پیر، 12 فروری، 2018

کاروان سلف حصہ دوم

0 comments
Click on Title to download
Click to Download


فہرست مرحومین بہ ترتیب تاریخ وفات 
کاروان سلف حصہ دوم 

حرفے چند
تقدیم
برصغیر میں علمائے اہل حدیث کی مساعی جمیلہ
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
رجال اہل حدیث کا ایک وقیع مرقع 


مولانا عبدالحلیم شرر لکھنوی            ۲۶؍دسمبر ۱۹۲۶؁ء

شمس العلماء مولانا حفیظ اﷲ اعظمیؔ    ۵؍دسمبر ۱۹۴۳؁ء

مناظر اسلام مولانا عبدالرحمن ڈوکمی        ۱۹۵۲؁ء

مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی ۱۹۵۹؁ء

حاجی عبدالقیوم پنچ بجوا کلاں    ۱۹۶۳؁ء

علامہ عبدالمتین بنارسی    ۲۷؍ مارچ ۱۹۶۴؁ء

مولاناسید ابوالخیر برق حسنی لکھنوی ۲؍جنوری ۱۹۷۰؁ء

ادیب العصر علامہ عبدالمجید الحریری بنارسی     دسمبر ۱۹۷۲؁ء

مولانا سید ممتاز علی کرتھی ڈیہہ    یکم فروری ۱۹۷۳؁ء







 مرحومین                         تاریخ وفات                                 
Cشیخ الحدیث مولانا عبدالسلام بستوی    فروری ۱۹۷۴؁ء

مولانا زین اﷲ گونڈوی  ۱۹۷۵؁ء

حکیم جمیل احمد اٹوا بازار ۱۰؍جولائی۱۹۷۵؁ء

مولانا عبدالعظیم بستوی اکرہرا    ۲۹؍اکتوبر ۱۹۷۷؁ء 

حاجی عبدالغفور دریا آبادی    ۱۹۷۷؁ء

مولانا محمد احمد ناظم مؤی    ۲۴؍فروری ۱۹۸۲؁ء

مولانا سید اقبال حسین ریواں ۱۴؍فروری ۱۹۸۶؁ء

مولانا محمدحنیف ہاتف بیت نار    ۱۵؍مارچ۱۹۹۰؁ء

پروفیسر قمر حسین فاروقی علی گڈھ ۱۹۹۲؁ء

چودھری محمد ےٰسین بسنت پور ۱۳؍مارچ ۱۹۹۲؁ء

مولانا ابو علی اثری اعظمی ۳۰؍جون ۱۹۹۳؁ء

محمد صغیر سالار تلسی پور ۱۱؍نومبر ۱۹۹۳؁ء

قاری حافظ مولانا عبید الرحمن بنارسی  ۱۹۹۴؁ء

مولانا قاری عبدالمنان اثری شنکر نگری ۲۲؍فروری۱۹۹۵؁ء

مولانا محمد یوسف رحمانی بہرائچی ۲۶؍جون ۱۹۹۵؁ء

مولانا زین اﷲ رحمانی طیبی ۱۹؍جولائی ۱۹۹۶؁ء

مولانا حافظ نذیر احمد بستوی و قنوجی ۱۰؍اکتوبر ۱۹۹۶؁ء

مولانا مفتی حبیب الرحمن فیضی مؤی ۳۰؍نومبر ۱۹۹۶؁ء


 

!۱۶؍اکتوبر ۱۹۹۷؁ء

یکم جولائی ۱۹۹۸؁ء

۱۲؍اگست ۱۹۹۸؁ء

۳۱؍جنوری ۱۹۹۹؁ء

یکم فروری ۱۹۹۹؁ء

۲۴؍اپریل ۲۰۰۰؁ء

۵؍اگست ۲۰۰۰؁ء

۱۸؍اگست۲۰۰۰؁ء

۲۰؍مئی ۲۰۰۱؁ء

۲۸؍جون ۲۰۰۱؁ء

۳۱؍جولائی ۲۰۰۱؁ء

۲۴؍جنوری ۲۰۰۴؁ء

 ۲۰۰۴؁ء

۲۷؍اپریل ۲۰۰۵؁ء

۳۰؍اگست ۲۰۰۵؁ء

۲۶؍اپریل ۲۰۰۶؁ء

۲۰؍اگست ۲۰۰۷؁ء

۱۷؍مارچ ۲۰۰۸؁ء

 ۱۰؍نومبر ۲۰۰۸؁ء

۱۷؍جنوری ۲۰۰۹؁ء
۲۰؍مئی ۲۰۰۹؁ء
۴؍ستمبر ۲۰۱۰؁ء
۳؍دسمبر ۲۰۱۰؁ء
یکم جون ۲۰۱۱؁ء
۱۱؍مارچ ۲۰۱۲؁ء
۱۸؍اپریل ۲۰۱۲؁ء
۲۳؍مئی ۲۰۱۲؁ء
۱۷؍فروی ۲۰۱۳؁ء
۷؍مارچ ۲۰۱۳؁ء
۲۸؍جولائی ۲۰۱۳؁ء
۲۰؍اگست ۲۰۱۳؁ء
۲۷؍نومبر ۲۰۱۳؁ء
۲۹؍دسمبر ۲۰۱۳؁ء
۲۵؍جنوری ۲۰۱۴؁ء

مولانا صبغۃ اﷲ ندوی ٹیسم

مولانا عبدالشکور دور صدیقی بیت نار

مولانا عبدالمعبود فیضی کنڈؤ

مولانا عبدالصبور رحمانی اکرہرا

حافظ محمد عباس بنارسی 

مولانا محمد امین اثری مبارکپوری

محمد طالب تلسی پور

مولانا عبدالرزاق صدیقی بیت نار

مولانا قطب اﷲ ندوی رحمانی ملگہیا

مولانا صلاح الدین نوری بہرائچی

مولانا امر اﷲ عارف سراجی

حکیم عبید اﷲ رحمانی رائے بریلوی 

مولانا عبدالرحمن رحمانی تھارو بھوجپور

مولانا عزیز احمد ندوی علی گنج بونڈھیار

مولانا شکر اﷲ فیضی ٹکریاوی

حاجی اشفاق احمد وزیری ایڈوکیٹ بھدوہی

مولانا محی الدین ندوی تلسی پور

مولانا محمد عمر سلفی انتری بازار 

 مولانا محمد خلیل رحمانی ٹکریاوی

فضاابن فیضی مؤی
حاجی مشتاق احمد انصاری بھدوہی
ماسٹر مقصود احمد تنہا انقلابی دیالی پور
مولانا سید تجمل حسین منگل پوری مہراج گنج
مولانا سلیم الدین مدنی محمد نگر
ڈاکٹر محمد یونس ارشد بلرام پوری 
ماسٹر محمداسماعیل انصاری سیکھر پوری
حاجی شفیع اﷲ خاں کٹیا بھاری
ڈاکٹر حامد الانصاری انجم
مولانا عابد علی مدنی کواپور
حاجی عبدالرشید (ظہیر خاں) بجوا کلاں
علامہ عبدالحمید رحمانی دہلی
مولانا عبدالمجید مدنی اکرہرا
علامہ عبدالسلام رحمانی کنڈؤ بونڈھیار
بابو فصیح الدین خاں گینسڑی

 



ضلعی جمعیۃ اہل حدیث بہرائچ ایک مختصر تعارف

انمول کتاب

-بسم اﷲ الرحمن الرحیم

حرفے چند 


نحمدہٗ ونصلی علٰی رسولہٖ الکریم امابعد: 
کاروان سلف (حصہ دوم) قارئین ذی احترام کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے اﷲ کے حضور سجدۂ شکر بجا لاتا ہوں،یہ اسی کا فضل و کرم ہے کہ اس نے ایک طویل ، صبر آزما لیکن انتہائی خوشگوار کام کو مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی ، اس سے قبل مشرقی یوپی سے تعلق رکھنے والے ممتاز علمائے اہل حدیث اور بعض سلفی العقیدہ شخصیات کی حیات و خدمات پر مشتمل کتاب’’کاروان سلف‘‘(حصہ اول) اہل علم کی خدمت میں پیش کی جا چکی ہے ، الحمد ﷲ عوام و خواص ،علماء اور طلبہ نے ہماری امید سے کہیں زیادہ اسے پذیرائی بخشی اور اسے جماعت کی تاریخ کا ایک اہم حصہ قرار دیا ۔ آج اسی کتاب کا دوسرا حصہ جو اسی دیار کے علمائے اہل حدیث اور دیگر سلفی شخصیات کے تذکرے پر مشتمل ہے، پیش کرتے ہوئے دلی مسرت محسوس کر رہا ہوں اور اﷲ کا شکر ادا کرتا ہوں ، یہ سعادت محض اﷲ کی توفیق کا نتیجہ ہے ورنہ ؂ 
کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ 
اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے رجال امت کی حیات ، اوصاف اور کمالات کا تعارف کرانے اور ان کے شخصی خاکے پیش کرنے کا با برکت سلسلہ محدثین کرام نے شروع فرمایا تھا اور سوانح نگاری کو ایک فن کی شکل دینے کا اعزاز انھیں کو حاصل ہے ۔ آج سیرت طیبہ ، سیرت اصحاب رسول، سیرت تابعین و تبع تابعین اور دیگر راویان حدیث کا جو عظیم اور بے مثال سرمایہ ہمارے پاس محفوظ ہے، یہ محض محدثین عظام کی مساعی جمیلہ کا ثمرہ ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری کے جملہ اصول و آداب انھوں نے مقرر فرمائے جن کی رعایت اس شعبہ علم میں کام کرنے والا ہر شخص آج بھی کرتا ہے۔ 
ملت اسلامیہ کی محترم اور ذی علم شخصیات دنیا میں امت مسلمہ کی مشترک میراث اور اس کی امانت ہیں۔ آنے والی نسلوں کو ان کے علم اور تجربات سے فائدہ پہونچانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی زندگی کے ورق ورق اور ان کی حیات کے ایک ایک نقش کی حفاظت کی جائے، اس سلسلے میں کوتاہی اور غفلت برتی گئی تو یہ ایک ایسا زیاں ہوگا جس کی تلافی کسی صورت ممکن نہیں ہے، زندگی کے مختلف شعبوں میں سر گرم شخصیات کی حیات اور حالات زندگی پر ہماری نظر ہونی چاہئے تاکہ ان کی خدمات اور کارناموں کو قلم بند کیا جاسکے اور ملت کو ان سے سیکھنے اور ان کی زندگی سے عبرت حاصل کرنے کاموقع فراہم کیا جاسکے۔ 
اگر ہمارے رفقائے جماعت بھی اپنے اسلاف کی روایت قائم رکھتے ہوئے اس طرف توجہ مبذول فرمائیں تو یہ ان کی عظیم ملی اور جماعتی خدمت ہوگی، خاموش انداز میں اپنے اپنے شہروں،قصبات اور دیہاتوں میں دعوت و ارشاد کا جاں گسل فریضہ انجام دینے والی بہت سی شخصیات سے ہم متعارف ہی نہیں ہو پاتے ہیں اور ان کے علم اور تجربات سے استفادے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی ہے۔ اﷲ والے شور اور ہنگامے سے دور گوشہ تنہائی میں اپنا کام کرتے رہتے ہیں، کاش اس طرح کی تمام شخصیات کو ہم سوانح کی کسی کتاب کا حصہ بنا پاتے اور ان کے تذکرے کتابوں میں محفوظ کردیتے ، دعوت حق سے وابستہ اگر ان مایہ ناز ہستیوں کی کاوشیں نہ ہوتیں تو سنت رسول کی عطر بیزی سے اسلامی معاشرہ معطر نہ ہوتا ، ایک بے جان جسم کی طرح یہ دین بے وقعت رہتا اور ظلمت و ضلالت کا ہر جگہ دور دورہ ہوتا، ان کی خدمات جلیلہ امت کیلئے مشعل راہ ہے ، یہ ہماری اسلامی تاریخ کا وہ روشن باب ہے جو قیامت تک یوں ہی جگمگاتا رہے گا ؂
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
اﷲ تعالیٰ اپنے ان مخلص اور محبوب بندوں کو اپنی رحمتوں کے سائے میں جگہ دے، ان پر اپنا انعام فرمائے اور راقم الحروف کو بھی ان کی رفاقت عطا فرمائے۔(آمین)
ہماری جماعت کے اپنے افراد تاریخ اہل حدیث سے متعلق زیادہ معلومات نہیں رکھتے اور نہ علمائے اہل حدیث کی ہمہ جہت خدمات، ان کی قربانیوں اور ان کی مساعی جمیلہ کی تفصیلات سے انھیں واقفیت ہے، اس بارے میں کوئی دلچسپی بھی کہیں نظر نہیں آتی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے اپنے ان اسلاف کے زریں کارناموں اور ان کی روشن تاریخ کو فراموش کردیا ہے جنھوں نے برصغیر کی آزادی کی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کیلئے اپنا سب کچھ قربان کردیا ، یہ انھیں نفوس قدسیہ کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم آزاد ہیں اور ایک آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں ، ہماری جماعت کے عظیم بزرگ صحافی عبدالقدوس اطہر نقوی صاحب حفظہ اﷲ لکھتے ہیں:
’’ غیروں کو تو جانے دیجئے خود اہل حدیث اور ان کی نئی نسل اس تاریخی حقیقت سے کہاں تک واقف ہیں کہ بر صغیر ہند میں سب سے پہلے انگریزی استعمار کے خلاف مسلح جہاد اہل حدیثوں نے کیا، ۱۸۲۶؁ء میں انھوں نے جہاد کا آغاز کیا اور ۱۹۴۷؁ء تک ان کی یہ سر فروشانہ تحریک کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی، ہم یہ تو جانتے ہیں کہ نیتا جی سبھاس چندر بوش نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ۴۳ ، ۱۹۴۲؁ء میں جاپان کی مدد سے انگریزوں کے خلاف جنگ کی اور انڈین نیشنل آرمی بنائی لیکن اس سے سواسو سال پہلے شاہ اسماعیل شہید(ولادت:۱۷۷۹؁ء۔شہادت:۱۸۳۱؁ء) اور سید احمد شہید رائے بریلوی(ولادت: ۱۷۷۲؁ء ۔شہادت: ۱۸۳۱؁ء) نے انگریزوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے ۔ ویر ساورکر جو ہندوتو انقلابی تھے، گاندھی جی کے قتل میں ماخوذ ہوئے لیکن سیاسی مصلحت کے تحت شک کا فائدہ دے کر بری کردئیے گئے، انھیں بھی انڈمان میں قید کیا گیا تھا، انھوں نے برٹش سرکار کو تحریری معافی نامہ بھیج کر رہائی کی درخواست کی تھی،باجپئی سرکار نے اس جگہ جہاں ساورکر کو قید کیا گیا تھا ان کے نام کی تختی نصب کی، یوپی اے سرکار نے وہ تختی ہٹادی، کیاکسی کو یہ بات معلوم ہے ؟کہ اسی انڈمان کی جیل میں مجاہد کبیر مولانا یحییٰ علی صادق پوری رحمہ اﷲ ۱۸۶۴؁ء کے وہابی مقدمات میں سزا یاب ہو کر کالے پانی بھیجے گئے اور وہیں ان کی وفات ہوئی، انھوں نے نہ مقدمہ کے دوران انگریزوں سے معافی مانگی اور نہ انڈمان کی جیل سے معافی نامہ بھیجا، وہ عظیم سلفی مجاہد آخر تک اپنے موقف پر قائم رہا اور وہابی روایت کے مطابق کبھی انگریزوں سے مصالحت نہیں کی، کیا کسی نے کبھی مطالبہ کیا کہ مولانا یحییٰ علی رحمہ اﷲ صادق پوری کے نام کی تختی بھی وہاں نصب کی جائے؟ ‘‘ ۔ (جریدہ ترجمان دہلی شمارہ :۱۵؍مئی ۲۰۰۷؁ء)
شیخ ابوالحسن سندھی کبیر بہت بڑے محدث اور عامل بالحدیث تھے۔ ان کا درس حدیث بہت وسیع تھا جو مسجد نبوی میں جاری تھا، بیشمار علماء ،طلبہ نے ان سے استفادہ کیا۔ شیخ ابوالحسن محدث کبیر کے زمانے میں ایک شیخ ابوالطیب سندھی تھے جو متشدد حنفی تھے، شیخ ابوالحسن کبیر اور شیخ ابوالطیب کے درمیان مناظروں کا سلسلہ جاری رہتا تھا، شیخ ابوالحسن سندھی محدث کبیر متنازع فیہ مسائل میں اپنے دلائل بیان کرتے تو شیخ ابوالطیب ان کے جواب سے عاجز آجاتے ۔ یہ مخاصمت ان دونوں میں ہمیشہ قائم رہی۔ شیخ ابوالطیب سندھی نے یہ عادت بنالی تھی کہ قاضی جب ترکی سے مدینہ منورہ آتا اس کے پاس جاتے اور شیخ ابوالحسن سندھی محدث کبیر کی شکایت کرتے لیکن کوئی قاضی بھی انھیں کچھ نہ کہتا، ہر قاضی انھیں اپنے پاس بلاتا اور ان سے گفتگو کرتا تو ان کے علم اور نیکی سے اس قدر متاثر ہوتا کہ احترام کے ساتھ رخصت کرتا، ایک مرتبہ ایک سخت مزاج متعصب قاضی ترکی سے مدینہ منورہ آیا۔ شیخ ابوالطیب سندھی نے حسب معمول اس کے پاس شیخ ابو الحسن محدث کبیر کی شکایت کی تو اس نے شیخ ابوالحسن محدث کبیر کو دربار میں طلب کیا او ر نہایت سخت لہجے میں حکم دیا کہ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھا کریں اور پہلی تکبیر کے سوا رفع الیدین نہ کیا کریں ۔ شیخ ابوالحسن محدث کبیر نے جواب دیا:
’’ میں آپ کی یہ بات نہیں مانوں گا ، وہی کروں گا جو حدیث میں مذکور ہے اور اسی طرح نماز پڑھوں گاجس طرح خود رسول اﷲﷺ نے پڑھی یا پڑھنے کا حکم دیا ہے۔‘‘
قاضی سخت مزاج اور متعصب تھا ، شیخ ابوالحسن محدث کبیرسے یہ صاف جواب سننے کو تیار نہ تھا، اس نے غصے میں شیخ ابوالحسن کبیر کو جیل بھیج دیا اور ایسی تنگ کوٹھری میں قید کرنے کا حکم دیا جس میں ہر وقت تاریکی چھائی رہتی تھی۔ حوائج ضروریہ کے لئے بھی ان کو باہر نہیں نکالا جاتا تھاشیخ ابوالحسن محدث کبیر چھ دن اس کوٹھری میں بند رہے ۔ پھر اہل مدینہ شیخ ابوالحسن محدث کبیرکی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ وہ قاضی کی بات مان لیں اور جیل سے باہر آجائیں ۔شیخ ابوالحسن محدث کبیر نے ان کو جواب دیا:
’’ جو بات صحیح حدیث سے ثابت نہیں اور رسول اﷲﷺ سے مروی نہیں، میں اسے ہرگز نہیں مانوں گا اور جو عمل رسول اﷲﷺ سے ثابت ہے، اسے کسی صورت میں نہیں چھوڑوں گا، یہ بات انھوں نے قسم کھا کر کہی ’’۔
اس واقعہ کے تھوڑے عرصے بعد قاضی وفات پا گیا اور شیخ ابوالحسن محدث کبیر نے پہلے کی طرح سینے پر ہاتھ باندھنا اور رفع الیدین کرنا شروع کردیا۔
(بر صغیر میں اہل حدیث کی اولیات از علامہ محمد اسحاق بھٹی حفظہ اﷲ ص:۸۵)
قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمہ اﷲ مصنف رحمۃا للعالمین مشرقی پنجاب کی سکھ ریاست پٹیالہ کے سیشن جج تھے۔ ان کی شخصیت میں خاندانی وجاہت، شرافت، علمی انہماک، زہد و ورع ،امانت و دیانت، تصنیفی و تحقیقی استعداد، کتاب و سنت کا ذوق اور عملی سیرت و کردار کے جو تابندہ نقوش پائے جاتے تھے، ان کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، قاضی صاحب کس پائے کے عالم تھے اور ان کے زہد و تقویٰ کا معیار کتنا بلند تھا ، ہمارے اکثر اہل حدیث بھائی نہیں جانتے ہیں ، قارئین کرام کی واقفیت کے لئے ہم یہاں ایک واقعہ نقل کرتے ہیں جس سے بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ ہمارے اسلاف کرام سیرت و کردار میں کتنے عظیم تھے۔
ایک مرتبہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمہ اﷲ کا ایک ہندو دوست قتل کے ایک ملزم کی سفارش کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ ملزم قطعاً بے گناہ ہے لہذا براہ کرم اسے رہا کردیں، قاضی صاحب ابھی اس درخواست کا کوئی جواب نہیں دے پائے تھے کہ اس نے ایک بند لفافہ ان کی طرف بڑھایا۔ قاضی صاحب نے چونک کر پوچھا: اس لفافے میں کیا ہے؟ اس نے دبی زبان میں جواب دیا : یہ آپ کی مٹھائی ہے ، قاضی صاحب سخت مضطرب ہو کر بولے استغفر اﷲ! آپ مجھے حرام کھلانا چاہتے ہیں ۔ اس نے کہا: قاضی صاحب ! یہ چالیس ہزار روپئے ہیں ۔ قاضی صاحب نے فوراً جواب دیا : حرام کی مقدار اگر زیادہ ہو تو وہ حلال نہیں ہو جاتا بلکہ مقدار کے بڑھنے کے ساتھ ہی حرام کی کراہت بھی بڑھ جاتی ہے لہذا میں اسے اور زیادہ مکروہ سمجھتا ہوں۔ آپ یہ اطمینان رکھیں کہ کسی پر کوئی زیادتی نہ ہوگی، وہی کچھ ہوگا جس کا قانون تقاضا کرتا ہے، قاضی صاحب کا جواب سن کر وہ شخص لا جواب ہو گیا اور ایک مسلمان کی عظمت و کردار کا ایسا گہرا نقش اس کے دل پر مرتسم ہوا کہ جس کی اسے بالکل توقع نہ تھی۔ 
(تذکرہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری از: علامہ محمد اسحاق بھٹی حفظہ اﷲ ،ص:۹۳) 
یہ قاضی صاحب کی عظیم کردار کی ایک مثال ہے، معلوم نہیں اس دور میں انھیں مختلف طریقوں سے کتنی پیش کش کی گئی ہوگی اور وہ کس شان اور استغنا سے اس طرح کی بھاری بھرکم پیش کش کو ٹھکراتے رہے ہوں گے ، یہ آج سے کم و بیش ایک صدی قبل ۱۹۱۰؁ء کے لگ بھگ کی بات ہے ، جب یہ پیسہ انتہائی مہنگا تھا اور چالیس ہزار روپئے کی قیمت آج کل کے حساب سے کم از کم ایک کروڑ روپئے کے برابر ہو گی ، اس وقت سونے کا بھاؤ دس روپئے تولہ تھا اور آج تیس ہزار روپئے تولہ کے آس پاس ہے۔
علامہ سید بدیع الزماں راشدی صاحب کے والد پیر احسان اﷲ شاہ بہت بڑے عالم اور متبع سنت تھے ، ان کی تیسری شادی کی بات چل رہی تھی ، شادی کے لئے ایک بہت بڑے پیر محبوب شاہ کو پیغام بھجوایا گیا جو حنفی تھے، انھوں نے کہا کہ اگر رفع الیدین کرنا چھوڑ دو تو میں اپنی بیٹی کو تمہارے نکاح میں دینے کو تیار ہوں، انھوں نے کہلا بھیجا کہ میں ایک عورت کی خاطر رسول اﷲ ﷺ کی سنت ترک نہیں کرسکتا، یہ ایک عورت ہے میں ہزار عورتیں رسول اﷲﷺ کی سنت پر قربان کرسکتا ہوں۔(کاروان سلف از علامہ محمد اسحاق بھٹی حفظہ اﷲ، ص:۳۷۱)
اﷲ اﷲ یہ تھے ہمارے اسلاف کرام، ایک ہم ہیں ان کے خلف کہ سیکڑوں سنتیں چھوڑے بیٹھے ہیں، پیارے نبی ﷺ کا حکم ہے کہ جب امام ولاالضآلین کہے تو امام اور مقتدی بلند آواز سے آمین کہیں۔ مگر دیکھا یہ جاتا ہے کہ اپنی ہی مسجدوں میں جہری نمازوں میں جب امام والاالضالین کہتا ہے تو ہمارا لب بھی نہیں ہلتا جبکہ حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ جہری نمازوں میں جب ولاالضالین کہتے تو آپ ﷺ اور مقتدی(صحابہ کرام) اتنی بلند آواز سے آمین کہتے تھے کہ مسجد گونج جاتی تھی، آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: 
’’یہودی جس قدر سلام اور آمین سے چڑتے ہیں اتنا کسی اور چیز سے نہیں چڑتے ، پس تم کثرت سے سلام اور آمین کہا کرو۔‘‘
راقم نے درج بالا سطور میں اسلاف کرام کے چند واقعات اس مقصد سے ذکر کئے ہیں کہ ہم اپنا محاسبہ کریں، سوچیں اور غور کریں کہ کیا اپنے اسلاف کرام سے ہمیں کوئی نسبت ہے؟ موجودہ دور کے مسلمانوں میں اب وہ جواہر پارے نہیں رہے اور نہ ان قدروں، خوبیوں، اوصاف اور بلند سیرت و کردار کے حامل افراد رہے کیوں کہ اس فانی دنیا کی محبت، حرص ،طمع اور لالچ کے طوفان نے وہ سانچے توڑ ڈالے ہیں جہاں سے یہ نفوس قدسیہ ڈھل ڈھل کر نکلتے تھے، اس کتاب کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ ان اسلاف کرام کی سیرت و کردار کے تابندہ نقوش کی ایک جھلک قارئین کو دکھا دوں تاکہ لوگوں میں وہی جذبۂ عمل، ذوق عبادت، زہد وورع، امانت و دیانت اور کتاب و سنت سے والہانہ وابستگی واپس آجائے جو ہمارے اسلاف کرام کا طرّہ امتیاز تھا۔
اس کتاب سے آپٖ کو اپنے اسلاف کرام کی غیرت دینی حمیت اسلامی اور اپنے صحیح عقائد افکار سے گہری وابستگی کی جانکاری ہو گی ، اور آپ بخوبی محسوس کر سکیں گے کہ اﷲ کے ان مخلص بندوں میں اپنے سچے دین کے تئیں کتنی تڑپ تھی ساتھ ہی یہ بھی اندازہ کر سکیں گے کہ انھوں نے حق کی سر بلندی کیلئے اس راہ کی دشواریاں جھیلتے ہوئے کیا کیا قربانیاں دی ہیں۔ 
اس کتاب کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ کسی کیلئے سامان شہرت فراہم کیا جائے یا محض تاریخ نویسی کی جائے مرنے کے بعد انسان کو شہرت سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہر انسان کی ویڈیو کیسٹ فرشتے مرتب کررہے ہیں اور فرشتوں کی تحریرحقائق پر مبنی ہوتی ہے اس میں نہ کوئی مبالغہ ہوتا ہے اور نہ کوئی کوتاہی بار پاتی ہے ان تحریروں کا فائدہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ ان کو پڑھ کر بہت سے لوگوں کے منہ سے ان اسلاف کرام کیلئے دعائیں نکلتی ہیں یہ دعائیں وفات پا جانے والی شخصیات کی مغفرت اور ان کے رفع درجات کا ذریعہ بنتی ہیں یہ فائدہ اپنے میں خود ایک اہم چیز ہے قرآن کا حکم بھی یہی ہے کہ ہم ان ایمان والوں کیلئے دعا کریں جو ہم سے پہلے گذر چکے ہیں ۔ ربنا اغفر لنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ……………… الخ
جو کام اجتماعی نوعیت کا ہوا سے اگر انفرادی طور پر انجام دیا جائے تو کیسی کیسی دشواریاں راہ میں آتی ہیں اور ایک قلم کے مسافر کو کن کن مشکلات سے گذرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جنھوں نے یہ ہفت خواں طے کی ہو اس راہ میں کئی دشواریاں سامنے آئیں لیکن اﷲ نے آسانی پیدا کی اور اسلاف کرام کا یہ مجموعہ مرتب ہو گیا اپنی بے مائیگی کے باوجود یہ ذمہ داری ایک ملی اور جماعتی فریضہ سمجھ کر قبول کی اس سے جہاں اسلاف کی تاریخ محفوظ ہو گی وہیں اس سے انشاء اﷲ ہماری موجودہ اور آنے والی نسلیں استفادہ کریں گی اس سے ان کی شخصیت کی تعمیر میں مدد بھی ملے گی قارئین ذی اکرام سے درخواست ہے کہ کتاب کو کسی بھی درجے میں مفید پائیں تو اس ناچیز اور اس کے والدین رحمہما اﷲ تعالیٰ کے حق میں ضرور دعا فرمائیں۔
اﷲ کا شکر واحسان ہے کہ میں نے مسلک کتاب و سنت کا دامن زندگی کے ہر موڑ پر تھامے رکھا ہے اور آج جبکہ میری عمر ساٹھ(۶۰) سال کی ہو چکی ہے اپنے عقیدہ و مسلک میں مزید پختگی آگئی ہے ہمیشہ کی طرح عمر کے اس مرحلے میں بھی تمام جسمانی عوارض کے باوجود اپنی بساط بھر درس و تدریس ، تصنیف و تالیف ، دعوت و تبلیغ اور قوم وملت اور جمعیۃ و جماعت کی خدمت محض اﷲ کی رضا اور خوشنودی کیلئے انجام دے رہا ہوں اﷲ اسے شرف قبولیت عطا فرمائے ۔(آمین)
الحمد ﷲ عہد طالب علمی ہی سے وقت کی قدر کرتا ہوں آج کا کام کل پر کبھی نہیں ٹالا ،طے شدہ وقت میں کاموں کا انجام دینا میرا معمول ہے اﷲ رب العالمین کے اس متحرک کارخانے میں ہر شے وقت کے پہیوں کے ساتھ تیز رفتاری سے دوڑ رہی ہے سال مہینوں میں ، مہینے ہفتوں میں ، ہفتے دنوں میں اور دن لمحوں میں تبدیل ہو رہے ہیں وقت ریت کی طرح ہاتھو ں سے پھسل رہا ہے اور ہم خواب غفلت میں پڑ کر گرفتار وقت کی اس گردش سے بے خبر ہیں داناؤں کے رجسٹروں میں کل کا لفظ کہیں نہیں ملتا البتہ بیوقوفوں کی جنتریوں میں یہ لفظ بکثرت مل سکتا ہے وقت اﷲ کی امانت ہے جس کا ایک لمحہ بھی ضائع کرنا مجرمانہ خیانت ہے۔ 
راقم ایک تعلیمی ادارہ سے منسلک ہے خالی اوقات میں تصنیف و تالیف کا کام کرتا ہے ان سارے تصنیفی و تحقیقی کا م میں میرا کوئی معاون نہیں اکیلا کام کرتا ہوں کسی سے املا نہیں کراتا، کسی سے آمدہ خطوط کا جواب نہیں لکھواتا ،کسی سے پروف ریڈنگ نہیں کراتا ، کوئی میرے لئے حوالے تلاش نہیں کرتا کوئی میرے لئے لائبریریوں کے چکر نہیں کاٹتا اور سب سے اہم بات یہ کہ ان کتابوں کی اشاعت کیلئے اکیلا ہی سرمایہ فراہمی کیلئے تگ و دو کرنا پڑتا ہے یہ اﷲ کی توفیق اور اس کا کرم ہے کہ چند برسوں میں ہزار وں ضخیم اور غیر ضخیم کتابیں اردو ، ہندی میں ملک کے گوشے گوشے میں مفت تقسیم کی ہے ۔ الحمد ﷲ یہ مفید سلسلہ جاری ہے۔
مندرجات کتاب کی ترتیب میں شخصیات کی تاریخ وفات کا لحاظ رکھا گیا ہے یعنی جن کی وفات پہلے ہے ان کا تذکرہ پہلے ہے اور جن کی وفات بعد میں ہوئی ہے ان کا تذکرہ بعد میں کیا گیا ہے۔
فضیلۃ الشیخ حضرت العلام رفیق احمد رئیس سلفی مدیر ادارہ علوم الحدیث علی گڈھ نے اس کتاب پر معلوماتی اور وقیع مقدمہ لکھا ہے جس پر میں تہہ دل سے ان کا شکر گذار ہوں مقدمے میں انھوں نے میرے متعلق جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے یہ ان کا حسن ظن ہے فضیلۃ الشیخ حضرت العلام مورخ سلفیت محمد اسحاق بھٹی، فضیلۃ الشیخ حضرت العلام ظہیر احمد صدیقی ندوی فضیلۃ الشیخ حضرت العلام عتیق الرحمن ندوی فضیلۃ الشیخ حضرت العلام ابوالعاص وحیدی حضرت العلام ڈاکٹر عین الحق قاسمی،فضیلۃ الشیخ زبیر احمد عبدالمعبود مدنی حفظہم اﷲ کا شکریہ ادا کرنا اپنا خوشگوار فریضہ سمجھتا ہوں ان محترم شخصیات نے اس کتاب کے حصہ اول کی وصولیابی پر حوصلہ افزا کلمات کہے مبارکباددی اسے جماعتی تاریخ کا ایک حصہ قرار دیا۔ اور دعاؤں سے نوازا، اﷲ تعالیٰ ان تمام حضرات کو خوش رکھے اس موقع پر میں اپنے ان تمام محسنین کو کیونکر فراموش کرسکتا ہوں جنھوں نے اس کتاب کو منظر عام لانے میں ہمارا ہاتھ بٹایا مہنگائی کے اس دور میں کتابت و طباعت کے مرحلے سے گذرنا آسان نہیں ہے اﷲ ان کی حسنات میں اضافہ فرمائے اور دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین یا رب العالمین)
ممتاز مرحومین علمائے اہل حدیث مشرقی یوپی کی ایک لمبی فہرست ہے جنکی دعوتی تدریسی و تصنیفی خدمات ناقابل فراموش ہیں باقیماندہ ممتاز علمائے اہل حدیث اور بعض اہم شخصیات کے حالات و سوانح کا تذکرہ کتاب کے حصہ سوم میں آئے گا ۔ انشاء اﷲ ہوالموفق وہو المعین۔ 
ناچیز کی قارئین ذی اکرام سے شفایابی کیلئے خصوصی دعا کی درخواست ہے ، عوارض بڑھتے چلے جارہے ہیں اﷲ کرے ذہن و قلم کی شادابیاں قائم رہیں تاکہ اﷲ کے پاس جائیں تو کچھ آثارقلم کی متاع حقیر تو لیتے چلیں۔ 

طالب دعا
عبدالرؤف خاں ندوی 
مجلس التحقیق الاسلامی تلسی پور بلرام پور (یوپی) 
۱۸؍فروری ۲۰۱۴؁ء




بسم اﷲ الرحمن الرحیم 
تقدیم 
از :فضیلۃ الشیخ حضرت العلام رفیق احمد رئیس سلفی؍حفظہ اﷲ
مدیر ادارہ علوم الحدیث علی گڈھ
تاریخ ہمیشہ اعاظم رجال سے بنتی ہے ، وہی تاریخ پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اس کی صورت گری کرتے ہیں ، آنے والی نسلوں کے لئے ان کی زندگی کے شب و روز ، ان کی سعی و جہد اور ان کی فتوحات و ادراکات کو محفوظ کیا جاتا ہے، وہ اپنے وقت کے انتہائی ذہین اور ممتا افراد ہوتے ہیں جو نہ صرف اپنے دور کو متاثر کرتے ہیں بلکہ ان کے افکار وخیالات سے صدیوں تک استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس پہلو سے امت اسلامیہ کی تاریخ ایک مثالی تاریخ ہے ، بلکہ دنیا کو اس فن کی تعلیم اہل اسلام نے دی ہے اور وہی اس کے امام بھی ہیں، نبی اکرم ﷺ کی سیرت پاک ہو یا صحابہ کرام کا ذکر جمیل ، تابعین اور تبع تابعین کی زندگی کے حالات ہوں یا دیگر راویان حدیث و اثر کی عدالت و ثقاہت، مسلم حکومتوں اور ان کے سربراہوں کی تاریخ ہو یا ان کی کامیابیوں اور محرومیوں کا تذکرہ ، کوئی بھی پہلو نظر انداز نہیں ہوا ہے۔ بلکہ اس کے بعض گوشوں کو ایک دینی اور ملی فریضہ سمجھ کر ابھارا گیا ہے ، کسی مرحلے میں اس کی ترتیب و تدوین عمل میں لائی گئی ہے اور کسی مرحلے میں اس کو جرح و تعدیل کے میزان میں تولا گیا ہے اور رطب دیابس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ تاریخ ایک زندہ فن ہے تحلیل و تجزیئے کا عمل ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے بلکہ اسے رہنا ہی چاہئے تاکہ انسانی سہو ونسیان کی فطری کمزوری کو دور کیا جاسکے اور حقائق تک رسائی آسان ہو سکے۔ 
ملت اسلامیہ کی دینی قیادت ہمیشہ علماء کے ہاتھوں میں رہی ہے ، ملت انھیں پر اعتماد بھی کرتی ہے اور وہ بھی اﷲ کی توفیق سے کوشش کرتے ہیں کہ عوام کی آرزو پر کھرے اتریں اور ان کی دینی ضروریات کی تکمیل کرتے رہیں ، ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں مسلم امت مختلف مسلکوں اور جماعتوں میں بٹی ہوئی ہے اور ’’ کل حزب بما لدیہم فرحون‘‘ کے مصداق ہرایک اپنے میں مگن اور مست ہے، ہر ایک کے پاس اپنے علماء ہیں، اپنے دینی ادارے تنظیمیں ہیں اور اپنی اپنی ترجیحات ہیں۔ کون کیا کررہا ہے، کیسے کررہا ہے، اچھا کررہاہے یا برا کررہا ہے، ان سب کا ریکارڈ اﷲ کے فرشتوں کے پاس ہے، جس میں ہر چھوٹی بڑی چیز امانت دار قلم سے درج ہو رہی ہے، کل قیامت کے دن یہ سب کے سامنے آجائے گا اور ہر ایک کو اپنے اپنے کئے کے مطابق بدلہ ملے گا ، اس مختصر زندگی میں اپنا حساب کرنے کا موقع تو ہمارے پاس ہے نہیں، ہم دوسروں کا احتساب کہاں سے کرسکیں گے، شاید اس کے ہم مکلف بھی نہیں ہیں اور نہ دوسروں کے اعمال کے بارے میں ہم سے سوال جواب ہوگا۔ 
ہندوستان میں مسلمانوں نے اپنی تاریخ کو مختلف حوالوں سے محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے، اس کا ایک بڑا حصہ علماء کرام کے حالات زندگی ہیں، اسی ذیل میں وہ آپ بیتیاں بھی رکھی جاسکتی ہیں جو بعض شخصیات نے خود اپنے قلم سے لکھی ہیں، تذکرہ و سوانح کی یہ کتابیں نہ صرف شخصیات کو متعارف کراتی ہیں بلکہ اس دور کی ایک اجمالی تاریخ بھی محفوظ کردیتی ہیں جس میں صاحب تذکرہ نے اپنی زندگی کے ماہ وسال گذارے ہیں ، دینی مدارس کے طلبہ کیلئے یہ کتابیں بطورخاص بہت مفید ہیں، ان سے نہ صرف علم میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ زندگی جینے کا سلیقہ بھی سیکھنے کو ملتا ہے، ان کے روشن افکار اور غیر معمولی اعمال ہماری زندگی پر اپنے اثرات چھوڑ جاتے ہیں اور اندر سے یہ تمنا جاگ اٹھتی ہے کہ ہمیں بھی کچھ کرنا چاہئے ، ہندوستان کے بعض علماء کی خود نوشت اور ان کی آپ بیتیاں بڑے کام کی ہیں ، میں ذاتی اعتبار سے ان سے بہت متاثر ہوں اور دور طالب علمی سے ایسی کتابیں انتہائی ذوق و شوق سے پڑھتا آرہا ہوں کہ ملت کی معاصر علمی، دینی،سیاسی، سماجی اور ثقافتی تاریخ کا ایک بڑا مرجع یہی آپ بیتیاں ہیں۔
ہندوستان کی سلفی تحریک میں بھی تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری کا سلسلہ رہا ہے۔ دوسروں کے مقابلہ میں گو یہاں مواد کی کمی ہے لیکن جو بھی ہے بسا غنیمت ہے، تاریخ اہل حدیث کے کئی ایک پہلو زیر قلم آئے ہیں اور کئی پہلووں پر ابھی لکھا جانا باقی ہے ، ہمارے پاس اپنی تنظیم ہے ، اپنے ادارے ہیں، اصحاب فکروقلم کی ایک بڑی تعداد ہے جو کسی بھی موضوع پر لکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن نا معلوم اسباب سے کام جس تفصیل سے ہونا چاہئے وہ نہیں ہوپارہا ہے۔ 
سوانح نگاری اور تذکرہ نویسی کیلئے انتہائی محبت، قلبی تعلق ،والہانہ وابستگی اور معلومات کی فراوانی سب کچھ ضروری ہے، صاحب تذکرہ سے عقیدت کے بغیر اس کا سوانحی تذکرہ وجود میں نہیں آسکتا جب میں اپنے یہاں آپ بیتیوں،خود نوشت اور کتب تذکرہ و سوانح کی کمی دیکھتا ہوں تو اس کے لئے تاویل ڈھونڈھتا ہوں اور عذر تلاش کرتا ہوں ، اصحاب فکرونظر سے اس کی وجوہات بیان کرنے کی درخواست کرتا ہوں لیکن کوئی بات دل کو لگتی نہیں ہے سوچتا ہوں کہ شیخ الکل فی الکل سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اﷲ کے تلامذہ کی تعداد شمار سے باہر ہے لیکن ایک دو شاگردوں کو چھوڑ کر کسی تیسرے نے امام وقت کی حیات پر کوئی کتاب کیوں نہیں لکھی، عدم عقیدت کی بات تو ہم کہہ نہیں سکتے کیو نکہ اس کے بغیر استاذی اور شاگردی کا رشتہ ہی قائم نہیں ہوتا۔ معلومات کی کمی بھی وجہ نہیں بن سکتی کیوں کہ سید الطائفہ کی حیات ایک کھلی کتاب تھی، اسی طرح ان کے بعض ممتاز تلامذہ افادہ و استفادہ کے معاملے میں اپنی ذات میں ایک تحریک ، ایک ادارہ اور ایک انجمن تھے ، وہ پوری توجہ سے محروم رہے ، شیخ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اﷲ خوش قسمت تھے کہ ان کی حیات پر شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اﷲ نے ایام طالب علمی میں کتاب لکھ دی جو آج بھی شاید پہلی اور آخری کتاب سمجھی جاتی ہے، مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی رحمہ اﷲ پر بھی ایک سرسری کتاب آگئی ہے اور ایک حنفی اسکالر نے مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارکپوری رحمہ اﷲ صاحب تحفۃ الاحوذی پر کام کرکے پی۔ ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی ہے۔ شیخ الاسلام مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمہ اﷲ کی حیات کے بعض گوشے بھی کتابی شکل میں آئے ہیں ، اسی طرح سید عبداﷲ غزنوی رحمہ اﷲ اور حافظ عبداﷲ غازی پوری رحمہ اﷲ پر کچھ مختصر تحریر یں آئی ہیں، مختصر یہ کہ جس قدر عظم شخصیات تحریک اہل حدیث کو میسرآئیں اور انھوں نے دعوت و تربیت،درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے میدان میں جس طرح بھر پور زندگی گذاری، اس کا تقاضا تھا کہ ان کی حیات کا ورق ورق محفوظ کیا جاتا اور ہماری نسلیں ملک میں سلفی دعوت کے نشیب و فراز کو اچھی طرح سمجھ پاتیں اور اغیار کو بھی کچھ چھپانے اور غلط بیانی سے کام لینے کا موقع نہ ملتا۔
بعض معاصر اہل علم کو جب یہ شکایت کرتے دیکھتا ہوں کہ ہمارے اسلاف نے یہ کیا اور وہ کیا لیکن ہمارے مخالفین تاریخ کو مسخ کررہے ہیں تو مجھے انتہائی افسوس ہوتا ہے اور اس قسم کی تحریروں پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ تاریخ جب بیان کی جائے گی تو کہا جائے گا کہ جمعیۃ علماء ہم نے قائم کی اور تحریک ندوۃ العلماء کے صف اول میں ہم تھے، یہ بات درست ہے اور حقیقت واقعہ کے عین مطابق لیکن یہ بھی تو بیان کیا جائے کہ ہم بعد میں الگ کیسے ہوگئے اور کیوں الگ ہو گئے۔ کسی نے ہاتھ پکڑ کر اٹھا دیا اور ہم آسانی سے اٹھ کر آگئے، اگر تاریخ کا یہ صفحہ کھولا جائے تو پتہ چلے گا کہ حقائق کیا تھے اور کیوں ہمیں پیچھے کردیا گیا یا ہم نے ان ملی اداروں کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اجتماعیت کا ساتھ دینے کے لئے کئی قسم کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں، کچھ باتوں کو حکمت عملی کے طور پر نظر انداز کرنا ہوتا ہے ، بعض غلطیوں کو مجمع عام میں نہیں، متعلقہ شخص کو تنہائی میں بتانی پڑتی ہیں۔ امرتسر میں ندوہ کا کوئی جلسہ ہوا اس میں خطبہ استقبالیہ مولانا شبلی نے عربی زبان میں پیش کیا، ہم نے اس خطبے کی عربی غلطیاں اخبار میں شائع کیں۔ یہ بھی تو ہوسکتا تھا کہ مولانا شبلی کو براہ راست خاموشی سے ان کی غلطیوں پر متنبہ کردیا جاتا۔ مجھے معلوم ہے کہ میری یہ تحریر بہتوں کو ناراض کردے گی لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ملی تحریکوں میں آج ہمارے نمائندگی نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے، ملت اسلامیہ ہند اگر مظلوم ہے اس کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے اور اسے مشق ستم بنایا جارہا ہے اور ملت کے تئیں ہماری کوئی ذمہ داری ہے تو ہمیں اپنی تنظیم کو ملی تنظیموں اور تحریکوں سے جوڑ نا ہوگا۔ ایک بڑے مفاد کے لئے چھوٹے مفادات کی قربانی دینا دنیا کا اصول ہے۔ داغہائے سینہ دکھا کر ہم اپنے مخالفین کے دلوں میں کوئی نرم گوشہ نہیں پیدا کرسکتے اور نہ اس کی کوئی ضرورت ہے، ہم تو ملت کی حفاظت ، اس کی بقا، اس کے تہذیبی تشخص اور اس کے آفاقی پیغام کی ترسیل کے لئے پیش رفت جاری رکھیں گے اور تمام اکائیوں کو متحد کرنے کیلئے اسلامی اخوت کا مظاہرہ کریں، دفتر کھولے لوگوں کے سامنے اپنی صفائی دیتے رہیں گے، آگے بڑھیں ،وقت آپ کا منتظر ہے، یہ زمین پیغام حق کیلئے ترس رہی ہے، دعوت و تبلیغ کے نا م پر عام لوگوں کو عجائبات اور طلسمات سنائے جا رہے ہیں ، اسلامی فکر کی تعبیر میں کئی طرح کی ضلالتوں کو ساتھ لے لیا گیا ہے ۔ اس کادرد محسوس کریں، اس کے بارے میں سوچیں اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملت کی قیادت کے قریب جائیں ۔ کوئی وجہ نہیں کہ ایک درد مند کی آداز نہ سنی جائے۔ یہ دنیا ابھی اس قدر اندھی بہری نہیں ہوئی ہے کہ اسے حق کی آواز پسند نہ آئے۔کوئی اس کا کیا صلہ دیتا ہے ، صف اول میں جگہ دیتا ہے یا پچھلی سیٹ پر ہمیں جگہ ملتی ہے ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں کرنی چاہئے اخلاص اور ﷲیت کا ترازو اہل دنیا کے پاس نہیں اﷲ کے پاس ہے کوشش کریں کہ وہاں نیکیوں کا پلڑا جھکنے نہ پائے، بات دور نکل گئی میں اپنے حلقے میں سوانحی ادب کی کمی کا ذکر کررہا تھا اور اس کے اسباب تلاش کر رہا تھا لیکن زیادہ معقول اسباب سمجھ میں نہیں آئے، لیکن شاید اب ہمیں اپنی کوتا ہیوں کا احساس ہو گیا ہے اور ہم نے کمر کس لی ہے کہ اس صنف ادب کو مالا مال کرکے رہیں گے، اس تعلق سے جو عظیم کام ماضی قریب میں ہو چکے ہیں اور بروقت ہو رہے ہیں، جن کا مختصر تذکرہ ضروری خیال کرتا ہوں کہ یہی امیدوں کا چراغ ہیں اور شاید ان چراغوں سے کئی ایک چراغ روشن ہو جائیں اور ہر چہارجانب اجالا ہی اجالا ہو جائے۔
ڈاکٹر بہا ء الدین صاحب حفظہ اﷲ نے تاریخ اہل حدیث کی اب تک کئی ایک جلدیں تیار فرمادی ہیں لیکن ان کا انداز ہے اور جس تفصیل سے وہ چھوٹی بڑی دستاویز ات کو وہ اپنی کتاب میں محفوظ کررہے ہیں، اس کی تکمیل کیلئے خاصہ وقت درکار ہے اور تکمیل کے بعد اس سے استفادہ اس سے کہیں زیادہ وقت اور فرصت کا طالب ہوگا، تاریخ کے اولین دور کا لٹریچر جس طرح انھوں نے اپنے سلسلہ تاریخ میں شامل کیا ہے ،بظاہر بہت مفید معلوم ہوتا ہے لیکن یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش ہم اسے الگ سے شائع کردیتے اور تاریخ میں اس کی طرف اشارہ کرنے یا اس کے اثرات کا مختصر جائزہ لینے پر اکتفا کرتے، ایک مسلسل تاریخ میں دستاویزی مواد کا پڑھنا بہت زیادہ آسان نہیں ہے قاری کا ذہن بھٹکتا ہے اور کڑیاں باہم جڑ نہیں پاتیں ، ہم اﷲ سے یہی دعا کرتے ہیں کہ کتاب جلد از جلد مکمل ہوجائے ، ممکن ہے اسی کتاب کو سامنے رکھ کر ہمارا کوئی صاحب قلم تحریک اہل حدیث کی تاریخ ایک تسلسل کے ساتھ لکھ دے جس سے اخذ و استفادہ آسان ہو جائے، ڈاکٹر صاحب موصوف نے جس لگن،دلچسپی، محنت اور ہمت سے یہ کام کیا ہے اور کررہے ہیں ، پوری جماعت ان کی احسان مند رہے گی اور ان کے احسان کو انشاء اﷲ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، ان کی دوسری کتاب’’ تحریک ختم نبوت‘‘ جس کی کئی جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ، ایک عظیم کارنامہ ہے، قادیانیت کے ردو ابطال میں علمائے اہل حدیث کی جو مساعی جمیلہ رہی ہیں ، ان سے یہ کتاب ہمیں روشناس کراتی ہے اور اس باطل تحریک کے مذموم مقاصد اور اس خفیہ سازشوں سے ملت اسلامیہ کو خبر دار اور آگاہ کرتی ہے۔
جماعت اور علمائے جماعت کی تاریخ کے تعلق سے ایک بڑا اور معتبر نام محترم مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اﷲ کا ہے، اﷲ ان کی عمر و صحت میں برکت عطا فرمائے ، موصوف نے اس موضوع پر صحیح معنوں میں کتابوں کا انبار لگا دیا ہے، تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری میں ان کا اپنا منفرد مقام ہے اور اہل علم کے یہاں ان کی تصانیف کی پذیرائی بھی بہت ہے۔ ہندوستان میں ان کی کئی کتابیں کئی ایک اداروں نے شائع کی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔’’گلستان حدیث‘‘ اس سلسلے کی ابھی تک شاید آخری کتاب ہے، ’’چمنستان حدیث‘‘ اور بوستان حدیث‘‘ کے لئے مواد جمع کر چکے ہیں، ان شاء اﷲ دیر سویر یہ کتابیں بھی منظر عام پر آجائیں گی، حدیث رسول:’’ اپنے مرحومین کی نیکیاں ، خوبیاں اور اچھائیاں یاد کرو ‘‘، کے مطابق محترم بھٹی صاحب نے جماعت کے علماء کا جو تذکرہ لکھا ہے، وہ غیر مسبوق اور منفرد ہے ، عزت واحترام کسے کہتے ہیں ، بعض کمیوں اور کوتاہیوں کا ذکر کتنی خوبصورتی سے کیا جا سکتا ہے اور شخصیات کی زندگی کے کن پہلوؤں کو قارئین کے سامنے رکھنا ضروری ہے ، یہ تمام باتیں ہمارے قلم کاروں کو ان سے سیکھنی چاہئیں، ان کی کتابوں میں معلومات کی فراوانی بھی ہے، سامان عبرت و بصیرت بھی ہے ،ظرائف ولطائف بھی ہیں اور ملت کی ہمہ جہت تاریخ بھی ، ہماری جماعت کی پوری تاریخ میں یہ واحد شخصیت ہیں جن کو ذہن و فکر ایسا ملا ہے جو تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری کے لئے ضروری ہے، کسی روشن دماغ اور کشادہ دل سے ہی یہ امید وابستہ کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے دین، ادیب، صحافی اور مصنف ہیں، ان کی یہ محبوب ادا جو مجھے ذاتی طور پر بہت بھاتی ہے، ہمارے ہی حلقہ کے بعض معتبر حضرات کو حد درجہ کھٹکتی ہے۔ وہ سلفیت کو خشکی، یبوسیت ، تنقید و احتساب ہی کے دائرے میں محصور کرنے کے خوگر ہیں ان کے مطالعہ نے انھیں ان احادیث تک ابھی نہیں پہونچنے دیا ہے جن میں ایک مومن سے خندہ پیشانی سے ملنے کو صدقہ بتایا گیاہے اپنی قوم کے ایک انتہائی بد ترین آدمی سے خوش اخلاقی سے ملنے کے بعد جب صدیقہ عائشہ رضی اﷲ عنہا متعجب ہوئیں تو ہمارے نبیﷺ نے جواب دیا کہ اس کی وجہ سے میں اپنے اخلاق کیوں خراب کرلوں ، محترم بھٹی صاحب نے ان شکایتوں کا جواب بھی بہت پیارے انداز میں اپنی ایک کتاب کے پیش لفظ میں دیا ہے۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ محترم بھٹی صاحب نے جن علمائے اہل حدیث کی صحبت پائی ہے جن سے انھوں نے علوم کتاب و سنت کی تعلیم حاصل کی ہے اور جن اصحاب فکر و قلم نے ان کے قلم و تحریر کی تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، وہ اپنے دور کی انتہائی معتبر اور ثقہ شخصیات تھیں، ملک کے طول و عرض میں ان کے تقویٰ ، تدین او ر علم کا چرچا تھا اور بلا امتیاز مسلک و جماعت ان کو تمام مکاتب فکر میں محترم گردانا جاتا تھا ، اپنی زندگی کے کئی ماہ و سال محترم بھٹی صاحب نے ان کی صحبت میں گزارے ہیں اور کسب فیض کیا ہے ، اﷲ نے انھیں جہاں علم اور حافظے سے مالا مال کیا ہے، وہاں انھیں عمل کی دولت سے بھی سر فراز فرمایا ہے ، ان کی خود نوشت ’’ گزر گئی گزران‘‘ کا مطالعہ کیجئے، اندازہ ہو جائے گا کہ خود ان کی اپنی حیات کتنی منضبط ہے اور ذکر و عبادت، تلاوت قرآن پاک اور رات کی تنہائیوں میں رب کریم کے حضور سجدہ ریزی سے شاد و آباد ہے، شاید یہی وہ امتیازات ہیں جن کی وجہ سے انھیں خلق خدا میں محبوبیت عطا ہوئی ہے اور ان کے قلم کی شائستگی اور شرافت کا ہر چہار جانب چرچا ہے۔
علمائے اہل حدیث کے تراجم اور ان کی علمی و تصنیفی خدمات کا ذکر جمیل ہوا ور اس میں مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی رحمہ اﷲ کا نام نہ آئے، یہ نا ممکن ہے ، وہی تو سالار قافلہ ہیں اور دنیا جہاں سے تنکا تنکا جمع کرکے ایسی دو کتابیں لکھیں جن سے کوئی سلفی مورخ بے نیاز نہیں ہو سکتا، جماعت کی تاریخ اور علمائے اہل حدیث کے سوانحی خاکوں کی ترتیب و تدوین میں کئی ایک معتبر ناموں کا اضافہ ہوسکتا ہے لیکن شاید زیر مطالعہ کتاب کا زیر تحریر مقدمہ طویل ہو جائے گا ، قارئین کو الجھن ہوگی ، اسلئے اس ضمن میں مولانا نذیر احمد املوی رحمہ اﷲ کی کتاب’’ اہل حدیث اور سیاست‘‘ اور استاذ ذی مرتبت مولانا محمد مستقیم سلفی حفظہ اﷲ کی’’ جماعت اہل حدیث کی تصنیفی خدمات‘‘ کا نام ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ اول الذکر ایک فکر انگیز کتاب ہے جو بہت سے سوالوں کا جواب دیتی ہے اور بعض تاریخی غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی ہے جب کہ ثانی الذکر ایک دائرۃ المعارف ہے جس میں ان تمام تصانیف کے اسماء اور ان کا مختصر تعارف زیر قلم لایا گیا ہے جو ہندوستان میں علمائے اہل حدیث نے تصنیف کی ہیں ، وقت کا تقاضا ہے اور استاذ محترم کے پاس اتنا مواد بھی جمع ہو چکا ہے کہ اس کی دوسری جلد آجانی چاہئے ۔ مجھے امید ہے کہ جامعہ سلفیہ کے ناظم اعلیٰ محترم مولانا عبداﷲ سعود سلفی مدنی حفظہ اﷲ اس طرف بھی توجہ مبذول فرمائیں گے۔ ڈاکٹر بدرالزماں نیپالی حفظہ اﷲ اور فضیلۃ الشیخ محمد عزیر شمس حفظہ اﷲ کے پاس بھی جماعت کی تاریخ کا خاصا مواد موجود ہے، دیکھئے ان دونوں بزرگ دوستوں کو کب دوسرے علمی کاموں سے فرصت ملتی ہے اوریہ اس کی تحریر و تدوین کو پائے تکمیل تک پہونچاتے ہیں۔ 
تاریخ و تذکرہ کے اسی سلسلے کی ایک سنہری کڑی یہ کتاب بھی ہے، جس پر یہ چند سطریں لکھنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں ۔ کاروان سلف کی جلد اول ایک سال پہلے اشاعت پذیر ہو چکی ہے ۔ اب یہ دوسری جلد زیور طباعت سے آراستہ ہونے جارہی ہے۔ کافی پہلے میں نے اپنے محترم بزرگ مولانا عبدالرؤف خاں ندوی حفظہ اﷲ سے درخواست کی تھی کہ آپ ہمارے اپنے علاقے گونڈہ، بلرام پور، بستی،سدھارتھ نگر اور سنت کبیر نگر کے علماء سے قریب رہے ہیں ، تنظیم اور دعوت سے آپ کی وابستگی کافی پرانی ہے، آپ نے کئی ایک علماء کو نہ صرف قریب سے دیکھا ہے بلکہ ان کی صحبتیں بھی اٹھائی ہیں، کیا ہی بہتر ہوتا کہ آپ اپنے مشاہدات اور تجربات کو قلم بند فرما دیتے ۔ اسی مضمون کا ایک عریضہ بھی ان کی خدمت میں ارسال کیا تھا جسے از راہ نوازش محترم نے کتاب کی پہلی جلدمیں شائع فرما دیا ہے۔ میں ذاتی طور پر مصنف محترم کا شکر گذار ہوں کہ انھوں نے کثرت مشاغل کے باوجود اس کے لئے وقت نکالا اور کئی علماء جماعت کے تذکرے قلم بند فرمادئیے۔ ہمارے یہاں ناقدری علم کی روایت کافی پرانی ہے۔ کسی کتاب کو اہمیت دینے کے لئے بھی اپنے ‘‘جس نے پوری دنیا میں اپنی اہمیت منوالی ہے‘‘ کی تصنیف کا پس منظر معلوم ہے ۔ محدث مبارک پوری رحمہ اﷲ صاحب تحفۃ الاحوذی بینائی سے محروم ہونے کے باوجود اس کا پروف پڑھوانے اور اس کی تصحیح کیلئے کتنا طویل اور پر مشقت سفر کیا کرتے تھے ، کتاب کی تکمیل کے بعد اس کی طباعت و اشاعت کے لئے انھیں کتنی زحمت اٹھانا پڑی ہے ۔ آج تحفۃ الاحوذی، جامع ترمذی کی سب سے اہم شرح تسلیم کی جاتی ہے۔ مولانا محمد داؤد راز رحمہ اﷲ کا ترجمہ بخاری اور اس کی تشریح آج ہماری جماعت کا عظیم سرمایہ ہے ۔ کتنے تجارتی ادارے ہیں جو اس سے نفع حاصل کر رہے ہیں ، آج کتنے لوگوں کو معلوم ہے کہ اس کے مصنف جلیل نے ایک ایک پیسہ جمع کرکے پاروں کی شکل میں کئی سالوں کے بعد اس کی تکمیل فرمائی تھی ایسے ہی اپنے دور میں ایک مظلوم مصنف مولانا عبدالسلام بستوی رحمہ اﷲ تھے جن کی سادہ تحریروں کو حضرات علمائے کرام بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے لیکن آج ان کی کئی ایک کتابوں سے ہماری جماعتی اور مسلکی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں، اولاً ہم کوئی کام نہیں کرتے،وقت گذر جاتا ہے تو عالم اور اس کی تصنیف کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے ، ہمارے بزرگ مصنف کو اپنے اسلاف کی حکایات ضرور یاد ہوں گی، کام کی اہمیت اور اس کی قدر و قیمت وہی طے کر سکتا ہے جو خود اس راہ کی مشکلات سے گذرا ہو۔
ہمارے حلقے کی بعض شخصیات کو ہمیشہ سے یہ شکایت رہی کہ غیروں کی طرف سے ہمیں نظر انداز کیا گیا ہے، ہماری خدمات کو چھپا یا گیا ہے اور دانستہ طور پر ہماری سر گرمیوں کو اپنے حصے میں ڈالنے کی ناروا کوشش کی گئی ہے۔ یہ شکایتیں زیر قلم بھی آتی رہتی ہیں اور ایسے انداز میں آتی ہیں جن کو نہ علمی اسلوب کہا جا سکتا ہے اور نہ تہذیب وشرافت سے ان کا تعلق ہے۔ غیروں کے دربار عالیہ میں ان شکایتوں کا اثر آج تک نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس ہماری تصویر مزید بھیانک بنانے کا انھیں موقع مل گیا ۔ زوال و شکست اور انتشار و افتراق سے دو چار گروہوں اور جماعتوں کے پاس صرف شکایتوں کا دفتر ہوتا ہے اور اسی کے سہارے وہ زندگی کی تلاش میں بھاگتی پھرتی ہیں۔ ظاہر ہے مسئلہ کا حل یہ نہیں ہے ۔ بلکہ ہمیں اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے اپنی تاریخ کے خلا کو خود پُر کرنا چاہئے ۔ دوسروں سے یہ امید کرنا کہ وہ ہمارے ساتھ انصاف کریں گے اور ہمیں تاریخ میں ہمارا جائز مقام دیں گے ، سراسر نادانی اور خود فریبی ہے۔
ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے ان جواہر پاروں کی بھی حفاظت نہیں کرسکے جنھوں نے ہماری پہچان بنائی تھی۔ شیخ الاسلام مولانا ثناء اﷲ امرتسری نے بھر پور صحافتی زندگی گذاری ہے۔ اپنے ہفت روزہ اخبار اہل حدیث امرتسر کے ذریعے انھوں نے ملت کی ہمہ جہت خدمات انجام دی ہیں۔ تمام باطل فرقوں اور اسلام دشمنوں کے شبہات اور اعتراضات کے جواب دئیے ہیں اور کتاب و سنت پر مبنی اسلام کی صاف ستھری تعلیمات پیش کی ہیں ۔ کیا آج ہماری جمعیۃ اور ہمارے کسی بڑے ادارے کے پاس اس کی تمام فائلیں محفوظ ہیں ؟ اسی طرح دور اول کے کئی ایک علمی رسائل و جرائد تھے، ان کی بھی ہم سے حفاظت نہیں ہو سکی ،رسائل و جرائد ہی وہ ذریعہ ہیں جن سے تنظیمی اور مسلکی سر گرمیوں کا حال معلوم ہوتا ہے، وفیات کے کالم سے علمائے اہل حدیث کی تاریخ وفات اور ان کی زندگی کے بعض حالات معلوم ہوتے ہیں ، اس کوتاہی کی شکایت ہم کس سے کریں گے اور کسے مورد الزام ٹھہرائیں گے ، ہمیں یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ ہم نے تقریباً نصف صدی سے صرف اینٹ روڑے اور پتھر جمع کئے ہیں، علمی اور تصنیفی کا م پر زیادہ توجہ نہیں رہی ہے، تھوڑے بہت علمی اور تحقیقی کام جو ہو سکے ہیں ، ان میں ہماری تنظیمی کوششوں کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ وہ انفرادی جہد و مساعی کا ثمرہ ہیں ان انفرادی کوششوں کو بھی پذیرائی نہیں مل سکی کیونکہ معاصرت کی خطر ناک بیماریوں اور ذات برادری اور علاقائیت کی جاہلیت نے ہمیں گھیر رکھا ہے، بعض اہل علم نے نصاب کی بعض کتابیں تیار کی ہیں اور وہ مفید بھی ہیں لیکن ہم اپنے اداروں کے نصاب میں ان کو شامل نہیں کر پا رہے ہیں کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے اسٹیج سے کسی دوسرے کا نام لیا جائے، تنگ ظرفی اور وسیع الظرفی کے مفاہیم سمجھنے ہوں تو اس دنیا کے قریب جائیے ، سب کچھ سامنے آجائے گا۔
ہمارے پبلشر کسی نئی اور اوریجنل کتاب کی اشاعت نہیں کر پا رہے ہیں، ان کے لئے آسان یہ ہے کہ کہیں سے طبع شدہ کتاب ہاتھ لگے اور جس کے لئے اس کی طرف توجہ ہی نہ دی جائے یہاں ہم کس سے شکایت کریں گے یہاں کون ہمارے اوپر ظلم کررہا ہے جماعتی اور تنظیمی سطح پر جو کمزوریاں ہمارے اندر پیدا ہو چکی ہیں ان کا ہمیں بخوبی علم ہے لیکن ہم نہ ان کو دور کرنا چاہتے ہیں اور نہ ان پر کوئی سنجیدہ گفتگو کرنا چاہتے ہیں آج صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ جس مصنف کے پیچھے ادارہ ہے اور اس ادارے میں غریب اور یتیم طلبہ کی کفالت کیلئے مخلصانہ ملت کا دیا ہوا عطیہ اور زکوٰۃ ہے اس کی کتاب شائع ہو جاتی ہے اور جو اس ’’نعمت‘‘ سے محروم ہے وہ اپنا مسودہ لئے لئے پھرتا ہے کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ہے اور اگر کسی نے جرأت دکھائی بھی تو وہ کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ تک کا معاوضہ دینے میں لیت و لعل سے کام لے گا اپنے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے اپنی ایک ایک اینٹ بکھر رہی ہے اور ہماری اپنی صلاحیتیں ضائع ہو رہی ہیں لیکن ہماری صحافت ہماری فکر ہماری دانشوری دوسروں کی شکایت کرنے میں مصروف ہے اور تھوڑی بہت جو عزت و آبرو باقی رہ گئی تھی اسے بھی نیلام کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ الیس منا رجل رشید؟
محترم مولانا عبدالرؤف خاں ندوی حفظہ اﷲ ہماری جماعت کے اس قافلے سے تعلق رکھتے ہیں جس کے سالار مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگری ،مولانا عبدالجلیل رحمانی، مولانا محمد اقبال رحمانی مولانا ابوالعرفان محمد عمر سلفی ،مولانا عبدالسلام رحمانی ، مفسر قرآن مولانا عبدالقیوم رحمانی ، مولانا عبدالمبین منظر اور مولانا عبدالحمید رحمانی وغیرہ تھے زبان میں سادگی اور تحریر میں متانت جو کچھ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اسے اپنے اسلوب میں بغیر کسی تصنع کے صاف صاف لکھ جاتے ہیں ۔
کتاب میں مصنف حفظہ اﷲ نے لگ بھگ بارہ درجن سے زیادہ شخصیات اور علمائے جماعت کے تذکرے تحریر فرمائے ہیں ان میں قدیم و جدید دونوں طرح کی شخصیات شامل ہیں بعض سوانحی خاکے مختصر ہیں اور بعض مطول کوئی تحریر صاحب تذکرہ کی وفات کے معاً بعد زیر قلم آئی ہے اور کوئی تحریر بعد میں تیار کی گئی ہے کہیں جذبات فراواں ہیں اور کہیں سبک روی اور متانت ہے ہر رنگ میں اور ہر انداز میں یہ سوانحی خاکے اشارہ کرتے ہیں کہ ان کو ایک دو نششت اور ماہ دو ماہ میں نہیں بلکہ کئی سالوں میں وقفے وقفے سے لکھا گیا ہے ان خاکوں میں جماعت کی تاریخ بھی ہے اس کی دعوتی تگ و تاز کا بیان بھی ان میں اغیار کی ریشہ دوانیوں کا تذکرہ بھی ہے اور اپنوں کی سرد مہری کا حال بھی ان میں سامان عبرت و نصیحت بھی ہے اور ہمت و حوصلہ بھی۔ مجھے امید ہے کہ جلد اول کی طرح جلد دوم کو بھی پذیرائی حاصل ہوگی اور اسے ہماری جماعتی تاریخ کا حصہ بنا لیا جائیگا۔
مصنف حفظہ اﷲ ہمارے بزرگوں میں سے ہیں ان کا حد درجہ احترام کرتا ہوں انھیں بھی مجھ سے تعلق خاطر ہے اور وقتاً فوقتاً اپنی محبتوں سے نوازتے رہتے ہیں تصنیف کتاب کے سلسلے میں کہیں نہ کہیں میری درخواست کا بھی دخل رہا ہے اسلئے ان کا حکم تھا کہ حصہ دوم پر مقدمہ میں لکھوں مجھے معلوم ہے کہ کتابوں پر مقدمے معروف اور علمی شخصیات تحریر فرمایا کرتی ہیں اور یہ ناچیز نہ معروف ہے اور نہ علم سے بہرہ ور، پھر بھی ان کے حکم کی تعمیل میں یہ چند سطریں حوالہ قرطاس کردی ہیں اﷲ کرے ان کے حکم کی تکمیل کی کسی ناحیہ سے ہوگئی ہو اور یہ انھیں پسند بھی آجائے مجھے امید ہے کہ کتاب قارئین ذی احترام کو پسند آئے گی اور وہ اس سے استفادہ کریں گے ، اﷲ تعالیٰ مولانا ندوی کو جزائے خیر دے اس پیرانہ سالی میں بھی ان کا قلم رواں دواں ہے اور ان کا حافظہ ان کا ساتھ دیتا ہے یہ اﷲ کا بڑا انعام ہے، ہماری دعا ہے کہ اﷲ انھیں صحت و عافیت سے رکھے ہمارے درمیان ان کی ذات گرامی انتہائی محترم ہے اﷲ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان سے استفادہ کرسکیں اور ان کی طویل زندگی کے اہم تجربات کو اپنے لئے مشعل راہ بنا سکیں ۔ 
خادم العلم والعلماء 
رفیق۱حمد رئیس سلفی
( علی گڈھ)
۵؍جنوری ۲۰۱۴؁ء

٭٭٭




برصغیر میں علمائے اہل حدیث کی مساعی جمیلہ 
از: فضیلۃ الشیخ مولانا ظہیر احمد صدیقی ندوی ؍حفظہ اﷲ 
الحمد ﷲ والصلاۃ والسلام علی رسول اﷲ، وبعد :
زیر نظر کتاب ’’ کاروان سلف‘‘فاضل محترم مدیر مجلس التحقیق الاسلامی تلسی پور فضیلۃ الشیخ عبدالرؤف خاں صاحب ندوی حفظہ اﷲ کے شاداب قلم اور زرخیز ذہن کا ثمرہ ہے اور ان کی جودت طبع اور فکر مند طبیعت کا نتیجہ ہے، ایک شدید ضرورت کی تکمیل اور تذکرہ و سوانح نگاری کے باب میں گراں قدر اضافہ کے ساتھ اہل حدیث لٹریچر کے لئے وقیع سرمایہ بھی ہے۔
بڑی ضرورت تھی ، اور ہے کہ ان اصحاب علم و دعوت اور اہل فضل و کمال کی حیات وخدمات اور حاصلات و فتوحات کا مبسوط اور موثق تذکرہ مرتب کیا جائے جنھوں نے بر صغیر میں بالعموم اور مشرقی یوپی میں بالخصوص دعوت و تبلیغ، اصلاح و تجدید،درس و افتاء اور تصنیف و تالیف کے میدان میں منہج سلف کے کامل التزام کے ساتھ کتاب و سنت کی تفہیم و تشریح کیلئے کارہائے نمایاں انجام دیئے، جو تمسک بالحدیث کے سختی سے پا بند رہے، دین کو جملہ عقلی و نقلی زوائد سے پاک رکھنے کی سعی بلیغ کی اور دین میں رائے اور قیاس بمقابلہ نص کے اصول کو تسلیم نہیں کیا، جنھوں نے اپنے آپ کو جہاد بالقلم اور جہاد باللسان کیلئے وقف رکھا، حدیث کی اشاعت ،سنت کی ترویج، رد شرک و بدعت، مذاہب باطلہ کا مقابلہ اور اسلامی روایات کو بر قرار رکھنے ، مسلم معاشروں کو فضول اور غیر اسلامی رسموں سے بچانے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب انکار حدیث کا فتنہ رونما ہوا ، حدیث کی حجیت اور اس کی تشریعی حیثیت پر اعتراضات کئے گئے، احادیث کے مضامین و مفاہیم میں تشکیک کی کوشش کی گئی، حدیث جو تمام علوم کا سر چشمہ اور ماخذ ہے، اور جیسا کہ شاہ ولی اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ نے صراحت فرمائی ہے کہ’’ حدیث تمام چیزوں کا ماخذ ہے، حتی کہ قرآن کا ماخذ بھی حدیث ہے، قرآن کی یہ آیت قرآن کی آیت ہے، ہمارے پاس اس کی دلیل حدیث ہی ہے‘‘ شاہ صاحب کہتے ہیں ’’ اصل ماخذ اور اساس علم حدیث ہے ، تمام علوم اسی سے مستنبط ہوتے ہیں، حدیث کا درجہ تو یہ ہے کہ قرآن کی تشریح بھی ہے اور اس کا ماخذ بھی‘‘ چنانچہ جب جب اس بنیادی ماخذ کو مشکوک و مشتبہ کرنے کی کوشش ہوئی تو یہی اہل حدیث علماء سامنے آئے اور ہر طرح کی تشکیک و اعتراض کا علمی اور مدلل جواب دیا اسی کے ساتھ بر صغیر میں حدیث اور علم حدیث کے ساتھ عجمی نیز کلامی و فقہی تغلب کے زیر اثر ایک اور ناانصافی،سخت قسم کی تفریط بلکہ بے ادبی اور ناقدری ہوئی جب حدیث کو فہم و تطبیق ہر دو سطح پر فقہ کے تابع بنا دیا گیا، رسول اﷲ ﷺ کی احادیث جو حکم اور فیصل تھیں ، جس طرح قرآن مجید دین کا مستقل ماخذ ہے اسی طرح حدیث بھی دین کا مستقل اور بنیادی ماخذ اور قرآن کی تبیےن و تشریح ہے، یہ بات امت کی مسلمات میں شمار ہے، لیکن بے توفیقی سے ہمارے یہاں اس کو دوسرے علوم و فنون اور عملاً فقہاء کے اختلاف اور ان کے فقہی اجتہادات و استنباطات کا تابع اور خادم بنا دیا گیا ، اس منہج فہم و تدریس کا بھی انہی علماء اہل حدیث نے سختی کے ساتھ نوٹس لیا اور مقام حدیث کے تحفظ ، اس کے علو مرتبت اور دین و علوم دین میں اس کے حقیقی مقام کو پیش کرنے اور اس باب میں منہج سلف کے احیاء کی قابل قدر کوششیں کیں، ایسے منہج کو استوار کیا کہ احادیث کو اصل قرار دے کر فقہاء کے استدلالات و استنباطات کو اور انسانوں کے( خواہ ان کا مرتبہ کچھ بھی ہو)اخذ کردہ معانی و مطالب اور ان کی تشریحات کو اسی پیمانہ پر جانچا پرکھا جو عین حق اور صواب تھا۔
مقام شکر ہے کہ مولانا عبدالرؤف خاں صاحب ندوی وفقہہ اﷲ کو فکر و توجہ ہوئی اور انہوں نے بالخصوص مشرقی یوپی کے اہل حدیث علماء اور ان کی خدمات و اثرات کو نہایت سہل و سادہ اور فطری و دلنشین انداز میں مرتب فرمایا جو بیشتر آں ممدوح کے رشحات قلم اور تاثرات ووفیات نگاری اور بعض دیگر اہل قلم کی کاوشوں پر مشتمل ہیں، یہ ایسا علمی مواد ہے جس سے نئی نسل اور آگے آنے والوں کو روشناس کرانا ضروری تھاجو’’ فلیبلغ الشاہد الغائب‘‘ کا حکم اور’’ فربّ مبلغ أوعیٰ من سامع‘‘ کی حکمت کا حامل تھا، اس مواد کی محض تاریخی نہیں بلکہ دستاویزی حیثیت ظاہر ہے، اس مواد سے سلفی منہج کا شعور پیدا ہونے اور اس میں استقامت و صلابت کی توقع بجا طور پر کی جا سکتی ہے، مولف محترم کے اخلاص ودل سوزی، ان کی مقصدیت اور جماعتی تحمس، ان کی بصیرت اور مذاق علمی اور ان کی تکبیر مسلسل کیلئے تہنیت پیش کرنا اپنے لئے فرض خیال کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنی مزید توفیقات سے پیہم نوازتا رہے۔ 
انہ ولی ذلک والقادر علیہ، وصلی اﷲ وسلم وبارک علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ أجمعین۔
ظہیر احمد صدیقی ندوی
لکھنؤ
۲۹؍ذوالقعدہ ۱۳۳۴؁ھ، ۶؍اکتوبر ۲۰۱۳؁ء



٭٭٭



ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
از: فضیلۃ الشیخ عتیق الرحمٰن ندوی ؍حفظہ اﷲ 
ناظم اعلیٰ جامعہ اسلامیہ دریا آباد سنت کبیر نگر یوپی
نسل آدم سے ہزار قومیں صفحہ ہستی پر وجود پذیر ہوئیں کچھ ہمیشہ کیلئے نا پید ہوگئیں اور اس طرح بھی ہوا کہ ع کچھ لوگ لوح وقت پہ تحریر ہو گئے
  اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ قوم میں جرأت و صلاحیت کا فقدان کتنی زندہ حکایتوں کو دست برد حالات کے حوالہ کر گیا جن کے ہاتھوں میں قلم اور صلاحیت اظہار کے ساتھ جرأت رندانہ بھی رہی ہے انھوں نے اپنے اسلاف کو آسمان کی نیلگوں چادر پر جگمگاتے ہوئے ستاروں کی طرح سجادیا ہے، عربی زبان میں علم دین کے حوالہ سے اسماء الرجال سے متعلق تصنیفات کی گراں مائیگی اپنی جگہ پر مسلم ہے ہی اس کے علاوہ تاریخ کے زبر دست ذخیرے ہماری زبان میں ہوں یا اغیار کی، قوموں کے عروج و زوال اور شخصی سیرتوں کا انمول سرمایہ ہیں ہر مصنف کا اپنا ایک اسلوب تحریر ہے عربی میں علامہ سید عبدالحئی حسنی سابق ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء نے کتاب نزہۃ الخواطر کئی جلدیں ضخیم لکھیں اس میں چو دہویں صدی تک ہندوستانی مسلمان مشاہیر کے حالات درج ہیں اردو میں مولانا حالی نے ’’حیات سعدی‘‘ ’’حیات جاوید‘‘ ’’ یادگار غالب‘‘ کا ذخیرہ فراہم کیا، مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی نے’’ علمائے سلف ‘‘ لکھی، علامہ سید سلیمان ندوی نے ’’ یاد رفتگاں ‘‘ اور ’’حیات شبلی‘‘ عطا فرمائی، رشید احمدصدیقی نے ’’ ہم نفسان رفتہ‘‘ کو وجود بخشا، مولانا سید ابوالحسن علی الحسنی الندوی نے ’’ پرانے چراغ‘‘ روشن کئے اسی طرح اردو شعراء سے متعلق قدیم تذکروں کے انمٹ نقوش وغیرہ صفحۂ قرطاس پر نمایاں ہوئے ۔
سلفیوں کی بزم سے علا مہ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے’’ تاریخ اہل حدیث ‘‘،مولانا ابویحیٰ امام خاں نو شہروی نے ’’ تراجم علمائے اہل حدیث ہند‘‘ قاضی محمد اسلم سیف نے ’’ تحریک اہل حدیث تاریخ کے آئینے میں‘‘ اور علامہ نذیر احمد رحمانی نے ’’ اہل حدیث اور سیاست‘‘ کا تحفہ دیا اور علامہ محمد اسحاق بھٹی نے ’’ بر صغیر میں اہل حدیث کی آمد، بر صغیر میں اہل حدیث خدام قرآن‘‘ ’’قافلۂ حدیث‘‘’’ کاروان سلف‘‘ ’’ نقوش عظمت رفتہ‘‘ ’’گلستان حدیث‘‘’’ہفت اقلیم‘‘’’بزم ارجمنداں‘‘’’دبستان حدیث‘‘’’ اہل حدیث کی اولیات‘‘ ’’ چمنستان حدیث‘‘ اس طرح اس موضوع پر درجنوں کتابوں کا سرمایہ عطا کیا ، ڈاکٹر بہاء الدین صاحب نے کئی جلدوں میں تاریخ اہل حدیث تصنیف فرمائی یہ اور اسی طرح کے بے شمار نمایاں کارناموں کی بدولت تاریخ کا افق نہایت تابناک ہے۔
ہرگز نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
ہماری مادر علمی دارالعلوم ندوۃ العلماء کے فیض یافتہ میرے بزرگ رہنما مولانا عبدالرؤف خاں ندوی حفظہ اﷲ سے میرا تعلق کچھ زیادہ مدت کا نہیں ہے ندویت کی ہم نسبتی تعارف کا سبب بنی اور سلفیت کی ہم مشربی نے اسے دو آتشہ کردیا شاید ندویت کا تصنیفی’’ جرثومہ‘‘ مولانا کو بھی لگا ہوا ہے چنانچہ انھو ں نے بہت سی تحریریں ۱؂ یادگار بنا رکھی ہیں اسی سلسلے سے متعلق یہ کتابِ عزیز ’’ کاروان سلف ‘‘ موصوف کا نمایاں کارنامہ ہے۔ مولانا نے اپنی بیش بہا تصنیفات سے ملت کو پہلے بھی مالا مال کیا ہے اور اب پھر اس کتاب مذکور کو تالیف کرکے ہم پر بڑا احسان فرمایا ہے ،مولانا نے اصرار فرمایا کہ میں ان کی دوسری آنے والی جلد کیلئے اپنے علاقہ 
 ۱؂ خانہ ساز شریعت اور آئینہ کتاب و سنت اول دوم ، اسلامی آداب معاشرت اول ،دوم،سوم، عورت اسلام کے سائے میں ،نقوش و تاثرات ۔ کتاب الدعا ء ۔رسول اکرم کی نماز۔ کاروان سلف حصہ اول و دوم وغیرہ وغیرہ 
 کی کسی سلفی شخصیت کا تعارف حاضرِ خدمت کروں، چنانچہ میں نے اس کی تعمیل میں ایک تحریر حاضر
 کردی ، جو شامل اشاعت ہے ۔ اور پھر حکم فرمایا کہ میں ان کی اس کتاب میں اضافۂ محض کے طور پر چند سطریں اور حاضر کروں سو یہ حاضر ہے۔
مولانا کا ذوق تحریر نہایت بالیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ غیر ژولیدہ بھی ہوا کرتا ہے، مسلسل لکھتے رہنے کے باعث کاموں کا انبار لگا ہوا ہے ، کچھ مطبوع اور کچھ نا مطبوع ، تاہم مطبوعات کی قدر انھیں زندگیٔ دوام عطا کرنے کیلئے کافی ہے۔ اور انھیں بھی جن کا اس کتاب میں ذکر جمیل موجود ہے ؂ 
ہزار نقش قدم مٹا کر زمانہ آنکھوں میں خاک ڈالے
جو تجھ سے چھوٹے ہیں ان کو تیری تلاش اے کارواں رہے گی 
شمالی ہندوستان کا سرحدی علاقہ جو نیپال سے متصل ہے سلفیت کے فروغ کا نہایت اہم مرکز رہا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ یوں ہی نہیں ہو گیا بلکہ اس علاقے میں اس جیالوں کی مجاہدانہ سر گرمیاں دیوانہ وار تبلیغی قربانیاں دامنِ دل کھینچتی ہیں۔ ع
کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا است
اس کتاب نے ان کرداروں کا بخوبی احاطہ کیا ہے جن کے خونِ جگر نے سلفیت کو سیراب کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس کتاب کو اور اس کے کرداروں کو اس کے مصنف کو اجرِ دوام سے نوازے۔(آمین)
عتیق الرحمن ندوی 
ناظم اعلیٰ جامعہ اسلامیہ دریا آباد 
سنت کبیر نگر (یوپی)
۲۸؍۱۲؍۲۰۱۳؁ء
رجال اہل حدیث کا ایک وقیع مرقع 
 از: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عین الحق قاسمی ؍حفظہ اﷲ
محترم جناب مولانا عبدالرؤف خاں ندوی صاحب ؍حفظہ اﷲ وتولاہ
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
اﷲ کرے آپ مع اہل و عیال بخیر و عافیت ہوں۔ 
آپ کی گراں قدر کتاب ’’ کاروان سلف‘‘ (حصہ اول ) موصول ہوئی ۔ عنایت فرمائی کا شکریہ ۔کتاب ظاہری و معنوی اعتبار سے جاذب نظر اور وقیع ہے، جو بلا شبہ سوانحی ادب میں ایک بیش بہا اضافہ ہے، یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ آپ نے بتوفیق الٰہی اتنے بڑے کام کا بیڑا اٹھایا ۔
سب پہ جس بارنے گرانی کی اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا
 اور رجال اہل حدیث کا ایک وقیع مرقع تیار کرکے ایک اہم اور عظیم علمی خدمت انجام دی ہے، اس کے لئے آپ قابل مبارکباد ہیں ۔
اپنے اسلاف کے حالات اور کارناموں کو ضبط تحریر میں لانا ایک علمی ، اخلاقی اور ملی فریضہ ہے، اس سے جہاں عظیم علمی ورثہ کی حفاظت ہوتی ہے، وہیں موجودہ اور آنے والی نسلوں کو ان کے علم و عمل سے استفادہ اور شخصیت کی تعمیر میں مدد ملتی ہے یقیناً اسلاف کے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتے رہنا بڑے فائدے کی چیز ہے۔ البتہ اپنے آئینے میں اسلاف کو دیکھنے کی کوشش کرنا بڑی خرابی کا باعث ہے، جو ایک المیہ ہے ۔
بلا شبہ ملت کے تمام مخلص علماء جو گزر گئے اور جو ابھی موجودہیں سب، ملت کا عظیم سرمایہ ہیں۔ ان کے کارناموں کو یاد کرنا ، ان کے علم سے استفادہ کرنا اور ان کے اخلاق و کردار کو اپنانا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے۔
کتاب کا پہلا حصہ اپنے قارئین سے داد تحسین حاصل کررہا ہے، خبر ہے کہ دوسرا حصہ بھی عنقریب آنے والا ہے، مجھے اس کا شدت سے انتظار ہے، اﷲ کرے وہ بھی خوب سے خوب تر ہو،میری دعائیں اور نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ 
والسلام
(ڈاکٹر)عین الحق قاسمی 
۳؍اکتوبر ۲۰۱۳؁ء 



٭٭٭



مولانا عبدالحلیم شرر ؔلکھنوی رحمہ اﷲ
(تاریخ وفات ۲۶؍ دسمبر ۱۹۲۶؁ء)
مولانا عبدالحلیم شرر ۱؂ کو دنیا اپنے وقت کا کامیاب اور مقبول ترین ناول نگار اور فلورافلورنڈا ، حسن انجلینا، منصور موہنا، فردوس بریں جیسے بہترین تاریخی ناولوں کا مصنف جانتی ہے ، اور اسی حیثیت سے ان کی قدر کرتی ہے ، ان کے ماہوار رسالہ ’’ دلگداز‘‘ کے بھی جو لکھنؤ سے نکلتا تھا شائقین ادب بہت قدردان تھے۔ اس میں مولانا شرر ہی کے زیادہ تر سوانحی اور تاریخی مضامین شائع ہوتے تھے اور وہ اردو دان حلقہ میں بڑے ذوق و شوق سے پڑھے جاتے تھے ،مولانا شرر نے ناولوں کے ساتھ بہت سی تاریخی کتابیں اور بزرگوں کی سوانح عمریاں بھی لکھی ہیں ۔جو بہت مقبول ہوئیں انھوں نے ناول کے پیرایہ میں جویائے حق کے نام سے دو جلدوں میں حضور انور ﷺ کی سیرت لکھی ہے، دارالمصنفین کے سلسلہ تصنیفات میں ایک اہم اور اردو میں اپنے موضوع پر منفرد کتاب دو جلدوں میں تاریخ صقلیہ بھی ہے۔ جس پر دارالمصنفین کو فخر ہے ،لیکن اس سے بہت پہلے مولانا عبدالحلیم شرر نے’’ صقلیہ میں اسلام‘‘ کے نام سے صقلیہ کی ایک تاریخ لکھی تھی، جس میں انھوں نے دکھایا ہے کہ صقلیہ میں بھی کبھی مسلمان تھے، جہاں انھوں نے حکمرانی کی ہے
۱؂ مولانا عبدالحلیم شررؔ لکھنؤی ۱۰؍جنوری ۱۸۶۰؁ء میں شہر کے محلہ جھوائی ٹولہ اپنے خاندانی مکان میں پیدا ہوئے اور ۲۶؍دسمبر ۱۹۲۶؁ء کو چند روز بیمار ہوکر لکھنؤ میں ہی داعی اجل کو لبیک کہا ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔ آپ میاں محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگرد خاص تھے بہت ہی ذہین وفطین تھے مولانا شرر کا حدیث میں یہ شہرہ تھا کہ علماء فن حدیث میں استفادہ کیلئے آپ کے دولت کدہ پر حاضر ہوتے تھے چنانچہ لکھنؤ ہی کے ایک علمی خاندان کے بزرگ نے فن حدیث پر جو مشہور کتاب لکھی تھی اس میں اکثر افادات مولانا شرر کے ہیں آپ سات زبانوں کے ماہر تھے عربی ، فارسی، ہندی،انگریزی، جرمن، فرنچ،اطالین،سنسکرت (بقیہ اگلے صفحہ پر )
 اور بڑے کارنامے انجام دئیے ہیں دار المصنفین کی تاریخ صقلیہ مولانا شررؔ کے اسی رسالہ کی تفصیل ہے جس میں صقلیہ کی ہر قسم کی علمی و سیاسی و تمدنی و ثقافتی تاریخ اور وہاں کے ہر شعبہ علم کے علماء و فضلاء ماہرین کے حالات آگئے ہیں۔
نجد کے مشہور مصلح و مجدد و ریفارمر شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اﷲ علیہ کی کتاب کتاب التوحید کا اردو ترجمہ انہی مولانا شررؔنے اپنے دہلی کی طالب علمی کے زمانے میں کیا تھا جہاں وہ میا ں سید نذیر حسین دہلوی سے حدیث کی تحصیل کے لئے گئے تھے ترجمہ مع اصل عربی متن کے ۱۲۹۹؁ھ میں
مطبع فاروقی دہلی میں چھپ کر شائع ہوا تھا ، جو ان کے ناولوں اور تاریخی کتابوں کی طرح مشہور نہیں
(پچھلے صفحہ کا بقیہ )اور اردو تو خود ان کی دست نگر تھی آپ کا رتبہ معاصرین میں ممتاز تھا اردو کے اخبار و رسالے آپ کے مضامین مایہ ناز سمجھتے یہی وجہ ہے کہ آپ کی زندگی میں آپ کے مضامین کے مجموعے چھپنا شروع ہوگئے تھے مختلف رسائل و جرائد کے مضامین کے علاوہ آپ کی تصنیفات کی تعداد لگ بھگ اسّی سے زیادہ ہے آٖ پ کو حدیث سے محبت تھی مسلک اہل حدیث کے داعی اور عامل تھے مولانا شرر ؔ محض اردو کے ادیب و انشاء پرداز شاعر مورخ سوانح نویس اور ناول نگار ہی نہیں تھے عربی علوم و فنون کے زبر دست عالم بھی تھے اپنے دور کے مشاہیر اساتذہ سے ان کے حلقہ درس میں پہنچ کر تمام علوم و فنون حاصل کئے مٹیا برج میں اپنے خاندانی بزرگوں کے ساتھ بچپن گذارکے لکھنؤ آئے تو تمام مروجہ علوم کی تحصیل مولانا ابوالحسنات عبدالحئی فرنگی محلی سے کی یہاں سے فارغ ہونے کے بعد دہلی جاکر شیخ الکل فی الکل میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے حلقۂ درس حدیث میں شریک ہوئے اور ان سے حدیث پڑھی اور انہی کے اثر صحبت فیض علم اور شرف تلمذ سے ان کا میلان مسلک اہل حدیث کی طرف ہوگیا جس کے میاں صاحب سب سے بڑے داعی اور مناد تھے۔ ان کے درس حدیث میں ایسا جادو تھا کہ جو بھی اس فن کے حصول کیلئے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتا انہی کا ہو جاتا اور انہی کا کلمہ پڑھنے لگتا یہ ہندوستان کیا عالم اسلام کی سب سے بڑی درس گاہ حدیث تھی جس میں داخل ہونے کیلئے مشرق و مغرب اور جنوب و شمال ہر طرف سے جوق در جوق طالبین حدیث آتے تھے۔ اور اس چشمۂ فیض سے فیض یاب ہوتے تھے۔ ( عبدالرؤف خاں ندوی تلسی پور) 
 ہوا ۔ لیکن اب اس کتاب کے بہت سے ترجمے اردو میں ہو گئے ہیں ، جن میں سب سے بہتر ترجمہ مولانا محمد سورتی استاذ جامعہ ملیہ دہلی کا ہے اس کے شروع میں انھو ں نے شیخ کے حالات اور نجد واطراف نجد میں ان کی تحریک پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جس سے اس کتاب کی افادیت اور بڑھ گئی ہے۔ یہ اتنا عمدہ اور پاکیزہ چھپا ہے کہ اس کو دیکھ کر آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں ۔
مولانا شرر ؔ کے متعلق یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگاکہ اپنے وقت کا سب سے مقبول اور پسندیدہ ناول نگار اور منصور موہنا، حسن انجلینا، اور قیس ولبنیٰ جیسے دلکش ناولں کا مصنف اور دل گداز جیسے مقبول ادبی رسالہ کا اڈیٹر مسلکاً اہل حدیث تھا اور ان کو اس مسلک سے اتنا شغف تھا ۔ کہ ان سے جو بھی ملنے جاتا تو اس سے اپنے مسلک کے مطابق نماز پڑھواتے اور فرماتے کہ قرآن و حدیث سے یہی قریب تر ہے۔
باوجود اس مسلک میں متشدد ہونے کے وہ رواجی پردہ کے مخالف تھے۔ اس پر انھوں نے ایک ناول بھی لکھا تھا ، اس ناول کا پلاٹ بہت درد انگیز ہے ، جس کو پڑھ کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں دو مسلم نقاب پوش دُلہنیں اپنے شوہروں کے ساتھ ایک ٹرین سے لکھنؤ اسٹیشن پر اتریں ، جہاں ان کو الگ الگ ٹرینوں سے مختلف سمتوں میں جانا تھا اپنی اپنی ٹرینوں پر سوار ہونے سے پہلے سوء اتفاق سے دونوں دُلہنیں بدل گئیں اور ٹرینیں ان کو لیکر اپنی اپنی سمت روانہ ہوگئیں اس سے انھوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ دلہنیں بُرقع پوش نہ ہوتیں یا اتنا سخت پردہ نہ ہوتا تویہ صورت حال ہرگز ہرگز پیش نہ آتی۔ 
ان کو ندوہ مولانا شبلی اور ان کے شاگردوں سے بڑا تعلق تھا ، خصوصاً مولانا شبلی کے فضل وکمال اور ان کی قوت تحریر کے بڑے قائل تھے ان کے معاملات میں ہمیشہ مدافعانہ پہلو اختیار کرتے تھے اور ان کی بہت پرزور حمایت کرتے تھے۔ جب مولانا شرر کا عمر طبعی میں پہنچ کر انتقال ہوا ، تو انہی گو ناگوں تعلقات و روابط کی بناء پر مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اﷲ علیہ نے معارف میں ان کا بہت پُر زور ماتم لکھا اور بہت شاندار الفاظ میں ان کی اردو خدمات کو سراہا اور ان کے حالات لکھے۔ سید صاحب نے اپنی ابتدائی زندگی میں درسیات کے علاوہ جن کتابوں کو پڑھا اور ان کا اثر قبول کیا اور ان کے ادب و انشاء کی تقلید کی، ان میں مولانا شرر کا سب سے زیادہ مشہور ناول منصور موہنا بھی تھا، سید صاحب نے معارف ہی کے اپنے ایک مضمون میں اس واقعہ کو بڑے لطف و لذت کے ساتھ بیان کیا ہے لکھتے ہیں کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ سے پہلے مجھ کو چند ماہ بہار کی مشہور علمی و مذہبی خانقاہ پھلواری شریف میں رکھا گیا ، جہاں ہر ہفتہ قوالی ہوتی تھی ، اس کے اثر سے قصبہ میں شعر وسخن کا بڑا چرچا تھا جس سے میں بھی متاثر ہوا ، یہیں میں نے سب سے پہلے مولانا عبدالحلیم شرر کا ناول منصور موہنا دیکھا، اس کا یہ اثر ہوا کہ جس وقت کتاب ختم کی ، خوب پھوٹ پھوٹ کر رویا ، میری اردو تحریر پر سب سے پہلا اثر انہی مولانا عبد الحلیم شرر کا پڑا اور اس کا اثر ایک عرصہ تک رہا۔ یہاں تک کہ الندوہ میں شائع ہونے کیلئے جو دو مضمون لکھ کر مولانا شبلی کی خدمت میں پیش کئے۔ وہ اسی طرز میں تھے ان میں ایک علم حدیث پر تھا اور ایک منطق پر مولانا نے پہلے مضمون کو کچھ اصلاح دے کر باقی رکھا ، اور شائع بھی ہوا ، اور دوسرے کو جس میں شرریت زیادہ تھی نکال ڈالا۔ 
لیکن جب ان کو ندوہ میں مولانا شبلی کا شرف محبت اور شرف تلمذ حاصل ہوا اور ان کی تصنیفات میں المامون، الفاروق اور الغزالی وغیرہ پڑھیں، تو ان کو پسندیدہ علمی و تحقیقی اسلوب تحریر ہمیشہ کیلئے اختیار کرلیا ، سید صاحب کی تمام تصنیفات پر سیرۃ النبیﷺ حصہ سوم سے لے کر حیات شبلی تک جو ان کی تصنیفی زندگی کا شاہکار ہے۔ مولانا شبلی ہی کا رنگ غالب ہے لیکن مولانا شبلی کا رنگ اختیار کرنے کے باوجود آخر وقت تک مولانا شرر کے قدر داں رہے۔ ان کی تحریروں اور کتابوں کو اسی ذوق و شوق سے پڑھتے رہے ، اور معارف میں اپنے قلم سے اس پر تبصرے بھی لکھتے رہے۔ 
مولانا شرر بچپن میں اپنے نانا کے ساتھ مٹیا برج کلکتہ میں رہتے تھے ، جہاں آخری نواب اودھ واجد علی شاہ لکھنؤ سے جلا وطن کر دیئے گئے تھے ، جو واجد علی شاہ کے وہاں مستقل رہنے سے رنگ رلیوں کے لحاظ سے دوسرا لکھنؤ بن گیا تھا ۔ وقت کے تمام بڑے بڑے سخنور واجد علی شاہ کے دربار میں جمع ہو گئے تھے۔ انھوں نے ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو انہی کی آغوش میں پایا، اردو میں لکھنے پڑھنے اور شعر گوئی کا ذوق یہیں پیدا ہوا ، مگر جب مٹیا برج کی بزم درہم برہم ہو گئی، تو لکھنؤ چلے آئے اور یہیں اپنی ساری زندگی اردو زبان کی خدمت میں گزاردی ۔ ان کے ماہوار رسالہ ’’ دل گداز‘‘ سے تو سارا زمانہ واقف ہے جس میں مختلف موضوع پر انھیں کے مضامین شائع ہوتے تھے اور بڑی دلچسپی اور شوق سے پڑھے جاتے تھے، یہ تمام مضامین کئی جلدوں میں شائع ہو چکے تھے۔ 
کچھ دنوں ان کا قیام حیدر آبار دکن میں بھی رہا، جہاں دولت آصفیہ کے کسی شعبے کے متعلق تھے۔ وہاں سے واپس آئے تو دو پرچے اور نکالے ایک کا نام اتحاد تھا، جو گاندھی جی کی ہندو مسلم اتحاد کی عالمگیر تحریک سے بیسیوں برس پہلے ہندو مسلم اتحاد کا داعی اور نقیب تھا، دوسرے کا نام پردۂ عصمت تھا ، جو صرف عورتوں کے لئے مخصوص تھا اور جس میں اس زمانہ کے معزز شرفاء کی خواتین کے رواجی پردہ کے خلاف مضامین لکھتے تھے۔ جس کے وہ چنداں حامی نہیں تھے اور مسلم معاشرہ کیلئے نقصان دہ سمجھتے تھے ، لیکن کچھ دنوں کے بعد یہ دونوں پرچے بند ہو گئے اور مولانا شرر نے بھی ان کے دوبارہ جاری کرنے کی کوشش نہیں کی، البتہ ان کا ماہانہ’’دل گداز‘‘ ان کی زندگی کے آخر تک جاری رہا۔ 
میاں صاحب محدث دہلوی کے انھیں خاص شاگردوں میں مولانا شرر بھی تھے۔ جنھوں نے نہ تو درس و تدریس کا کوئی حلقہ قائم کیا، اور نہ وعظ و ارشاد کی کوئی محفل گرم کی، نہ رشدوہدایت کی کوئی مسند بچھائی، نہ دینی موضوع پر کوئی کتاب تصنیف کی، تاہم اسی درسگاہ کا یہ فیض تھا کہ انھوں نے نجد کے مشہور مصلح و امام شیخ محمد بن عبدالوہاب کی کتاب کتاب التوحید کا اردو زبان میں سب سے پہلے ترجمہ کیا ، لیکن اس کے بعد ان کا رجحان آپ سے آپ ناول نویسی کی طرف ہوگیا اور اپنی پوری زندگی اس کے نذر کردی اور بے شمار تاریخی ناول لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کی سیرت پاک بھی ’’ جویائے حق ‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں ناول کے پیرائے میں لکھی اس حیثیت سے ان کا شمار بھی اردو کے مشہور سیرت نگار وں میں کیا جاسکتا ہے ، ظاہر ہے کہ ایک اہلحدیث ہونے کی حیثیت سے بھی اس میں کوئی واقعہ سیر و تاریخ و مغازی کے خلاف نہیں لکھاہوگا ، بلکہ حدیث کی کتابوں ہی سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہوگا۔
اصل میں ان کا ذوق تاریخی تھا اور ان کا تاریخ کا مطالعہ بہت وسیع تھا ، انھوں نے تاریخی ناولوں کے ساتھ خالص تاریخ کی بھی بہت سی کتابیں لکھیں ، مثلاً تاریخ بغداد، تاریخ اسلام، تاریخ حروب صلیبیہ ، تاریخ سندھ، صقلیہ میں اسلام وغیرہ ان کی تمام تالیفات و تصنیفات کی تعداد اسّی ہے ۔دلگداز، محشر، اودھ اخبار، اتحاد، پردہ عصمت اور ملک کے دوسرے پرچوں میں انھوں نے جو بیشمار مضامین لکھے ان کے جو مجموعے چھپے وہ ان کے علاوہ ہیں ، جن کی تعداد دس بارہ سے کم نہ ہوگی۔ 
ہندوستان میں شیح محمد بن عبدالوہاب کی کتاب ’’کتاب التوحید ‘‘کے طبع و اشاعت کی، اسی ترجمہ کے آخر میں عجیب و غریب داستان لکھی ہے جو ذیل میں درج ہے۔ 
بدایوں کے ایک شیخ نے عربی میں ایک کتاب تصنیف کی ، اور مشہور کیا کہ یہ شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کی کتاب التوحید ہے، اور اپنے ہی قلم سے علمائے حرمین کی طرف سے اس کا جواب بھی لکھا ، جس کا نام رجم الشبہات رکھا۔ اس سے عوام میں بڑی گمراہی پھیل گئی، یہ دیکھ کر مولوی بشیر الدین صاحب قنوجی مرحوم نے اصل حقیقت سے پردہ اٹھایا ، کہ نفس کتاب اور اس کا جواب جو علماء حرمین کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ سب جعلی ہے، اور اس کا دور قریب کا تعلق بھی اصل کتاب التوحید سے نہیں ہے جس کے مصنف شیخ محمد بن عبدالوہاب ہیں ، اس کے بعد عظیم آباد پٹنہ کے ایک اہل توحید بزرگ مولوی تلطف حسین صاحب کو اصل کتاب التوحید کے چھپوانے کا خیال پیدا ہوا ، اور انھوں نے اس کی تلاش شروع کردی ، چنانچہ ان کو اس کے کئی نسخے دستیاب ہو گئے، لیکن ان میں سے کسی نسخہ کی صحت پر موصوف کو اطمینان نہ ہوسکا، وہ اس کے کسی مستند نسخے کی تلاش و جستجو میں سر گرداں تھے، کہ حسن اتفاق سے اس کا ایک مستند ترین نسخہ جو صاحب کتاب شیخ محمد بن عبدالوہاب کی پوتی کے نسخہ کی نقل اور اسی سے تصحیح کیا ہوا تھا ان کے ہاتھ لگ گیا ، اسی کو مع اردو ترجمہ کے چھپوانے کا انھوں نے مصمم اراد ہ کرلیا ۔ چنانچہ انہی مولانا عبدالحلیم شرر سے جو دہلی میں میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے دورۂ حدیث میں شریک تھے ۔ اور جن کو مٹیا برج کلکتہ کی علمی و ادبی و شعری صحبتوں میں اردو میں لکھنے پڑھنے کا بہت ہی اعلیٰ مذاق پیدا ہو گیا تھا، اردو میں نہایت فصیح و بلیغ ترجمہ کیا اور انہی شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے پوتے سید عبدالسلام کے ذاتی مطبع فاروقی دہلی سے نہایت اہتمام سے چھپواکر شائع کیا۔ اس میں اصل عربی میں الگ ہے ۔ اور اس کا ترجمہ الگ ہے تاکہ عربی دان اور اردو دان دونوں بیک وقت استفادہ کرسکیں، یہ ہندوستان میں کتاب التوحید کا لیتھو میں غالباً پہلا ایڈیشن ہے، جس کا ایک نسخہ راقم الحروف کے پاس بھی موجود ہے ، عربی متن کے صفحات ۳۶ ہیں اور اردو ترجمہ کے صفحات ۵۰ ہیں ، غالباً اس کے دوسرے ایڈیشن کی نوبت نہیں آئی اور پھر یہ پردۂ گمنامی میں چلا گیا ۔ خود مولانا شرر کو بھی اپنے اس دینی کارنامہ کو دوبارہ منظر عام پر لانے کا ساری عمر خیال پیدا نہ ہوا۔
حیرت ہے کہ ایسے اردو کے عظیم جلیل القدر ناول نگار ، مورخ، مصنف، پر جس نے اپنی گو ناگوں تصنیفات ، تاریخی ناولوں، اور ہر موضوع پر اپنے بے شمار تحریروں سے اردو کے خزانۂ ادب میں بیش بہا اضافہ کیا ہے، اردو کے کسی اسکالر نے تھیسیس یا پی ایچ ڈی کامقالہ لکھنے کی طرف توجہ نہیں کی، حالانکہ یہ اپنی طویل ادبی خدمات اور کارناموں کے لحاظ سے ان تمام ارباب کمال کے مقابلہ میں جن پر پی، ایچ، ڈی کی ڈگریاں لی گئی ہیں ، کہیں زیادہ اس کے مستحق تھے کہ ان پر تفصیلی مقالہ لکھ کر، ہندوستان کی کسی یونیور سٹی سے بھی پی، ایچ، ڈی کی ڈگری لی جا سکتی تھی۔ اس کا خیال مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے کسی اردو اسکالر کو آیا، نہ دہلی یونیورسٹی اور لکھنؤ یونیورسٹی کے کسی اسکالر کو۔ جہاں انھوں نے اپنی طالب علمی کا کچھ زمانہ گزارا ، اور جہاں رہ کر اپنی پوری زندگی گذار دی اور اعلیٰ درجہ کے ناولوں اور تاریخی کتابوں کے ساتھ نوابانِ اودھ کے عہد کے لکھنؤ کی تہذیب و تمدن ومعاشرت پر گذشتہ لکھنؤ کے نام سے ایک شاہکار کتاب بھی لکھی، جس کو پڑھ کر اپنے تمام لوازم کے ساتھ گذشتہ دور کا پورا لکھنؤ نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اور غالباً لکھنؤ یونیورسٹی کے اردو کے نصاب میں یہ اب تک شامل ہے۔
ابھی زیادہ زمانہ نہیں گذرا کہ اپنے ایک سے ایک بڑھ کر تاریخی ناولوں کے ذریعہ ہندوستان کی پوری ادبی فضا پر چھائے ہوئے تھے ، ابھی ایک ناول کا ایڈیشن ختم بھی نہیں ہونے پاتا تھا کہ دوسرا ناول چھپ کر بازار میں آجاتا تھا۔ اور شائقین اس کی خریدنے اور پڑھنے میں لگ جاتے تھے ، لُطف یہ ہے ، ناول پر ناول شائع ہونے کے باوجود ان کے کسی ناول کی مقبولیت میں ُذرہ برابر فرق نہیں آیا ۔ ان کے تمام ناول یکساں دلچسپی اور ذوق و شوق سے پڑھے جاتے تھے اور لوگوں کو ان سے سیری نہیں ہوتی تھی، اس سے بڑھ کر ان کے ناول کی مقبولیت کا اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے ۔ مولانا سید سلیمان ندوی جیسا ثقہ اور متصف عالم اس کے ایک ناول منصور موہنا کو پڑھ کر اتنا متاثر ہوا کہ جب کتاب ختم ہوگئی ، تو خوب پھوٹ پھوٹ کر رویا ، اور اس کی تحریروں پر لکھنؤ میں مولانا شبلی کی صحبت میں آنے سے پہلے تک انہی کے دلکش اسلوب کا اثر رہا اور اس کا تتبع کرتا رہا۔ اردو کے ایسے مقبول، پسندیدہ صاحبِ قلم ، ادیب، انشاپرداز پر اب تک اردو کے کسی اسکالر کا قلم نہ اٹھانا، اردو ادب کی کتنی بڑی ٹریجڈی ہے۔
وہ صرف ادیب اور ناول نگار ہی نہیں تھے بلکہ بہت اچھے مورخ اور سوانح نگار بھی تھے ، انھوں نے بہت سی سوانح عمریاں اور تاریخی کتابیں بھی لکھیں اور ان میں خوب خوب دادِ تحقیق دی اور عربی میں بعض اہم تاریخی کتابوں مثلاً کتاب التوحید ، ولادتِ سرورعالم وغیرہ کا ترجمہ بھی کیا۔ ان کا اسلوب اتنا دلکش اور انداز بیان اتنا موثر ہوتا تھا کہ ان کی جو کتاب بھی پڑھنے کے لئے اٹھائی جاتی ، بغیر ختم کئے ہاتھ سے رکھی نہیں جاتی تھی۔ 
ان کا کوئی ناول بھی فرضی نہیں تھا، بلکہ تمام تر حقیقت پر مبنی تھا ، اسلئے اس کے پڑھنے میں لوگوں کو واقعیت کا لُطف آتا تھا ، عربی ادب کی مشہور کتاب اغانی کی جلدیں برابر ان کے مطالعہ میں رہتی تھیں، اور اسی سے اپنے ناولوں کے پلاٹ تیار کرتے تھے، جس میں ان کو بڑا ملکہ ہوگیا تھا، ا ن کا ہر ناول مسلمانوں کی تاریخ کے کسی نہ کسی عظیم الشان واقعہ یا حادثہ سے متعلق ہوتا تھا۔ اس لئے اس میں دلکشی اور تاثیر پیدا ہوجاتی تھی۔ اسلئے لوگ اس کو ایک قصہ، ایک کہانی، ایک فسانہ کے طور پر نہیں تاریخ کی کتاب سمجھ کر پڑھتے تھے اور اس سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ 
  مولانا ابو علی اثری رحمہ اﷲ
اعظم گڈھ


شمس العلماء مولانا حفیظ اﷲ رحمہ اﷲ اعظمی
سابق مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
(تاریخ وفات ۵؍دسمبر ۱۹۴۳ء) 
ہندوستان کے صوبہ یوپی کا ضلع اعظم گڑھ علم و عمل اورفضل وکمال کے اعتبار سے طویل مدت سے خاص شہرت کا حامل چلا آرہا ہے۔ اس شہر اور اس کے قصبات و دیہات میں لا تعداد اصحاب فضیلت کا ظہور ہوا ، جنھوں نے درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے میدانوں میں بے پناہ خدمت سر انجام دیں اور بے شمار لوگوں نے ان سے کسب فیض کیا۔ اسی ضلع کے ایک گاؤں کا نام ’’بندی‘‘ ہے۔ صاحب ترجمہ مولانا حفیظ اﷲ صاحب کا مولد یہی گاؤں ہے ۔ وہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سے (جسے انگریز حکومت نے غدر قرار دیا) چھ ماہ قبل پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم، قرآن مجید اور فارسی کی بعض کتابوں تک اپنے والد ماجد سے پائی۔ پھر بنارس جاکر کچھ درسی کتابیں پڑھیں ۔ وہاں سے اپنے عزیز مولانا سلامت اﷲ جیراج پوری کے ساتھ غازی پور چلے گئے۔ وہاں مدرسہ چشمۂ رحمت میں مولانا احمد حسین صاحب سے فارسی کی انتہائی کتابوں کی تکمیل کی۔ علاوہ ازیں عربی، صرف و نحو، منطق وفلسفہ، ادبیات اور فقہ واصول وغیرہ کی کتابیں مختلف اساتذہ سے پڑھیں ۔ وہیں مولانا عبدالحلیم فرنگی محلی کے شاگرد مولانا غلام جیلانی کا سلسلۂ درس جاری تھا ، ان سے عربی کی متعدد کتابوں کا درس لیا پھر انہی کے مشورہ سے لکھنؤ جاکرمدرسہ فرنگی محلی میں داخلہ لیا اور مولانا عبدالحئی فرنگی محلی سے علوم مروّجہ کی انتہائی کتابیں پڑھیں ۔ اس طرح معقولات و منقولات کی تمام کتابیں مکمل کر لیں ۔ کتب حدیث دہلی جاکر حضرت میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی سے پڑھیں اور ان سے سند حدیث لی۔ 
سید سلیمان ندوی ان کے عامل بالحدیث ہونے کے متعلق فرماتے ہیں:
’’ مولانا عبدالحئی مرحوم کی شاگردی کے باوجود مرحوم آخر میں عامل بالحدیث ہو گئے تھے۔ عدم تقلید کا میلان پہلے سے رکھتے تھے جو شاید مولوی سلامت اﷲ صاحب کی ابتدائی صحبت کا اثر رہا ہو۔‘‘ ۱؂ 
بے شک ترک ِ تقلید کے باب میں وہ مولانا سلامت اﷲ جیراج پوری کی صحبت سے متاثر ہوئے ہوں گے ، لیکن حضرت میاں صاحب کے حلقۂ درس میں بھی تو رہے تھے اور ان سے حدیث کی سند لی تھی ۔ اس کا نتیجہ بھی تو آخر نکلنا ہی تھا۔ 
جس زمانے میں انھوں نے مروّجہ تعلیم سے فراغت پائی، اس زمانے میں ضلع لکھنؤ کے ایک مقام کا کوری میں ایک مدرسہ جاری تھا، اس میں انھیں مدرس مقرر کرلیا گیا ۔ وہاں کچھ عرصہ فریضۂ تدریس انجام دیتے رہے ۔ پھر جب مولانا عبدالحئی فرنگی محلی مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو انھوں نے ان کو کاکوری سے بلا کر اپنی جگہ مدرسہ فرنگی محلی میں مامور فرمایا تاکہ وہ اس قدیم مدرسے میں پڑھنے والے طلبہ اور مولانا کے قریبی عزیز مفتی محمد یوسف کو درسی کتابوں کی تعلیم دیں ۔ چنانچہ استاد کے حکم کے مطابق وہ وہاں تعلیم دیتے رہے۔ اس مدرسے میں ان سے متعدد علماء و طلباء نے استفادہ کیا۔ اس پر دو برس کا عرصہ گزرا تھا اور مولانا عبدالحئی فرنگی محلی بھی انتقال کرگئے تو انھیں ریاست رام پور کے سرکاری مدرسہ میں تشریف لانے کی دعوت دی گئی۔ اس کا نام ’’مدرسہ عالیہ‘‘ تھا اس مدرسے کے وہ اول مدرس اور پرنسپل مقرر ہوئے۔ نو برس وہاں ان کا سلسلۂ تدریس جاری رہا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب رام پور اہل علم کا مرکز تھا اور تمام ہندوستان کے مدارس میں اس کی شہرت تھی ، یہی وہ عہد تھا جب وہاں مولانا عبدالحق خیرآبادی کا طوطی بولتا تھا اور انھیں پورے ملک 
۱ ؂ یاد رفتگاں ص: ۳۰۹
میں معقولات کے ماہر سمجھا جاتا تھا ۔ اس وقت کسی اہل علم کا مدرس کی حیثیت سے مدرسہ عالیہ میں جانا اور وہاں کے اہل علم میں پُر وقار جگہ پیدا کرنا بہت مشکل تھا۔ مولانا عبدالحق کے علاوہ مولانا حفیظ اﷲ کو بھی منطق اور فلسفے میں مہارت حاصل تھی ۔ سید سلیمان ندوی رقم فرماتے ہیں ’’ دونوں میں نواب صاحب رام پور کے سامنے ایک دفعہ کسی فلسفیانہ مسئلے پر مناظرہ بھی ہوا ۔‘‘ بہر حال مولانا حفیظ اﷲ رام پور کے مدرسہ عالیہ میں بڑے وقار سے رہے اور بے شمار لوگوں نے دائرۂ شاگردی میں داخل ہونے کا شرف حاصل کیا۔ 
جون ۱۸۹۸ء میں لکھنؤ میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کا قیام عمل میں آیا۔ مولانا حفیظ اﷲ اس کے ابتدائی ارکان میں شامل تھے۔ ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامیہ نے ان سے مدرسہ عالیہ رام پور کی تدریس کا سلسلہ ختم کرکے ندوہ میں تشریف لانے کی درخواست کی ۔ چنانچہ انھوں نے اپنی خدمات ندوہ کے سپرد کردیں اور انھیں اس دارالعلوم کا مہتمم اورشیخ الحدیث بنا دیا گیا۔ ۱۹۰۸ء تک وہ ندوہ میں اس منصب پر فائز رہے۔ سید سلیمان ندوی نے اسی زمانے میں ان سے منقولات و معقولات کی کتابیں پڑھیں ۔
مولانا شبلی کے وہ معاصر تھے ۔ سید صاحب کے بقول ’’ اس لئے جب صحبت ہوتی تو دونوں میں خوب نوک جھونک ہوتی۔ گفتگو کاموضوع کوئی فلسفے کا مسئلہ یا عقل و نقل کی تطبیق کی معرکہ آرائی ہوتی۔‘‘
۱۹۰۹ء میں حکومت نے ان کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر مقررکردیا اور وہ ندوہ سے وہاں چلے گئے ۔ ۱۹۲۱ء میں یونیوسٹی سے پنشن یاب ہوئے تو اسی سال حج بیت اﷲ کا قصد کیا ۔ ۲۸؍اپریل ۱۹۲۱ء کو بمبئی سے بذریعہ سمندری جہاز روانہ ہوئے تھے۔ عدن پہونچے ۔ تو رمضان کا چاند ہو گیا ۔ اوائل رمضان میں مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ۔ ایک مہینہ وہاں قیام رہا۔ ۱۰؍شوال کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کو روانگی ہوئی۔ پندرہویں دن مسجد نبوی میں داخل ہوئے۔
حسن اتفاق سے قیام کا انتظام مسجد نبوی کے قریب ہی ہوگیا۔ کچھ عرصہ وہاں رہے۔ پھر مکہ معظمہ کو واپسی ہوئی ۔ کئی روز وہاں قیام کیا ۔ حج کے دن آئے تو احرام باندھ کر منیٰ اور مزدلفہ سے گزرتے ہوئے عرفات کے میدان میں داخل ہوئے۔ اس طرح اﷲ تعالیٰ نے فریضۂ حج ادا کرنے کی سعادت بخشی ۔
واپس آئے تو دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ناظم اور مجلس انتظامیہ کے ارکان نے دوبارہ ندوہ تشریف لانے اور اس کی صدر مدرسی قبول کرنے پر اصرار کیا ۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ دارالعلوم کی تدریسی حالت بہت بگڑ چکی تھی اور صدر مدرسی کے لئے کوئی قابل اور تجربہ کار معلم نہیں مل رہا تھا۔ ادھر ڈھاکہ یونیور سٹی میں بھی ان کی دوبارہ طلبی کیلئے زور دیا جارہا تھا اور اس کیلئے مسلسل تار اور خطوط آرہے تھے۔ اس یونیورسٹی کو بھی عربی کا کوئی لائق پروفیسر میسر نہیں آرہا تھا وہاں آج سے ۹۰ برس پہلے ماہانہ تنخواہ چار سو روپئے تھی جو موجودہ دور کے حساب سے پچاس ہزار سے بھی زیادہ ہوگی۔ لیکن اِدھر ندوۃ العلماء میں تنخواہ ایک سو پچاس روپئے تھی ۔ مولانا حفیظ اﷲ کا ایثار ملاحظہ ہو کہ انھوں نے چارسو پر ڈیڑھ سو پر ترجیح دی اور ندوہ کی مسند درس سنبھال لی ۔ ندوہ کے اجرا پر بھی وہ اسی مسند پر متمکن ہوئے تھے اور اس کے اولین صدر مدرس اور پرنسپل تھے۔ 
مولانا حفیظ اﷲ کے دوبارہ ندوہ آنے کے بعد اس کے تعلیمی معاملات بالکل بدل گئے اور وہ روز بروز ارتقا کی منزلیں طے کرنے لگا ۔ مولانا کا حلقہ تلامذہ بہت وسیع تھا۔ ان کے پہلے دورِمدرسی کے شاگردوں میں سید سلیمان ندوی اور دوسرے دور کے تلامذہ میں مولانامحمد حنیف ندوی شامل ہیں۔
ان کے علم وفضل کی بناء پر حکومت نے ان کو شمس العلماء کا خطاب دیا۔ ان کے استاد مولانا عبدالحئی لکھنؤی کی کنیت ابوالحسنات تھی ۔ انھوں نے ان کے حالات عربی زبان میں ’’کنز البرکات لمولانا ابی الحسنات‘‘ کے نام سے لکھے۔ نیز ’’تصریح الافلاک‘‘ کا حاشیہ لکھا جو مطبع مجتبائی میں چھپا۔ 
مولانا حفیظ اﷲ ۱؂ نہایت خوش مزاج عالم دین تھے۔ شکار کا بھی انھیں بہت شوق تھا ۔ دوسری مرتبہ ۱۹۲۱ء سے ۱۹۳۰ء تک نو سال انھوں نے ندوۃ العلماء میں خدمت درس انجام دی۔ پہلی دفعہ بھی وہ نو سال اس منصب پر فائز رہے تھے۔ اس طرح اٹھارہ انیس سال ندوہ کی صدر مدرسی کی مسند ان کے سپرد رہی۔ جب ان پر ضعف کاغلبہ ہو گیا اور بصارت بھی متاثر ہوئی تو وہ تدریس چھوڑ کر اپنے وطن ’’بندی ‘‘ چلے گئے تھے۔ وہیں ستاسی سال کی عمر پاکر ۷؍ذی الحجہ ۱۳۶۲ھ (۵؍دسمبر ۱۹۴۳ء) کو وفات پائی۔ ۲؂ 
 ۱؂ محترم مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اﷲ اپنی مشہور کتاب قافلہ حدیث ص ۲۷۹ میں تحریر فرماتے ہیں کہ مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اﷲ راوی ہیں کہ میں جن دنوں دارلعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں زیر تعلیم تھا اپنے استاذ شمس العلماء مولانا حفیظ اﷲ سابق مہتمم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے بارے میں بتایا کہ مولانا حفیظ اﷲ صاحب بہت بڑے محدث وفقیہ بھی تھے۔ اور ماہر منطق و فلسفہ بھی وہ مولانا شبلی نعمانی کے معاصر تھے اور مولانا شبلی سے ان کی خوب بحثیں رہتی تھیں ۔ وہ علم کے مختلف گوشوں میں مولانا شبلی کو کوئی خاص اہمیت نہ دیتے تھے عام طور سے گفتگو میں وہ منطق کی اصطلاحیں استعمال کرتے تھے بہت اچھے پیراک بھی تھے دریائے گومتی میں اکثر پیراکی کا مظاہرہ کرتے بڑے بڑے تیز پیراک ان کا مقابلہ نہ کر پاتے مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اﷲ نے بعض پرانے اساتذہ کے حوالے سے بتایا کہ ایک دن مولانا شبلی نے ان سے کہا ہمیں پیراکی نہ آئی بولے یہ جزیہ سالبہ ہوا کہ آپ کو پیراکی نہ آئی جزیہ موجبہ بولئے اور بتائیے آپ کو آتا کیا ہے؟ مولانا حفیظ اﷲ اہل حدیث مسلک کے تھے اور اس مسلک پر پوری زندگی عامل رہے ۔ (عبدالرؤف خاں ندوی تلسی پور ، بلرامپور )
۲؂ نزہۃ الخواطر ج ۸ ص: ۱۳۴ 
اس قسم کے رجال ایثار پیشہ اور مدرسین عظمت نشان سے اب دنیا خالی ہوتی جارہی ہے۔ حالات نے ایسی کروٹ لی ہے کہ روز بروز مادیت کا غلبہ بڑھ رہا ہے اور قدیم آثار تیزی سے ختم ہو رہے ہیں ۔ اﷲ ہی ہم سب کا حافظ و ناصر ہے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون 
(بحوالہ گلستان حدیث از علامہ محمد اسحاق بھٹی حفظہ اﷲ) 

٭٭٭













حضرت العلام مناظر اسلام مولانا عبد الرحمن ڈوکمی رحمہٗ اﷲ 
(سال وفات ۱۹۵۲؁ء) 
مولانا ابو النعمان عبدالرحمن بن یعقوب ڈوکمی موضع محمد نگر (اٹوابازار سدھارتھ نگرسے پورب کھنڈسری بازار کے قریب واقع ہے) میں پیدا ہوئے تاریخ پیدائش کا علم نہ ہوسکا آپ کا خاندان فارغ البال اور خوش حال تھا لیکن جہالت اور ناخواندگی اور شرک و بدعت کا یہ عالم تھا کہ پورے علاقے میں سب سے بڑا تعزیہ آپ کے یہاں بنتا تھا آپ کے والد آلھا گانے میں مشہور تھے ۔ آلھا سننے کیلئے آپ کے گھر لوگ ہزاروں کی تعداد میں آتے تھے ایک معمولی پڑھے لکھے میاں عباد اﷲ (جوحنفی المسلک تھے) سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ان کی تعلیم و تربیت ہی کا اثر تھا کہ ایک بار گھر کا تعزیہ توڑ تاڑ کر رکھدیا اور اسطرح سنت ابراہیمی کو زندہ و جاوید کیا۔ 
مزید تعلیم کے حصول کیلئے گھرسے کسی کو بتلائے چپکے سے فرار ہو گئے ایک خط لکھا کہ اب میں جدا ہو رہا ہوں اور نہ جانے کب تک جدا رہوں اسلئے گھر کی زمینداری میں میرا کوئی حصہ نہیں جو والدین کی خدمت کرے گا وہ اس کا وارث ہوگا آپ نہ جانے کتنے مدارس کی خاک چھانی آخر میں میاں محمدنذیر حسین محدث دہلوی کی خدمت میں پہونچ کر زانوئے تلمذ تہہ کیا آپکے اساتذہ حدیث میں استاذ الاساتذہ حافظ عبداﷲ غازی پوری ،مولانامحمد بشیر سہسوانی ، شیخ حسین عرب بھی تھے ۔ جب یہاں سے فراغت حاصل کرلی ، تو گھر دوسرا خط لکھا کہ میں گھر آنا چاہتا ہوں کرایہ بھیج دیجئے ۔ بالآخر گھر واپس آئے اور لوگوں کی اصلاح کرنے لگے۔ شرک و بدعت و غلط عقائد سے پہلے اپنے گھرکے لوگوں کو توبہ کرایا تعزیہ، عَلم ،ڈھول،تاشہ توڑ دیا اور اس نجاست سے گھر کو پاک کیا ، امام کے چبوترہ کو کھودوا یا فراغت کے بعد میاں صاحب کے مدرسہ میں معقولات ، فقہ اور حدیث کا درس میاں صاحب کی نگرانی میں دیا ، اس کے بعد مدرسہ دارالہدیٰ یوسف پور میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے کچھ دنوں کے بعد یہاں کی آب و ہوا راس نہ آئی لہذا وہاں سے مستعفی ہو کر جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر تدریس کی غرض سے تشریف لائے تدریس کے ساتھ ساتھ دعوت و تبلیغ کا کام بھی کرنے لگے آس پاس کے ایک گاؤں سیورا دودھونیاں کو اپنی دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ۔ چنانچہ اس گاؤں میں تقریباً ایک سو خواتین نماز تہجد پابندی سے ادا کرتی تھیں ۔ آپ جسمانی اعتبار سے طاقتور تھے کشتی اور پہلوانی کے شوقین تھے۔ 
ایک دفعہ ڈھبروا تھانہ تحصیل شہرت گڈھ سدھارتھ نگر کے ایک مسلم بدعتی داروغہ نے میلاد خوانی کیلئے آپ کو بلایا تو آپ نے صاف انکار کردیا داروغہ گاؤں پر آیا اس کو خاطر میں نہ لائے اور کہہ دیا کہ کوتوال صاحب بھی آجائیں تو میں ہرگز کھڑا نہ ہوں گا ۔ گاؤں کے چوکیدار نے داروغہ سے آپ کی قوت و شوکت کو بتلایا جس سے داروغہ نرم پڑ گیا اور معافی مانگتے ہوئے میلاد میں شرکت کا دعوت نامہ بھیجا آپ تشریف لے گئے لیکن میلاد خوانی کے بجائے آپ نے توحید کے موضوع پر پُر زور تقریر کی۔ داروغہ بہت متاثر ہوا ۔ اور اس تقریر کو حاصل زندگی قرار دیا اور شرک و بدعت سے توبہ کرکے جاہلانہ میلاد سے ہمیشہ دور رہنے کا عہد کیا ۔ 
ضلع بلرام پور کے ایک مشہور و معروف گاؤں شنکر نگر کٹرہ اور بھیکم پور میں بریلویت جڑ پکڑ رہی تھی آپ شنکر نگر تشریف لے گئے اور مناظرہ کا چیلنج کیا بریلیوں نے تو چیلنج قبول کرلیا لیکن مناظرہ سے پہلے فرار ہو گئے اور شنکر نگر میں بریلویت کا خاتمہ ہوگیا اور آج یہ گاؤں شنکر نگر ضلع بلرام پور میں جماعت اہل حدیث کا اہم اور مرکزی مقام ہے۔ 
مولانا ابو یحییٰ نو شہرویؒ صاحب تراجم علمائے اہل حدیث کے لکھنے کے مطابق مولانا عبدالرحمن ڈوکمی ۱۹۳۰؁ء سے رائے بریلی میں مقیم ہوئے اور اس کے بعد ہی مدرسہ محمد یہ کی بنیادڈالی لیکن مولانا ڈوکمی کے بڑے صاحبزادے حکیم عبید اﷲ رائے بریلوی کا کہنا ہے کہ سید سردار حسین کو رائے بریلی میں ایک عالم دین کی ضرورت تھی انھوں نے میاں محمد نذیر حسین محدث دہلوی کو لکھا میاں نذیر حسین نے اپنے ترکش کا آخری تیر والد محترم مولانا عبدالرحمن ڈوکمی کے پاس ایک خط دے کر جھنڈانگر بھیج دیا اس طرح آپ رائے بریلی گئے ۱؂ مدرسہ محمد یہ کی بنیاد ڈالی اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا ساتھ ہی شرک و بدعت کے خلاف زبان قوت بازو سے جہاد کرتے رہے رائے بریلی میں مولانا ۲؂ ڈوکمی کی وجہ سے کافی حد تک شرک و بدعت خرافات و منکرات کا زور ٹوٹا آپ کے اوپر بہت سے مقدمات چلے ،لیکن اﷲ تعالیٰ نے آپ کو کامیاب فرمایا آپ ۳؂ ۱۹۴۸؁ء تک زندہ تھے آپ کے قابل ذکر تلامذہ میں خطیب الاسلام مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈانگری ، مفسر قرآن مولانا عبدالقیوم رحمانی ، مولانا اقبال حسین ہاشمی ، امام فرائض مولانا عبدالرحمن بجواوی، مولانا محمد یوسف سیورا، حکیم مقبول احمد بڑھنی، حکیم عبید اﷲ رحمانی رائے بریلوی ،حکیم عبید الرحمن اور مولانا سید ابو الخْر برق حسنی لکھنوی وغیرہ ہیں ، مولانا عبدالرزاق سمراوی کی ایک کتاب بڑھنی بازار میں مولانا عبدالرحمن ڈوکمی اور مولانا عتیق الرحمن بریلوی کے درمیان ہوئے مناظر ہ کی روداد کے طور پر مرتب کی گئی مگر شائع نہ ہوسکی اور اب تک اس کا پتہ نہیں ہے۔ (بحوالہ علماء اہل حدیث بستی و گونڈہ) 
  ۱ ؂ پندرہ روزہ ترجمان دہلی یکم جنوری ۱۹۷۴؁ء 
۲؂ بقول مولانا ابو یحییٰ اماجم خاں نوشہروی مولانا عبدالرحمن ڈوکمی کے بریلی قیام فرما ہونے سے پہلے اہل حدیث کی پود ابھی کچی سی تھی جسے آپ کی شب و روز کی آبیادی نے اتنا سر سبز شاداب کر دیا کہ اب وہاں ایک لہلہاتا ہوا چمن نظر آتا ہے اس سلسلہ میں مبتدعین سے بارہا مقابلہ و مقدمہ بازی ہوئی مگر آپ کے خلوص سے فتح ہمیشہ اہل حق کی طرف رہی۔(عبدالرؤف خاں ندوی) 
 ۳؂ حکیم عبید اﷲ رائے بریلوی کے صاحبزاہ حکیم عبدالحمید صاحب رائے بریلی حفظہ اﷲ کے کہنے کے مطابق مولانا ڈوکمی رحمہ اﷲ ۱۹۵۲ میں سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔ (عبدالرؤف خاں ندوی) 
مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی رحمہٗ اﷲ 
(سال وفات: ۱۹۵۹؁ء )
بر صغیر کے جو حضرات تمام عمر علم و تحقیق کی وادی میں مصروف سیاحت رہے ، ان میں مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ وہ ۱۸۹۶ء کے پس و پیش لکھنؤ کے نواح میں ملیح آباد میں پیدا ہوئے ، جس کی زیادہ آبادی پٹھانوں پر مشتمل تھی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی ، اعلیٰ تعلیم کے لئے قاہرہ(مصر) گئے۔ وہاں مدرسہ دعوت و ارشاد میں داخلہ لیا جوعلامہ سید رشید رضا نے جاری کیا تھا۔ وہاں کا نصاب مکمل کرکے واپس ہندوستان آئے ۔ تین چار سال یہاں رہے ۔ پھر قسطنطنیہ چلے گئے وہاں ایک اخبار ’’ جہانِ اسلام‘‘ کے نام سے شائع ہوتا تھا، اس اخبار کے تین حصے تھے اردو، عربی اور ترکی ۔ اردو حصے کی ادارت ان کے سپرد ہوئی اور کچھ عرصہ انھوں نے یہ خدمت انجام دی ۔ 
مولانا ابوالکلام آزاد کے وہ بے حد مداح بلکہ عقیدت مند تھے ۔ مولانا بھی ان کے قدردان تھے اور علمی کاموں میں ان پر اعتماد کرتے تھے ۔ عربی کے آدمی تھے مولانا آزاد نے عربی میں کلکتہ سے ’’ الجامعہ‘‘ اخبار جاری کیا تو انہی کو اس کا ایڈیٹر بنایا۔ اردو کا ’’ پیغام‘‘ جاری کیا تو اس کی ادارت کے لئے بھی انہی کا انتخاب ہوا۔ تقسیم ملک کے بعد مولانا آزاد نے وزارت تعلیم کی طرف سے ’’ ثقافۃ الہند‘‘ کے نام سے عربی رسالہ جاری فرمایا تو اس کے منصبِ ادارت پر بھی انہی کو فائز کیا گیا۔
وہ مولانا ابوالکلام آزاد کے رمزشناس تھے اور عام طور سے مولانا کے ساتھ رہتے تھے ۔ بعض اسفار میں بھی وہ مولانا کے ہم رکاب ہوتے تھے۔ انھوں نے مولانا کے حالات میں دو کتابیں لکھیں جو بہت مقبول ہوئیں ۔ ایک کتاب کا نام ہے ’’ ابوالکلام کی کہانی خود ان کی زبانی‘‘ مولانا نے ۲۲؍فروری ۱۹۵۸؁ء کو وفات پائی تو یہ کتاب ان کی وفات سے ڈیڑھ دو مہینہ بعد اپریل۱۹۵۸؁ء میں حالی پبلشنگ ہاؤس دہلی سے شائع ہوگئی تھی۔ دوسری کتاب ہے ’’ ذکر آزاد‘‘ یہ کتاب خود مصنف کے وفات کے بعد ۱۹۶۰ء میں اشاعت پذیر ہوئی۔
مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم سے بہت متاثر تھے ۔ چنانچہ انھوں نے ان کی بعض کتابوں کے اردو ترجمے کئے جو تقسیم ملک سے بیس سال پہلے (۱۹۲۷ء) میں الہلال بک ایجنسی لاہور کے مالک مولوی عبد العزیز آفندی نے نہایت اہتمام سے شائع کئے تھے ان کتابوں میں ایک کتاب سورہ الکوثر ہے جو امام ابن تیمیہ رحمۃ اﷲ علیہ کے رسالہ’’سورہ کوثر‘‘ کا ترجمہ ہے۔ 
مولانا محمد مستقیم سلفی نے مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کی ایک کتاب ’’ بیان القرآن ‘‘(اردو) کا ذکر بھی کیا ہے۔ ۱؂ 
مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے متعدد اخبارات و جرائد کی ادارت کی ۔ کئی کتابیں تصنیف کیں اور بعض کتب و رسائل کا ترجمہ کیا انھوں نے ایک روز نامہ اخبار کلکتہ سے جاری کیا تھا جس کا نام ’’ ہند‘‘ تھا بعد میں اسے ’’ ہند جدید‘‘ بنادیا گیا۔ پھر اسے ’’روزانہ ہند‘‘ کہا جانے لگا تھا۔ 
مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کا ایک قابل تذکرہ مضمون ’’سراپائے جیب۔ جمال محمدی، شمع نبوت کے پروانوں کی نظر میں‘‘ کے دوہرے عنوان سے خواجہ حسن نظامی کے ماہنامے’’نظام المشائخ‘‘ کے رسول نمبر (جولائی اگست ۱۹۲۹ء کے مشترکہ شمارے) میں چھپاہے۔
انھوں نے مولاناابوالکلام آزاد کی وفات سے ڈیڑھ سال بعد ۲۴؍جون ۱۹۵۹ء کو بعارضہ سرطان بمبئی کے ٹاٹا میموریل ہسپتال میں وفات پائی ۔ ۲؂
 ۱؂جماعت اہل حدیث کی تصنیفی خدمات ص:۲۴ ۲؂بحولۂ برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن از علامہ محمد اسحاق بھٹی)
الحاج عبدالقیوم پنچ رحمہٗ اﷲ بجوا کلاں
(سال وفات: ۱۹۶۳؁ء)
الحاج عبدالقیوم پنچ بجوا کلاں ضلع کی ایک مشہور و معروف ، بااثر ومعزز شخصیت تھی والد کا اسم گرامی الحاج محمد خلیل تھا موصوف بہت سی خوبیوں کے مالک تھے، ماہ نومبر ۱۹۶۱؁ء میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا تین روزہ اجلاس عام بمقام نوگڈھ منعقد ہوا تھا جس میں مولانا عبدالغفور بسکوہری رحمہ اﷲ نے اس موقع پر بطور استقبالیہ عربی قصیدہ کہا تھا اور منظوم اردو ترجمہ مولانا ذکر اﷲ ذاکر ندوی نے پیش کیا تھا اس عربی قصیدہ میں پنچ عبدالقیوم صاحب کے والد محترم الحاج محمد خلیل صاحب کا اچھے انداز میں ذکر کیا گیا ہے ملاحظہ فرمائیں ۔
سرزمین بستی و گونڈہ ترا دور آگیا جن کے ہیں اعیان سب علام و فہام 
ان کی خدمات جلیلہ آج بھی ہیں آشکار میں فدا ان پہ ہوں کیسے تھے بزرگان کرام 
مولانا اﷲ بخش ، مولانا عباداﷲ، مولانا اظہر مخدوم پنچ ہرہٹہ اور چشم کرم حاجی خلیل 
محترم وہ نعمت اﷲ حاتم دوراں تھے جو جن کی ملّی یادگاروں کو ہے گردوں کو دوام 
اک سراج علم وہ نیپال میں روشن کیا 
جس کے گردو پیش پروانوں کا ہے اک ازدحام
لوگ پیدا ہوتے ہیں زندہ رہتے ہیں اور مرجاتے ہیں ان کی موت پر ان کی اولاد اعزہ واقارب آنسو بہاتے ہیں احباب و رفقاء کف افسوس ملتے ہیں لیکن کچھ دنوں کے بعد لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ کون کب پیدا ہوا کب تک جیا اور مرگیا اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی پیدائش کے وقت تو ضرور گمنام ہوتے ہیں لیکن زندگی اس طرح گذارتے ہیں کہ لوگوں کیلئے قابل رشک اور قابل تقلید مثال کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں اور مرنے کے بعد ان کا نام زندہ رہتا ہے الحاج عبدالقیوم پنچ انہی عبقری شخصیات میں سے ایک تھے۔ 
اسٹیٹ بلرام پور کی طرف سے الحاج عبدالقیوم پنچ کے منصب پر فائز تھے پنچ صاحب حد درجہ نیک شریف النفس تہجد گذار، قاطع بدعت، ماحئی سنت مسلک سلف کے علمبردار ، راسخ العقیدہ مسلمان پوری زندگی کتاب و سنت کی اشاعت میں گذری اور زندگی بھر شرک و بدعت سے بر سر پیکار رہے ان بزرگوں کی دینی ، ملی ، مسلکی جدوجہد ایثار و قربانی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا یہ ہماری جماعت کے ستون و معمار تھے مکاتب، مدارس اور مساجد کے قائم کرنے والے اور آباد کرنے والے اﷲ کا دین گھر گھر پھیلانے میں ان بزرگوں نے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا تب جاکر مذہب اسلام اصلی حالت میں موجود ہے اﷲ تعالیٰ ان بزرگوں کی دینی و ملی خدمات کو قبول فرماکر اس کا بھر پور صلہ مرحمت فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین۔
اتباع سنت ان کا شیوہ صالحیت ان کی پہچان اور قرآن و حدیث سے قلبی تعلق ان کا تعارف ہے یہ درویش منش لوگ دین کے آبرو تھے اور انہی کی کوششوں سے اس علاقہ میں اسلام پھیلا ۔پنچ صاحب حقوق العباد کا بہت خیال رکھتے تھے فرماتے تھے کہ خالق اور مخلوق دونوں کے ساتھ معاملہ کو صاف رکھیں تاکہ حساب کے دن باز پُرس نہ ہو یعنی ظاہر و باطن میں اﷲ کا کوئی گناہ نہ ہونے پائے اور کسی بندے کا کوئی حق سر پر نہ رہ جائے کیونکہ اﷲ غفور و رحیم ہونے کے باوجود حقوق العباد کو معاف نہیں کرے گا۔ 
اﷲ تعالیٰ نے جس طر ح آپ کے والد محترم کو پانچ اولاد سے نوازا تھا اسی طرح پنچ صاحب کو بھی اﷲ تعالیٰ نے پانچ ہی اولاد سے نوازا ہے لڑکوں کے اسماء درج ذیل ہیں ۔ 
(۱) چودھری خورشید احمدمرحوم (۲) حفظ الرحمن (۳) حبیب الرحمن (۴) عتیق الرحمن (۵) فضل الرحمن 
چودھری خورشید احمد سب سے بڑے تھے صالح اور نیک دل انسان تھے امانت و دیانت کشادہ دستی فیاضی علماء کی قدر دانی بڑوں کی عزت چھوٹوں پر شفقت اور مہمان نوازی جیسے اوصاف حمیدہ میں اپنے والد محترم الحاج عبدالقیوم پنچ صاحب کے جانشین تھے۔ کئی سال تک چودھری خورشید احمد اپنے گرام سبھا بجوا کے پر دھان تھے۔ ۲۰۰۰؁ء میں وفات پائی اور بجوا کلاں کے قبرستان میں مدفون ہیں۔ تغمدہ اﷲ برحماتہ 
ہمارے اسلاف عمل و کردار اور فضل و کمال کے اعتبار سے اونچے مقام پر فائز تھے۔ وہ زمانہ لد گئے جن میں یہ لوگ ابھرے تھے۔ اور وہ سانچے ٹوٹ گئے جن میں ان اوصاف کے لوگ ڈھلے تھے۔ 
اﷲ تعالیٰ ان گذرے ہوئے تمام لوگوں پر رحم فرمائے ہماری اور ان کی زندگیوں میں کافی بُعد وفاصلہ ہے وہ دنیا سے محبت اسلئے رکھتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ عبادت و اطاعت الہی کیلئے وقت میسر آجائے لیکن آج کے مسلمانوں کا حال کیا ہے لوگ دنیا سے محبت کس لئے رکھتے ہیں، یہ سوال کسی جواب کا محتاج نہیں کیونکہ حالات واقعات خود گواہی دیتے ہیں کہ دنیا اپنی تمام تر فتنہ سامانیوں کے ساتھ چھا چکی ہے اور حضرت انسان نے اپنی سواری کو دنیا کے دروازہ پر باندھ دیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کیلئے آیا ہے چودھری خورشید احمد رحمہ اﷲ کے ایک لڑکے ڈاکٹر انور خورشید ہیں جو اپنے باپ کے جانشین ہیں۔اﷲ ان کی عمر میں برکت دے۔
پنچ عبدالقیوم کے دوسرے بھائی حکیم محمد یونس اور الحاج عبداﷲ وغیرہ کچھ دنوں قبل اﷲ کو پیارے ہو چکے ہیں اﷲ تعالیٰ نے حکیم محمد یونس کو دولڑکوں سے نوازا ہے ۔ڈاکٹر انیس احمد و رئیس احمد رئیس احمد عین جوانی میں ۲۰۰۶؁ء میں وفات پاگئے اور بجوا کلاں کے قبرستان میں مدفون ہیں ۔
ڈاکٹر انیس احمد علی گڈھ مسلم یونیورسٹی سے ڈاکٹری کی تعلیم سے فراغت کے بعد گینسڑی بازار میں مستقلاً سکونت اختیار کرلی ہے اور یہیں پر پریکٹس کررہے ہیں ،چند سال پہلے ڈاکٹر کے ساتھ انکی اہلیہ کو بھی اﷲ تعالیٰ نے حج بیت اﷲ کی سعادت عظمیٰ سے نوازا ہے حکیم صاحب کا نیک لوگوں کا گھرانہ ہے ان کے خاندان پر دینداری کا غلبہ ہے اسی پاکیزہ ماحول میں ڈاکٹر صاحب نے پرورش پائی۔ ڈاکٹر انیس احمد صاحب سیدھے سادھے انسان ہیں احکام شریعت کے پابند ، متواضع، خلیق، ملنسار، صالح ،خدا ترس ، مسلکی غیرت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔
حکیم محمد یونس صاحب نے ۱۹۸۳؁ء میں داعی اجل کو لبّیک کہا اور بجوا کلاں کے آبائی قبرستان میں مدفون ہیں پنچ عبدالقیوم کے تیسرے بھائی الحاج عبداﷲ تھے اﷲ تعالیٰ نے حاجی عبداﷲ کو ایک لڑکا نذیر احمد اور ایک لڑکی بلقیس جہاں سے نوازا ہے الحاج عبداﷲ صاحب احکام شریعت کے پابند ،خدا ترس ، انتہائی نیک ، صالح ،مہمان نواز تھے آپ کا مشن دعوت و تبلیغ تھا پورے علاقے میں کلمۂ توحید بلند کیا اورآخری سانس تک لوگوں کو شرک و بدعت سے دور رہنے کی تلقین کرتے رہے اور اپنے پیارے اور میٹھے انداز میں دین کی نشرو اشاعت کی مہم جاری رکھی لوگوں کے دکھ درد میں آپ برابر شریک رہتے تھے آخری لمحات تک ضلعی جمعیت اہل حدیث بلرام پور کے نائب صدر اور پچپڑوا حلقہ کے ناظم تھے۔ شاید ہی کسی میٹنگ یا جمعیت کے کسی بھی پروگرام میں غیر حاضر رہے ہوں آپ نہایت سادہ زندگی بسر کرتے اور عوام میں گھل مل کر رہتے ،کسی سے کسی قسم کی کدورت نہیں رکھتے تھے، ان کا آئینہ قلب بُغض و عداوت کے داغ دھبوں سے صاف تھا اس مرد درویش نے ہمیشہ وقار کی زندگی بسر کی اور انتہائی تکریم کے ساتھ اس دنیائے فانی سے ۱۹۸۵؁ء میں رخصت ہوئے اور اپنے آبائی قبرستان بجواکلاں میں مدفون ہیں۔ تغمدہ اﷲ برحماتہ 
محترم زبیر احمد انجینئر، محمد عمر لالہ پردھان ،شکیل احمد، ارشاد احمد، محمد عیسیٰ، ڈاکٹر ذکر اﷲ ندوی ، ہارون رشید، مامون رشید وغیرہم اسی خاندان کے چشم و چراغ ہیں یہ خاندان ﷲیت خلوص ، دینداری میں قابل ذکر ہے۔ علم و علماء کا قدر داں مسلک اہل حدیث کا پُر جوش داعی و عامل ،شرک و بدعت سے سخت بیزار انکساری خوش کلامی اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ 
اس خاندان پر ہمیشہ اﷲ کی رحمت و برکت رہی ہے اس خاندان کے جو لوگ اﷲ کے جوار رحمت میں جابسے ان کی مغفرت کیلئے بارگاہ ایزدی میں دست بدعاہیں اور جو حضرات باحیات ہیں ان کی درازیٔ عمر کیلئے تہہ دل سے متمنی ہیں۔ 
وفات : اس دنیائے فانی میں ہر وقت موت و حیات کا کھیل جاری رہتا ہے اور روزانہ بے شمار
 لوگ رخت سفر باندھتے ہیں اور بے شمار لوگ اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔ الحاج عبدالقیوم پنچ صاحب کا وقت اجل آپہونچا اور ۱۹۶۳؁ء کو سفر آخرت پر ہمیشہ کیلئے روانہ ہوگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔ ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں آپ بجوا کے قبرستان میں سپر د خاک کردئیے گئے۔
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کے پوتوں اور خاندان کے افراد کی زندگیوں میں برکت عطا فرمائے ان کے اعمال خیر کے دائرے کو زیادہ سے زیادہ وسعت عطا فرمائے اور دنیا و آخرت میں انھیں کامرانی سے نوازے ،تاکہ وہ اپنے والدین کیلئے صدقۂ جاریہ بن سکیں ۔ آمین 
اﷲ تعالیٰ آپ کی لغزشوں کو درگزر فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
حیات جس کی امانت تھی اس کو لوٹادی 
اب آج چین سے سوتا ہوں پیر پھیلا کر 
اﷲم اغفر لہ وارحمہ و عافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ
عبدالرؤف خاں ندوی 
تلسی پور۔ بلرام پور۔ یوپی
۱۵؍اگست ۲۰۱۳؁ء 
حضرت العلام مولانا عبدالمتین بنارسیؒ
(تاریخ وفات: ۲۷؍مارچ۱۹۶۴؁ء)
گذشتہ تقریباً ایک صدی سے زائد مدت جن اہل علم اور اصحاب خیر نے عقیدۂ و مسلک اہل حدیث کی عظیم الشان خدمات انجام دیں ان میں علامہ عبدالمتین رحمہ اﷲ بنارسی اپنے علم و فضل ،اثر و رسوخ میں لا ثانی حیثیت کے حامل تھے ۔
علامہ عبدالمتین بنارسی رحمہ اﷲ اپنی ذہانت و فطانت علمی مقام تحقیق و تخریج احادیث اور ان کی اسانید کی یادداشت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ان کے بڑے صاحبزادے مولانا محمد یحییٰ بنارسی اپنی خاموش طبیعت کے باوجود اپنے علمی مقام میں سب سے نمایاں تھے ان کے دوسرے صاحبزادے محمد یونس صاحب نے انگلش میں بنارس ہندو یونیورسٹی ٹاپ کیا ۔ ان کے تیسرے صاحبزادے مولانا محمد زبیر جامعہ رحمانیہ بنارس کو آگے بڑھانے میں اور اس میں جاری تعلیمات یہاں تک کہ نحو وصرف اور قواعد کی معلومات میں لاثانی تھے اور ان کے چوتھے بیٹے محمد الیاس اردو بولنے اور ان کی ادبیات پر پورا عبور رکھنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ ۲۷؍اپریل ۲۰۱۳؁ء تین بجے شب انتقال کرگئے ۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون اﷲ ان کی مغفرت فرمائے آمین۔ (عبدالرؤف خاں ندوی تلسی پور )
مولانا عبدالمتین بنارسی ۱۸۹۸ء میں بنارس کے مشہور محلہ مدنپورہ کے ایک مالدار با اثر گھرانے میں پیدا ہوئے ، آپ کے والد ماجد حافظ عبدالرحمن صاحب (۱۳۵۴ھ ۱۹۳۵ء) ایک متمول ، دیندار اور فیاض انسان تھے ۔ آپ رئیس بنارس کے نام سے مشہور تھے آپ کی سخاوت و فیاضی کا شہرہ دور دور تک تھا۔ فقراء و مساکین ،یتیم و بیوہ اور خویش و اقارب کا تعاون اور ان کی مدد کرنا آپ کا طرّہ امتیاز تھا جماعتی تنظیم و تعمیر اور دینی و تبلیغی ترقی کے لئے بے دریغ خرچ کرتے تھے جامعہ رحمانیہ کی عمارت کی تعمیر موصوف ہی نے کرائی، اور پھر انہی کے نام پر مدرسے کا نام جامعہ رحمانیہ رکھا گیا۔ علماء کے قدرداں اور علم دوست انسان تھے۔ اسی لئے آپ نے اپنی اولاد کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا اور مولانا عبدالمتین کو دینی تعلیم دلائی جو اپنے وقت کے مشہور عالم دین تھے۔ 
نام و نسب : مولانا عبدالمتین بن حافظ عبدالرحمن بن حافظ عبدالرحیم بن ا ﷲ بخش بن نذر محمد بن پیر محمد عرف فرنگی۔
مولانا عبدالمتین کا گھرانہ نہایت شریف ، دیندار ، علمی اور مذہبی ہے۔ آٖ پ کی تعلیم مدرسہ عربیہ اسلامیہ( جو اب جامعہ رحمانیہ کے نام سے موسوم ہے) میں ہوئی اور مولانا محمد منیر خاں (م۱۳۶۴ھ م ۱۹۴۵ء) آپ کے استاذ اور مربی تھے۔ جن کی زیر تربیت آپ نے اپنی تعلیم مکمل کی۔
 فرنگی کی وجہ تسمیہ: اس خاندان کے مورث اعلیٰ پیر محمد نہایت گورے چٹے اور خوبصورت تھے۔ رنگ بالکل انگریزوں جیسا تھا ۔ جب وہ چھوٹے تھے تو ایک روز وہ گھر سے باہر کھیل رہے تھے ادھر سے ایک انگریز گھوڑ سوار کا گذر ہوا ، اس نے پیر محمد کو دیکھا تو گھوڑے سے اتر کر انھیں اٹھالیا اور کہا یہ تو بالکل انگریز بچہ ہے ۔ یہ انگریزی حکومت کا زمانہ تھا اس وقت انگریزوں کو فرنگ کہا جاتا تھا ۔ یہ اپنی گوری رنگت کی وجہ سے لوگوں میں فرنگی کے نام سے مشہور ہوگئے ۔ اور یہ لقب اتنا مشہور ہوا کہ ان کے اصل نام پر غالب آگیا اور یہ خاندان فرنگی کے نام سے مشہور ہوگیا۔ 
موصوف عربی، فارسی اور اردو کے ساتھ انگریزی پر خاصا مہارت رکھتے تھے۔ کاروباری مصروفیتوں کے باوجود دینی کتابوں کے مطالعہ اور تبلیغ کا بڑا جذبہ رکھتے تھے۔ چنانچہ ۱۹۳۰ء میں جب مدنپورہ بنارس کے اہل حدیث نوجوانوں نے ایک انجمن بنام اشاعت اسلام قائم کی تو اس میں آپ پیش پیش تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب بنارس میں فتنۂ مرزائیت و قادیانیت نمودار ہو چکا تھا، انجمن اشاعت اسلام تقریر و تحریر ہر طرح سے مسلمانوں کو اس فرقۂ باطلہ سے آگاہ کرنے اور اس فتنۂ شجر ممنوعہ کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی ہر امکانی کوشش عمل میں لا رہی تھی ۔ جگہ جگہ جلسے منعقد ہوتے جن میں دوسرے علمائے کرام کے ساتھ مولانا عبدالمتین بھی اپنی بصیرت افروز و پُر حقائق تقریر سے سامعین کو مستفید فرماتے اور قادیانی فرقہ کی حقیقت خوب اچھی طرح بیان فرماتے تھے۔
آپ علم و فضل کے پیکر اور اصابت رائے و صلابت فی التوحید والسنہ کی بے مثال یادگار تھے۔ مطالعہ وسیع اور نظر بہت گہری تھی۔ علامہ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم رحمہمااﷲ سے والہانہ عقیدت تھی، اور ان بزرگوں کی تصنیفات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ کتب احادیث و تفسیر کے مطالعہ کا بڑا شوق تھا، آپ حدیث کا درس بھی دیا کرتے تھے۔ چنانچہ مولانا محمد ابوالقاسم والد ماجد شیخ الجامعہ (م ۱۳۸۵ھ) اور مولانا محمد فاروق اختر (م ۱۳۹۲ھ) وغیرہ نے آپ سے حدیث اور نحو کی بعض کتابیں پڑھیں۔ 
آپ مدنپورہ کی جامع مسجد اہل حدیث میں خطبہ جمعہ دیاکرتے تھے ۔ انداز بیان اس قدر دل کش ہوتا کہ ایک تقریر سن لینے کے بعد دوسری تقریر سننے کی آرزو دلوں میں باقی رہا کرتی۔ طبیعت غیور اور حساس تھی قرآن و سنت کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے تھے اس سلسلہ میں اپنوں اور غیروں کی کوئی تخصیص نہیں تھی، جہاں کوئی بات خلاف سنت دیکھی اس کی اصلاح پر آمادہ ہوگئے، جب کسی غیر شرعی مسئلہ میں کسی عالم سے گفتگو کرتے تو نہایت معقول مدلل اور سنجیدہ انداز میں گفتگو کرتے ان کی جوانی کے زمانے کی بات ہے کہ لوگوں نے ایک مرتبہ مسلسل بارش کی وجہ سے مجبوراً کسی جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھنی چاہی ۔ اس پر ایک حنفی عالم نے کراہت کا فتویٰ دے دیا، اس واقعہ کے چند ہی دنوں بعد ایک دوسرے حنفی عالم نے اس مسئلہ پر قلم اٹھایا اور مسجد میں نماز جنازہ کے عدم جواز کا فتویٰ صادر فرمایا اس کے جواب میں مولانا نے ایک رسالہ بنام’’ مسجد میں نماز جنازہ‘‘ شائع فرمایا جس میں شرعی حیثیت سے مسجدمیں نماز جنازہ پڑھنے کو بدلائل ثابت کیا گیا تھا۔
احناف کی طرف سے اس رسالہ کا جواب شائع کیا گیا تو آپ نے احناف کے رد میں ایک دوسرا رسالہ بنام ’’ فتویٰ کراہت نماز جنازہ دوران مسجد پر ایک نظر‘‘ اتنا جامع اور مدلل شائع فرمایا کہ وہ حرف آخر ثابت ہوا یہ رسالہ حدیث ، اصول حدیث اور رجال سے متعلق علم مباحث پر مشتمل ہے ان ہی دونوں رسالوں کی طرف محدث جلیل مولانا عبیداﷲ رحمانی(م۱۴۱۴ھ) نے شرح مشکوٰۃ میں مندرجہ ذیل عبارت میں ارشاد فرمایا ہے۔ 
’’ ولبعض افاضل بلدۃ بنارس من اہل الحدیث رسالتان لطیفتان فی ہذہ المسئلۃ قدبسط فی الثانیۃ القول فی الجواب عن حدیث ابی ہریرۃ بما لا مزید علیہ‘‘
(اس مسئلہ میں شہر بنارس کے ایک اہل حدیث فاضل کے دو عمدہ رسالے ہیں، دوسرے رسالے میں حضرت ابو ہریرۃ کی حدیث کے جواب میں انہوں نے ایسی مبسوط اورمفصل بحث کی ہے کہ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں لکھا جا سکتاہے)
اس عبارت میں یک اہل حدیث فاضل سے مراد مولانا عبدالمتین ہی ہیں ۔
حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ (م۱۳۶۷ھ) جب بنارس میں تشریف لائے تو مولانا کو درس قرآن کی ترغیب دیتے، چنانچہ مولانا عبدالمتین کی اپنے ہاتھ سے لکھی تحریر جس پر ان کا دستخط ثبت ہے ذیل میں نقل کی جاتی ہے تاکہ موجودہ نسل اپنے اسلاف کے اخلاص، ایفائے عہد، توقیر علماء اور جذبۂ اشاعت دین کا اندازہ لگائے اور سبق حاصل کرے ۔ 
’’ میں عبدالمتین ولد حاجی عبدالرحمن صاحب ساکن محلہ مدنپورہ بنارس بحضور حضرت مولانا ثناء اﷲ صاحب امرتسریؒ اس کا اقرار کرتا ہوں کہ میں روزانہ بوقت صبح بعد نماز فجر قرآن مجید کے ایک رکوع کا ترجمہ مسجد میں لوگوں کو پوری پابندی کے ساتھ سنایا کروں گا اور اس کا بھی وعدہ کرتا ہوں کہ کل کا خطبۂ جمعہ میں دوں گا اور بعد خطبۂ جمعہ مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ وعظ فرمائیں گے، ترجمہ قرآن کی ترقی و رفتار کی نسبت پندرہ روزہ رپورٹ حضرت مولانا محمد منیر خاں ؒ صاحب حضرت مولانا ثناء اﷲ صاحب کو بھیجتے رہیں گے‘‘ 
محمد عبدالمتین عفی عنہ 
۶؍اگست ۱۹۳۱؁ء 
مذکورہ عہدو پیمان کے بعدکافی عرصہ تک درس قرآن کا سلسلہ جاری رکھا۔ اندازبیان بہت شیریں اور دلنشین ہوتا ، قرآن مجید کے اسرار و حکم اس طرح بیان فرماتے کہ لوگ ہر بات کو بآسانی سمجھ جاتے اور جب قرآن مجید کے درس سے اٹھتے تو کل کیلئے دلوں میں مزید اشتیاق بڑھا ہوا پاتے۔ آہستہ آہستہ درس کا یہ حلقہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا اور کچھ ہی دنوں بعد درس میں ایسے لوگ بھی شریک ہونے لگے جن کی شرکت غیر متوقع تھی ۔ اس درس قرآن کی برکت سے خدا نے بعض لوگوں کو صراط مستقیم کی ہدایت فرمائی اور وہ مسلک حق کے شیدائی بن گئے۔ 
مولانا عبدالمتین علم اور اہل علم دونوں کے قدر داں تھے۔ چنانچہ جامعہ رحمانیہ کے دور نظامت میں طلبہ کا بڑا خیال رکھتے تھے اور علماء کی قدر کرتے تھے آپ کو دینی علوم اور مدارس دینیہ سے بڑا لگاؤ تھا۔ شوق اور لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ جب آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس نے ۱۹۶۱؁ء میں نوگڈھ کے تاریخی اجلاس میں یہ تجویز پاس کی کہ ملک میں ایک مرکزی ادارہ اور تعلیمی درسگاہ قائم کی جائے تو آپ اور آپ کے بھائیوں نے فوراً زمین کی پیش کش کی جسے آل انڈیا اہل حدیث نے منظور کیا۔ 
مولانا موصوف مرکزی دارالعلوم بنارس کے بانیوں میں سے تھے اور مرکزی دارالعلوم بنارس کی تاسیس کے موقع پر آپ نے ایک پر جوش اور ولولہ انگیز تقریر بھی کی تھی ۔ جس کا ایک ایک لفظ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے ۔ آپ نے دوران تقریر فرمایا تھا کہ :
’’ ہم محسوس کرتے تھے کہ کاش کوئی ادارہ بن جائے جہاں عربی زبان کی اعلیٰ ترین تعلیم ہو، جہاں قرآن و حدیث کی تعلیم کا بہترین نظم ہو۔ جہاں کے طلبہ کی دینی تربیت ایسی ہو کہ جب وہ درسگاہ سے فارغ ہوکر نکلیں تو دنیا کے سامنے اسلام کا عملی نمونہ پیش کریں‘‘
آگے فرماتے ہیں:
’’یہ خیال یہ تصور اور یہ منصوبہ تھا کہ کوئی ایسی درسگاہ ہو جہاں قرآن و حدیث کی اعلیٰ ترین تعلیم ہو ۔ جہاں تصنیف و تالیف کا بھی ایک شعبہ ہو ، جہاں سے حدیثوں کے کتابوں کی نشر واشاعت اور اس کی طبع کا بھی انتظام ہو اور جس سے ملک کے مختلف مدارس و مکاتب ایک رشتے میں جڑے ہوں‘‘ 
مولانا موصوف دارالعلوم کے قیام کے محرکات و اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں : 
’’اس سلسلے میں یہ بھی عرض کردوں اور مجھے دل کی بہت ناگواری کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ اس دارالعلوم کے قیام کے جو محرکات ، بواعث اور اسباب ہیں ، ان میں ایک سبب یہ بھی ہے کہ جماعت اہل حدیث کی صلاحیت اور استعداد والے جو طلبہ اپنی تعلیم کی تکمیل اور سند فراغت حاصل کرنے کیلئے دوسرے مکتب خیال کے اداروں میں جاتے ہیں تو انھیں وہاں آسانی سے جگہ نہیں ملتی ان کے ساتھ ان کا برتاؤ سوتیلے بیٹوں جیسا ہوتا ہے ، اگر ہمارے یہ ہونہار اور ذی استعداد طلبہ وہاں جگہ بھی پا گئے تو بڑے صبر ، بڑے تحمل کے ساتھ اپنے جذبات کو دبا کر وہاں رہتے ہیں‘‘
٭یہ چیز ایک محرک اور باعث ہے ہم اپنے مرکزی دارالعلوم کی تعمیر کا منصوبہ بنائیں ایک مقام پر اہل حدیث کے عقیدے پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ میں اﷲ کو واحد جانتا ہوں ،اس کی ذات وصفات پر ایمان رکھتا ہو ں سلف صالحین کے طریقے کے مطابق میں حضرت سرور دوعالم خاتم النبیےن کو نبی برحق سمجھتا ہوں ،آپ کے معجزات کا قائل ہوں معراج کے جسمانی ہونے کا قائل ہوں، ہم نبی کریم کی تعظیم ،آٖ پ کا احترام اور آپ کے نام پر مرمٹنا اپنا ایمان سمجھتے ہیں اس کو اپنا دین سمجھتے ہیں ، اپنے نبی کی تو ہین ایک مسلمان کبھی نہیں برداشت کرسکتا۔ صحابہ کرام جو ہمارے بنی کے رفقاء اور ساتھی ہیں ، جو دین کے قائم کرنے والے اور اس کے ستون تھے امت کے افضل ترین لوگ تھے‘‘ 
اولئک اصحاب محمد ﷺ کانوا افضل ہذہ الامۃ
٭تقلید شخصی کے بارے میں ایک جگہ اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ہم تقلید شخصی کے وجوب کے قائل نہیں ہیں ، میں کیاکہوں، آپ کے سامنے مناظرانہ روش اختیار کرنا نہیں چاہتا، کوئی ناخوشگوار بات نہیں کرنا چاہتا، میں صفائی دینا چاہتا ہوں کہ تقلید شخصی کے وجوب کا میں اس طرح قائل نہیں ہوں کہ تمام مسائل صرف ایک امام کے اقوال میں محصور رہے۔ حق اگر ہے تو کتاب اﷲ اور سنت رسولؐ میں۔ 
 آگے فرماتے ہیں: 
ہم مکلف ہیں اطاعت رسول ؐکے ، ہم مکلف ہیں اتباع رسولؐکے ،ہم مکلف ہیں تعظیم صحابہؓ کے ،تکریم ائمہ کے، لیکن اطاعت صرف اﷲ اور اس کے رسول برحق کی ہے۔ اتباع صرف نبی کریم ﷺ کی ہے۔
مولانا عبدالمتین ملکی مسائل میں بھی ایک واضح اور متعین نصب العین رکھتے تھے۔ انگریزی حکومت کے مخالف اور ملک کی آزادی کے حامی تھے دور غلامی سے لے کر اخیر تک مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی فکر و نظر سے نہ صرف اتفاق رکھا بلکہ ملکی تحریکات میں ان کی جدوجہد کو کامیاب بنانے میں کوشاں اور سرگرم عمل رہے۔ 
۱۴؍ رمضان ۱۲۸۳؁ھ کو روزہ افطار کرنے کے بعد ہلکی سی سردی محسوس ہوئی اس کے بعد بخار چڑھا ۔ اور بخار کا یہ سلسلہ کمی بیشی کے ساتھ اخیر تک قائم رہا۔ حکیموں اور ڈاکٹروں کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ یہ بخار کیوں ہے اور اس کا سلسلہ ختم کیوں نہیں ہوتا روز بروز ضعف بڑھتا گیا ۔ لیکن بستر علالت پرآپ کو مرکزی دارالعلوم کی فکر دامن گیر رہی۔ 
چنانچہ آپ کے فرزند مولانا محمد زبیر صاحب(م ۱۴۰۱ھ) فرماتے ہیں :
والد مرحوم کو مرکزی دارالعلوم سے اتنا شغف تھا کہ اس کا ذکر ایام علالت میں باربار فرماتے اور چچا صدیق صاحب(م ۱۴۱۰ھ) اور جناب عبدالحئی صاحب بن مولانا عبدالاحد کو اور اہم لوگوں کو باربار نصیحت کرتے کہ پورے ملک کی جماعت اہل حدیث نے بنارس پر اعتماد کرکے انہیں مرکزی دارلعلوم کی ذمہ داریاں سونپی ہیں تو ایسا نہ ہو کہ ان کے اعتماد کو ٹھیس پہونچے اسلئے مرکزی دارلعلوم کی طرف خاص توجہ دے کر اس کی تعمیر و خدمت کو اپنا نصب العین بنا لینا۔ اور اس کی خدمت میں کسی طرح کی سستی اور غفلت کو راہ نہ دینا۔ 
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ آخر یہ آفتاب علم ۲۷؍مارچ ۱۹۶۴؁ء مطابق ۱۲؍ذیقعدہ ۱۳۸۳؁ھ بروز جمعہ ہمیشہ کیلئے غروب ہو گیا اور یہ صاحب عزیمت مرد حق آگاہ اپنی آرام گاہ میں جا سویا۔ الہم اغفر لہ وارحمہ و عافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ 
ساڑھے گیارہ بجے دن میں آپ واصل بحق ہوئے اور بعد نماز مغرب شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ رحمانی (م ۱۴۱۴ھ) نے مدنپورہ کی سڑک پر آپ کی نماز جنازہ پڑھائی،جنازہ میں بنارس اور مضافات کے لوگ کافی تعداد میں شریک تھے۔ جنازہ میں شرکاء کا اتنا ہجوم تھا کہ دونوں طرف سے ٹریفک بند ہوگیا۔ تقریباً آٹھ بجے شب میں اپنے آبائی قبرستان سکرا باغ میں دفن کردئیے گئے۔
آسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے 
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے 
مولانا عبدالمتین ؒ کی اولاد میں مولانا محمد یحییٰ صاحب محمد یونس صاحب اور مولانا محمد زبیر ؒصاحب ممتاز حیثیت کے حامل تھے اول الذکر جامعہ سلفیہ کے نائب صدر تھے علم دوستی اور دینداری آپ کو اپنے والد مرحوم سے ورثہ میں ملی تھی ۔
(مولانا) محمد یونس مدنی 
ماہنامہ محدث بنارس ۱۹۹۴؁ء 


٭٭٭





مولانا سیدابوالخیر احمد برق حسنی لکھنؤی رحمہٗ اﷲ 
(تاریخ وفات: ۲؍جنوری ۱۹۷۰ء)
ہندوستان کے علمائے مشاہیر میں سے ایک بزرگ مولانا سید ابوالخیر احمد برق حسنی لکھنوی تھے۔ جو خانوادۂ سید احمد شہید بریلوی سے تعلق رکھتے تھے۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مرحوم کے حقیقی ماموں زاد بھائی تھے۔ نہایت ذہین اور صاحب فضل وکمال شخص تھے۔ حدیث و آثار پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اسلئے انھیں طبقۂ علماء میں ’’ حافظ الاحادیث والآثار‘‘ کہا جاتا تھا۔ ہندوستان کے علمائے حدیث میں انھیں عزت کا مقام حاصل تھا۔ 
دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے تعلیم حاصل کی تھی اور لکھنؤ ہی سے تعلق سکونت تھا۔ وہاں ان کی کچھ ذاتی زمین بھی تھی ذہانت کی دولت بارگاہ خداوندی سے عالم طفولیت ہی میں ودیعت فرمائی گئی تھی اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوسکتا ہے کہ صرف سات سال کی عمر کے تھے۔ کہ ندوۃ العلماء کا ایک سالانہ جلسہ ہوا، جس میں متحدہ ہندوستان کے اکابر اہل علم موجود تھے۔ اس جلسے میں سید ابوالخیر احمد برق حسنی نے فصیح عربی میں تقریر کی، جس سے حاضرین جلسہ کے علاوہ علمائے کرام بھی بے حد متاثر اور حیران ہوئے ۔ اس جلسے میں مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی (مولاناابوالکلام آزاد کے ’’ صدیق مکرم‘‘) بھی موجود تھے۔ مولانا شیروانی نے ان کی تقریر سن کر انھیں ایک سو روپیہ انعام دیا تھا اور فرمایا یہ بچہ نادرۃ الدہر ہے اس کا حق انعام ادا نہیں کیا جاسکتا سوروپئے کو اس زمانے میں بہت بڑی 
۱؂ مولانا ابوالخیر برق حسنی لکھنوی سید عبداﷲ کے بیٹے اور حضرت شاہ ضیاء النبی( جو اپنے وقت کے جنید و یا یزید تھے) پوتے ہیں ۱۹۰۴؁ء میں رائے بریلی میں ولادت ہوئی اور ۲؍جنوری ۱۹۷۰؁ء کو لکھنؤ میں وفات پائی ابتدائی تعلیم کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخل ہوئے اور اپنی بے پناہ ذکاوت سے جلد امتیاز پیدا کرلیا ایک کتاب نوادر لکھی تھی جو تاریخ و ادب کا گنج گرانمایہ ہے ۱۹۲۴؁ء میں حج ادا کیا ۔ (عبدالرؤف خاں ندوی) 
رقم سمجھا جاتا تھا۔
شاید یہ عربی تقریر کسی عالم نے انھیں لکھ کر دی ہوگی اور اچھی طرح یاد بھی کرائی ہوگی ،لیکن اتنے بڑے مجمع عام میں اور علماء کے سامنے جرأت سے بولنا اور خاص لہجے میں الفاظ زبان سے نکالنا بڑی ہمت کاکام ہے اور یہ ہمت اس بچے نے کی۔
سید ابوالخیر احمد برق حسنی نے موطا امام مالک حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی کے شاگرد رشید مولانا عبدالرحمن ڈوکمی بستوی سے پڑھا۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد لاہور آکر اورنٹیل کالج میں داخلہ لیا۔ اس کالج میں اس وقت عربی کے ممتاز عالم مولانا عبدالعزیز میمنی ۱؂ کا سلسلہ فیض رسانی جاری تھا، ان سے کسب علم کیا اور یہیں مولوی، فاضل کا امتحان دیا۔ بعد ازاں شام اور حجاز کو روانہ ہوئے ۔ شام میں تین سال قیام رہا اور وہاں کے عظیم محدث شیخ بہجۃ البیطار سے درس حدیث لیا۔ شام سے مکہ معظمہ کا عزم فرمایا اور وہاں کے مدرسے فخریہ عثمانیہ میں تفسیر و حدیث کا درس دینے لگے۔ ان کے اس درس سے بے شمار اصحاب علم نے استفادہ کیا۔ وہ لوگ ان کی ذہانت،علوم حدیث میں مہارت اور طریق تدریس سے نہایت متاثر تھے ۔ کافی عرصہ مکہ معظمہ کے اس مدرسے میں ان کا سلسلۂ تدریس جاری رہا۔ پھر وطن واپس ہوئے اور اپنے آبائی گھر لکھنؤ آگئے ۔ اس وقت ان کی عمر انتیس برس کی ہوگئی تھی۔ 
 ۱؂ مولانا سید ابوالخیر برق حسنی کی بڑی خوش بختی و سعادت ہے کہ آپ نے ہندوستان کے عربی کے دوجلیل القدر ادیب سے کسب علم کیا اورئنٹیل کالج لاہور میں علامہ عبدالعزیز میمن سے اور جامعہ ملیہ دہلی میں علامہ محمد سورتی رحمہم اﷲ سے مشہور عالم و مصنف مولانا سعید احمد اکبر آبادی رحمہٗ اﷲ کہا کرتے تھے کہ متحدہ ہندوستان میں عربی کے تین جلیل القدر ادیب پیدا ہوئے اور وہ تینوں اہل حدیث ہیں (۱) علامہ محمد صورتی(۲) علامہ عبدالعزیز میمن(۳) علامہ عبدالمجید الحریری بنارسی یعنی بر صغیر میں یہ اعزاز اہل حدیث کے حصہ میں آیا کہ عربی ادبیات میں ان کے علماء سب پر فوقیت لے گئے۔ ( عبدالرؤف خاں تلسی پور بلرام پور) 
لکھنؤ میں ان کا قیام مختصر رہا ۔ وہاں سے جامعہ ملیہ دہلی کا رخ کیا ۔ جامعہ ملیہ میں اس زمانے میں مولانا محمد سورتی تفسیر قرآن کے استاذ تھے ۔ مولانا سورتی عربی کے جلیل القد رعالم تھے۔ وہ سید ابوالخیر کے علم و فضل کی فراوانی سے انتہائی متاثر ہوئے۔ اسی بناپر وہ سید ابوالخیر کو ’’الامام‘‘ کے لقب سے یاد فرمایا کرتے تھے۔ ممتاز عالم ڈاکٹر تقی الدین ہلالی بھی سید ممدوح کو امام کہا کرتے تھے ۔ یعنی امام فی العلم۔
جامعہ ملیہ سے سید ابوالخیر حیدرآباد (دکن) تشریف لے گئے اور کچھ مدت وہاں مقیم رہے پھر لکھنؤ آگئے اور باقی تمام زندگی لکھنؤ میں بسر کردی۔لکھنؤ کے محلہ چکمنڈی مولوی گنج میں انھوں نے ہومیوپیتھی دواخانہ قائم کر لیا تھا ۔ وہ اس طریق علاج میں مہارت رکھتے تھے اور اﷲ تعالیٰ ان کے علاج سے مریضوں کو شفا بخشتا تھا۔
سید ابو الخیر کا حافظہ مضبوط تھااور اس میں بہت کچھ محفوظ تھا اس اعتبار سے اسے علم و کمال کا خزانہ کہنا چاہئے۔ تفسیر، حدیث، اسماء الرجال ، انساب، تاریخ، لغت، اشعار، مشتقات، زبان وادب، عربی اور اردو کے قواعد وغیرہ بے شمار باتیں انھیں زبانی یاد تھیں اور اس باب میں وہ درجہ امامت پر فائز تھے ۔ اس موضوع پر ان کے معاصرین میں کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا، اسی لئے مولانا محمد سورتی اور ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی انھیں’’امام‘‘کہا کرتے تھے یعنی مدارس دینیہ کے تمام مروجہ علوم میں ماہر کامل۔ انھیں ستر ہزار سے زائد حدیثیں مع اسناد و روات کے زبانی یاد تھیں ۔ عربی اور اردو کے ہزاروں اشعار ان کی نوک زبان تھے۔ انگریزی زبان و ادب سے بھی انھیں آشنائی تھی۔ کتب شیعہ پر بھی عبور حاصل تھا اور ان کی روایات کا وسیع ذخیرہ مع اسناد کے وہ بے تکلفی سے بیان فرمایا کرتے تھے۔اپنے دور کے شاعر بھی تھے ۔ ابتدا میں شمس تخلص کرتے اور شمس لکھنوی کہلاتے تھے۔ مشہور مناظر بھی تھے ، بالخصوص شیعہ حضرات سے ان کی ٹکر رہتی تھی۔ گفتگو میں لکھنؤ کے بڑے بڑے شیعہ مجتہدین کا ناطقہ بند کر دیتے تھے۔ علمی معلومات کے اعتبار سے چلتا پھرتا کتب خانہ تھے۔ 
تدریس اورشعرو شاعری اور دیگر اوصاف کے علاوہ تصنیف و تالیف کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے بہت کچھ لکھا، لیکن افسوس ہے ان کی تحریرات کی طباعت کا زیادہ اہتمام نہ ہوا جس کی وجہ سے بعض مسودے ضائع ہو گئے۔ جو مسودات ان کی وفات تک محفوظ تھے ان میں سے چندیہ ہیں۔
(۱) النوادر
(۲) گردش روزگار: اس کتاب پر انھیں بہت ناز تھا۔ اس کی زبان کو وہ الہامی قرار دیتے تھے۔ 
(۳) حل مشکلات الحدیث: یہ کتاب عربی زبان میں ہے باریک خط میں دو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے اپنے موضوع کی بے مثال کتاب ہے ۔ کاش حدیث کے سلسلے کی یہ کتاب شائع ہوجائے۔
(۴) تاثرات: یہ غالباً چھپ چکی ہے۔
(۵) روزمرہ: یہ کتاب چھ سو صفحات پر محیط ہے۔ اردو زبان و لغت کی اصلاح سے متعلق ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ اردو کے بڑے بڑے ماہرین اور سخن ور حضرات بھی تحریر اور گفتگو میں غلطی کر جاتے ہیں۔ کتاب میں اس ضمن کے اکثر مقامات کی نشان دہی کی گئی ہے۔
(۶) تاریخ گلستان۔
(۷) رسالہ در علم غیب۔ 
مولاناسید ابوالخیر احمد برق لکھنوی اعلیٰ اخلاق کے مالک اور ولی اﷲی صفات سے متصف تھے۔ ان کی تاریخ ولادت ۱ ؂ کا علم نہیں ہو سکا ۔ البتہ ان کی وفات ۲؍جنوری ۱۹۷۰؁ء کو لکھنؤ میں ہوئی۔ ۲؂ 
۱؂ مولانا سید ابو الخیر حسنی لکھنوی کی تاریخ ولادت ۱۹۰۴؁ء ہے۔ (عبدالرؤف خاں ندوی) 
۲؂ بحوالہ ہفت روزہ الاعتصام لاہور شمارہ ۱۵؍جنوری ۱۹۷۱؁ء۔
ادیب العصر حضرت العلام عبدالمجید الحریری بنارسی رحمہٗ اﷲ 
(سال وفات: دسمبر ۱۹۷۲؁ء )
ادیب وقت حضرت العلام عبدالمجید الحریری رحمہ اﷲ انیسویں صدی کے آخر میں ایک متوسط علم دوست گھرانے میں پیدا ہوئے بچپن ہی سے بہت ذہین وفطین تھے ذکاوت و فطانت ان کی پیشانی سے ظاہر تھے۔ جب پانچ سال کے ہوئے تو مکتب میں بٹھائے گئے نو سال کی عمر میں اردو فارسی اور مبادیات عربی میں کافی مہارت پیدا کرلی تھیں چودہ پندرہ سال کی عمر میں درس نظامیہ سے فارغ ہو چکے تھے چودہ سال ہی کے عمر میں الہ آباد بورڈ کے ملا فاضل کے امتحان میں شریک ہوئے ان کی کم عمری کی وجہ سے ان کے شفیق استاد مولانا محمد منیر خاں رحمہ اﷲ کو بھی اس امتحان میں شریک ہونا پڑا ۔ مولانا حریری اس امتحان میں پورے صوبہ کے اندر فرسٹ ڈویزن پاس ہوئے اس امتیازپر انھیں بورڈ کی طرف سے انعام بھی ملا۔ 
انگریزی پڑھنے کا شوق دامن گیر ہوا تو جے نرائن ہائی اسکول بنارس سے ہائی اسکول کے امتحان میں شریک ہوئے اور اس امتحان میں بھی فرسٹ ڈویزن اور فرسٹ پوزیشن حاصل کی ۔ ایف اے کا امتحان بنارس ہندو یونیورسٹی سے امتیاز کے ساتھ پاس کیا پھر انگریزی کی تکمیل کیلئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تشریف لے گئے اور وہاں سے بی اے کا امتحان پاس کیا پھر بنارس ہندو یونیورسٹی سے ایم اے ایل ایل بھی کر لیا۔ 
جس زمانہ میں خلافت کی تحریک عروج پر تھی گاندھی جی کی تحریک موالات کی تحریک چل رہی تھی اسی زمانہ میں علی گڈھ کو خیر باد کیا اور بنارس واپس چلے آئے تحریک خلافت اور جنگ آزادی میں حصہ لیا اور اسی سلسلے میں ایک مرتبہ جیل بھی گئے۔ مولانا ایک پختہ نیشنلسٹ مسلمان تھے اور ہمیشہ کانگریس کے ساتھ رہے مگر اخیر عمر میں سیاست سے علحدہ ہوکر گوشہ نشین ہو گئے تھے ۔
مولانا ایڈوکیٹ بھی تھے وکالت پاس کرنے کے بعد انھوں نے پریکٹس شروع کی وکالت خوب چلی چند ماہ بعد یہ کہکر چھوڑدیا کہ اس پیشہ میں صبح و شام تک جھوٹ فریب بے ایمانی اور دغابازی سے کام لینا پڑتا ہے یہ پیشہ کسی شریف کیلئے مناسب نہیں ہے اگر وکالت کرتے ہوتے تو اپنے دور کا ایک کامیاب وکیل ہوتے مولانا حریری صاحب ہندو پاک کی ان چند نادر ۂ روزگار ہستیوں میں تھے جو اپنے علم و عمل ذہانت و فطانت اور علمی خصوصیات کی وجہ سے تمام باشندگان ملک کے نزدیک عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ 
علمی شغف: کتابو ں کے مطالعہ کے بہت ہی شائق اور عاشق تھے۔ رات دن مصروف مطالعہ رہا کرتے ان کا اپنا ایک ذاتی کتب خانہ تھا جس میں انھوں نے اپنی پسند کی بہت سی کتابیں جمع کر رکھی تھیں اس میں بہت سے مفید کارآمد اور علمی کتابیں تھیں ان کے زمانہ قیام حجاز میں جسے اس کتب خانہ کی دیکھ بھال اور نگرانی کا موقع ملا بارہا میں نے ان کتابو ں کوپڑھا اور ان سے کافی استفادہ کیا اب یہ کتب خانہ جامعہ سلفیہ بنارس کی ملک ہیں انھوں نے اپنی وفات سے تقریباً دو تین سال پہلے اپنی تمام کتابیں جامعہ سلفیہ بنارس کو دیدی تھیں مولانا مسعود عالم ندوی جس زمانہ میں اپنی مشہور کتاب’’ محمد بن عبدالوہاب ایک مظلوم و بدنام مصلح‘‘ اور’’ ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک‘‘ کی تالیف کی انھوں نے بھی اس کتب خانہ سے کافی استفادہ کیا تھا ہندوستان یا بیرون ہندوستان کا جب کوئی عالم بنارس آتا تو وہ عموماً مولانا حریری کاہی مہمان ہوتا ، مولانا سید سلیمان ندوی مولانا مسعود عالم ندوی مولانا محمد سورتی مولانا عبدالعزیز میمن سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکرحسین مرحوم رفیع احمد قدوائی مولانا ابوالکلام آزاد و دیگر اکابر ملک سے اچھا خاصاتعلقات و مراسم تھے۔ آزادی کے بعد جب مولانا آزاد وزیر تعلیم نے مدارس عربیہ کے نصاب میں اصلاح و ترمیم کی غرض سے علماء کی ایک کمیٹی کی تشکیل فرمائی تھی تو مولانا حریری اس کمیٹی کے اہم رکن تھے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد سے آپ کا تعلق سیاسی اور علمی دونوں حیثیتوں سے تھا ان کو علم و ادب و لغت میں آپ کی مہارت پر بڑا اعتماد تھا مولانا سید سلیمان ندوی جب کبھی بنارس تشریف لاتے تو مولانا حریری کے مہمان ہوتے، مولانا عبید اﷲ سندھی ایک مرتبہ جب بنارس تشریف لائے تو مولانا ہی کے مہمان تھے۔ 
علمی و ادبی مقام: مولانا حریری عربی زبان و ادب کے شہسوار اور علم تفسیر میں بہت بلند مقام رکھتے تھے سات زبانوں ( اردو، عربی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، روسی، اور ترکی ) کے ماہر تھے۔ اسلئے ہفت زبان کے نام سے مشہور تھے مولانا کی ایک خوبی یہ تھی کہ جس زبان کو بھی سیکھتے اس میں اچھی طرح لکھتے اور گفتگو کرسکتے تھے اور ہر زبان کو اھل زبان کے لہجہ میں بولتے تھے عربی فارسی اور اردو کے ادیب تھے انگریزی زبان پر بھی عبور تھا جب عربی زبان میں گفتگو فرماتے تو معلوم ہوتا کہ کوئی عرب عربی میں گفتگو کر رہا ہے یہی حال ان کی فارسی اور انگریزی دانی کا بھی تھا ، فارسی بولتے تو دھوکہ ہوتا کہ کوئی ایرانی گفتگو کررہا ہے ۔
عربی زبان میں لکھنے اور بولنے پر انھیں بے پناہ قدرت حاصل تھی سید سلیمان ندوی نے ایک دفعہ مولانا حریری سے فرمایا کہ عربی زبان و ادب پر آپ کی جو قدرت ومہارت ہے میں اب تک اس مقام تک نہیں پہونچ سکا تقریبا پینتالیس چھیالیس سال قبل ایک بلند پایہ شامی عالم شیخ عبدالعزیز ثعالبی جب سیاحی کرنے ہندوستان آئے تھے تو بنارس میں وہ مولانا حریری ہی کے مہمان تھے یہ ایک وجیہ دراز قد تن و توش کے انسان تھے بسطۃ فی الجسم کے ساتھ بسطۃ فی العلم کی دولت سے بھی مالا مال تھے۔ مولانا حریری کی گفتگو سے وہ اس درجہ متاثر اور متعجب تھے کہ انھیں کسی طرح یقین ہی نہیں آتا تھا کہ مولانا حریری ہندوستانی ہیں انھوں نے فرمایا آپ نے کتنے سال جامعہ ازہر مصر میں تعلیم پائی مولانا نے کہا کہ میں نے عربی اپنے وطن ہی میں سیکھی ہے میں نے اب تک ہندوستان سے باہر قدم نہیں نکالا ہے علامہ ثعلبی نے فرمایا کہ تم غلط کہتے ہو تم ملک شام کے رہنے والے ہو تجارتی سلسلہ میں تم نے ہندوستان میں سکونت اختیار کرلی ہے ورنہ جس قدر فصیح شستہ رواں اور برجستگی کے ساتھ تم عربی بولتے ہو ایسی عربی میں تو کوئی شامی ہی گفتگو کر سکتا ہے جب مولانا حریری کے استاد مولانا محمدمنیر خاں رحمہ اﷲ نے علامہ ثعلبی سے کہا کہ یہ میرے شاگرد ہیں اور انھوں نے مجھ سے عربی تعلیم حاصل کی ہے تب انھیں یقین آیا اور انھوں نے باور کرلیا کہ مولانا نے اپنے وطن میں رہ کر ہی عربی زبان و ادب پر اتنی قدرت اور مہارت بہم پہونچائی ہے، علامہ ثعالبی زبر دست عالم تھے انھوں نے مولانا حریری کی شخصیت کے بارے میں محسوس کیا کہ وہ علم دوست اور علم و اھل علم کے بہت زیادہ قدرداں ہیں ۔ لہذا انھوں نے مولانا حریری سے فرمایا میرے ایک دوست جو عربی زبان و ادب کے بہت بڑے عالم دنیائے اسلام کے بلند پایہ ادیب و لغوی ہیں ۔ عربی لغت و ادب پر ان کی بہت عمیق اور گہری نظر ہے وہ اس وقت غریب الوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اگر آپ اجازت دیں تو انھیں آپ کے پاس بھیج دوں مولانا حریری نے بہت ہی خندہ پیشانی کے ساتھ ان کی یہ پیش کش قبول فرماتے ہوئے کہا کہ آپ انھیں ضرور میرے پاس بھیج دیں چنانچہ انھوں نے علامہ تقی الدین ہلالی مراکشی کو بنارس بھیج دیا یہ تقریباً دو سال تک مولانا حریری کے مہمان تھے مولانا نے ان کی پذیرائی اور مہمان نوازی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا دونوں میں علمی مذاکرے ہوتے ،مختلف علمی ، ادبی، نحوی اور دوسرے مسائل پر تبادلۂ خیال ہوتا مولانا حریری نے اپنی عربی گفتگو میں علامہ ہلالی سے بہت زیادہ تمرین و مشق بہم پہونچائی۔ 
مولانا حریری کو زبان و ادب پر جو قدرت و مہارت حاصل تھی اس بارے میں علامہ ہلالی کا تاثر یہ تھا کہ ان پر یہ اﷲ تعالیٰ کا فضل و کرم اور احسان ہے ان کا علم خدا داد ہے کسبی نہیں ، یعنی علم لدّنی اور وہبی ہے علامہ ہلالی علامہ حریری کو ادیب و محقق کے نام سے یاد کرتے تھے سید سلیمان ندوی کو جب معلوم ہوا کہ علامہ ہلالی مولانا حریری کے مہمان ہیں تو انھوں نے ان کو لکھا کہ آپ علامہ ھلالی کو ادب عربی کی تدریس کیلئے دارالعلوم ندوۃ العلماء بھیج دیں۔ ھلالی ایک متشدد سلفی العقیدہ عالم تھے اس لئے انھوں نے شروع میں وہاں جانا پسند نہیں کیا کہ ایسا نہ ہو کہ ندوہ والوں سے میری نبھ نہ سکے لیکن مولانا حریری نے بالآخر ان کو ندوہ میں عربی زبان و ادب کی تدریسی خدمت کیلئے رضا مند کر لیا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر مولانا ہلالی ندوہ کی تدریسی خدمت قبول نہ کرتے تو مولانا مسعود عالم ندوی پیدا ہوتے اور نہ مولانا علی میا ں ندوہ پر مولانا حریری کا یہ اتنا بڑا احسان ہے جسے ندوہ اور اہل ندوہ تا قیامت فراموش نہیں کرسکتے۔ 
علامہ ہلالی جب تک ندوہ میں رہے تعطیل کے ایام مولانا حریری کے پاس بنارس ہی میں گذارتے تھے غالباً تیئیس سال کا عرصہ ہوا کہ مولانا علی میاں بنارس تشریف لائے تھے اور ایک روز جامع مسجد اہل حدیث مدن پورہ میں بعد نماز فجر مصلیوں کو خطاب فرمایا تھا تقریر سے فارغ ہونے کے بعد میں نے ان سے درخواست کی کہ ہم طلبہ و جامعہ رحمانیہ کو تمنا ہے کہ آپ ہمیں عربی زبان میں کچھ مفید اور کا ر آمد نصیحتیں فرمائیں کیونکہ ہم آپ کی عربی سننے کے بے حد مشتاق ہیں مولانا عجلت میں تھے مگر پھر بھی میری درخواست کو منظور فرماکر مشکور فرمایا اور فرمانے لگے کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ میں مولانا حریری کی طرح عربی میں گفتگو کروں گا؟ (مولانا حریری اس وقت حجاز میں تھے) ان کو عربی زبان و ادب پر بے پناہ قدرت ہے وہ محفل آرائی کرنا خوب جانتے ہیں اپنی قوت گویائی اور طاقت گفتار سے محفل پر چھا جاتے ہیں ۔ پھر اس محفل میں کسی کو گفتگو کی جرأت بہت کم ہوتی ہے، وہ میرے اساتذہ کی صف کے عالم ہیں اس کے بعد انھوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ علامہ ھلالی رمضان کی تعطیل گذارنے بنارس آئے میں ان کی خدمت کیلئے ان کے ہمراہ تھا یہ میری طالب علمی کا دور تھا ایک روز مولانا ھلالی مولانا حریری کے ساتھ بعد نماز عصر تفریح کیلئے نکلے اتفاقاً اس وقت ان کے ایک بنگالی دوست بھی کہیں سے آگئے ہم چاروں تفریح کرنے کیلئے گنگا کے کنارے گئے راستہ میں مولاناحریری ھلالی صاحب سے عربی میں گفتگو کرتے اور اپنے بنگالی دوست سے انگریزی میں اور جب مجھ سے کچھ کہنا ہوتا تو اردو بولتے تھے تینوں زبانوں میں ان کو اس قدر عبور و کمال تھا کہ میرے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ تینوں زبانوں میں سے وہ کس زبان میں زیادہ فصاحت اور روانی سے گفتگو کرتے ہیں ۔ 
مولانا مسعود عالم ندوی فرماتے ہیں کہ آپ ایک مشہور عالم وادیب ہیں متعدد زبانوں میں عربی ، فارسی ، اردو اور انگریزی کے ادیب عربی زبان میں عربی لہجہ میں اس طرح بولتے ہیں کہ جس طرح کوئی عرب بولتا ہے تقریباً ۵۲ ؁ء میں انھوں نے بلاد عرب میں جماعت اسلامی کا تعارف کرانے کیلئے سفر کیا تھا اس وقت مولانا حجاز میں کونسلر تھے انھوں نے ترکوں سے ملنے اور ان سے گفتگو کرنے میں آپ کی خدمات سے فائدہ اٹھایا مولانا ندوی سے آپ کو وہاں کے بعض علماء اکابرین سے ملاقات کرائی وہ حضرت آپ کی علمیت ، ادبیت، اور عربی گفتگو سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ ان میں سے ایک صاحب کہنے لگے مسعود تم میرے لئے بہترین تحفہ لائے ہو مولانا ندوی بڑے حسرت کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ایسی استعداد اور صلاحیت کا انسان اسلئے پیدا نہیں ہوا ہے کہ وہ کسی مملکت کا سفیر بن کر رہ جائے کاش اپنی وہ علمی و ادبی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے علمی و ادبی شہ پاروں کو منصحۂ شہود پر لاتے اور دنیاوالے اس سے مستفید ہوسکتے۔
مولانا سورتی اور علامہ موسیٰ جار اﷲ روسی جنھیں انقلاب روس کے بعد جلاوطن اور غربت کی زندگی گزارنی پڑی انھوں نے اپنی جلاوطنی کی کچھ مدت بنارس میں بھی مولانا حریری کے مہمان کی حیثیت سے گذاری ۔مولانا حریری نے ان سے روسی اور ترکی زبان سیکھی تھی یہ دونوں حضرات بھی مولانا حریری کے ادبی تجربہ اور ادب عربی میں درک کمال کے معترف و مداح تھے جب کبھی مولانا سورتی ان کو خط لکھتے تو ان القاب سے مخاطب کرتے الفاضل الحمید والظریف الوحید الاستاذ اور جب علامہ موسیٰ جار اﷲ کا کوئی مکتوب آتا تو اس طرح خطاب کرتے الادیب المجید ،مولانا کے ایک عرب دوست عالم سید محمود فزاری کو مولانا جب خط لکھتے تو ان القاب سے مخاطب کرتے نخبۃ الاماثل درۃ الافاضل علم الاعلام حریری العصر زمخشری الدھر ،الہ آباد یونیورسٹی کے عربی لکچرار ڈاکٹر رفیق ایک دفعہ مولانا حریری کی ملاقات کیلئے بنارس تشریف لائے اتفاق سے ظہر کا وقت تھا مولانا حریری مسجد میں تھے ڈاکٹر صاحب مسجد میں تشریف لائے مولانا حریری نماز سے فارغ ہوکر سنت پڑھنے میں مشغول تھے ان ہی کے قریب مولانا عبدالمتین بنارسی نماز سے فارغ ہوکر بیٹھے ہوئے تھے جو علم تفسیر اور فن حدیث میں بہت ارفع اور بلند مقام رکھتے تھے علامہ ابن تیمیہ و علامہ ابن قیم الجوزیہ کی تالیفات کے وہ گویا حافظ تھے ڈاکٹر رفیق سے مخاطب ہوکر عربی میں گفتگو کرنے لگے مولانا عبدالمتین صاحب نے ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا آپ بہت ہی روانی سے عربی میں گفتگو کر لیتے ہیں لیکن ہمارے مولانا حریری جس طرح عربی لہجہ میں عربوں کی طرح گفتگو کرتے ہیں وہ انھیں کا حصہ ہے ، جب مولانا حریری ڈاکٹر رفیق کو اپنے مکان پر لے گئے اور گھنٹوں ان سے مختلف موضوع پر عربی میں تبادلۂ خیال فرمایا تو ڈاکٹر صاحب مولانا حریری کے لب و لہجہ اور ادب عربی پر جو انھیں قدرت حاصل تھی اس سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ،مولانا کی عربی زبان وادب پر قدرت اور ان کے لب و لہجہ کی بہت زیادہ تعریف و توصیف کی، مولانا سعید احمد اکبر الہ آبادی سے کسی نے پوچھا کہ متحدہ ہندوستان میں عربی کے ادیب کتنے ہیں انھوں نے برجستہ فرمایا کہ تین اور تینوں اہل حدیث ہیں۔ 
(۱)مولانامحمد سورتی: مصنف ۱ ؂ ازھار العرب و مصحح جمہرۃ اللغۃ ابن درید
 ۱؂ علامہ محمد سورتی ۲۳؍شعبان المعظم ۱۹۶۱؁ھ بروز جمعۃ المبارک ۷؍اگست ۱۹۴۲؁ء کو علی گڈھ میں داعی اجل کو لبیک کہا۔( انا ﷲ وانا الیہ راجعون)( عبدالرؤف خاں تلسی پور بلرام پور) 
وشارح دیوان حسان بن ثابت اور ابن ماجہ کی ایک مبسوط شرح بھی لکھی تھی ان کے انتقال کے بعد معلوم نہیں ان دونوں شرحوں کا کیا حشر ہوا۔ 
(۲) علامہ عبدالعزیز میمنی ۱؂ جو تیسوں نادر کتابو ں کے مصنف ہیں ۔۰
(۳) علامہ عبدالمجید الحریری : افسوس ان کی اعلیٰ صلا حیتیں ان ہی کے ساتھ رخصت ہوگئیں اور انھوں نے اپنے شایان شان کوئی علمی وادبی یادگار نہ چھوڑی۔ 
ہندوستان آزاد ہونے سے بہت پہلے کا واقعہ ہے کہ افغانستان کے وزیر تعلیم سرور خاں گویا ہندوستان کے دورہ پر آئے ہوئے تھے وہ کئی زبان کے ماہر تھے خاص طور سے انھوں نے ہندوستان میں مدارس عربیہ کا معائنہ کیا اور یہاں کے علماء اکابر سے ملاقات کی مگر علماء سے ملاقات کے بعد انھوں نے ان سے کوئی اچھا تاثر نہیں لیا انھوں نے کہا انکا علمی تبحر اور فنی صلاحیت بجا لیکن بہت ہی کم علماء عربی اور فارسی زبان میں گفتگو کرسکتے ہیں بیان کی بہت بڑی خامی اور نقص ہے۔ جب وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء گئے اور وہاں سے پٹنہ ہوتے ہوئے بنارس آنے کا ارادہ ظاہر کیا تو سید سلیمان ندوی نے مولانا حریری کو لکھا کہ سرور خاں گویا بنارس جارہے ہیں انھوں نے اکثر علمائے ہند کو گالیاں دی ہیں اور برا بھلا کہا ہے اب ہم علماء کی عزت و آبرو آپ کے ہاتھوں میں ہے ہم سب کی لاج رکھ لیجئے۔ مولانا حریری نے ان کا استقبال کیا اور ان کی پذیرائی فارسی زبان میں کی اور ان سے یہ نہیں فرمایا کہ میں عبدالمجید ہوں لیکن چند جملوں کے بعد مہمان محترم نے کہا کہ ’’ حقا کہ تو عبدالمجید ہستی‘‘ دو تین روز تک مولانا کے مہمان رہے اور مولانا حریری کی فارسی دانی اور فارسی زبان کے اندر ایرانی لہجہ میں گفتگو سے بہت متاثر ہوئے اور بہت مدح سرائی کی۔ 
۱؂ علامہ عبدالعزیز میمنی ۲۶؍ ذی قعدہ ۱۳۹۸؁ھ مطابق ۲۷؍اکتوبر ۱۹۷۸؁ء کو نوّے برس کی عمر پاکر کراچی میں وفات پائی۔ ( انا ﷲ وانا الیہ راجعون)( عبدالرؤف خاں تلسی پور بلرام پور) 
ڈاکٹر امرت لعل عشرت جو بنارس ہندو یونیورسٹی میں فارسی کے استاد ہیں تہران یونیورسٹی سے ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی ہے فارسی انکا اوڑھنا بچھونا ہے ان کے گھر کا ماحول بالکل فارسی ہے ان کی اہلیہ اور وہ فارسی میں گفتگو کرتے ہیں ،ڈاکٹر صاحب جب ایرانی لہجہ میں فارسی بولتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایرانی اپنی مادری زبان میں گفتگو کررہا ہے ۔ ایک بار جب وہ مولانا حریری صاحب سے ملاقات کرنے کیلئے آئے اور مولانا سے فارسی میں گفتگو کی تو مولانا حریری کی فارسی گفتگو اور ان کے لب و لہجہ سے اس درجہ متحیر ہوئے کہ انھیں بے اختیار کہنا پڑا ’’ قند پارسی اینجا چشیدیم‘‘ 
تاریخ ادب کی عربی کتابوں میں موسیٰ بن سیار ا اسراری کے بارے میں پڑھا تھا کہ ان کو عربی اور فارسی زبان پربہت زیادہ قدرت و مہارت تھی جبکہ ان کے بارے میں جاحظ نے لکھا ہے کہ’’ انہ من اعاجیب الدنیا‘‘ یہ دنیا کے عجائب و غرائب میں سے ایک تھے لکھتے ہیں کہ جب وہ قرآن کی تفسیر کرنے کیلئے اپنی مسند درس پر جلوہ افروز ہوتے تو عربی طلبہ ان کے داہنی طرف بیٹھتے اور فارسی طلبہ ان کے بائیں طرف بیٹھتے تھے وہ قرآن کی ایک آیت پڑھتے عربی طلبہ کیلئے عربی میں اس کی تفسیر کرتے اورپھر فارسی طلبہ کی طرف متوجہ ہوتے اور انھیں فارسی زبان میں سمجھاتے دونوں زبانوں پر ان کو اس قدر قدرت حاصل تھی کہ ’’ فلا یدری بای لسان ہو ابین‘‘سامعین کو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا کہ یہ دونوں میں سے کس زبان کو وہ فصاحت و بلاغت سے اور روانی سے بولتے ہیں یہی شان مولانا حریری کی تھی کہ بیک وقت جب وہ عربی، فارسی ،اردو ، انگریزی میں گفتگو فرماتے تھے اگر جاحظ مولانا حریری کا زمانہ پاتے تو نہ معلوم انھیں کس لفظ سے یاد کرتے۔
خطابت و انشاء پردازی : مولانا حریری ایک بلند بانگ شعلہ بیان خطیب اور ایک صاحب طرز انشاء پرداز تھے جب تقریر کرتے تو ڈھلے ڈھلائے جملے ان کی زبان سے نکلتے مترادف الفاظ کی کثرت ہوتی کوئی لفظ انھیں ڈھونڈھنا نہیں پڑتا تھا ان کی تقریر میں آمدہوتی تھی آورد نہیں ان کی اردو تحریر و تقریر کی زبان بہت ہی معیاری اور بلند ہوتی تھی بسااوقات ان کی تحریر پر مولانا محمد حسین آزاد کی تحریر کا دھوکہ ہوتا تھااور کبھی کبھی مولانا ابوالکلام آزاد کے رنگ میں بھی اپنے قلم سے جادو جگاتے تھے۔ اور کبھی اپنی تقریر و تحریر میں اس قدر آسان اور سہل زبان استعمال کرتے کہ تعجب ہوتا عربی فارسی اور اردو کے ہزاروں اشعار نوک زبان تھے جنھیں وہ موقع موقع اپنی تحریروتقریر میں استعمال کرتے تھے مولانا کی تحریر کے کچھ نمونے مقالہ کے آخر میں آئیں گے۔ انشا ء اﷲ
ایک دفعہ مولانا حریری نے اپنے عین عنفوان شباب کے زمانے میں لکھنؤ میں تقریر کی اور اس میں اپنی فصاحت و بلاغت کا ایسا دریا بہایا کہ جب مولانا تقریر ختم کرکے بیٹھے تو وہاں کے اہل علم اور اہل زبان مولانا کی زبان اور ان کی سحر بیانی سے بہت زیاد ہ متاثر و متعجب ہوئے اور استفسار کیا کہ آپ نے یہ زبان کہاں سے سیکھی ہے مولانا کو ایک عبقری انسان کہنا بے جا نہ ہوگا۔
زمانۂ قیام حجاز : ۱۹۴۹؁ء میں حکومت ہند نے مولانا کو جدہ میں ہندوستان کا کونسلر مقرر کیا تھا مولانا کا جہاز براہِ مصر جدہ کیلئے روانہ ہوا دو روز مولانا نے مصر میں بھی قیام فرمایا وہاں کے علماء اور مشائخ سے ملاقات فرمائی اس زمانہ کے جامعہ از ہر کے شیخ مشائخ شیخ احمد المامون الشناوی سے بھی ملے اور ان سے کچھ دیر تک باتیں کرتے رہے اور ازہر کے ایک دوسرے استاذ شیخ علی مصطفی الغرابی سے ملاقات ہوئی وہ وہاں جامعہ ازہر میں فلسفۂ اسلامی اور علم کلام کے پروفیسر تھے وہ مولانا حریری کی علمی صلاحیت و استعداد اور عربی زبان وادب پر قدرت سے بہت متاثر ہوئے پورے دن صبح سے شام ان کے ہمراہ رہے اور کہا کہ عبدالمجید تمہارے جیسے ذی علم انسان کو بغیر مونس و انیس کے کیونکر چھوڑدوں اور انھوں نے انھیں اپنی نئی مطبوع کتاب’’ تاریخ الفرق الاسلامیۃ نشأۃ علم الکلام عندالمسلمین‘‘ کا ایک نسخہ اور ایک نسخہ ابو ہذیل العلاف کا عنایت فرمایا جب مولانا جدّہ پہونچے اور اپنے منصب پر سرفراز ہوئے تو اعیان و اکابر رؤساء شہر علماء و مشائخ اور وزراء کو کھانے پر بلایا اس دعوت میں شاہ فیصل بھی مدعو تھے جو اس زمانہ میں وزیر اعظم کے منصب پر فائز تھے ۔ مولانا حریری کی گفتگو سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے کہا کہ آپ شامی النسل معلوم ہوتے ہیں کیونکہ ایسی سشتہ رواں اور فصیح گفتگو کوئی شامی ہی کرسکتا ہے اور انھوں نے مولانا حریری کی بہت مدح و ثنا کی ایک سال کے بعد جب مولانا حریری کونسلر کے عہدہ سے علیحدہ ہوئے تو مدینہ منورہ میں رخت سفر کرنے کا عزم کرلیا اور وہیں جاکر دیار رحمت و رافت میں کچھ دنوں تک قیام فرمایا ایک روز بازار میں خریدو فروخت کررہے تھے کہ کسی طرف سے مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی نکل پڑے ۔ عرصہ ہوا ایک مرتبہ بنارس آئے تھے لیکن مولانا حریری سے ملاقات نہ ہوسکی تھی کیونکہ وہ اس وقت بنارس میں موجود نہیں تھے مفتی اعظم فلسطین اپنے دل میں ملاقات کی تمنا لئے ہوئے بنارس سے واپس چلے گئے تھے مدینہ کے بازار میں قیام سے انھوں نے مولانا حریری کو پہچان لیا ۔ اس وقت شاہی مہمان تھے مولانا اپنے ساتھ اپنی قیام گاہ پر لے گئے جہاں بڑی تعداد میں عرب ممالک سے آئے ہوئے علماء و فضلاء کا مجمع تھا مولانا حریری سے تھوڑی ہی دیر کی گفتگو سے اس درجہ متاثر ہوگئے کہ انکی جلالت علمی کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے اور علمائے معاصرین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’ ہو تیقن اللغۃ العربیۃ احسن من انباۂا‘‘ کہ اہل زبان سے اچھی گفتگو کرتے ہیں اور پھر فرمایا ’’ الحق احق ان یعترف‘‘
ایک روز مولانا حرم نبوی کے امام سے محو گفتگو تھے اثنائے گفتگو میں امام صاحب نے مولانا حریری سے بڑے طنطنہ سے فرمایا کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ وہ سلفی المسلک اہل حدیث ہیں ’’ما ہذہ التبیحۃ التمسک بالکتاب والسنۃ التمسک بالکتاب والسنۃ ھل فیکم مجتہد؟ مولانا حریری نے انھیں ایسا مدلل اور مسکت جواب دیا کہ وہ بالکل خاموش اور لاجواب ہو گئے اور جب تک مولانا حریری وہاں قیام پذیر رہے انھوں نے اس قسم کی کوئی بحث ان سے نہیں چھیڑی ۔ 
شاہ سعود کی دعوت پر جوان دنوں حجاز کے فرما نروا اور بادشاہ تھے ریاض بھی تشریف لے گئے اور انھوں نے ان کے شاہی کتب خانہ کو مرتب کیا جب مولانا اس کتب خانہ کی ترتیب و تنظیم سے فارغ ہوئے تو شاہ نے ان کے اعزاز میں ایک شاندار جلسہ کیا جس میں رؤسا ء و عمائدین شہر اور وزراء کے علاوہ سعودی عرب کے علماء و فضلاء بھی شریک ہوئے مولانا کو اس جلسہ میں تقریر اور اپنی کارگذاری بیان کرنی تھی اس وقت ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ آج میرے امتحان کا دن ہے اگر آج کے امتحان میں کامیاب ہوگیا تو سمجھوں گا کہ عمر بھر کی محنت ٹھکانے لگی جب تقریر کرنے کیلئے کھڑے ہوئے اور تقریر شروع کی تو ہر ہر جملہ پر ہر چہار طرف سے احسنت مرحبا کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں دعاؤں اور محسنین کے کلمات ہر طرف سے فضا میں گونج رہے تھے۔ ریاض میں یہ مولانا کی زندگی مستعار کا ایک بہت ہی اہم علمی کارنامہ تھا کیونکہ کسی کتب خانہ کی ترتیب کیلئے کتابوں کی معلومات اور کتابوں پر گہری نظر کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ 
حجازمیں بھی مولانا نے عربوں سے اپنی عربی دانی کا لوہا منوا لیا حجاز میں قیام کے دوران مولانا سے انٹر ویو کے سلسلہ میں ان سے سوال کیا گیا کہ جس سلاست روانی برجستگی اور فصاحت و بلاغت کے ساتھ آپ عربی میں گفتگو کرتے ہیں اس طرح ہندوستان میں اور حضرات بھی عربی میں بات چیت کرلیتے ہیں؟ آپ نے ہندوستان علماء کی عزت رکھتے ہوئے بلا تامل فرمایا : ’’ نعم کثیرون کثیرون فوق ماتتصورون‘‘ 
تصنیف و تالیف: مولانا حریری نے اپنی کوئی مستقل تصنیفی یادگار نہیں چھوڑی ۔ مولانا عبدالمتین صاحب بنارسی نے ایک حنفی عالم کے جواب میں جو مفتی بنارس تھے ایک رسالہ ’،نماز جنازہ اندرون مسجد پر ایک نظر‘‘ تحریر فرمایا تھا اس رسالہ پر مولانا حریری نے ایک جامع اور مبسوط علمی تقریظ لکھی تھی اور ان کے تین خطبۂ صدارت ہیں جو انھوں نے ۱۹۲۸؁ء میں مومن کانفرنس میں صدارت کرتے ہوئے کلکتہ میں پڑھا تھا ۔ دوسرا خطبہ ٔ صدارت وہ ہے جو انھوں نے ۱۹۳۹؁ء میں گورکھپور میں پڑھی تھی ۔ اور تیسرا خطبۂ صدارت وہ ہے جو انھوں نے ۱۹۴۰؁ء میں لکھنؤ میں یوپی آزاد مسلم کانفرنس کے اجلاس میں دیا تھا گویا یہ تینوں خطبے اردو میں ہیں لیکن تینوں کی زبانیں مختلف اور جداگانہ ہیں کلکتہ اور لکھنؤ کے خطبے کی زبان بہت ہی بلند اور معیاری ہے جس سے مولانا کی اردو انشاء پردازی میں ندرت و کمال کا پتہ چلتا ہے یہ دونوں خطبے اردو ادب کا ایک قیمتی سرمایہ ہے اور تیسرے خطبہ کی زبان بالکل عام فہم سہل اور آسان ہے جسے خواندہ اور ناخواندہ آدمی سمجھ سکتا ہے جو زبان اس خطبہ میں استعمال کی گئی ہے اگر اسے سہل ممتنع سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ 
مصر کے ایک بہت بلند پایہ ادیب و عالم طٰہ حسین کی الوعد الحق؍ وعدۂ برحق کا اردو میں ترجمہ کیا تھا یہ ترجمہ اردو ادب کے خزانوں میں ایک اضافہ تصور کیا جاتا تھا افسوس یہ کتاب اب تک زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکی۔
پنڈت جواہر لال نہرو سابق وزیر اعظم کے پرانے انگریزی خطوط کا اردو ترجمہ کیا تھا خطوط کا مجموعہ دو جلدوں میں شائع ہوکر منظر عام پر آچکا ہے مولانا حریری کسی کتاب کا ترجمہ کرنے کیلئے پیدا نہیں ہوئے تھے ان کی ذات اس سے بہت ارفع و اعلیٰ تھی کہ وہ کسی کی کتاب کا ترجمہ کریں ۔ کاش ان کی کوئی تصنیف ہمارے ہاتھوں میں ہوتی۔
عربی میں ایک رسالہ ابوہریرہؓ کے منصرف اور غیر منصرف ہونے پر لکھا تھا اور دوسرارسالہ عربی ہی زبان میں ’’ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ ‘‘ پر تقریباً ۳۶ سال قبل تحریر فرمایا تھا اس میں حدیث ’’ والائمۃ من قریش‘‘ پر بہت ہی علمی اور مفید بحث کی ہے رسالہ کانام ’’ نظام الخلافۃ الاسلامیۃ الراشدہ الیوم‘‘ ہے یہ رسالہ گو آج سے بہت پہلے لکھا گیا تھا لیکن اس کی افادیت آج بھی مسلم ہے اس رسالہ کی زبان بہت ہی بلند اور معیاری ہے اور جاحظ کی کتاب ’’ البیان والتبیےن‘‘ پر جو عربی کی بہت مشہور کتاب ہے عربی میں ایک جامع مفید اور کارآمد مقدمہ بھی لکھا تھا لیکن اس کی افادیت یہ رسالہ اور مقدمہ صوت الجامعہ کی کسی قریبی اشاعت میں قارئین کے استفادہ کیلئے شائع کئے جائیں گے۔ انشاء اﷲ
مولانا کی تحریروں کے چند نمونے: سب سے پہلے مولانا کے ایک عربی خط کی ایک عبارت یہاں نقل کی جارہی ہے : 
’’ہو کان یودی أن ابادرفی الرد علیہ فی اول فرصۃ تسخ لی ولکن حالہ دون ذلک اعمالی………… وحلی وتر دلی اوصرفتنی عنہ شاق الفریۃ و متاعہ ہذہ الکربۃ ولا سیما لمن لم یذقہا من قبل ولم یتفورہا عسیٰ اﷲ أن یجعلوہ علی قربۃ وطاعۃ ولا یجعلنی منہا مالا طاقۃ لی ان ربّی لرؤف بالعباد والخیر کل الخیر فیما یختارہ اﷲ لعبادہ و یقضینہم وعسٰی ان تکرہو شیئاً وہو خیر لکم‘‘
میری محبت کا تقاضہ تھا کہ میں تمہارے خط کا جواب پہلی فرصت میں دیتا لیکن میری مصروفتیں اور میرا ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا جانا اس راہ میں حائل رہا اور مسافرت غربت کی پریشانی کا خط جواب دینے سے مانع رہی اے عزیز بے شک مسافرت ایک مصیبت ہے بہت بڑی مصیبت خصوصاً ایسے آدمی کیلئے جس نے اس سے پہلے نہ غربت کا مزہ چکھا اور نہ اس کا خوگر ہوا ہے امید کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ اس غربت کو میرے لئے اپنی قربت و طاعت کا ذریعہ بنائے گا اور اس غربت کی وجہ سے مجھ پر اتنا بوجھ نہ لادے گا جس کے اٹھانے کی مجھ میں طاقت نہیں بلا شبہ میرا پروردگار اپنے بندوں پر بڑا مہر بان اور اس چیز میں بھلائی ہی بھلائی ہے جسے اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کیلئے منتخب کرتا اور اس کا فیصلہ کرتا ہے عنقریب تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو حالانکہ اس میں تمہارے لئے خیر و بھلائی ہے ۔ عربی زبان کے کئی نمونے ہیں مگر طوالت کی وجہ سے صرف اسی پر اکتفاء کیا جارہا ہے ۔
فارسی تحریر کا ایک اقتباس یہاں نقل کیا جا رہا ہے یہ تحریر در اصل ان کا ایک خط ہے جو انھوں نے اپنے کسی ایرانی دوست کو لکھا تھا۔
’’ ھدایائے شکرو سپاس فراواں و تحفہ یائے محبت و اخلاص بے پایاں پذیرفتہ گراں بارفتم سازند درپے ایں کتابے چند خیلے رحمت بروند بر خوات کتب دیگر افسوس خوردم ولے بدست آوردن ایں کتاب استاذ گرامی فزوں از در خوش وقت ہم شدم نمی دانم چنداں سپاس گذارم کرم کردند ۔ لطف فرمودند و عمرت زیادہ کند و ہر سو سعادت و ارجمندیت تاابد درخشاں بماند ولے کرمہائے تو مرا کرد گستاخ زحمت دیگری خواہم کہ بدھم کتابے چند دیگر بخواھم بگیرم در فراہم آوردن ایں کتابہازودی وشتاب ہر آئینہ لازم نیست چنانکہ فرصت دست از بہائے ایشاں دگر بمکنۂ از مکاتب بمبئی موجود باشند من بندۂ را مطلع سازند خیلے ممنون شوم ‘‘
میرے شکریہ کا بہت زیادہ ھدیہ و تحفہ اور میری محبت و اخلاص کا سلام قبول فرماتے ہوئے مجھے احسان مند فرمائیں ان چند کتابو ں کے سلسلہ میں آپ کو بہت زیادہ زحمت اٹھانی پڑی دوسری بہت سی کتابوں کے دستیاب نہ ہونے سے بہت زیادہ افسوس ہوا لیکن ان بہت سی گراں بہا کتابو ں کے حصول میں میں اپنے کو بہت ہی خوش نصیب سمجھتا ہوں نہیں سمجھتا کہ میں کتنا شکریہ ادا کروں آپ نے بہت ہی لطف وکرم فرمایا آپ کی عمر دراز ہو اور آپ کی سعادت و ارجمندی کا آفتاب روشن و تاباں رہے آپ کے لطف وکرم نے ہمیں گستاخ بنا دیا ہے آپ کو ایک دوسری زحمت دینا چاہتا ہوں دوسری چند کتابیں خریدنے کا ارادہ ہے لیکن ان کتابوں کے فراہم کرنے میں آپ ہرگز عجلت سے کام نہ لیں جب بھی آپ کو فرصت ملے اور بمبئی کے مکتبوں میں یہ کتابیں موجود ہیں تو مجھ ناچیز کو مطلع فرمائیں میں آپ کا بہت زیادہ ممنون ہوں گا۔
یہاں اردو تحریر کے نمونہ کے سلسلے میں مولانا کے ایک خط کی کچھ عبارتیں نقل کی جارہی ہیں جو انھوں نے حجاز جاتے ہوئے قاہرہ سے اپنے لڑکوں کو لکھا تھا۔
’’ اب میں نے سونے کی تیاری کی نیند دیر میں آئی کوئی چار کا عمل ہوگا کہ ایک جان پرور نغمہ نے سامعہ نوازی آغاز کی اﷲ اکبر اﷲ اکبر لا الہ الااﷲ وﷲ الحمد واﷲ اکبر وﷲ الحمد عربی لحن صبح کا سہانا وقت عجیب کیفیت طاری ہوئی اٹھ بیٹھ کھڑکیاں کھولیں یہ شارع ابراہیم باشا ہے اور سامنے میدان یا حدیقہ ابراہیم باشا ہے سو سو دو دو سو مسلمانوں کی ٹولیاں لمبے لمبے کرتوں میں ملبوس سفید ٹوپیاں اوڑھے ان پر سفید ہی عمامے باندھے فوجی مارچ کرتی گلبانگ توحید سے روحوں کو گرماتی نماز عید کو جارہی ہیں میں بھی اٹھا غسل کیا کپڑوں کیلئے اٹیچی کھولا انا ﷲ …… کپڑے تمام کے تمام داغدار ۔
مولانا کی ایک دوسری تحریر ملاحظہ فرمائیں :
مگر یہ قوم یہ زندہ قوم نئے سازو سامان کے ساتھ آئی یہ نیا مذہب اور نیا تمدن ساتھ لائی یہ نیا مذہب ،مذہب اسلام اور یہ نیا تمدن تمدن اسلام تھا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایران کی راہ سے جو اسلام ہندوستان آیا عربی اسلام نہ تھا وہ ایک بگڑا ہوا اسلام تھا جو عجمیوں کے اختلاط سے اپنی بہت سی خوبیاں پیچھے چھوڑ آیا تھا وہ تمدن بھی جو یہ حملہ آور ساتھ لائے خالص اسلامی تمدن نہ تھا اس کی بہت سے خصائص فنا ہوچکے تھے یہ سب کچھ تھا مگر پھر بھی یہ مذہب اپنے اندر ہندوستانیوں کیلئے بہت سی دلربائیاں رکھتا تھا اس نے دین و مذہب اور علم و حکمت کو انسانیت کی ملک بتایا اس نے نسل و خون کے امتیازات پر علیٰ رؤس الاشہاد لعنت بھیجی اس نے انسانوں کی ایک برادری قائم کی اور بزرگی و فضیلت کا ایک محور نیکو کاری وہ صلاح کو قرار دیا اس نے اعلان کیا کہ یا ایہا الناس انا خلقناکم من ذکر و انثیٰ وجعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عنداﷲ اتقاکم ان اﷲ علیم خبیر
دولت و سعادت ، قوت و عزت قوم کے حصہ میں آئی ہے جو ایک مضبوط اور پختہ نظام اخلاق کی مالک اور جس کے افراد ان اساسی اور بنیادی اخلاقی خوبیوں سے آراستہ ہوتے ہیں جن پر فراخ حالی و مسرت حشمت و جاہ دبدبہ و شان کی عمارتیں قائم ہوتی ہیں۔ 
 نیز ایک تحریر ملاحظہ فرمائیں: 
آج مدینہ منورہ میں عید ہے ایسی عید پہلے کبھی نہ دیکھی گئی اور یہ عید ہفتوں رہی لوگ خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری ہیں گھروں میں ننھی ننھی بچیاں لپک لپک کر خوشی کے گیت گا رہی ہیں ۔ 
طلع البدر علینا من ثنیات الوداع 
سعادت و فیروز مندی کے ماہ تمام نے آج کوہ وداع کی گھاٹیوں پر کھیت کیا ہے……………… ………… جو سنگ گراں راہ میں آیا اسے پاش پاش کردیا جو دشواری پیش آئی اس کو آسان بناکے چھوڑا، جو ان کے مقابلے پر آگے آیا وہ غبار بن کر اڑگیا۔ 
وفات: ابتدا ہی سے مولانا کی طبیعت خراب چل رہی تھی اخیر عمر میں زیادہ تر تصوف کی کتابیں ان کے مطالعہ میں رہا کرتی تھی زیادہ وقت اوراد وظائف ذکر و اذکار یاد الٰہی اور تلاوت قرآن مجید میں گذرتا تمام مشاغل دنیاوی سے کنارہ کش ہوگئے تھے۔ بس ان کا کام گھر سے مسجد اور مسجدسے گھر ہی تک محدود ہو گیا تھا ۔ 
دسمبر ۱۹۷۲؁ء کو علم و آفتاب کا یہ نیر تاباں ۸۰ سال کی عمر میں ہمیشہ کیلئے غروب ہو گیا ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔
اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ 
عبدالوحید رحمانی 
سابق شیخ الجامعہ جامعہ سلفیہ بنارس 
ماہنامہ صوت الجامعہ بنارس 
شمارہ ۳؍اگست ۱۹۷۵؁ء 

٭٭٭
٭٭
٭








عارف باﷲ مجاہد ملت علامہ سید ممتاز علی ندوی رحمہٗ اﷲ 
(تاریخ وفات: یکم فروری ۱۹۷۳؁ء)
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے 
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
عارف باﷲ مولانا سید ممتاز علی ندوی بن سید عابد علی مولد کسمھی تحصیل ڈومریا گنج منجملہ اور اساتذہ کے بالآخر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں سند فراغت حاصل کی اس دوران میں شمس العلماء و شیخ الحدیث مولانا حفیظ اﷲ ندوی سے حدیث پڑھی مولانا حفیظ اﷲ کا تذکرہ آپ اسی کتاب میں ملاحظہ فرمائیں گے ۔ الہ آباد یونیورسٹی سے امتحان فاضل ادب بھی پاس کیا فراغت کے بعدموضع کرتھی ڈیہہ کو سکونت کی عزت بخشی علامہ سید ممتاز علی رحمہ اﷲ مسلک کتاب و سنت کے بے باک و بے لوث مخلص ترین داعی و مبلغ تھے آپ علوم قرآن و حدیث کے گنجینہ اور اپنے دور کے نہایت نیک صالح متقی خدا ترس شب زندہ دار مستجاب الدعوات خلیق ملنسار خوش گفتار خوش مزاج اعلیٰ کردار مہمان نواز علم اور علماء کے قدر دان اور ایک جری اور نڈر مجاہد تھے۔
دنیوی اعتبار سے انھیں اس دور کے معاشرے میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اس نواح کے بے شمار لوگوں نے ان سے بھر پور استفادہ کیا اور اسلام کی سیدھی راہ پر گامزن ہوئے ۔ علامہ نے بہت سے مواضعات میں اہل حدیث کی مسجدیں و مدارس تعمیر کرائیں جن میں قال اﷲ و قال الرسول کی صدائیں بلند ہونے لگیں جن مواضعات و مقامات میں اہل حدیث کا لفظ کسی نے نہیں سنا تھا وہاں اہل حدیث مسلک پہونچا اور لوگوں نے اسے قبول کیا ہزاروں دیہات میں مسلک سلف کو مقبول عوام کیا اور ہزاروں گھروں کو مشرکانہ عقائد سے تائب کراکے توحید و سنت کا پابند کیا ۔ تغمدہ اﷲ برحماتہ 
عبدالرؤف خاں ندوی
تلسی پور ۔ بلرام پور، یوپی

مولانا سید ممتاز علی ندوی صاحب کے پردادا سید پناہ گنج مرادآباد سے آکر برہپور ضلع بستی میں سکونت پذیر ہوئے ۔ اس سے قبل ضلع بہرائچ کے موضع بکوئی میں کچھ دنوں قیام پذیر رہے۔ آپ کے والد سید عابد علی کی شادی موضع ٹکریا،سدھارتھ نگر میں ہوئی۔ 
مولانا سیدممتاز علی صاحب غالباً ۱۸۸۸؁ء میں پیدا ہوئے ، پورا خاندان مسلکاً شیعہ تھا، موصوف اور دیگر لوگ فاتحہ، نوحہ، مرثیہ اور تعزیہ کو جائز سمجھتے تھے اور ان کی اہلیہ عشرہ محرم میں چوڑیاں توڑ ڈالتی تھیں ،نیز دس دن تک چارپائی پر سونا حرام سمجھتی تھیں ۔ موضع جموتیا کے مکتب( جو شیعی مکتب فکر کا تھا) میں پرائمری درجہ چہارم تک پڑھنے کے بعد جب مسلک سلف کی کتابوں کا مطالعہ کیا توآپ ان تمام بدعات و خرافات سے تائب ہوگئے اور گھر والوں کو ان تمام فاسد رسوم اور غلط عقائد سے باز رکھنے کی سعی پیہم کرنے لگے تو آپ کے والدین سخت برہم ہوگئے اور مولانا کو زدوکوب کیا ، گھبراکر آپ بنگال بھاگ گئے، واپسی کے بعد جمنی کے مکتب میں بچوں کو تعلیم دینے لگے، دھیرے دھیرے گھر والوں کے اوپر حقیقت آشکارا ہونے لگی اور کچھ اصلاح ہونے لگی تو اپنے دروازہ پر جو تعزیہ کا چوک تھا اسے کھود کر پھینک دیا انھیں دنوں مولانا کی والدہ کو آشوب چشم کی شکایت ہوگئی اور آنکھ میں سفید داغ پڑ گیا، کمزور عقیدہ والوں نے کہنا شروع کیا کہ امام با با ناراض ہوگئے ہیں اسی لئے ان کی آنکھ خراب ہو گئی ہے۔ مولانا نے اﷲ سے روروکر اپنی ماں کیلئے شفایابی کی دعا کی تو اﷲ کے فضل وکرم سے والدہ کی آنکھ ٹھیک ہوگئی۔ 
آپ نے درس وتدریس کے مقابلے میں دعوت و تبلیغ کو ترجیح دی اور اس انبیائی مشن کو انجام دینے میں تا حیات سر گرم عمل رہے۔ اس پُر خار وادی میں بڑی مشکلات اور دشواریوں کا آپ نے سامنا کیا ، کٹر قسم کے قبوریوں سے مناظرے اور مباحثے ہوئے، جانِ عزیز کو خطرے میں ڈالا ، کتاب و سنت کی تعلیم کو عام کیا ، اور بالآخر آپ کی کوششوں سے پورا علاقہ شاہراہ قرآن وحدیث پر گامزن ہو گیا ۔ آپ کے ہاتھ پر کتنے ہی غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہوئے اور کتنے لو گ باجماعت پنج وقتہ نماز کے پا بند ہو گئے ، بے شمار شیعہ حضرات توبہ کرکے توحید خالص اور عقیدۂ صحیحہ پر عمل پیرا ہوگئے اور کتنے امام باڑے مسجدوں کی شکل میں بدل گئے اور مزید بہت ساری مسجدیں تعمیر ہوگئیں اور مواضعات و علاقے میں مدارس و مکاتب کے جال بچھ گئے۔ اس علاقہ میں اکثرمولانا محمد ادریس صاحب دہلوی جو حنفی المسلک تھے آیا جایا کرتے تھے اور علاقہ کے لوگوں کی نظروں میں ان کو اعتبار اور وقار حاصل تھا۔ ایک دن مولانا ممتاز صاحب کے معتقدوں اور مولانا دہلوی کے مریدوں کے درمیان کسی مسئلہ پر بحث ہو گئی تو مناظرہ کیلئے مولانا ممتاز صاحب کا ان لوگوں نے نام پیش کردیا ، اس وقت ان کی صرف مکتب کی تعلیم تھی ۔ مولاناجب آئے تو مولانا دہلوی صاحب نے مولانا سے سوال کیا کہ فاستمعوا کون سا صیغہ ہے ، آپ پریشانی میں پڑ گئے مگر خاموش رہنے کے بجائے فوراً سوال کردیا کہ’’ جان جلندھر جاڑن مرے پانی مرے پیاس ۔ دودھ بھات بھوکن مرے پتھر ہگاس‘‘ کون صیغہ ہے وہ پریشانی میں پڑ گئے اور اس طرح مناظرے میں فوقیت حاصل ہوگئی لیکن اپنی کم علمی و بے مائیگی کا احساس برابر ستاتا رہا ، مولانا کی عمر اس وقت بیس یا بائیس سال کی تھی ۔ شادی ہو چکی تھی ، ایک بچی کے باپ تھے لیکن عمر کی زیادتی علم کے حصول میں مانع نہ ہوسکی اور شوق تعلیم نے پھر ان کو جامعہ سراج العلوم بونڈیہار ، بلرام پور کشاں کشاں لے کر چلی گئی۔ سب سے پہلے مولانا شاہ محمد صاحب سے ملاقات ہوئی، اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مولانا مجھے صیغہ نہیں آتا ہے پڑھا دیجئے۔ مولانا ان کی سادگی پر مسکرانے لگے، اتنے میں محدث کبیر حضرت مولاناعبدالرحمن صاحب مبارک پوری صاحب تحفۃ الاحوذی تشریف لے آئے مولانا شاہ محمد صاحب نے کہا کہ حضرت یہ لڑکا صیغہ پڑھنے آیا ہے ، صاحبِ تحفۃ الاحوذی نے بڑی شفقت و عنایت سے ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا’’ کیا پڑھنے آئے ہو ؟‘‘ مولانا نے کہا: ’’ہم صیغہ پڑھیں گے‘‘۔محدث مبارک پوری نے بھی مسکراتے ہوئے صیغہ کی رٹ لگانے کی وجہ دریافت کی ، اس پر مولانا ممتاز احمد صاحب نے پورا واقعہ اور پس منظر بیان کیا۔ مولانا مبارک پوری نے دعائیں دیتے ہوئے داخلہ لیا اور جامعہ سراج العلوم کے تمام اساتذہ سے کہا کہ اس بچہ کا خیال رکھتے ہوئے اس کی تعلیم و تربیت کی طرف بھر پور توجہ کی جائے محدث عبدالرحمن مبارک پوری ؒ اس وقت جامعہ سراج العلوم بونڈھیار کے سر پرست اور نگرانِ اعلیٰ تھے۔ 
جامعہ سراج العلوم بونڈیہار سے مدرسہ عالیہ عربیہ مؤ اعظم گڈھ تشریف لے گئے اور پھر مدرسہ فیض عام مؤ میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فراغت کے بعد عرصہ تک مبارک پور اعظم گڈھ میں صاحب تحفۃ الاحوذی سے حدیث کی تعلیم حاصل کی اور پھر ایک باعمل اور باوقار عالم بن کر وطن واپس آئے۔ بقول علامہ نو شہروی ’’ آپ نے الہ آباد یونیورسٹی سے فاضل ادب کا امتحان بھی پاس کیا۔‘‘
مولانا نے جن اساتذہ سے اکتساب فیض کیا ان کی فہرست تو طویل ہے مگر چند مشہور اساتذہ گرامی کے اسماء اس طرح ہیں: 
۱۔ مولانا شاہ محمد صاحب ؒ
۲۔ مولانا محمد سلیمان صاحب مؤیؒ
۳۔ شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارک پوریؒ 
۴۔ مولانا عبدالسلام صاحب مبارک پوریؒ صاحب سیرۃ البخاری
۵۔ مولانا خلیل عرب (ادیب) 
۶۔ شمس العلماء مولاناحفیظ اﷲ ندوی 
۷۔ مولانا شبلی صاحب فقیہؒ 
مولانا ایک باعمل عالم دین تھے تقویٰ و طہارت اور اخلاص و ﷲیت میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ ایک بے باک اور نڈر مجاہد تھے۔ 
ریواں کے چوک کے معاملہ میں جب مقدمہ بازی ہوئی تو تھانہ دار نعیم اﷲ ( جو شیعہ تھا) نے مولانا کو تھانہ پر طلب کیا ۔ مولانا جب تھانہ سے ہوکر ڈاک بنگلہ پہونچے تو دیکھا کہ ڈپٹی محبوب عالم صاحب ، مرزا عزیز الدین صاحب ، تحصیل دار انوار الحق صاحب اور چودھری زین اﷲ کٹھوتیا محو گفتگو ہیں سب لوگ مولانا کو دیکھتے ہی اُٹھ پڑے اور ادب و عقیدت سے کرسی پر بٹھا یا ڈپٹی صاحب نے کہا کہ حضرت آپ کیسے تشریف لائے ؟ مولانا نے فرمایا : ریواں چوک کے بارے میں داروغہ نے طلب کیا ہے ۔ ڈپٹی صاحب نے پولیس سے کہا کہ جاؤ داروغہ جی سے کہدو نمبر ۸ کا رجسٹر لے کر جلد از جلد حاضر ہوں ۔ داروغہ جی رجسٹر لے کر حاضر ہوئے اور آداب و تسلیم بجالاتے ہوئے کہنے لگے حضور ! مولوی ممتاز نے پورے علاقے کو اپنی شر انگیزی اور فتنہ سے تباہ و برباد کر رکھا ہے، کہیں چوک کھدواتے ہیں کہیں قربانی کرواتے ہیں ۔ مولانا نے کہا: عالیجناب ! اس تھانہ پر ایک ایسا داروغہ آگیا ہے جو تمام چھوٹے بڑے کو ذلیل کرنے کے درپے ہے ، چاہے کوئی مجرم ہو یا نہ ہو مگر اسے نوٹس دے کر تھانہ پر طلب کرلیا کرتا ہے ۔ داروغہ نعیم اﷲ نے کہا: خبر دار ! زبان ٹھیک سے نکالنا ورنہ خیریت نہ ہوگی ، یہ کہنا تھا کہ مولانا نے اپنا جوتا نکال کر اس پر وار کرنا چاہا کہ چودھری زین اﷲ نے مولانا کو روک دیا۔ داروغہ نے روکر ڈپٹی صاحب سے فریاد کی کہ حضور ! کوئی مناسب کاروائی کریں یا مجھے اختیار دیں ۔ حضور کے سامنے میری بے عزتی کی جارہی ہے۔ ڈپٹی صاحب نے کہا کہ مولوی لوگ جذباتی ہوتے ہیں داروغہ جی! ہم لوگوں کو اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے پھر چند افسران تفتیش کیلئے ریواں بھیجے گئے کہ چوک کھدا ہے یا نہیں جبکہ چوک کی جگہ اتنی برابر کردی گئی تھی کہ معائنہ کرنے والوں نے یہی رپورٹ دی کہ معاملہ جھوٹا ہے۔ 
اس طرح پپرگڈی کے چوک کے بارے میں بڑا ہنگامہ ہوا لیکن اﷲ تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی ۔ اس طرح تقریباً ۵۶ چبوترے کھدوا کر اس کا نام و نشان ختم کردیا اور انہیں جگہوں یا اس سے متصل ہی بہت سے مقامات پر مسجدیں تعمیر کرائیں۔ 
تعمیر مساجد پر بڑی مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ موضع مہوارے میں نماز کی ادائیگی کیلئے کسی نے اپنا ایک کمرہ مخصوص کردیا تو وہاں کے ظالم زمیندار بانکے سنگھ نے اس کو نذر آتش کردیا ، جب آپ کو اس کی اطلاع ملی تو سینکڑوں مسلمانوں کو لے کر بانکے سنگھ کی کوٹھی کا محاصرہ کرلیا بڑی مشکل سے ٹھاکر نے پیچھے کھڑکی کے راستے سے راہِ فرار اختیار کرلی اور اپنے آبائی وطن نرکھوریا پہونچا وہاں سے نکیسر سنگھ آئے اور دور ہی سے جھک کر ادب و احترام کے ساتھ سلام کیا اور معافی چاہتے ہوئے مسجد کیلئے زمین دی اور اپنی نگرانی میں مسجد کی تعمیر بھی کرادی۔ اس طرح راجہ ڈنٹروا میں جب مسجد نذر آتش کردی گئی اور بااثر مسلمانوں کو قتل کے الزام میں گرفتار کرادیا تو مولانا نے مقدمے کی پیروی زبردست طریقے سے کی اور اﷲ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو رہائی عطا فرمائی۔ ندیا کی مسجد کو منہدم کرنے کیلئے تقریباً پانچ سوغیر مسلم جمع ہوئے، مولانا کو جب معلوم ہوا تو کچھ مسلمانوں کو ساتھ لیکر جب اس گاؤں کے قریب پہونچے تو ایسا فلک شگاف نعرہ بلند کیا کہ مارے خوف کے سب بھاگ گئے ۔ مسجد کی چہار دیواری کو نقصان پہونچا دیا تھا لیکن مولانا نے کاریگر بلا کر اس کو درست کرایا اور ایک دن ایک رات ڈٹ کر اذان دے کر پنج وقتہ نماز ادا کرکے واپس آئے۔ جانور کی قربانی کے معاملات میں بڑے مقدمات ہوئے لیکن اﷲ تعالیٰ نے ہر جگہ فتح و کامیابی سے ہمکنار فرمایا۔ 
فراغت کے بعد سے لیکر وفات تک آپ ایک پر جوش داعی اور مسلک کتاب و سنت کے بے باک و بے لوث مبلغ رہے۔ مولانا اظہر مسلم بہاری ؒ کی معیت اور ان کی صحبت نے آپ کی سرگرمیوں میں چار چاند لگا دیئے۔ 
جامعہ اسلامیہ قاسم العلوم ریواں ، مدرسہ اسلامیہ سسئی، مدرسہ جامع العلوم برگدوا، مدرسہ ممتاز العلوم سہبرا، مدرسہ ممتاز العلوم بیدولی، مدرسہ مصباح العلوم گدا پور، مدرسہ مصباح العلوم رسول پور، مدرسہ مفتا ح العلوم ٹکریا ، دارالفرقان لٹیا کلاں اداروں کا قیام آپ کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ 
جامعہ اسلامیہ قاسم العلوم ریواں میں کئی سالوں تک صحیحین کا درس دیا ، اس کے بعد آپ گھر ہی پر مقیم رہنے لگے گویا آپ کا گھر ایک درویش کی کٹیا اور مرجع خلائق بن گیا۔ علاقہ کے عوام آپ کی توجیہات و ارشادات سے مستفیض ہونے کیلئے آیا جایا کرتے تھے اور علاقہ میں حسب ضرورت خطبہ جمعہ اور بعد نماز فجر درس قرآن و حدیث کا سلسلہ جاری رکھتے تھے۔ 
آپ ایک صالح متدین عالم تھے، ہمیشہ پنج وقتہ نماز کی امامت کرتے ، سردی ہو یا گرمی دھوپ ہو یا بارش مسجد ہی میں نماز ادا کرتے اور لوگوں کو نماز کی ادائیگی کیلئے ہمیشہ تیار کرتے ، نماز تہجد کی پابندی فرماتے ۔ خاکساری کا یہ عالم تھا کہ اپنا مکان پختہ بنانے کا کبھی خیال نہ کیا، کھپریل کی ایک کٹیا میں اپنی زندگی بسر کرلی، اشراق و چاشت برابر پڑھتے ، قرآن کی روزانہ تلاوت فرماتے اور تین دن میں قرآن ختم کرنا آپ کا معمول تھا ، زہد کا یہ عالم تھا کہ ہدیہ یا دعوت وغیرہ میں بڑی چھان بین کرتے اور حلال رزق حاصل کرنے اور حلال کھانا کھانے کی ہمیشہ کوشش کرتے۔ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ، چلتے پھرتے سنت رسول کا احیاء کرتے۔ محترم جناب ڈاکٹر عبدالباری صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب مجھے دیکھتے تو کہتے ’’کہ داڑھی بڑھالو!‘‘۔ مہمانوں کی عزت و تکریم کرتے اور ان کی حسب استطاعت خاطر مدارات کرتے ۔ بقول ڈاکٹر عبدالباری صاحب ناظم جامعہ اسلامیہ خیر العلوم ڈومریا گنج سدھارتھ نگر یوپی۔
’’ میں اکثر اپنی سائیکل سے علاقہ میں مریضوں کے علاج و معالجہ کیلئے جایا کرتا تھا ، ایک روز مولانا سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو مجھ سے کہا کہ میرے گھر پر کسی روز کھانا تناول کرلیتے تو اچھا ہوتا، اتفاق سے ایک روز حکم کی تعمیل میں حاضر خدمت ہوا ، مولانا مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے ، گھر میں گئے پھر باہر آگئے اس طرح کئی بار اندر گئے اور پھر باہر آئے میں سمجھ گیا کہ شاید گھر میں کچھ نہیں آیا ہے ، اتفاق سے ایک عورت گھر میں کھانا لیکر آگئی کچھ دیر بعد وہی کھانا لاکر میرے سامنے پیش کردیا اور میں نے خوب سیر ہوکر کھانا کھایا‘‘۔
ہمسایوں اور پڑوسیوں کے حقوق کی پاسداری کرنااپنا فریضہ سمجھتے تھے اور ان کیلئے اپنا دروازہ کھلا رکھتے تھے ۔ ایک مرتبہ پڑوس کی ایک عورت گھر میں گئی اور واپس آگئی، مولانا نے دریافت کیا تو عورت نے کہا کہ ہلدی کی ضرورت تھی لیکن آپ کے گھر سے نہیں دستیاب ہوئی ۔ شام کے وقت جب کھانا حاضر ہوا تو دیکھا دال میں ہلدی پڑی ہوئی ہے، آپ نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ اس عورت سے بہانہ کردیا ،آخر یہ ہلدی کہاں سے آگئی ؟ جواب دیا کہ صرف ایک عدد ہی ہلدی تھی تو مولانا نے کہا کہ نصف ہی دے دیتی تو کیا ہوتا۔ مولانا نے مارے غصہ کے کھانا واپس کردیا اور بلا کھائے سو گئے۔
حافظ ابوالبیان سلفیؔ استاذ کلیۃ الطیبات ڈومریا گنج بیان کرتے ہیں کہ مولانا ممتاز علی رحمہ اﷲ کسی کے ادنیٰ سی تکلیف پر تڑپ اٹھتے تھے ، سماج میں ناانصافی اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے ، گاؤں ہی کے حیثیت نامی ایک شخص کے جیل جانے سے آپ کو بڑا قلق ہوا، اﷲ تعالیٰ سے آپ نے رات میں خوب دعائیں کیں، فجر کے وقت جب آپ مسجد گئے تو مصلیوں سے دریافت کیا کہ کیا حیثیت آگئے ہیں تو لوگوں نے نفی میں جواب دیا ، تو آپ نے کہا کہ حیثیت کو آجانا چاہئے تھوڑی دیر کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ حیثیت جیل سے رہا ہوکر آگئے ہیں اور صلوٰۃ فجر ادا کرنے کیلئے مسجد میں داخل ہو رہے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی قدرت کاملہ پر مولانا کو بھر پور اعتماد اور بھروسہ تھا۔ 
آپ کی زندگی ایک مثالی زندگی تھی ،آپ کی بزرگی اور تقویٰ مسلم تھی، جامعہ سلفیہ مرکزی دارالعلوم بنارس کی سنگ بنیاد رکھنے کیلئے مولانا نذیر احمد رحمانی املویؒ، مولانا محمد اقبال رحمانی ؒ، مولانا عبدالجلیل رحمانیؒ ، مولانا عبدالرؤف رحمانی ؒ جھنڈا نگری اور دیگر علماء نے آپ ہی کے نام کی تجویز رکھی لیکن مشیت الٰہی کو منظور نہ تھا۔ 
پورا علاقہ و جوار آپ کی خوبیوں سے واقف تھا ،مزاج میں استغناء تھا ، اسی لئے زندگی بھر کسی کے دست نگر نہ ہوئے، خودداری آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری تھی، کھانا کم مقدار میں تناول فرماتے ، زیادہ تر تسبیح و تہلیل ہی سے غذا کاکام چلتا تھا ، رات کی تاریکی میں جب لوگ نیند کے مزے لیتے آپ اکثر اﷲ کی یاد میں رویا کرتے تھے۔ آپ دنیا کی بات بہت ہی کم کرتے تھے، آپ کی نگاہ میں دنیا اور اس کے مال ومتاع کی کوئی قدر و منزلت نہ تھی ، جو کوئی آپ کی مجلس میں بیٹھتا دین و آخرت اور کتاب و سنت کی باتیں سن کر ایمانی حلاوت محسوس کرتا۔ دعوت و تبلیغ کی راہ میں بڑے بڑے عظیم الشان اجتماعات منعقد کرتے اور ان اجتماعات کو جلسۂ محمدی ؐکے نام سے موسوم کرتے، علاقہ کے اجلاسوں کی صدارت فرماتے۔ 
۲۶؍ذی الحجہ ۱۳۹۲؁ھ بمطابق یکم فروری ۱۹۷۳؁ء بروز جمعرات آپ کی وفات ہوئی۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ دوسرے دن نماز جنازہ بعد نماز جمعہ آپ کے برادرخورد مولانا سید محمد اقبال حسین صاحب نے پڑھائی اور اپنے آبائی قبرستان میں مدفون ہوئے۔ جنازہ میں کافی ہجوم تھا ، شاید دیہات میں اتنا بڑا مجمع کسی عالم دین کے جنازہ میں نہ دیکھا گیا، قبر پر لے جاتے ہوئے تین بار جنازہ کی نماز پڑھی گئی۔ ع آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
اﷲم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ 
(بحوالہ تذکرہ سلف خیرالعلوم ڈومریا گنج سدھارتھ نگر یوپی)
شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام بستوی رحمہ ٗاﷲ 
(تاریخ وفات :فروری ۱۹۷۴؁ء) 
 عبدالسلام بن یاد علی بن خدا بخش بن ظہور احمد ۔ 
یہ خاندان ۱۸۵۷؁ء کی جنگ آزادی سے پہلے فیض آباد میں سکونت پذیر تھا ۱۸۵۷؁ء میں انگریزوں نے فیض آباد پر قیامت ڈھائی تو یہ خاندان وہاں سے نکل کر ضلع بستی کے موضع بشن پور علاقہ سوہانس نوگڈھ میں سکونت پذیر ہوگیا۔ وہیں ۱۳۲۷ھ( ۱۹۰۹ء ) میں عبدالسلام پیدا ہوئے عبدالسلام کوپڑھنے کا شوق تھا والدین بھی اس کی تعلیم کے خواہاں تھے لیکن اس کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی ۔ پڑھانے والا بھی کوئی نہ تھا ، بڑی مشکل سے بغدادی قاعدہ پڑھ سکے ۔ پھر کسی طرح نیپال کے ایک گاؤں موہسڑ پہونچے اور وہاں کے ایک استاد سے ناظرہ قرآن مجید پڑھا پھر گھر واپس آگئے۔ 
اب کسب روزگار کے لئے یہ خاندان اپنے مسکن بستی سے کلکتہ کو روانہ ہوا اور وہاں مٹیا برج میں رہائش اختیار کی، والد محنت مزدوری کرنے لگے ۔عبدالسلام کی تعلیم جاری رہنے کے بھی کچھ اسباب پیدا ہوئے، لیکن ابھی ان کی عمر دس سال کو پہونچی تھی کہ والد صاحب کلکتہ میں انتقال کر گئے یہ اتنا بڑا سانحہ تھا کہ اس کی وجہ سے سکون و اطمینان کے تمام کواڑ بند ہو گئے اور مستقبل بظاہر بالکل تاریک ہوگیا۔ 
اب عبدالسلام کے لئے محنت مزدوری کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے ایک مل میں ملازمت اختیار کرلی ۔ دن بھر مل میں کام کرتے اور رات کو محلے کے بعض پڑھے لوگوں سے دینیات کی اردو کتابیں پڑھتے۔ یہ سلسلہ ڈیڑھ سال جاری رہا پھر کلکتہ سے اپنے وطن بستی آگئے۔ 
یہاں آکر فارسی کی ابتدائی کتابیں مدرسہ مفتاح العلوم بھٹ پرا میں میاں عبدالرحمن نیپالی سے پڑھیں ، ایک سال کے بعد نیپال کے ایک گاؤں پڑریا میں مولانا عبدالمجید کی خدمت میں رہے ۔ ان سے گلستاں، بوستاں اور عربی کے چند ابتدائی کتابوں کی تکمیل کی۔ ایک سال وہاں تعلیم حاصل کی ۔ پھر دہلی جاکر حافظ حمید اﷲ مرحوم کے قائم کردہ مدرسہ حمیدیہ (صدربازار منڈی پان ) میں داخلہ لیا ۔ مدرسہ رحمانیہ کی تاسیس بھی اسی سال ہوئی تھی اور اس کے پہلے جلسے میں یہ شریک تھے دہلی میں عبدالسلام کا قیام صرف چھ مہینے رہا۔
دہلی سے سہارنپور کا قصد کیا اور مدرسہ مظاہر علوم پہونچے، وہاں مولانا خلیل احمد (مؤلف بذل المجہود شرح ابو داؤد) کی خدمت میں حاضری دی اور ان کے حلقہ بیعت میں شامل ہوئے ۔ مولانا ممدوح ان پر بے حد شفقت فرماتے تھے ۔ کبھی کبھی صرف و نحو کی کوئی بات بھی پوچھ لیتے تھے۔ایک سال ان کی خدمت میں گذارا تو انھوں نے مولانا مسعود احمد کے پاس ان کے کچھ اسباق مقرر فرمادیئے ۔ چنانچہ ان سے انھوں نے از سر نو صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں میزان، منشعب، نحومیر، صرف میر، پنج گنج، شرح مأۃعامل وغیرہ پڑھیں اور مولانا عبدالمجید صاحب سے گلستاں ، بوستاں ، اخلاق محسنی، اخسن القواعد وغیرہ کی تکمیل کی۔ 
دوسرے سال کا آغاز ہوا باقاعدہ مظاہر علوم میں داخل کئے گئے اور مدرسے کے نصاب کے مطابق تعلیم شروع ہوئی۔ اب مولانا محمد صدیق سے کافیہ ،شرح تہذیب وغیرہ اور بعض اساتذہ سے قدوری، نورالایضاح، شرح وقایہ، اصول الشاشی، قطبی،ملا حسن ۔مولانا اخلاق احمد سے نورالانوار، مولانا عبدالشکور ولایتی سے ہدایہ اولین ، مختصر المعانی، مولانا ظہورالحسن سے شرح جامی اور مولانا زکریا قدوسی سے کنز الدقائق وغیرہ کتابیں پڑھیں ۔ اس طرح مسلسل پانچ سال مدرسہ مظاہر علوم میں بسر کئے اور وہاں کے نصاب کے مطابق مذکورہ بالا حضرات سے مندرجہ بالا کتابیں پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ 
پھرحدیث اور علوم حدیث کیلئے دہلی آکر مدرسہ رحمانیہ میں داخلہ لینے کی کوشش کی۔ چنانچہ مولانا عبدالغفور صاحب اعظم گڈھی اور بعض دیگر اساتذہ نے امتحان لیا اور مدرسہ رحمانیہ میں داخل کر لئے گئے ۔ مدرسے کے نصاب کے مطابق آٹھویں جماعت تک یہاں تعلیم حاصل کی۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا احمد اﷲ صاحب سے ابوداؤد ، ترمذی، ابن ماجہ، صحیح مسلم اور صحیح بخاری کا درس لیا۔ مولانا عبدالغفور صاحب اعظم گڈھی سے نسائی، شرح چغمینی، شمس بازغہ، تصریح، ہدیہ سعیدیہ۔ مولانا عبدالرحمن صاحب سے تفسیر جلالین ، حماسہ، مقاماتِ حریری، متنبی، سبعہ معلقہ۔ مولانا سکندرعلی ہزاروی سے حمد اﷲ ،صدرا،اقلیدس،شرح عقائد،امور عامہ، میبذی اور تفسیر بیضاوی جیسی انتہائی کتابیں پڑھیں۔
مدرسہ رحمانیہ سے فارغ ہوکر دارلعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخل ہونے کی غرض سے لکھنؤ پہونچے ۔ لیکن وہاں ذہن مطمئن نہ ہوا تو تکمیل الطب کا لج میں داخلہ لے لیا ۔ وہاں نفیسی، سدیدی، کامل الصناعہ وغیرہ کتابیں پڑھیں ۔ وہیں مدرسہ فرقانیہ میں علم فلسفہ کی کتابیں شرح اشارات پڑھی۔ 
اسی اثنا میں دورۂ حدیث دوبارہ پڑھنے کا جذبہ پیدا ہوا تو دیو بند چلے گئے ۔مولانا مرتضی حسن صاحب نے امور عامہ، صدرا، شمس بازغہ وغیرہ کا امتحان لیکر دورۂ حدیث میں شرکت کی اجازت مرحمت فرمائی۔ چنانچہ وہاں مولانا حسین احمد صاحب مدنی سے صحیح بخاری اور جامع ترمذی کا درس لیا۔ مولانا غلام رسول صاحب سے صحیح مسلم پڑھی۔ مولانا اصغر حسین سے ابوداؤد، مولانا مرتضیٰ حسن سے طحاوی اور ابن ماجہ۔ مولانامحمد شفیع صاحب سے مؤطا امام مالک، مولانا محمد ابراہیم صاحب سے نسائی، مولانا اعزاز علی صاحب سے شمائل ترمذی پڑھی۔
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مولانا عبدالسلام دہلی آئے اور پھاٹک حبش خاں میں واقع حضرت میاں صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے مدرسے میں اقامت گزیں ہوئے۔وہاں حضرت مولانا سید عبدالحفیظ صاحب سے شرح اسباب اور قانون شیخ کا درس لیا۔ وہیں رہ کر پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان دیا۔ اور وہاں سند و اجازۂ حدیث کا شرف مندرجہ ذیل عالی مرتبت حضرات سے حاصل ہوا:
(۱)…… حضرت مولانا احمد اﷲ صاحب شیخ الحدیث مدرسہ رحمانیہ دہلی
(۲)……حضرت مولانا شرف الدین دہلوی شیخ الحدیث مدرسہ سعیدیہ دہلی
(۳)…… حضرت مولانا عبید اﷲ رحمانی شیخ الحدیث مدرسہ زبیدیہ دہلی
(۴)……حضرت مولانا عبدالرحمن مبارک پوری مؤلف تحفۃ الاحوذی 
ان حضرات ِ اساتذۂ کرام کا سلسلۂ روایت حدیث حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ تک منتہی ہوتا ہے۔ تمام حضرات اپنی اپنی باری سے اﷲ تعالیٰ کے دربار میں پہونچ چکے ہیں ۔ اس وقت یہ جس منصب پر فائز تھے اس کا ذکر کردیا گیا ہے ۔ رحمہم اﷲ تعالیٰ
مولانا عبدالسلام بستوی ؒکی خو ش بختی ملاحظہ ہو کہ وہ اپنے وقت کے مشہور علمی سر چشموں سے سیرا ب ہوئے اور انھیں اس دور کے مشاہیر اصحاب ِ علم کے حضور زانوئے شاگردی تہہ کرنے کے مواقع میسر آئے اور ان کے طریق ہائے درس کا انھیں پتہ چلا ۔ 
فارغ التحصیل ہونے کے بعد ماہِ شوال ۱۳۴۹ھ(مارچ۱۹۳۱ء)میں انھیں حضرت مولانا احمد اﷲ صاحب ، مولانا ضمیر مرزا صاحب نواب لوہارو، اور مولانا عبدالغفار صاحب کی وساطت سے دہلی کے مدرسہ دارالحدیث والقرآن میں تدریس حدیث کی سند پر متمکن کیا گیا۔ یہ مدرسہ دہلی چاندنی چوک میں وہاں کے مشہور بزرگ حاجی علی جان مرحوم نے جاری کیا تھا اور ’’ مدرسہ حاجی علی جان‘‘کے نام سے مشہور تھا۔ مولانا عبدالسلام کی عمر اس وقت ۲۳ سال کے لگ بھگ تھی اور یہ ان کی بھر پور جوانی کا زمانہ تھا۔ اس مدرسے میں وہ سولہ سال درس حدیث دیتے رہے ۔ 
اسی اثنا میں اگست ۱۹۴۷ء میں ملک تقسیم ہو گیا اور مسلمان (بالخصوص) سخت مصائب میں مبتلا ہوگئے۔ دہلی کے مسلمانو ں پر بھی آلام کی خوفناک گھٹائیں چھا گئیں ۔ مدارس برباد ہوگئے اور علمائے کرام کی زندگی سخت انقلاب کی زد میں آگئی۔ مولانا عبدالسلام کا بہت بڑا کتب خانہ تھا جو ضائع ہوگیا۔ وہ اپنے اہل و عیال سمیت دہلی سے نکلے اور اپنے آبائی وطن ششہنیاں برڈ پور سدھارتھ نگر پہونچے۔ 
دہلی میں تدریس کے علاوہ ان کا تصنیف وتالیف کا سلسلہ بھی عربی ، اردو زبانوں میں جاری تھا۔ ان کے نہایت قیمتی مسودات تلف ہو گئے جن میں سے:
(۱) ابن ماجہ کی عربی مفصل شرح
(۲) الصمام الباری علی عتق جارح البخاری
(۳) خیر المتاعہ فی مسائل الرضاعہ 
(۴) اللعب بالشطرنج 
(۵) حقوق الزوجین 
کے مسودات قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں مختلف عنوانات پر بہت سے تحقیقی مقالات تھے جو لوٹ کھسوٹ کی نذر ہوئے ۔ 
دہلی سے مولانا ممدوح ستائیس برس بعد اپنے وطن بستی(ششہنیاں سدھارتھ نگر) گئے تھے ۔ اب وہاں کے حالات کا نقشہ بدل چکا تھا۔ ان کے آبائی مکان پر کسی اور خاندان نے قبضہ کر لیا تھا اور وہاں رہنا ان کے لئے مشکل ہو گیا تھا۔ یہ ان کیلئے سخت پریشانی کا زمانہ تھا جو کسی نہ کسی طرح گذر گیا۔ حاجی محمد صالح آف حاجی علی جان دہلی کی بار بار طلبی پر وہ ایک سال کے بعد اگست ۱۹۴۸؁ء میں دہلی پہونچے اور سید تقریظ احمد سہسوانی کی کوشش سے مدرسہ ریاض العلوم کی مسند درس پر متمکن ہوئے تدریس کے علاوہ وہاں تصنیف و تالیف اور فتوی نویسی کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
چند الفاظ میں اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ انھوں نے مولانا ثناء اﷲ امرتسری ؒ کا ترجمہ قرآن شائع کیا اور وہ اس انداز سے شائع کیا کہ ترجمہ تو حضرت مولانا امرتسریؒ کا ہے تفسیر بھی انھیں کی ہے لیکن اس تفسیر میں صرف وہی حصہ رہنے دیا ، جس کا تعلق قرآنی تفسیر سے ہے ۔ دیگر مباحث حذف کردئیے گئے ہیں اور حسب ضرورت حواشی کی صورت میں تفسیر تفسیر میں اضافہ کیا گیا ہے ۔ اور اسے فوائد اسلامی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس کا پورا نام ہے ’’ قرآن مجیدترجمہ و تفسیر مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ مع فوائد اسلامی‘‘ یہ ترجمہ و تفسیر بہت مقبول ہوا اور بہت پڑھا گیا، دو مرتبہ تو یہ مولانا عبدالسلام بستوی کی زندگی میں چھپا اور دو مرتبہ ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ مولانا ممدوح کا قرآن مجید کے ترجمہ و تفسیر کے سلسلے کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے جس سے قرآن مجید کے ترجمہ و تفسیر سے دلچسپی رکھنے والے لوگ بے حد مستفید ہوئے ، اﷲ تعالیٰ ہی انھیں اس کی جزائے خیر عطا فرمانے والا ہے۔
حضرت مولانا عبدالسلام بستویؒ نے کم و بیش ۶۵ سال عمر پاکر فروری ۱۹۷۴؁ء میں سفر آخرت اختیار کیا۔ رحمہ اﷲ تعالیٰ 
مولانا عبدالسلام بستویؒ کی زندگی کا آغاز غربت سے ہوا تھا ، اس کے بعد ان کا کاروانِ حیات مختلف منزلیں طے کرتا اور بہت سے نشیب و فراز سے گزرتا ہوا ذہنی آسودگی اور قدرے مالی اطمینان سے ہم کنار ہوا۔ اﷲ نے توفیق مرحمت فرمائی کہ انھوں نے تین حج کئے۔ پہلے ۱۳۶۸؁ھ میں ، دوسرا ،۱۳۷۷؁ھ میں اور تیسرا ، ۱۳۸۴؁ھ میں کیا ۔ ان کے ساتھ ان کے اہل و عیال کو بھی اﷲ تعالیٰ نے حج بیت اﷲ کی سعادتِ عظمیٰ سے نوازا۔ 
مولانا ممدوح بلند اخلاق، حلیم الطبع، ملنسار، سادہ مزاج، سادہ لباس، کم سخن،نہایت متین اور مخلص ترین بزرگ تھے۔ مطالعہ کتب کے بے حد شائق، طلبا کیلئے انتہائی شفیق، چونکہ غربت کے ماحول سے گذر چکے تھے اس لئے غرباء و مساکین سے بدرجہ غایت ہمدردی کا سلوک روا رکھتے تھے، علمائے کرام کے انتہائی قدر دان تھے اور ان کا بے حد احترام کرتے تھے ۔ کھانے پینے اور لباس وغیرہ کے تکلف سے ذہن بالکل پاک تھا ۔ پڑھنا لکھنا اور درس و تدریس ان کے اصل مشاغل تھے ۔ جفاکشی اور محنت سے آغاز ِ زندگی ہی سے آشنا ہو گئے تھے اور یہ اوصاف تمام عمر ان کے ساتھ رہے ۔ بڑوں کی تکریم اور چھوٹوں پر شفقت ان کا لازمۂ حیات تھا ۔ حسد و غرور اور انانیت سے نفور تھے۔ 
یکے بعد دیگرے انھوں نے دو شادیاں کیں ۔ پہلی شادی ۱۳۵۰ھ (۱۹۳۱ء) میں موضع بھٹ پرا ضلع بستی (سدھارتھ نگر) کے ایک بزرگ شیخ قربان علی کی صاحبزادی سے ہوئی۔ دوسری ۱۳۵۴ھ (۱۹۳۵ء) میں حاجی یعقوب علی (ساکن پڑریا ، ریاست نیپال ) کی دختر نیک اختر سے ہوئی۔ دونوں بیویوں سے اﷲ تعالیٰ نے اولاد عطا فرمائی۔
ان سطور کا راقم عاجزاکتوبر ۱۹۴۵؁ء میں حضرت الاستاذ مولانا عطاء اﷲ حنیف بھوجیانی کے ساتھ دہلی گیا تھا۔ اس وقت مولانا عبدالسلام بستوی کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا تھا۔ مولانا عطاء اﷲ حنیف بھوجیانی سے ان کے پرانے مراسم تھے ۔ میں نے ان کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا اور یہی زیارت آخری مرتبہ بھی تھی۔ اس واقعہ پر اگرچہ ساٹھ برس سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے تاہم میری آنکھوں کے سامنے اب بھی ان کا کچھ خاکہ گھوم رہا ہے ۔ان کے مدرسے کے تھوڑے بہت آثار بھی ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا قد نکلا ہوا تھا ۔ رنگ کچھ سانولا تھا اور جسم گداز تھا۔ وہ چار خانے کا تہبند باندھے ہوئے تھے۔ ان کے مدرسے میں چھوٹا سا کنواں تھا ، جس سے ایک صاحب پانی نکال رہے تھے۔ 
پھر چند سال پیشتر دفتر’’ الاعتصام‘‘ میں ان کے صاحبزادے جناب مولانا عبدالرشید صاحب ازہریؔ ۱؂ سے ملاقات ہوئی۔ حافظ احمد شاکر صاحب نے تعارف کرایا۔ ان سے مل کر مجھے نہایت خوشی ہوئی تھی۔ 
دعا ہے اﷲ تعالیٰ مولانا ممدوح کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ان کی آل اولادکو والد مرحوم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق سے نوازے ۔ اب زمانے کی چال بدل گئی ہے اور وقت کی رفتار نے مادیت سے مغلوب ہوکر دوسرا رخ اختیار کرلیا ہے۔ عمل کی جگہ تنقید نے لے لی ہے۔ اس قسم کے جفا کش ، ہمت پیشہ اور خلوص قلب سے خدمت دین سر انجام دینے والے اہل علم اب کہاں پیدا ہوں گے۔ افسوس! ہم ان جیسے بہت سے سراپا عمل بزرگوں کی صحبت سے محروم رہے۔ رحمہم اﷲ تعالیٰ
( بحوالہ برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن از: علامہ محمد اسحاق بھٹی حفظہ اﷲ)




۱؂ افسوس مولانا عبدالرشید ازہری کئی سال قبل سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون 
( عبدالرؤف خاں ندوی) 
حضرت العلام مولانا زین اﷲ گونڈوی رحمہٗ اﷲ 
( سال وفات: ۱۹۷۵؁ء)
مولانا زین اﷲ کا مولد و مسکن موضع کنڈؤ بونڈھیار (اترولہ) ضلع بلرام پور ہے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مدرسہ سراج العلوم میں حکیم مولانا محمد ےٰسین اور مولانا محمد یونس صاحبان سے حاصل کی۔ تعلیم کی تکمیل دارالعلوم دیوبند میں کی مولانا ممتاز ترین طلبہ میں شمار ہوتے تھے، تعلیمی فراغت کے بعد سب سے پہلے جامعہ سراج العلوم کنڈؤ بونڈھیار میں کچھ دنوں درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے اور ۱۹۴۷؁ء کے بعد کلکتہ میں مدرسہ رحمانیہ قائم ہوا تو مولانا عبدالوہاب صاحب آروی رحمہ اﷲ وغیرہ کے ساتھ کچھ دنوں تک تفسیر و حدیث وغیرہ کا درس دیا نیز بعض اوقات میں کتابیں کسی کسی کو کلکتہ میں اپنے گھر ہی پر پڑھائیں ۔ آپ نے جن جن مقامات پر درس وتدریس کے فرائض انجام دیئے وہ بلا معاوضہ تھا۔ 
پھر آپ نے تیل کی دوکان کلکتہ میں چلائی اور زندگی بھر یہی اصل شغل رہا لیکن دعوت و تبلیغ سے کبھی غافل نہ رہے۔ 
صوبہ بہار پورنیہ میں جماعت اسلامی سے مناظرہ کیا ، آپ جماعت اسلامی کیلئے ننگی تلوار تھے اڑیسہ میں قادیانیوں سے مناظرہ کیا اور کلکتہ میں بریلویوں سے آپ نے ٹکّر لی اور اپنی جماعت کی دھاک بٹھا دی۔ 
حدیث پر گہری نظر تھی تقریر نہایت صاف اور دل پذیر اور موثر ہوتی تھی قوت گویائی زبان میں سلاست و روانی ،گہرائی و گیرائی آپ کی تقریر وں میں نمایاں تھی کاش کہ اگر اسے قلمبند کر لیا جاتا تو ایک بہترین کتاب تیار ہوجاتی جس سے آنے والی نسل فائدہ اٹھاتی۔ 
آپ کا شیوہ تھا کہ اہل علم میں علم سے اور جاہلوں میں قوت و بازو اور جرأت مندانہ اقدام سے کام لے کر دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے تھے ۔ کنڈؤ بونڈھیار اور آس پاس کی تعزیہ داری اور مختلف رسوم کومٹانے میں حکیم مولانا محمد ےٰسین صاحب اور آپ کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔
آپ کی ایک صفت حق گوئی و بے باکی کی بڑی تعریف کی جاتی ہے نیز سلام کرنے میں پہل کرلینا بھی ایک بڑی خوبی تھی مجال کیا تھی کہ کوئی عزم کرکے جائے کہ سلام کرنے میں آپ پر سبقت لے جائے گا اور واقعتاً سلام کرلے۔
آپ حاضر جواب مناظر ، مخلص داعی اور ذہین عالم تھے ۱۹۷۵؁ء مطابق ۱۳۹۰؁ھ میں وفات پائی ۔ اولاد میں ڈاکٹر محفوظ الرحمن ۱؂ مدنی جامعہ اسلامیہ مدینہ یونیورسٹی سے حدیث کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرکے ۱۳۰۳؁ھ میں فارغ ہوئے ہیں، قابل ذکر ہیں۔ ۲؂ 

٭٭٭





 ۱؂ افسوس کہ ڈاکٹر محفوظ الرحمن مدنی ۲۶؍جنوری ۱۹۹۸؁ء کو سرزمین دبئی میں انتقال فرما گئے اور وہیں مدفون ہوئے۔ تغمدہٗ اﷲ برحماتہ تفصیل کیلئے میری کتاب ’’کاروان ِسلف حصہ اول‘‘ ملاحظہ فرمائیں (عبدالرؤف خاں ندوی) 
 ۲؂ علمائے اہل حدیث بستی و گونڈہ ص: ۱۳۱
مولانا حکیم جمیل احمد رحمہٗ اﷲ 
مرغہوا سدھارتھ نگر یوپی
(تاریخ وفات: ۱۰؍جولائی ۱۹۷۵؁ء)
مولانا حکیم جمیل احمد صاحب موضع مرغہوا پپرا پٹھان پوسٹ اٹوا بازارضلع سدھارتھ نگر میں غالباً ۱۹۱۰؁ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد مولانا سید لیاقت حسین صاحب سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے مدرسہ کنزالعلوم ٹانڈہ یوپی تشریف لے گئے اور اس کے بعد جامعہ رحمانیہ بنارس میں مولانا محمد منیر خاں، مولانا عبدالغفار حسن رحمانی اور مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈانگریؒ جیسے قابل اساتذہ سے تفسیر و حدیث ، فقہ و ادب ،بلاغت ومنطق اورفلسفہ وغیرہ علوم میں مہارت حاصل کی اس کے بعد طبیہ کالج لکھنؤ میں داخل ہوئے اور ۱۹۳۸؁ء میں تکمیل الطب کا کورس مکمل کیا اور حکمت کی ڈگری حاصل کی۔ اور ۱۹۴۰؁ء میں گھرپرہی مطب قائم کرکے خدمت خلق کے جذبے سے مریضوں کا علاج کرنے لگے ۔ اپنی سائیکل سے مریضوں کے علاج کیلئے دور دراز علاقوں تک جایا کرتے۔ آپ بہت ہی متواضع منکسر المزاج اور نیک طبیعت کے حامل انسان تھے علاقہ و جوار کے لوگ آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ گاؤں و قرب و جوار کے مسلمانوں کے معاملات بڑی دور اندیشی،حکمت اور عدل وانصاف کے تقاضوں کا بھر پور خیال کرتے ہوئے حل کردیا کرتے تھے۔ 
اسی بناء پر گاؤں والوں نے بالاتفاق آپ کو پردھان منتخب کیا اور تقریباً ۲۶؍سال تک اس عہدہ پر فائز رہ کر گاؤں والوں کی خدمت کی اور ہر طرح کے نزاعی معاملات کا تصفیہ کیا۔ آپ کے اندر قوم و ملت کی خد مت کا بے اتھاہ جذبہ تھا۔ نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے حوالہ سے آپ فکر مند رہا کرتے تھے ۔ ملت کے یہ بچے اس طرح ضائع ہو جائیں آپ کو گوارہ نہ تھا ۔ علاقہ کے عوام کے دلوں پر آپ اپنے معاصرین جناب محمد عاقل صاحب بدھو، مینا عید گاہ اور موضع امونا کے حبیب اﷲ خاں دیوان جی اور پہاڑہ پور کے جناب صاحبزادمہتو اور دیگر اعوان و اخوان اور دیگر دینی وملی حیثیت رکھنے والوں سے مشورہ کیا اور عیدگاہ سے متصل ۱۹۵۷؁ء میں’’ مدرسہ اتحاد قوم‘‘ کے نام سے ایک ادارہ کی تاسیس فرمائی۔
علاقہ کا یہ واحد درسگاہ تھا جہاں ابتدائی درجات کے علاوہ عربی چہارم تک(ثانوی درجات) کی اچھی طرح تعلیم و تربیت ہوتی تھی۔ علاقہ میں اس کامعیار تعلیم معروف و مشہور تھا۔ پہاڑہ پور ، پرینا، اگیا، پپرا، دوپڑیا، بھوتہوا، رانی جوت، بروا پور، مینا، مرغہوا،جوڑی کوئیاں، ڈیہوا،کیوٹلی سے بچے روزانہ پیدل آتے جاتے تھے اور پورے علاقہ سے مدرسے کا تعاون حاصل رہتا تھا۔ 
تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اساتذہ و طلبہ علاقے و جوار میں چٹکی، عشروزکوٰۃ ، چرم قربانی و عطیات لوگوں سے امداد وصول کرتے تھے خطبۂ جمعہ کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ 
اس وقت اساتذہ کی قابل قدر ٹیم مدرسہ کوفراہم تھی۔حضرت مولانا سلیم الدین صاحبؒ ججوا، ہلور اور ماسٹر عبدالکریم صاحب اور ماسٹر ماہتاب صاحب ، رضاء اﷲ دوپھڑیا، مولانا عبدالرحمن صاحب چنن جوت، مولانا کتاب اﷲ صاحب اطہر مظاہری کمھریا اور مولانا انعام اﷲ صاحب اور مولانا عبدالقدوس صاحب مدنی وزارۃ العدل ریاض یہاں کے بہترین اساتذہ میں شمار کئے جاتے تھے۔
’’ مدرسہ اتحاد قوم‘‘ جو اب جامعہ دارالتوحید مینا عید گاہ کے نام سے معروف و مشہور ہے جس کے ناظم اعلیٰ اس وقت حکیم صاحب کے صاحبزادے مولانا ابو طلحہ صاحب سلفیؔ ہیں ۔ 
حکیم جمیل احمد کم گو، کم سخن تھے لیکن اپنی بات کے دھنی اور کام کے پکے تھے اور معاملات کے کھرے تھے۔ تقویٰ و طہارت کے پیکر تھے۔ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ اور سالار قافلہ تھے ہندو ومسلم اور سکھ سبھی طبقہ کے لوگ آپ کو عقیدت و احترام کی نظر سے دیکھتے اور اپنے اختلافی معاملات و مسائل میں آپ کو اپنا فیصل و حکم بناتے تھے۔
آپ نے ۳۶؍سال تک مسلسل اپنی حکمت اور بہترین تشخیص سے عوام الناس کی خدمت کی۔ مریضوں کے علاج دور دراز مواضعات میں اپنی سائیکل سے اکیلے جاتے اور چلے آتے تھے کبھی کبھار رات کے گیارہ بارہ بج جاتے تو جب چلنے لگتے تو لوگ اصرار کرتے لیکن آپ ٹھہرتے نہیں تھے اور بسااوقات لٹیروں سے ملاقات ہو جاتی تو وہ آپ سے سلام کرتے اور آپ کو آپ کے گھر تک پہونچا دیا کرتے تھے ۔ ان کی مدد سے برابر انکار کیا کرتے تھے لیکن وہ آپ کو گھر تک پہونچا کر دم لیتے۔ چوری، ڈاکہ زنی سے آپ ان کو روکتے اور سمجھاتے کہ یہ اچھا کام نہیں ہے ۔ 
اٹوا باڑار میں ایک قطعہ آراضی خرید کر اس میں اپنا مطب قائم کیا تھا ۔ اس وقت نماز کی ادئیگی کیلئے پریشانی ہوا کرتی تھی ۔بڑھنی روڈ پر پورب جانب پوکھرے پر ایک مسجد تعمیر کی کوشش کی، غیروں نے رکاوٹیں کھڑی کیں ۔ اس وقت اٹوا کا داروغہ شاہی نام کا تھا جو حکیم صاحب کا بڑا قدرداں تھا، اس کے سامنے جب بات آئی تو اس نے حکیم صاحب سے ملاقات کرکے کہا کہ آپ کو چھتیس گھنٹہ کی اجازت ہے ۔ آپ نے علاقہ کے مسلمانوں کے تعاون اور اہل خیر کی مساعدت سے ایک مسجد کی تعمیر چھتیس گھنٹوں میں کروادی۔ جس پر ۱۹۷۱؁ء میں ایک مدرسہ کا قیام ’’ مدرسہ اتحاد ملت‘‘ کے نام سے ہوا ۔ 
اس مسجد میں پنجوقتہ نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ خطبۂ جمعہ بھی ہوتا ہے جس میں دور دراز کے لوگ اپنی ضروریات اور کچہری کے کاموں سے یہاں آتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں۔ 
۱۰؍جولائی ۱۹۷۵؁ء میں حبس البول کے عارضہ میں گونڈہ شہر میں آپ کی وفات ہوئی اور گاؤں کے قبرستان میں آپ مدفون ہیں ۔ آپ کی دو اہلیہ تھیں ایک سے حکیم سید محمد احمد اور ابوشحمہ ہیں اور دوسری اہلیہ سے مولانا ابو طلحہ صاحب سلفیؔ اور ذکی احمد صاحب ہیں ۔ 
حکیم سید احمد صاحب کی وفات ہو چکی ہے اور ابوشحمہ صاحب ابھی بقید حیات ہیں اور مولانا ابو طلحہ صاحب سلفی جامعہ دارالتوحید کی نظامت اور اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں ، اور ذکی احمد سلفی صاحب سعودیہ عربیہ میں ملازمت کرتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ موصوف حکیم صاحب کی مغفرت فرمائے ۔ 
اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ۔ 
(بحوالہ تذکرہ سلف خیرالعلوم ڈومریا گنج )


٭٭٭



 



نمونہ سلف مولانا عبدالعظیم بستوی رحمہ ٗاﷲ 
(تاریخ وفات :۲۹؍ اکتوبر ۱۹۷۷؁ء)
مولانا عبدالعظیم صاحب رحمہ اﷲ ضلع بستی کے بھاؤ پور پپری جیسے قبر پرستانہ اور مشرکانہ ماحول میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے۔ لیکن ان کی پاکیزہ فطرت اس ماحول کو برداشت نہ کرسکی اور اس گندے ماحول کو چھوڑ کر اپنے ننہال اکرہرا منتقل ہو گئے یہ علاقہ مولانا شریف نقوی ،مولانا محمد اظہر مولانا اﷲ بخش ،مولانا لیاقت حسین ،مولانا دیانت اﷲ اور مولانا عبدالرزاق رحمہم اﷲ کے دائرہ عمل میں تھا یہاں سے وہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے دہلی حضرت مولانا عبدالوہاب صدری دہلوی جیسے متشدد اہل حدیث عالم کی درسگاہ میں گئے اور وہیں تعلیم کی تکمیل کی ۔ یہاں ان کے رفقاء درس میں مولانا محمد صاحب جونا گڈھی رحمہ اﷲ جیسی عظیم المرتبت شخصیات تھیں انھوں نے حق کوشی اور حق کیشی کو اپنا شعار بنا لیا ایک مدت تک آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے پُر زور مبلغ وواعظ رہے۔ پھر اپنی صلاحیتیں اپنے علاقہ کی اصلاح کیلئے وقف کردیں ۔ قبر پرستی ، پیر پرستی، مزار پرستی، آستانہ پرستی، شخصیت پرستی، نفس پرستی،شرک و بدعات اور خرافات کی ظلمت میں ڈوبی ہوئی ان بستیوں میں انھوں نے توحید و سنت کی روشنی پھیلائی اپنے چاروں فرزندان گرامی کو اسلامی علوم و فنون کی تعلیم دلائی ان کے بڑے صاحبزادے مولانا عبدالودود صاحب جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر میں طویل عرصہ تک کام کئے ۔ ان کے تین صاحبزدگان ذہانت وفطانت میں اپنے معاصرین میں ضرب المثل بنے مولانا عبدالصبور صاحب رحمانیؒ ملک کی مشہور درسگاہ دارالحدیث رحمانیہ دہلی کے فارغ التحصیل تھے دور طالب علمی میں مضمون نگاری تقریر و تحریر ، نقد و تحقیق میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے اور معاملہ فہمی دور اندیشی متانت اور سنجیدگی میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ تیسرے صاحبزادے مولانا نور عظیم ندوی رحمہ اﷲ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے عا لمیت ، فضیلت کرنے کے بعد ندوہ میں کچھ سالوں تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے جامعۃ الازہر قاہرہ مصرتشریف لے گئے وہاں کلیۃ اللغۃ العربیۃ ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔ پھر جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ ریاض کے شعبہ معہد اللغۃ العربیۃ میں عربی زبان و ادب کی تدریس پر مامور ہوئے مولانا مرحوم عربی اور اردو دونوں زبانوں کے قادر الکلام ادیب تھے۔ آپ کا علم گہرا اور مطالعہ بہت وسیع تھا آپ کا کلام نہایت بلیغ اور اسلوب اچھوتا اور بے حد موثر ہوتا ۔ جامعہ ازہر میں تعلیم کی وجہ سے قدرت بیانی اور نقد و ادب میں تخصص کی وجہ سے اسلوب میں جاذبیت و تنوع اور تحریر میں حد درجہ نکھار اور کمال آپ کی نمایاں خصوصیات تھیں۔
مولانا عبدالعظیم صاحب کے سب سے چھوٹے صاحبزادے ڈاکٹر عبدالعلیم بستوی ہیں جو رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے ایک باوقار منصب پر فائز ہیں اور عہد طالب علمی سے اپنی ذہانت اور فطانت اپنے تعمیری ذہن اپنی تحقیقات و تصنیفات اور قلم کی روانی اور افکار کی ندرت ، عربی اور اردو زبانوں میں تحقیق اور خطابت پر بھرپور قدرت رکھتے ہیں۔
مولانا عبدالعظیم صاحب جماعت اہل حدیث کے نامور عالم تھے فراغت کے بعد درس و تدریس ،دعوت و تبلیغ میں پوری زندگی صرف کردی ۔ لوگ بیان کرتے ہیں کہ مولانا نہایت محنتی اور دلجمعی و یکسوئی سے پڑھاتے تھے اور طلبہ ان کے اسلوب تدریس اور نہج تعلیم سے بے حد متاثر تھے لب و لہجہ میٹھا اور پیارا تھا تدین اور تقویٰ میں اونچا مقام رکھتے تھے۔ مولانا نے سینکڑوں دیہات میں تحریک اہل حدیث کو مقبول عوام کیا اور ہزاروں گھروں کو مشرکانہ عقائد سے تائب کرکے توحید و سنت کا پابند کیا ، جہاں کوئی بات خلاف سنت دیکھی اس کی اصلاح پر آمادہ ہو گئے۔
کسی زمانے میں اس علاقے کے مسلمان بہت سی ہندوانہ رسوم کا ارتکاب کرتے تھے محرم کے دنوں میں تعزیہ بنانے اور بہت سے خرافات کام کرتے پھر ایک دور آیا کہ حضرت شاہ اسماعیل شہید دہلویؒ کے قافلے کے کچھ لوگوں کا ادھر سے گذر ہوا وہ چند روز اس نواح میں رہے اور دین کی تبلیغ کی ، اس سے لوگ بہت متاثر ہوئے اور غیر اسلامی رسوم و رواج سے کنارہ کشی اختیار کرلی ،آہستہ آہستہ سدھارتھ نگر، بلرام پور، بستی و گونڈہ کے اس پورے علاقے میں ان کی تبلیغ کے اثرات پھیلے سلفیت و اہل حدیثیت کی اشاعت ہوئی اور حصول علم کا جذبہ پیدا ہوا اس کے بعد جنھوں نے اس علاقے کو تبلیغ دین کیلئے مرکز التفات قرار دیا مولانا اﷲ بخش بسکوہری ، مولانا محمد اظہر بہاری، مولانا عباد اﷲ یوسف پوری، صاحب تحفۃ الاحوذی علامہ عبدالرحمن محدث مبارکپوری ، امام فرائض مولانا عبدالرحمن بجواوی، مولانا عبدالعظیم صاحب اکرہرا ، مولانا سید ممتاز علی کرتھی ڈیہہ، مولانا عبدالرحمن ڈوکمی وغیرہم خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ 
ان نفوس قدسیہ نے توحید و سنت کی اشاعت اور مشرکانہ رسوم کو مٹانے کیلئے جو تکالیف برداشت کیں آج کل کے نوجوان علماء ان کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ 
مولانا عبدالعظیم صاحب باوقار شخصیت کے مالک تھے متعدد خوبیوں کے حامل بہت بڑے عالم قابل ترین مدرس ، پُر تاثیر واعظ ، عالی کردار اور بے حد ملنسار سب کے خیرخواہ اور سب کے ہمدرد تھے انھوں نے بہت اچھے مبلغ بہت اچھے مقرر کی حیثیت سے شہرت پائی ۔ بیشما ر دیہات وقصبات و شہروں میں ان کی صدائے حق پہونچی اور بے شمار لوگوں نے ان کی شیریں زبان سے کتاب و سنت کے احکام سنے، دعوت وتبلیغ کا یہ جذبہ تمام عمر ان کا رفیق سفر رہا وہ زندگی بھرپورے اخلاص کے ساتھ دین حق کی نشر و اشاعت میں مصروف رہے موت برحق ہے کل نفس ذائقۃ الموت وقت موعود آپہونچا اور اپنی جان مورخہ ۲۹؍اکتوبر ۱۹۷۷؁ء جان آفریں کے سپرد کردی ۔
اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ۔ 
عبدالرؤف خاں ندوی 
تلسی پور ، بلرام پور ،یوپی
الحاج عبدالغفور دریاآبادی رحمہٗ اﷲ
اک مرد حق شناش جگر سوز و گُھر ریز 
(سال وفات ۱۹۷۷؁ء)
دنیا میں کوئی اہم کام صرف خیالی پیکر تراشی یا کاموں پر محض تبصرہ نگاری سے نہیں ہوتاہے، یوں تو ہوتا ہے کہ بعض عبقری شخصیتیں خیال و فکر کے ذریعہ تعمیر و ایجاد کے مرحلے تک آتی ہیں اور کارہائے نمایاں انجام پذیر ہو جاتے ہیں ، اور یہ مواقع سلسلۂ حیات و کائنات کے خصوصی مراحل ہوتے ہیں ،مگر بالعموم کارہائے دنیا اور ان کی بخیہ گری ان بے نام خدمت گار انسانوں کے ہاتھوں انجام پاتی ہیں ، جن کا ادراک اگر نہ کرایا جائے تو وہ طاقِ نسیاں کی زینت ہوکر رہ جاتے ہیں ۔ بالکل سچ کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے دینی اور تعلیمی تشخص کا تحفظ مدارس کی نیٹ ورکنگ سے ہی باقی بچا ہے ۔ جنھیں یا تو اخلاص کے ساتھ بہ نیت اصلاحِ احوال و بغرض تعلیم قائم کیا گیا یا بغرض کفالت معاش ، اور یا پھر برائے شہرت و نمود وجود میں لایا گیا ہے۔ مگر ایک ہی سمت کی دادو دہش کسی نہ کسی حد تک اس مقصدِ خاص کیلئے مفید مطلب ثابت ہوئی ہے۔ اسی راہ میں اخلاص ومحبت کی گرمیٔ جانگداز سے سرگرداں و سرفروشاں کچھ دیوانے ایسے بھی گذرے ہیں جنھوں نے کسی ’لومۃ لائم‘ یا قلت سامان کی پروا کئے بغیر اپنے شوقِ فراواں کو دست و بازو ئے کار پرداز بنا کر خدمتِ دین وعمل کا سامان مہیا کیا ہے۔ ان ناموں کا احاطہ قدرے مشکل امر ہے، البتہ اس وقت اخلاص و ﷲیت کے پیکر خونِ جگر کے سودا گر ، نفسِ گرم کے خوگر، حاجی عبدالغفور رحمۃ اﷲ علیہ کا ذکر خیر کرنا چاہ رہا ہوں ۔ جن کی گرمیٔ حیات کی تب و تاب کا بڑا حصہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے دل و دماغ میں سمویا ہے۔ 
حاجی عبدالغفور مرحوم سے میرا نانا اور نواسے کا تعلق ہے اور وہ حدیث کے معروف اسکالر شیخ عبدالباری مدنی حفظہ اﷲ کے بھی نانا ہی نہیں ہم دونوں کے مربی ومحسن اعظم بھی رہے ہیں۔ اور ہمیں اﷲ کے بعد علم دین سے وابستگی انہی کی ذات والا صفات سے حاصل ہوئی ہے۔ اﷲ انھیں جزائے خیر وافر سے نوازے۔ (آمین)
ہم سمجھتے ہیں کہ دین حق نانا مرحوم کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا، اور دینداری کی خو طبعاً انھیں اپنی شب زندہ دار والدہ صالحہ سے وراثت میں ملی تھی ، جنھیں کثرت روزہ داری کے سبب گاؤں میں روزہیا دائی کے نام سے جانا جاتا تھا ، چنانچہ بتوفیق الٰہی اسی فیض سے انھوں نے بھی نالۂ شب گیر کو چرخ گردوں کی جانب اپنا سفیرِ حیات بنا کر بھیجنا شروع کیا اور رات کے تاروں میں اپنا راز داں پیدا کرلیا اپنی اسی صالحیت کے بعد میں انھوں نے اپنی مشق و مطالعہ کے ذریعہ پروان چڑھایا اور اس کی خوشبو کو پھیلانا حسب علم و صلاحیت ان کا وطیرۂ خاص ہو گیا۔ اندازہ ہوتا ہے کہ ا ن کی پیدائش بیسویں صدی کے عشرۂ اول میں ہوئی تھی، کیونکہ بوقت انتقال ان کی عمر تقریباً ۷۲ سال تھی اور ان کا انتقال ۱۹۷۷؁ء میں ہوا تھا۔ 
ہمارے قریہ دریا باد میں ماضی کی تقریباً تین نسلوں کے استاد میاں نور محمد ہمارے نانا کے بھی استاد رہے تھے۔ قرآن ناظرہ اور اردو خواندگی کی شد بد انھیں سے حاصل ہوئی تھی اور اتنی صلاحیت سے انہوں نے مسائل دین کو دینی کتابوں سے از خود بھی حاصل کیا یہاں تک کہ نواب مولانا وحید الزماں مرحوم کے ترجمہ کردہ ترجمہ بخاری و مسلم کی ایک ایک حدیث کو محبت رسول سے لبریز دل و نگاہ سے مطالعہ کیا، اور صحبت علماء و صلحائے وقت سے اپنے اس ذوق عمل کو نکھارنے کی کوشش میں تادم حیات مصروف رہے، مولانا مسلم رحمہ اﷲ کی دیوان گلشن کو جس کے ایک ایک شعر میں دین حق کارس گھلا ہوا ہے کثرت مطالعہ سے تقریباً ازبر کرلیا تھا۔ جس کے اشعار موقع بہ موقع استشہاد اً ایسے والہانہ انداز میں پیش فرماتے جنھیں ہم اپنے بچپن میں گویا الہامی آواز کے تصور سے سماعت کرتے تھے۔ 
علاقے کی اہم شخصیات مولانا عبدالوہاب’’ مجاہد آزادی‘‘ (مونڈاڈیہہ) حکیم خلیل احمد ، چودھری امان اﷲ، حاجی نصیب اﷲ، میاں سلامت اﷲ(سمریاواں) حاجی چھکن، بابا حبیب اﷲ (کہریاواں) وغیرہ ۔ ہمارے نانا کی مجلس کے مقتدر اراکین تھے۔ جن میں اکثر یا تو اہل حدیث تھے یا تو مداح اہل حدیث تھے۔ علماء اہل حدیث میں مرشد ومصلح کی حیثیت سے مولانا ممتاز احمد (کرتھی ڈیہہ) کی حیثیت نہایت درجہ ممتاز تھی ۔ جہاں حاضری دے کر اصلاحِ احوال فرماتے اور مسائلِ دینی کی تنقیح حاصل کرتے تھے۔ اسی طرح خطیب الاسلام مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈانگری ؒ کے والد محترم حاجی نعمت اﷲ رحمہ اﷲ سے بھی گہری وابستگی تھی شاید اسی تعلق سے مولانا جھنڈانگری سے بھی واسطۂ خاص رہا۔ مولانا مرحوم اپنی تقریروں میں کبھی کبھی نانا کے اوصاف دینیہ بالخصوص ان کی شب زندہ داری کا تذکرہ بڑے والہانہ انداز میں فرمایا کرتے تھے۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ نانا مرحوم نے دینِ حق سے وابستگی کو صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا بلکہ فرمانِ رسول’’ بلغو عنی ولوآیۃ‘‘’’ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘’’نضر اﷲ امرأسمع مقالتی فوعاہا و حفظہا وبلغہا‘‘ کے تحت اپنے معاشرے کو اس سے متاثر کیا اور اس کی تبلیغ فرمائی۔
دریاباد میں مولانا کا مختصر خاندان تو اہل حدیثیت سے بہرہ ور تھا جس کے نمایاں افراد محمد سلیم، غلام رب، حاجی جان محمد ، ڈھورے میاں، حاجی نبی رحیم صاحبان تھے، ان کے علاوہ دیگر لوگوں کو بھی راہ دکھانے کی کوششوں میں مصروف ہوئے اور اس راہ میں بڑی مشقتیں اٹھائیں ، جیسا کہ اس راہ کے راہیوں کے ساتھ ہمیشہ ہوتا رہا ہے۔ کیوں کہ یہی انبیائی مشن کی وراثت ہے، محرم کی روایتی تعزیہ داری کے وقت ڈھول تاشے ان کے گھروں کے سامنے گھنٹوں بجائے جاتے ، اور انھیں گھروں میں ایک طرح سے محصور کردیا جاتا ، سماوی آفات و بلیات کے موقعوں پر گاؤں والوں کی طرف سے بھنڈارہ کیا جاتااور جانوروں کو باہر نکالا جاتا ، ان باتوں کی مخالفت کرنے پر انھیں مختلف ناموں سے پکارا جاتا اور تکلیفیں پہونچائی جاتیں ، اسی کی پاداش میں سماجی بائیکاٹ سے بھی گذرنا پڑا ۔ دھوبی، نائی، بڑھئی کی سہولیات سے محروم کر دیا گیا ، اور یہ کام خود اپنے ہاتھوں سے انجام دینے پڑے۔ 
علاقے سے نکل کر سیکھے ہوئے کو سکھانے کی غرض سے نانا مرحوم نے دور دراز کا پیدل سفرکیا، اور اقامت گزینی اختیار کی، قصبہ امر ڈوبھا کے جوار میں ایک گاؤں بھڑاری تھا ، وہاں بچوں کو ابتدائی کتابیں پڑھانے اور تبلیغ کرنے کی غرض سے قیام فرمایا۔ وہاں پر برادرانِ انصاریان کا ایک خاندان آباد تھا انھیں راہِ راست پر لگایا ، زمینداروں کا جیسا کہ قاعدہ تھا کہ اپنے ماتحتوں پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑتے تھے ، وہاں بھی ایک زمیندار تھا اس نے بھی ایک بار اپنے ان ماتحتوں پر وہی طریقہ ستم آزمانے کی کوشش کی، نانا اس وقت جوان رعنا تھے ، قوی الجثہ ، فن چوب بازی(لکڑی دانی) میں بھی مہارت رکھتے تھے اور چونکہ نسبتاً ترک چودھری برادری سے تعلق رکھتے تھے جنھیں اگر چہ قدیم کاغذات میں شیوخ لکھا گیا ہے اسلئے کوئی مرعوبیت نہ تھی ۔ اس کی کافرانہ دعوتِ مبارزت کو قبول فرماکر مقابلہ میں آئے اور اﷲ کی مدد سے شکستِ فاش دی۔ اس واقعہ سے مسلم برادران کی ہمت افزائی ہوئی۔ 
نانا کی گھر واپسی کے ایک عرصہ بعد انہیں ظالموں نے گاؤں مذکور کو تاخت و تاراج کردیا پھر یہ خاندان وہاں ٹھہر نہ سکا اور امرڈوبھا میں آباد ہوکر گل وگلزار ہوا۔ امرڈوبھا کا مدرسہ محمدیہ اسی سلسلۂ تعلیم کی یادگار ہے۔ جس کا ماضی ناناتک منتہی ہوتا ہے ،آپ کے شاگرد حبیب میاں، عبدالرحمن اور حاجی ولی اﷲ مرحوم اس مدرسہ کے بانیان میں سے ہیں ، جس سے نانا اور ان کے نواسوں کی وابستگی آج تک باقی ہے۔ 
بھڑاری سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد نانا محترم نے لہرسن (کرنجوت بازار) کا رُخ کیا ، یہی جولاں گاہِ عمل موصوف کی دینی مساعی کا کلائمکس تھا۔ ہمارے ہوش میں آنے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ زمانۂ قیام آزادیٔ ہند کے تھوڑا پہلے اور قدرے بعد کا ہوگا۔
آپ کا ظاہر و باطن تدین کے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا، باتوں میں وہ حلاوت و تاثیر تھی جو کسی فلسفیانہ حکمت سرائی میں کبھی نہیں ہو سکتی، اس لئے جو بات دل سے نکلتی تھی دلوں میں بیٹھ جاتی تھی۔ مجھے صحیح اطلاع نہیں ہے کہ وہاں سے پہلے اہل حدیث موجود تھے یا نہیں ، مگر یہ تو طے ہے کہ ان کے وہاں قیام کرنے کے بعد پورا قریہ اہل حدیثیت کے خمار میں ڈوب گیا اور ۔ ع
کبھی اتر نہ سکا یہ خمار ایسا تھا 
میں نے اپنے عہد طفلی میں ﷲیت کے ان پیکروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کتابوں میں اسلاف کی تصویر کشی نگاہوں سے گذری ہے، مگر ان کا چلتا پھرتا نمونہ فلک کی آنکھوں نے زمین پر کم ہی ایسا دیکھا ہوگا ۔ حاجی ولی اﷲ ، رفیع الدین، میاں چھٹکان، محمد خلیل، حاجی دوست محمد ، حاجی شاہ محمد ، مختار، حیات محمد، عیدن اور ان کے بھائی اور بہت سے نوجوان ، معاشی حیثیت دو چار کو چھوڑ کر کسی کی قابلِ ذکر نہ تھی، مگر فدائیت سب سے بڑی دولت تھی ، ہر حال میں مست و مگن ،پارچہ بافی کے ہنر میں غوطہ زن ۔ کسی بھی اختلافی مسئلہ کے فیصلے کو سر آنکھوں پر رکھنا ان کے صفائے قلب کی علامت تھی ، اسی کی برکت تھی کہ ان کے سرکردہ لوگ بغل کے قریہ جات میں مسائل کا تصفیہ کرنے کیلئے بلائے جاتے تھے۔ ع
کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا 
نانا سے ان کی محبت و مواخاۃ کی ایسی مثال قائم ہوئی تھی کہ اختلاف خاندان و مقام کے باوجود ایک خانوادے کی طرح بیہم شیر و شکر تھے، نانا کے ہم سنِ ہمارے سگے نانا اور جوان ہمارے سگے ماموں جیسے تھے ، انہیں آداب سے ہم انہیں پکارتے بھی تھے جس سے وہ بے حد مسرور ہوتے تھے اور پیار و محبت کی بارش کرتے تھے۔
لوہرسن کے بغل میں ایک موضع سانڈا بھی ہے، جہاں اس وقت حضرات اہل حدیث معقول تعداد میں موجود ہیں ۔ ابتداً وہاں نانا کے متعلقین میں حاجی بدیع الزماں عرف گپو میاں عبدالحمید تو تھے ہی وہیں خاص طور سے میاں نامدار سے نانا کے گہرے مراسم رہے ہیں ، جن کے اہل و عیال میں مولانا محمد مکرم رحمہ اﷲ کی قابل ذکر دینی اور علمی خدمات ہیں، جنھوں نے کئی کتابوں کی تصنیف کے ساتھ مدرسہ زید بن ثابت کی بنیاد ڈالی ہے ، ان کے خاندان کا ایک اور حصہ اسی صحت عقیدہ و ایمان کے ساتھ گورکھپور میں بھی آباد ہے۔
بعد ترک قیام لہر سن بھی بعض الجھی ہوئی صورتوں میں فیصلہ کے لئے نانا کو بلایا جانا میرے حافظہ میں ہے۔ دو مرتبہ ہاتھی بھیج کر مسئلہ کے دفعیہ کیلئے نانا کو بلایا گیا۔ پہلا بلاوا تو میرے ابتدائے شعور کا ہے ، مسئلہ کی نوعیت کا مجھے علم نہیں البتہ دوسری بار انجم صاحب مرحوم کا گاؤں والوں سے اختلاف رفع کرنا مقصود تھا ، جس کی تفصیلی ذکر کا یہاں موقع نہیں ہے۔ اسی قدر افزائی کا نتیجہ تھا کہ لہرسن کے زمیندار رائے برادری کے لوگ بھی نانا کو وقعت و احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ بعد میں یہی اعتراف و قدر ومنزلت مولانا انجم صاحب ؒ کے حصہ میں آئی۔ یہ تذکرہ بھی بے موقع نہ ہوگا کہ انجم صاحب ؒ کے سر سے بچپن میں باپ کا سایہ اُٹھ جانے اور یتیمی سے گذرنے کے ایام میں ان کی تعلیم کے بندوبست میں نانا کے تعاون و تحریض پر گاؤں والوں کا بھی زبردست حصہ رہا ہے۔ 
موصوف نانا اس وقت درس و تذکیر کا کام مسجد سے کرتے تھے ، اسی سلسلہ سبق کو جب آگے بڑھایا تو اس نے مدرسہ کی صورت اختیار کرلی ، اور اس کی بنیاد اٹھانے میں اہل قریہ کے ساتھ نانا اور انجم صاحب کا ساتھ رہا۔ جو اب مدینۃ العلوم اور مختلف شکلوں میں موجود ہے ۔ مولانا عزیز الرحمن سلفی( استاذ جامعہ سلفیہ بنارس) نے اپنی مرتبہ کتاب جماعت اہل حدیث کی تدریسی خدمات ؍۳۸ پر ان دونوں مذکورہ بالا اداروں مدرسہ محمدیہ امر ڈوبھا اور مدینۃ العلوم کے بانی کی حیثیت سے حاجی عبدالغفور کے نام کا تذکرہ فرمایا ہے۔ 
نانا محترم نے زندگی کے بہت نشیب و فراز دیکھے ماں کی خدمت کے ایام میں فقر و تنگی سے بھی گذرے اور پختہ عمری میں فراخی و فراوانی سے بھی ، مدرسی کا ذریعہ تو تبلیغ و تذکیر کے جذبۂ بے پناہ کے سبب تھا ورنہ حصولِ رزق کی خاطر زےّات بھی بنے اور حلوائی بھی۔ زراعت بھی کی، اور تجارت بھی، کمایا بھی اور گنوایا بھی، ۱۹۵۲؁ء میں حج مفروض کی ادائیگی فرمائی اور ۱۹۶۵؁ء میں دوبارہ بھی حج ادا کیا۔ نماز و حج و روزہ تو ان کی شناخت بن چکی تھی ، ادائیگی زکوٰۃ کیلئے پس انداز رقموں کے علاوہ پرچون کی دوکان کے سامانوں اور کپڑے کی دوکان کا پورا پورا حساب فرماتے، محاسب کو اجرت دی جاتی، اور پھر بعد حساب مستحقین میں زکوٰۃ تقسیم کی جاتی۔ سادگی ہی ان کی آرائش تھی ، جامہ پسندی تقشّف کے دائرے میں تھی ، زیبائش و کشش ظاہری کا سامان کچھ بھی نہ تھا۔ ع
گہر سرشت تھا اور گرد گرد تھا وہ شخص
نانا کی حیات جہد مسلسل کا آخری پڑاؤ دریا باد سے تھوڑی دور پر واقع موضع برگدوا رہا ہے۔ جہاں قیام کی مختصر مدت بھی نتیجہ خیز رہی ہے، دو گھرانے اہل حدیث ہوئے اور کئی لوگ متاثر بھی، مگر آخر کار پیرانہ سالی گھر کی دیواروں کے سائے میں لے آئی۔ 
محترمہ نانی پر بھی موصوف کا خاصہ دینی اثر مرتب ہوا تھا پا بند صوم وصلوٰۃ تو تھیں ہی،محتاجوں اور غریبوں کی حد درجہ غم گسار تھیں ، یہاں تک کہ جانوروں کے ساتھ ہمدردی اور بھلائی کرنے سے نہیں چوکتی تھیں ، گرمیوں کے ایام میں جگہ جگہ گھر کے اندر اور باہر برتنوں میں پانی رکھ دیتی تھیں کہ مبادا کوئی کتا، بلی، چوہا، چیونٹیاں، تتلیاں، زنبور وغیرہ گذریں اور پیاسے گذرجائیں، امید ہے کہ اﷲ کو یہ ادا ضرور پسند آئے گی، اور یہی ان کیلئے مغفرت کا سامان بھی ہوگی۔ انشاء اﷲ 
نانا مرحوم کے یہاں کوئی نرینہ اولاد زندہ نہ رہی، صرف تین بیٹیاں ہی رہیں، وسامہ، کلثوم ، حلیمہ، تینوں کو گاؤں ہی میں بیاہ دیا تھا ، بالترتیب اوپر سے دونوں کا خاندان ہی میں رشتہ کیا تھا درمیانی کلثوم کے شوہر بڑے پاک باز انسان عبدالرحمن بابو تھے، یکے بعد دیگرے دونوں کا انتقال ہوگیا ۔ 
وسامہ اور حلیمہ بالترتیب حاجی فتح اﷲ اور میاں شفاعت محمد سے منسوب ہوئیں، ان شاخوں سے بہت ساری اولادیں برگ و بار لائیں۔ اسی ترتیب سے پانچ اور تین یعنی آٹھ نواسے اور دو نواسیاں تادم تحریر زندہ و پائندہ ہیں ۔ موصوف کی عنایت خاص سے شیخ عبدالباری فتح اﷲ المدنی ، مولوی ابوالہاشم، ڈاکٹر محمود الحسن سلفی اور فدوی عتیق الرحمن ندوی علم دین حق کے چشمۂ صافی سے حسب توفیق الٰہی مستفید ہوئے ہیں اور شاید جامعہ اسلامیہ دریاباد انہیں کی دعائے مستجاب کا مبارک نتیجہ ہے۔ اور یہ نانا موصوف کے لئے صدقۂ جاریہ ہیں ۔ انشاء اﷲ
بالآخر زندگی کی گردشوں سے کبھی ہار نہ ماننے والا قضائے الٰہی سے ہار گیا ، پیری میں دمہ کی شدت مرض کی تاب نہ لا کر ۱۹۷۷؁ء میں اس عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرمایا۔ اقبال نے اپنے وسیع تر مطالعے کی تمام فلسفیانہ موشگافیوں کو لا حاصل سمجھتے ہوئے اسی مومنانہ دیوانگی اور شیفتگی کی تمنا کی تھی۔ ؂
عطا اسلاف کا جذب دروں کر شریک زمرۂ لا یحزنوں کا 
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں مرے مولیٰ مجھے صاحب جنوں کر 
عتیق الرحمن ندوی 
مدیر مسؤل مجلہ استدراک دریاآباد سنت کبیر نگر( یوپی)
حضرت العلام مولانا محمد احمد ناظم مؤی رحمہ اﷲ
سابق ناظم اعلیٰ جامعہ فیض عام مؤ ناتھ بھنجن
(تاریخ وفات: ۲۴؍ فروری ۱۹۸۲؁ء)
نام و نسب: ناظم صاحب نام اور نسب نامہ یہ ہے محمد احمد بن حافظ عبدالغنی بن پیارے کھیدو آپ کے مورث اعلیٰ پپر ڈیہہ (جو مؤ کے جنوب میں دوسرا اسٹیشن ہے) کے باشندہ تھے ترک وطن کرکے کسی وقت مؤ میں سکونت اختیار کرلی تھی نصف صدی سے زیادہ نظامت کرنے کی وجہ سے ناظم آپ کا لقب اور نام کا جز ء لا ینفک بن گیا تھا۔ 
ولادت : جمادی الاول ۱۳۱۰؁ھ مطابق نومبر ۱۸۹۲؁ء مؤ میں پیدا ہوئے۔ 
ابتدائی تعلیم : ناظم صاحب کا تعلیم کی طرف میلان عہد طفولیت ہی سے تھا جو سن و سال کے ساتھ برابر ترقی کرتا گیا اور آپ کی سیرت کا نمایاں پہلو بن گیا اور پورے خاندان بلکہ اقران میں آپ کو فائق اور ممتاز بنا دیا جب دارالعلوم قائم ہوا تو آپ کے والد صاحب نے اس میں داخل کردیا اور مولوی عبدالرحمن صاحب سے اردو اور ابتدائی فارسی وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔
مدرسہ فیض عام: شوال ۱۳۲۰؁ھ میں جامع مسجد پر مدرسہ فیض عام جس کا نام اس وقت مدرسہ اسلامیہ تھا کی داغ بیل پڑی رأس العلماء حافظ عبداﷲ غازی پوری رحمہ اﷲ نے اس کا تعلیمی افتتاح فرمایا اور بڑے مولوی صاحب مولانا محمد احمد بن ملا حسام الدین رحمہ اﷲ اس مدرسہ کے سب سے پہلے مدرس مقرر ہوئے تو ناظم صاحب اس مدرسہ میں داخل کر دئیے گئے ناظم صاحب نے مولانا صوف سے فارسی کی کتابیں گلستاں، بوستاں، سکندرنامہ، یوسف زلیخا، ابوالفضل، بہاردانش، مینا بازار وغیرہ اور عربی میں میزان ، منشعب سے لیکر شرح جامی تک کی کتابیں پڑھیں ، ناظم صاحب کہا کرتے تھے کہ میری اصل استعداد بڑے مولوی صاحب کی تعلیم و تربیت کی رہین منت ہے۔ 
دارالعلوم دیو بند میں تعلیم کی تکمیل : 
ناظم صاحب گھر والوں کی اجازت کے بغیر ۱۳۲۸؁ھ میں دارالعلوم دیوبند چلے گئے وہاں امتحان داخلہ کے بعد آپ کی ذہانت و فطانت اور علمی استعداد کی بنا پر ترقی کے ساتھ داخلہ ہوا حالانکہ داخلہ کا سلسلہ بند ہو چکا تھا لیکن کھانے کا مسئلہ حل نہیں ہوا پیسہ بھی نہیں تھا اور گھر کے حالات ایسے تھے کہ گھرسے منگا بھی نہ سکتے تھے لیکن اس کے باوجود پڑھنے کا شوق غالب رہا ۔ دو پیسہ کا چنا لیتے اور وہی بھگو کر کھا کر رہ جاتے کبھی کبھی ساتھیوں کی بے تکلفی اس سے بھی محروم کردیتی آپ مطالعہ و کتب بینی میں غرق رہتے اور ساتھی سامنے سے پیالہ کھینچ کر چٹ کرجاتے بہر حال کچھ دنوں کے بعد جاگیر لگی اور پھر مطبخ سے کھانا ملنے لگا۔ 
یہاں ناظم صاحب نے دارالعلوم دیوبند کے اکابر علماء و اساتذہ سے منقولات و معقولات کی منتہی کتابیں پڑھیں اور اکتساب فیض کیا ، مولانا محمود الحسن دیوبندی سے صحیح بخاری و جامع ترمذی مہتمم صاحب اور مولانا انور شاہ کشمیری سے صحیح مسلم ، مولانا شبیر احمد عثمانی سے ابوداؤد ، مولانا حسین احمد مدنی سے بیضاوی اور مولانا غلام رسول سے صدرا ، شمس بازعہ ،شرح چغمینی وغیرہ معقولات پڑھیں اور ۱۳۳۱؁ھ میں درس نظامیہ کی تکمیل اور فراغت حاصل کی ذہانت کا یہ حال تھا آپ کا آخری سال نمبر محصلہ بچا نوے فیصد تھا۔ 
درس و تدریس : ناظم صاحب کو تعلیمی فراغت کے بعد اﷲ تعالیٰ نے فارغ البالی عطا کرکے اس بات سے بے نیاز کردیا تھا کہ اپنے علم کو ذریعہ معاش بناتے لیکن علم کی تازگی و بالیدگی اور علم کے حق کی ادائیگی نیز مادر علمی ( مدرسہ فیض عام ) کی خدمت کے پیش نظر ایک دو کتابیں برابر پڑھاتے رہے طلبہ آپ کے گھر جاکر پڑھتے تھے اس زمانہ میں دوسرے مدرسہ کے طلبہ بھی آپ سے استفادہ کیلئے آتے تھے آپ کا علم و مطالعہ وسیع اور استعداد کامل تھی ۔ اسلئے ہر علم و فن کی کتابیں بلا تامل پڑھاتے تھے لیکن معقولات سے خصوصی مناسبت تھی اسلئے منطق کی کوئی نہ کوئی کتاب اپنے پاس ضرور رکھتے تھے جس کا سلسلہ وقفہ و فترہ کے ساتھ اخیر عمر تک جاری رہا۔ 
استاذ محترم مولانا عظیم اﷲ راوی ہیں کہ بارہا ایسا ہوتا کہ ناظم صاحب معائنہ و جائزہ لیتے ہوئے کسی بھی درسگاہ میں چلے جاتے مدرس خود کتاب آپ کی طرف بڑھا دیتا اور آپ بلا تکلف پڑھانے لگتے اور اتنا عمدہ پڑھاتے تھے کہ مفہوم کو ذہن میں اتار دیتے تھے تقریر مختصر کرتے الا یہ کہ کوئی شاگرد چھیڑ دیتا تو پھر مت پوچھئے علم کا دریا رواں ہو جاتا۔
ملی اور جماعتی خدمات: ہم اس عنوان کے تحت مرحوم کے بعض ان کارناموں اور خدمات کو بیان کریں گے جو انھوں نے ملت و جماعت کے لئے انجام دئیے۔ اور دراصل جو آپ کی حقیقی یادگاریں اور آپ کے لئے صدقات جاریہ ہیں۔ 
مدرسہ فیض عام : اس سلسلہ میں سب سے پہلے مدرسہ فیض عام کا ذکر آنا فطری ہے۔ مؤ کے مغربی حصہ میں مدرسہ عالیہ بہت پہلے (یعنی ۱۸۶۸؁ء میں ) قائم ہو چکا تھا ، مشرقی حصہ میں جماعت کی کوئی تعلیم گاہ نہ تھی جس کی سخت ضرورت تھی ، چنانچہ جماعت کے اتفاق سے یہ مدرسہ ’’ مدرسہ اسلامیہ‘‘ کے نام سے جامع مسجد ۱۳۲۰؁ھ مطابق ۱۹۰۲؁ء میں قائم ہوا۔ رأس العلماء حافظ عبداﷲ صاحب غازی پوری رحمہ اﷲ نے اس کا تعلیمی افتتاح فرمایا اور تعلیمی فرائض کی انجام دہی استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد احمد (متوفی ۱۳۶۷؁ھ مطابق ۱۹۴۸؁ء ) کے سپرد کی گئی۔ نظامت کا بار بزرگان جماعت میں سے یکے بعد دیگرے مختلف اشخاص کے کندھوں پر رہا، اور ایک زمانہ تک مدرسہ اپنی اسی رفتار پر چلتا رہا۔ 
۱۳۴۱؁ھ میں نظامت کا بار ناظم صاحب ؒ کے کندھوں پر ڈالا گیا اور مدرسہ کانام مدرسہ اسلامیہ سے بدل کر ’’ مدرسہ فیض عام ‘‘ رکھا گیا۔ اسی وقت سے وہ جامع مسجد ’’جامع مسجد فیض عام‘‘ سے موسوم و مشہور ہوئی ۔ اس وقت مدرسہ کی حیثیت مسجد کے فرش اور اس کے ملحق دو تین کمروں پر تھی ، جس میں ایک یا دو مدرس اور کچھ مقامی طلبہ کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ لیکن یہ ناظم صاحب کا حسن انتظام اور مسیحا نفسی تھی کہ اس کی نظامت سنبھالتے ہی اس میں زندگی کی نئی روح پیدا ہوگئی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک بڑا مرکزی مدرسہ اور جماعت کی آرزو ، تشنگانِ علوم کی توجہ کا مرکز اور سراپا فیض عام بن گیا۔ 
آپ کے فہم و تدبر اور دوراندیشی کی جس قدر بھی تعریف کی جائے کم ہے آپ نے بار نظامت سنبھالنے کے بعد جلد ہی اپنی فہم و فراست سے یہ سمجھ لیا کہ بہت جلد وہ دور بھی آنیوالا ہے جبکہ مسجد کی فرش اور اس کے دو تین حجرے مدرسہ فیض عام کے بڑھتے ہوئے منصوبوں کی تکمیل کے لئے کافی نہیں ہو سکتے، چنانچہ آپ نے اس کے لئے ایک وسیع قطعہ آراضی خریدا۔ ۱؂ اور اس میں شاندار لمبی چوڑی درسگاہیں بنوائیں ، جس میں ۱۹۵۰؁ء میں مدرسہ منتقل ہوا ، اور ایک نئے دور کا آغاز ہوا ، اور انتہائی خاموشی کے ساتھ اسلامی علوم و فنون کی بیش بہا اور ٹھوس خدمات انجام دینے میں مشغول رہا اور اب بھی اسی طریقہ پر گامزن ہے، اب تک اس سرچشمہ سے اتنی بڑی تعداد میں لوگ سیراب اور فیض یاب ہوئے کہ ان سب کا احصاء اور شمار نا ممکن ہے۔ ان میں ایک بڑی تعداد نے مسند درس و تدریس کو زینت دے رکھی ہے۔ اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے جماعت کا کوئی قابلِ ذکر مدرسہ ایسا نہیں ملے گا جس میں ایک دو ، مدرسہ فیض عام کے فیض یافتہ اور فیضی علماء مدرس نہ ہوں، اور یہ عموماً اچھے عہدوں پر فائز ہیں ۔ اس کے فارغین میں کتنے ایسے ہیں جن کے زور بیاں 
۱؂ تاریخ خریداری ۱۶؍ نومبر ۱۹۳۴؁ء
اور خطابت کا سکہ ہر طرف جما ہوا ہے ، کتنے ایسے ہیں جو صاحب قلم اور اچھے انشاء پر داز ہیں ، کتنے صاحبِ محراب و منبر اور کتنے صاحبِ تصنیف و تالیف ہیں۔ اﷲم زِد فَزِد
مدینہ منورہ یونیور سٹی(جامعہ اسلامیہ) سے مدرسہ کے معادلہ کے لئے ضروری کاغذات دستور اور نصاب تعلیم وغیرہ کی عربی میں تیاری اور بعد کی خط و کتابت کا کام گرچہ خاکسار ہی نے کیا تھا لیکن ابتدائی مراسلت جس کی کسی کو خبر نہیں تھی خود ناظم صاحب نے فرمائی تھی جس کی بنا پر کاغذات طلب کئے گئے اور ۱۳۹۵؁ھ مطابق ۱۹۷۵؁ء میں معادلہ ملا، اور اس کے بعد سے برابر مدرسہ کی سند پر وہاں داخلے ملنے لگے۔ 
فیض عام بلڈنگ: دوسرے تعلیمی اداروں کی طرح مدرسہ فیض عام کا بھی تمام تر انحصار اہل خیر کے چندوں پر تھا ۔ ناظم صاحب نے نظامت سنبھالنے کے بعد اس صورت حال کو بدلنے اور مدرسہ کیلئے مستقل ذرائع آمدنی پیدا کرکے اسے خود کفیل اور مستحکم بنادینے کا ارادہ کیا اور رئیس جماعت و سرپرست مدرسہ محمد گرہستؒ (متوفی ۱۳۵۰؁ھ )سے اس کا ذکر کیا اورموجودہ صدر چوک کے جنوب مغرب میں واقع زمین (جو اس وقت تالاب یا گڑھی تھی اور اب صدر بازار کا قلب ہے)خریدنے کیلئے کہا گرہست صاحب نے نہ صرف یہ کہ اس وقت اس سے اتفاق نہیں کیا بلکہ اس پر ناراضکی و خفگی کا اظہار کیا۔ اور اسے گویا ایک دیوانے کی دیوانگی سمجھا، مگر ناظم صاحب اپنی دھن کے پکے تھے برابر اس کے لئے کوشاں رہے ، اور بالآخر جامع مسجد کے سامنے والی زمین کے علاوہ صدربازار (صدرچوک کے شمال مشرق میں) وسیع و عریض پلاٹ خریدنے اور اس پر دوکانیں تعمیر کراکے اپنے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے میں کامیابی حاصل کی اور آپ کی اس دیوانگی یا فرزانگی نے مدرسہ کو بڑی حد تک خود کفیل بنا دیا۔ آج بھی اگر پرانے کرایہ کے بجائے ان دوکانوں کا موجودہ شرح اور حساب سے کرایہ ملنے لگے تو پہلے کی طرح مدرسہ بڑی حد تک خود کفیل ہو جائے گا اور اس کی تمام ضروریات خود اس کی آمدنی سے پوری ہونے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔ 
مسلم انٹر کالج: عصری علوم و فنون کی تعلیم کی اہمیت و افادیت سے انکار ناممکن ہے۔ مگر مؤ میں مسلمانوں کے پاس ۳۹؁ ء ۴۰؁ھ سے پہلے اس کے لئے کوئی تعلیم گاہ نہ تھی، جس کی سخت ضرورت تھی، سب سے پہلے حافظ فضل الرحمن صاحب (متوفی ۱۳۵۹؁ھ ۰ ۱۹۴؁ء) نے اس کی طرف توجہ اور اس کی شروعات کی۔ پھر ناظم صاحب نے ۱۹۴۱؁ء میں مسلم انٹر کالج قائم کیا اور اس کی بنیاد رکھی اور لوگوں کے تعاون سے اس کے لئے زمینیں خریدیں اور تعمیرات کرائیں اس وقت بھی اسکول کے پاس مزید تعمیرات کے لئے پورا ایک پلاٹ موجود ہے۔ آپ ہی شروع سے تا حیات اس کے منیجر رہے اور ہر طرح کے نا مساعد حالات کے باوجود آخر تک اس کی تعمیر و ترقی کے لئے جدو جہد کرتے رہے تاکہ ہمارے نوجوان دینی و مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں بھی آگے بڑھیں اور ملک و ملت کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید ثابت ہوں ۔ 
ناظم صاحب مرحوم کے بعد مدرسہ کے ناظم اور اس اسکول کے منیجر حضرۃ الاستاذ مفتی مولانا حبیب الرحمن صاحب فیضی تھے۔ 
مدرسۃ البنات: مسلمان بچیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ۱۹۸۰؁ء میں مدرسۃ البنات یا فیض عام گرلس اسکول قائم کیا تاکہ مسلم لڑکیاں اسلامی ماحول میں رہ کر دینی و عصری تعلیم حاصل کر سکیں اور نور علم اور زیور اخلاق سے آراستہ ہوکر چراغ خانہ، سلیقہ مند اور نیک خاتون بن سکیں ۔ اس اسکول کا تعلیمی افتتاح (بتاریخ ۲۱؍ستمبر ۱۹۸۰؁ء مطابق ۱۰؍ذی قعدہ ۱۴۰۰؁ھ) سید صباح الدین عبدالرحمن ناظم دارالمصنفین (اعظم گڈھ) نے فرمایا تھا۔ یہ مدرسہ اب اپنی نئی دو منزلہ عمارت میں موجود ہے جو ۷۰x۵۶ فٹ لمبی اور چھوٹے بڑے ۱۹ کمروں پر مشتمل ہے، اس میں اس وقت انٹر تک کی تعلیم کا انتظام ہے۔ اس عمارت کا افتتاح مولانا مختار احمد صاحب ندوی رحمہ اﷲ نے کیا تھا ۔ (یکم جنوری ۱۹۸۳؁ء مطابق ۱۵؍ربیع الاول ۱۴۰۳؁ھ )
وفات : ناظم صاحب بڑے قوی الاعصاب تھے صحت عام طور پر اچھی رہتی تھی ۲۳؍فروری ۱۹۸۲؁ء کو معمول کے مطابق دس بجے تک انتظامی امور حساب و کتاب میں مشغول رہے گیارہ بجے کے قریب دفتر اہتمام ہی میں غسل کے ارادہ سے پانی منگایا دروازہ اندر سے بند کرلیا لیکن جب دیر ہوئی اور آپ باہر نہیں نکلے تو لوگوں کو سخت تشویش ہوئی جھروکے سے دیکھا گیا تو آپ زمین پر بے ہوش پڑے تھے فوراً کسی طرح دروازہ کھولا گیا ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کی گئیں انھوں نے بتایا کہ فالج کا شدید حملہ ہے دل و دماغ سخت متاثر ہیں فوراً طبی امداد پہونچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی گئی ، لیکن آخر تک ہوش نہ آسکا اور لوگ ناظم صاحب کے ایک بول کیلئے تڑپتے رہ گئے۔ وقت موعود آپہونچا تھا دوسرے روز چہار شنبہ مورخہ ۲۴؍فروری ۱۹۸۲؁ء کو سوا دس بجے شب میں مادر علمی کی آغوش ہی میں جان عزیز اس پر فدا کردی اور اﷲ کو پیارے ہو گئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون 
 ؂ تھا ہجوم قدسیاں مسعود جس دم آہ ایک آئی ساعت جان بھی کردی فدائے فیض عام
۵۸۰ +۱۴۰۲ھ ۱۹۸۲ء
دوسرے روز جمعرات مورخہ ۲۵؍فروری ۱۹۸۲؁ء کو مدرسہ ہی میں غسل اور تجہیز و تکفین ہوئی بعد نماز ظہر جنازہ اٹھایا گیا اولین کندھا دینے والوں میں شیخ الحدیث علامہ عبید اﷲ مبارکپوری نیز حضرت مفتی حبیب الرحمن راقم الحروف و حافظ نثار احمد لڑ کھڑاتے قدموں کے ساتھ جنازہ کھیری باغ لے جایا گیا جس کے وسیع میدان میں ایک مجمع عظیم نے شیخ الحدیث علامہ عبید اﷲ رحمانی مبارکپوری کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی اور مرحوم کو ان کے آبائی قبرستان (جیٹھمل پوکھرا) کے اندر اشک آلود آنکھوں اور لرزتے ہاتھوں سے لحد میں اتارا گیا۔ 
  ؂ کس کو لائے ہیں بہر دفن کہ قبر ہمہ تن چشم انتظار ہے آج 
اس روز یعنی جمعرات کو مرحوم کے غم میں مؤ ، مبارکپور، املو کے تمام مدارس و کالجز نیز جامعہ سلفیہ بنارس بند رہے اور ہر جگہ سے بڑی تعداد میں عوام و خواص اساتذہ و طلبہ نے شرکت کی کسی جنازہ میں ایسا اژدحام کم دیکھنے میں آیا تھا ہجوم اتنا زبردست تھا کہ قبر کی کھودی ہوئی ساری مٹی ختم ہو گئی اور ابھی مٹی دینے والے بکثرت باقی رہ گئے۔ 
ہورہی ہے ان کے مرقد پر فزوں ہوتی رہے 
رحمت و انوار کی بارش الی یوم القیام 
احمد ناظم کا حصہ مغفرت کل مغفرت 
احمد مرسل کو ہدیہ کل صلاۃ کل سلام 
اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ۔ 

مولانا محفوظ الرحمن فیضی 
سابق شیخ الجامعہ جامعہ فیض عام مؤ

٭٭٭



مولانا سید اقبال حسینبن سید عابد علی رحمہٗ اﷲ
ریواں سدھارتھ نگریوپی
(تاریخ وفات :۱۴؍فروری ۱۹۸۶؁ء)
مولانا سیداقبال حسین بن سیدعابدعلی پناہ موضع کسمھی میں غالباً ۱۸۹۶؁ء میں پیدا ہوئے۔جامعہ سراج العلوم بونڈیہار ضلع بلرام پور مدرسہ بحر العلوم انتری بازار ، مدرسہ دارالہدیٰ یوسف پور ، مدرسہ عالیہ عربیہ مؤ اورحدیث دہلی میں مولانا عبید اﷲ اٹاوی سے مدرسہ زبیدیہ میں پڑھی۔ موضع ریواں میں اپنے برادرکلاں مولاناسید ممتاز علی کے ساتھ دعوت و تبلیغ کے کاموں میں شامل رہے چوک چپوترے کھدوایا ، ڈھول پھوڑنا، تعزیہ توڑنا اور مظلوموں کا حق دلوانا اسلامی فریضہ سمجھتے تھے ۔ آپ ہمیشہ عمامہ، طویل کرتہ اور نصف ساق تہبند میں ہوتے تھے۔ اتباع سنت میں سلفیت کی مکمل تصویر تھے۔ فرائض کے ساتھ نوافل اور اوراد و وظائف ، شب بیداری کا ہر حال میں التزام کرتے تھے۔ مولانا سید اقبال حسین رحمہ اﷲ نے دعوت و تبلیغ کے ذریعہ سے اپنے علاقے میں کتاب و سنت کی بے حد تبلیغ کی ان کی تبلیغ سے متاثر ہوکر بے شمار لوگ شرکیہ رسوم اور بدعات سے تائب ہوئے ، گھر گھر اﷲ کی دحدانیت کی ترویج ہوئی بہت سے دیہات میں اہل حدیث کی مسجدیں تعمیر ہوئیں جن میں قال اﷲ و قال الرسول کی صدائیں بلند ہونے لگیں جن مواضع و مقامات میں اہل حدیث کا لفظ کسی نے نہیں سنا تھا وہاں اہل حدیث مسلک پہونچا اور لوگوں نے اسے قبول کیا جہاں کوئی بات خلاف سنت دیکھی اس کی اصلاح پر آمادہ ہو گئے۔ 
مولانا عبدالاول فرماتے ہیں کہ مولانا سید اقبال حسین اپنی کتاب تحفۂ اقبال صفحہ ۱۳ پر فرماتے ہیں: 
’’ عوام الناس کو گمراہ رہنماؤں کے غلط طریقے کا گرویدہ پایا تو کتاب و سنت کی روشنی میں حلقہ ارادت کو وسیع کیا…………اور محض اس غرض سے اپنے عملیات اور فن حکمت کو بڑی جانفشانی اور عرق ریزی سے حاصل کرکے کمال پیدا کیا…… اور خالص قرآن و سنت کی دعاؤں سے آسیب زدوں سے اپنے مجرب نسخوں سے آرام پہونچادیا۔‘‘
مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی رقمطراز ہیں : 
  ’’ مولد موضع کسمہی اور مسکن ریواں، مولانا ممتاز علی صاحب کے برادر خورد اور خصائص علمی و عملی میں اپنے برادر بزرگ کے معاون …… حدیث دہلی میں مولوی عبیداﷲ مرحوم اٹاوی(مدرسہ زبیدیہ) سے پڑھی ۔طب میں بھی درک ہے اور یہی ذریعہ کفاف۔ اپنے برادر بزرگ کی طرح رنگ جلالی ہے۔ تبلیغ میں روز وشب انہماک ، شعار اسلام کی عزت و حرمت نصاب زندگی، مہمان نوازی شیوہ، حسن ظاہری و باطنی دونوں سے مزین ، جفا کشی اور محنتی تھے۔ (تراجم صفحہ : ۵۷۰) 
اﷲ تعالیٰ نے آپ کو کئی لڑکوں سے نوازا تھا آپ کے صحیح وارث مولانا سید عبدالاول فیضی رحمہ اﷲ تھے جن کا تذکرہ اس کتاب کے حصہ سوم میں آئیگا انشاء اﷲ۔ 
آپ کا انتقال ۱۴؍فروری ۱۹۸۶؁ء مطابق ۴؍جمادی الثانیہ ۱۴۰۶؁ھ کو وطن میں ہوا اور وہیں دفن ہوئے۔ تغمدہ اﷲ برحماتہ 
اﷲم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ۔ 
  عبدالرؤف خاں ندوی 
تلسی پور بلرام پور 

حضرت العلام مولانا محمد حنیف ہاتف صدیقی رحمہٗ اﷲ 
(تاریخ وفات :۱۵مارچ ۱۹۹۰؁ء)
حضرۃ العلّام ، والد محترم مولانا محمد حنیف ہاتفؔ صدیقی ۱۹۱۶؁ء میں تحصیل ڈومریا گنج سدھارتھ نگر یوپی کے موضع بیت نور میں پیدا ہوئے ، یہ اپنے والدین کے منجھلے بیٹے ، اپنے برادر مولانا عبدالشکور صاحب دور صدیقی سے چھوٹے ہیں ۔ ڈھائی سال کی مدت حیات آغوشِ مادر میں گذری، لیکن جلد ہی آغوش مادری سے دامنِ یتیمی میں پناہ لینی پڑی ، مادر مشفقہ کے داغ مفارقت کو دیکھ کر گردِ یتیمی نے ایسی پردہ پوشی کی کہ ہنوز دامن زندگی سے اس کی کرم فرمائی کم نہ ہوئی۔ 
سایۂ پدری نے بھی اپنے جملہ برکات نسبی ، حسبی اور وہبی سے بھر پور نوازا، جس نے شعوری زندگی میں ذکاوت و ذہانت ، شرافت و عظمت، شرم و غیرت، خود آگاہی و خود داری، خود گری و خود نگری جیسے صفات عالیہ سے متصف کر دیا۔ 
ابتدائی تعلیم و تربیت گھر ہی پر اپنے والد محترم شیخ سعادت حسین رحمہ اﷲ سے حاصل کی ، جو اپنے ہم عصر اہل علم میں نمایاں امتیاز رکھتے تھے ۔ اردو عربی کے علاوہ زبانِ فارسی میں نابغۂ روزگار تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ابتداء سے ہی پدری تعلیم و تربیت کے برکات نے ہر شعبۂ علم میں پختگی و نکھار پیدا کردیا ۔ اور جملہ محاسن و مکارم کا مجسمہ بن کر تربیت گاہ ’’ سعادت‘‘ سے سعادت مند ہوکر اپنے ہم عصر طالبانِ علم میں دور طفولیت ہی میں ممتاز ہو گئے۔ 
مدرسہ سراج العلوم بونڈھیار: ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کی غرض سے مدرسہ سراج العلوم بوٹڈھیار ، ضلع بلرام پور میں داخل ہو گئے۔ یہ ادارہ اس زمانہ میں اطراف و اکناف میں تشنگانِ علومِ دینیہ کیلئے موردِ آبِ حیات اور گم کردہ راہوں کیلے نشانِ راہ منزل تھا۔ آپ نے وہاں داخل ہوکر فارسی کے مشہور استاذ حضرۃ العلام حکیم مولانا محمد ےٰسین ؒ سے تین سال فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ چونکہ اس دور میں لوح و قلم فارسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے ، زبان و بیان میں فارسی کی آمیزش تھی، اور اسلئے بھی کہ زبان فارسی تعلیم دین کا واحد ذریعہ تھی، اس لئے اس کا حصول بھی لازمی جز تھا۔ 
گلستاں، بوستاں، یوسف زلیخا، سکندر نامہ، انشائے خلیفہ، اخلاقِ محسنی، اخلاق جلالی وغیرہ کتابیں سبقاً سبقاً پڑھیں ۔ ساتھ ہی عربی کی ابتدائی کتابیں بھی داخلِ نصاب رہیں۔
دیگر اساتذہ میں حضرت مولانا عباس اور مولانا زین اﷲ کنڈو (فاضل دیوبند) کے اسماء ِ گرامی قابل ذکر ہیں۔ اہل علم و دانش کا جمگھٹا، خالص مشرقی تہذیب و تمدن، یکسردینی و علمی ماحول سے درس گاہ مزین تھی، اسلئے بحمد اﷲ روح و قلب نے خوب خوب نشو و نما پائی اور علمی استعداد میں بے حد اضافہ ہوا ۔ 
مدرسہ سراج العلوم بونڈیہار کا سہ سالہ تعلیمی کورس مکمل کر نے کے بعد دارلحدیث رحمانیہ دہلی کیلئے کوشش کی مگر چند اسباب کی بنا پر داخلہ نہ ہوسکا۔ 
مدرسہ فےّاضیہ : اس مدرسہ کے مہتمم حافظ حمید اﷲ صاحب فنانشل سکریٹری آل انڈیا کانفرنس کے برادر معظم مرحوم حاجی فیاض الدین چھابڑا تھے جس میں مشہور زمانہ استاذ پیکر علم و عمل حضرت العلام مولانا محمد بشیر فرخ آبادی صدر المدرسین تھے یہاں تین سال رہ کر حصول علم میں منہمک رہے تقریری و تحریری مقابلوں میں بھر پور حصہ لیا ، انجمن اصلا ح اللسان مدرسہ سعیدیہ پل بنکش (جس کے ناظم اعلیٰ حضرت العلام ابو سعید محمد شرف الدین محدث دہلوی تھے) کے تقریری پروگراموں میں حصہ لیکر مہارت تامہ پیدا کی۔
حضرت مولانا ارادت حسین ساکن قصبہ بارہ ضلع غازی پور سے انگریزی تعلیم حاصل کی ، موصوف کی تعلیم و تربیت نے ان کو فعال ومتحرک بنا دیا ۔ چونکہ آپ مولانا شاہ اسماعیل شہید ؒ کے عسکری تنظیم کے معاونین خاص میں سے تھے ، اور اس تحریک کی روح سے متاثر تھے ، اسلئے موصوف نے انگریزی تعلیم کے ساتھ تحریک شہید کی خوبیاں واضح طور سے معلوم ہوئیں جس نے زندگی کے نصب العین کو متعین کرنے میں خضرِراہ کا کام دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک اپنے جذبات و احساسات میں اسی نصب العین اور طریق کار ملحوظ رکھا۔ 
مدرسہ فیاضیہ کے سہ سالہ زمانۂ قیام میں شیخ الحدیث حضرت العلام مولانا عبدالسلام بستوی ؒ (ملا فاضل دیو بند) سے بھر پور استفادہ کیا ۔ مولانا کی مہر و محبت ، شفقت و رحمت کی وجہ سے ان سے قریب تر ہوگئے تھے۔ اس زمانہ میں مولانا نے شرح ابن ماجہ کا تسویدی سلسلہ شروع کیا اور والد محترم (حنیف ہاتف) کے ذمہ اس کی تسوید و تحریر کی ذمہ داری سونپی، جس کو انھوں نے بھر پور نبھایا، نہایت محنت و عرق ریزی سے خوش خط عربی رسم الخط میں نصف شرح مکمل کر دی، لیکن ۱۹۴۷؁ء کے زمانۂ فساد میں مولانا کا کتب خانہ ’’ مسعودیہ‘‘ نذرِ آتش کر دیا گیا، جس میں وہ قلمی نسخہ بھی ضائع ہو گیا۔ 
’’ فیاضیہ‘‘ کا دورِ سہ سالہ نہایت کسمپرسی اور کم مائیگی کے عالم میں گذرا۔ پورا پورا ہفتہ صرف گاجر کھاکر بسر کیا۔ مگر یہ اﷲ کا کرم تھا کہ بفحوائے’’ تونگری بدل است نہ بمال‘‘ دل کے غنی تھے۔ کبھی کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کیا اور میرؔ کے اس شعر کو شعار بنا ئے رکھا۔ ؂ 
آگے کسوا کے کیا کریں دستِ طمع دراز 
وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے 
مدرسہ عالیہ فتح پوری دہلی : مدرسہ فیاضیہ کا سہ سالہ تعلیمی دو رپورا کرکے مدرسہ عالیہ فتحپوری میں داخلہ لیا اور اس زمانہ کے شہرۂ آفاق اساتذہ علوم و فنون سے استفادہ کیا۔ عالیہ فتحپوری کے اساتذہ میں مندرجہ ذیل ہستیاں بطور خاص تھیں۔ 
۱۔ حضرت مولانا شریف اﷲ سرحدی استادِ منطق، فلسفہ،علم کلام، اصول فقہ۔
۲۔ حضرت مولانا اشفاق الرحمن کاندھیلوی ( صاحب طبیب الشذی شرح ترمذی)
استادِ فقہ، اصول فقہ، احادیث، اصولِ حدیث
۳۔ حضرت مولانا ولایت علی سنبھلی استاذِ فقہ اصول فقہ، نحو، صرف، ابتدائی منطق
۴۔ حضرت مولاناعبدالرحمن پشاوری استاذِ حدیث ، فقہ، اصول فقہ، منطق و فلسفہ
۵۔ حضرت مولانا فخر الحسن مرادآبادی استاذِ اصول فقہ، نحو،صرف، منطق
۶۔ حضرت مولانا قاضی سجاد حسین کُرتپوری استاذِ نحو ، صرف، ادب، علمِ معانی، بلاغت
۷۔ حضرت مولانا عبدالقادر دہلوی علمِ فرائض کے معروف زمانہ استاذ
۸۔ حضرت مولانا اخلاق حسین دہلوی فنِ کتابت کے استاذِ خاص
۹۔ حضرت مولانا قاری حامد حسین دہلوی استاذِ علم تجوید و قرأۃ 
مدرسہ سعیدیہ، دارا نگر، بنارس: ۱۹۴۲؁ء میں مدرسہ عالیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد روح و قلب کو خالص سنتِ نبوی کی روشنی میں مجلّی ومنور کرنے کے شوق میں مدرسہ ’’ سعیدیہ‘‘ دارا نگر، بنارس وارد ہوئے ، یہاں تین سال رہ کر حضرت العلام مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی ؒ سے صحیحین اور آپ کے برادر خورد مولانا عبدالآخر سے سننِ اربعہ سبقاً سبقاً پڑھا۔ ان دونوں اصحاب الحدیث کے فضائل و مناقب پر روشنی ڈالنا ، مہر نیم روز کو چراغ دکھانے کے مرادف ہے۔ ان کے فضل و کمال پر صرف اتنا کہہ دینا ہے ؂
وما دام ذکر العبد بالفضل باقیاً 
فذلک حی، وہو فی التواب ہالک 
مدرسہ سعیدیہ دارا نگر سے سند فراغت حاصل کی۔ اور اس طرح سے علمِ حدیث میں ’’ مجمع البحرین ‘‘ ہو گئے۔ بفضلہ تعالیٰ مسائل کے استنباط میں صحاح ستہ کی حدیثیں نوکِ زبان پر رہتی تھیں اور رزمِ گاہ تنقید و تحقیق میں بجا طور پر کہہ سکتے ہیں ؂
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں 
جسے غُرور ہو آئے کرے شکار مجھے 
بنارس کے حوالے سے کہی گئی نظمیں اور غزلیں اِسی دور طالب علمی کی ہیں۔ 
اور نٹیل کالج دہلی: ۱۹۴۵؁ء میں سعیدیہ سے فارغ التحصیل ہوکر واپس دہلی آگئے اور اورنٹیل کالج میں داخلہ لیا ۔ ان دنوں مدرسہ عالیہ فتحپوری میں درس نظامیہ کا شعبہ شمالی حصہ میں اور جنوبی حصہ میں کالج کا شعبۂ عالیہ تھا جہاں سے پنجاب یو نیور سٹی لاہور کے امتحانات ہو تے تھے ۔ یہ شعبہ نواب زادہ لیاقت علی خاں ( سابق وزیر اعظم پاکستان) کا مرہون منت تھا۔ آپ اس کے صدر خاص تھے شمس العلماء جناب عبدالرحمن ( وزیر تعلیم ریاست رام پور) اور جناب عبدالوحید دہلوی اس شعبہ کے نگرانِ خصوصی تھے۔ 
کالج کے اساتذہ میں مولانا محبوب الٰہی دہلوی، مولانا سعید احمداکبر آبادی ، مولانا محمد ادریس دہلوی جیسی شہرۂ آفاق ہستیاں قابل ذکر ہیں ، یہاں سے ادیب فاضل ، منشی فاضل، ملا فاضل، کا کورس مکمل کیا اور فرسٹ ڈویژن میں کامیابی حاصل کی۔ سارے نقول و اسناد آج بھی محفوظ ہیں ۔ 
یہ دورعلم و آگہی کی بالیدگی کے اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل رہا۔ پہلے سفرِ دہلی میں محض 
کتابوں، درس گاہوں اور اساتذہ کی جھرمٹ میں گم رہے۔ برائے نام ہی ادبی مجالس ومحافل سے روابط و ضبط رہا ، وجہ ظاہر ہے کم عمری ، غریب الوطنی ، کم مائیگی و ناتجربہ کاری۔ چنانچہ بقول غالب مرحوم حال یہ تھا کہ ؂
چلتا ہوں تھوڑی دیر ہر اک راہ رَو کے ساتھ 
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں 
لیکن بنارس سے واپسی کے بعد دوسرے سفر دہلی میں شعور ی طور سے بیداری کا زمانہ تھا۔ پھر مذاقِ علم و ادب اور جستجوئے علم و آگہی، اربابِ علم و فن کی مجالس و محافل کا دَور دَورہ اور ان سے راہ و رسم نے بار آور ہونے کا خوب موقع فراہم کیا۔ 
اسی دور طالب علمی کا واقعہ ہے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء اور دہلی کی پنجابی برادری کی کمیٹی’’ پنجاب یوتھ لیگ‘‘ کے درمیان زبانِ اردو کو لے کر بیت گوئی کا مقابلہ ہوا۔ مقابلہ نیشنل پبلک لائبریری کشن گنج میں ہوا۔ اس کے منصف جناب جگر مراد آبادی بنائے گئے۔ مہمان خصوصی میں بہزاد لکھنوی اور دیگر شعراء تھے۔والد محترم نے بھی پنجاب یو تھ لیگ کی طرف سے اپنے آپ کو پیش کیا ، لیکن کم عمری اور غریب الوطنی کے باعث ٹیم میں شامل کرنے سے گریز کیا گیا۔ بمشکل تمام بارہ آنہ فیس دے کر شامل کئے گئے ۔ دونوں ٹیمیں ۱۲،۱۲ ؍ افراد پر مشتمل تھیں ۔ والد محترم نے اکیلے ہی پنجاب یو تھ کی طرف سے جامعہ ملیہ کی ٹیم کو شکست دی۔ پنجاب یوتھ لیگ کی ٹیم کے دیگر افراد صرف بیٹھے ان کا منہ تاکتے رہے۔ لب کشائی کی نوبت ہی نہ آئی۔ مقابلہ تقریباً تین گھنٹہ تک ہوا۔ آخری شعر جو فاتح ثابت ہوا تھا ناسخ کا تھا ؂
نامہ بَر مجھ کو بھی رکھ لے خط میں 
ہو گیا ہے تنِ لاغر کاغذ 
ذال کا جواب مقابل ٹیم نہ دے سکی اور انعام ’’پنجاب یوتھ لیگ‘‘ کو ملا۔ 
شاعری : مزاج شاعرانہ بچپن ہی سے تھا ۔ مدرسہ سراج العلوم بونڈھیار کے دورِ طالب علمی ہی میں فارسی منظومات کے زیادہ تر ابواب ازبر تھے۔ حالانکہ اس وقت عمر کل ۸؍سال کی تھی ، خوش الحانی ، شعر فہمی ور شعر گوئی کے جذبِ اندروں کی جولانی نے صاحبِ فن بننے کی طرف ہمت افزائی کی۔
دہلی جیسے اشہر البلاد شہر میں ، دارالحکومت کے باشندوں کے مہذب انداز ، علماء ربانین کا جھرمٹ ، تو پاس ہی تلامیذ الرحمن کا جمگھٹا، شاعری کا دور دورہ، ماہانہ مشاعروں اور بزموں کا ایک لا متناہی سلسلہ، پورا شہر اپنے دامن میں ملکی ، سیاسی ، مذہبی، اخلاقی، تہذیبی، ثقافتی، ادبی اور علمی اثرات سموئے ہوئے تھا۔ اُدباء و شعراء اپنے اپنے ناموں سے بزم کا انعقاد کرتے ہفتہ وار، ماہانہ ادبی مجالس و محافل منعقد کرتے۔ مصرعہ صرف دیئے جاتے اور اساتذہ اپنے شاگردوں کے کلام کی خود اصلاح فرمایا کر تے تھے۔دراز۱یٔ عمر کے ساتھ عقل وشعور میں جوں جوں پختگی آتی گئی انداز بدلتا گیا آخر میں اقبالیات سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ بعد کے کلام میں اقبالیات کی جھلک نمایاں ہے ۔ الفاظ کی بندش ، عقائد و رجحانات، رموز وکنایات، تخیلات و مشاہدات ، استعارات و کنایات ، اسالیب و علائم ، تمثیلات و تلمیحات اس بات کے شاہد عدل ہیں ۔ چنانچہ ’’دارالعلوم ‘‘ (فارسی) نعت ، حمد، بہ جمعیت اہل حدیث (فارسی) میں بجا طور سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ ۱۹۵۹؁ء میں انجمن تعلیمات ِ دین ضلع بستی کے تحت (زیر صدارت حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی) اجتماع عام میں ’’ اسلام اور زبان‘‘ کے عنوان سے جو طویل نظم پیش کی گئی تھی اس پر علی میاں نے تو بر جستہ’’ اقبال ثانی‘‘ کے خطاب سے نوازا تھا۔ 
گھریلو تعلیم و تربیت خالص سلفی مسلک پر ہوئی تھی نیز عقیدہ و مسلک فیصلہ کن مرحلہ پر مکمل ہو چکا تھا ، اسلئے دہلی جیسے مختلف مذاہب و مکاتب ِ فکر مرکز میں ہوتے ہوئے بھی عقیدہ و مسلک پر دوسرا رنگ بالکل ہی اثر انداز نہ ہو سکا ۔ علم و عمل ، عقیدہ و مسلک ، قرآن و سنت کے معیار پر جانچا پرکھا ہوا ۔ ہر قسم کے نقائص سے مبرّا۔ بحیثیت عالم و فاضل ، باعتبارِ شاعر و مصلح، بطور فلسفی و ادیب ہر گام پر رشتۂ قرآن و سنت ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ یہ اور بات ہے کہ ابتدائی غزلوں میں کم سنی اور اَلھڑپَن کی بنا پر فطرتاً شوخی اور رنگینی حسبِ ضرورت دیکھنے میں آتی ہے۔ 
تصنیفی خدمات: والد محترم کا کلام مخطوطات کی شکل میں تین مجموعوں پر مشتمل ہے پہلا مجموعہ کلام جس کا نام نو عمری کے زمانہ میں تخیلات اغلب رکھا تھا اس میں صرف ۹ سے ۱۶ سال کی عمر تک کے اشعار درج ہیں ۔ یہ مجموعہ مکمل طور سے غزلیات پر مشتمل ہے جس میں زیادہ تر دہلی کے ماہانہ ادبی مشاعروں و بزموں کی طرح مصرعوں پر کہی گئی غزلیں ہیں ۔
دوسرا مجموعہ دیوان ہاتف ہے اس دیوان میں سترہ سال کی عمر سے لیکر فارغ التحصیل ہونے تک کے کلام ہیں اس میں نظموں اور غزلوں کے صفحات تقریباً مساوی ہیں ۔ 
تیسرے مجموعہ کلام میں دور معلمی کے اشعار تھے جس میں فارسی ۱۹۰ اور اردو کی تقریباً ۱۵۵ غزلیں و نظمیں تھیں یہی مجموعہ درحقیقت سرمایۂ حیات اور خلاصہ خیالات تھا جو کہ صحیح معنوں میں کلام شاعر کہے جانے کا مستحق تھا لیکن افسوس کہ یہ مجموعہ دریائے راپتی کے سیلاب کی نذر ہوگیا دریائے راپتی نے ۱۹۷۳؁ء میں اتنی زبر دست تباہی مچائی کہ ہمارے موضع بیت نار کو اپنی گرفت میں لے لیا گھر میں گھٹنوں پانی بھر گیا چنانچہ احتیاط کے طور پر گھر کے کتب خانہ کو دوسرے سامان کے ساتھ محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا اسی انتقال مکانی میں یہ دیوان اِدھر ادھر رکھ رکھاؤ میں گم ہو گیا ، اس کے ساتھ کچھ مخطوطات و مقتبسات نام کے تھے جس میں دوران مطالعہ مختلف کتب کا حاصل مطالعہ مندرج تھا جو ترتیب و تہذیب کے بعد گرانقدر علمی مجموعہ ثابت ہوتا ، تلاش بسیار کے باوجود سوائے کف افسوس ملنے کے اور کچھ حاصل نہ ہوا۔ 
مسند تدریس و تبلیغ : دہلی سے واپسی کے بعد مختلف اداروں سے منسلک ہو کر تدریسی خدمات میں لگ گئے ساتھ ہی تبلیغی سلسلہ کو بھی جاری رکھا ان کی سب سے نمایاں ان کا انداز تکلم و تخاطب اور عوام کو سمجھانے کا سلیقہ ہے جس کی بدولت بے شمار گم کردہ راہوں کو راہ راست پر لانے میں کامیاب ہوئے ۔ 
تدریسی خدمات ایک نظر میں 
۱۹۴۸ ء - ۱۹۴۹ء مدرسہ سراج العلوم جھنڈانگر نیپال 
۱۹۴۹ء - ۱۹۵۴ء مدرسہ قاسم العلوم بڈھی خاص سدھارتھ نگر
۱۹۵۴ء - ۱۹۵۶ء مدرسہ زینت العلوم سمرہن کلاں بلرام پور
۱۹۵۶ء - ۱۹۵۸ء انجمن تعلیمات دین ضلع بستی 
۱۹۵۸ء - ۱۹۵۹ء تکمیل الطب کا کورس کر نے کیلئے لکھنؤ
۱۹۵۹ء - ۱۹۷۶ء مدرسہ فیض محمدی بسکوہر بازار سدھارتھ نگر
۱۹۷۶ء - ۱۹۷۸ء درسگاہ دارالہدیٰ گڑرہیا بلرام پور 
۱۹۷۸ء - ۱۹۷۹ء مدرسہ نصرۃ الاسلام شنکر نگر بلرام پور 
۱۹۷۹ء - ۱۹۸۰ء مدرسہ نور الہدیٰ اونرہوا بلرام پور 
۱۹۸۰ء - ۱۹۸۲ء درگاہ اسلامیہ جیتا پور بلرام پور 
۱۹۸۲ء - ۱۹۸۴ء مدرسہ اسلامیہ مڑلا سدھارتھ نگر 
۱۹۸۴ء - ۱۹۸۶ء مدرسہ فیض محمدی بسکوہر بازار سدھارتھ نگر 
۱۹۸۶ء - ۱۹۸۹ء دوبارہ مدرسہ اسلامیہ مڑلا سدھارتھ نگر 
؂ دائم شگفتہ باد ترا گلستاں عمر 
گل برگ ہستی تو، نہ بیند خزاں عمر
والسلام
خالد حنیف صدیقی فلاحی 
مقیم حال دہلی 

٭٭٭









0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔