعلیٰ فاتح قادیان مناظر اسلام شیخ الاسلام مولاناثناء اﷲ ۲ امرتسری رحمہ اﷲ منتخب ہوئے اور پروگرام کے تحت دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع ہوا دریں اثنا ۱۹۴۷ء
۱ حافظ عبداﷲ غازی پوری کے تفصیلی حالات ناچیز کی کتاب کاروان سلف حصہ اول میں ملاحظہ فرمائیں(عبدالرؤف ندوی)
۲ مدیر اخبار ندائے مدینہ لکھتے ہیں اگر پورے دنیائے اسلام کے اکابر علماء کسی ایک مجلس علمی میں جمع ہوں اور بیک وقت عیسائیوں آریوں،سناتن دھرمیوں، ملحدوں ، نیچروں، شیعوں، منکرین حدیث اوربریلویوں سے غرض ہر فرقہ سے ایک ایک گھنٹہ بحث و مذاکرہ کی نوبت آئے تو عالم اسلام کی طرف سے کون مقابلہ پر آئے گا ؟ چین،پاکستان، بنگلہ دیش، برما، سری لنکا،جزائر جاوا،سماٹر کی طرف سے ایک ہستی پیش ہو سکتی ہے اور وہ شیخ الاسلام علامہ ثناء اﷲ امرتسری رحمہ اﷲ کی ہستی تھی ان کی رحلت کے بعد ہندوستان ، پاکستان کی یہ سربلندی شاید باقی نہیں رہی۔
علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اﷲ رقم طراز ہیں:
موجودہ سیاسی تحریکات سے پہلے جب شہروں میں اسلامی انجمنیں قائم تھیں اور مسلمانوں اور قادیانیوں میں مناظرے ہوا کرتے تھے تو شیخ الاسلام علامہ ثناء اﷲ امرتسری رحمہ اﷲ مسلمانوں کی طرف سے عموماً نمائندہ ہوتے تھے اور اس سلسلہ میں وہ ہمالیہ سے لیکر خلیج بنگال تک رواں دواں رہتے تھے اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف جس نے بھی زبان کھولی اور قلم اٹھایا اس کا حملہ روکنے کیلئے ان کا قلم شمشیر بے نیام(بقیہ اگلے صفحہ پر)
میں تقسیم وطن کے نتیجہ میں اکابرین و کارکنان کانفرنس پاکستان ہجرت کرجانے کی وجہ سے جماعت کی ساری بساط ہی الٹ گئی اور جماعتی شیرازہ منتشر ہو گیا ان حالات میں قائد جماعت مولانا عبدالوہاب آروی کی زیر قیادت کانفرنس دوبارہ متحرک ہوئی اور باضابطہ دعوتی سلسلہ جاری ہو گیا ۱۹۵۷ء میں مرکزی مجلس عاملہ دہلی کی میٹنگ میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا نام بدل کر مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند رکھا گیا اور تا حال اسی نام سے موسوم ہے۔
ہمارا پڑوسی ضلع بہرائچ بد قسمتی سے پچاس سال تک جماعتی و تنظیمی حیثیت سے محروم تھا اتنا لمبا عرصہ گذرجانے کے بعد بھی ضلعی جمعیۃ بہرائچ کی تشکیل عمل میں نہ آسکی تھی اﷲ جانے ہمارے اس وسیع صوبہ میں کتنے ایسے اضلاع ہیں جہاں اب تک جماعتی تنظیم نہیں ہوپائی ہے جماعت کی (پچھلے صفحہ کا بقیہ )ہو تا تھا انھوں نے اسی مجاہدانہ خدمت میں زندگی بسر کردی۔ فجزاہ اﷲ عن الاسلام احسن الجزاء
مرحوم اسلام کے بڑے مجاہد سپاہی تھے زبان و قلم سے اسلام پر جس نے بھی حملہ کیا اس کی مدافعت میں جو سپاہی سب سے آگے بڑھتا وہ وہی ہوتے اﷲ تعالیٰ اس غازی اسلام کو شہادت کے درجات و مراتب عطا فرمائے آمین(ماہنامہ معارف اعظم گڈھ مئی ۱۹۴۸ء)
محترم قاضی محمد عدیل عباسی رحمہ اﷲ تحریر فرماتے ہیں :
قلوب پر فالج گرادینے والے ان لرزہ خیز حالات میں ایک مرد کامل نکلا جو ہمہ صفت موصوف تھا عالم متبحر مفسر ، محدث، واعظ ، مناظر، خطیب، محقق، مفکر ، مردآہن یقین محکم کا مبلغ اور استقلال مزاج کا پیامبر
اگر ہو رزم تو شیران غالب کی مانند وگر ہو نرم تو رہتا غزال تاتاری
اس نے نفرت کا جواب محبت سے تضحیک کا جواب سنجیدگی سے غصہ کا جواب مسکراہٹ سے علم کی پیچیدہ گتھیوں کا جواب تحقیق سے دیا یہ تھے مجدد عصر مبلغ اعظم، محقق اکبر شیخ الاسلام مولانا ابوالوفا ثناء اﷲ امرتسری نور اﷲ مرقدہ اس زمانے کی نئی پود پر ان کا احسان بے پایاں ہے اگر اتنا ہم لوگ اس عالم بیداری میں ایمان و یقین سے بہرہ مند ہیں تو یہ اسی مرد مجاہد کا طفیل ہے اور آنے والی نسلوں پر ان کا احسان بدستور باقی ہے اور قیامت تک رہے گا۔ ( ترجمان دہلی یکم نومبر۱۹۷۱ء)
اس غفلت اور کوتاہی پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے حالانکہ اس ضلع میں چند مخلص افراد جماعت اپنی بساط بھر کتاب وسنت کی ترویج و اشاعت میں سر گرم رہے مولانا محمد یوسف رحمانی جرول بہرائچ کئی سال جامعہ رحمانیہ بنارس میں تدریسی فرائض کے ساتھ تعطیل کلاں میں اپنے علاقہ میں دعوت و تبلیغ بحسن و خوبی انجام دیتے رہے ان کے بھائی مولانا محمد مصطفی صاحب سلفی المسلک تھے متحرک فعال اور مسلکی غیرت و حمیت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی مولانا صلاح الدین نوری ابتداء میں بریلوی مکتب فکر سے وابستہ تھے اﷲ تعالیٰ نے ہدایت دی اور کتاب و سنت کے مطالعہ و تحقیق کے ذریعہ خود ہی مسلک اہل حدیث قبول کیا مولانا نوری صاحب اہل حدیث ہی نہیں بلکہ اہل حدیث گر تھے شرک و بدعت و رد تقلید میں درجن بھر پمفلٹ و کتابچہ لکھ کر اپنے خرچ پر چھپوا کر مفت تقسیم کیا اسی طرح ڈاکٹر محمد عارف صاحب جو ہمارے علاقہ موضع بھلوہیا کے تھے کئی سال سے سرکاری یونانی ا سپتال نانپارہ میں تعینات تھے، کتاب و سنت کی ترویج و اشاعت میں پوری زندگی رواں دواں رہے ان سبھوں کی جدوجہد اور کوششیں قابل قدر ہیں اﷲ تعالیٰ ان مرحومین کو اجر عظیم سے نوازے ۔ (آمین)
قارئین مولانا محمد یوسف رحمانی و مولانا صلاح الدین نوری کا تذکرہ اسی کتاب میں ملاحظہ فرمائیں گے یہ منہج سلف کے امین، جماعت و مسلک کے بے لوث خادم تھے ان نفوس قدسیہ نے شہر بہرائچ جیسے بدعت گڈھ میں توحید و سنت کا چراغ روشن کیا اور آستانہ پرستی مزار پرستی ،شخصیت پرستی ، نفس پرستی ، پیر پرستی غرضیکہ ان تمام پرستاریوں کے خلاف پوری زندگی لڑتے رہے اور گمراہ فرقوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور حملے کا دندان شکن جواب دئیے میں ان نفوس قدسیہ کو اس خدمت کے عوض زبر دست خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو اجر عظیم سے نوازے ان کی لغزشوں کو درگزر فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین)
اب آئیے دیکھیں ان بزرگوں کے بعد یہ عظیم ذمہ داری کن کے کندھوں پر آئی اور انھوں نے اس دینی خدمت کو محض اﷲ کی خوشنودی کیلئے اپنے دوش ناتواں پر اٹھائے ہوئے ہیں اﷲ تعالیٰ اپنے دین کا کام اپنے جس بندہ سے لے لے یہ سعادت حاجی منصور احمد خاں انجینئر کے حصہ میں آئی ، وہ میر کارواں کی حیثیت سے اپنے رفقاء کے تعاون سے اس اہم و عظیم کا م کو سر انجام دے رہے ہیں۔
بحمد اﷲ اس وقت بہرائچ جیسے بدعت گڈھ شہر میں کتاب و سنت کا چراغ روشن ہے ضلعی جمعیۃ اہل حدیث کی تشکیل عمل میں آچکی ہے ضلع کے مختلف مقامات پر مکاتب و مدارس کا قیام اور مقامی جمعیتوں کی تشکیل عمل میں آرہی ہے ضلع کے مختلف مقامات خصوصاً شہر بہرائچ میں کئی سلفی مساجد کی تعمیر ہوئیں اور اس میں امام و موذن کے ساتھ ساتھ پنج وقتہ نماز کے علاوہ نماز جمعہ کا بھی اہتمام کیا گیا شہر بہرائچ میں مدرسہ احیاء السنہ کا قیام بھی عمل میں آیا سچ ہے
عبث ہے عذرراہ پُر خطر اور شکوہ رہبر چٹانیں ٹوٹ جائیں گر کرو عزم سفر پیدا
نقوش راہ منزل خود قدم چومیں گے بڑھ بڑھکر مگر یہ شرط ہے پہلے کرو ذوق سفر پیدا
قارئین ذی کرام اس مخلص انسان کا مختصر تعارف بھی ملاحظہ فرماتے چلیں جن کی رہنمائی میں اس وقت یہ سارے عظیم کام بحسن و خوبی انجام پا رہے ہیں اسم گرامی منصور احمد خاں ہے سراپا مخلص دین کا سچا خادم ،کتاب و سنت پر شیدا ، پختہ سلفی المسلک حاجی منصور احمد خاں ۱۹۴۷ء میں موضع دیالی پور پوسٹ تلسی پور بلرام پور یوپی میں پیدا ہوئے علم و عمل کی دنیا میں آنکھیں کھولیں ،دیندار گھرانہ تھا ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسہ میں حاصل کی ۱۹۶۴ء میں ہائی اسکول پاس کیا اور ۱۹۶۶ء میں انٹر میڈیٹ کیا ۱۹۶۹ء میں الکٹرک انجینئرنگ میں لکھنؤ سے ڈپلومہ کیا سرکاری سروس کا آغاز لکھنؤ سے کیا تین سال لکھنؤ رہے لکھنؤ سے رائے بریلی کے لئے ٹرانسفر ہوا وہاں سات سال رہے پھر ۱۹۷۹ء میں بہرائچ کیلئے پرموشن ہوا، پھر ایس ڈی او کی جگہ پر ٹرانسفر ہوکر بہرائچ آگئے اور اے ای رنیو کا چارج لیا ۳۱؍جولائی ۲۰۰۵ء کو بہرائچ سے ریٹائر ہوئے ۱۹۸۸ء میں اپنا ذاتی مکان شہر بہرائچ میں پولیس لائن روڈ ایس پی بنگلہ کے سامنے تعمیر کرایا اور یہی مکان دینی ملی جماعتی و مسلکی کا موں کا سبب بنا، انجینئر صاحب بیان کرتے ہیں کہ بہرائچ کے قیام کے دوران ہمارے بہت سے سروس پیشہ بھائی جن کے آباء و اجداد سلفی المسلک تھے لیکن دینی تعلیم سے ناواقفیت اور صحبت کے اثر سے شرک و بدعت میں سر سے پیر تک ڈوب گئے یہ افسوس ناک لرزہ خیزحالات دیکھ کر میں بیحد پریشان تھا اور ہر وقت اپنے ساتھیوں کی گمراہی پر آنسو بہاتا رہا اﷲ تعالیٰ سے اپنے ان بھائیوں کیلئے خلوت میں روتا گڑگڑاتا اور کہتا اے میرے اﷲ میرے ان بھائیوں کو ہدایت دے جو راستہ سے بھٹک گئے ہیں اور انھیں صراط مستقیم پر چلا انجینئر صاحب بیان کرتے ہیں ان دنوں میرا اکثر دہلی جانا ہوتا تھا کیونکہ میرے بڑے لڑکے ڈاکٹر عبداﷲ جامعہ ملیہ دہلی میں زیر تعلیم تھے اور جب بھی دہلی جانا ہوا تو مولانا عبدالحمید رحمانی رحمہ اﷲ کا مہمان ہوتا ایک دفعہ مولانا رحمانی رحمہ اﷲ سے بہرائچ کی صورت حال پر تفصیلی گفتگو ہوئی آپ نے فرمایا بہرائچ جاکر کم از کم دو ایکڑ زمین تلاش کریں میں بہرائچ آکر زمین کی تلاش میں لگ گیا کافی دوڑ بھاگ اور تلاش پر الحمد ﷲ سات بیگھہ زمین مل گئی رحمانی صاحب کو اطلاع دی آپ نے مسرت و اطمینان کا اظہار فرمایا آپ نے مجھے حکم دیا کہ پہلی فرصت میں جاکر شیخ صلاح الدین مقبول احمد مدنی سے ملاقات کرلیں حُسن اتفاق اس وقت وہ اپنے گاؤں اونرہوا ہیں میں رحمانی صاحب کے حسب ارشاد اونرہوا شیخ صاحب کے دولت کدہ پر حاضر ہوا شیخ صلاح صاحب سے ملاقات ہوئی سلام کے بعد میں نے عرض کیا مجھ کو رحمانی صاحب نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے آنے کا مقصد ضروری کاغذات مدرسہ احیاء السنۃ کے رجسٹریشن کے کاغذات اور مدرسہ کی زمین کی بابت مالک زمین سے جتنے پر سودا ہوا تھا ساری باتیں تفصیل سے شیخ صلاح صاحب کے گوش گذار کیں اور شیخ صلاح صاحب سے درخواست کی کہ وقت نکال کر کسی روز بہرائچ آکر مدرسہ کی زمین اور محل وقوع دیکھ لیں شیخ صاحب نے وعدہ فرمایا میں انشاء اﷲ جلد ہی آؤں گا ، شیخ صاحب حسب وعدہ بہرائچ تشریف لے گئے اور موقع کا معائنہ کیا مسرت و اطمینان کا اظہار فرمایا اﷲ تعالیٰ کی مہربانی اور اس کی توفیق اور شیخ صلاح الدین مقبول احمد مدنی حفظہ اﷲ کی توجہ خاص سے زمین کی خریداری کا مسئلہ بحسن و خوبی حل ہوگیا مدرسہ احیاء السنۃ کی باڈی اس سلسلہ میں بے حد پریشان و فکر مند تھی اﷲ تعالیٰ نے اس مسئلہ کو حل کردیا اس پر اﷲ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
مدرسہ احیاء السنۃ کی زمین رجسٹری ہو جانے کے بعد مدرسہ کی باڈی نے اپنے تعلقات اور اثر و رسوخ کے ذریعہ مدرسہ احیاء السنۃ بارہ پتھر محلہ رائے پور راجہ جیل روڈ بہرائچ پر مدرسہ کی تعمیر پھراس کے بعددارالاقامہ کی عمارت کھڑی کردی، اس کے بعد مسجد احیاء السنۃ کی تعمیر بھی ہو گئی باصلاحیت تجربہ کار مدرسین کی تقرری عمل میں آئی مطبخ کا قیام عمل میں آیا تعلیم کا آغاز ہو گیا مدرسہ میں چہل پہل اور رونق آگئی اس بنجر زمین پر بہار ہی بہار آگئی۔ قال اﷲ و قال الرسول کی صدائیں گونجنے لگی۔
واضح رہے کہ مدرسہ احیاء السنۃ کا قیام ۱۹۸۵ء میں عمل میں آیا دس سال بعد ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بہرائچ کا قیام ۲۰۰۶ء میں عمل میں آیا۔
اسمائے گرامی مع عہدیداران بشمول مجلس منتظمہ ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بہرائچ
۱۔ حاجی منصور احمد انجینئر امیر جماعت اہل حدیث بہرائچ
۲۔ حاجی زین العابدین نائب امیرضلعی جمعیۃ اہل حدیث بہرائچ
۳۔حاجی شیخ واجد علی نائب امیرضلعی جمعیۃ اہل حدیث بہرائچ
۴۔حاجی لیاقت علی انصاری ناظم اعلیٰ ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بہرائچ
۵۔ مولانا مشتاق احمد محمدی نائب ناظم ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بہرائچ
۶۔ حاجی مسعود علی خاں نائب ناظمضلعی جمعیۃ اہل حدیث بہرائچ
۷۔ حاجی امیر علی انصاری خازن ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بہرائچ
اسمائے گرامی ممبران مجلس شوریٰ ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بہرائچ
۱۔ عبدالسلام جرول ۲۔ ڈاکٹر محمد ےٰسین نانپارہ
۳۔ ڈاکٹر نیاز احمد انصاری ۴۔ڈاکٹر احسن بہرائچ
۵۔محفوظ علی خاں بہرائچ ۶۔محفوظ احمد خاں
۷۔ محسن خاں بہرائچ ۸۔ مولانا عبداﷲ سلفی جرول
۹۔ مقیط انصاری نانپارہ ۱۰۔ڈاکٹرشمس الدین بہرائچ
۱۱۔ نوشاد احمد ۱۲۔ عبید انصاری
۱۳۔محمد ایوب ۱۴۔ ماسٹر عبدالحفیظ
۱۵۔ محمود مستری
ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بہرائچ کی مساجد
۱۔ مسجد احیاء السنۃ بارہ پتھر جیل روڈ بہرائچ
۲۔ مسجد اہل حدیث درگاہ بہرائچ
۳۔ جامع مسجد ابو بکر محلہ ناظر پورہ بہرائچ
۴۔ جامع مسجد عمر نانپارہ بائی پاس نانپارہ
۵۔ مسجد محمدی نانپارہ
۶۔ مسجد اہل حدیث کٹرہ جرول
۷۔ مسجد اہل حدیث توحید پٹی کمال پورہ فخر پور بہرائچ حاجی زین العابدین کے گاؤں
۸۔ مسجد اہل حدیث بنڈوھیا ڈاکٹر نیاز احمد انصاری کے گاؤں
ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بہرائچ کے مدارس
۱۔ مدرسہ احیاء اسلنۃ بارہ پتھر جیل روڈ بہرائچ ۲۔ مدرسہ سلفیہ درگا ہ بہرائچ
۳۔ مدرسہ پلسری باغ ۴۔ مدرسہ یوسفیہ سلفیہ کٹرہ جرول
۵۔ مدرسہ اسلامیہ جرول
ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بہرائچ کی تشکیل کے فوراً بعد عہدیداران و ممبران انتہائی بے سرو سامانی کی حالت میں ممبر سازی و افراد کو جماعت سے جوزنے کیلئے ضلع کے قصبات و مواضعات میں طوفانی دورے کئے جلسے اور میٹنگیں کیس اور پیش آمدہ مسائل و مشکلات کا کس عزم و حوصلہ ثبات و استقامت اور صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا وہ اخوان جماعت کیلئے لمحۂ فکریہ ہے ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بہرائچ کی درخواست پر اکثر و بیشتر ڈاکٹر نعمت اﷲ شنکر نگری مولانا زبیراحمد عبدالمعبودمدنی ، قاری عطاء الرحمن شنکر نگری مولانا عبداﷲ اونرہوی وغیرہ دعوتی و تبلیغی پروگرام میں اپنا قیمتی وقت صرف کرتے رہے یہ سبھی لوگ قابل قدر ہیں جن کی مساعی جمیلہ سے بہرائچ میں کتاب و سنت کا بول بالا ہوا ضرورت ہے کہ دعوت و تبلیغ کا دائرہ وسیع کیا جائے۔
کسی بھی منظم کام کیلئے آفس کا ہونا انتہائی ضروری ہے جہاں سے ہر حرکت و عمل کی نگرانی کی جا سکے جہاں پر ہر جدوجہد کے خاکے تیار ہوں منزلیں متعین کی جائیں اور جہاں بیٹھ کر کاموں کا جائزہ لیا جائے اور اس کے راستے اور طریق کار کی کھوج کی جائے۔
ضرورت ہے کہ پورے ضلع میں کتاب و سنت کا پیغام پہونچایا جائے اور ضلع کے گاؤں گاؤں میں مقامی جمعیتوں کی تشکیل عمل میں لائی جائے پورے ضلع میں دینی مکاتب و مدارس کا جال پھیلا یا جائے رسم و رواج کی بیخ کنی ہو اصلاحی و دعوتی لٹریچر پمفلٹ کتابچہ کی اشاعت ہو اگر ایسا ہو جائے تو پورے ضلع کی جماعت ایک مربوط نظام کے تحت آجائے گی۔ انشاء اﷲ
ارباب جمعیۃ بہرائچ کی خدمت میں مخلصانہ درخواست ہے کہ دینی تعلیم کی طرف بھر پور توجہ دیں ملک کے اندر جتنے بھی مکاتب مدارس جامعات ہیں وہ دینی قلعے ہیں جن کی خدمات سے ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا اسلام مخالف طاقتیں ہر ممکن طریقہ سے مدارس کو مطعون کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور بالخصوص مشرقی یوپی کے مدارس ان پروپیگنڈے کا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال رحمہ اﷲ کے اس حقیقت آفریں تبصرے سے مدارس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اس لئے ملت اسلامیہ کے ہر فرد کو اپنے بچوں اور بچیوں کی دینی تعلیم کی طرف بھر پور توجہ دینی چاہئے۔ علامہ اقبال رحمہ اﷲ لکھتے ہیں :
’’ ان مکتبوں اور مدرسوں کو اسی حالت میں رہنے دو غریب مسلمانوں کے بچوں کو انھیں مدرسوں میں پڑھنے دو اگر یہ ملّا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں ہندوستان کے مسلمان ان مدرسوں سے اگر محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح ہو گا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کے باوجود غرناطہ، قرطبہ، اور الحمراء کے کھنڈر اور ان کے نشانات کے سوا اسلام پیرؤں اور اسلامی تہذیب کے اثر کا کوئی کشش نہیں ملتا ، اسی طرح ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دہلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا‘‘ (اوراق گم گشتہ ص : ۳۷۹)
حاجی منصور احمد خاں اور ان کے رفقاء کی یہ بہت بڑی خدمت دین ہے کہ ان لوگوں نے بہرائچ میں اپنا خون جگر جلایا اور سات بیگھہ زمین میں مسجد مدرسہ دارالاقامہ کی عمارت کھڑی کردی اور متعدد با صلاحیت تجربہ کار مدرسین کی خدمات حاصل کیں نہایت خوش قسمت وہ مقام ہے جہاں قال اﷲ وقال الرسول کی روح پرور صدائیں بلند ہو رہی ہیں انتہائی عالی بخت ہیں یہاں کے لوگ جو اس سلسلہ کو قائم رکھنے کے لئے پوری محنت کررہے ہیں ،بے حد قابل ستائش ہیں یہ لوگ جو جماعت و مسلک کی جڑیں مضبوط کررہے ہیں بدرجہ غایت مستحق اکرام ہیں یہاں کی مجلس منتظمہ و شوریٰ جنھوں نے جماعت مسلک اور مدرسہ احیاء السنۃ اور ضلع کے دوسرے مکاتب و مدارس کی خدمت کو اپنا نصب العین قرار دے رکھا ہے یہ صدقہ جاریہ ہے جس کا اجر بارگاہ الٰہی سے انھیں ہمیشہ ملتا رہے گا۔
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کی زندگیوں میں برکت پیدا کرے ان کے اعمال خیر کے دائرے کو زیادہ سے زیادہ وسعت عطا فرمائے اور دنیا و آخرت میں اﷲ تعالیٰ انھیں کامرانی سے نوازے۔ (آمین)
رواں دواں یونہی رہتا ہے زندگی کا سفر
ہزاروں درد کے موسم گذرتے رہتے ہیں
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور۔ بلرام پور (یو پی)
۱۷؍فروری ۲۰۱۴ء
٭٭٭
انمول کتاب
تاریخ شاہد ہے کہ ملت اسلامیہ روز اول سے ہی اپنوں اور غیروں کا سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی زد میں رہی ہے لیکن ہر دور میں کچھ ایسے راسخ العقیدہ صاحب ایمان اور علمائے حق کا وجود رہا ہے جنھوں نے راہ حق میں آنے والی ہر رکاوٹ اور ہر فتنے کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ اس کا سر قلم کرکے اسلام کا علم بلند کیا لیکن افسوس کہ آج کے بعضـ مسلمانوں کی اصل شریعت کتب و سنت نہیں ہے بلکہ خو دساختہ شریعت ہے کیونکہ آج مادے اور معدے کی مسرفانہ ضرورتوں نے ہر طرح سے اسلام کی بنیاد ہلا کر رکھ دی ہے افسوس کہ موجودہ حالات میں اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف اٹھنے والے فتنوں اور سازشوں کے خلاف سینہ سپر ہونے والے مخلص طبقے کا وجود نا پید نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ بلا کسی روک ٹوک عرب و عجم غیروں سے کہیں زیادہ اپنوں کی آشفتہ سری کا آشوب بن گیا جو پچھلے وقتوں کے حالات بد سے بھی بدتر ہے کتنی سچی اور حقیقت پسند بات علامہ اقبال رحمہ اﷲ نے کہی ہے کہ
تمدن تصوف شریعت کلام بتان عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی یہ امت روایات میں کھو گئی
آج کے ناگفتہ بہ حالات میں ملت کے لئے سب سے بڑی شرمناک بات یہ ہے کہ ہمارے علماء کی کثیر تعداد ایسی ہے جنھوں نے شریعت اسلامیہ کو ایک نفع بخش انڈسٹری قرار دے رکھا ہے جس کی وجہ سے جابجا شریعت کی دوکانیں کھل گئی ہیں قابل غور بات یہ ہے کہ اس کاروبار سے ہمارے نام نہاد اور کاروباری علماء سے کہیں زیادہ اسلام دشمن طاقتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں ، حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ دین محمدی کے سوداگروں نے کھلے عام شریعت اسلامیہ کا جنازہ اٹھا رکھا ہے اور علمائے حق صم بکم عمیبنے بیٹھے ہیں یا اپنے گھروں میں منہا خلقناکم و فیہا نعیدکم کا ورد کرنے پر مجبور پا رہے ہیں، قابل مبار باد ہیں محترم جناب مولانا عبدالرؤف خاں ندوی حفظہ اﷲ جنھوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور محنتوں سے ایک ایسی جامع مدلل مستند کتاب تصنیف فرمائی جس سے ان تمام دوکانوں کا پردہ فاش ہو جاتا ہے جہاں دین اسلام اور شریعت اسلامیہ کی بیخ کنی کے سودے کئے جاتے ہیں۔
مولانا عبدالرؤف خاں ندوی حفظہ اﷲ کی تصنیف ’’خانہ ساز شریعت اور آئینہ کتاب و سنت‘‘ ایک ایسی معرکۃ الآراء کتاب ہے جس میں شریعت کی منافی باتیں ہوں یا روز مرہ آنے والی بدعات سبھی کو جمع کردیا گیا ہے جسے پڑھ کر ایک عام قاری بھی اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ ہمارا دین کتنا سیدھا سادہ اور سچا دین ہے اور ہمارے نام و نہاد و علماء سوء نے اپنے اپنے مفادات کی خاطر اسے کتنا پیچیدہ اور گمراہ کن بنا دیا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعصب کی عینک اتار کر اور صاف سچے دل و دماغ سے صاحب کتاب کے قرآن و حدیث اکتساب و استدلال پر غور و فکر سے کام لیا جائے ۔ توقع ہے کہ حق پسند لوگوں میں اس انمول کتاب کی پذیرائی ہوگی۔
اس کے علاوہ مولانا ندوی حفظہ اﷲ کی کئی ایک اہم علمی و تحقیقی کتابیں مطبوع ہیں جو قابل مطالعہ ہیں ۔ اس کتاب کی تصنیف پر میں مولانا ندوی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اور دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مولانا ندوی کی عمر میں خیر و برکت عطا فرمائے اور موصوف کی دینی خدمت کو شرف قبولیت سے نوازے۔ (آمین)
جلال الدین اسلم
قومی آواز دہلی
(آج کی حکومت ویکلی دہلی تاریخ اشاعت ۱۳؍نومبر ۲۰۱۱ءایڈیٹر نوشاد احمد سلفی )
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔